نام: علی بن حسن۔
ولدیت: حسن بن هبة الله
کنیت: ابوالقاسم۔
لقب: ثقة الدین ناصرالسنة
نسب نامہ:
ابوالقاسم علی بن حسن بن هبة الله بن عبدالله بن حسین ثقة الدین ناصر السنة ابن عساکر الدمشقی۔
ولادت:
حافظ ابن عساکر دمشق میں محرم کے مہینہ میں 499 ھ بمطابق 1105 میلادی میں پیدا ہوئے۔
تعلیم وتربیت:
ابن عساکر کے والد گرامی ایک متفی پرہیز گار اور پختہ کار عالم تھےاور ان کے بھائی الصائین بن ھبۃ بن حسن بھی قرآن و سنت کاعلم جاننے والے اور ثقہ اور فقہی تھے۔
اپنے والد اور چچا کے پاس تعلیم کا آغاز کیا اور علم کی منزلیں طے کرنے لگے۔
مختلف مدارس اور مختلف اساتذہ کرام سے تفسیر حدیث فقہ ادب تاریخ کا علم حاصل کیا ۔
مختلف بلادوامصار کے اسفاراختیار کیے اور بہت زیادہ شیوخ سے حدیث کا سماع کیا۔
اور اجازہ حاصل کیا۔زہبی نے اعلام میں ان کی تعداد جن سے آپ نے سماع کیاہے ایک ہزار آٹھ سو(1800)لکھی ہے۔
اساتذہ:
1۔ حسن بن ھبۃ اللہ ۔2 ۔الصائین بن ھبۃ اللہ۔3 ۔ابن قیس۔4 ۔ابی الحسن السلمی۔5 ۔ابی نصرالمقدسی۔6 ۔ابی الفرج غیث بن علی الصوری ۔۔7 عبدالکریم بن حمزہ السلیم۔8 ۔ابی القاسم النیۃ۔9 ۔ابی محمدبن الاکفانی ۔
تصانیف:
ابن عساکر کی چند ایک تالیفات کے نام درج ذیل ہیں۔
1۔معجم الصحابة۔
2-معجم النسوان۔
3۔معجم اسماءالقری والامصار۔
4۔معجم الشیوخ والنبلاء۔
5۔کشف المغلطی فی فصل الموطا۔
6۔التبیین فی کذب المفتری علی الامام الاشعری۔
7۔تاریخ دمشق۔
اس کے علاوہ اور بھی کتب ابن عساکر کے قلم سے صفحہ قرطاس پراتری ہیں۔
کلمات و ثناء:
حافظ ابن عساکر ایک جلیل القدر عالم حدیث و فقہ و تاریخ تھے۔بہت سے لوگوں نے ان کی مدح سرائی کی ہے ۔سمعانی کہتے ہیں ابن عساکر بہت زیادہ علم رکھنے والے اور فضل رکھنے والے حافظ متقن اسلام پرپکے متون حدیث اور اسانید حدیث کا علم رکھنےایک بےمثل انسان تھے۔ابوالھواھب کہتے ہیں کہ میں نے ابن عساکر جیسا شخص نہیں دیکھا جس نے کتاب و سنت کے احکام کو اس طریقہ سے جمع کیا ہو جس طرح ابن عساکرنےکیا ہے۔(بعض احکام صف اول کے بارہ میں اعتکاف رمضان اور عشرہ زی الحجہ کے احکام کو)امام نووی ابن عساکر کے بار ہ میں لکھتے ہیں ۔ابن عساکر شام کے حافظ تھے شام ہی نہیں بلکہ پو ری دنیا کے حافظ تھے۔امام تھے اورحافظ ضابط تھے۔
ابن دبیثی کہتے ہیں ابن عساکر کا شمار ان اشخاص میں ہوتا ہے۔جن کا تذکرہ مشہورہے۔اور لوگوں نے ان کی شان اور بلند مقام کو پہجاتا ہے۔
حافظ ابن عساکر وہ ہیں جنہوں نے اپنی پوری زندگی احیاء اسلام طلب علم تالیف و تصیف اور درس و تدریس میں کھپا دی۔
وفات:
حافظ ابن عساکر کی وفات صلاح الدین ایوبی کے عہدمیں دمشق میں11 رجب 571ھ بمطابق 1175 عیسوی میں رات کے وقت ہوئی۔
ان کی نمازجنازہ ملک و الناصرصلاح الدین ایوبی نے پڑھائی میدان حصا میں اور ان کو ان کےوالد کی قبرکے پاس پاس باب صغیر و دمشق میں دفن کیاگیا۔
انا للہ وانا الیہ راجعون
حوالہ: ویکیپیڈیاوانٹرنیٹ بعض مضامین۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کی حفاظت کے لیے مسلمانوں کو دعوت و انذار کےبعد انتہائی حالات میں اللہ کے دشمنوں سے لڑنے کی اجازت دی ہے او راللہ کے راستے میں لڑنےوالے مجاہد کے لئے انعام و اکرام اور جنت کا وعدہ کیا ہے اسی طرح اس لڑائی کو جہاد جیسے مقدس لفظ سے موسوم کیا ہے۔تاریخ شاہد ہے کہ جب تک مسلمانوں میں جہاد جاری رہا اس وقت تک اسلام کاغلبہ کفار پر پوری آب و تاب سے قائم تھا جونہی مسلمانوں نےاپنی بداعمالیوں اور تعیش پرستی کی وجہ سے جہاد فی سبیل اللہ کو چھوڑ دیا تو ذلت و مسکنت ان کا مقدر بن گئی۔ اور آج عالم اسلام کی حالت زار سے یہ معلوم کیا جاسکتا ہے کہ وہ کس قدر ذلت و رسوائی کا شکار ہے۔کفار ملت واحد بن کر بھیڑیوں کی طرح اہل اسلام پر ہر طرف سےجھپٹ رہے ہیں اور اُمت مسلمہ دشمن اسلام کے لگائے ہوئے گھاؤ سے گھائل جسم لئے ہوئے سسکیاں لے رہی ہے۔یقیناً جہاد جسےنبیؐ نے اسلام کی چوٹی کہا ہے جب تک اس علم کو تھاما نہیں جاتا ۔مسلمانوں کے ذلت و رسوائی اور مسکنت کے ادوار ختم نہیں ہوسکتے۔ زیر نظر کتاب حافظ ابن عساکر کی جہاد کے فضائل پر چالیس احادیث پر مشتمل مر...