میر سید شریف جرجانی نے علم النحو پر ایک کتاب ’نحو میر‘ کے نام سے لکھی۔ جسے دینی مدارس کے طلبہ اور اساتذہ میں بہت زیادہ اہمیت حاصل رہی۔ بعض مدارس میں بھی اس کو شامل نصاب کیا گیا۔ اپنی جامعیت اور اختصار کی بدولت طالبان علم اس سے بہت زیادہ مستفید ہوتے رہے۔ لیکن کتاب چونکہ فارسی میں تھی اس لیے اردو دان طبقہ کے لیے بہت سی جگہوں پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ اسی مشکل کا حل مولانا حفیظ الرحمٰن لکھوی نے زیر نظر کتاب کی صورت میں نکالا ہے۔ جس میں اردو زبان میں اس کی ایک مفصل شرح کر دی گئی ہے۔ جو جامع، مبسوط اور عام فہم ہونے کے علاوہ موضوع سے متعلقہ مواد کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ (ع۔م)
دین اسلام بنی نوع انسان کےلیے رحمت ورافت ہےاور اللہ کا کامل دین ہے جوزندگی کے تمامسائل میں ہماری مکمل رہنمائی کرتا ہے۔ جوشخص اسے اپنا لےگا وہی کامیاب وکامران ہے اور جواس سے بے رغبتی اختیار کرے گا وہ خائب وخاسر ناکام ونامراد ہوگا۔دینِ اسلام عقادئد ونطریات اور عبادات ومعاملات میں ہماری ہر لحاظ سے رہنمائی کرتا ہے ۔اس عارضی دنیا میں ہرمرد وعورت آئیڈیل لائف کے خواہاں ہیں ۔ وہ خود ایسی مثالی شخصیت بننا چاہتے ہیں جو مثالی اوصاف کی مالک ہو ۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کی عارضی زندگی میں ان کی ہر جگہ عزت ہو ، وقارکا تاج ان کے سر پر سجے ، لوگ ان کےلیے دیدہ دل اور فرش راہ ہوں، ہر دل میں ان کے لیے احترام وتکریم اور پیار کا جذبہ ہو ۔عام طور پر تولوگوں کی سوچ اس دنیا میں ہر طرح کی کامیابی تک محدود ہو کر رہ جاتی ہے ۔ لیکن حقیقت میں کامیاب اور مثالی ہستی وہ ہے جو نہ صرف دنیا میں ہی عزت واحترام ،پیار، وقار، ہر دلعزیزی اور پسندیدگی کا تاج سر پرپہنے بلکہ آخرت میں مرنے کے بعد بھی کامیاب مثالی مسلمان ثابت ہو کر دودھ، شہد کی بل کھاتی نہروں چشموں اور حورو غلمان کی جلو ہ افروزیوں سے معمو...
ایک اسلامی معاشرہ اس وقت تک قائم نہیں ہو سکتا جب تک اس کے بااثر افراد، تعلیم یافتہ لوگ، دانشور، ماہرینِ تعلیم، فوجی و پولیس افسران، سیاست دان، جج اور وکلاء وغیرہ شعوری ایمان کے ساتھ قرآن مجید، احادیث رسول ﷺ اور دیگر اسلامی علوم سے وابستگی نہ کریں، اسلام اور قانونِ شریعت کی حقانیت کے قائل ہونے کے ساتھ ساتھ، دنیا اور آخرت میں اللہ کی پکڑ کے خوف سے لرزاں نہ ہوں، یعنی قیادت ایسی ہو جو شعور عصر حاضر کے ساتھ ساتھ اسلامی علوم، وحی اور قرآن و سنت پر راست اور گہری نظر رکھتی ہو۔ لہذا جو شخص بھی دعوت و تبلیغِ اسلام اور اقامت دین کا پیغمبرانہ مشن اختیار کرنا چاہتا ہے اس کے لیے لازمی ہے کہ وہ قرآن سیکھے اور دعوت و تبلیغ کے ہر ہر مرحلے میں اس سے مستفید ہو۔ مولانا ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ کی زوجہ محترمہ امّ عدنان بشریٰ قمر صاحبہ نے زیر نظر کتاب ’’تحفۃ الواعظات ‘‘ میں اصلاح معاشرہ کے سلسلے میں چند عنوانات کو قرآن و سنت کی روشنی میں آسان فہم انداز میں پیش کیا ہے۔(م۔ا)
دعوت وتبلیغ ، اصلاح وارشاد انبیائی مشن ہے۔ اس کے ذریعہ بندگان اٖلہ کی صحیح رہنمائی ہوتی ہے صحیح عقیدہ کی معرفت اور باطل عقائد وخیالات کی بیخ کنی ہوتی ہے ۔شریعت اور اس کے مسائل سے آگاہی اور رسوم جاہلیت نیز اوہام وخرافات کی جڑیں کٹتی ہیں۔ دعوت وتبلیغ ، اصلاح وارشاد کے بہت سے و سائل واسالیب ہیں انہیں میں سے ایک مؤثر ذریعہ دروس و خطابت کا ہے۔ خطابت اللہ تعالیٰ کی عطاکردہ، خاص استعداد وصلاحیت کا نام ہے جس کے ذریعے ایک مبلغ اپنے مافی الضمیر کے اظہار، اپنے جذبات واحساسات دوسروں تک منتقل کرنے اور عوام الناس کو اپنے افکار ونظریات کا قائل بنانے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ بلاشک وشبہ قدرتِ بیان ایسی نعمت جلیلہ اور ہدیۂ عظمیٰ ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کوعطا فرماتا ہے اور خطابت وبیان کے ذریعے انسان قیادت و صدارت کی بلندیوں کوحاصل کرتا ہے۔ جوخطیب کتاب وسنت کے دلائل وبراہین سے مزین خطاب کرتا ہے اس کی بات میں وزن ہوتا ہےجس کا سامعین کے روح وقلب پر اثر پڑتا ہے۔ اور خطبۂ جمعہ کوئی عام درس یا تقریر نہیں بلکہ ایک انتہائی اہم نصیحت ہے جسے شریعتِ اسلامیہ میں فرض قرار دیا گیا...
ہر مسلمان کو اس بات سے بخوبی آگاہ ہونا چاہئے کہ مومن اور مشرک کے درمیان حد فاصل کلمہ توحید لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہے۔شریعت اسلامیہ اسی کلمہ توحید کی تشریح اور تفسیر ہے۔اللہ تعالی نے جہاں کچھ اعمال کو بجا لانے کا حکم دیا ہے ،وہاں کچھ ایسے افعال اور عقائد کا بھی تذکرہ فرمایا ہے کہ ان کے ہوتے ہوئے کوئی بھی عمل بارگاہ الہی میں قبول نہیں ہوتا ہے۔اللہ تعالی نے جن امور سے منع فرمایا ہے ،ان کی تفصیلات قرآن مجید میں ،اور نبی کریم نے جن امور سے منع فرمایا ہے ان کی تفصیلات احادیث نبویہ میں موجود ہیں۔عقیدے کے بعض مسائل ایسے ہیں جو نبی کریم اور مشرکین مکہ کے درمیان متنازعہ فیہ تھے۔اور یہ ایسے اصولی مسائل ہیں جن کا ہر مسلمان کے علم میں آنا انتہائی ضروری ہے ،کیونکہ ان میں اور اسلامی تعلیمات میں مشرق ومغرب کی دوری ہے۔ان کا اسلام کے ساتھ دور کا بھی کوئی تعلق نہیں ہے۔ زیر تبصرہ کتاب" تحفۃ الہند مع تکملہ ورسالہ کتھاسلوئی"محترم مولانا عبید اللہ نو مسلم مالیر کوٹلوی صاحب کی تصنیف ہے جس میں انہوں نے ان تمام مسائل کو جمع فرما دیا ہے جن کو جاننا ہر م...
صحیح احادیث کے مطابق رکعاتِ تراویح کی مسنون تعداد آٹھ ہے ۔مسنون تعداد کا مطلب وہ تعداد ہےجو اللہ کے نبی ﷺ سے بسند صحیح ثابت ہے ۔ رکعات تراویح کی مسنون تعداد اوررکعات تراویح کی اختیاری تعداد میں فرق ہے ۔ مسنون تعداد کا مطلب یہ ہے کہ جو تعداد اللہ کےنبی ﷺ سے ثابت ہے او راختیاری تعداد کا مطلب یہ ہے کہ وہ تعداد جو بعض امتیوں نے اپنی طرف سے اپنے لیے منتخب کی ہے یہ سمجھتے ہوئے کہ یہ ایک نفل نماز ہے اس لیے جتنی رکعات چاہیں پڑھ سکتے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ تحقیق التراویح فی جواب تنویر المصابیح ‘‘محدث العصر حافظ عبد اللہ محدث روپڑی کی نماز تراویح کے متعلق علمی وتحقیقی تصنیف ہے ۔ یہ کتاب انہوں نے سیٹھ ابراہیم حسین آف بنگلور کی فرمائش پر تنویر المصابیح فی تحقیق التراویح کے جواب میں تحریر کی ۔مذکورہ کتاب ابوالناصر عبیدی الحنفی کی تصنیف ہے جس میں انہوں نے چونتیس دلائل قاطعہ سے ثابت کیا کہ بیس رکعت نماز تراویح باجماعت مسنون ہیں اور آٹھ ر کعت تراویح کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ۔تو محدث روپڑی نےاس کےجواب میں اس کتاب میں احادیث صحیحہ وآثار قویہ سے...
اللہ عزوجل نے اپنے بندوں پر ایمان وعقیدہ کے بعد جو عبادتیں فرض فرمائی ہیں ان میں سے کچھ کا تعلق جسم اور مال دونوں سے ہے ‘ کچھ کا صرف جسم سے ہے او رکچھ کا صرف مال سے ۔ جہاد وہ عبادت ہے جس کا تعلق صرف جسم ومال دونوں سے ہے اور مال وجان انسانوں کی وہ محبوب چیز ہے جس کی تحصیل کے سلسلے میں عام طور سے انسان کسی حد پر پہنچ کر قناعت نہیں کرتا بلکہ مزید سے مزید حاصل کرنے کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہتا ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ بہت سے خدا نا ترس لوگ مال کی خاطر جائز وناجائز کی بھی پروا نہیں کرتے اور اپنی جان کی حفاظت میں ہمہ وقت فکر مند رہتا ہے لیکن یہی جان اللہ کی راہ میں پیش کرنا جہاد کہلاتا ہے۔ زیرِ تبصرہ کتاب میں جہاد ہی سے متعلق تفصیلات ذکر کی گئی ہیں۔ اس می مصنف نے ان تمام اعتراضات اور اتہامات کا ذکر کیا ہے جو مخالفین کی طرف سے جہاد اسلامی اور رسالت مآبﷺ کی سیرت طیبہ پر لگائے جاتے ہیں اور ان کے مدلل اور مسکت جوابات بھی نہایت اختصار اور جامعیت کے ساتھ دے دیئے گئے ہیں جن کی تفصیل کتاب اور ضمیمہ جات میں درج کی گئی ہے۔ اس کتاب میں بارہ ب...
نبی کریمﷺ دین کامل لے کر آئے اور آپ نے اسے کامل و اکمل ترین حالت میں امت تک پہنچا دیا ۔آپ ﷺنے اس میں نہ تو کوئی کمی کی اور نہ ہی زیادتی کی ،بلکہ اللہ نے جو پیغام دیا تھا اسے امانت داری کے ساتھ اللہ کے بندوں تک پہنچا دیا۔اب اگر کوئی شخص دین میں ایسی نئی چیز لاتا ہے جو آپ سے ثابت نہیں ہے تو وہ بدعت ہوگی ،اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی انسان کو جہنم میں لے جانے والی ہے۔امت مسلمہ آج بے شمارسنتوں کو چھوڑ کر من گھڑت رسوم ورواجات اور بدعات میں پڑی ہوئی ہے۔اور اس امر کی بڑی شدید ضرورت ہے کہ بدعات کی جگہ مردہ ہوجانے والی سنتوں کو زندہ کیا جائے،اور لوگوں کی درست طریقے سے راہنمائی کی جائے۔ہمارے معاشرے میں پھیلی بے شمار بدعات میں سے ایک نماز جنازہ کے بعد دعا کرنا بھی ہے۔اکثر دیہاتوں اور بعض شہروں میں نماز جنازہ کے بعد سلام پھیرتے ہی بیٹھ کر اور بعض علاقوں میں کھڑے ہو کر لوگ دعا مانگتے ہیں۔جس کا اسلام ،شریعت ،نبی کریمﷺ ،صحابہ کرام،تابعین اور تبع تابعین ومحدثین کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔یہ بعد میں گھڑی جانے والی بدعات میں س...
نماز دین اسلام کے بنیادی پانچ ارکان میں سے کلمہ توحید کے بعد ایک اہم ترین رکن ہے۔اس کی فرضیت قرآن و سنت اور اجماعِ امت سے ثابت ہے۔ یہ شبِ معراج کے موقع پر فرض کی گئی ،اور امت کو اس تحفہ خداوندی سے نوازا گیا۔اس کو دن اور رات میں پانچ وقت پابندی کے ساتھ باجماعت ادا کرنا ہر مسلمان پر فرض اور واجب ہے۔لیکن نماز کی قبولیت کے لئے سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ وہ نبی کریم ﷺ کی نماز کے موافق ہو۔نماز کے مختلف فیہ مسا ئل میں سے ایک مسئلہ فاتحہ خلف الامام کا ہے کہ امام کے پیچھے مقتدی سورۃ الفاتحہ پڑھے گا یا نہیں پڑھے گا۔ہمارے علم کے مطابق فرض نفل سمیت ہر نماز کی ہر رکعت میں سورۃ الفاتحہ پڑھنا فرض اور واجب ہے،نمازی خواہ منفرد ہو،امام ہو یا مقتدی ہو۔کیونکہ سورۃ الفاتحہ نماز کے ارکان میں سے ایک رکن ہے اور اس کے بغیر نماز نامکمل رہتی ہے۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اس شخص کی کوئی نماز نہیں جس نے اس میں فاتحۃ الکتاب نہیں پڑھی۔دوسری جگہ فرمایا: “جس نے أم القرآن(یعنی سورۃ الفاتحہ)پڑھے بغیرنماز ادا کی تو وہ نماز ناقص ہے، ناقص ہے، ناقص ہے، نا مکمل ہے۔یہ احادیث اور اس معنیٰ پر دلالت ک...
دور ِحاضر میں اصول تحقیق ایک فن سے ترقی کرتاہوا ایک اہم علم کی صورت اختیار کرچکا ہے ۔ عالمِ اسلام کی تمام یونیورسٹیوں ، علمی اداروں ، مدارس اور کلیات میں تمام علوم پر تحقیق زور شور سے جاری ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اصول تحقیق کا مادہ تمام عالمِ اسلام کی یونیورسٹیوں میں عموماً ا ور برصغیر کی جامعات اور متعدد اداروں میں خصوصاً نصاب کے طور پر پڑھایا جاتا ہے ۔ان تمام اداروں میں بھی جہاں گریجویٹ اوراس کے بعد کی کلاسوں میں مقالہ لکھوایا جاتا ہے یا ایم فل وڈاکٹریٹ کی باقاعدہ کلاسیں ہوتی ہیں وہاں تحقیق نگاری یا اصول تحقیق کی بھی باقاعدہ تدریس ہوتی ہے تحقیق واصول تحقیق پر متعدد کتب موجود ہیں ۔ زیر نظر کتاب’’تحقیق اور اصول تحقیق‘‘معروف مذہبی سکالر ڈاکٹر حافظ محمد زبیر(مصنف کتب کثیرہ، اسٹنٹ پروفیسر کامساٹس یوینورسٹی ،لاہور ) کے 2018ء میں الحکمہ انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام جامعات کےطلباء کےلیے مقالہ نگاری کے اصول کےعنوان سے ایک خصوصی ورکشاپ میں پیش کئے گ...
علمائے اسلام نے علم حدیث کی حفاظت ،جمع وتدوین، اور تحقیق وتدقیق کے سلسلہ میں قابل قدر کاوشیں سر انجام دی ہیں۔عہدصحابہ میں بھی میں تحقیق حدیث کےچند اصول وقواعد موجود تھے مگر مرتب ومدون نہیں تھے۔ بعد ازاں محدثین عظام نےاصول حدیث کو مرتب کیا۔جیسے جرح وتعدیل ، علم اسماء الرجال اور مصطلح الحدیث کا ناموں سے موسوم کیاجاتاہے۔ بے شمار محدثین نے تحقیق واصول حدیث میں خدمات پیش کیں۔عصر حاضر میں شیخ البانی رحمہ اللہ اور حافظ زبیر علی زئی نے بھی تحقیق حدیث کے میدان میں گراں قدر خدمات انجام دی ہیں ۔انہوں نے روایت ودرایت میں بہت شاندار کام کیا ہے۔ان کی تحقیقات حدیث عالم اسلام میں کافی مقبول ہوئیں ہیں زیر نظرتحقیقی مقالہ بعنوان’’تحقیق حدیث میں شیخ البانی اور حافظ زبیر علی کے معیارات کاتقابلی جائزہ‘‘ جناب عبد المنان صاحب کا وہ تحقیقی مقالہ ہے جسے انہوں نے ڈاکٹر شہزادہ عمران ایوب حفظہ اللہ
صحابہ کرام وہ نفوس قدسیہ ہیں جنہوں نے نبی کریمﷺ کا دیدار کیا اور دین اسلام کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان تمام ہسیتوں کو جنت کا تحفہ عنایت کیا ہے۔ دس صحابہ تو ایسے ہیں جن کو دنیا ہی میں زبان نبوتﷺ سے جنت کی ضمانت مل گئی۔تمام صحابہ کرام خواہ وہ اہل بیت سے ہوں یا غیر اہل بیت سے ہوں ان سے والہانہ وابستگی دین وایمان کا تقاضا ہے۔کیونکہ وہ آسمان ہدایت کے درخشندہ ستارے اور دین وایمان کی منزل تک پہنچنے کے لئے راہنما ہیں۔صحابہ کرام کے باہمی طور پر آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ انتہائی شاندار اور مضبوط تعلقات قائم تھے۔لیکن شیعہ حضرات باغ فدک کے مسئلے پر سیدنا ابو بکر صدیق اور سیدہ فاطمہ کے درمیان لڑائی اور ناراضگیاں ظاہر کرتے ہیں اور بھولے بھالے مسلمان ان کے پیچھے لگ کر سیدنا ابو بکر صدیق کو ظالم قرار دیتے اور ان پر طرح طرح کے اعتراضات وارد کرتے ہیں۔حالانکہ اگر حقائق کی نگاہ سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان مقدس ہستیوں کے درمیان ایسا کوئی نزاع سرے سے موجود ہی نہیں تھا۔ زیر تبصرہ کتاب...
جب کوئی معاشرہ مذہب کو اپنے قانون کا ماخذ بنا لیتا ہے تو اس کے نتیجے میں علم فقہ وجود پذیر ہوتا ہے۔ علم فقہ، دین کے بنیادی ماخذوں سے حاصل شدہ قوانین کے ذخیرے کا نام ہے۔ چونکہ دین اسلام میں قانون کا ماخذ قرآن مجید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی سنت ہے اس وجہ سے تمام قوانین انہی سے اخذ کیے جاتے ہیں۔ جب قرآن و سنت کی بنیاد پر قانون سازی کا عمل شروع کیا جائے تو اس کے نتیجے میں متعدد سوالات پیدا ہو جاتے ہیں۔قرآن مجید کو کیسے سمجھا جائے؟قرآن مجید کو سمجھنے کے لئے کس کس چیز کی ضرورت ہے؟ سنت کو سمجھنے کے لئے کس کس چیز کی ضرورت ہے؟ سنت کہاں سے اخذ کی جائے گی وغیرہ وغیرہ۔ ان سوالوں کا جواب دینے کے لئے جو فن وجود پذیر ہوتا ہے، اسے اصول فقہ کہا جاتا ہے۔اور تمام قدیم مسالک نے قرآن وسنت سے احکام شرعیہ مستنبط کرنے کے لئے اپنے اپنے اصول وضع کئے ہیں۔بعض اصول تو تمام مکاتب فکر میں متفق علیہ ہیں جبکہ بعض میں اختلاف بھی پایا جاتا ہے۔منجملہ اصول فقہ میں سے ایک مناط(علت) کی تحقیق اور تطبیق بھی ہے۔اگر مناط کی تطبیق میں کوتاہی واقع ہو جائے تو نتائج کہیں کے...
تحقیق عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں کسی چیز کی اصلیت وحقیقت معلوم کرنے کے لئے چھان بین اور تفتیش کرنا۔اصطلاحا تحقیق کا مطلب ہے کہ کسی منتخب موضوع کے متعلق چھان بین کر کے کھرے کھوٹے اور اصلی ونقلی مواد میں امتیاز کرنا،پھر تحقیقی قواعد وضوابط کے مطابق اسے استعمال میں لانا اور اس سے نتائج اخذ کرنا ۔ایسا تحقیقی کام سندی تحقیق میں کیا جاتا ہے ،جو ہر مقالہ کی آخری منزل ہوتی ہے۔ترقی یافتہ علمی دنیا میں تحقیقی مقالہ لکھنے یا "رسمیات تحقیق" کو سائنٹیفک اور معیاری بنانے کا کام اور اس پر عمل کا آغاز اٹھارویں صدی ہی میں شروع ہوچکا تھا- چنانچہ حواشی و کتابیات کے معیاری اصول اور اشاریہ سازی کا اہتمام مغربی زبانوں میں لکھی جانے والی کتابوں میں اسی عرصے میں نظر آنے لگا تھا۔ معاشرتی علوم اور ادبیات میں علمی نوعیت کی جدید رسمیات پر مبنی کتابیں اور تحقیقی مجلے اس وقت عام ہونے لگے تھے جب رائل ایشیا ٹک سوسائٹی نے خصوصا تاریخ کے موضوعات پر اپنے مطالعات کو جدید اصولوں کے تحت شائع کرنے کا آغاز کیا اور یورپ کے دیگر ملکوں جیسے جرمنی، اٹلی، فرانس اور ہالینڈ کے ت...
تحقیق ایک اہم علمی فریضہ ہے۔ تحقیق کے ذریعے ہم نامعلوم کا علم حاصل کرتے ہیں۔ غیر محسوس کو محسوس بناتے ہیں۔ جو باتیں پردۂ غیب میں ہوتی ہیں، انہیں منصۂ شہود پر لاتے ہیں تا کہ کسی امر میں یقینی علم ہم کو حاصل ہو، اور اس کی بنیاد پر مزید تحقیق جاری رکھی جا سکے۔تحقیق ایک مسلسل عمل ہے۔مزید واقعاتی حقائق کا جائزہ لینے اور ان کے اثرات معلوم کرنے کا نام بھی تحقیق ہے ۔ تحقیق کے عربی لفظ کا مفہوم حق کو ثابت کرنا یا حق کی طرف پھیرنا ہے۔تحقیق کے لغوی معنیٰ کسی شئے کی حقیقت کا اثبات ہے۔ ’’تحقیق کے لیے انگریزی میں استعمال ہونے والا لفظ ریسرچ ہے…اس کے ایک معنیٰ توجہ سے تلاش کرنے کے ہیں، دوسرے معنیٰ دوبارہ تلاش کرنا ہے۔دور حاضر میں اصول تحقیق ایک فن سے ترقی کرتاہوا باقاعدہ ایک علم بلکہ ایک اہم علم کی صورت اختیار کرچکا ہے ۔ عالمِ اسلام کی تمام یونیورسٹیوں ، علمی اداروں ، مدارس اور کلیات میں تمام علوم پر تحقیق زور شور سے جاری ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اصول تحقیق کا مادہ تمام عالمِ اسلام کی یونیورسٹیوں میں عموماً ا ور برصغیر کی جامعات اور متعدد اداروں میں خصوصاً...
تاریخ گزرے ہوئے زمانے کو اور افراد کوزندہ رکھتی ہے اور مستقبل اس گزری ہوئی تاریخ کی روشنی میں استوار کیا جاتا ہے اس لیے عام طور پر تاریخ کو بڑی احتیاط سے محفوظ کیا جاتا ہے تاکہ بعد والے زمانےمیں گزرے ہوئے دور کی غلط تشہیر نہ ہو جائے-اسی چیز کی ایک مثال سید احمد شہید ؒ تعالی ہے کہ ہندوستان میں ان کے ساتھیوں اورحالات کی موجودگی کے باوجود ان کی تاریخی حیثیت کو یوں بیان کیا گیا کہ جیسے بہت پرانے ادوار کوکھنگالنے کی کوشش کی گئی ہو-برطانوی مؤرخین نے جس چشم پوشی کا اظہار کیا سو کیا کئی عرب مؤ رخین نے بھی تحقیق کیے بغیر ان واقعات کی روشنی میں سید احمد شہید کی تاریخ کو رقم کر دیا-جب یہ صورت حال ابو الحسن علی ندوی نے دیکھی تو انہوں نے اصل حقائق سے پردہ اٹھانے کی کوشش کی اور تاریخ کے اس پہلو کو سچائی کے ذریعے بیضائی بخشی-انہوں نے عربی میں ایک رسالہ لکھا جس کا نام الأمام الذی لم یوف حقہ من الإنصاف والاعتراف رکھا اور اس کی افادیت کے پیش نظر اس کا اردو ترجمہ سيد محمدالحسنی سے خود کروایا اور اس کا نام'تحقیق وانصاف کی عدالت میں ایک مظلوم مصلح کا مقدمہ'خود ہی تجویزفرمایا-...
تحقیق عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں کسی چیز کی اصلیت وحقیقت معلوم کرنے کے لئے چھان بین اور تفتیش کرنا۔اصطلاحا تحقیق کا مطلب ہے کہ کسی منتخب موضوع کے متعلق چھان بین کر کے کھرے کھوٹے اور اصلی ونقلی مواد میں امتیاز کرنا،پھر تحقیقی قواعد وضوابط کے مطابق اسے استعمال میں لانا اور اس سے نتائج اخذ کرنا ۔ایسا تحقیقی کام سندی تحقیق میں کیا جاتا ہے ،جو ہر مقالہ کی آخری منزل ہوتی ہے۔ترقی یافتہ علمی دنیا میں تحقیقی مقالہ لکھنے یا "رسمیات تحقیق" کو سائنٹیفک اور معیاری بنانے کا کام اور اس پر عمل کا آغاز اٹھارویں صدی ہی میں شروع ہوچکا تھا- چنانچہ حواشی و کتابیات کے معیاری اصول اور اشاریہ سازی کا اہتمام مغربی زبانوں میں لکھی جانے والی کتابوں میں اسی عرصے میں نظر آنے لگا تھا۔۔لیکن افسوس کہ آج تک اردو میں تحقیق کی رسمیات متفقہ طور پر نہ طے ہو سکیں۔ نہ ان کے بارے میں سوچا گیا اور نہ ہی کوئی مناسب پیش رفت ہوسکی۔ چنانچہ ایک ہی جامعہ میں، بلکہ اس جامعہ کے ایک ہی شعبے میں لکھے جانے والے مقالات باہم ایک دوسرے سے مختلف ہو سکتے ہیں۔ کسی ایک مقالے میں حواشی کسی ط...
علم حدیث اسلامی علوم میں شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے ۔آیات کے شانِ نزول اوران کی تفسیر ،احکام القرآن کی تشریح وتبین ،اجمال کی تفصیل ،عموم کی تخصیص ،مبہم کی تبین سب علم حدیث کے ذریعہ معلوم ہوتی ہیں ۔اسی طرح حامل ِقرآن حضر ت محمد ﷺ کی سیرت اور حیات ِطیبہ اخلاق وعادات مبارکہ آپﷺ کے اقوال واعمال علم حدیث کے ذریعہ ہم تک پہنچے ہیں ۔علمائے اسلام نے علم حدیث کی حفاظت ،جمع وتدوین، اور تحقیق وتدقیق کے سلسلہ میں قابل قدر کاوشیں سر انجام دی ہیں۔احادیث کی چھان بین کے لیے انہوں نے جرج وتعدیل کے اصول وضع کیے ہیں جن کی بدولت اسماء الرجال کا مستقل فن معرض وجود میں آیا اور کم وبیش چھ صدیوں تک جرح وتعدیل اور فن اسماء الرجال بر پر کتابیں لکھی جاتی رہیں ۔ایک جرمن مستشرق ڈاکٹر سپرنگر کے بقول علم اسماء الرجال کی وساطت سے مسلمانوں نے کم ازکم پانچ لاکھ راویوں کی حالات محفوظ کیے ہیں جن کا مقصد صرف ایک ذاتِ مقدس کے حالات کو معلوم اور محفوظ...
اسلامی تاریخ میں تحقیق اس کی اہمیت اور اصول وضوابط کو سمجھنے کے لیے سب سےنمایاں مثال جمع وتدوین قرآن کی ہے ۔قرآ ن کریم کے متن کی تدوین ادبی دنیا کا عظیم ترین شاہکار ہے ۔تحقیق کا مقصد اور اس کی غرض وغایت کیا ہواس کےبارے میں بھی قرآن وحدیث میں واضح طور پر رہنمائی موجود ہے۔زیر نظرکتاب’’تحقیق کے بنیادی عوامل وارکان قرآن کی نظر میں ‘‘ کرنل (ر)عمر فاروق غازی کی تحقیق کے حوالے سے دوسری تصنیف ہے ۔جس میں انہوں نے مختلف مشہور کتب تفسیر اور دیگر عربی کتب کے مطالعہ سے قرآن کے حوالے سے تحقیق کا مفہوم ،تحقیق کے اغراض ومقاصد ،تحقیق کےتقاضے تحقیق کے بنیادی عوامل وارکان اور تحقیق کے مختلف طریقوں کو دلائل سے مزین کر کے پیش کیا ہے ۔ یہ کتاب شائقین تحقیق کے لیے مفید اور موزوں ثابت ہوگی ۔(م۔ا)
اشاریہ سازی کی ابتداء مذہبی کتابوں کے لیے مرتب اشاریوں سے ہوئی۔ یہ اشاریے جو سولہویں، سترہویں صدیوں میں مرتب ہوئے الفاظ ، نام یا عبارت کے ٹکڑوں پر مشتمل ہوتے تھے ، اشاریہ متلاشی معلومات کے لیے درکار معلومات کی نشاندہی کا وسیلہ ہے کتابوں کے برعکس رسائل کی اشاریہ سازی نسبتا زیادہ قدیم نہیں ۔ یوں تو سائنسی علو م میں تحقیق کی روز افزوں رفتار کی بدولت رسائل کی اشاعت کی تعدا د اٹھارہویں صدی سے ہی بڑھنے لگی تھی لیکن انیسویں صدی کے آخری دور تک ان میں شائع مضامین کی تعداد اتنی بڑھ چکی تھی کہ باحثین کو اشاریہ کی مدد کے بغیر واقفیت حاصل کرنا مشکل ہو گیاجس کے نتیجہ میں رسائل کی اشاریہ سازی کی داغ بیل پڑی ۔ آج اہمیت اور افادیت کے اعتبار سے کتابوں کے اشاریے سے کہیں زیادہ رسائل کے اشاریوں کا مقام ہے ۔ رسائل کے اشاریہ سازی میں معاون قاعدے اور ضابطے مرتب ہوئے ہیں ، جواشاریہ سازی کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے وضع کیے گئے ۔ برصغیر پاک وہند میں بھی اردو زبان میں اشاریہ سازی کے کام میں بڑی ترقی ہوئی ہے ۔ اس وقت برصغیر ہند و پاک سے لاتعداد رسائل و جرائد شائع ہو رہے ہیں۔ یہ...
اشاریہ سازی کی ابتداء مذہبی کتابوں کے لیے مرتب اشاریوں سے ہوئی۔ یہ اشاریے جو سولہویں، سترہویں صدیوں میں مرتب ہوئے الفاظ ، نام یا عبارت کے ٹکڑوں پر مشتمل ہوتے تھے ، اشاریہ متلاشی معلومات کے لیے درکار معلومات کی نشاندہی کا وسیلہ ہے برصغیر پاک وہند میں اردو زبان میں اشاریہ سازی کے کام میں بڑی ترقی ہوئی ہے۔لوازمات تحقیق میں اشاریہ سازی ایک ایسا لوازمہ ہے جس کے بغیر نئی تحقیق سے وہ مقصد حاصل ہوتا جس مقصد کے لیے بنیادی تحقیق سوال اٹھایا جاتا ہے اور تحقیق کسی بھی نوعیت کی ہو اشاریہ جات اور کتابیات علمی تحقیق کےبنیادی معاون کی حیثیت رکھتے ہیں جن کی مدد سے مطلوبہ مضامین یا کتب تک پہنچنا آسان ہوتا ہےاور قیمتی وقت بھی ضائع نہیں ہوتا۔ زیر نظر کتاب’’تحقیقات حدیث وسیرت‘‘ ڈاکٹر عبد الغفار(چیئرمین شعبہ علوم اسلامیہ یونیورسٹی آف اوکاڑہ) کی کاوش ہے ڈاکٹر صاحب نے اس کتاب میں اشاریہ سازی کے ساتھ ساتھ موضوعات پر کام کرنے کےلیے موضوع تحقیق کا...
اشاریہ سازی کی ابتداء مذہبی کتابوں کے لیے مرتب اشاریوں سے ہوئی۔ یہ اشاریے جو سولہویں، سترہویں صدیوں میں مرتب ہوئے الفاظ ، نام یا عبارت کے ٹکڑوں پر مشتمل ہوتے تھے ، اشاریہ متلاشی معلومات کے لیے درکار معلومات کی نشاندہی کا وسیلہ ہے برصغیر پاک وہند میں اردو زبان میں اشاریہ سازی کے کام میں بڑی ترقی ہوئی ہے۔لوازمات تحقیق میں اشاریہ سازی ایک ایسا لوازمہ ہے جس کے بغیر نئی تحقیق سے وہ مقصد حاصل ہوتا جس مقصد کے لیے بنیادی تحقیق سوال اٹھایا جاتا ہے اور تحقیق کسی بھی نوعیت کی ہو اشاریہ جات اور کتابیات علمی تحقیق کےبنیادی معاون کی حیثیت رکھتے ہیں جن کی مدد سے مطلوبہ مضامین یا کتب تک پہنچنا آسان ہوتا ہےاور قیمتی وقت بھی ضائع نہیں ہوتا۔ زیر نظر کتاب’’تحقیقات حدیث وسیرت‘‘ ڈاکٹر عبد الغفار(چیئرمین شعبہ علوم اسلامیہ یونیورسٹی آف اوکاڑہ) کی کاوش ہے ڈاکٹر صاحب نے اس کتاب میں اشاریہ سازی کے ساتھ ساتھ موضوعات پر کام کرنے کےلیے موضوع تحقیق کا...
محدث العصر حافظ زبیر علی زئی 25جون 1957ء کو حضرو، ضلع اٹک میں پیدا ہوئے۔ آپ نےتین سے چار ماہ میں قرآن مجید حفظ کیا ۔ دینی علوم کے حصول کے لیے جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ میں داخل ہوئے اور سند فراغت حاصل کی ۔وفاق المدارس السلفیہ سے الشھادۃ العالمیہ بھی حاصل کی ۔نیز آپ نے پنجاب یونیورسٹی سے اسلامیات اور عربی میں ایم اے بھی کیا تھا۔آپ اپنی مادری زبان ہندکو کے ساتھ ساتھ کئی ایک زبانوں پر دسترس رکھتے تھے۔ آپ کو علم الرجال سےبڑی دلچسپی تھی۔مولانا سید محب اللہ شاہ راشدی ،مولانا سیدبدیع الدین شاہ راشدی ،مولانا عطاءاللہ حنیف بھوجیانی ،مولانا حافظ عبدالمنان نورپوری وغیرہ جیسے عظیم علماء سے آپ کو شرف تلمذ حاصل تھا۔علم الرجال اور احادیث کی تحقیق وتخریج میں آ پ کی رائے کو سند کی حیثیت حاصل تھی ۔ شیخ نے متعدد علمی و تحقیقی تصانیف کی صورت میں علمی ورثہ چھوڑا ۔اور اس کےعلاوہ کتب احادیث پر تحقیق و تخریج کا کام بھی کیا۔ اور موصوف&n...
’تحقیقی، اصلاحی اور علمی مقالات‘ دراصل محترم حافظ زبیر علی زئی کے ان مضامین کا مجموعہ ہے جو مختلف مواقع پر رسائل و جرائد کی زینت بنتے رہے۔ کتاب میں متنوع موضوعات پر تفصیلی ابحاث موجود ہیں خصوصاًعقائد، عبادات، سیر و التاریخ اور اسماء الرجال جیسے موضوعات پر سیر حاصل مباحث شامل کی گئی ہیں۔ محترم مصنف چونکہ دفاع حدیث اور خدمت مسلک اہل حدیث کے جذبے سے سر شار ہیں اس لیے انہوں نے حدیث یا اہل حدیث کے خلاف اعتراضات کرنے والوں کو دندان شکن اور مسکت جوابات سے نوازا ہے۔ کتاب کی دوسری اور تیسری جلد عقائد، مسلک اہلحدیث کی حقانیت ، نماز کے بعض مسائل اور تحقیق الروایات جیسے موضوعات کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہےاس کے علاوہ ایک بریلوی عالم کے جواب میں لکھے گئے ایک رسالے کو بھی کتاب میں شامل کر دیا گیا ہے۔
تحقیق عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں کسی چیز کی اصلیت وحقیقت معلوم کرنے کے لئے چھان بین اور تفتیش کرنا۔اصطلاحا تحقیق کا مطلب ہے کہ کسی منتخب موضوع کے متعلق چھان بین کر کے کھرے کھوٹے اور اصلی ونقلی مواد میں امتیاز کرنا،پھر تحقیقی قواعد وضوابط کے مطابق اسے استعمال میں لانا اور اس سے نتائج اخذ کرنا ۔ایسا تحقیقی کام سندی تحقیق میں کیا جاتا ہے ،جو ہر مقالہ کی آخری منزل ہوتی ہے۔ترقی یافتہ علمی دنیا میں تحقیقی مقالہ لکھنے یا "رسمیات تحقیق" کو سائنٹیفک اور معیاری بنانے کا کام اور اس پر عمل کا آغاز اٹھارویں صدی ہی میں شروع ہوچکا تھا- چنانچہ حواشی و کتابیات کے معیاری اصول اور اشاریہ سازی کا اہتمام مغربی زبانوں میں لکھی جانے والی کتابوں میں اسی عرصے میں نظر آنے لگا تھا۔۔لیکن افسوس کہ آج تک اردو میں تحقیق کی رسمیات متفقہ طور پر نہ طے ہو سکیں۔ نہ ان کے بارے میں سوچا گیا اور نہ ہی کوئی مناسب پیش رفت ہوسکی۔ چنانچہ ایک ہی جامعہ میں، بلکہ اس جامعہ کے ایک ہی شعبے میں لکھے جانے والے مقالات باہم ایک دوسرے سے مختلف ہو سکتے ہیں۔ کسی ایک مقالے میں حواشی کسی ط...