جمع حفاظت قرآن مجید کے بعد احادیث نبویہ اور سنن رسول اللہﷺ کے جمع و ضبط، حفاظت و صیانت پر جن احوال و ظروف اور ارشادات خاتم الانبیا نے صحابہ کرام اور تابعین عظام کو آمادہ کیا ہے ان میں ان بشارتوں کا بھی ایک خاص مقام ہے جن کی وجہ سے علمائے امت کےلیے صحرائے احادیث کے سنگ پاروں اور بحر آثار کے قطروں کو محفوظ کرنا ایک اہم علمی وظیفہ اور دینی خدمت بن گیا۔ نبی کریمﷺ نے چالیس حدیثوں کے حفظ و نقل پر جو عظیم بشارت دی ہے ا سکے پیش نظر خیر القرون سے اب تک بے شمار لوگوں نے حدیث کی حفاظت کی اور زبانی یا تحریری طریقہ سے دوسروں تک پہنچانے کا اہتمام کیا۔ صاحب کشف الظنون علامہ مصطفٰی بن عبداللہ معروف بکاتب چلپی نے حضرت عبداللہ بن مبارک سے اپنے زمانے کے مشاہیرعلما میں سے تقریباً 75 علما کی 90 سے زائد اربعینات کا تذکرہ کیا ہے۔ حافظ ابراہیم میرسیالکوٹی کسی تعارف کےمحتاج نہیں ہیں انھوں نے بھی ’اربعین ابراہیمی‘ کے نام سے چالیس احادیث جمع کیں۔ مولانا محمد علی جانباز نے ان چالیس احادیث کی مختصر شرح کر دی جس کے بعد یہ کتاب افادہ قارئین کے لیے حاضر ہے۔(ع۔م)
افراد سے خاندان تشکیل پاتا ہے اور خاندانوں سے معاشرہ وجود میں آتا ہے۔ ایک اسلامی معاشرے کے قیام کے لیے اسلامی خاندانوں کا وجود بنیادی حیثیت کا حامل ہے۔ اسلامی خاندانی نظام کے تحت شریعت نے خاندان کے سربراہ کو اپنے ماتحت افراد کا نگران مقرر کیا ہے۔ حقوق و فرائض کی ادائیگی اور اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہوتے ہوئے کئی قسم کی پیچیدگیاں اور مشکلات جنم لیتی ہیں جس کا حل شریعت نے بہت احسن انداز میں پیش کیا ہے لیکن بدقسمتی سے بہت سے لوگ شرعی تعلیمات سے آگاہی نہ رکھنے کی وجہ سے افراد خانہ کی رہنمائی سے قاصر رہتے ہیں۔ زیر نظر کتاب ’مسلمان خاندان اسلام کی آغوش میں‘ میں یہی سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ایک اسلامی خاندان کس طرح شریعت سے رہنمائی حاصل کر کے کامیابی کے زینے پر قدم رکھ سکتا ہے اور خاندان کا سربراہ کیسے خاندان کی تربیت اور اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہو سکتا ہے؟ یہ کتاب عرب و عجم کے جید علمائے کرام کے خاندانی نظام پر دئیے گئے فتاویٰ جات پر مشتمل ہے۔ عربی فتاویٰ جات کا سلیس اردو ترجمہ اور ان کو ترتیب مولانا اختر صدیق صاحب نے دیا ہے۔ اس میں نکاح کی شروط، اولاد کی تربیت، میاں بیوی کے حقوق، والدین کی خدمت و اطاعت، خاندانی مشکلات، طلاق، خلع، عدت وغیرہ سے متعلق فتاوی جات جمع کیے گئے ہیں۔ بعض قدیم فتاویٰ جات مثلاً فتاویٰ ثنائیہ، فتاویٰ نذیریہ سے بھی بعض فتاویٰ شامل کتاب کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ اس کتاب کا بڑا حصہ ایسے فتاوی جات پر مشتمل ہے جو ہفت روزہ ’غزوہ‘ اور ’جرار‘ میں قسط وار طبع ہوتے رہے ہیں۔(ع۔م)
’اصلاح عقیدہ‘ فضیلۃ الشیخ محمد بن جمیل زینو کا چھوٹا سا پمفلٹ ہے جو سوال و جواب کی صورت میں مرتب کیا گیا ہے اس میں عقیدہ توحید کی اہمیت اور شرک و بدعات کی تباہ کاریوں کو واضح کیا گیا ہے۔ ہر سوال کے جواب میں قرآنی آیات اور رسول اللہﷺ کی احادیث پیش کی گئی ہیں۔ اس پمفلٹ کا ترجمہ جناب طاہر نقاش نے کیا ہے۔ ترجمہ عام فہم اور سلیس ہے۔ طاہر نقاش صاحب نے اس پمفلٹ میں جہاں مشکل اصطلاحات تھیں ان کی آسان پیرائے میں تشریح کر دی ہے۔ کتابچہ کو متداول تراجم کو مدنظر رکھتے ہوئے آسان فہم بنانے کی کوشش کی گئی ہے اور بعض جگہ مفہوم سمجھانے کے لیے فٹ
جمع حفاظت قرآن مجید کے بعد احادیث نبویہ اور سنن رسول اللہﷺ کے جمع و ضبط، حفاظت و صیانت پر جن احوال و ظروف اور ارشادات خاتم الانبیا نے صحابہ کرام اور تابعین عظام کو آمادہ کیا ہے ان میں ان بشارتوں کا بھی ایک خاص مقام ہے جن کی وجہ سے علمائے امت کےلیے صحرائے احادیث کے سنگ پاروں اور بحر آثار کے قطروں کو محفوظ کرنا ایک اہم علمی وظیفہ اور دینی خدمت بن گیا۔ نبی کریمﷺ نے چالیس حدیثوں کے حفظ و نقل پر جو عظیم بشارت دی ہے ا سکے پیش نظر خیر القرون سے اب تک بے شمار لوگوں نے حدیث کی حفاظت کی اور زبانی یا تحریری طریقہ سے دوسروں تک پہنچانے کا اہتمام کیا۔ صاحب کشف الظنون علامہ مصطفٰی بن عبداللہ معروف بکاتب چلپی نے حضرت عبداللہ بن مبارک سے اپنے زمانے کے مشاہیرعلما میں سے تقریباً 75 علما کی 90 سے زائد اربعینات کا تذکرہ کیا ہے۔ شیخ الاسلام ثناء اللہ امر تسری کسی تعارف کےمحتاج نہیں ہیں انھوں نے بھی ’اربعین ثنائی‘ کے نام سے چالیس احادیث جمع کیں۔ مولانا محمد علی جانباز نے ان چالیس احادیث کی مختصر شرح کر دی جس کے بعد یہ کتاب افادہ قارئین کے لیے حاضر ہے۔(ع۔م)
ہمارے ہاں عموماً یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ قرآن مجید چونکہ عربی زبان میں ہے اور ہم عربی زبان سے ناواقف ہیں لہٰذا ہمارے لیے اس کےمعنیٰ و مفہوم کو جاننا ممکن نہیں ہے۔ جبکہ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ قرآن مجید کو سمجھنا صرف علما کا کام ہے۔ پروفیسر عبدالرحمٰن طاہر نے ’مفتاح القرآن‘ اور ’مصباح القرآن‘ کے ذریعے قرآن فہمی کا ایک جدید طریقہ متعارف کرایا۔ ’مفتاح‘ اور ’مصباح‘ کےاس جدید نظام کو طلبہ کے ذہنوں میں مزید پختہ کرنے کے لیے اب ’تمرین القرآن‘ کے نام سے زیر نظر ’ورک بک‘ پیش کی جا رہی ہے ۔ جس کی بدولت Vocabulary میں اضافے کے ساتھ علامات بھی ذہن نشین ہو جائیں گی۔ اس ’ورک بک‘ میں دو رنگوں کا استعمال کیا گیاہے نیلا رنگ علامات کو نمایاں کرنے یا سوال میں مطلوبہ لفظ کے ساتھ زائد اجزا کو الگ کرنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے تاکہ مطلوبہ لفظ نمایاں ہو جائے۔ اس سے طلبہ کو ترجمہ قرآن سیکھنے کی عملی مشق ہوگی وہیں ان کے معاملات، اخلاق و کردار اور معاشرتی زندگی کی بھی اصلاح ہو جائے گی۔(ع۔م)
’اربعین نووی‘ سے مراد محی الدین ابو زکریا یحییٰ بن شرف الحزامی النووی رحمۃ اللہ علیہ کی منتخب کردہ وہ چالیس احادیث ہیں جو دین اسلام کےتقریباً تمام بنیادی امور کا احاطہ کرتی ہیں۔ اگرچہ چالیس احادیث پر مشتمل مجموعے کئی اشخاص نے مرتب کیے ہیں لیکن جو مقام موصوف محترم کے مجموعے کو حاصل ہوا کسی اور کو نہیں ہو سکا۔ اس وقت آپ کے سامنے امام نووی کی اربعین پر محترم جمال الدین زرابوزو کی انگریزی میں لکھی گئی شرح کے اردو ترجمے کا ابتدائی حصہ ہے۔ جسے انھوں نے نعیم الدین زبیری کے زیر نگرانی مکمل کیا۔ یہ کتابچہ اس سلسلہ کی پہلی حدیث کی تشریح پر مشتمل ہے۔ کتابچہ میں اس بات کی دانستہ کوشش کی گئی ہے کہ قارئین میں عربی زبان، تخریج حدیث اور اسماء الرجال جیسے اہم مضامین کا ذوق پیدا کیا جائے۔ وہ ان مضامین کا عمومی طور احاطہ کرنے کے ساتھ ساتھ بعض مقامات پر ان پر تفصیلی بحث کرتے ہیں۔ لہٰذا! اس شرح کو پڑھنے والوں میں کسی قدر ان مضامین سے رغبت اور ان سے ذوق پیدا ہوگا۔ دینی موضوعات پر اب تک انگریزی میں لکھی جانے والی کتب میں سے زیر نظر کتاب خاصی اہمیت کی حامل ہے۔(ع۔م)
دیگر معاملات کی طرح تقسیم وراثت سے متعلقہ اسلام کی تعلیمات نہایت عادلانہ اور منصفانہ ہیں۔ تاکہ مرحومین کے پسماندگان کی مامون و محفوظ اور پر امن دنیوی زندگی کا اہتمام ہو سکے۔ لیکن نہ معلوم کس وجہ سے بہت سے علماے کرام اور اہل علم حضرات بھی تقسیم وراثت کے حوالے سے دینی احکامات سے پوری طرح آگاہ نہیں ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب ’تفہیم المواریث‘ جہاں علمائے کرام کے لیے استفادے کا باعث بنے گی وہیں طلبا اور عامۃ المسلمین بھی اس سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔ فاضل مصنف فاروق اصغر صارم نے وراثت کے مبادیات، موانع، ترکہ کے متعلق امور، مستحقین اور ان کے حصص، عصبات، حجب سے لےکر تقسیم ترکہ، تخارج، خنثیٰ، حمل سمیت تمام موضوعات نہایت جامعیت کے ساتھ روشنی ڈالی ہے۔ موصوف نے علم الفرائض کی جملہ مباحث کو احاطہ تحریر میں لا کر اس علم کےقواعد و اصول کی خوب وضاحت کی ہے اور مشکل مسائل کے حل میں مثالیں اور نمونے بھی پیش کیے ہیں۔ (ع۔م)
’مصباح الصلاۃ‘ سے قبل ہم قارئین کتاب و سنت ڈاٹ کام کے لیے ’مصباح القرآن‘ کے نام سے پروفیسر عبدالرحمٰن طاہر کے جدید اسلوب میں تیار کیے گئے ترجمہ قرآن کو پیش کر چکے ہیں۔ جس میں انھوں نے گرامر کے بغیر عوام الناس کو ترجمہ قرآن سے آگاہی دلانے کی سعی کی۔ نماز چونکہ ہر مسلمان پر ایک دن میں پانچ بار فرض ہے اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ نماز کو بھرپور توجہ ، یکسوئی اورمکمل انہماک کے ساتھ ادا کیا جائے۔ اسی کے باوصف مولانا نے اسی طرز پر نماز کا ترجمہ سکھانے کے لیے زیر نظر کتاب مرتب کی ہے۔ مولانا نے نماز اور اس سے متعلقہ دیگر دعائیں مثلاً مسجد میں داخل ہونے اور نکلنے، وضوکی دعائیں، اذان کے کلمات اور اذان کے بعد کی دعائیں وغیرہ کو کتاب میں رقم کیا ہے اور تین طرز کے رنگوں(کالا، نیلا،سرخ) کی مدد سے ساتھ ساتھ ان کا اردو ترجمہ دے دیا ہے۔ ان رنگوں کی تفصیل کتاب کےابتدائی صفحات پر ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔ ایک اور خاص بات یہ ہے کہ سامنے والے دوسرے صفحہ پر عربی الفاظ کو دوبارہ Break up کر کے خانوں میں درج کیا گیا ہے۔ ہر لفظ کو الگ الگ رنگ دے کر ترجمہ واضح کیا گیا ہے۔ کتاب سے استفادے کے لیے کتاب کے شروع میں دی گئی علامات کو پڑھنا بہت ضروری ہے۔ گرامر کے بغیر صرف علامات کے ذریعے ترجمہ نماز اور دیگر دعائیں سکھانے کا یہ ایک بہترین طریقہ ہے جو عوام الناس کے لیے ایک قیمتی تحفہ ہے۔(ع۔م)
اللہ تعالیٰ نے مہینوں میں ماہ رمضان کو فضیلت دی، سالوں کے دنوں میں عرفہ کے دن کو اور ہفتہ کے دنوں میں جمعہ کےدن کو فضیلت عطا کی، راتوں میں شب قدر کو فضیلت سے نوازا، عشروں میں عشرہ ذوالحجہ کا پہلا عشرہ اور رمضان کا آخری عشرہ فضیلت والا بنایا اور دونوں میں فرق یہ رکھا کہ اور دونوں میں فرق یہ رکھا کہ ذوالحجہ کے پہلے دنوں کا جواب نہیں اور رمضان کے آخری عشرہ کی راتوں کی کوئی مثال نہیں۔ زیر نظر کتابچہ میں فاضل مصنف عبدالہادی عبد الخالق نے عشرہ ذوالحجہ کے فضائل و احکام کو اختصار کےساتھ بیان فرمایا ہے۔ 45 صفحات پر مشتمل اس کتابچہ میں مصنف نے پہلے عشرہ ذوالحجہ کی فضیلت سےمتعلق صحیح احادیث بیان کرتےہوئے بعد میں ان احادیث کو بھی رقم کر دیا ہے جو ضعیف اور موضوع ہیں۔ اس کےعلاوہ عشرہ ذوالحجہ میں کرنے والے اعمال صالحہ کو بھی قلمبند کی گیا ہے۔(ع۔م)
قرآن فہمی کو آسان تر بنانے کےلیے پروفیسر عبدالرحمٰن طاہر نے ’مفتاح القرآن‘ اور ’مصباح القرآن‘ کے نام سے جدید اور منفرد نظام متعارف کرایا۔ اس کے بعد انھوں نے زیر نظر کتاب کی صورت میں اسی طریقہ کار پر مبنی ایک ایسا شارٹ کورس مرتب کیا ہے جو عام لوگوں کو قرآن فہمی کی طرف راغب کرنےاور سکولوں اور کالجز کے طلبہ و طالبات کو ان کے ترجمہ قرآن کےنصاب کو آسان طریقے سے سمجھانے میں ان کی مدد دے گا۔ اس میں ’مفتاح القرآن‘ میں پیش کردہ بعض ضروری علامات کو بیان کیا گیا ہے،طوالت سے بچنے کے لیے قرآنی آیات کو ختم کر کے علامات والی قرآنی مثالوں کو ذکر کیا گیا ہے۔ ہر سبق کے آخر میں اس جدید طریق سے نماز کا ترجمہ سمجھانے کے لیے نماز کے اسباق کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ آخر میں علامات کو رنگ دے کر چند منتخب آیات بطور نصاب درج کی گئی ہیں اور ان آیات کو پڑھنے کا جدید طریقہ سمجھانے کے لیے نمونے کے دو سبق درج کر کے اساتذہ کی رہنمائی کی گئی ہے (ع۔م)
مسلمان قوم کی تاریخ فرقوں کی بہتات کی وجہ سے بے پناہ تحریف کا شکار رہی، کیونکہ ہر فرقہ اس کوشش میں رہا کہ وہ اپنوں کی شان بڑھائے اور دوسروں کو گرائے۔ ان کے اس طرز عمل سے عظیم ترین ہستیوں کی تاریخ میں شگاف پیدا ہوگئے۔ مسلمان قوم میں سے چند لوگوں نے حضرت علی المرتضی ؓسے اس قدر غلو آمیز محبت کی کہ آپ کی طرف ایسی باتیں منسوب کر دیں جو اصل واقعات اور تاریخ سے میل نہیں رکھتیں اور اسی دوران دوسرے صحابہ کرام کی شان گھٹانے کی ناکام کوششیں کیں اور انھیں حضرت علی کا حق غصب کرنے، ان پر ظلم کرنے نیز اپنے حق میں برا بیج بونے والوں کے روپ میں پیش کیا۔ اس ضمن میں اگرچہ اہل السنت والجماعۃ کی طرف سے اگرچہ کافی کام ہوا ہے لیکن ڈاکٹر عثمان بن محمد ناصری حفظہ اللہ نے زیر نظر کتاب کی صورت میں بعثت رسولﷺ سے سانحہ کربلا تک صحابہ کرام کے فضائل اور جس انداز میں ان کی عدالت پر اعتراضات کے جوابات دئیے ہیں اس طریق پر اس سے قبل کام سامنے نہیں آیا۔ کتاب کا سلیس اردو ترجمہ ابو مسعود عبدالجبار سلفی نے بہت ہی خوبصورت انداز میں کیا ہے۔ کتاب کو چار فصول میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلی فصل مطالعہ تاریخ کی کیفیت، امام طبری کے منہج اور اسلامی تاریخ میں سند کی اہمیت پر مشتمل ہے۔ دوسری فصل نبی کریمﷺ کے سانحہ ارتحال 11ھ سے61ھ تک رونما ہونے والے واقعات پر بے لاگ تحقیق ہے۔ تیسری فصل عدالت صحابہ پر مشتمل ہے۔ چوتھی فصل میں قضیہ خلافت پر بحث کی گئی ہے اور امامت علی بن طالب شیعی دلائل کو تفصیل کے ساتھ بیان کرنے کے بعد دقیق علمی بحث کے ذریعے اس کا جائزہ لیا گیا ہے۔ یہ عدالت صحابہ پر ایسی لاجواب تحقیقی کتاب ہے جو جامعیت، اختصار اور دلکش اسلوب استدلال کے اعتبار سے ایک منفرد کتاب ہے۔(ع۔م)
فی زمانہ تمباکو نوشی کی وبا بہت عام ہو رہی ہے صرف پاکستان میں روزانہ ہزاروں نئے سگریٹ نوشوں کا اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس کی ایک بنیادی وجہ شاید ہمارے ہاں علمائے کرام کا اس نشے کو شدو مد سے تنقید کا نشانہ نہ بنانا ہے۔ زیر تبصرہ مختصر سا کتابچہ اسی سلسلے میں تالیف کیا گیاہے۔ کتابچہ کے مؤلف مولانا اختر صدیق صاحب نے کتابچہ میں سب سے پہلے تمباکو نوشی کی شرعی حیثیت واضح کی ہےپھر تمباکو نوشی کے فوائد و نقصانات کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ لوگ تمباکونوشی کا شکار کیوں ہوتے ہیں اس کے محرکات کا تذکرہ ہے تو وہیں اسلامی معاشرہ پر اس کے اثرات کو بھی مختصراً بیان کیا گیا ہے۔ مسلمان علما کے فتاوی جات، ڈاکٹر حضرات کے تاثرات ذکرکرنے کے ساتھ ساتھ تمباکو نوشی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کو بھی شامل کتاب کیا گیا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ تمباکونوشی سے چھٹکارا پانے کے کی تراکیب بھی کتاب کا حصہ ہیں۔(ع۔م)
پاکستان میں قرآن مجید کے اردو ترجمہ اور تفہیم کے حوالے سے بہت سے لوگ اور مراکز اپنی خدمات پیش کر رہے ہیں۔ پروفیسر عبدالرحمٰن طاہر کا شمار بھی ایسے لوگوں میں ہوتا ہے جو عوام الناس کو قرآن کے ترجمہ سے آگاہ کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ ’مصباح القرآن‘ کی شکل میں انھوں نے قرآن مجید کے ترجمہ کو آسان اور سائنٹفک انداز میں سکھانے اور پڑھانے کی سبیل نکالی ہے۔ ترجمہ قرآن میں یقیناً ایک نئے اور مفید اسلوب سے آراستہ یہ کوشش قرآنی مطالب کو عام کرنے اور ایک طالب قرآن کو معانی و مفاہیم سے آشنا کرنے کی ایک کامیاب کوشش ہے۔ اس میں ترجمہ قرآن کا جو اسلوب اختیار کیا گیا ہے اس میں روز مرہ زندگی میں اردو زبان میں استعمال ہونے والے 65 فیصد الفاظ کو سیاہ رنگ میں پیش کیا گیا ہے، تکرار کے ساتھ استعمال ہونے والے 20 فیصد الفاظ کو نیلا اور 15 فیصد دوسرے اہم الفاظ کو سرخ رنگ میں پیش کر کے ان کے فہم کے الگ الگ ادارے متعین کر دئیے ہیں تاکہ ایک استاد یا طالب قرآن ان کی مدد سے ان کا خصوصی فہم حاصل کر لے، یوں اسی صفحے کے مقابل صفحہ پر پھر انھی تین رنگوں میں تقسیم الفاظ قرآن کے معانی کو بھی ’مفتاح‘ کے اصولوں کے مطابق انھی رنگوں میں قواعد کی تقسیم اور جوڑ توڑ کے پیرائے میں یوں درج کیا گیا ہے کہ کسی آیت شریفہ کا کوئی لفظ یا ان لفظوں کے مزید کسی گرامر میں منقسم حصے کی تعیین، تشریح اور تفہیم بہت واضح اور دلچسپ ہوگئی ہے۔ ترجمہ میں رنگوں کا استعمال قرآنی الفاظ کے رنگوں کے مطابق کیا گیا ہے، بعض الفاظ کی ضروری وضاحت بھی حاشیہ میں کر دی گئی ہے۔ ’مصباح القرآن‘ کو پڑھنے سے قبل اگر پروفیسر صاحب کی کتاب ’مفتاح القرآن‘ میں بیان کردہ علامات کو سمجھ لیا جائے تو قرآن فہمی میں یقیناً بہت بہتر نتائج کی توقع کی جا سکتی ہے۔ ’مفتاح القرآن‘ کتاب و سنت ڈاٹ کام پر آپ یہاں سے ڈاؤنلوڈ کر سکتے ہیں۔(ع۔م)
قرآن کریم کو سمجھنے اور اس کو دوسروں کو سمجھانے کے لیے اب تک ان گنت علوم کی داغ بیل ڈالی جا چکی ہے۔ اس ضمن میں عربی گرامر اور قواعد زبان کی گزشتہ چودہ سو سالہ تاریخ میں اپنے اپنے زمانے کی ضرورت پوری کرنے کے لیے ہزاروں کتب لکھی گئیں۔ گزشتہ پچاس سالوں میں عرب میں یہ احساس شدت کے ساتھ مسلمانوں کے دلوں میں جاگزیں ہوگیا کہ تدریس قواعد کا سلسلہ اطلاقی ہونا چاہئے لہٰذا اس سلسلہ میں کافی حد تک کامیاب کوششیں بھی ہوئیں۔ برصغیر میں بھی اس ضرورت کو محسوس کیا گیا اور عام فہم انداز میں عربی قواعد کو بیان کرنے کی کوششیں سامنے آئیں۔ زیر نظر کتاب اس سلسلہ کی پروفیسر عبدالرحمٰن طاہر صاحب کی جانب سے کی جانے والی ایک مستحسن کوشش ہے۔ جس میں انھوں نے قرآنی تفہیم کےلیے عربی گرامر کے دقیق مسائل کو علامتوں کے ذریعے نہایت آسان انداز میں بیان کر دیا ہے۔ جو لوگ گرامر کو مشکل سمجھتے ہیں ان کو نہایت آسان راستہ مہیا کیا گیا ہے یعنی قرآن کے مطالب تک بذریعہ علامات پہنچنے کی کوشش کی گئی ہے، یہ علامتیں بار بار استعمال ہونے کی وجہ سے خود بخود یاد ہو جاتی ہیں اس طرح گرامر کے بغیر ہی قرآن کو سمجھنے میں کافی حد تک مدد مل جاتی ہے یہ آسان فہم ہونے کے ساتھ ایک منفرد طریقہ بھی ہے۔ پروفیسر صاحب کی اختیار کردہ اس جدید تکنیک نے قارئین کرام کو عربی گرامر کے رسمی تعلم سے کسی حد تک بے نیاز کر دیا ہے ’مفتاح القرآن‘ میں اختیار کیا جانے والا یہ طریق کار قرآن مجید کے ان قارئین کی جھجک دور کرنے میں معاون ہوگا جو قرآن پاک کا مطالعہ اپنے طور پر کرنا چاہتے ہیں۔(ع۔م)
ہمارے معاشرے میں کم علمی کے سبب بہت سی غلط فہمیاں پیدا ہو چکی ہیں۔ کوئی عصری علوم کے خلاف ہے تو کوئی خواتین کی تعلیم پر معترض ہے۔ جب تک مسلمان تعلیم کو شعوری طور پر حاصل کرتے تھے اس وقت ہماری درسگاہوں سے امام غزالی، امام رازی اور امام عبدالقادر جیلانی رحمہم اللہ پیدا ہوتے تھے جنہوں نے فقط اپنی ذات اور اہل ہی کو نہیں بلکہ پورے معاشرے کو اعلیٰ اقدار میں ڈھال دیا تھا۔ آج مسلم قوم اس سے غافل ہوتی جا رہی ہے۔ مسلم معاشرے میں جو کمیاں آ چکی ہیں زیر نظر کتاب میں ڈاکٹر محمد امین صاحب نے ان کو دور کرنے کے لیےنہایت قیمتی آرا دی ہیں۔ انھوں نے صرف تنقید ہی نہیں کی بلکہ قیمتی آرا بھی دی ہیں۔ یہ کتاب اس سلسلہ میں ان کے افکار و خیالات اور جذبات و احساسات کی آئینہ دار ہے۔ اور اس حوالہ سے ان کی اب تک کی جد و جہد کی روداد بھی ہے جو اپنے اندر بہت سے امور کو سمیٹے ہوئے ہے۔ ضروری نہیں کہ ان کی ہر بات سے اتفاق کیا جا سکے اور ہر تجویز کو قبول کیا جائے لیکن یہ بات بہر حال ضروری ہے کہ ان کے درد دل سے آگاہی حاصل کی جائے اور اس کے ثمرات سے استفادہ کیا جائے۔(ع۔م)
دین اسلام کو سمجھنے اور جاننے کے لئے علوم آلیہ کا جاننا ضروری ہے۔ ایک ماہر محقق اور عربی دان بننے کے لئے خاص طور پر عجمیوں کو مذکورہ علوم کا حصول درکار ہوتا ہے۔ عربی کی عبارت کو جاننے اور ان کی اصلاح کے لئے صرف و نحو کے قوائد ایک مرکزی اور بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ ذخیرہ عربی میں صرف و نحو تقریباً ساٹھ اور چالیس کے تناسب سے موجود ہے اور ان ہر دو علوم سے متعلق قواعد میں صرف انتہائی اہم علم ہے اور اس علم پر کئی عربی اور فارسی کتب مرتب کی گئی ہیں۔ برصغیر کے مدارس میں تفصیلی کتب نصاب میں شامل ہیں۔ لیکن مولانا محمد بارک لکھوی کی مرضی پر لکھی گئی یہ کتاب کلیدی حیثیت رکھتی ہے اور اس کی افادیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے درس نظامی کی پہلی کلاسز میں اس کو جگہ دی گئی ہے۔ تاکہ مرکزی علوم کو جاننے کے لئے مبتدی طلباء کو یہ کتاب ازبر کروا دی جائے اور یہی وجہ ہے کہ مبتدی طلباء عالم بننے تک کے سفر میں اسی کو پیش نظر رکھتے ہیں لہٰذا مذکورہ کتاب اپنی اہمیت کے حساب سے ایک مسلم حیثیت کی حامل ہے۔
گزشتہ چند سالوں سے ٹیلیفون اور موبائل کی دنیا میں زبردست انقلاب آیا ہے۔ موبائل فون اور کنکشن بے انتہا سستے ہونے کی وجہ سے پوری دنیا میں موبائل فون کے صارفین کی تعداد میں حیرت انگیز طور پر اضافہ ہوا ہے۔ ملک پاکستان میں موبائل صارفین کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ ٹیلیفون بے شبہ ایک جدید ٹیکنالوجی اور وقت کی اہم ضرورت ہے۔ لیکن اس کے استعمال کے حوالے سے بعض اخلاقیات کا ملحوظ رکھا جانا بہت ضروری ہے۔ لیکن موبائل فون کمپنیوں کے کال اور میسجز کے نت نئے پیکجز کے باوصف بہت سے لوگ اس کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ مولانا اختر صدیق صاحب نے پیش نظر کتابچہ اسی وجہ سے تالیف کیا ہے کہ لوگوں کو موبائل اور ٹیلیفون کے غلط استعمال سے بچا کر اس نعمت سے استفادے کی طرف راغب کیا جائے۔ انھوں نے کتاب میں ٹیلیفون اور موبائل پر گفتگو کے آداب ذکر کیے ہیں اور اس بات کی بھی وضاحت کی ہے کہ موبائل کا غلط استعمال کس طرح کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ موبائل پر معصوم خواتین کو اپنے جال میں پھنسانے والوں کو طریقہ واردات اور ان کے علاج کو شامل کتاب کیا گیا ہے۔ موبائل فون کے استعمال کے چند خاص آداب ذکر کرنے کے ساتھ ساتھ بعض حقیقی واقعات بھی ذکر کیے گئے ہیں جو ان لڑکیوں کے لیے مشعل راہ ہیں جو ٹیلی فونک رابطہ کے ذریعے اپنے خوابوں کا شہزادہ تلاش کرنے کی کوشش کرتی ہیں مگر اپنا سب کچھ برباد کرا بیٹھتی ہیں۔(ع۔م)
کسی بھی زبان کی تعلیم و تعلم کے لیے اس کے قواعد و ضوابط کا علم ہونا نہایت ضروری ہے۔ اسی ضمن میں عربی زبان بھی اس چیز کی متقاضی ہے کہ اس کے قواعد کو اچھی طرح سیکھا جائے تاکہ قرآن و حدیث کے فہم و تفہیم میں آسانی پیدا ہو اور ان کے صحیح معانی و مطالب سمجھنے میں کسی غلطی کی گنجائش باقی نہ رہے۔ علم النحو جو عربی زبان کے قواعد و اصول سے عبارت ہے، دراصل قرآن و حدیث کی خدمت ہے۔ اسی حوالے سے ابو ہشام ریاض اسماعیل نے زیر مطالعہ ایک مختصر، جامع اور سہل رسالہ مرتب کیا ہے، جو طرز قدیم و جدید کا حسین امتزاج ہے۔ قواعد کی تعریفیں بہت آسان انداز میں بیان کی ہیں، چند نئی اصطلاحات متعارف کرائی گئی ہیں، ہر قاعدے کے آخر میں مروجہ مثالوں کے علاوہ قرآنی مثالوں کا اضافہ بھی کر دیا گیا ہے اور بعض جگہ احادیث سے بھی مثالیں دی گئی ہیں۔ اسباق کی ترتیب متداول عربی گرامر کی کتب کے مطابق ہے۔ اس کے علاوہ کتاب کے آخر میں مختلف جملوں کی تراکیب کا بھی اہتمام کیا گیا ہے۔ (ع۔م)
انسان سے غلطی اور گناہ کا سرزد ہو جانا کوئی اچنبھےکی بات نہیں ہے لیکن گناہ ہو جانے کے بعد اس پر اترانا اور فخریہ انداز میں اس کو جتلانا نہایت خطرناک بات اور باعث ننگ و عار ہے۔ شیطان سے غلطی ہوئی کہ اس نے حکم خداوندی ماننے سے انکار کر دیا اسی طرح حضرت آدم و حوا ؑ سے بھی غلطی ہوئی لیکن فریقین کی غلطیوں میں فرق یہ تھا کہ ثانی الذکر نے اعتراف جرم کر لیا اور اپنی غلطی کی معافی کے خواستگار ہوئے تو اللہ نے ان کے لیے اپنی رحمت کے دروازے کھول دئیے جبکہ اول الذکر نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تکبر و غرور کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کو دنیا و آخرت میں لعنت کا مستحق بنا دیا۔ ایسے ہی خوش بخت انسان وہ ہے کہ جس سے کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو وہ فوراً اللہ کے سامنے دست دعا دراز کرے اور اللہ سے اپنے گناہ کی معافی طلب کرے یقیناً اللہ تعالیٰ مغفرت اور رحمت سے مرحوم نہیں فرمائے گا۔ پیش نظر کتاب میں قرآن کریم اور ذخیرہ احادیث سے ان احادیث کا چناؤ کیا گیا ہے جن میں اللہ اور اس کے رسولﷺ نے خوشخبری سنائی ہے کہ اگر تم یہ اعمال کرو گے تو اللہ تمھارے گناہوں کو معاف فرما دے گا۔ کتاب کےمصنف محمد عامر اعوان نےاس سلسلہ میں تقریباً 65 اعمال کا تذکرہ کیا ہے ۔ احادیث کی مکمل تخریج کی گئی ہے اور ساتھ علامہ البانی ؒ کی تحقیق بھی درج کی گئی ہے ۔(ع۔م)
جہری نمازوں میں امام و مقتدی کا اونچی آواز میں آمین کہنا نبی کریمﷺ اور صحابہ کرام سے ثابت ہے۔ بہت سی احادیث اس بات کی شاہد ہیں کہ آمین کہنا ایک مسنون عمل ہے۔ لیکن ہمارے ہاں ایک بڑا فقہی مسلک اونچی آواز میں آمین کہنے کا قائل نہیں ہے۔ اس موضوع پر فریقین کی جانب سے بہت لے دے ہو چکی ہے اور ہوتی رہتی ہے۔ بہرحال اس مسئلہ کو علمی انداز میں سمجھنے اور سلجھانے کی ضرورت ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’نماز میں اونچی آواز سے آمین کہنا‘ بھی، جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، اسی موضوع پر لکھی گئی ہے۔ یہ کتاب دراصل اس عربی مقالے کا اردو ترجمہ ہے جو محترم محمد مظفر الشیرازی نے مدینہ یونیورسٹی میں پڑھتے ہوئے آخری سال میں ’القول الامین فی الجھر بالتامین‘ کے نام سے جمع کرایا۔ اس کی افادیت کو دیکھتے ہوئے حافظ عبدالرزاق اظہر نے اس کو اردو قالب میں ڈھالا ہے۔ مؤلف نے الجہر بالتامین سے متعلقہ جتنی روایات بھی میسر آ سکیں ان کی مکمل طور پر تخریج کی ہے اور ہر حدیث پر صحت و سقم کے حوالے سے حکم لگایا ہے، حدیث کی جتنی بھی سندیں ہیں ان کا جدول بھی پیش کیا ہے، ہر ایک راوی کا حکم ضم کرنے کے ساتھ ساتھ اسی ترتیب سے آثار صحابہ کو بھی نقل کر دیا ہے اور ساتھ ساتھ مخالفین کے دلائل کا مناقشہ بھی کیا ہے۔ (ع۔م)
مسلم معاشروں کو اخلاقی بگاڑ کا شکار کرنے کے لیے مغرب نے ایسے درجنوں تہوار مستعار دے دئیے ہیں جن کا اسلامی تہذیب و ثقافت کے ساتھ دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ لیکن ہمارے نام نہاد مسلمان شد ومد کے ساتھ ان مغربی تہواروں کو منانے میں مصروف ہیں۔ دینِ اسلام تفریح اور کھیلوں کا مخالف نہیں ہے لیکن تفریح کے نام پر اباحیت پسندی کسی طور پر قابل قبول نہیں ہے۔ زیر مطالعہ کتاب میں مولانا اختر صدیق نے انھی مغربی تہواروں کا اپنے مخصوص انداز میں تذکرہ کیاہے جو مسلم معاشروں میں بھی رواج پاچکے ہیں۔ اس سلسلہ میں انھوں نےبسنت، ویلنٹائن ڈے، خواتین کاعالمی دن اور اپریل فول وغیرہ جیسے تہواروں کو موضوع بحث بنایا ہے۔ مصنف نے تہواروں کی تاریخی اور شرعی حیثیت کا مختصر جائزہ پیش کیا ہے۔ چند اہل قلم اور فکر مند دانشوروں کے آرٹیکل بھی شامل کتا ب ہیں۔ تمام دلائل باحوالہ نقل کیے گئے ہیں۔ (ع۔م)
رمضان المبارک میں عام طور پر یہ مسئلہ پیش آتا ہے کہ تراویح کی جماعت کےساتھ فرض نماز ادا کی جائے یا نہیں؟ اس سلسلہ میں احادیث مبارکہ اور سلف صالحین کا نقطہ نظر ملاحظہ کیا جائے تو اس کے جواز کے واضح ثبوت ملتے ہیں۔ یہ کتاب بھی، جیسا کہ نام سے ظاہر ہے اسی مسئلہ پر تصنیف کی گئی ہے۔ کتاب کے مؤلف نذیر احمد رحمانی نے دونوں طرف کے نقطہ ہائے نظر پر بہت واضح اندازمیں روشنی ڈالی ہے اور نوافل کی جماعت کےساتھ فرض نماز کے عدم قائلین کے دلائل کا شدو مد کے ساتھ محاکمہ کیاہے۔ دراصل آج سے نصف صدی قبل شیخ الحدیث حضرت مولانا نذیر احمد رحمانی سے اسی مسئلہ بارے سوال پوچھا گیاتھا جس کا آپ نے قرآن وسنت کی روشنی میں جواب دیا۔جس پر ایک دیوبندی عالم دین مولانا عامر عثمانی نے ماہنامہ ’تجلی‘ کے دو شماروں میں رد و قدح کیا۔ مولانا رحمانی مرحوم نے اس کا جواب الجواب ’ترجمان دہلی‘ میں چار مبسوط قسطوں میں دیاجس میں مولانا نے اس موضوع پر اس عالمانہ انداز میں گفتگو فرمائی کہ کوئی پہلو تشنہ نہیں رہنے دیا۔ افادہ عوام الناس کے لیے آپ کا جواب الجواب یکجا کتابی صورت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ فاضل مدینہ یونیورسٹی مولانا طارق محمود ثاقب نے احادیث کی تخریج و تحقیق کر دی ہے علاوہ بریں حضرت مولانا عبدالحی انصاری نے پچاس کے قریب صفحات پر مشتمل مولانا رحمانی کا تعارف بھی شامل کتاب کر دیا ہے۔(ع۔م)
علامہ جاوید احمد غامدی صاحب اپنے تجدد پسندانہ نظریات کے حوالے سے کافی شہرت رکھتے ہیں۔ میڈیا کی کرم فرمائی کی وجہ سے علامہ صاحب کو روشن خیال طبقوں میں کافی پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔ علامہ صاحب کےگمراہ کن اور منہج سلف سے ہٹے ہوئے نظریات پر بہت سے لوگوں نے مختلف انداز میں تنقید کی ہے۔ ڈاکٹر حافظ زبیر صاحب کا شمار بھی ایسے لوگوں میں ہوتا ہے جنھوں نے غامدی صاحب کے خوشنما افکار کی قلعی کھولنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ آپ نے نہایت سنجیدہ اور علمی انداز میں ہر فورم پر غامدی صاحب کے نظریات کو ہدف تنقید بنایا۔ زیر تبصرہ کتاب غامدی صاحب اور اہل سنت کے اصول استنباط اور قواعد تحقیق کے ایک تقابلی مطالعہ پر مشتمل ہے۔ یعنی اس کتاب میں غامدی صاحب کے اختیار کردہ اصولوں پر نقد کیا گیا ہے فروعات کو موضوع بحث نہیں بنایا گیا ہے۔ غامدی صاحب کے افکار پر نقد دو اعتبارات سے کیا گیا ہے۔ ایک کتاب و سنت کی روشنی میں اور دوسرا خود غامدی صاحب کے اصولوں کی روشنی میں۔ حافظ صاحب خاصیت ہےکہ شخصیات پر تنقید سے گریز کرتے اور ممکن حد تک نرم انداز میں گفتگو کرتے ہیں اور صرف نظریات کو موضوع بحث بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی خوبی ان کی زیر نظر تصنیف میں بھی واضح طور پر عیاں ہے۔ یہ کتاب ان مضامین پر مشتمل ہے جو کہ ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ میں شائع ہوئے۔ بعد میں تنظیم اسلامی کے سالانہ اجتماع 2006ء کے موقع پر انہی مضامین کو یکجا کرکے کچھ اضافوں اور تبدیلیوں کے ساتھ ایک کتاب کی شکل دے کر شائع کردیا گیا۔ یہ اس کتاب کا پہلا پمفلٹ ایڈیشن تھا جس کو ایک طرف تو علمی وفکری حلقوں میں کافی پذیرائی ملی جبکہ دوسری طرف عوام الناس کی طرف سے اسے آسان فہم بنانے کی خواہش کا بھی اظہار کیا گیا۔ لہذا جس حد تک ممکن ہو سکتا تھا مصنف نے اپنی طرف سے اس کتاب کو آسان سے آسان تر بنانے کی کوشش کی ، اور اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن شائع ہوا۔ کچھ ہی عرصہ بعد کچھ مزید اضافوں اور تبدیلیوں کے ساتھ اس کتاب کا تیسرا نظرثانی شدہ ایڈیشن شائع کیا گیا۔ اب اس کتاب کا چوتھا ایڈیشن شائع کیا جارہا ہے ۔چونکہ پہلے ایڈیشن کو باقاعدہ ایڈیشن شمار نہیں کیا گیا ہے لہذا اس ایڈیشن کو باقاعدہ طور پر تیسرے ایڈیشن کا نام دیا گیا ہے ۔ اس دوران مصنف کی غامدی صاحب سے براہ راست تین ، چار نشستیں بھی ہوئیں جن میں مصنف کو ان کے فکر کو مزید گہرائی میں سمجھنے کا موقع ملا۔ اس ایڈیشن میں کافی اضافے اور تہذیب وتنقیح بھی کی گئی ہے۔ (ع۔ ر)
کچھ عرصہ قبل حنفی علما کو محسوس ہوا کہ محدثین نے اپنی کتب میں جو احادیث جمع کی ہیں ان میں ہمارے مذہب کے دلائل بہت شاذ ہیں اور ان کی کتابوں میں ان کے فقہی رجحانات کا بہت اثر ہے۔ لہذا حنفی علما نے ایسی کتابیں لکھنے کا بیڑہ اٹھایا جن میں حنفی مذہب کے دلائل پر مشتمل احادیث جمع ہوں اس پر سب سے پہلے علامہ نیموی نے ’آثار السنن‘ کے نام سے کتاب لکھی اس کے بعد مولانا اشرف علی تھانوی نے مولانا احمد حسن سنبھلی کے ساتھ مل کر حنفی مذہب کی مؤید احادیث اور شرح و بسط سے ان پر روایتاً و درایتاً بحث کرنے کی کوشش کی۔ یہ کام کتاب الحج پر پہنچا اور اس کی ایک جلد شائع ہوئی تو مولانا تھانوی نے اس کا جائزہ لینے کے بعد احمد حسن سنبھلی کو آڑے ہاتھوں لیا کہ انہوں نے اپنی طرف سے بہت کچھ بدل ڈالا تھا حتیٰ کہ مولانا تھانوی کی بہت سی تصحیحات کو بھی بدل دیا اور بقول ان کے کتاب کا اصل منہج ہی باقی نہ رہا۔ اس کے بعد مولانا عثمانی نے ا س کام کا بیڑا اٹھایا اور اس کو از سر نو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ اس کا نام ’اعلاء السنن‘ رکھا گیا جو کراچی سے سولہ جلدوں میں شائع ہوا۔ زیر مطالعہ کتاب میں اسی کتاب ’اعلاء السنن‘ کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ مولانا ارشاد الحق اثری معروف عالم دین اور تبحر علمی میں بے نظیر ہیں۔ آپ نے اس کتاب میں ’اعلاء السنن‘ کی فقہی مباحث سے تعرض نہیں کیا بلکہ ان قواعد اور اصولوں کو ذکر کرنے پر اکتفا کیا ہے جن کو مولانا عثمانی نے حدیث کی تصحیح و تضعیف میں اختیار کیا ہے۔ احناف کو آئینہ دکھانے والی یہ ایک نہایت سنجیدہ اور علمی کاوش ہے جس میں اہل علم کے لیے بہت سا سامان موجود ہے۔(ع۔م)
صحیح بخاری و صحیح مسلم سے متعلق امت کا متفقہ فیصلہ ہے کہ قرآن کے بعد یہ صحیح ترین کتابیں ہیں۔ ان کتابوں کے بارے علمائے امت کا یہ حکم بلاوجہ نہیں ہے احادیث کا اکثر و بیشتر ذخیرہ امام بخاری اور امام مسلم رحمہما اللہ کے دور میں مشہور تھا اسی ذخیرہ سے انہوں نے صحیح احادیث پر مشتمل مجموعہ مرتب کیا۔ ایک ایک حدیث اور ہر ایک کی سند کی خوب چھان پھٹک کی، خوب تحقیق و تدقیق کے بعد صحت کا یقین ہوا تو اپنی کتب میں درج کیا۔ اس کے بعد سیکڑوں محدثین کی نظریں ان پر مرتکز رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان دونوں کتابوں کو امت مسلمہ سے تلقی بالقبول حاصل ہوا۔ لیکن پھر بھی کچھ لوگوں نے درایت و عقل کے حوالے سے صحیح احادیث کے رد کرنے کا شاخسانہ کھڑا کیا تو کسی نے صحیح بخاری و مسلم پر بلا جواز عمل جراحی کا شوق پورا فرمایا۔ اس بہتی گنگا میں مولانا حبیب الرحمٰن کاندھلوی نے بھی ہاتھ دھونا اپنا فرض سمجھا انہوں نے ’مذہبی داستانیں‘ نام سے کتاب لکھی جس میں انہوں نے صحیح بخاری و صحیح مسلم کی احادیث پر شدید نکتہ چینی کی بلکہ انہوں نے صحیح بخاری کو نامکمل کتاب قرار دے کر یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ امت مسلمہ کا اسے حدیث کا صحیح ترین مجموعہ قرار دینا بھی محض ایک مذہبی داستان ہے۔ اس کےعلاوہ بہت صحابہ کرام کے حوالہ سے بھی اوٹ پٹانگ باتیں لکھیں۔ زیر مطالعہ کتاب موصوف کی اسی کتاب کے جواب میں وجود میں آئی ہے۔ مولانا ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ ایک صاحب علم شخصیت اور حدیث و اصول حدیث کا خاص ذوق رکھتے ہیں انہوں نے صحیح بخاری و صحیح مسلم کی ان احادیث کا بھرپور طریقے سے دفاع کیا ہے جن پر ’مذہبی داستانیں‘ میں تنقید کی گئی ہے۔ علاوہ ازیں مقدمہ الکتاب میں کاندھلوی صاحب کی کتاب کا ایک طائرانہ جائزہ بھی پیش کر دیا گیا ہے جس سے مصنف کاندھلوی صاحب کی ’قیمتی‘ نگارشات کے خدوخال نمایاں ہو جاتے ہیں۔(ع۔م)