اللہ تعالیٰ نے جہاں رسول اللہﷺ کے ذریعے سے تجوید و قراء ات کے بہترین تلامذہ صحابہ کرام کی صورت میں پیدا فرمائے وہیں پر حضرات صحابہ رسم قرآن کے بھی ماہر کے طور پر سامنے آئے۔ صحابہ کرام نے قرآن کے رسم میں جن امور کو ملحوظ رکھا وہ قابل داد اور حیرت انگیز ہیں۔ رسم قرآنی پر علما و ائمہ نے بہت سی کتب تحریر فرمائیں جن میں علامہ دانی، علامہ شاطبی اور علامہ الخراز وغیرہم کے نام شامل ہیں۔ اردو زبان میں اس موضوع پر بہت قلیل کام ہوا ہے۔ اسی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے شیخ القرا قاری ادریس العاصم نے پیش نظر کتاب ترتیب دی ہے۔ کتاب کا پہلا حصہ تاریخ رسم سے متعلق ہے، دوسرے حصے میں مصاحف عثمانیہ کی تصاویر اور دیگر مختلف ادوار کے مصاحف اور آنحضرتﷺ کے دو نامہ مبارکہ کی تصاویر ہیں جو اس لیے شامل کتاب کی گئی ہیں تاکہ مختلف ادوار میں طرز تحریر سے آگاہی حاصل ہو۔ تیسرے حصے میں رسم قرآن کے اصول بتائے گئے ہیں، چوتھے حصے میں ان اصولوں کے مطابق پورے قرآن کے غیر قیاسی کلمات قرآنی کو بیان کیا گیا ہے۔ پانچواں اور آخری حصہ علم الضبط پر مشتمل ہے۔(ع۔م)
علامہ جاوید احمد غامدی صاحب اپنے تجدد پسندانہ نظریات کے حوالے سے کافی شہرت رکھتے ہیں۔ میڈیا کی کرم فرمائی کی وجہ سے علامہ صاحب کو روشن خیال طبقوں میں کافی پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔ علامہ صاحب کےگمراہ کن اور منہج سلف سے ہٹے ہوئے نظریات پر بہت سے لوگوں نے مختلف انداز میں تنقید کی ہے۔ ڈاکٹر حافظ زبیر صاحب کا شمار بھی ایسے لوگوں میں ہوتا ہے جنھوں نے غامدی صاحب کے خوشنما افکار کی قلعی کھولنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ آپ نے نہایت سنجیدہ اور علمی انداز میں ہر فورم پر غامدی صاحب کے نظریات کو ہدف تنقید بنایا۔ زیر تبصرہ کتاب غامدی صاحب اور اہل سنت کے اصول استنباط اور قواعد تحقیق کے ایک تقابلی مطالعہ پر مشتمل ہے۔ یعنی اس کتاب میں غامدی صاحب کے اختیار کردہ اصولوں پر نقد کیا گیا ہے فروعات کو موضوع بحث نہیں بنایا گیا ہے۔ غامدی صاحب کے افکار پر نقد دو اعتبارات سے کیا گیا ہے۔ ایک کتاب و سنت کی روشنی میں اور دوسرا خود غامدی صاحب کے اصولوں کی روشنی میں۔ حافظ صاحب خاصیت ہےکہ شخصیات پر تنقید سے گریز کرتے اور ممکن حد تک نرم انداز میں گفتگو کرتے ہیں اور صرف نظریات کو موضوع بحث بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی خوبی ان کی زیر نظر تصنیف میں بھی واضح طور پر عیاں ہے۔ یہ کتاب دراصل ان مضامین کا مجموعہ ہے جو ماہنامہ ’الشریعہ‘ میں شائع ہوتے رہے۔ ان مضامین کو اس سے قبل بھی یکجا صورت میں شائع کیا گیا ہے۔ اب کے بار اس کتاب میں کافی سارے اضافوں کے ساتھ افادہ قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔ جو یقیناً علمی حلقوں کے لیے خاصے کی چیز ہے۔ (ع۔ م)
ہر انسان کو زندگی میں متعدد مقامات پر ایسے سانحات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو ا س کے لیے تکلیف کا باعث ہوتے ہیں اور جن کی وجہ سے وہ غمگین اور پریشان ہو جاتا ہے۔ بہت سے لوگ ایسے میں صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ بیٹھتے ہیں اور ایسے افعال کے مرتکب ہو جاتے ہیں جن سے شریعت نے اجتناب کا حکم دیا ہے۔ دین اسلام نے اس سلسلہ میں بہت جامع احکامات دئیے ہیں جن میں انسانی نفسیات کا پاس وو لحاظ کیا گیا ہے اور جو فطرت کےعین مطابق ہیں۔ غموں اور تکلیفوں کے سلسلہ میں اگر شرعی احکامات کو سامنے رکھا جائے تو یقین مانیے بہت سے عرصہ دراز سے لا ینحل مسائل خود بخود حل ہوتے چلے جاتے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب بھی اسی سلسلہ کی ایک سنجیدہ کاوش ہے جس میں محترم اختر صدیق صاحب نے پریشانیوں اور غموں سے نبرد آزما ہونے اور ان سے چھٹکارا پانے کےستائیس کے قریب علاج رقم کیے ہیں۔ دراصل شیخ صالح المنجد نے اسی موضوع پر ’علاج الہموم‘ کے نام سے ایک مختصر کتابچہ تالیف کیا تھا جس کی افادیت کو دیکھتے ہوئے مولانا نے اس میں بہت سارے اضافہ جات اور مناسب ترمیم کے بعد اردو دان طبقہ کے لیے پیش کیا ہے۔کتاب کا اسلوب اور زبان کا استعمال سادہ اور عام فہم ہے۔ مولانا نے کتاب کے شروع میں کتاب کی چند قسمیں بیان کرنے کے بعد براہ راست کتاب و سنت سے اخذ کرتے ہوئے غموں سے نجات کے طریقے بتلائے ہیں۔ کتاب کے آخر میں غموں کو ختم کرنے کے لیے ابن قیم کے بیان کردہ پندرہ نکات کا خلاصہ بھی درج کیا گیا ہے ۔ غموں اور پریشانیوں سے نبرد آزما ہونے اور اس سلسلہ میں شرعی رہنمائی سے آگاہی کے لیے80 صفحات پر مشتمل اس کتابچے کا مطالعہ بہت ضروری ہے۔ (ع۔م)
کسی بھی شخص کا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ نبی کریمﷺ کو پوری مخلوق سے زیادہ محبت نہ کرے۔ آج امت کی بہت بڑی تعداد زبانی طور پر نبی کریمﷺسے محبت کا دم تو بھرتی ہے لیکن آنحضرتﷺ سےمحبت کی حقیقت، اس کےتقاضوں اور علامتوں سے غافل ہے۔ نبی کریمﷺ سے محبت کے ضمن میں پروفیسر ڈاکٹر فضل الٰہی نے پنےمخصوص انداز میں زیر نظر کتاب مرتب کی ہے۔ جس میں ان سوالات کےجوابات دینےکی کوشش کی گئی ہے: نبی کریمﷺ سے محبت کا حکم کیا ہے؟ نبی کریمﷺ سے محبت کے دنیا و آخرت میں کیا فوائد ہیں؟ نبی کریمﷺ سے محبت کی کیا علامات ہیں؟ صحابہ کرام آپﷺ سے محبت کی علامتوں کے اعتبار سے کیسےتھے؟ اور ہم آپﷺ سے محبت کی علامتوں کے اعتبار سے کیسے ہیں؟ اس موضوع سے متعلق گفتگو کو تین مباحث میں تقسیم کیا گیا ہے۔ مبحث اول نبی کریمﷺ کے ساتھ ساری مخلوق سے زیادہ محبت کرنے کی فرضیت، دوسری مبحث نبی کریمﷺ سے محبت کے فوائد و ثمرات اور تیسری اور آخری مبحث نبی کریمﷺ سے محبت کی علامتوں پر مشتمل ہے۔ اس کے علاوہ کتاب کے آخر میں مصنف نے تین صفحات پر مشتمل مسلمانان عالم کو ایک تنبیہ کی ہے جس میں انھیں یہ سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ آپ ﷺ سے محبت میں کسی بھی طور اعتدال کا دامن ہاتھ نہیں چھوٹنا چاہیے۔(ع۔م)
قربانی ابراہیم ؑ کی عظیم سنت اور رسول مکرم ﷺ کا دائمی عمل ہے۔ پھر اہل اسلام کو اس اہم عمل کی خاصی تاکید کی گئی ہے۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ مسائل قربانی پر ایک ایسی جامع کتاب مرتب کی جائے جو قربانی کے تمام مسائل کو محیط ہو اور اس حوالہ سے کسی مسئلہ کا حل تشنہ نہ رہے۔ پروفیسر ڈاکٹر فضل الٰہی کی زیر نظر کتاب اس سلسلہ کی ایک اہم کوشش و کاوش ہے۔ جس میں قربانی سے متعلقہ بہت سارے مسائل کو بالبداہت بیان کر دیا گیا ہے۔ جس میں قربانی کرنے والے کےلیے ناخن و بال کاٹنے کا حکم، میت کو قربانی میں شریک کرنا، قربانی کے جانور کی عمر، قربانی کے دن، قربانی نماز عید کے بعد کرنا، اونٹ اور گائے میں ایک سے زیادہ افراد کی شرکت اور قربانی کے گوشت کی تقسیم وغیرہ جیسے مسائل پر کتاب و سنت کی درست رہنمائی فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ کتاب کے آخر میں ماہ ذوالحجہ کے آخری دس دنوں کی فضیلت و اہمیت بھی بیان کر دی گئی ہے۔ اہل حدیث علما کے مابین ایک اختلافی مسئلہ میت کی طرف سے قربانی کے جواز یا عدم جواز کا ہے۔ اس سلسلہ میں ڈاکٹر صاحب نے میت کی طرف سے قربانی کے جواز کی جانب رجحان ظاہر کیا ہے۔ جبکہ مولانا عبدالمنان نورپوری ؒ اور دیگر بہت سے اہل حدیث علما کا موقف اس سے مختلف ہے۔ بہر حال قربانی کے عمومی مسائل سے واقفیت کے حوالہ سے یہ کتاب لائق مطالعہ ہے۔(ع۔م)
قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کیا جانے والا ایک معجزہ اور نہایت بابرکت کتاب ہے۔ جس کی تلاوت کرنا اور اپنے عمل کا حصہ بنانا لازم و ملزوم ہے۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ مسلمانان اسلام کی قرآن کے ساتھ جذباتی وابستگی تو ضرور ہے لیکن قرآنی احکامات سے انحراف بھی مسلمانوں کی زندگی کا جزو لازم بن گیا ہے۔ اسی وجہ سے ہرگزرتے دن کے ساتھ غیر مسلم شدت پسند طبقہ کی جانب سے اہانت قرآن کے واقعات میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ قرآن کے ساتھ اپنا تعلق مضبوط کیا جائے اور اس کی تلاوت کے ساتھ ساتھ اس کے معانی کو سمجھا جائے اور عمل کا حصہ بنایا جائے۔ قرآن کریم کی اہمیت و فضیلت سے یقیناً تمام لوگ واقف ہیں۔ اس کے مقام و مرتبے کا کسی حد تک اندازہ اس سے ہی ہو سکتا ہے کہ یہ انسانوں کے رب کی اپنے بندوں سے کیا جانے والا کلام ہے۔اس موضوع پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور بہت لکھا جا رہا ہے۔ زیر مطالعہ کتاب بھی اسی سلسلہ کی ایک اہم کاوش ہے جس میں قرآن مجید میں غوطہ زن ہو کر ا س کے خصائص و محاسن تلاش کیے گئے ہیں۔ کتاب کی تالیف کرنے والے دو حضرات میاں انوار اللہ اور ڈاکٹر حافظ محمد شہباز حسن ہیں۔ جنھوں نے نہایت عرق ریز ی کے ساتھ جہاں مقام قرآن کے حوالے سے اہم نگارشات پیش کی ہیں وہیں قرآن سے متعلقہ دیگر بہت سے مسائل پر علمی انداز میں روشنی ڈالی ہے۔ (ع۔م)
نماز میں رفع الیدین کرنا نبی کریمﷺ کی سنت ثابتہ ہے لیکن بہت سے لوگ مختلف دلائل کے باوصف رفع الیدین کے بغیر نماز ادا کرتے ہیں۔ کبھی اس کو منسوخ قرار دیا جاتا ہے تو کبھی سنت متواترہ کے خلاف ہونے کا نعرہ مستانہ بلند کیا جاتا ہے۔ بعض اوقات اشتہارات یا رسائل میں ایسے مضامین شائع کیے جاتے ہیں جن میں رفع الیدین کے منسوخ ہونے کا فتویٰ دیا جاتا ہے۔ چند سال قبل فیصل آباد سے اسی قسم کا ایک اشتہار شائع ہوا جس میں ترک رفع الیدین کے دلائل جمع کیے گئے تھے حافظ محمد ادریس کیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس اشتہار کا مدلل تجزیہ کیا اور عدم رفع الیدین کے تمام دلائل کا نہایت شرح و بسط کے ساتھ جواب دیا۔ جو ماہنامہ ’حرمین‘ جہلم میں دو اقساط میں شائع ہوا۔ یہ مضمون زیر نظر کتابچہ کی صورت میں پیش کیے جارہے ہیں۔ (ع۔م)
عام زندگی میں ہر انسان کو خوابوں سے واسطہ رہتا ہے جہاں انسان اچھا خواب دیکھ کر خوش ہوتا ہے وہیں برا خواب دیکھ کر پریشان بھی ہو جاتا ہے۔ خوابوں سے متعلق مناسب شرعی رہنمائی نہ ہونے کی وجہ سے بہت سارے لوگ فقط نیند میں نظر آنے والے واقعات پر کچھ غیر شرعی افعال سرانجام دینے لگتے ہیں۔ بہر حال شریعت مطہرہ نے اس سلسلہ میں بھی انسان کی کامل رہنمائی فرمائی ہے۔ پچاس کے قریب صفحات پر مشتمل زیر نظر کتابچہ میں مولانا اختر صدیق نے اسی شرعی رہنمائی کو اختصار کے ساتھ قلمبند کر دیا ہے۔ مولانا موصوف فاضل مدینہ یونیورسٹی اور جامعہ لاہور الاسلامیہ کے سابق استاد ہیں۔ کتابچہ کی دو حصوں میں تقسیم کی گئی ہے پہلے حصہ میں خواب کے آداب، اقسام اور خواب سے متعلقہ شرعی رہنمائی کا تذکرہ ہے جبکہ دوسرے حصہ میں اچھے اور بہترین خواب کے اسباب، کیا اللہ تعالیٰ کو خواب میں دیکھا جا سکتا ہے؟ نبی کریمﷺ کو خواب میں دیکھنا کیسا ہے؟ جیسے مباحث پیش کیے گئے ہیں۔ خوابوں سے متعلقہ شریعت کی عام تعلیمات سے واقفیت کے لیے اس کتابچہ کا مطالعہ نہایت مفید ہے۔(ع۔م)
اللہ تعالیٰ نے خواتین کے لیے بہترین مقام ان کا گھر قرار دیا ہے۔ لیکن شریعت نے ضروری کاموں کے سلسلہ میں انھیں گھر سے باہر نکلنے کی بھی اجازت دی ہے۔ انہی ضروری کاموں میں ایک بازار جانا اور خریداری کرنا ہے۔ اس سلسلہ میں ہماری بہت سی بہنوں کا انداز ہر گزرتے دن کے ساتھ بہت بے باکانہ ہوتا چلا جا رہا ہے، چھوٹی چھوٹی ضرورت کے لیے بازار جانا معمول بن گیا ہے، حالانکہ ایک ہی وقت میں بازار جا کر ضروری چیزیں خریدی جا سکتی ہیں۔ اور تو اور ہماری بہت سی بہنیں اپنی کلائیاں غیر محرم مردوں کے ہاتھوں میں دے کر چوڑیاں چڑھانے میں مصروف نظر آتی ہیں اس کے علاوہ ایک ناشائستہ حرکت خاص طور پر عید کے دنوں میں یہ دیکھنے میں آتی ہےکہ مہندی لگوانے کے لیے بھی مرد حضرات کا چناؤ کیا جاتا ہے۔ بہر حال اس سلسلہ میں خواتین کو دینی تعلیمات کو یکسر فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ زیر مطالعہ کتابچہ بھی مولانا اختر صدیق نے اسی مقصد کے تحت تالیف کیا ہے کہ خاتون اسلام کو شاپنگ سے متعلقہ دینی احکامات سے آگاہی دی جائے۔ اس سلسلہ میں انہوں نے بہت سے اہم امور کی طرف اشارہ کیا ہے جن کا اگر خواتین اہتمام کریں تو بہت ساری خرابیوں سے بچا جا سکتا ہے۔ خواتین کے لیے اس کتابچہ کامطالعہ خاصا مفید ہے۔(ع۔م)
قرآن مجید کو اللہ تعالیٰ نے بندوں کی رشد و ہدایت کے لیے نازل فرمایا۔ یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل کیا جانے والا ایک معجزہ ہے اس کی ایک واضح دلیل یہ ہے کہ عرب لوگ باوجود فصیح و بلیغ ہونے کے قرآن کریم جیسی ایک آیت لانے سے بھی قاصر رہے۔ قرآن کریم کو اللہ تعالیٰ نے ترتیل کے ساتھ پڑھنے کا حکم دیا ہے فلہٰذا ضروری ہے کہ قرآن کریم کو اسی طرح پڑھا جائے جس طرح پڑھنے کا حق ہے ۔ اور یہ حق اسی طور پر ادا ہو سکتا ہے جب قرآن کو صحیح تلفظ اور قواعد تجوید کے مطابق پڑھا جائے۔ شیخ القرا قاری ادریس عاصم صاحب کو فن تجوید و قراءات میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ اس سلسلہ میں آپ کی خدمات اظہر من الشمس ہیں زیر نظر رسالہ بھی اسی فن کے حوالہ سے آپ کا عوام و خواص کے لیے ایک قیمتی تحفہ ہے۔ جس میں عام فہم انداز میں تجوید کے قواعد اسی غرض سے جمع کیے گئے ہیں کہ حفاظ و طلبا اس کو آسانی سے یاد کر سکیں۔ اور ان قواعد کی روشنی میں قرآن کریم صحیح پڑھنے کی مشق کریں۔ کتاب میں ایک جگہ پر قاری صاحب نے مخارج کا نقشہ بھی پیش کیا ہے۔ علاوہ بریں بعض عیوب تلاوت اور علامات وقوف پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ کتاب کے اخیر میں حافظ صاحب نے اپنی مکمل روایت حفص کی سند بھی لکھی ہے۔(ع۔م)
قاری ابراہیم میر محمدی علمی دنیا کی جانی مانی شخصیت ہیں خاص طور پر انہوں نے خدمت قرآن اور قراءات کے حوالے سے کارہائے نمایاں سرانجام دئیے ہیں۔ عوام الناس کے قرآن کے تلفظ کی درستی کے لیے اور تجوید سے آگاہی کے لیے آپ نے کافی سارے کتابچے اور کتب لکھیں۔ زیر نظر رسالہ میں بھی موصوف قاری صاحب نے فن تجوید کے مسائل کو اختصار اور احسن انداز سے بیان کیا ہے، اور متشابہ الصوت حروف کی پہلے مفردات میں پھر مرکبات میں اور ساتھ ہی حرکات ثلاثہ کی آسان انداز سے مشق کرائی ہے۔ جس سے تلفظ کی درستی کے ساتھ ساتھ حرکات کو مجہول کی بجائے معروف پڑھنا بھی آ جائے گا۔ قاری صاحب نے کتاب کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ پہلا حصہ ملتی جلتی آوازوں والے حروف اور دوسرا حصہ تجوید کے چند ضروری احکام پر مشتمل ہے۔ کتابچہ کے اخیر میں واضح الفاظ میں اس فن کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ 66 صفحات پر مشتمل یہ کتابچہ فن تجوید سے شد بد کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ (ع۔م)
جب اسلام کی دعوت جزیرۃ العرب سے نکل کر باقی دنیا میں پھیلی اور کثیر آبادی اسلام کے سایہ امن و عاطفت میں آئی تو قرآن مجید کا سمجھنا، حدیث سے واقف ہونا، نت نئے مسائل کا استنباط کرنا اور بدلتے ہوئے حالات میں اسلام کی ترجمانی اور مسلمانوں کی رہنمائی کا فرض انجام دینا علمائے کرام کے لیے فرض لازم ٹھیرا۔ اس کے لیے نہ ترجمہ کافی تھا، نہ عربی زبان کی سرسری واقفیت کام دے سکتی تھی بلکہ اس سے ایسی گہری فنی واقفیت ضروری تھی جس کی بدولت غلطی کا امکان کم سے کم اور کتاب وسنت کے علم و فہم اور صحیح ترجمانی کی زیادہ سے زیادہ صلاحیت پیدا ہو، اس مقصد کے تحت عربی کے قواعد و ضوابط پر کامل عبور شرط لازم کی حیثیت رکھتا تھا۔ یہی وہ مرحلہ تھا جب صرف و نحو کی تدوین اور اس سلسلے میں کتابوں کی تصنیف کی ضرورت پیش آئی۔ اس سلسلہ میں جہاں عربی علما نے بہت سی قیمتی تصنیف فرمائی وہیں عجمی علما بھی ان سے کسی طور پیچھے نہیں رہے اور صرف و نحو کے قواعد پر مشتمل بیش بہا کتب تحریر فرمائیں۔ یاد رہے کہ فن صرف علم نحو ہی کی ایک شاخ ہے، شروع میں اس کے مسائل نحو ہی کے تحت بیان کیے جاتے تھے۔ مولانا مشتاق احمد چرتھاولی نے علم نحو پر کتاب تالیف فرمائی تو اس کو مدارس نے ہاتھوں ہاتھ لیا اس کے بعد انھوں نے ’علم الصرف‘ کے نام سےایک مختصر کتاب تصنیف فرمائی۔ پیش نظر کتاب ’علم الصرف اخیرین‘ اسی کتاب کا دوسرا حصہ ہے۔(ع۔م)
جب اسلام کی دعوت جزیرۃ العرب سے نکل کر باقی دنیا میں پھیلی اور کثیر آبادی اسلام کے سایہ امن و عاطفت میں آئی تو قرآن مجید کا سمجھنا، حدیث سے واقف ہونا، نت نئے مسائل کا استنباط کرنا اور بدلتے ہوئے حالات میں اسلام کی ترجمانی اور مسلمانوں کی رہنمائی کا فرض انجام دینا علمائے کرام کے لیے فرض لازم ٹھیرا۔ اس کے لیے نہ ترجمہ کافی تھا، نہ عربی زبان کی سرسری واقفیت کام دے سکتی تھی بلکہ اس سے ایسی گہری فنی واقفیت ضروری تھی جس کی بدولت غلطی کا امکان کم سے کم اور کتاب وسنت کے علم و فہم اور صحیح ترجمانی کی زیادہ سے زیادہ صلاحیت پیدا ہو، اس مقصد کے تحت عربی کے قواعد و ضوابط پر کامل عبور شرط لازم کی حیثیت رکھتا تھا۔ یہی وہ مرحلہ تھا جب صرف و نحو کی تدوین اور اس سلسلے میں کتابوں کی تصنیف کی ضرورت پیش آئی۔ اس سلسلہ میں جہاں عربی علما نے بہت سی قیمتی تصنیف فرمائی وہیں عجمی علما بھی ان سے کسی طور پیچھے نہیں رہے اور صرف و نحو کے قواعد پر مشتمل بیش بہا کتب تحریر فرمائیں۔ یاد رہے کہ فن صرف علم نحو ہی کی ایک شاخ ہے، شروع میں اس کے مسائل نحو ہی کے تحت بیان کیے جاتے تھے۔ مولانا مشتاق احمد چرتھاولی نے علم نحو پر کتاب تالیف فرمائی تو اس کو مدارس نے ہاتھوں ہاتھ لیا اس کے بعد انھوں نے ’علم الصرف‘ کے نام سے زیر نظر کتاب تصنیف فرمائی۔یہ قواعد صرف پر مشتمل ایک اہم تصنیف ہے جس میں صرف کے قواعد کی تفہیم کے لیے نہایت آسان انداز اختیار کیا گیا ہے تاکہ مدارس کے ابتدائی جماعتوں کے طلبا اس سے کسی مشکل میں پڑے بغیر استفادہ کر سکیں۔ (ع۔م)
جب اسلام کی دعوت جزیرۃ العرب سے نکل کر باقی دنیا میں پھیلی اور کثیر آبادی اسلام کے سایہ امن و عاطفت میں آئی تو قرآن مجید کا سمجھنا، حدیث سے واقف ہونا، نت نئے مسائل کا استنباط کرنا اور بدلتے ہوئے حالات میں اسلام کی ترجمانی اور مسلمانوں کی رہنمائی کا فرض انجام دینا علمائے کرام کے لیے فرض لازم ٹھیرا۔ اس کے لیے نہ ترجمہ کافی تھا، نہ عربی زبان کی سرسری واقفیت کام دے سکتی تھی بلکہ اس سے ایسی گہری فنی واقفیت ضروری تھی جس کی بدولت غلطی کا امکان کم سے کم اور کتاب وسنت کے علم و فہم اور صحیح ترجمانی کی زیادہ سے زیادہ صلاحیت پیدا ہو، اس مقصد کے تحت عربی کے قواعد و ضوابط پر کامل عبور شرط لازم کی حیثیت رکھتا تھا۔ یہی وہ مرحلہ تھا جب صرف و نحو کی تدوین اور اس سلسلے میں کتابوں کی تصنیف کی ضرورت پیش آئی۔ اس سلسلہ میں جہاں عربی علما نے بہت سی قیمتی تصنیف فرمائی وہیں عجمی علما بھی ان سے کسی طور پیچھے نہیں رہے اور صرف و نحو کے قواعد پر مشتمل بیش بہا کتب تحریر فرمائیں۔ زیر نظر کتاب ’علم النحو‘ بھی اس سلسلہ کی ایک اہم کتاب ہے جو مدارس کی ابتدائی کلاسوں کے طلبہ کے لیے خاصے کی چیز ہے۔ اور اکثر پاکستانی مدارس میں طلبہ کو یہی کتاب سبقاً پڑھائی جاتی ہے۔ کتاب کے مصنف مولانا مشتاق احمد چرتھاولی ہیں جنھوں نے نہایت آسان انداز میں قواعد نحو کو ترتیب دیا ہے۔ یہ کتاب بہت سالوں قبل لکھی گئی اس لیے اس کا اسلوب بھی خاصا پرانا ہوچکا ہے۔ دور جدید کے علما نے علم نحو و صرف پر جدید انداز میں کتب تالیف فرمائی ہیں جن کی اہمیت و افادیت اس کتاب سے بھی بڑھ کر ہے۔(ع۔م)
زیر مطالعہ کتاب کلمات قرآنیہ کے ضبط پرمشتمل ایک رہنما کتاب ہے، جس کا مقصد طالبان علم کو علم الضبط کے فنی مبحاحث سے روشناس کرانا ہے۔ کتاب کے مؤلف جامعہ لاہور الاسلامیہ کے سابق استاد اور مجلس التحقیق الاسلامی کے سابق رکن قاری محمد مصطفیٰ راسخ ہیں۔ صاحب علم شخصیت اور فن قراء ات میں ید طولیٰ رکھتے ہیں۔انہوں نے کتاب میں اس امر کی پوری کوشش کی ہے کہ عبارت انتہائی آسان، سلیس، عام فہم اور رواں ہو۔ بے جا طوالت سے اجتناب کرتےہوئے حتی المقدور مختصر اور جامع بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ کتاب بارہ فصلوں پر مشتمل ہے۔ ہر فصل کے آخر میں تمرینات دی گئی ہیں تاکہ اصول کے حفظ کے ساتھ ساتھ عملی مشق بھی ہوتی جائے۔ کتاب کی افادیت میں یہ بات مزید اضافہ کر دیتی ہے کہ شیخ القرا قاری محمد ابراہیم میر محمدی نے اپنے قلم ثمین سے اس کی نظر ثانی کے ساتھ ساتھ متعدد مقامات پر اصلاح بھی فرمائی ہے۔ (ع۔م)
فقہا کی اختلافی آرا اور ان کے دلائل کاتنقیدی مطالعہ ایک دلچسپ موضوع ہے۔ تیسری اور چوتھی صدی کے فقہا نے اس موضوع کی طرف توجہ کی اور اختلاف فقہا پر مستقل کتابیں لکھیں۔ محمدبن نصر المروزی، محمد بن جریر طبری اور ابو جعفراحمد بن محمد الطحاوی نے اس موضوع پر بسیط کتب تحریر فرمائیں۔ برصغیر کے معروف فقیہ شاہ ولی اللہ نے اس موضوع پر دو رسالے تحریر فرمائے۔ ایک رسالہ تو اجتہاد و تقلید پر اصولی بحث ہے لیکن اس کتاب کا ایک باب اختلاف فقہا اور اس کے اسباب و علل پر ہے۔ شاہ صاحب کا دوسرا رسالہ ’رسالہ الانصاف فی بیان سبب الاختلاف‘ ہے۔ اس رسالہ میں ائمہ فقہا کے اسباب و علل پر بھی گفتگو کی ہے اور بعض اہم فقہی فقہی مسالک میں تطبیق کی سعی بھی کی ہے۔ زیر تبصرہ کتاب میں بھی پروفیسر مصطفیٰ سعید الخن نے اس موضوع پر اسلاف کے ذخیرہ علم کو پیش نظر رکھ کر قواعد اصولیہ کا علمی جائزہ لیا ہے اور قواعد اصولیہ میں اختلاف کی وجہ سے جو اثرات اختلاف الفقہا پر مرتب ہوئے ہیں ان کو بالتفصیل بیان کیا ہے۔ اس کتاب کی علمی حیثیت اور موجودہ دور میں اس کی افادیت کے پیش نظر شریعہ اکیڈمی نے اس کا اردو ترجمہ کرایا ہے۔ شریعہ اکیڈمی کے فاضل نوجوان مولانا حبیب الرحمٰن نے اس کتا ب کو اردو میں ترجمہ کرنے کا کام سرانجام دیا ہے۔ اصول فقہ اور قواعد اصولیہ کے فنی مباحث کو بڑی محنت سے انھوں نے رواں اردو میں منتقل کیا ہے۔ (ع۔م)
قرآن مجید کو اللہ تعالیٰ نے بندوں کی رشد و ہدایت کے لیے نازل فرمایا۔ یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل کیا جانے والا ایک معجزہ ہے اس کی ایک واضح دلیل یہ ہے کہ عرب لوگ باوجود فصیح و بلیغ ہونے کے قرآن کریم جیسی ایک آیت لانے سے بھی قاصر رہے۔ قرآن کریم کو اللہ تعالیٰ نے ترتیل کے ساتھ پڑھنے کا حکم دیا ہے فلہٰذا ضروری ہے کہ قرآن کریم کو اسی طرح پڑھا جائے جس طرح پڑھنے کا حق ہے۔ فن تجوید پر اب تک اردو میں بہت سارے رسائل و کتب لکھی جا چکی ہیں۔ جن سے استفادہ کرنا نہایت سہل اور آسان ہے۔ اس سلسلہ کی بہت سی کتب کتاب و سنت ڈاٹ کام پر پہلے سے موجود ہیں۔ پیش نظر کتاب بھی انہی کتب میں ایک اضافہ ہے۔ جو کہ قاری ابراہیم میر محمدی حفظہ اللہ کے چھوٹے بھائی قاری سلمان احمد میر محمدی کی کاوش ہے۔ قاری صاحب اپنی کتاب میں تجوید کے تقریباً تمام اساسی قواعد لے آئے ہیں اور نہایت سہل انداز میں لائے ہیں۔ مبادیات تجوید، مخارج، صفات سے لے کر ادغام اور سکتہ تک کے تمام تر قواعد کتاب کا حصہ ہیں۔کتاب کے آخر میں تجوید سے متعلقہ بعض ضروری مسائل بھی بیان کر دئیے گئے ہیں۔(ع۔م)
امام عبداللہ ابو محمد بن ابی زید القیروانی کا شمار چوتھی صدی ہجری کے محدثین و فقہا میں ہوتا ہے، آپ نے ’الرسالہ‘ کے نام سےایک مبسوط کتاب تالیف فرمائی۔ اور اس کتاب پر ایک جامع مقدمہ تحریر فرمایا۔ جو اگرچہ بہت مختصر ہے لیکن اس میں علوم و معارف اورمعانی و مطالب کا ایک بحر زخار موجزن ہے۔ بہ بات مبنی برحقیقت ہے کہ امام صاحب نے اصول و فروع کے حوالے سے ان چند سطور کے کوزے میں دریا بند کردیا ہے۔ اس مختصر مقدمہ کو وقت کے عظیم محدث، سابق وائس چانسلر مدینہ یونیورسٹی فضیلۃالشیخ عبدالمحسن بن حمد العباد نےایک نہایت نفیس اور لطیف شرح کے ساتھ مزین فرمایا ہے۔ آپ عصر حاضر میں منہج سلف صالحین کےامین و محافظ تصور کیے جاتے ہیں۔ تحریر و تقریر میں بہت نمایاں اور منفرد مقام کے حامل ہیں۔ اس کتاب میں شیخ موصوف نے ہر مسئلہ پر قرآن و حدیث کا انبار لگا دیاہے، نیز جا بجا ائمہ سلف کے ذکر سے کتاب کی اہمیت و افادیت کو مزید بڑھا دیا ہے۔ یہ کتاب اصول وفروع کا ایک حسین امتزاج ہونے کے ساتھ ساتھ، تمام مسائل عقیدہ کو کتاب وسنت، اقوال سلف صالحین کی روشنی میں پیش کرنے کا گرانقدر مجموعہ ہے۔(ع۔م)
شاہ ولی اللہ دہلوی برصغیر کی جانی مانی علمی شخصیت ہیں۔ شاہ صاحب بنیادی طور پر حنفی المسلک تھے۔ وہ دور برصغیر میں تقلیدی جمود کا دور تھا اور فقہ حنفی کو حکومتی سرپرستی حاصل تھی۔شاہ ولی اللہ جیسے ماہر فقہ نے اسی مکتبہ فکر میں پرورش پائی تھی۔ لیکن جب آپ حج کے لیے مکہ گئے تو وہاں سے عرب شیوخ سے درس حدیث لیا یہیں سے آپ کی طبیعت میں تفہیم دین بارے تقلیدی جمود کے خلاف تحریک اٹھی۔ وہاں سے تشریف لاکر سب سے پہلے آپ نے برصغیر کے عوام کو اپنی تحریروں سے یہ بات سمجھادی کہ دین کسی ایک فقہ میں بند نہیں بلکہ چاروں اماموں کے پاس ہے۔ یہ جامد تقلید کے خلاف برصغیر میں باضابطہ پہلی کوشش تھی۔ اس کے بعد شاہ صاحب نے ساری زندگی قرآن و سنت کو عام کرنے کے لیے وقف کردی۔ پیش نظر کتاب ’حجۃ اللہ البالغۃ‘ بھی موصوف ہی کی مشہور و معروف تالیف ہے جس میں آپ نے نہایت شرح و بسط کے ساتھ احکام شرع کی حکمتوں اور مصلحتوں پر روشنی ڈالی ہے۔یہ کتاب انسانوں کے شخصی اور اجتماعی مسائل، اخلاقیات، سماجیات او راقتصادیات کی روشنی میں فلاح انسانیت کی عظیم دستاویز کا خلاصہ ہے۔ اردو ترجمہ کرنے کے فرائض مولانا خلیل احمد بن مولانا سراج احمد نے ادا کیے ہیں۔ یہ اردو ترجمہ خاصا پرانا ہے اس لیے بہت سارے ایسے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں جو موجودہ اردو کتب میں متروک ہو چکے ہیں۔ اور کتابت بھی ہاتھ سے کی گئی ہے جس کی وجہ سے کتاب کا مطالعہ کرنا قدرے مشکل ہو گیا ہے۔ کتاب کی افادیت کی پیش نظر اس کو جدید اسلوب میں شائع کرنے کی ضرورت ہے۔(ع۔م)
دین اسلام کا عطا کردہ نظام حقوق فلسفہ و حکمت سے بھرپور ہے۔ یہی نظام، عدل و انصاف کا حامل ہے جو معاشرے کو حقیقی امن و آشتی کا گہوارہ بناتے ہوئے ایک فلاحی مملکت کی حقیقی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ اسی کے پیش نظر ضرورت تھی کہ محمد رسول اللہﷺ کے نظام حقوق و فرائض کو موضوع تحریر بنایا جائے جو درحقیقت انسانی حقوق کا بے مثال عالمی چارٹر ہے اور جسے سب سے پہلا منشور انسانی حقوق ہونے کا شرف حاصل ہے۔ زیر نظر کتاب ’اسلام کا نظام حقوق و فرائض‘ میں ابوحمزہ عبدالخالق صدیقی اور حافظ حامد محمود الخضری نے اسی موضوع پر قلم اٹھایا ہے۔ کتاب 28 ابواب اور 288 صفحات پر مشتمل ہے جن میں سے کچھ ابواب محض ایک یا دو صفحات پر بھی محیط ہیں۔ ان ابواب میں اللہ تعالیٰ کے حقوق، نبی کریمﷺ کے حقوق، قرآن کریم، صحابہ کرام، اہل علم، والدین ، اولاد اور دیگر لوگوں کے حقوق پر مشتمل ہے۔ ایک اہم باب دنیا کا پہلا دستوری عہد و پیمان میثاق مدینہ کے عنوان سے ہے جو اہم اور لائق مطالعہ ہے۔ آخری باب انسانی حقوق کا عالمی چارٹر خطبہ حجۃ الوداع کے موضوع پر ہے، جو چھ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس باب کی اہمیت کے پیش نظر اس کی مزید شرح و وضاحت کی ضرورت محسوس ہورہی ہے۔(ع۔م)
چہرے کا پردہ واجب ہے مستحب یا بدعت؟ اس سلسلہ میں ماضی قریب کے معتبر عالم دین علامہ ناصر الدین البانی کا موقف استحباب کا ہے۔ البتہ فتنہ کے اندیشہ کی صورت میں وہ بھی چہرے کے پردے کے وجوب کے قائل ہیں۔ لیکن موجودہ دور کے متجددین حضرات چہرے کے پردہ کے سرے سے قائل ہی نہیں ہیں بلکہ ان کےموقف کے مطابق یہ بدعت کی صورت اختیار کر جاتا ہے۔ اس سلسلہ میں محترم حافظ محمد زبیر اور پروفیسر خورشید صاحب کے مابین طویل سلسلہ مضامین رہا ہے۔ پروفیسر خورشید صاحب چہرے کے پردہ کے سلسلہ میں ماہنامہ ’اشراق‘ میں لکھتے رہے ہیں جبکہ اس کے جواب میں حافظ محمد زبیر ماہنامہ ’حکمت قرآن‘ میں اپنی آرا کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب’ چہرے کا پردہ واجب ہے مستحب یا بدعت؟ ‘حافظ صاحب کے انہی مضامین کی یکجا صورت ہے، جن کو حافظ صاحب نے مزید تنقیح و تہذیب اور حک واضافہ کے بعد افادہ عام کے لیے پیش کیا ہے۔ حافظ صاحب نے کتاب میں جواضافے کیے ہیں ان میں بطور خاص اس طرف اشارہ کرنا ضروری ہے کہ علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ’جلباب المراۃ المسلمۃ‘ میں بیان کردہ احادیث و آثار کا تفصیلی جواب دیا گیا ہے۔ اس کتا ب میں چہرے کے پردے کے حوالے سے ہر نوع کے ان اشکالات کا بھی علمی محاکمہ کیا گیا ہے جو اپنوں یا غیروں نے علمی بنیادوں یا محض جہالت کی بنا پر اٹھائے ہیں۔ (ع۔م)
دین اسلام میں نمازکی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ رسول اکرمﷺنے نماز کی ادائیگی پر بہت زیادہ زور دیا ہے اور نماز چھوڑنے پر بہت سخت وعیدیں فرمائی ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے مسلمانوں کی کثیر تعداد اس اہم ترین فریضے سے غافل ہوچکی ہے اور نمازوں کی ادائیگی کا وہ اہتمام نہیں رہا ہے جو اسلام کا تقاضہ ہے۔ نماز کی فضیلت و اہمیت اور تارک نماز کے حکم بارے شیخ صالح العثیمین نے ایک رسالہ ترتیب دیا اسی رسالے کا اردو قالب آپ کےسامنے ہے۔ اردو ترجمہ کرنےکے فرائض ابو شعیب عبدالکریم عبدالسلام مدنی نے ادا کیے ہیں۔ علمائے اسلام کا اس مسئلہ میں اختلاف ہے کہ نماز کو ترک کرنے والا کافر ہے یا نماز کا انکار کرنے والا۔ شیخ صاحب کا اس سلسلہ میں موقف یہ ہے کہ فقط نماز ترک کرنے ہی سے ایک مسلمان کفر کی سرحدوں میں داخل ہو جاتا ہے اور دائرہ اسلام سے نکل جاتا ہے۔ 71 صفحات پر محیط یہ رسالہ دو فصلوں پر مشتمل ہے۔ پہلی فصل میں نماز چھوڑنے والے کے حکم کا بیان ہے جبکہ دوسری فصل میں نماز چھوڑنے سے مرتد ہونے پر جو احکام مرتب ہوتے ہیں ان کا بیان ہے۔ (ع۔م)
ہمارے حنفی بھائیوں کی طرف سے اکثر اہل حدیث حضرات کی نماز پر اعتراضات وارد کیے جاتے ہیں۔ اسی سلسلہ میں ضلع دھرم پوری کرناٹک کے احناف نے اہل حدیث کےخلاف ایک رسالہ شائع کیا جس میں اہل حدیث کے سنت کے مطابق نماز ادا کرنے پر خاص طور سے اعتراضات تھے۔ اسی رسالہ کے جواب میں زیر تبصرہ کتاب وجود میں آئی۔ جس میں اہل حدیث نماز کے تمام مسائل کو خود حنفی مذہب کی کتابوں اور فقہائے حنفیہ کے فتاویٰ سے ثابت کیا گیا ہے اور احادیث کی مدد سے نماز کی صحیح اور مسنون صورت کی تصویر کشی کی گئی ہے۔(ع۔م)
اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کی حفاظت کے لیے مسلمانوں کو دعوت و انذار کےبعد انتہائی حالات میں اللہ کے دشمنوں سے لڑنے کی اجازت دی ہے او راللہ کے راستے میں لڑنےوالے مجاہد کے لئے انعام و اکرام اور جنت کا وعدہ کیا ہے اسی طرح اس لڑائی کو جہاد جیسے مقدس لفظ سے موسوم کیا ہے۔تاریخ شاہد ہے کہ جب تک مسلمانوں میں جہاد جاری رہا اس وقت تک اسلام کاغلبہ کفار پر پوری آب و تاب سے قائم تھا جونہی مسلمانوں نےاپنی بداعمالیوں اور تعیش پرستی کی وجہ سے جہاد فی سبیل اللہ کو چھوڑ دیا تو ذلت و مسکنت ان کا مقدر بن گئی۔ اور آج عالم اسلام کی حالت زار سے یہ معلوم کیا جاسکتا ہے کہ وہ کس قدر ذلت و رسوائی کا شکار ہے۔کفار ملت واحد بن کر بھیڑیوں کی طرح اہل اسلام پر ہر طرف سےجھپٹ رہے ہیں اور اُمت مسلمہ دشمن اسلام کے لگائے ہوئے گھاؤ سے گھائل جسم لئے ہوئے سسکیاں لے رہی ہے۔یقیناً جہاد جسےنبیؐ نے اسلام کی چوٹی کہا ہے جب تک اس علم کو تھاما نہیں جاتا ۔مسلمانوں کے ذلت و رسوائی اور مسکنت کے ادوار ختم نہیں ہوسکتے۔ زیر نظر کتاب حافظ ابن عساکر کی جہاد کے فضائل پر چالیس احادیث پر مشتمل مرتبہ ہے۔ ابن عساکر چونکہ احادیث مرتب کرتے ہوئے روایات کی استنادی حالت کا خیال نہیں رکھتے او رمذکورہ کتاب میں بھی انہوں نے ضعیف اور موضوع روایات تک ذکر کردی ہیں چونکہ مجموعی طور پر فضائل جہاد پر اسلاف کی کاوش کا یہ ایک گراں مایہ سرمایہ تھا۔لہٰذا اس کی افادیت کے پیش نظر حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ ان احادیث کی تخریج و تحقیق اور فوائد بھی مرتب کردیئے ہیں۔ حافظ زبیر علی زئی صاحب کے محتاط قلم سے روایات پر حکم اور تعلیقات کی وجہ سے یہ کتاب علمی ثقاہت کے قابل اعتبار اور منفرد حیثیت اختیار کرگئی ہے۔(ک۔ط)
فضیلۃ الشیخ علامہ ناصر الدین البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی پوری زندگی کتاب و سنت کے فروغ کے لیے وقف کیے رکھی۔ آپ نے سلفی منہج اپنانے اور اسی کو راہِ نجات کہنے میں کوئی باک محسوس نہیں کیا۔ علامہ موصوف نے ایسے وقت میں قرآن و سنت کی روشن تعلیمات کو دلائل کی روشنی میں واضح کیا جب عالم اسلام میں اسلام کے نام پر درجنوں تحریکیں اور تنظیمیں وجود میں آ چکی ہیں لیکن ان میں سے اکثر اسلام کی روح سے ناواقف ہیں۔ ایسے ناگفتہ بہ حالات میں علامہ البانی نے سلف صالحین کا قرآن و سنت کو سمجھنے کا طریقہ واضح کرنے کے لیے دروس کا مستقل سلسلہ شروع کیا۔ سلف کسے کہتے ہیں؟ موجودہ سلفی تحریک کا ان سے کیا تعلق ہے؟ اس تحریک کا منہج دعوت و تبلیغ کیا ہے؟ شیخ موصوف نے اپنے دروس میں دلائل کی روشنی میں اسی مفہوم کو واضح کیاہے۔ اسلام کے نام پر باطل تحریکوں اور تنظیموں کی حقیقت بیان کرتے ہوئے اسلام کا صحیح مفہوم پیش کیا ہے۔ یہ دروس عربی میں تھے اور کیسٹس کی صورت میں تھے جس کو عمرو عبدالمنعم سلیم نے کتابی شکل میں پیش کیا۔ اردو دابن طبقے کے لیے محترم ابو حماد عبدالغفار المدنی نے ان دروس کا سلیس اور شستہ اردو ترجمہ کر دیا ہے۔ سلفی منہاج کی تمام تر مبادیات کو سمجھنے کے لیے یہ کتاب بہترین اور ہر خاص و عام کے لائق مطالعہ ہے۔ (ع۔م)