خلیفۂ سوم سیدنا عثمان غنی کا تعلق قریش کے معزز قبیلے سے تھا۔آپ کا نام عثمان اور لقب ” ذوالنورین “ ہے۔ اسلام قبول کرنے والوں میں آپ ” السابقون الاولون “ کی فہرست میں شامل تھے، حضور ﷺ پر ایمان لانے اور کلمہ حق پڑھنے کے جرم میں سیدنا عثمان غنی کو ان کے چچا حکم بن ابی العاص نے لوہے کی زنجیروں سے باندھ کر دھوپ میں ڈال دیا، کئی روز تک علیحدہ مکان میں بند رکھا گیا، چچا نے آپ سے کہا کہ جب تک تم نئے مذہب (اسلام ) کو نہیں چھوڑو گے آزاد نہیں کروں گا۔ یہ سن کر آپ نے جواب میں فرمایا کہ چچا ! اللہ کی قسم میں مذہب اسلام کو کبھی نہیں چھوڑ سکتا ، سیدناعثمان غنی اعلیٰ سیرت و کردار کے ساتھ ثروت و سخاوت میں بھی مشہور تھے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جنت میں ہرنبی کا ساتھی و رفیق ہوتاہے میرا ساتھی ”عثمان “ ہوگا۔ سیدنا عثمان کا دورِ حکومت تاریخ اسلام کا ایک تابناک اور روشن باب ہے ۔ ان کے عہد زریں میں عظیم الشان فتوحات کی بدولت اسلامی سلطنت کی حدود اطراف ِ عالم تک پھیل گئیں اور انہوں نے اس دور کی بڑی بڑی حکومتیں روم ، فارس ، مصر کےبیشتر علاقوں میں پرچم اسلام بلند کرتے ہوئے عہد فاروقی کی عظمت وہیبت اور رعب ودبدبے کو برقرار رکھا اور باطل نظاموں کو ختم کر کے ایک مضبوط مستحکم اورعظیم الشان اسلامی مملکت کواستوار کیا ۔نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ اے عثمان اللہ تعالٰی تجھے خلافت کی قمیص پہنائیں گے ، جب منافق اسے اتارنے کی کوشش کریں تو اسے مت اتارنا یہاں تک کہ تم مجھے آملو۔ چنانچہ جس روز آپ کا محاصرہ کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ مجھ سے حضور نے عہد لیا تھا ( کہ منافق خلافت کی قمیص اتارنے کی کوشش کریں گے تم نہ اتارنا ) اس ليے میں اس پر قائم ہوں اور صبر کر رہا ہوں ۔ 35ھ میں ذی قعدہ کے پہلے عشرہ میں باغیوں نے سیدنا عثمان ذوالنورین کے گھر کا محاصرہ کیا اور آپ نے صبر اوراستقامت کا دامن نہیں چھوڑا، محاصرہ کے دوران آپ کا کھانا اور پانی بند کردیاگیا تقریبا چالیس روز بھوکے پیاسے82سالہ مظلوم مدینہ سیدنا عثمان کو جمعۃ المبارک 18ذو الحجہ کو انتہائی بے دردی کے ساتھ روزہ کی حالت میں قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہوے شہید کردیا گیا۔ زیر نظر کتاب’’شہادت عثمان رضی اللہ عنہ سے شہادت حسین رضی اللہ تک ‘‘الفت حسین کی مرتب شدہ ہے فاضل مرتب نے اس کتاب میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے فضائل و مناقب ، خلافت وفتوحات ، شہادت ، سیدنا علی حضرت رضی اللہ عنہ کی خلافت وشہادت اور شہادت حسین رضی اللہ عنہ کو تاریخ آئینہ میں بیان کیا ہے۔(م۔ا)
عبداللہ بن سباء |
9 |
امیر المومنین عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ |
13 |
آپ کا نام |
13 |
عثمان رضی اللہ عنہ کے فضائل |
13 |
خلافت وفتوحات |
15 |
طرابلس کی فتح |
15 |
اسپین پر حملہ |
15 |
قبرص کی فتح |
16 |
فارس پرقبضہ |
16 |
طبرستان کی فتح |
16 |
طخارستان کی فتح |
16 |
کش، دواراورکابل کی فتوحات |
17 |
شہادت عثمان رضی اللہ عنہ |
18 |
اسباب |
18 |
عثمان رضی اللہ عنہ پر اعتراضات کا جائزہ |
18 |
قرابت داروں کو عہدے دینا |
19 |
دیگر حاکم |
19 |
ابوذر رضی اللہ عنہ کوجلاوطن کرنا |
20 |
مروان کو افریقہ کے مال غنیمت سے خمس دینا |
20 |
قرآن مجید کے نسخوں کو جلانا |
20 |
عبداللہ بن مسعود اور عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو شدید زدوکوب کرنا |
21 |
حکومتی چراگاہ کی توسیع |
21 |
سفرمیں نماز قصر کی بجائے پوری پڑھنا |
22 |
عثمان رضی اللہ عنہ کا غزوات میں عدم شرکت |
22 |
عبیداللہ بن عمر کو ہرمزان کے بدلے قتل نہیں کیا |
23 |
جمعہ کے دن دوسری اذان کا اضافہ |
24 |
حکم بن العاص |
24 |
عبداللہ بن سباء کی سفارش |
24 |
عثمان رضی اللہ عنہ کی تقریر |
26 |
شہادت کی تیاری |
28 |
عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے سلسلے میں مزید اقوال |
29 |
سیدنا علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب (35ھ تا 40ھ) |
31 |
خلافت سیدنا علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب (35ہجری۔۔40 ہجری) |
32 |
خلافت کا دوسرا دن |
34 |
خلافت کا تیسرا روز |
34 |
شام پر حملہ کی تیاریاں |
36 |
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا |
38 |
علی رضی اللہ عنہ کی مدینہ سے روانگی |
41 |
محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کوفہ میں |
41 |
مصالحت کی کوشش |
42 |
جنگ جمل |
43 |
جنگ کا خاتمہ |
44 |
جنگ میں مقتولین کے اعداد |
45 |
کوفہ دارالخلافہ |
45 |
قیس بن سعد کی معزولی |
46 |
جنگ صفین |
47 |
جنگ صفین |
50 |
اقرار نامہ اور میدان سے واپسی |
52 |
حکمین کی گفتگو |
53 |
فیصلے کا دن |
54 |
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کا فیصلہ |
54 |
اس کے بعد عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے فیصلہ سنایا |
54 |
خوارج کی سرکشی (37 ہجری) |
55 |
جنگ کی ابتداء |
57 |
شام کا ارادہ |
57 |
مصر پر امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا قبضہ ( 38 ہجری) |
58 |
دیگر اہم واقعات |
59 |
عبداللہ بن عبا س رضی اللہ عنہ اور عقیل رضی اللہ عنہ بن ابی طالب |
60 |
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی شہادت (40 ہجری) |
60 |
امیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ کی سیرت |
61 |
صحابہ کرام کا موقف |
63 |
پہلا گروہ |
63 |
دوسرا گروہ |
63 |
تیسرا گروہ |
63 |
عام مسلمانوں کا موقف |
63 |
خلافت امیر المؤمنین سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہ (40 ہجری ) |
65 |
شرائط |
67 |
مدینہ میں قیام |
68 |
امیرمعاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ (41 ہجری سے 59 ہجری ) |
69 |
خارجیوں سے جنگ |
72 |
زیاد بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ |
72 |
حجر بن عدی رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کا قتل |
73 |
بغاوتوں پر قابو |
74 |
فتوحات |
75 |
سندھ کی فتوحات |
75 |
شمالی افریقہ کی فتوحات |
75 |
رومیوں سے معرکہ آرائی |
76 |
روڈس کی فتح |
76 |
یزید بن معاویہ (60 ہجری تا 64 ہجری ) |
77 |
کردار یزید |
77 |
قتل حسین بن علی رضی اللہ عنہ |
80 |
اہل عراق کی حسین رضی اللہ عنہ سے خط وکتابت |
80 |
عبیداللہ بن زیاد کی کوفہ آمد |
81 |
مسلم بن عقیل کا قتل |
81 |
حسین بن علی رضی اللہ عنہ کی مکہ سے روانگی |
82 |
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ |
82 |
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ |
83 |
عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ |
83 |
شاعر فرزوق |
84 |
کربلا میں داخلہ |
84 |
حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت |
85 |
اصل حقائق |
85 |
پانی کی بندش |
86 |
راس حسین رضی اللہ عنہ |
86 |
واقعہ کربلا کے راویوں کی حقیقت |
86 |
ابن جریر طبری کا حال |
87 |
ماتم قتل حسین رضی اللہ عنہ کا بانی |
87 |
حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے خروج کی شرعی حیثیت |
88 |
شہادت حسین رضی اللہ عنہ کے متعلق تین گروہ |
89 |
پہلا گروہ |
89 |
دوسرا گروہ |
89 |
تیسرا گروہ |
89 |
شہادت حسین رضی اللہ عنہ میں یزید کا کردار |
89 |
بنی امیہ اور بنی ہاشم کی رشتہ داریاں |
90 |
اہل بیت اور بنوامیہ کی رشتہ داریاں |
90 |
اہل بیت اور خلفاء ثلاثہ کی رشتہ داریاں |
91 |
سیدنا حسن رضی اللہ عنہ وحسین رضی اللہ عنہ کے مناقب |
91 |
یزید اور واقعہ حرہ |
91 |
یزید بن معاویہ کی فتوحات |
95 |
رومیوں سے جہاد |
95 |
عقبہ بن نافع کی شہادت |
95 |
حرف آخر |
95 |