یزید بن معاویہ ؓ تابعین میں سے ہیں اور صحابی رسول سیدنا امیر معاویہ کے بیٹے ہیں۔بعض روافض اور مکار سبائیوں نے ان پر بے شمار جھوٹے الزامات لگائے ہیں ۔یزید بن معاویہ پر لگائے جانے والے بیشتر الزامات بے بنیاد، من گھڑت اور سبائیوں کے تراشے ہوئے ہیں۔ زیر نظر کتاب محترم جناب حافظ عبید اللہ صاحب کی تصنیف ہے۔اس کتاب میں انہوں نے ہندوستان کے ایک عالم سید طاہر حسین گیاوی کی ابو المآثر علامہ حبیب الرحمٰن الاعظمی کی کتاب کے ناقدانہ جائزہ میں لکھی گئی کتاب بعنوان ’’ شہید کربلا او رکردار ِ یزید ‘‘ پر ناقدانہ جائزہ پیش کیا گیا ہے ۔گویا حافظ عبید اللہ کی کتاب ہذا علامہ حبیب الرحمٰن الاعظمی کی کتاب کے جواب کا جواب الجواب ہے۔(م۔ا)
امام ابو حنیفہ نعمان بن ثابت الکوفی بغیر کسی اختلاف کے معروف ائمہ اربعہ میں شمار کئے جاتے ہیں، تمام اہل علم کا آپکی جلالتِ قدر، اور امامت پر اتفاق ہے۔ علی بن عاصم کہتے ہیں: "اگر ابو حنیفہ کے علم کا انکے زمانے کے لوگوں کے علم سےوزن کیا جائے تو ان پر بھاری ہو جائے گا" آپ کا نام نعمان بن ثابت بن زوطا اور کنیت ابوحنیفہ تھی۔ بالعموم امام اعظم کے لقب سے یاد کیے جاتے ہیں۔ آپ بڑے مقام و مرتبے پر فائز ہیں۔ اسلامی فقہ میں حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کا پایہ بہت بلند ہے۔ آپ نسلاً عجمی تھے۔ آپ کی پیدائش کوفہ میں 80ہجری بمطابق 699ء میں ہوئی سن وفات 150ہجری ہے۔ اما م موصوف کو صحابہ کرام سے شرف ملاقات اور کبار تابعین سے استفادہ کا اعزار حاصل ہے آپ اپنے دور میں تقویٰ وپرہیزگاری اور دیانتداری میں بہت معروف تھے اور خلافت عباسیہ میں متعدد عہدوں پر فائز رہے ۔ابتدائی ذوق والد ماجد کے تتبع میں تجارت تھا۔ لیکن اللہ نے ان سے دین کی خدمت کا کام لینا تھا لہٰذاتجارت کا شغل اختیار کرنے سے پہلے آپ اپنی تعلیم کی طرف متوجہ ہوئے۔ آپ نے بیس سال کی عمر میں اعلیٰ علوم کی تحصیل کی ابتدا کی۔آپ نہایت ذہین اور قوی حافظہ کے مالک تھے۔ آپ کا زہد و تقویٰ فہم و فراست اور حکمت و دانائی بہت مشہور تھی۔ زیر نظر کتاب’’ سیرت امام ابو حنیفہ رحمہ (اتہام شیعیت کی حقیقت)‘‘ کی تصنیف ہے انہوں نے اس کتاب میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے متعلق کذاب راویوں کے کئی وضعی الزامات اور واقعات کی کھولی ہے۔یہ کتاب چونکہ ایک حنفی صاحب علم نے لکھی ہے سو اس میں کئی ایسے ا صولی مباحث ہوسکتے ہیں جن سے محدثین کے منہج کے بنیادی اختلافات موجود ہوں ۔(م۔ا)
پوری اسلامی تاریخ میں مسلمانوں کی غالب ترین اکثریت اہل سنت کی رہی ہے، اس مکتبِ فکر میں آج چار فقہی مسالک ہیں، لیکن ہماری علمی تاریخ میں ان کے علاوہ اور بھی فقہی مسالک پائے گئے ہیں جو آج ناپید یا معدوم ہوچکے ہیں۔ چند مسالک کی بقا اور دیگر مسالک کے معدوم ہوجانے کے اسباب کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کے متعدد علمی وحقیقی اسباب ہیں۔ زیر نظر رسالہ بعنوان ’’معدوم فقہی مسائل دلچسپ تاریخی تجزیہ ‘‘ مختار خواجہ کی ایک عربی تحریر کا اردو ترجمہ ہے ۔مختار خواجہ نے اس رسالے میں امام اوزاعی، امام لیث بن سعد، امام ابن جریر طبری، امام داؤد ظاہری رحہم اللہ اور دیگر کئی ائمہ اور ان کے غیر مروجہ مسالک کا تذکرہ کیا ہے ۔ جو امتداد زمانہ اور نامساعد حالات کےسبب آج علمی دنیا میں اپنی مستقبل وجداگانہ حیثیت میں موجود نہیں ۔ (م۔ا)
خانہ کعبہ اور مسجد نبویؐ مسلمانوں کی عقیدتوں کے مرکز ہیں، اس لئے جب بیت اللہ شریف یا مسجد نبویؐ کے آئمہ کرام میں سے کوئی پاکستان تشریف لاتے ہیں تو یہاں کے عوام میں خوشی و مسرت کے بے پایاں جذبات کا پیدا ہونا فطری امر ہے۔ زیرنظر کتاب ’’خطبات حرم مدنی ‘‘ امام حرمین فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر جسٹس صلاح البدیر حفظہ اللہ کے مئی 2012ء سے مارچ 2019ء کے دوران اہم ترین موضوعات پر منبر رسول سے دئیے کے 55؍ خطبات کا اردو ترجمہ ہے۔ترجمہ کی سعادت پیغام ٹی وی کے ریسرچ سکالرز نے حاصل کی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ان خطبات کو عامۃ الناس کےلیے نفع بخش بنائے اور مترجم وناشرین کی اس کاوش کو قبول فرمائے ۔آمین (م۔ا)
انسان کی پوری زندگی کسی نہ کسی قانون سے مربوط ہے، یہ قانون انسان کو صحیح راستہ سے سہولت کے ساتھ منزل مقصود تک پہنچانے میں ممد و معاون ہوتا ہے، اگر قانون اور قانون کی پاسداری نہ ہوتو انسان اور جانوروں میں کوئی امتیاز باقی نہیں رہے گا۔انسانی سہولتوں کے وسائل جیسے جیسے سامنے آتے گئے، علماء اُمت نے اسلامی نقطۂ نظر سے اس پر روشنی ڈالنے کی بھی کوششیں کیں، چنانچہ آج کل تیز رفتار سواریوں کی وجہ سے، جو متعدد اور اندوہناک حادثات پیش آرہے ہیں، ان سے متعلق بھی علماء امت نے شرعی راہنمائی کی ہے ۔ زیر نظر کتابچہ بعنوان’’گاڑیوں کے حادثات اسباب، اقسام اور احکام‘‘ فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ کا ٹریفک قوانین کی پاسداری سے متعلق ایک فتویٰ کا اردو ترجمہ ہے جناب محمد سرور صاحب نے اسے اردو قالب میں ڈھالا ہے ۔ٹریفک کے اصول وآداب کے متعلق یہ ایک راہنما تحریر ہے ۔(م۔ا)
اسلام ایک کامل دین اور مکمل دستور حیات ہے اسلام جہاں انفرادی زندگی میں فردکی اصلاح پر زور دیتا ہے وہیں اجتماعی زندگی کے زرین اصول وضع کرتا ہے جوزندگی کے تمام شعبوں میں انسانیت کی راہ نمائی کرتا ہے اسلام کا نظامِ سیاست وحکمرانی موجودہ جمہوری نظام سے مختلف اوراس کے نقائص ومفاسد سے بالکلیہ پاک ہے اسلامی نظامِ حیات میں جہاں عبادت کی اہمیت ہے وہیں معاملات ومعاشرت اور اخلاقیات کو بھی اولین درجہ حاصل ہے، اسلام کا جس طرح اپنا نظامِ معیشت ہے اور اپنے اقتصادی اصول ہیں اسی طرح اسلام کا اپنا نظامِ سیاست وحکومت ہےاسلامی نظام میں ریاست اور دین مذہب اور سلطنت دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں، دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں دونوں ایک دوسرے کے مددگار ہیں، دونوں کے تقاضے ایک دوسرے سے پورے ہوتے ہیں ۔اسلام نے اپنی پوری تاریخ میں ریاست کی اہمیت کوکبھی بھی نظر انداز نہیں کیا۔اسلامی فکر میں دین اورسیاست کی دوری کاکوئی تصور نہیں پایا جاتا اور کا اسی کانتیجہ ہے کہ مسلمان ہمیشہ اپنی ریاست کواسلامی اصولوں پر قائم کرنے کی جدوجہد کرتے رہے۔ قرآن پاک اور احادیث نبویہ میں جس طرح اخلاق اور حسنِ کردار کی تعلیمات موجود ہیں۔اسی طرح معاشرت،تمدن اور سیاست کے بارے میں واضح احکامات بھی موجود ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب ’’اسلامی خلفاء وملوک اور تاریخ اسلام سے متعلق چند غلط فہمیوں کا ازالہ‘‘ مختلف اہل قلم کے مضامین کا مجموعہ ہے ۔پہلا مضمون بعنوان اسلامی خلفاء وملوک اور تاریخ اسلام سے متعلق چند غلط فہمیوں کا ازالہ از حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ ۔اسی مضمون کو کتاب کا عنوان بنایا گیا ہے دوسرا مضمون بعنوان حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور یزید رحمہ اللہ کی ولی عہدی از مولانا حسین ااحمد مدنی رحمہ اللہ ۔ اور تیسرا مضمون بعنوان سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اور یزید کی ولی عہدی از مولانا عبد العلی فاروقی ۔چو تھے نمبر پر دو مضمون بعنوان حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے کربلائی خروج کی بنیاد کیا تھی ؟ ،یزید بن معاویہ کا فسق و فجور از مولانا ابو ریحان عبد الغفور سیالکوٹی رحمہ اللہ ۔ پانچواں مضمون تصویر کا دوسرا رُخ از مولانا مطلوب الرحمٰن ندوی نگرامی رحمہ اللہ ہےاس کے علاوہ مرتب کتاب فہد حارث کے چند مضامین بھی شامل کتاب ہیں ۔(م۔ا)
حَجّاج بن یوسف ثقفی (متوفی 95ھ)، بنی امیہ کے دور میں عراق اور حجاز کا حاکم تھا۔ بنی امیہ کی حکومت کو مضبوط بنانے میں اس کا بڑا کردار تھا۔ بنی امیہ خاندان سے وفاداری اور ان کی خلافت کی ترویج میں سعی و کوشش کی وجہ سے ان کے ہاں اسے بڑا مقام ملا۔ عبدالملک بن مروان نے مرتے ہوئے اپنے بیٹے ولید سے اس کی سفارش کی اور اپنے ایک بیٹے کا نام بھی حجاج رکھا۔لیکن تاریخ کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ حجاج نے بہت ظلم کیا ہے، تاہم بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور تابعین رحمہم اللہ نے بامر مجبوری اس کی اقتدا میں نماز بھی پڑھی ہے۔اردو کتب میں حجاج بن یوسف کی شخصیت کا صرف ایک ہی رخ عمومی طور پر پیش کیا جاتا ہے جو ظلم وستم، سفاکیت، درندگی، قتل وغارت گری سے تعبیر ہے جبکہ ا س کی خدمات کا ایک طویل سلسلہ ہے جیسا کہ اعرابِ قرآن، تعریب الدواوین،اسلامی کرنسی میں سکوں کا باقاعدہ آغاز،عراق میں نہری نظام ، فتوحات کا ایک طویل سلسلہ وغیرہ۔ زیر نظر کتاب’’حجاج بن یوسف تاریخ وحقائق ‘‘ ڈاکٹر محمود زیادہ کے ڈاکٹریٹ کے مقالہ بعنوان الحجاج بن يوسف الثقفي المفترى عليه كا اردو ترجمہ ہے یہ مقالہ انہوں نے جامع ازہر کے کلیۃ اللغۃ العربیہ میں پیش کیا جس پر انہیں 1946ء میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری عنایت کی گئی بعدازاں دار السلام ، قاہرہ نے اسے کتابی صورت میں شائع کیا۔ حافظ قمر حسن صاحب نے اس کا رواں اردو ترجمہ کیا ہے ۔ (م۔ا)
ابو العاص بن ربیع ام المومنین حضرت خدیجہ کے بھانجے تھے۔ آنحضرت کی بعثت پریہ ایمان نہ لائے۔ بلکہ غزوہ بدر میں مشرکین کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف لڑے ۔اعلانِ نبوت سے قبل حضرت خدیجہ کی فرمائش پر حضرت محمد ﷺ نے اپنی بڑی بیٹی حضرت زینب کا نکاح ابو العاص بن ربیع سے کر دیا۔ ابو العاص حضرت بی بی خدیجہ کی بہن حضرت ہالہ بنت خویلد کے بیٹے تھے۔ حضرت زینب تومسلمان ہو گئی تھیں مگر ابو العاص شرک و کفر پر اڑا رہا۔ رمضان 2ھ میں جب ابو العاص جنگِ بدر سے گرفتار ہو کرمدینہ آئے۔ اس وقت تک حضرت زینب مسلمان ہوتے ہوئے مکہ مکرمہ ہی میں مقیم تھیں۔ چنانچہ ابو العاص کو قید سے چھڑانے کے لیے انہوں نے مدینہ میں اپنا وہ ہار بھیجا جو ان کی ماں حضرت خدیجہ نے ان کو دیا تھا۔ یہ ہار حضورِ اقدس ﷺ کا اشارہ پا کر صحابہ کرام نے حضرت زینب کے پاس واپس بھیج دیا اور حضور ﷺ نے ابو العاص سے یہ وعدہ لے کر ان کو رہا کر دیا کہ وہ مکہ پہنچ کر حضرت زینب کو مدینہ منورہ بھیج دیں گے۔ زیر نظر کتاب تین جید اہل علم کے تین مختلف مضامین کا مجموعہ ہے پہلا مضمون بعنوان ’’ داماد رسول ﷺ ابو العاص بن ربیع‘‘ ڈاکٹر مظہر معین صاحب کا ہے ۔جبکہ دوسرا مضمون بعنوان ’’ محمد بن علی بن ابی طالب ابن الحنفیہ خورشید احمد فارق کا ہے۔اور تیسرا مضمون بعنوان ’’اموی خلفاء وامراء اور اتباع کتاب وسنت ‘‘ معروف مؤرخ وسوانح نگار ڈاکٹر محمد یٰسین مظہر صدیقی رحمہ اللہ کا تحریر شدہ ہے۔ جناب محمد فہد حارث صاحب نے ان تینوں مضامین کو یکجا کر کے شائع کیا ہے۔(م۔ا)
ٹرانس جینڈر انگریزی زبان کے دو کلمات trans اور gender کا مجموعہ ہے، ٹرانس trans کا معنی ہے تبدیل کرنا اور gender سے مراد ہے جنس، گویا ٹرانس جینڈر پرسن، transgender person سےوہ مرد یا عورت مراد ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے مرد یا عورت پیدا کیالیکن وہ اللہ کے فیصلے پر ناخوش ہیں اور اپنی پیدائشی جنس تبدیل کرکے مرد سے عورت یا عورت سے مرد بننا چاہتے ہیں. ان میں سے بعض ہارمون تھراپی یا سرجری وغیرہ کروا جسمانی خد وخال بدل لیتے ہیں اور بعض اپنی طرز گفتگو، لباس، عادات وغیرہ تبدیل کرکے اپنی پسند کے مطابق جنس کا اظہارgender expression کرتے ہیں. پاکستانی پارلیمنٹ نے 2018 میں خواجہ سرا اور خُنثی کی آڑ میں اس غیر انسانی رویے کو قانونی تحفظ فراہم کرتے ہوئے transgender persons Right protection act منظور کیا ہے . جوکہ سراسر غیر اسلامی، اور غیر انسانی ہے ایکٹ ہے۔ زیر نظر کتاب’’ ٹرانس جینڈر قانون اس کی حقیقت اور شرعی حیثیت‘‘ پروفیسر ڈاکٹر محمد امین صاحب (جنرل سیکریٹری ملی مجلس شرعی پاکستان،مدیر ماہنامہ البرہان ،لاہور ) کی مرتب شدہ ہے جوکہ چودہ فصلوں پر مشتمل ہے ۔یہ کتاب ٹرانس جینڈر سے متعلق ان مضامین کا مجموعہ ہے جو 15دسمبر 2022ء تک دینی جرائد، اخبارات اورسوشل میڈیا میں شائع ہوئے ۔فاضل مرتب نے اس کتاب میں ٹرانس جینڈر ایکٹ کے بارے میں علماء کرا م ، اسلامی سکالرز، صحافیوں اور اہل دانش، قانونی ماہرین اور طبی معالجین کا موقف پیش کیا ہے بطور معلومات اس کتاب میں اس قانون کی حمایت کرنے والوں کا موقف بھی دیا دیا ہے اور دینی مدارس کے فتاویٰ جات، دینی تنظیموں کی قرار دادیں،اسلامی نظریاتی کونسل کی رائے ، سپریم کورٹ کے فیصلے، وفاقی شرعی عدالت کی کاروائی اور صوبائی اسمبلیوں میں پیش کی جانے والی قراردادیں اور سینٹ وقومی اسمبلی کی کاروائیوں کا بھی ذکر کردیا ہے۔(م۔ا)
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (1703-1762) برصغیر پاک و ہند کے ان عظیم ترین علماء ربانیین میں سے ہیں جو غیر متنازع شخصیت کے مالک ہیں۔ وہ ہر مسلک کے مسلمانوں کے ہاں قدر کی نگاہوں سے دیکھے جاتے ہیں ان کی شہرت صرف ہندوستان گیر ہی نہیں بلکہ عالم گیر ہے ۔وہ بلاشبہ اٹھارہویں صدی کے مجدد تھے اور تاریخ کے ایک ایسے دورا ہے پر پیدا ہوئے جب زمانہ ایک نئی کروٹ لے رہا تھا، مسلم اقتدار کی سیاسی بساط لپیٹی جا رہی تھی، عقلیت پرستی اور استدلالیت کا غلبہ ہو رہا تھا۔آپ نے حجۃ اﷲ البالغہ جیسی شہرہ آفاق کتاب اور موطا امام مالک کی شرح لکھی اورقرآن مجید کا فارسی زبان میں ترجمہ کیا۔ دوران ترجمہ شاہ صاحب کے سامنے بہت سے علوم و معارف اور مسائل و مشکلات واشگاف ہوئے ۔ شاہ صاحب نے ان کو حل کرنے کی کوشش کی اور اس کے لیے متعدد کتابیں اور رسالے لکھے ۔ترجمہ کی مشکلات کو حل کرنے کیلئے "مقدمہ در قوانین ترجمہ" کی تصنیف فرمائی۔اس کے علاوہ شاہ صاحب نے تصوف وسلوک ، فقہ واصول فقہ ، اجتہاد وتقلید کے حوالے سے کئی رسائل تالیف فرمائے ۔ زیر نظر کتاب’’شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کا فلسفہ سیرت ‘‘ ڈاکٹر محمد یٰسین مظہر صدیقی رحمہ اللہ کی تصنیف ہے ڈاکٹر صاحب مرحوم نے اس کتاب میں شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی عظیم المرتبت کتاب ’’ حجۃ اللہ البالغہ‘‘کے صرف ایک مختصر باب ’’سیر النبیﷺ کی بنیاد پر شاہ صاحب کے فلسفہ سیرت کے ابتدائی نقوش ابھارے ہیں ۔ڈاکٹر صاحب مرحوم کی یہ خالص یک موضوعی ویک بابی تحقیق تھی جو پھیل کر ایک مختصر کتاب بن گئی ہے۔ (م۔ا)
قاری محمد صدیق منشاوی (20 جنوری، 1920ء - 20 جون، 1969ء) ایک مشہور مصری قاری تھے جو کہ اسلامی دنیا میں قرات کے میدان میں ایک ممتاز شخصیت سمجھے جاتے ہیں موصوف قاری عاصم کوفی کی قرات میں ماہرتھے ۔ قاری محمد صدیق منشاوی نے مصر کے مشہور قاری صدیق منشاوی کے ہاں 20 جنوری، 1920ء کو سوہاج کے قصبہ المنشاہ میں آنکھ کھولی، آپ کے دادا طیب منشاوی بھی قاری تھے یوں آپ کا سارا خاندان قرآن کے قاریوں کا خاندان ہے۔ موصوف اپنے والد اور چچا کے ساتھ مختلف علاقوں میں تلاوت کے لیے جایا کرتے۔ 1952ء میں ایک دن سوہاج کے گورنر کے یہاں اکیلے پڑھنے کا موقع ملا اور یہیں سے ان کا نام ہر طرف گونج اٹھا۔اس کے بعد مصری ریڈیو کی جانب سے آپ کو باقاعدہ دعوت ملی اور وہاں انہوں نے مکمل قرآن پاک ریکارڈ کروایا، یوں آپ ملک سے باہر بھی مشہور ہوگئے اور آپ کو بیرون ملک سے تلاوت کے لیے دعوت نامے آنے لگےاور آپ نے دنیا کی بڑی بڑی مشہور مساجد میں تلاوتیں کرنا شروع کیں جن میں مسجد الحرام، مسجد نبوی، مسجد اقصیٰ اور دیگرمیں تلاوتیں کیں۔ قاری محمد نصیر الدین منشاوی حید آبادی کی زیر نظر کتاب’’ حیاتِ منشاوی‘‘ قاری محمد صدیق منشاوی کی شخصیت ،قرآنی خدمات ، دینی کارناموں کو سمجھنے کےلیے نہایت مفید ہے ۔(م۔ا)
امام بخاری رحمہ اللہ کی شخصیت اور ان کی صحیح بخاری کسی تعارف کی محتاج نہیں سولہ سال کے طویل عرصہ میں امام بخاری نے 6 لاکھ احادیث سے اس کا انتخاب کیا اور اس کتاب کے ابواب کی ترتیب روضۃ من ریاض الجنۃ میں بیٹھ کر فرمائی اور اس میں صرف صحیح احادیث کو شامل کیا ۔یہی وجہ ہےکہ علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اصح الکتب بعد کتاب الله صحیح البخاری بے شماراہل علم اور ائمہ حدیث نے مختلف انداز میں صحیح بخاری کی شروحات لکھی ہیں ان میں فتح الباری از حافظ ابن حجر عسقلانی کو امتیازی مقام حاصل ہے ۔ برصغیر میں متعدد علمائے کرام نے صحیح بخاری کے تراجم ،فوائد اور شروحات لکھی ہیں ۔جن میں علامہ وحید الزمان اور مولانا داؤد راز رحمہما اللہ کے تراجم وفوائد قابل ذکر ہیں ۔ شیخ الحدیث مولانا عبد الحلیم کی ’’توفیق الباری شرح صحیح بخاری ‘‘ ، مفتی جماعت شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد حفظہ اللہ کی’’ ہدایۃ القاری شرح صحیح بخاری ‘‘کے نام سے نئی شروح بھی منظر عام پر آ چکی ہیں ۔ ’’ فتح السلام بشرح صحیح البخاری الامام‘‘ کے نام مفسر قرآن حافظ عبد السلام بھٹوی حفظہ اللہ بھی صحیح بخاری کی شرح تحریر کررہے ہیں جس کی دو جلدیں ’’دار الاندلس ‘‘ سے طبع ہوچکی ہیں ۔ اس کے علاوہ استاذی المکرم شیخ الحدیث محمد رمضان سلفی حفظہ اللہ ’’منحۃ الباری ‘‘ کے نام سے صحیح بخاری کی شرح لکھ رہے ہیں دس جلدیں شائع ہوچکی ہیں یہ شرح تکمیل کے قریب ہے اللہ تعالیٰ استاد محترم کو صحت وعافیت سے نوازے اور صحیح بخاری کی اس خدمت کو شرف ِقبولیت سے نوازے ۔ آمین زیر نظر مقالہ بعنوان’’ ھدایۃ القاری (شرح صحیح بخاری) کے منہج واسلوب کا تجزیاتی مطالعہ‘‘ محترمہ عمیرہ اعجاز صاحبہ کا وہ تحقیقی مقالہ ہے جسے انہوں نے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی ، فیصل آباد سیشن 2021ء۔2019ءمیں پیش کر کے ایم فل کی ڈگری حاصل کی ہے ۔ مقالہ نگار نے اپنے اس مقالے کو تین ابواب میں تقسیم کیا ہے ۔ باب اول مفتی عبدالستار حماد حفظہ اللہ کے احوال وآثار کے متعلق ہے اور باب دوم ھدایۃ القاری کے تعارفی جائزہ اور منہج پر مشتمل ہے جبکہ باب سوم میں ھدایۃ القاری کی خصوصیت واامتیازات کو بیان کیاگیا ہے ۔آخر میں خلاصہ بحث کےبعد سفارشات پیش کرتے ہوئے اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ ھدایۃ الیاری کی شرح صحیح بخاری کو گورنمنٹ کالج یونیورسٹی ، فیصل آباد کی لائبریری کی زینت بنایا جائے تاکہ طلباء اس بہترین شرح سے مستفید ہوسکیں۔نیز یو نیورسٹی میں مفتی عبد الستار حماد صاحب کے تعارف اور شرح ھدایۃ القاری کے حوالے سے سیمینار کا انعقاد کرواجائے اور شارح صحیح بخاری شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد حفظہ اللہ کی دینی وتدریسی اور تصنیفی بہت ساری خدمات ہیں ان کی طویل دینی خدمات کے پیش نظر ان کے حالات پر تحقیقی سروے کروایا جائے ۔ تاکہ جوانانِ رعنا کی زندکی سے سبق حاصل کر کے اپنے کردار کو سنوار سکیں۔ (م۔ا)
لیفٹیننٹ کرنل (ر) اشفاق حسین کا نام ادبی حلقوں میں کافی مشہور ہے ۔موصوف نے پنجاب یونیورسٹی سے صحافت اور انگریزی ادب میں ایم اے کرنے علاوہ نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز سے عربی میں ایڈوانس لیول انٹر پر یٹرشپ کے ڈپلومہ ہولڈر ہیں ۔اور تقریباً 29 سال پاک فوج سے وابستہ بھی رہے ، کالج آف آرمی ایجوکیشن،اپرٹوپا اور ملٹری کا لج جہلم میں تدریسی فرائض انجام دینے کے علاوہ سعودی عرب میں بطور مترجم بھی تعینات رہے ، انہوں نے کئی شہرہ آفاق کتابیں تصنیف کی ہیں جن میں طنز ومزاح کی شگفتہ کتابیں، جنٹلمین بسم اللہ ، جنٹلمین الحمد للہ ، جنٹلمین اللہ اللہ اور جنٹلمین سبحان اللہ ، جنٹل مین فی ارض اللہ شامل ہیں ۔ جینٹل مین سیریز کرنل (ر) اشفاق حسین صاحب کی خود نوشت ہے۔ یہ کتابیں ایک فوجی کی زندگی کی عکاسی کرتی ہیں۔ ان میں مزاح سے بھرپور، اور کچھ رلا دینے والے اقتباسات بھی۔ ہوشربا انکشافات بھی ہیں ۔کرنل اشفاق حسین کی زیر نظر کتاب ’’ جنٹل مین فی ارض اللہ ‘‘ میں امریکہ براستہ سنگاپور، سیدنا موسی علیہ السلام کی سرزمین میں فرعونوں سے واسطہ، انگلینڈ واپسی، ابوظبی، ایران کی زیارت، عراق میں مرحلہ ہائے سخت جاں، ومن ترکی نمی دانم، سفر نامہ یورپ ، کے بارے میں بیان کیا گیا ہے۔ (م۔ا)
لیفٹیننٹ کرنل (ر) اشفاق حسین کا نام ادبی حلقوں میں کافی مشہور ہے ۔موصوف نے پنجاب یونیورسٹی سے صحافت اور انگریزی ادب میں ایم اے کرنے علاوہ نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز سے عربی میں ایڈوانس لیول انٹر پر یٹرشپ کے ڈپلومہ ہولڈر ہیں ۔اور تقریباً 29 سال پاک فوج سے وابستہ بھی رہے ، کالج آف آرمی ایجوکیشن،اپرٹوپا اور ملٹری کا لج جہلم میں تدریسی فرائض انجام دینے کے علاوہ سعودی عرب میں بطور مترجم بھی تعینات رہے ، انہوں نے کئی شہرہ آفاق کتابیں تصنیف کی ہیں جن میں طنز ومزاح کی شگفتہ کتابیں، جنٹلمین بسم اللہ ، جنٹلمین الحمد للہ ، جنٹلمین اللہ اللہ اور جنٹلمین سبحان اللہ ، جنٹل مین فی ارض اللہ شامل ہیں ۔ جینٹل مین سیریز کرنل (ر) اشفاق حسین صاحب کی خود نوشت ہے۔ یہ کتابیں ایک فوجی کی زندگی کی عکاسی کرتی ہیں۔ ان میں مزاح سے بھرپور، اور کچھ رلا دینے والے اقتباسات بھی۔ ہوشربا انکشافات بھی ہیں ۔کرنل اشفاق حسین کی زیر نظر کتاب ’’ جنٹلمین استغفر اللہ‘‘ سانحۂ کارگل کے اصل حقائق کو پیش کیا گیا ہے۔(م۔ا)
لیفٹیننٹ کرنل (ر) اشفاق حسین کا نام ادبی حلقوں میں کافی مشہور ہے ۔موصوف نے پنجاب یونیورسٹی سے صحافت اور انگریزی ادب میں ایم اے کرنے علاوہ نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز سے عربی میں ایڈوانس لیول انٹر پر یٹرشپ کے ڈپلومہ ہولڈر ہیں ۔اور تقریباً 29 سال پاک فوج سے وابستہ بھی رہے ، کالج آف آرمی ایجوکیشن،اپرٹوپا اور ملٹری کا لج جہلم میں تدریسی فرائض انجام دینے کے علاوہ سعودی عرب میں بطور مترجم بھی تعینات رہے ، انہوں نے کئی شہرہ آفاق کتابیں تصنیف کی ہیں جن میں طنز ومزاح کی شگفتہ کتابیں، جنٹلمین بسم اللہ ، جنٹلمین الحمد للہ ، جنٹلمین اللہ اللہ اور جنٹلمین سبحان اللہ ، جنٹل مین فی ارض اللہ شامل ہیں ۔ جینٹل مین سیریز کرنل (ر) اشفاق حسین صاحب کی خود نوشت ہے۔ یہ کتابیں ایک فوجی کی زندگی کی عکاسی کرتی ہیں۔ ان میں مزاح سے بھرپور، اور کچھ رلا دینے والے اقتباسات بھی۔ ہوشربا انکشافات بھی ہیں ۔کرنل اشفاق حسین کی زیر نظر کتاب ’’ جنٹل مین اللہ اللہ ‘‘ میں اپنے حج کے سفر کی روداد بیان کی ہے (م۔ا)
علامہ یوسف عبد اللہ القرضاوی (9 ستمبر 1926ء - 26 ستمبر 2022ء) مصری نژاد، قطری شہریت یافتہ تھے ۔یوسف قرضاوی نے دس سال کی عمر سے پہلے ہی قرآن مکمل حفظ کر لیا تھا، بعد ازاں جامع ازہر میں داخل ہوئے اور وہاں سے عالمیت کی سند 1953ء میں حاصل کی، 1954ء میں کلیہ اللغہ سے اجازتِ تدریس کی سند حاصل کی۔ اس کے بعد 1958ء میں انھوں نے عرب لیگ کے ذیلی ادارہ ’’معہد دراسات اسلامیہ‘‘سے ’’تخصص در زبان و ادب‘‘ میں ڈپلوما کیا، ساتھ ہی ساتھ 1960ء میں اعلیٰ تعلیم کے لیے جامع ازہر کے کلیہ اصول الدین سے ماسٹر کی ڈگری حاصل کی، 1973ء میں وہیں سے اول مقام و درجے سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی، اس کے مقالہ کا موضوع ’’زکوٰۃ اور معاشرتی مشکلات میں اس کا اثر‘‘ تھا۔ موصوف اگرچہ کئی کتابوں کے مصنف اور عصر حاضر کے بہت بڑے فقیہ ومجتہد تھے لیکن بہت سی فکری انحرافات کا شکار بھی تھے۔ان کی فکری انحرافات اور گمراہیوں کی کئی کبار عرب علماء نے نشاندہی بھی کی ہے ۔شیخ مقبل بن ہادی الوداعی نے زیر نظر کتاب ’’یوسف القرضاوی کی گمراہیاں‘‘ میں علامہ یوسف القرضاوی کے فکری انحرافات وتفردات کو اجاگر کیا ہے ۔(م۔ا)
اردو ادب میں سفرناموں کو ایک مخصوص صنف کا درجہ حاصل ہوگیا ہے۔ یہ سفرنامے دنیا کے تمام ممالک کااحاطہ کرتے ہیں۔اِن کی طرزِ نوشت بھی دوسری تحریروں سے مختلف ہوتی ہے۔یہ سفرنامے کچھ تاثراتی ہیں تو کچھ معلوماتی۔ کچھ میں تاریخی معلومات پر زور دیا گیا ہے تو کچھ ان ملکوں کی تہذیب و ثقافت کو نمایاں کرتے ہیں جہاں کا انسان سفر کرتاہے۔ سفرمیں انسان دوسرے علاقوں کےرہنے والے انسانوں سےبھی ملتا جلتا ہے۔ ان کےرسم ورواج ، قوانین رہن سہن ،لائف اسٹائل اور لین دین کے طریقوں سے واقفیت حاصل کرتا ہے۔ آثار قدیمہ کے مطالعہ سے قدیم دور کے انسان کی زندگی کے انہی پہلوؤں سے آشنائی حاصل ہوتی ہے۔ اور اس میں سیکھنے کے بہت سے پہلو ہوتے ہیں جو انسان کی اپنی عملی زندگی میں کام آتے ہیں ۔ جزیرۃالعرب کے سفرنامے زیادہ تر حج و عمرہ کے حوالے سے منظر عام پر آئے ہیں، ان میں بھی بعض کیفیاتی طرز کے ہیں، جب کہ بعض میں علمی اور ادبی پہلو نمایاں ہے۔ زیر نظر کتاب ’’پاکستان سے دیار حرم تک ‘‘ معروف ناول نگار وصحافی نسیم حجازی کے ارض ِحجاز کے دلچسپ سفر پر مشتمل ہے انہوں نے اپنے اس سفرنامے کو بڑے دلچسپ اندا ز میں مرتب کیا ہےان کے اس سفر میں کراچی سے ایران ،ترکی اور بیروت کا سفر بھی شامل ہے ۔ یہ سفر نامہ پہلے اخبار کوہستان میں مضامین کی صورت میں شائع ہوا بعد ازاں قارئین کے اصرار پر اسے کتابی صورت میں شائع کیا گیا ۔ (م۔ا)
1173 ؍اشعار پر مشتمل شاطبیہ امام شاطبی رحمہ اللہ کی قراءات ِ سبعہ میں اہم ترین اساسی اورنصابی کتاب ہے۔ شاطبیہ کا اصل نام حرزالامانی ووجه التهانی ہے لیکن یہ شاطبیہ کےنام سے ہی معروف ہے اوراسے قصیدةلامیة بھی کہتے ہیں کیونکہ اس کے ہر شعر کا اختتام لام الف پرہوتاہے۔ یہ کتاب قراءاتِ سبعہ کی تدریس کے لئے ایک مصدر کی حیثیت رکھتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے بے پناہ مقبولیت سے نوازا ہے۔ بڑے بڑے مشائخ اورعلماء نے اس قصیدہ کی تشریح کو اپنے لیےاعزازسمجھا شاطبیہ کے شارحین کی طویل فہرست ہے ۔ زیر نظر کتاب ’’ احیاء المعانی ‘‘ قاری ظہیر الدین معروفی اعظمی کی تصنیف ہےاس کتاب کے جملہ مضامین ، مسائل وقواعد ،احکام واصول شاطبی رحمہ اللہ کی معروف کتاب قصیدہ شاطبیہ سے ماخوذ ومستفاد ہیں یہ کتاب تاریخی اور فنی حیثیت سے اپنے موضوع پر بڑی اہم اور فن سبع قراءات میں جامع کتاب ہے ۔ (م۔ا)
جمہوریت ایک سیاسی نظام ہے یعنی عوام کی اکثریت کی رائے سے حکومت کا بننا اور اس کا بگڑنا۔ اس نظام میں انفرادی آزادی اور شخصی مساوات کے تصورات کو جو اہمیت دی گئی ہے اس کی وجہ سے عہد حاضر میں اس کی طرف لوگوں کا میلان زیادہ ہے۔اگرچہ بہت سے مسلم دانشور اس طرزِ حکومت کے حامی ہیں۔لیکن ہر دور میں اصحابِ علم کی ایک بڑی تعداد نے جن میں مسلمان بھی شامل ہیں، جمہوریت کو ناپسند کیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اس میں عوام کی حاکمیت اور مطلق آزادی کا تصور غیر عقلی اور باعثِ فساد ہے۔پاکستان میں جمہوری نظام کے قیام کی خواہش کا فی مستحکم نظر آتی ہے لیکن سیاسی اور معاشرتی عمل میں اتنے تضادات موجود ہیں کہ جمہوریت میں ابھی تک تسلسل پیدا نہ ہوسکا اور نہ پائیداری۔جمہوریت کی خواہش اور کوشش کے باوجود جمہوریت کا پر وان نہ چڑھنا جمہوری عمل کے نازک اور مشکل ہونے کا ثبوت ہے ۔ زیر نظر کتاب’’ادیان کی جنگ: دینِ اسلام یا دینِ جمہوریت؟‘‘ کی تصنیف ہے جوکہ عصرِ حاضر کے سب بڑے فتنے، فتنہ جمہوریت کی حقیقت آشکارا کرتی ہےفاضل مصنف نے اس میں جمہوریت کا مفصل شرعی محاکمہ کیا ہے ۔اور عقل اور دل دونوں کو اپیل کرنے والے دلائل کے ذریعے جمہوری فکر وفلسفے اور جمہوری نظام کی قباحت اور اس کا اسلام سے صریح تصادم واضح کیا گیا ہے نیزشریعت سے ہٹ کر فیصلے کر نے والی عدالتوں کی شناخت وخطرناکی بھی قرآن وسنت اور ائمہ کرام کے اقوال کی روشنی میں بخوبی بیان کی گئی ہے۔(م۔ا)
کراچی کے ایک خطرناک عقائد کے حامل فرقے کانام’’جماعت المسلمین رجسٹرڈ‘‘ ہے ۔اس فرقے کے بانی مبانی مسعود احمد صاحب بی ایس سی ہیں۔اس فرقے نے ’’جماعت المسلمین ‘‘ کا خوبصورت لقب اختیار کر رکھا ہے یہ فرقہ اپنے علاوہ تمام مسلمانوں کو گمراہ سمجھتا ہے اور ان کے پیچھے نماز پڑھنے کا قائل نہیں ہے۔جو شخص ا س کے بانی مسعود احمد صاحب کی بیعت نہیں کرتا وہ ان کے نزدیک مسلمان نہیں ہے،چاہے وہ قرآن وحدیث کا جتنا بڑا عالم وعامل ہی کیوں نہ ہو۔ زیر نظر کتاب ’’ الفرقۃ الجدیدۃ جماعت المسلمین رجسٹرڈ کے بانی مسعود احمد بی ایس سی کا علمی محاسبہ‘‘ڈاکٹر ابو جابر عبد اللہ دامانوی حفظہ اللہ کی تصنیف ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اس کتاب میں مؤلف موصوف نے جماعت المسلمین رجسٹرڈ کے تمام باطل نظریات کا مدلل ردّ کیا ہے اور ان کی حقیقت سے پردہ اٹھایا ہے۔یہ کتاب پہلی بار 1989ء میں شائع ہوئی تھی۔قارئین کے اصرار پر 31سال بعد اس کتاب کو کچھ مفید اضافہ جات کے ساتھ دوبارہ شائع کیا گیا ہے یہ اضافے محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کے بعض مضامین اور مناظر اسلام الشیخ ابو اسجود صدیق رضا حفظہ اللہ کے دوقیمتی مضامین پر مشتمل ہیں ۔دامانوی صاحب نے اس کتاب کی تلخیص ’’خلاصہ الفرقۃ الجدیدہ‘‘ کے نام سے شائع کیا۔اللہ تعالیٰ مولف﷾ کی ان کاوشوں کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے ۔آمین (م۔ا)
اصول ِتفسیر ایسے اصول وقواعد کا نام ہے جو مفسرین قرآن کے لیے نشان ِمنزل کی تعیین کرتے ہیں۔ تاکہ کلام اللہ کی تفسیر کرنے والا ان کی راہ نمائی اور روشنی میں ہر طرح کے ممکنہ خطرات سے محفوظ رہے اور اس کےمنشاء ومفہوم کا صحیح ادراک کرسکے ۔ زیر نظر کتاب’’ اصول تفسیر‘‘فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ کی تصنیف ہے۔ شیخ رحمہ اللہ نے یہ کتاب امام محمد بن سعود اسلامک یونیورسٹی میں تعلیمی انسٹی ٹیوٹ کے طلباء کی آسانی کے لیے تصنیف کی جوکہ اپنے موضوع میں اختصار کے ساتھ ساتھ جامعیت کی بھی حامل ہے ۔ کتاب کی افادیت کے پیش نظر محترم جناب پیرزادہ شفیق الرحمٰن شاہ الدراوی حفظہ اللہ نے اسے اردو قالب میں ڈھالا ہے ۔(م۔ا)
قرآن مجید کی درست تلاوت اسی وقت ہی ممکن ہو سکتی ہے، جب اسے علم تجویدکے قواعد وضوابط اور اصول وآداب کے ساتھ پڑھا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو ترتیل کے ساتھ پڑھنے کا حکم دیا ہے ۔لہٰذا قرآن کریم کو اسی طرح پڑھا جائے جس طرح اسے پڑھنے کا حق ہے۔اور ہرمسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ علمِ تجوید کے بنیادی قواعد سے آگاہی حاصل کرے۔ تجوید وقراءات کے موضوع پرماہرین تجوید وقراءات کی بے شمار کتب موجود ہیں ۔ جن سے استفادہ کرنا اردو دان طبقہ کے لئے اب نہایت سہل اور آسان ہو گیا ہے ۔ زیر نظر کتاب’’تحبیر التجوید‘‘ شیخ القراء قاری محمد ادریس عاصم ر حمہ اللہ کی تصنیف ہے یہ کتا ب اپنے فن کے حوالہ سے عوام و خواص کے لیے ایک قیمتی تحفہ ہے۔ جس میں عام فہم انداز میں تجوید کے قواعد اسی غرض سے جمع کیے گئے ہیں کہ حفاظ و طلبا اس کو آسانی سے یاد کر سکیں۔ اور ان قواعد کی روشنی میں قرآن کریم صحیح پڑھنے کی مشق کریں۔ کتاب میں قاری صاحب نے مخارج کا نقشہ بھی پیش کیا ہے۔ علاوہ ازیں بعض عیوب تلاوت اور علامات وقوف پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ کتاب کے آخر میں قاری صاحب نے اپنی مکمل روایت حفص کی سند بھی لکھی ہے۔اللہ تعالیٰ قاری صاحب مرحوم کو تدرسی وتصنیفی خدمات کو قبول فرمائے اور جنت الفردوس میں ان کے درجات بلند فرمائیں ۔آمین (م۔ا)
شاطبیہ امام شاطبی رحمہ اللہ کی قراءات سبعہ پر لکھی گئی اہم ترین اساسی اور نصابی کتاب ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اسے بے پناہ مقبولیت سے نوازا ہے۔بڑے بڑے مشائخ اور علماء نے اس قصیدہ کی تشریح کو اپنے لیے اعزاز سمجھا اور اس کی شروحات لکھیں۔ شاطبیہ کے شارحین کی ایک بڑی طویل فہرست ہے ۔ زیر نظر کتاب ’’ رسوخ المصطفویہ شرح اتحاف البریہ‘‘امام شاطبی کی شاطبیہ میں رہ جانے والی وجوہ قراءات کی تکمیل پر مشتمل امام حسن خلف الحسینی کے منظوم قصیدے اتحاف البریہ کی اردو شرح اور ترجمہ ہے۔اردو ترجمہ اور شرح کی سعادت جناب قاری محمد مصطفی راسخ حفظہ اللہ نے حاصل کی ہے قاری صاحب کی اس کتاب کے علاوہ دس کتب سائٹ پراپلوڈ کی جا چکی ہیں اللہ تعالی ٰقراء ات قرآنیہ کے حوالے سے موصوف کی سر انجام دی گئی خدمات جلیلہ کو قبول فرمائے۔ (م۔ا)
ڈاکٹر محمد حمید اللہ (پیدائش: 9فروری 1908ء، انتقال : 17 دسمبر 2002ء) معروف محدث، فقیہ، محقق، قانون دان اور اسلامی دانشور تھے اور بین الاقوامی قوانین کے ماہر سمجھے جاتے تھے۔ تاریخ حدیث پر اعلٰی تحقیق، فرانسیسی میں ترجمہ قرآن اور مغرب کے قلب میں ترویج اسلام کا اہم فریضہ نبھانے پر آپ کو عالمگیر شہرت ملی۔ آپ جامعہ عثمانیہ سے ایم۔اے، ایل ایل۔بی کی ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم و تحقیق کے لیے یورپ پہنچے۔ بون یونیورسٹی (جرمنی) سے ڈی فل اور سوربون یونیورسٹی (پیرس)سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ۔ ڈاکٹر صاحب کچھ عرصے تک جامعہ عثمانیہ حیدر آباد میں پروفیسر رہے۔ یورپ جانے کے بعد جرمنی اور فرانس کی یونیورسٹیوں میں بھی تدریسی خدمات انجام دیں۔ فرانس کے نیشنل سنٹر آف سائینٹیفک ریسرچ سے تقریباً بیس سال تک وابستہ رہے۔ علاوہ ازیں یورپ اور ایشیا کی کئی یونیورسٹیوں میں آپ کے توسیعی خطبات کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ زیر نظر کتاب خطبات بہاولپور دراصل مارچ 1980ءمیں جامعہ عباسیہ(اسلامیہ یونیورسٹی بھاولپور،پاکستان) کی دعوت پر یونیورسٹی میں ججز، علماءاور یونیورسٹیوں کے چانسلرز او رڈین حضرات کی زیر صدارت ڈاکٹر حمیداللہ کے مختلف علمی موضوعات پر بارہ خطبات کا مجموعہ ہے جو علمی حلقوں ، قانون دان او ر دانشور طبقے کے درمیان خطبات بہاولپور کے نا م سے معروف ہے ۔یہ خطبات 8مارچ 1980 ء سے 20 ماچ 1980ءتک مسلسل جاری رہے۔ان خطبات کوسننے کےلیے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے اساتذہ،طلباء وطالبات کےعلاوہ شہر کے علمائے کرام اوراہل ذوق و طلب خواتین وحضرات کی ایک کثیر تعدادتشریف لاتی جن میں ملک کے دوسرے شہروں سے آنے والے مہمانانِ گرامی بھی شامل ہوتے۔ اللہ تعالی ڈاکٹر حمید اللہ مرحوم کی اشاعت اسلام کےلیے کوششوں کو قبول فرمائے (آمین) (م۔ا)
متنازعہ مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ بارہ ربیع الاول کو میلاد النبی ﷺ منانےکاہے بہت سارے مسلمان ہرسال ب12 ربیع الاول کو عید میلادالنبی ﷺ او رجشن میلاد مناتے ہیں ۔ لیکن اگر قرآن وحدیث اور قرونِ اولیٰ کی تاریخ کا پوری دیانتداری کے ساتھ مطالعہ کیا جائے تو ہمیں پتہ چلتا ہےکہ قرآن وحدیث میں جشن عید یا عید میلاد کا کوئی ثبوت نہیں ہے اور نہ نبی کریم ﷺ نے اپنا میلاد منایا او رنہ ہی اسکی ترغیب دلائی ، قرونِ اولیٰ یعنی صحابہ کرام ﷺ ،تابعین،تبع تابعین کا زمانہ جنہیں نبی کریم ﷺ نے بہترین لوگ قرار دیا ان کے ہاں بھی اس عید کا کوئی تصور نہ تھا اورنہ وہ جشن مناتے تھے اور اسی طرح بعد میں معتبر ائمہ دین کےہاں بھی نہ اس عید کا کو ئی تصور تھا اور نہ وہ اسے مناتے تھے او ر نہ ہی وہ اپنے شاگردوں کو اس کی تلقین کرتےتھے بلکہ نبی کریم ﷺ کی ولادت باسعادت کی مناسبت سے جشن منعقد کرنے کا آغاز نبی ﷺ کی وفات سے تقریبا چھ سو سال بعد کیا گیا ۔عید میلاد النبی ؍جشن میلاد کی حقیقت کو جاننے ک لیے اہل علم نےبیسیوں کتب تصنیف کی ہیں ۔ زیر نظر رسالہ ’’ جشن میلاد النبیﷺ کی حقیقت مع جواب الجواب‘‘ محترم محمد امین صاحب کی کاوش ہے جوکہ ایک بریلوی مولوی ابوداؤد محمد صادق کی کتاب ’’ جشن میلاد النبیﷺ ناجائز کیوں؟ اور جلوس اہل حدیث وجشن ودیوبند کا جواز کیوں؟ کے جواب میں لکھی گئی ہے۔بریلوی مولوی صاحب اپنی کتاب میں 12؍ربیع الاول کی مروجہ عید میلاد اور جلوس کو ثابت کرنے کےلیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا لیکن ایک بھی ایسی دلیل پیش نہیں کی کہ جس سے 12ر بیع الاول کی مروجہ عید میلاد کو منانے اور جلوس نکالنے کا ثبوت ملتا ہو ۔ محترم محمد امین صاحب مصنف کتاب ہذا نے بریلوی مولوی محمد صادق کے دلائل اور اس کی حقیقت کو خوب واضح کیا ہے ۔( م۔ا)