دین نبی کریمﷺ پر مکمل ہو چکا ہے اب اس میں کسی بھی قسم کی کمی یا اضافے کی گنجائش نہیں ہے۔ لین افسوس کی بات یہ ہے کہ برصغیر کے مسلمان ہندؤوں کے ساتھ طویل عرصہ گزارنے کی وجہ سے ان کی بہت سی غیر شرعی رسومات کو اختیار کر چکے ہیں۔ اس پر نام نہاد ملاں اپنے پیٹ پلیٹ کی خاطر ان بدعات کو سند جواز عطا کرتے نظر آتے ہیں۔ اب حال یہ ہے کہ کسی شخص کے دنیا سے رخصت ہو جانے پر بھی رسومات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ انھی رسومات میں سے تیجہ، ساتواں، دسواں اور چہلم وغیرہ بھی ہیں۔ اس کتابچہ میں انھی رسومات کو ہدف تنقید بنایا گیا ہے۔(ع۔م)
اللہ تعالیٰ کے نزدیک فضل و شرف کا معیار ظاہری افعال و اعمال نہیں بلکہ ایمان کے حقائق ہیں۔ عمال کی فضیلت و برتری صاحب عمل کے دل کے اندر قائم دلیل و برہان کے تابع ہوتی ہے یہاں تک کہ دو عمل کرنے والے بظاہر ایک رتبہ دکھائی دیتے ہیں لیکن فضیلت و برتری اور وزن میں ان دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ قلب کی اصلاح و تزکیہ اور اسے آفات سے پاک رکھنے اور فضائل و خوبیوں سے آراستہ کرنے کی ضرورت پر زور دینے والی چیزوں میں سے یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نےاپنے بندوں سے اپنی نگاہ کا مرکز ان کے دلوں کو قرار دیا ہے۔ اس ضمن میں ماضی قریب کے جید عرب عالم دین شیخ محمد صالح المنجد نے ’سلسلہ اعمال القلوب‘ کے نام سے کتاب لکھی جس کا اردو ترجمہ ’دل کی اصلاح‘ اس وقت آپ کے سامنے ہے۔ اردو ترجمہ نہایت سلیس اور رواں ہے۔ کتاب کومتعدد عناوین میں تقسیم کرنے کے بعد دلوں کی صفائی پر نگارشات پیش کی گئی ہیں۔ ان عناوین میں اخلاص و للّٰہیت، توکل، محبت، خوف و خشیت، امید کی حقیقت، تقویٰ کی حقیقت، تسلیم و رضا، شکر گزاری، صبر و تحمل، ورع اور مشتبہات سے بچاؤ، غور و فکر اور نفس کا محاسبہ شامل ہیں۔ 750 سے زائد صفحات پر مشتمل اس کتاب میں ہر عنوان کے تحت الگ سے مقدمہ قائم کیا گیا ہے اور ہر بحث کا مکمل تعارف کروانے کے بعد اصل موضوع سے بحث کی گئی ہے۔ انسان کی تمام تر کامیابی کا دارو مدار اسی پر ہے کہ دنیا میں وہ اپنی اصلاح کر لے اور اپنے آپ کو آخرت کےلیےتیار کر لے۔ اس ضمن میں یہ کتاب نہایت مددگار ثابت ہو گی۔ (ع۔م)
مسلمانان اہل سنت کا مہدیؑ سے متعلق یہ عقیدہ ہے کہ وہ قیامت کے قریب پیدا ہوں گے، وہ سات سال تک حکومت کریں گے، روئے زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے، ان کے زمانہ ہی میں حضرت عیسیؑ کا نزول ہوگا۔ حضرت عیسیٰ آپ کی اقتدا میں نماز ادا کریں گے۔ امام مہدی ؑ حضرت عیسیٰ کے ساتھ مل کر دجال کا مقابلہ کریں گے اور اس کو قتل کریں گے۔ زیر نظر کتابچہ میں حضرت امام مہدی ؑ سے متعلق سب سے پہلے ان احادیث کو بیان کیا گیا ہے جن میں امام مہدی ؑ کا صراحت کے ساتھ تذکرہ ہے، اس کے بعد اس ضمن میں آثار کو جمع کیا گیا ہے اور پھر ان احادیث کو ذکر کیا گیا ہے جن میں امام مہدی ؑ کا تذکرہ تو موجود ہے لیکن صراحت کے ساتھ نہیں ہے۔ ان تمام احادیث و آثار پر صحت و ضعف کا حکم بھی لگایا گیا ہے۔ اس کے بعد امام مہدی کے اوصاف، مہدویت کے جھوٹے دعویداروں کو کیسے پہچانیں؟ کے عنوانات سے مواد موجود ہے اور آخر میں اختصار کے ساتھ چند دعویداران مہدویت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔کتابچہ کے مصنف عبدالہادی عبدالخالق مدنی نے کتابچہ کی تیاری میں شیخ عبدالعظیم بستوی کی کتاب ’الأحادیث الواردۃ فی المھدی فی میزان الجرح والتعدیل‘ سے مدد لی ہے۔(ع۔م)
اولیائے کرام اللہ تعالیٰ کے ایسے نیک بندے ہوتے ہیں جو ایمان و تقویٰ، پرہیزگاری اور اطاعت الٰہی سے مزین اور آراستہ ہوتے ہیں۔ اولیائے کرام کی کرامات برحق ہیں۔ سلف صالحین اور ائمہ دین و محدثین نے کبھی ان کا نکار نہیں کیا۔ البتہ کرامات اولیا کے نام پر ہر خشک و تر اور غث و سمین کو قبول نہیں کیا جا سکتا۔ زیر مطالعہ کتاب ’کرامات اولیاء‘ کے نام سے اسی لیے وجود میں لائی گئی ہے تاکہ اس حوالے سے پائے جانے والے افراط و تفریط اور غلط فہمیوں کا خاتمہ کیا جا سکے۔ جس میں کرامات اولیا کو برحق ثابت کیا گیا ہے اور اس حوالہ سے منکرین کرامات اور عقل پرستوں کی تردید کی گئی ہے۔ اہل حدیث اور سلفی حضرات پر منکر کرامات ہونے کی تہمت کے ازالہ کے ساتھ ساتھ رحمانی و شیطانی کرامات کے درمیان خط امتیاز کھینچنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ شعبدہ بازی اور کرامت میں فرق واضح کرنے کے لیے کرامات اولیا کے شرائط و ضوابط متعین کیے گئے ہیں۔ تسکین قلب کے لیے صحیح اور ثابت شدہ کرامات کے چند نمونے پیش کر دئیے گئے ہیں۔ کرامات اولیا کے حوالے سے اردو زبان میں بہت کم کام ہوا ہے مولانا عبدالہادی عبدالخالق شکریہ کے مستحق ہیں کہ انھوں نے اس سلسلہ میں کسی جانبداری کا مظاہرہ کیے بغیر مضمون کو مکمل کردیا ہے۔(ع۔م)
مرتد کی سزائے قتل کے معاملے میں آنحضرتﷺ کے زمانے سے لے کر عہد حاضرتک تمام ائمہ مجتہدین اور علمائے شریعت کا اتفاق رائے پایا جاتا ہے، لیکن ہمارے جدید تعلیم یافتہ طبقہ کا ایک مغرب زدہ گروہ احادیث نبوی، آثار صحابہ، ائمہ مجتہدین کی آرا اور چودہ سو سالہ تعامل کے علم الرغم مرتد کی سزائے قتل کو جائز نہیں سمجھتا۔ ایسے میں محترم ڈاکٹر تنزیل الرحمٰن نے زیر نظر کتاب لکھ کر اسلامی قانون میں ارتداد کی سزا سے متعلق کھل کر اظہار خیال کیا ہے۔ یہ کتاب اسلامی قانون میں مرتد کی سزا، مالی تصرفات پر پابندی، وصیت و میراث سے محرومی اور اس کی اولاد کے بارے میں متعلقہ احکام پر مشتمل ہے۔ اس میں سب سے پہلے ارتداد کے لغوی اور شرعی معنی کو قرآن، حدیث اور مستند کتب فقہ کی عبارتوں کے ذریعہ مشخص کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ارتداد کی شرائط ذکر کرنے کے بعد ارتداد کے اثرات اور نتائج سے بحث کی گئی ہے۔ یہ اثرات و نتائج مرتد کی ذات سے متعلق ہیں۔ موجودہ دور میں اہمیت کے اعتبار سے مرتد کی ذات سے متعلق احکام اور بالخصوص ’مرتد کی سزائے قتل‘ کے بارے میں مفصل گفتگو کی گئی ہے۔ مرتد کے بارے میں شرعی نقطہ نظر جاننے کے لیے اس کتاب کا مطالعہ بہت مفید ہے۔(ع۔م)
زیر نظر کتاب جامعہ ازہر اور جامعہ ام القریٰ کے استاد دکتور شعبان محمد اسماعیل کی کاوش ہے۔ جنھوں نے اس میں ایک منفرد اور دلکش اسلوب میں علم الرسم اور علم الضبط کی شرعی حیثیت کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے اور اہل علم کے مختلف مذاہب کوبیان کرنے کے بعد راجح مسلک کو واضح فرمایا ہے۔ کتاب چونکہ اردو دان طبقہ کے لیے بھی بہت زیادہ مفید تھی اس لیے محترم قاری محمد مصطفیٰ صاحب نے اس کو اردو قالب میں منتقل کیا ہے۔ کتاب میں مصحف قرآنی کے رسم و ضبط سے متعلق مباحث مثلاً عربی کتابت اور رسم عثمانی سے اس کا تعلق، جمع صدیقی، نسخ عثمانی، اسباب و منہج، مصاحف عثمانیہ کی سبعہ احرف پر مشتمل ہونے کی کیفیت، رسم عثمانی کی توقیفیت و عدم توقیفیت، ضبط قرآن کا مفہوم اور اسباب اور تقسیم مصحف وغیرہ پر مشتمل ہے اور اس میں دلائل کی روشنی میں رسم عثمانی و ضبط مصاحف کی شرعی حیثیت کو واضح کیا گیا ہے۔ حافظ صاحب کی اس سے قبل علم الضبط اور علم الرسم پر الگ الگ کتب زیور طباعت سے آراستہ ہو کر منظر عام پر آ چکی ہیں جن میں سے ہم ’علم الضبط‘ کتاب و سنت ڈاٹ کام پر پیش کر چکے ہیں اور ’علم الرسم‘ بھی عنقریب اپلوڈ کر دی جائے گی۔ زیر مطالعہ کتاب ان علوم کی شرعی حیثیت اور ان کی توقیفیت و عدم توقیفیت کے حوالے سے بنیادی مباحث کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔(ع۔م)
زیر نظر کتاب ’غائبانہ نماز جنازہ حدیث و تاریخ کی روشنی میں‘ مولانا احسان الحق شہباز کی تحریر ہے۔ جس میں انھوں نے احادیث رسولﷺ کے ساتھ ساتھ تاریخ اسلام کے ہر دو سے باقاعدہ دلائل کے ساتھ ثابت کیا ہے کہ غائبانہ جنازہ کا عمل ہر دور میں جاری و ساری رہا ہے اور عام جنازوں کے علاوہ شہداء کے غائبانہ جنازے بھی ہوئے ہیں۔ جبکہ اس کے مقابلہ میں بہت سے ایسے علما بھی ہیں جو غائبانہ نماز جنازہ کو جائز نہیں سمجھتے۔ اس موقف کے حامل علما کے دلائل کو دیکھتے ہوئے اس کتاب کے مندرجات سے اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ (ع۔م)
کسی بھی عمل کی قبولیت کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہ انسان کا عقیدہ درست ہو اور توحید باری تعالیٰ پر مکمل ایمان ہو۔ عمل صالح کے لیے دوسری شرط یہ ہے کہ وہ اخلاص کے ساتھ کیا جائے اور اس میں کسی قسم کی ریاکاری کا شائبہ نہ ہو۔ اور تیسری شرط یہ ہے کہ وہ مطابق سنت ہو۔ اعمال میں ان تینوں شروط میں سے اگر ایک شرط بھی مفقود ہو تو اللہ کے ہاں ایسے عمل کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور ایسا عمل رائیگاں بلکہ باعث وبال ہے۔ زیر نظر کتاب میں ابو عدنان محمد منیر قمر نواب الدین نے انھی تین شروط کو تفصیل کے ساتھ قلم زد کیا ہے۔ در اصل مصنف سعودی عرب کے ریڈیو میں مختلف موضوعات پر تسلسل کے ساتھ پروگرام کرتے رہے ہیں۔ ’عمل صالح کی پہچان‘ کے نام سے بھی آپ کا پروگرام نشر ہوتا رہا ہے۔ اس سے قبل ’قبولیت عمل کی شرائط‘ کے عنوان سے مصنف کی ایک ضخیم کتاب پاکستان اور ہندوستان سے شائع ہ چکی ہے۔ زیر نظر کتاب اسی مفصل کتاب کا اختصار اور خلاصہ ہے۔(ع۔م)
غیب کا علم اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی بھی غیب کا علم نہیں رکھتا۔ نہ فرشتے غیب جانتے ہیں، نہ جنات اور نہ ہی انسان غیب جانتے ہیں۔ انسانوں میں اللہ کے محبوب بندے انبیا اور اولیا بھی غیب نہیں جانتے۔ نبیوں کے سردار محمد رسول اللہﷺ بھی غیب نہیں جانتے تھے۔ یہ وہ مبرہن حقائق ہیں جو کتاب و سنت کے صفحات میں بے شمار دلائل کے ساتھ دوپہر کے سورج کی طرح عیاں اور روشن ہیں۔ لیکن پھر بھی بہت سے لوگ اس قدر واضح دلائل کے باوجود علم غیب کو اللہ کے علاوہ بہت سے لوگوں کی طرف منسوب کر دیتے ہیں۔ 31 صفحات پر مشتمل زیر نظر کتابچہ میں مولانا عبدالہادی عبدالخالق مدنی نے قرآن و سنت کے محکم دلائل کے ساتھ یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ علم غیب فقط اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے اور اللہ کے علاوہ کسی اور کی طرف اس کی نسبت کرنا گمراہی کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔(ع۔م)
حضور نبی کریمﷺ پر دین مکمل ہو چکا ہے اب اس میں کسی بھی اضافے یا کمی کی گنجائش نہیں ہے۔ کوئی بھی بطور دین کیا جانے والا ایسا کام جو حضور نبی کریمﷺ اور صحابہ کرام نے نہ کیا ہو بدعت کے زمرے میں آتا ہے۔ ایسا کام ثواب کے بجائے عقاب کا باعث بن جاتا ہے۔ لیکن آج ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے عاقبت نا اندیش علمائے کرام نہ صرف بدعات و خرافات کی ترویج میں لگے ہیں بلکہ ان پر بے شمار انعامات کا لالچ دے کر عوام الناس کے ایمان کےساتھ کھیل رہے ہیں۔ زیر نظر کتابچہ ’آئیے منے سے کچھ سیکھیں‘ اسی سلسلہ میں عوام کو ایسے ملاؤں کے چنگل سے چھڑانے کے لیے ترتیب دیا گیا ہے۔ کتابچہ میں ایک فرضی منا تصور کیا گیا ہے جو ہمارے معاشرے میں مروج بہت سی مشہور بدعات سے متعلق سوالات پیدا کرتا ہے اور پھر شرعی نصوص کے ساتھ ان پر بحث کرتا ہے۔ کتابچے کا اسلوب عام کتب دینیہ سے قدرے مختلف اور ہلکا پھلکا ہے۔ بہت سے ایسے مسلمان بھائی جو بہت سے بھاری بھرکم دلائل کے باوجود بدعات و خرافات کو چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہیں اور بہت سارے عام فہم اور اپنی سادگی کی وجہ سے بدعات میں جکڑے مسلمانوں کے لیے یہ کتابچہ ضرور مہیا کرنا چاہیے ۔ (ع۔م)
زیر نظر رسالہ میں طلاق ثلاثہ سے متعلق چند مفتیان احناف کی آرا پیش کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ مولانا محمد عبدالحلیم قاسمی کے تین خطوط شامل کیے گئے ہیں جو کہ نہایت سبق آموز ہیں۔ پہلا خط ہفت روزہ ’اہل حدیث‘ سے لیا گیا ہے۔ دوسرا ملتان کے حالات او ر اسی خط کا ذکر کر کے مولانا محترم کو لکھا گیا پہلا جواب پہنچتے کچھ تاخیر ہو گئی تو اگلا خط لکھ کر ارسال کر دیا گیا۔ مولانا نے فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بلا تامل دونوں خطوط کا جواب ارسال فرما دیا۔ (ع۔م)
بی بی عائشہ ؓ کے نکاح کے وقت ان کی عمر چھ سال ہونے پر قدیم زمانے سے تمام امت اسلامیہ کا اجماع رہا ہے اور صرف اس مغرب زدہ دور میں کچھ لوگ ایسے پیدا ہوئے ہیں جو ناموس رسالت اور ناموس صحابہ کی دہائی دےکر اس کو تسلیم کرنے سے انکار کرنا اور کروانا چاہتے ہیں تاکہ کسی طرح صحیح احادیث کے انکار کا دروازہ کھل جائے اور اگر ایک بار یہ دروازہ کھل گیا تو پھر خواہش پرست لوگ جس حدیث کو چاہیں گے قبول کریں گے اور جس کو چاہیں گے رد کر دیں گے اس طرح وہ دین کو موم کی ناک بنا کر جس طرح چاہیں موڑ سکیں گے۔ بی بی عائشہ ؓ کی عمر سے متعلق وارد تمام احادیث صحت کے اعلیٰ درجہ پر اور متواتر ہیں اس کے باوجود کچھ لوگ اس سلسلہ میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کی اپنی سی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ زیر نظر کتاب میں عطاء اللہ ڈیروی نے اس مسئلہ کو وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔(ع۔م)
یہ کتاب شیخ عبدالرحمٰن امین کی تالیف ’الرد الباہر فی مسئلۃ الحاضر والناظر‘ کا اردو ترجمہ ہے، اس کتاب کا موضوع یہ ہے کہ ’نبی کریمﷺ ہر جگہ حاضر ناظر نہیں ہیں۔‘ نہ آپ اپنی زندگی میں ہر جگہ حاضر و ناظر تھے اور نہ وفات کے بعد۔ یہ عقیدہ بعض بدعتی لوگوں کی ایجاد کردہ ہے جو سراسر ضلالت و گمراہی پر مبنی ہے۔اس کتابچہ میں بدعقیدہ اور بدعتی لوگوں کے دلائل کی حقیقت بے نقاب کی گئی ہے اور کتاب و سنت سے حق واضح کیا گیا ہے۔ ترجمہ میں حسب ضرورت کچھ اضافے کیے گئے ہیں اور بعض غیر اہم عبارات کا ترجمہ عمداً ترک کر دیا گیا ہے۔ نیز بعض عبارتوں میں مناسب تقدیم و تاخیر بھی کی گئی ہے۔(ع۔م)
رسول اللہﷺ کے فرمان کے مطابق گمراہی اور ضلالت سے بچنے کا واحد طریق کتاب اللہ اور سنت رسولﷺ کو مضبوطی سے تھامے رکھنا ہے۔ لیکن جب اہل اسلام کے ایک بہت بڑے حصہ نے اس حوالے سے سستی کا مظاہرہ کیا تو سیدھے اور سچے راستے کو کھو بیٹھے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بدعت کو سنت کے مقابلے جلدی قبول کیا جاتا ہے بلکہ بدعات و خرافات مسلمانوں کی زندگی کا جزو لازم بن کر رہ گئی ہیں۔ ایسے میں سنت رسول کا دامن تھامنا اور سنن رسول کا زندہ کرنا از حد ضروری ہے۔ چونکہ بدعات کا ظہور رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد جلد ہی ہونے لگا تھا اس لیے علمائے سلف اس حوالہ سے متعدد صورتوں میں اقدامات کرتے رہے ہیں۔ محمد بن نصر مروزی نے اس موضوع پر ایک متہم بالشان کتاب ’السنۃ‘ کے نام سے تالیف کی جس نے صدیوں بعد آج بھی امام صاحب کو علمی حلقوں میں زندہ رکھا ہوا ہے۔ کتاب میں اس صافی منہج اور صحیح عقیدہ کی پہچان کرائی گئی ہے جس کو نبی کریمﷺ اور صحابہ کرام نے اپنائے رکھا۔ کتاب کا بامحاورہ، سلیس اردو ترجمہ ابو ذر محمد زکریا نے کیا ہے۔ تخریج ونظرثانی حامد محمود الخضری اور حافظ سلیم اختر ہلالی اور فوائد لکھنے کے فرائض عمران ناصر نے ادا کیے ہیں۔(ع۔م)
پاسورڈ
نواسہ رسول ﷺ کی شہادت ایک عظیم سانحہ ہے جس کی مذمت بہرآئینہ ضروری ہے۔ لیکن اس بنیاد پر ماتم، سینہ کوبی اور سب و شتم کا بازار گرم کرنے کی بھی کسی طور تائید نہیں کی جا سکتی۔ زیر نظر کتاب میں مولانا عتیق الرحمٰن سنبھلی نے غیر جانبداری سے سانحہ کربلا پربالدلائل اپنی قیمتی آراء کا اظہار کیا ہے اور اس کا مکمل پس منظر تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ مکمل کتاب 12 ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلا باب شہادت عثمان ؓ، خانہ جنگی، صلح حسین ؓپر ہے۔ ایک باب یزید کی ولی عہدی کی تجویز اور حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓکے عنوان سے ہے جس میں یزید کی ولی عہدی سے متعلق کھل کر بحث کی گئی ہے۔ باب دہم میں واقعہ کربلا کی مکمل سرگزشت بیان کی گئی ہے۔ جبکہ اس سے اگلے باب میں شہادت کے بعد کی کہانی کو کسی لگی لپٹی کے بغیر بیان کیا گیا ہے۔مولانا نے یزید پر سب و شتم کے مسئلہ کو بھی بڑے احسن انداز سے قلم زد کیا ہے اور ثابت کیا ہے کہ شہادت حسین ؓمیں یزید کسی بھی حوالے سے ملوث نہیں تھے۔ فاضل مؤلف نے نہایت عرق ریزی کے ساتھ سانحہ کربلا کے اسباب سے نقاب کشائی کرنے کے ساتھ ساتھ واقعات شہادت میں مبالغہ آمیزی کی بھی قلعی کھولی ہے۔(ع۔م)
نکاح کرنا نبی کریمﷺ کی سنت ہے۔ نکاح کے بعد میاں بیوی کا مخصوص تعلقات قائم کرنا ایک فطری امر ہے۔ شریعت مطہرہ میں اس ضمن میں بھی بہت سی جامع تعلیمات و احکامات موجود ہیں۔ زیر نظر کتابچہ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے شادی کی پہلی رات سے متعلق ہے جس میں شادی کی پہلی رات میاں بیوی کی رہنمائی کے لیے کھلے انداز میں گفتگو کی گئی ہے۔ کتابچہ کے مصنف عبدالہادی عبدالخالق کی یہ کوشش اس بناء پر بہت خوش آئند ہے کہ انہوں نے ایک ایسے موضوع پر قلم اٹھا کر لوگوں کیلئے کتاب و سنت کی رہنمائی مہیا کی ہے جس پر لاتعداد مخرب الاخلاق کتابچے، رسائل و جرائد اور مضامین زیر گردش ہیں۔ مصنف نے اس نازک موضوع پر ایسی پاکیزہ اور اعلٰی معلومات بہم پہنچائی ہیں جن کی بنیاد اللہ تعالیٰ کا مقدس کلام اور رسول رحمت ﷺ کی زبان اطہر سے نکلے ہوئے محبوب ترین الفاظ ہیں۔ یہ کتاب اس لحاظ سے بھی انتہائی مفید ہے کہ شادی کرنے والے نوجوان اس سے مناسب رہنمائی لے سکتے ہیں کیونکہ ہمارے برصغیر میں ایسے مسائل کے متعلق سوال کرتے ہوئے عموماً لوگ جھجک محسوس کرتے ہیں۔(ع۔م)
دیگر علوم کی با نسبت حقوق و آداب کے علم کی اہمیت و ضرورت بہت زیادہ ہے، کیونکہ اسی سےمعلوم ہوتا ہے کہ بندہ اپنے رب کے ساتھ کیسا معاملہ کرے اور اپنے والدین کے ساتھ کیا طرز عمل اختیار کرے، نیز دیگر صغیر و کبیر کے ساتھ کیا رویہ اپنائے؟تمام آداب سب کے حقوق جان کر ہی ادا کیے جا سکتے ہیں۔ اسلام کی شمولیت اس بات کی متقاضی ہے کہ ایسا اہم علمی باب بیان سے تشنہ نہ رہے، چنانچہ کتاب و سنت میں حقوق و آداب کی بڑی تفصیل آئی ہے اور علمائے کرام نے اس موضوع پر مستقل تصنیفات کی ہیں۔ مولانا عبدالہادی عبدالخالق نے بھی اس نیک کام میں زیر نظر کتابچہ کی صورت میں اپنا حصہ ڈالا ہے اور ایک نئے اسلوب اور نئے طرز و انداز سے حقوق و آداب کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ ابتدا میں موضوع سے متعلق چند تمہیدی کلمات لکھے گئے ہیں پھر واجبات و مستحبات کو اختیار کرنے اور اس کے بعد مکروہات و محرمات کو چھوڑ دینے کی دعوت دی گئی ہے۔ اختصار کی خاطر دلائل ذکر کیے بغیر صرف مسائل کو نقاط کی صورت میں پیش کرنے پر اکتفا کیا گیا ہے۔(ع۔م)
یہ ایک حقیقت ہے کہ قوموں کے بگاڑ میں دینی رہنما، احبار و رہبان ہی مؤثر کردار ادا کرتے رہے ہیں ۔ یہ جب دنیا کی طرف مائل اور شیطان کے دام فریب کا شکار ہو جاتے ہیں تو بالآخر اسی کے آلہ کار بن جاتے ہیں۔ افسوس کہ کچھ بدنصیب انسان اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی عقل و دانش کو پس پشت ڈال کر ان پیشہ ور مولویوں اور پیروں کے مقلد بن کر رہ جاتے ہیں اور وہ ان کواپنے جال میں ایسا جکڑ لیتے ہیں کہ ان کی قوت مزاحمت ختم ہو جاتی ہے اور اپنے اکابرین کی ہر بات کو بے چون و چرا تسلیم کرتے چلے جاتے ہیں۔ ’تبلیغی جماعت‘ عرصہ دراز سے ملک پاکستان کے طول و عرض میں تبلیغ دین کا کام کر رہی ہے۔ اس جماعت کی تبلیغ کا ایک لازمی حصہ مشہور زمانہ کتاب ’فضائل اعمال‘ ہے جو تبلیغی نصاب کے نام سے جانی جاتی ہے۔ زیر تبصرہ کتاب میں مولانا محمد زکریا کی تصنیف کردہ اس کتاب کا قرآن و سنت کی روشنی میں جائزہ لیا گیا ہے۔ مصنف کتاب کے شروع میں تبلیغی جماعت کی فضائل کی کتابوں پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’اب ان فضائل کی کتابوں کا ذرا تحقیقی جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ ان میں بیان کردہ بے شمار من گھڑت واقعات آیات قرآنی اور احادیث صحیحہ سے متصادم بلکہ ان کے ساتھ صرح مذاق ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ واقعات، اکابرین کے اقوال اور صوفیوں کے ملفوظات تو اصلاح کے بجائے لوگوں کے عقائد بگاڑنے میں مہمیز کا کام کر رہے ہیں۔‘‘ مصنف کا یہ دعویٰ کس حد تک درست ہے اس کا صحیح اندازہ قارئین کو اس کتاب کا مطالعہ کرنے کے بعد ہو جائے گا۔(ع۔م)
عام زندگی میں ہر انسان کو خوابوں سے واسطہ رہتا ہے جہاں انسان اچھا خواب دیکھ کر خوش ہوتا ہے وہیں برا خواب دیکھ کر پریشان بھی ہو جاتا ہے۔ خوابوں سے متعلق مناسب شرعی رہنمائی نہ ہونے کی وجہ سے بہت سارے لوگ فقط نیند میں نظر آنے والے واقعات پر کچھ غیر شرعی افعال سرانجام دینے لگتے ہیں۔ بہر حال شریعت مطہرہ نے اس سلسلہ میں بھی انسان کی کامل رہنمائی فرمائی ہے۔ علمائے امت نے دیگر فنون کی طرح اس فن کی بھی حفاظت کی اور اس فن میں بھی بہت سی کتب تصنیف فرمائیں جن میں شیخ عبدالغنی بن اسماعیل نابلسیؒ کی مشہور زمانہ کتاب ’تعطیر الأنام فی تعبیر المنام‘ کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ اسی کتاب کا اردو قالب اس وقت آپ کے سامنے ہے۔ ترجمہ کرتے ہوئے اس بات کو خاص طور پر مد نظر رکھا گیا ہے کہ ترجمہ سلیس اور بامحاورہ تو ہو لیکن مفہوم سے یک سرمو انحراف نہ ہو۔ کتاب کی فہرست میں عنوانات کا اردو ترجمہ تحریر کیا گیا ہے اورحروف تہجی کے اعتبار سے انھیں رقم کیا گیا ہے جس کی وجہ سے کسی بھی خواب کی تعبیر آسانی سے تلاش کی جا سکتی ہے۔ یاد رہے کہ یہ ترجمہ اصل کتاب کا کیا گیا ہے نہ کہ معروف مصطفیٰ زریق صاحب کی تلخیص کا، جو کہ لوگوں میں اصل کتاب کے طور پر متعارف ہے۔ خوابوں کے حوالے سے یہ بات ذہن میں رہے کہ ہر قسم کے خواب کی تعبیر نہیں ہوتی۔ کتاب کےمقدمہ میں بھی مصنف نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے اور ایسے خواب جن کی تعبیر نہ ہو ان کی سات قسمیں بیان کی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ تمام خوابوں میں صحیح ترین خواب بشریٰ ہیں جو طبیعت میں سکون، لباس، پوشاک اور خوراک کے معیاری ہونے اور صحت مند ہونے کی صورت میں دیکھے جاتے ہیں یہ خواب اکثر سچے ہوتے ہیں اضغاث کم ہوتے ہیں۔ایسے خوابوں کی انھوں نے پانچ قسمیں بیان کی ہیں۔اس کے علاوہ خواب سمجھے بغیر تعبیر بیان کر دینا بھی بہت خطرناک ہے۔خوابوں کے تعبیر کرنے کے کچھ اصول ہیں ان اصولوں سے آگاہی کے بغیر تعبیر شروع کر دینا بھی دست نہیں ہے۔ کتاب میں تعبیر سے متعلقہ تمام تر چیزوں کی وضاحت کر دی گئی ہے۔(ع۔م)
عام زندگی میں ہر انسان کو خوابوں سے واسطہ رہتا ہے جہاں انسان اچھا خواب دیکھ کر خوش ہوتا ہے وہیں برا خواب دیکھ کر پریشان بھی ہو جاتا ہے۔ خوابوں سے متعلق مناسب شرعی رہنمائی نہ ہونے کی وجہ سے بہت سارے لوگ فقط نیند میں نظر آنے والے واقعات پر کچھ غیر شرعی افعال سرانجام دینے لگتے ہیں۔ بہر حال شریعت مطہرہ نے اس سلسلہ میں بھی انسان کی کامل رہنمائی فرمائی ہے۔ علمائے امت نے دیگر فنون کی طرح اس فن کی بھی حفاظت کی اور اس فن میں بھی بہت سی کتب تصنیف فرمائیں جن میں شیخ عبدالغنی بن اسماعیل نابلسیؒ کی مشہور زمانہ کتاب ’تعطیر الأنام فی تعبیر المنام‘ کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ اسی کتاب کا اردو قالب اس وقت آپ کے سامنے ہے۔ ترجمہ کرتے ہوئے اس بات کو خاص طور پر مد نظر رکھا گیا ہے کہ ترجمہ سلیس اور بامحاورہ تو ہو لیکن مفہوم سے یک سرمو انحراف نہ ہو۔ کتاب کی فہرست میں عنوانات کا اردو ترجمہ تحریر کیا گیا ہے اورحروف تہجی کے اعتبار سے انھیں رقم کیا گیا ہے جس کی وجہ سے کسی بھی خواب کی تعبیر آسانی سے تلاش کی جا سکتی ہے۔ یاد رہے کہ یہ ترجمہ اصل کتاب کا کیا گیا ہے نہ کہ معروف مصطفیٰ زریق صاحب کی تلخیص کا، جو کہ لوگوں میں اصل کتاب کے طور پر متعارف ہے۔ خوابوں کے حوالے سے یہ بات ذہن میں رہے کہ ہر قسم کے خواب کی تعبیر نہیں ہوتی۔ کتاب کےمقدمہ میں بھی مصنف نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے اور ایسے خواب جن کی تعبیر نہ ہو ان کی سات قسمیں بیان کی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ تمام خوابوں میں صحیح ترین خواب بشریٰ ہیں جو طبیعت میں سکون، لباس، پوشاک اور خوراک کے معیاری ہونے اور صحت مند ہونے کی صورت میں دیکھے جاتے ہیں یہ خواب اکثر سچے ہوتے ہیں اضغاث کم ہوتے ہیں۔ایسے خوابوں کی انھوں نے پانچ قسمیں بیان کی ہیں۔اس کے علاوہ خواب سمجھے بغیر تعبیر بیان کر دینا بھی بہت خطرناک ہے۔خوابوں کے تعبیر کرنے کے کچھ اصول ہیں ان اصولوں سے آگاہی کے بغیر تعبیر شروع کر دینا بھی دست نہیں ہے۔ کتاب میں تعبیر سے متعلقہ تمام تر چیزوں کی وضاحت کر دی گئی ہے۔(ع۔م)
قرآن مجید پڑھنا پڑھانا بہت افضل عمل ہے، انتہائی سعادت مند اور خوش نصیب وہ حضرات ہوتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ اپنے دین کی خدمت پر مامور فرما دیتے ہیں۔ خواہ وہ تدریساً ہوں یا تصنیفاً، اس سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے قاری عبدالرحمٰن صاحب مہتمم جامعہ رحمانیہ ناصر روڈ، سیالکوٹ، نے قرآن کریم کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے اپنے تدریسی تجربہ کی روشنی میں عام فہم انداز میں بنام ’اقرا قاعدہ‘ مرتب کیا ہے، قاعدہ کے آخر میں مزید دینی معلومات کو شامل کیا گیا ہے۔ اساتذہ اگر محنت سے پڑھائیں گے تو پڑھنے والے ان شاء اللہ قرآن کریم کو کافی حد تک صحیح پڑھنے کی مہارت حاصل کر لیں گے اور بہت سارے فوائد سے مستفید ہوں گے۔(ع۔م)
قارئین کتاب و سنت ڈاٹ کام کی سہولت کے لیے ادارہ نے نصابی کتب بھی کتاب و سنت ڈاٹ کام پر ڈائنلوڈ کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ یہ کتاب بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ یہ کتاب ’اسلامیات لازمی‘ بی اے، بی ایس سی اور بی کام کی کلاسز کے لیے پنجاب یونیورسٹی کے جدید نصاب کے مطابق ترتیب دی گئی ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد خلیل صاحب نے اس کتاب کو مرتب کیا ہے جو کہ گورنمنٹ اسلامیہ کالج سول لائنز لاہور کے وائس پرنسپل ہیں۔ کتاب کو پانچ ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلا باب قرآن کریم سے متعلقہ ہے۔ دوسرے باب میں حدیث سے متعلقہ مباحث پیش کی گئی ہیں۔ باب سوم سیرت النبی پر مشتمل ہے۔ چوتھے باب میں اسلامی تہذیب و ثقافت کے ضمن میں مختلف مباحث پر بات کی گئی ہے۔ پانچواں اور آخری باب معروضی سوالات پر مشتمل ہے۔ جس کے دس نمبر ہیں۔ کتاب کے آخر میں پچھلے سالوں کے کچھ پرچہ جات بھی دئیے گئے ہیں۔(ع۔م)
’’او میری امت کے جوانان رعنا، او میری قوم کے سپوتو! اٹھو آج تمھارے مسلک اور تمھاری جماعت کو تمھاری ضرورت ہے۔ کس کے لیے؟ حق کی علمبرداری کے لیے! ملک میں کتاب و سنت کی عملداری کے لیے! ملک میں کتاب و سنت کی علمداری کے لیے! شرک و گمراہی کو مٹانے کے لیے اور کتاب و سنت کو پھیلانے کے لیے! اور ان شاء اللہ! وہ دن آنے والا ہے، جب پاکستان کی فضاؤں میں پرچم لہرا ئے گا تو کتاب اللہ کا لہرائے گا اور سنت رسول اللہ کا لہرائے گا.... اور اس دن کو طلوع ہونے سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔‘‘ یہ اس شخصیت کے الفاظ ہیں جس نے پاکستان میں اہل حدیث میں نئی روح پھونکی۔ جس کو اللہ تعالیٰ نے خطابت کا ایسا ملکہ عطا کیا کہ آغا شورش کاشمیری نے ان کی ایک تقریر سن کر کہا ’’احسان الٰہی اگر تم آئندہ سے خطابت چھوڑ دو تو تمھاری صرف اس ایک تقریر سے تمھیں برصغیر پاک و ہند کے چند بڑے خطیبوں میں شمار کیا جائے گا۔‘‘ علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید 31 مئی 1945ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے ۔ اور اسلام کا یہ فرزند 23 مارچ 1987ء میں بم دھماکے میں زخمی ہونے کے بعد 30 مارچ 1987ء کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔ زیر نظر کتاب اسی بطل جلیل کے خطبات پر مشتمل ہے جو انھوں نے مختلف مواقعوں پر دئیے۔ ان خطبات میں اسلام کیا ہے؟، اہل حدیث کی دعوت، حضرت ابوبکر صدیق ؓایک متفق علیہ شخصیت، سیرت عمر فاروق، واقعہ کربلا۔ پس منظر، فرقہ واریت کا خاتمہ، حقوق العباد کی اہمیت، علما اور طلبا سے خطاب اور مولانا آخری خطبہ وغیرہ شامل ہیں۔ یہ خطبات جہاں لوگوں کے عقائد و اخلاق سنوارنے کا سبب بنیں گے وہیں ان خطبات سے اصحاب رسول کی تنقیص کرنے والوں کے مقابلہ کے لیے لوگوں کو ایسے حقائق کا علم ہوگا جس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔ یہ کتاب خطبا مقررین اور عوام و خواص کے لیے یکساں مفید ہے۔(ع۔م)
آج مسلم معاشرہ میں عقیدہ و عمل کی تباہی اور اخلاقی زبوں حالی تمام تر حدود و قیود تجاوز کر رہی ہے۔ ہر طرف بے حیائی، معاصی و منکرات، بے راہ روی، خلفشار اور انارکی عام ہے۔ اسلامی اخلاق و رویے روبہ زوال ہے۔ جبکہ قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں جا بجا اسلامی اخلاق و آداب اپنانے، اللہ سے ڈرنے اور آخرت کو یاد رکھنے کی نہایت تاکید اور تلقین فرمائی گئی ہے۔ محترم عبداللہ دانش نے امر بالمعروف و نہی عن المنکر ایسا عظیم فریضہ ادا فرماتے ہوئے معاشرتی اور سماجی برائیوں اور بیماریوں کی نشاندہی کرتے ہوئے ایک جامع، مفید اور اصلاحی بیڑہ اٹھایا ہے۔ ’مقالات دانش‘ عمومی زندگی میں درپیش مشکلات و مسائل اور ان کے حل پر مبنی ایک انتہائی جامع اور خوبصورت کاوش ہے جو عوام و خواص سب کے لیے یکساں مفید ہے۔ کتاب میں موضوع کی مناسبت سے عربی اشعار کا بڑا جاندار اور برمحل استعمال اور استدلال کیا گیا ہے۔ جو نفس مضمون کو اور بھی چار چاند لگا دیتا ہے۔ اسی لیے عربی اشعار کا حتی الامکان لفظی قید سے بالا تر ہو کر آسان فہم اور سلیس اردو ترجمہ کر دیا گیا ہے۔ ’مقالات دانش‘ کے مطالعہ سے معاشرتی، معاشی، سماجی اور اخلاقی اصلاح کے ساتھ ساتھ اللہ کے سامنے جواب دہی کا احساس اجاگرہوگا اور انسان اپنی دینی، دنیاوی اور اخلاقی اصلاح کے ساتھ ساتھ اخروی زندگی کو کامیاب بنانے کا آرزو مند بھی ہوگا۔(ع۔م)
کتاب و سنت کے نصوص سے ثابت ہے کہ دعوت دینا فرض ہے اور حسبِ استطاعت ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے۔ عصر حاضر میں دین حق کی دعوت کی اہمیت اس وجہ سے بہت بڑھ جاتی ہے کہ تمام گمراہیوں کی دعوت ہر طرف زوروں پر ہے۔ نصرانیت اپنے طور پر اپنی دعوت میں لگی ہوئی ہے۔ منکرین رسالت و آخرت، ملحدین، کمیونزم و شوشلزم اور دیگر منحرف افکار و عقائد کے لوگ اپنی اپنی دعوت پھیلانے میں سرگرم عمل ہیں۔ ایسے حالات میں ضروری ہے کہ ہر مسلمان اپنی دعوت استطاعت بھر دعوت کے کام کو آگے بڑھائے۔ زیر نظر مختصر سا رسالہ اسی لیے ترتیب دیا گیا ہے کہ اہل اسلام کو دعوت کے اصول و مبادی سے آگاہ کیا جائے تاکہ ان کی دعوت میں وہ ہمہ گیریت پیدا ہو جو پورے جہان کو اپنی آغوش میں لے لے۔ مولانا عبدالہادی عبدالخالق اس رسالے کے مصنف ہیں جنھوں نے سب سے پہلے دعوت کا شرعی حکم بیان کرتے ہوئے دعوت کے فضائل پر روشنی ڈالی ہے اس کے علاوہ اسالیب دعوت اور داعی کے اخلاق و اوصاف جیسے مضامین پر عام فہم انداز میں بات کی ہے۔(ع۔م)