اللہ رب العالمین ہر چیز کا خالق ہے، وہ ہر شے کی حاجات وضروریات، طبائع اور مصالح کا خوب خوب علم رکھتا ہے۔ اس نے اپنے بندوں کی طبائع کو ملحوظ رکھ کر کمال مہربانی کرتے ہوئے اعمال کے فضائل اور جزا کو بیان فرمایا ہے۔ اگر فضائل اور جزاء کو نہ بھی بیان کیا جاتا تو تب بھی ہم اللہ تعالی کے ارشاد کو ماننے کے مکلف ہوتے۔ تاہم ترغیب وتحریض سے اعمال کی بجا آوری میں سہولت پیدا ہو جاتی ہے۔نیک اعمال کرنے پر لوگوں کو ابھارنے اور شوق دلانے کی تلقین خود رب کائنات نے کی ہے۔ اعمال صالحہ کی جزاء اور ثواب کا تذکرہ کرنے سے بھی یہی مقصود ہے کہ لوگ عملی زندگی اپنائیں اور نیک کام کرنے میں تندہی دکھائیں کہ ان کے اعمال رائیگاں نہیں جائیں گے۔ بلکہ انہیں ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا، نہ صرف آخرت میں بلکہ دنیا میں بھی۔ بے شمار آیات قرآنیہ اور احادیث صحیحہ میں اعمال صالحہ کی جزاء اور ثواب کا تذکرہ موجود ہے،جنہیں پڑھ کر انسان کا شوق عمل بڑھ جاتا ہے، لیکن جب یہی ترغیب اصل بنیادوں سے ہٹ جاتی ہے اور ضعیف روایات کو پیش کیا جاتا ہے تو بہت ساری قباحتوں کا شکار ہو جاتی ہے۔ زیر تبصرہ ک...
اللہ تعالی نے اپنے بندوں پر بے شمار نعمتیں کی ہیں ،ان میں سے سب سے بڑی نعمت اسلام ہے او ریہ کیاہی عظیم نعمت ہے اس کے علاوہ بھی بے شمار نعمتیں ہیں جنہیں ایک بندہ اپنی محدود عقل کی وجہ سے شمار نہیں کرسکتا بلکہ حیران ہوجاتاہے ۔یہ ساری نعمتیں اللہ کی طرف سے ہیں تو پھر بندے کے لیے ضروری ہے کہ ان انعامات پر اللہ تعالی کا شکر ادا کرے ۔اورشکر ہی ایسی نعمت ہے جو دوسری نعمتوں کو دوام بخشتی ہے جیسے کہ ارشاد گرامی ہے'' لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ وَلَئِنْ كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيد'' پس جس نے شکر گزاری کی روش اختیار کی وہ کبھی نعمتوں کی فراوانی سے محروم نہ ہوا،اور شکر بہت قدرومنزلت والا کلمہ ہے ،اللہ نےاس کا حکم دیا اور کفران ِنعمت سے منع کیا ہے ۔زیر تبصرہ کتاب '' شکر گزار بننے کے فوائد'' فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر شہزادہ فیصل بن مشعل آل سعود کی تصنیف کا ترجمہ ہے جس میں انہوں نے شکر کامفہوم او رحقیقت ،فضلیت ،اقسام شکر او رنعمتوں کی اقسام کو بڑے احسن انداز میں بیان کیا ہے ۔ محترم طاہر نقاش مدیر دارالابلاغ نے اس کتاب پر تحقیق وتخریخ...
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات اور دستور زندگی ہے۔ اسلام نے ہمیں زندگی کے تمام شعبوں کے بارے میں راہنمائی فراہم کی ہے۔ عبادات ہوں یا معاملات، تجارت ہو یا سیاست، عدالت ہو یا قیادت، اسلام نے ان تمام امور کے بارے میں مکمل تعلیمات فراہم کی ہیں۔ اسلام کی یہی عالمگیریت اور روشن تعلیمات ہیں کہ جن کے سبب اسلام دنیا میں اس تیزی سے پھیلا کہ دنیا کی دوسرا کوئی بھی مذہب اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا ہے۔ اسلامی تعلیمات نہ صرف آخرت کی میں چین وسکون کی راہیں کھولتی ہیں ،بلکہ اس دنیوی زندگی میں اطمینان، سکون اور ترقی کی ضامن ہیں۔ اسلام کی اس بے پناہ مقبولیت کا ایک سبب مساوات ہے، جس سے صدیوں سے درماندہ لوگوں کو نئی زندگی ملی اور وہ مظلوم طبقہ جو ظالموں کے رحم وکرم پر تھا اسے اسلام کے دامن محبت میں پناہ ملی۔اسلام نے تمام انسانوں کے فرائض بیان کرتے ہوئے ان کے حقوق بھی بیان کر دئیے ہیں، حتی کہ اگر کوئی بچہ ابھی دنیا میں نہیں آیا، بلکہ شکم مادر میں پرورش پا رہا ہے تو اس کے حقوق واحکام کو بھی بیان فرما دیا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب "شکم مادر میں پرورش پانے والا بچہ جنین تخلیقی مراحل، حقوق...
یہودی مذہب حضرت یعقوب کے چوتھے بیٹے یہودا کی طرف منسوب ہے ۔حضرت سلیمانؑ کے بعد جب ان کی سلطنت دوٹکڑوں میں تقسیم ہوگئی تو یہ خاندان اس ریاست کامالک ہوا جو یہودیہ کےنام سے موسوم ہوئی اور بنی اسرائیل کے دوسرے قبیلوں نے اپنی الگ ریاست قائم کرلی جو سامریہ کے نام سے مشہور ہوئی۔ پھر اسیریا نے نہ صرف یہ کہ سامریہ کو برباد کردیا بلکہ ان اسرائیلی قبیلوں کا بھی نام ونشان مٹادیا جو اس ریاست کے بانی تھے ۔ اس کے بعد صرف یہودا اوراس کے ساتھ بنیامین کی نسل ہی باقی رہ گئی جس پر یہود اکی نسل کےغلبے کی وجہ سے یہود کےلفظ کا اطلاق ہونے لگا۔اس نسل کے اندر کاہنوں ،ربیوں اورااحبار نےاپنے اپنے خیالات اور رجحانات کے مطابق عقائد اور رسوم او رمذہبی ضوابط کا جو ڈھانچہ صد ہابرس میں تیار کیا اس کا نام یہودیت ہے ۔اللہ کےرسولوں کی لائی ہوئی ربانی ہدایت کا بہت تھوڑا ہی عنصر اس میں شامل ہے اور اس کا حلیہ بھی اچھا خاصا بگڑ چکا ہے ۔ اسی بناپر قرآن مجید میں اکثر مقامات پر ان کو
’’شکوہ“ کے جواب میں نظمیں دیکھ کراقبال کو خود بھی دوسری نظم ”جواب شکوہ“ لکھنی پڑی جو 1913ء کے ایک جلسہ عام میں پڑھ کر سنائی گئی۔ انجمن حمایت اسلام کے جلسے میں ”شکوہ “ پڑھی گئی تو وسیع پیمانے پر اس کی اشاعت ہوئی یہ بہت مقبول ہوئی لیکن کچھ حضرات اقبال سے بدظن ہو گئے اور ان کے نظریے سے اختلاف کیا۔ ان کا خیال تھا کہ ”شکوہ“ کا انداز گستاخانہ ہے۔ اس کی تلافی کے لیے اور یوں بھی شکوہ ایک طرح کا سوال تھا جس کا جواب اقبال ہی کے ذمے تھا۔ چنانچہ ڈیڑھ دو سال کے عرصے کے بعد انہوں نے ”جواب شکوہ“ لکھی۔ یہ 1913ء کے جلسے میں پڑھی گئی۔ جو نماز مغرب کے بعد بیرونی موچی دروازہ میں منعقد ہوا تھا۔ اقبال نے نظم اس طرح پڑھی کہ ہر طرف سے داد کی بوچھاڑ میں ایک ایک شعر نیلام کیا گیا اور اس سے گراں قدر رقم جمع کرکے بلقان فنڈ میں دی گئی۔ شکوہ کی طرح سے ”جواب شکوہ“ کے ترجمے بھی کئی زبانوں میں ملتے ہیں۔شکوہ میں اقبال نے انسان کی زبانی بارگاہ ربانی میں زبان شکایت کھولنے کی جرات...
قدرت اللہ شہاب پاکستان کے قیام سے قبل بطور آئی سی ایس آفیسر ہندوستان میں مختلف عہدوں پر تعینات رہے ہیں ۔پاکستان کے معرضِ وجودمیں آنے کے بعد وہ پاکستان تشریف لے آئے اور صدرمحمد ایوب کے دور تک وہ اعلیٰ عہدوں پر کام کرتے رہے ہیں ۔اپنی زندگی کے ان اہم ادوار کو انہوں نے اپنی مشہورِزمانہ کتاب ”شہاب نامہ “ میں بڑی تفصیل سے بیان کیاہے جو تاریخ کے قاری کے لیے نہائت معلومات افز ا اور پاکستان کے ماضی کے حکمرانوں کے کردار کو جاننےکے لیے ایک بہترین کتاب ہےشہاب نامہ در اصل قدرت اللہ شہاب کی خودنوشت کہانی ہے۔ یہ کتاب مسلمانانِ برصغیر کی تحریک آزادی کے پس منظر ، مطالبہ پاکستان، قیامِ پاکستان اور تاریخ پاکستان کی چشم دید داستان ہے۔ جو حقیقی کرداروں کی زبان سے بیان ہوئی ہے۔ شہاب نامہ دیکھنے میں ضخیم اور پڑھنے میں مختصر کتاب ہے۔ شہاب نامہ امکانی حد تک سچی کتاب ہے۔ قدرت اللہ شہاب نے کتاب کے ابتدائیہ میں لکھا ہے کہ:’’میں نے حقائق کو انتہائی احتیاط سے ممکنہ حد تک اسی رنگ میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے جس رنگ میں وہ مجھے نظرآئے۔‘‘جو لوگ قدرت اللہ...
سیدنا حسین اپنے بھائی سیدنا حسن سے ایک سال چھوٹے تھے وہ نبی کریم ﷺ کے نواسے،سیدنا فاطمہ بنت رسول کے لخت جگر تھے۔ سیدنا حسین ہجرت کے چوتھے سال شعبان کے مہینے میں پیدا ہوئے ۔آپ کی پیدائش پر رسول اللہ ﷺ بہت خوش ہوئے اور آپ کو گھٹی دی ۔رسول اللہ ﷺ نے آپ کا نام حسین رکھا ۔حسن وحسین کی فضیلت سے متعلق اکثر احادیث دونوں میں مشترک ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے اپنے سایہ عاطفت میں اپنے ان نواسوں کی تربیت کی ۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ مکہ میں موجود تھے اور حج کے ایام شروع ہو چکے تھے۔ مگر کوفیوں نے دھوکا دیا اور لکھا کہ ہمارا کوئی امیر نہیں۔ ہم سب اہل عراق آپ کو امیر بنانا چاہتے ہیں آپ جلد ہمارے پاس تشریف لے آئیں۔ اگر آپ تشریف نہ لائے تو قیامت کے دن ہم اللہ تعالیٰ سے شکایت کریں گے کہ ہمارا کوئی امیر نہیں تھا اور نواسہ رسول نے ہماری بیعت قبول نہ کی تھی۔حضرت حسین نے ان باتوں کو سچ سمجھ لیا اور کوفہ روانہ ہو گئے۔روایات کے مطابق سیدنا حسین کو بارہ ہزار خطوط لکھے گئے۔حالات کا جائزہ لینے کے لئے سیدنا حسین نے اپنے عم زاد بھائی مسلم بن عقیل ک...
خلیفۂ سوم سیدنا عثمان غنی کا تعلق قریش کے معزز قبیلے سے تھا۔ سلسلہ نسب عبد المناف پر رسول اللہ ﷺ سے جا ملتا ہے ۔ سیدنا عثمان ذوالنورین کی نانی نبی ﷺ کی پھوپھی تھیں۔ آپ کا نام عثمان اور لقب ” ذوالنورین “ ہے۔ اسلام قبول کرنے والوں میں آپ ” السابقون الاولون “ کی فہرست میں شامل تھے، آپ نے خلیفہ اول سیدنا ابوبکر صدیق کی دعوت پر اسلام قبول کیا تھا۔ ۔ حضور ﷺ پر ایمان لانے اور کلمہ حق پڑھنے کے جرم میں سیدنا عثمان غنی کو ان کے چچا حکم بن ابی العاص نے لوہے کی زنجیروں سے باندھ کر دھوپ میں ڈال دیا، کئی روز تک علیحدہ مکان میں بند رکھا گیا، چچا نے آپ سے کہا کہ جب تک تم نئے مذہب (اسلام ) کو نہیں چھوڑو گے آزاد نہیں کروں گا۔ یہ سن کر آپ نے جواب میں فرمایا کہ چچا ! اللہ کی قسم میں مذہب اسلام کو کبھی نہیں چھوڑ سکتا اور اس ایمان کی دولت سے کبھی دستبردار نہیں ہوں گا۔ سیدناعثمان غنی اعلیٰ سیرت و کردار کے ساتھ ثروت و سخاوت میں بھی مشہور تھے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جنت میں ہرنبی کا ساتھی و رفیق ہوتاہے میرا ساتھی ”عثمان “ ہوگا۔ سیدنا عثمان کے...
خلیفۂ سوم سیدنا عثمان غنی کا تعلق قریش کے معزز قبیلے سے تھا۔آپ کا نام عثمان اور لقب ” ذوالنورین “ ہے۔ اسلام قبول کرنے والوں میں آپ ” السابقون الاولون “ کی فہرست میں شامل تھے، حضور ﷺ پر ایمان لانے اور کلمہ حق پڑھنے کے جرم میں سیدنا عثمان غنی کو ان کے چچا حکم بن ابی العاص نے لوہے کی زنجیروں سے باندھ کر دھوپ میں ڈال دیا، کئی روز تک علیحدہ مکان میں بند رکھا گیا، چچا نے آپ سے کہا کہ جب تک تم نئے مذہب (اسلام ) کو نہیں چھوڑو گے آزاد نہیں کروں گا۔ یہ سن کر آپ نے جواب میں فرمایا کہ چچا ! اللہ کی قسم میں مذہب اسلام کو کبھی نہیں چھوڑ سکتا ، سیدناعثمان غنی اعلیٰ سیرت و کردار کے ساتھ ثروت و سخاوت میں بھی مشہور تھے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جنت میں ہرنبی کا ساتھی و رفیق ہوتاہے میرا ساتھی ”عثمان “ ہوگا۔ سیدنا عثمان کا دورِ حکومت تاریخ اسلام کا ایک تابناک اور روشن باب ہے ۔ ان کے عہد زریں میں عظیم الشان فتوحات کی بدولت اسلامی سلطنت کی ح...
جہاد اسلام کی کوہان ہے ارکان اسلام کو برقرار رکھنے کے لیے جہاد فی سبیل اللہ کو جاری رکھنا بہت ضروری ہے جہاد جہاں حکم خداوندی ہے وہاں زمین میں امن وشانتی کو قائم رکھنے کا بہترین ذریعہ ہے اس عظیم کام میں شامل لوگوں کے لیے اخروی زندگی کو بہتر بنانےمیں اس عمل سے بڑھ کر کوئی عمل نہیں جس میں شامل انسان دنیا میں رب کی رضا اور وح نکلتے ہی جنتی مہمان بن جاتا ہے ۔شہادت فی سبیل اللہ کو وہ مقام حاصل ہے کہ (نبوّت و صدیقیت کے بعد) کوئی بڑے سے بڑا عمل بھی اس کی گرد کو نہیں پاسکتا۔ اسلام کے مثالی دور میں اسلام اور مسلمانوں کو جو ترقی نصیب ہوئی وہ ان شہداء کی جاں نثاری و جانبازی کا فیض تھا، جنھوں نے اللہ رَبّ العزّت کی خوشنودی اور کلمہٴ اِسلام کی سربلندی کے لئے اپنے خون سے اسلام کے سدا بہار چمن کو سیراب کیا۔ شہادت سے ایک ایسی پائیدار زندگی نصیب ہوتی ہے، جس کا نقشِ دوام جریدہٴ عالم پر ثبت رہتا ہے، جسے صدیوں کا گرد و غبار بھی نہیں دُھندلا سکتا، اور جس کے نتائج و ثمرات انسانی معاشرے میں رہتی دُنیا تک قائم و دائم رہتے ہیں۔ کتاب اللہ کی آیات اور رسول اللہ ﷺ کی احادیث میں شہادت اور شہید کے اس قدر فضائل بی...
اسلام میں شہادت فی سبیل اللہ کو وہ مقام حاصل ہے کہ (نبوّت و صدیقیت کے بعد) کوئی بڑے سے بڑا عمل بھی اس کی گرد کو نہیں پاسکتا۔ اسلام کے مثالی دور میں اسلام اور مسلمانوں کو جو ترقی نصیب ہوئی وہ ان شہداء کی جاں نثاری و جانبازی کا فیض تھا، جنھوں نے اللہ رَبّ العزّت کی خوشنودی اور کلمہٴ اِسلام کی سربلندی کے لئے اپنے خون سے اسلام کے سدا بہار چمن کو سیراب کیا۔ شہادت سے ایک ایسی پائیدار زندگی نصیب ہوتی ہے، جس کا نقشِ دوام جریدہٴ عالم پر ثبت رہتا ہے، جسے صدیوں کا گرد و غبار بھی نہیں دُھندلا سکتا، اور جس کے نتائج و ثمرات انسانی معاشرے میں رہتی دُنیا تک قائم و دائم رہتے ہیں۔ کتاب اللہ کی آیات اور رسول اللہ ﷺ کی احادیث میں شہادت اور شہید کے اس قدر فضائل بیان ہوئے ہیں کہ عقل حیران رہ جاتی ہے اور شک و شبہ کی ادنیٰ گنجائش باقی نہیں رہتی۔ زیر تبصرہ کتاب " شہادت گہ الفت میں"معروف مبلغہ داعیہ،مصلحہ،مصنفہ کتب کثیرہ اور کالم نگار محترمہ ام عبد منیب صاحبہ کے زوج محترم مولانا محمد مسعود عبدہ کی تصنیف ہے ۔ جس میں انہوں&nbs...
سرزمین سیالکوٹ نے بہت سی عظیم علمی شخصیات کو جنم دیا ہے جن میں مولانا ابراہیم سیالکوٹی ،علامہ محمد اقبال، علامہ احسان الٰہی ظہیر سرفہرست ہیں مولانا ابراہیم میر 1874ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ سیالکوٹ مرے کالج میں شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کے ہم جماعت رہے ۔مولاناکا گھرانہ دینی تھا ۔لہذا والدین کی خواہش پر کالج کوخیر آباد کہہ دیا اور دینی تعلیم کے حصول کے لیے کمر بستہ ہوگے ۔اور شیخ الکل سید نذیر حسین محدث دہلوی کے حضور زانوے تلمذ طے کیا۔ مولانا میر سیالکوٹی سید صاحب کے آخری دور کےشاگرد ہیں اور انہیں ایک ماہ میں قرآن مجید کو حفظ کرنےکااعزاز حاصل ہے ۔مولانا سیالکوٹی نے جنوری1956ء میں وفات پائی نماز جنازہ حافظ عبد اللہ محدث روپڑی نے پڑہائی اللہ ان کی مرقد پر اپنی رحمت کی برکھا برسائے ۔(آمین ) مولانا مرحوم نے درس وتدریس ،تصنیف وتالیف، دعوت ومناظرہ، وعظ وتذکیر غرض ہر...
شہد ایک لیس دار میٹھا سیال ہے جو کہ شہد کی مکھیاں پھولوں کے رس کی مدد سے بناتی ہیں۔ شہد انسان کے لئے اللہ تعالٰی کی عطا کردہ ایک بیش قیمت ایسی نعمت ہے جسے ہر آدمی محبت کی نظر سے دیکھتا ہے۔تمام غذائی نعمتوں میں شہد کو ایک ممتاز درجہ حاصل ہےاﷲ تعالیٰ نے شہد میں بھی اتنی افادیت رکھی ہے جسے بیان نہیں کیا جاسکتا۔ شہد کمزور لوگوں کیلئے اﷲ تعالیٰ کا بہت بڑا تحفہ ہے جس کا سردیوں میں مستقل استعمال انسان کو چار چاند لگا دیتا ہے۔طب نبوی میں شہد کوامتیازی مقام حاصل ہے ۔شہد کے استعمال سے بے شمار فوائد حاصل ہوتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں شہد کا ذکر کیا ہے اسے لوگوں کےلیے شفا قرار دیا ہے ۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ شہد سے اپنا علاج خود کیجیے!‘‘ پروفیسر ڈاکٹر شہزادہ ایم اے بٹ کی تالیف ہے۔ جس میں شہد کے خواص کو دلنشیں انداز میں بیان کیا ہےکہ اس سے شہد کے شفائی جوہر بآسانی سمجھ آ جاتے ہیں جس کی وجہ سے ہم شہد کے شفائی اثرات سے کما حقہ استفادہ کر سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فاضل مرتب کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور اسے عوام الناس کے لیے نفع بخش بنائے ۔آمین۔ (ر...
اللہ تعالیٰ نے کائنات کے نظام کو چلانے کے لیے اس کے انتہائی اہم کردار انسان کو وجود بخشا حضرت انسان کو مٹی سے پیدا کیاگیا ہے ۔ انسان اپنی تخلیق کے مختلف مراحل سے گزر کر اپنے آخری منزل تک پہنچتا ہے۔انسان جب فقط روح کی شکل میں تھا تو عدم میں تھا روح کے اس مقام کو عالم ارواح کہتے ہیں او رجب اس روح کو وجود بخشا گیا اس کو دنیا میں بھیج دیا گیا اس کے اس ٹھکانےکو عالم دنیا اور اسی طرح اس کے مرنے کے بعد قیامت تک کے لیے جس مقام پر اس کی روح کو ٹھہرایا جاتا ہے اسے عالم برزخ کہتے ہیں اس کے بعد قیامت قائم ہوگی اور لوگوں کو ان کی دائمی زندگی سے ہمکنار کیا جائے گا۔مرنے کے بعد کے حالات جو مابعد الطبیعات میں آتے ہیں کو اسلام نے بڑے واضح انداز میں پیش کردیا ہے۔ کہ مرنے کے بعد اس کا قیامت تک کے لیے مسکن قبر ہے اور برزخی زندگی میں قبر میں اس کے ساتھ کیا احوال پیش آتے ہیں۔ انسان کے اعمال کی جزا و سزا کا پہلا مقام قبر ہی ہے کہ جس میں وہ منکر نکیر کے سوالوں کے جواب دے کر اگلے مراحل سے گزرتا ہے۔ زیر نظر کتاب ’’شہر خموشاں‘‘ مولانا عبدالرح...
اللہ تعالی نے کائنات کی یہ وسیع وعریض بستی اپنے تمام بندوں کے لئے بسائی ہے۔انسان کے علاوہ اللہ تعالی کی دوسری مخلوقات نے عملی طور پر اس آفاقیت کو باقی رکھا ہے۔ایسا نہیں ہے کہ ایک ملک کے شیر کو کو دوسرے ملک میں جانے کی اجازت نہ ہو، یا ایک خطے کے جانوروں اور پرندوں کو دوسرے ملک میں جانے کے لئے ویزہ لگوانا پڑے۔لیکن انسان کی فطرت میں کچھ ایسی تنگ نظری واقع ہوئی ہے کہ اسے اپنے ہی ہم جنسوں کا وجود گوارہ نہیں ہے۔اسی لئے تو اس نے دنیا کو براعظموں، ملکوں اور صوبوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔اور اسی نام نہاد تقسیم سے شہریت کا مسئلہ پیدا ہو ا ہے۔ہر ملک کے لوگوں نے اپنی سرحدوں کو باہر کے لوگوں کے لئے بند کر رکھا ہے۔سرحد سے باہر کے لوگ چاہے ایک ہی زبان بولنے والے ہوں، ایک ہی نسل سے تعلق رکھتے ہوں اور ایک ہی مذہب کو ماننے والے ہوں،انہیں سرحد پار کرنے کی اجازت نہیں ہےاور نہ ہی انہیں سرحد کے اس پار رہنے والوں کے مماثل حقوق واختیارات حاصل ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب" شہریت اور اس سے متعلق مسائل " ایفا پبلیکیشنز، نئی دہلی کی شائع کردہ ہے، جس میں اسلامک فقہ اکیڈمی کے 23 وی...
بچوں کے لیے عام طور پر ہمارے ہاں کہانیوں اور لطیفوں کی ایسی کتب مروج ہیں جو سراسر جھوٹ پر مبنی ہوتی ہیں اور زیادہ تر کہانیوں میں پیسے اور دولت کی محبت کا تاثر دیا جاتا ہے۔ ایسے واقعات اور کہانیاں بجائے بچوں کی تربیت کے ان کے اخلاقی بگاڑ کا باعث بنتے ہیں۔ اس امر کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی کہ بچوں کےلیے ایسی کہانیاں مرتب کی جائیں جو ان کی دلچسپی کا بھی باعث ہوں اور ان کی بہتر تربیت بھی ہو سکے۔ محترم مائل خیر آبادی نے اسی ضرورت کو سامنے رکھتے ہوئے بچوں کے لیے کہانیوں کے انداز میں سچے واقعات قلمبند کیے ہیں۔ اس کتاب میں توحیدکے شہزادے کی کہانی بیان کی گئی ہے اس کے علاوہ اس میں اس بے عمل ریا کار راہب کی بھی کہانی ہے جس نے اللہ کی رضا و خوشنودی کی جگہ جب لوگوں کی خوشی و چاہت کو اہمیت دی تو اس کا کیا عبرتناک انجام ہوا۔ اسی طرح کئی اور دلچسپ اور سبق آموز کہانیاں بھی اس میں شامل ہیں۔ اگر ہم بچوں کو ویڈیو گیمز اور کارٹونز کا رسیا بنانے کے بجائے اس قسم کی کتب کی طرف مائل کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو اس کےبہت اچھے ثمرات جلد ہی نظر آنا شروع ہو جائیں گے۔(ع۔م)
اللہ رب العزت نے اپنے بندوں کی رشد و ہدایت کے لیے انبیاء کرام و رسل عظام کی ایک برزگزیدہ جماعت کو مبعوث فرمایا۔ اس مقدس و مطہر جماعت کو کچھ ایسے حواری اور اصحاب بھی عنائت کیے جو انبیاء کرام کی تصدیق و حمایت کرتے۔ اللہ رب العزت نے سید الاوّلین و الآخرین حضرت محمد ﷺ کو صحابہ کرام کی ایک ایسی جماعت عطا فرمائی جن کے بارے میں اللہ کی یہ مشیت ہوئی کہ وہ خاتم النبیین سے براہ راست فیض حاصل کریں اور رسول اللہ ﷺ خود ان کا تزکیہ نفس کرتے ہوئے کتاب و حکمت کی تعلیم دیں۔ درس گاہِ محمدیہ ﷺ کی تعلیم و تربیت نے افرادِ انسانی کی ایک ایسی مثالی جماعت تیار کی کہ انبیاء کرام کے بعد روئے زمین پر کوئی جماعت ان سے بہتر سیرت و کردار پیش نہ کر سکی۔ وہ مقدس جماعت جن کا ذکر قرآن مجید اور دیگر آسمانی کتب میں بھی کیا گیا اور جن کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:" خیر امتی قرنی" (بخاری)"میری امت کی سب سے بہترین جماعت میرے عہد کے لوگ ہیں" یہ وہ جماعت تھی جن کی سیرت و کردار کے بارے میں دشمنوں نے بھی گواہی دی۔ تاریخ اسلام صحابہ کرام ؓ کے روشن اور شاندار تذکروں سے مزین ہ...
نبی کریم ﷺ کی بیان شدہ وصیتیں صرف مخصوص افراد ومخاطبین ہی کے لیے نہیں بیان کی گئیں بلکہ ان کےذریعے سے پوری امت کو خطاب کیا گیا ہے۔ان وصیتوں میں مخاطبین کی دنیا وآخرت دونوں کی سربلندی اور فلاح ونجات کاسامان موجود ہے ۔جو یقیناً تاقیامت آنے والوں کےلیے سر چشمہ ہدایت ونجات ہے ۔اور ان وصیتوں کی ایک نمایاں خوبی الفاظ میں اختصار اورمعانی ومطالب کی وسعت وجامعیت ہے جو نبی کریم ﷺ کے معجزۂ الٰہیہ’’جوامع الکلم‘‘ کا نتیجہ ہے ۔ زیر نظر کتابچہ ’’شہنشاہ کونین ﷺ کی آخری وصیتیں‘‘مفتی سعید انورمظاہری کا مرتب شدہ ہے انہوں اس کتابچہ میں رسول اکرم ﷺ کےالوداعی آثار ذکر کرنے کے بعد عقیدہ، حقوق العباد، انصار، حسن معاشرت اور یہود ونصاریٰ ومشرکین کو جزیرۃ العرب سے نکالنے سے متعلق وصیتیں اختصار کےساتھ جمع کردی ہیں۔ (م۔ا)
سیدنا فاروق اعظم کی مبارک زندگی اسلامی تاریخ کاوہ روشن باب ہے جس نےہر تاریخ کو پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔ آپ نے حکومت کے انتظام وانصرام بے مثال عدل وانصاف ،عمال حکومت کی سخت نگرانی ،رعایا کے حقوق کی پاسداری ،اخلاص نیت وعمل ،جہاد فی سبیل اللہ ،زہد وعبادت ،تقویٰ او رخوف وخشیت الٰہی او ردعوت کے میدانوں میں ایسے ایسے کارہائےنمایاں انجام دیے کہ انسانی تاریخ ان کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ انسانی رویوں کی گہری پہچان ،رعایا کے ہر فرد کے احوال سے بر وقت آگاہی او رحق وانصاف کی راہ میں کوئی رکاوٹ برداشت نہ کر نےکے اوصاف میں کوئی حکمران فاروق اعظم کا ثانی نہیں۔ آپ اپنے بے پناہ رعب وجلال اور دبدبہ کے باوصف نہایت درجہ سادگی فروتنی اورتواضع کا پیکر تھے ۔ آپ کا قول ہے کہ ہماری عزت اسلام کے باعث ہے دنیا کی چکا چوند کے باعث نہیں۔ سید ناعمر فاروق کے بعد آنے والے حکمرانوں میں سے جس نے بھی کامیاب حکمران بننے کی خواہش کی ،ا...
ادیان عالم میں اسلام واحد دین ہے جو اپنے عقیدہ وعمل کے اعتبار سے خیر القرون سے لے کر آج تک پوری آن‘بان اور شان وشوکت کے ساتھ موجود ہے۔گزشتہ کئی صدیوں میں زمان ومکان کے مختلف مراحل میں اس دین قیم کے عقیدہ وعمل میں بھی انحراف کی بہت سی علمی وعملی صورتیں پیدا ہوئیں مگر ایک طائفہ مقدسہ اور طائفہ منصورہ ہر دور میں ایسا رہا ہے جس نے دین وشریعت کے روئے درخشاں پر کسی نوعیت کی کثافت کو برداشت نہیں کیا اور پوری قوتِ ایمانی اور تحقیقی ذوق کے ساتھ دین وشریعت کی اساس اور ماخذ اول کو محفوظ کیا‘ طائفہ منصورہ میں سے ایک نام مولانا احسان الٰہی ظہیر کا بھی ہے۔زیرِ تبصرہ کتاب ان کے رشحات فکر کا ایک بصیرت افروز اور سبق آموز انتخاب ہے۔ علامہ شہید کے بیسیوں خطبات اور درجنوں تصانیف کے مطالعہ سے مصنف نے ان جواہر پاروں کو جمع کیا ہے۔مصنف نے بڑے جذبے‘ شوق اور کمال ہنر مندی کے ساتھ ان کے خیالات ونظریات کو جمع کیا ہے اور متعین عنوانات کے تحت ترتیب دیا ہے۔ کتاب کے آغاز میں ان کے سوانحی وکوائف ‘ حیات نامے اور آخر میں تین اہم تاثراتی مضامین...
حضرت عثمان ؓان جلیل القدر لوگوں میں سے ہیں جن کے طرز عمل، اور اقوال و افعال کی لوگ اقتداء کرتے ہیں آپ کی سیرت، ایمان، صحیح اسلامی جذبہ اور دین اسلام کے فہم سلیم کے قوی مصادر میں سے ہیں۔ زیر مطالعہ کتاب میں اسی شخصیت کو موضوع سخن بنایا گیا ہے۔ مصنف کا کہنا ہے کہ آج ایک مخصوص طبقہ کی جانب سے ایک ایسی شخصیت پر دشنام طرازی کا بازار گرم کیا جاتا ہے جس نے وحدت اسلامیہ کی بقا کے پیش نظر کلمہ گو فسادیوں کے خلاف تلوار نہ اٹھائی۔اپنی پوری زندگی پیکر صدق و وفا اور امام عزم و استقامت بنے رہے۔ آپ نے اپنے اوپر اچھالے جانے والے تمام اعتراضات کا مدلل اور مسکت جواب دیا۔ یہ کتاب فی زمانہ حضرت عثمان ؓپر کیے جانے والے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے ذوالنورین کی عظمت کو ثابت کرتی ہے اور قارئین کے سامنے یہ ثابت کرتی ہے کہ آپ ایمان و علم، اخلاق و آثار کے ساتھ انتہائی عظیم انسان تھے۔ آپ کی عظمت اسلام کے فہم و تطبیق اور رسول اللہ ﷺ کے طریقہ کی اتباع کا نتیجہ تھی۔
سیدنا حسین اپنے بھائی سیدنا حسن سے ایک سال چھوٹے تھے وہ نبی کریم ﷺ کے نواسے،سیدنا فاطمہ بنت رسول کے اور سیدنا علی لخت جگر تھے۔ سیدنا حسین ہجرت کے چوتھے سال شعبان کے مہینے میں پیدا ہوئے ۔آپ کی پیدائش پر رسول اللہ ﷺ بہت خوش ہوئے اور آپ کو گھٹی دی ۔رسول اللہ ﷺ نے آپ کا نام حسین رکھا ۔ساتویں دن آپ کا عقیقہ کیا گیا او ر سر کے بال مونڈے گئے ۔ رسالت مآب اپنے اس نواسے سے جتنی محبت فرماتے تھے اس کے واقعات دیکھنے والوں نے ہمیشہ یا درکھے۔ اکثر حدیثیں محبت اور فضیلت کی حسن وحسین دونوں صاحبزادوں میں مشترک ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے اپنے سایہ عاطفت میں اپنے ان نواسوں کی تربیت کی ۔ سیدنا حسین نے پچیس حج پیدل کیے۔جہاد میں بھی حصہ لیتے رہے۔پہلا لشکر جس نے قیصر روم کے شہر قسطنطنیہ پر حملہ کیا۔اس میں بھی تشریف لے گئے۔ وہاں میزبان رسول حضرت ابو ایوب انصاری کی وفات ہوئی تو امام کے پیچھے ان کے جنازے میں بھی شریک ہوئے۔آخری مرتبہ جب مکہ میں موجود تھے اور حج کے ایام شروع ہو چکے تھے۔ مگر کوفیوں نے دھوکا دیا...
واقعہ کربلا کی حقیقت کے متعلق بہت ساری من گھڑ ت اور فرضی داستا نیں اورافسانے لوگوں میں مشہور ہیں جس میں باطل وموضوع روایات کا سہارا لیا گیا ہے،جن کا حقیقت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔تاریخ ابن کثیر المعروف البدایہ والنہایہ بڑے سائز کی چودہ ضخیم جلدوں پر مشتمل ایک عظیم تاریخی کتاب ہے،جس کے مجموعی طور پر چھ ہزار سے زائد صفحات ہیں۔امام ابن کثیر نے اپنی اس کتاب میں ابتدائے آفرینش سے لی کر اپنے زمانے یعنی ۷۶۷ ھ تک کے حالات وواقعات بڑی خوبصورتی اور ترتیب کے ساتھ جمع کر دیا ہے۔یہ کتاب ایک مستند تاریخی عجوبہ گار قصص قرآن ذخیرہ احادیث وآثار قابل اعتماد سیر وسوانح دل آویز دستاویز اور ارباب علم ودانش کا مرجع وماخذ ہے۔ زیر تبصرہ کتابچہ "شہید کربلا" اسی عظیم الشان کتاب البدایہ والنہایہ کی جلد نمبر آٹھ۸ کے صفحہ نمبر ایک سو چھیالیس ۱۴۶سے لیکر دو سو گیارہ ۲۱۱ تک کا اردو ترجمہ ہے۔جس میں امام ابن کثیر نے سیدنا حسین بن علی کے حالات زندگی کو نقل کیا ہے۔اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی شہادت اور واقعہ کربلا کی تفصیلات بھی بیان کر دی ہیں۔اللہ تعالی سے دعا ہ...
یزید بن معاویہ ؓ تابعین میں سے ہیں اور صحابی رسول سیدنا امیر معاویہ کے بیٹے ہیں۔بعض روافض اور مکار سبائیوں نے ان پر بے شمار جھوٹے الزامات لگائے ہیں ۔یزید بن معاویہ پر لگائے جانے والے بیشتر الزامات بے بنیاد، من گھڑت اور سبائیوں کے تراشے ہوئے ہیں۔ زیر نظر کتاب محترم جناب حافظ عبید اللہ صاحب کی تصنیف ہے۔اس کتاب میں انہوں نے ہندوستان کے ایک عالم سید طاہر حسین گیاوی کی ابو المآثر علامہ حبیب الرحمٰن الاعظمی کی کتاب کے ناقدانہ جائزہ میں لکھی گئی کتاب بعنوان ’’ شہید کربلا او رکردار ِ یزید ‘‘ پر ناقدانہ جائزہ پیش کیا گیا ہے ۔گویا حافظ عبید اللہ کی کتاب ہذا علامہ حبیب الرحمٰن الاعظمی کی کتاب کے جواب کا جواب الجواب ہے۔(م۔ا)
اسلام میں شہید کا بڑا مقام ہے ، قرآن کریم میں ایسے لوگوں کے متعلق جو راہِ خدا میں شہید ہو جاتے ہیں کہا گیا ہے کہ تم انھیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں اور انہیں ان کے رب کی طرف سے رزق دیا جاتا ہے۔ایک روایت میں ہے کہ تم شہید کی لاش کو غسل نہ دو کیوں کہ بروز قیامت اس کے ہر زخم اور خون کے ہر قطرہ سے مشک کی خوشبو پھیلےگی۔اوراصلی شہید وہ ہے جو اس نیت سے جہاد کرے تاکہ اللہ کا کلمہ بلند ہو اپنے ملک، وطن، قوم اور زمین ، علاقے کے لیے نہیں، اور پھر وہ اس جہاد میں مارا جائے اسے نہ تو غسل دیا جائے گا نہ ہی کفن دیا جائے گا، بلکہ اس کو بلا غسل اور بلا کفن کے دفن کردیا جائے گا اور وہ شہید جو کہ اخروی شہید کہلاتے ہیں جیسے کوئی ٹرین و بس وغیرہ میں دب کر مر گیا، ہیضہ وطاعون میں یا ولادت میں کسی عورت کی موت ہوگئی تو وہ بھی شہید ہے یعنی شہیدوں جیسا اجرو ثواب اسے بھی ملے گا، مگر اس کو دنیا میں غسل بھی دیا جائے گا اور کفن بھی دیا جائے گا، اور نماز جنازہ بھی پڑھی جائے گی۔ زیر نظر کتاب’’ شہید کے لیے 40 انعامات‘‘ مولانا...