ہمارے ہاں بہت سی عربی اردو ڈکشنریاں مروج ہیں لیکن فی زمانہ مسئلہ یہ ہے کہ ان ڈکشنریوں میں جدید الفاظ و اصطلاحات کی وضاحت نہیں ملتی۔ اسی مشکل کے پیش نظر مولانا وحید الزماں کیرانوی نے زیر نظر ’القاموس الاصطلاحی‘ کے نام سے عربی۔ اردو ڈکشنری تیار کی جس میں کم و بیش بیس ہزار الفاظ و اصطلاحات کا اردو میں ایسا تطبیقی اور اصطلاحی ترجمہ کیا گیا ہے کہ بوقت مطالعہ جدید عبارات کو حل کرنے میں آسانی ہو۔ ترجمہ میں بعض اوقات ظاہر لفظ کی رعایت نہ کرتے ہوئے ایسا ترجمہ کیا گیا ہے جو موقع اور محل کے لحاظ سے صحیح طور پر منطبق ہو جائے نیز بہت سے الفاظ کے ایسے متعدد ترجمے کیے گئے ہیں کہ ان میں سے کسی نہ کسی ترجمہ کا انطباق ہو جائے گا۔ کتاب کی ترتیب ابتدائی حروف کے لحاظ سے ہے تاکہ ہر معیار کے طلبہ اس سے استفادہ کر سکیں۔ دفاتر، عدالتوں اور کارخانوں وغیرہ میں مستعمل الفاظ کا معنی جاننے میں یہ کتاب بہت حد تک معاون ثابت ہو گی۔(ع۔م)
عربی زبان اپنی وسعت اور آفاقیت کے لحاظ سے دنیا کی زندہ اور وسیع تر زبانوں میں ممتاز تر حیثیت رکھتی ہے اس لیے اس میں مختلف النوع جدید اصطلاحات و تعبیرات بے تکلفی کے ساتھ سماتی جا رہی ہیں جن کا اندازہ جدید لٹریچر اور جدید عربی معاجم کے مطالعہ سے کیا جا سکتا ہے۔ برصغیر میں عربی اخبارات و مجلات اور جدید تالیفات کو سمجھنے کے لیے عربی دان طبقہ کو ایک ایسی ڈکشنری کی ضرورت تھی جس میں خاص طور پر نئی عربی اصطلاحات یا قدیم الفاظ کے نئے معانی کی وضاحت اردو میں ہو۔ اس مشکل کو مولانا وحید الزماں کیروانوی نے ’القاموس الجدید‘ کے نام سے حل کیا ہے۔ ’القاموس الجدید‘ جدید عربی لٹریچر کو سمجھنے کے لیے بہت حد تک معاون ثابت ہو گی۔ اس کتاب کی ترتیب میں ’القاموس العصری‘ کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ ایسے الفاظ جو بظاہر عام مروجہ کتب عربیہ میں بکثرت استعمال ہوتے ہیں لیکن ذہنوں میں ان کے ایک خاص معنی اور اشتقاقی ترجمے رچ بس گئے ہیں وہ بھی معنی اور ترجمہ کے جدید لباس میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے، الفاظ کے معنی اگرچہ قدیم و جدید کی صراحت کے بغیر بیان کیے گئے ہیں لیکن ہر معنی کا علیحدہ نمبر دے کر اختلاف معانی کو واضح کر دیا گیا ہے۔(ع۔م)
کانٹ اور اس کی مشہور و معروف زیر مطالعہ کتاب ’تنقید عقل محض‘ کو جو اہمیت جدید فلسفے میں حاصل ہے اسے اہل نظر بخوبی جانتے ہیں۔ اس میں فلسفے کے سب اہم مسئلہ یعنی نظریہ علم کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔ لیکن یہ کتاب جس قدر اہم ہے اسی قدر مشکل ہے اس لیے کہ ایک تو موضوع کافی ادق ہے دوسرا کانٹ کا اسلوب بیان پیچیدگی سے خالی نہیں۔ برصغیر پاک و ہند میں فلسفے کا ذوق رکھنے والے عموماً جرمن زبان سے واقف نہیں ہیں اس لیے ان کی دسترس صرف کانٹ کی تصانیف کے انگریزی ترجموں تک ہےجبکہ ’تنقید عقل محض‘ کے جتنے انگریزی تراجم ہوئے ہیں وہ اصل کتاب سے بھی زیادہ پیچیدہ ہیں۔ اس مشکل کو محترم عابد حسین نے بہت خوش اسلوبی سے حل کیا ہے اور اس کتاب کا ایسا اردو ترجمہ کیا ہے کہ بہت سے ہندوستانیوں کو اس کتاب کے مطالب و معانی میں سمجھنے میں کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ انھوں نے کتاب کے مضمون کو صحت، سلاست اور وضاحت کے ساتھ ادا کرنے کی پوری کوشش کی ہے۔ محترم مترجم نے ترجمہ کے لیے صرف دوسرے ایڈیشن کو سامنے رکھا ہے جو کانٹ نے اصلاح و ترمیم کے بعد شائع کیا تھا اور جو متفقہ طور پر مستند مانا جاتا ہے۔ پوری کتاب کا ترجمہ کرنے کے بجائے صرف دو تہائی ترجمے پر اکتفا کیا گیا ہے جس میں اصل مسئلے یعنی نظریہ علم کا ذکر ہے۔(ع۔م)
عربی زبان اپنی وسعت اور آفاقیت کے لحاظ سے دنیا کی زندہ اور وسیع تر زبانوں میں ممتاز تر حیثیت رکھتی ہے اس لیے اس میں مختلف النوع جدید اصطلاحات و تعبیرات بے تکلفی کے ساتھ سماتی جا رہی ہیں جن کا اندازہ جدید لٹریچر اور جدید عربی معاجم کے مطالعہ سے کیا جا سکتا ہے۔ برصغیر میں عربی اخبارات و مجلات اور جدید تالیفات کو سمجھنے کے لیے عربی دان طبقہ کو ایک ایسی ڈکشنری کی ضرورت تھی جس میں خاص طور پر نئی عربی اصطلاحات یا قدیم الفاظ کے نئے معانی کی وضاحت اردو میں ہو۔ اس مشکل کو مولانا وحید الزماں کیروانوی نے ’القاموس الجدید‘ کے نام سے حل کیا ہے۔ ’القاموس الجدید‘ جدید عربی لٹریچر کو سمجھنے کے لیے بہت حد تک معاون ثابت ہو گی۔ اس کتاب کی ترتیب میں ’القاموس العصری‘ کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ ایسے الفاظ جو بظاہر عام مروجہ کتب عربیہ میں بکثرت استعمال ہوتے ہیں لیکن ذہنوں میں ان کے ایک خاص معنی اور اشتقاقی ترجمے رچ بس گئے ہیں وہ بھی معنی اور ترجمہ کے جدید لباس میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے، الفاظ کے معنی اگرچہ قدیم و جدید کی صراحت کے بغیر بیان کیے گئے ہیں لیکن ہر معنی کا علیحدہ نمبر دے کر اختلاف معانی کو واضح کر دیا گیا ہے۔(ع۔م)
قرن اول سے لے کر اپنے اقبال کے آخری دور تک مسلمانوں نے اپنی ہر صدی کے ممتاز اکابر رجال کے سیر واخبار کا ایسا دفتر زمانہ میں یادگار چھوڑا کہ اقوام و ملل ان کی مثال سے عاجز ہیں۔ لیکن افسوس کہ برصغیر پاک و ہند کے دفتر بہت مدت تک اپنے اکابرین کے تذکرے سے خالی رہے۔ محترم عبدالرشید عراقی کا شمار ان شخصیات میں ہوتا ہے جو برصغیر کی اسلامی و علمی تاریخ کو گمنامی سے بچانے کے لیے میدان کارزار میں اترے۔ زیر نظر کتاب بھی اس موضوع پر موصوف کی منفرد اور قابل قدر کاوش ہے جس میں انھوں نے برصغیر کے 174 علماے کرام کے حالات قلمبند کیے ہیں۔ اس میں پہلے ان علما کا تذکرہ کیا گیا ہے جو دین اسلام کی اشاعت اور ترویج میں مصروف عمل رہےمثلاً خاندان شاہ ولی اللہ دہلوی، خاندان غزنویہ امرتسر، لکھوی خاندان اور اس کے علاوہ ان علما کا تذکرہ ہے جنھوں نے صرف ایک دو پشت سے دین اسلام کی اشاعت اور توحید و سنت کی ترقی و ترویج میں نمایاں خدمات انجام دیں۔ علاوہ ازیں اس میں ایسے جلیل القدر علما کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے جو دو یا تین بھائی تھے اور سب ہی عالم دین تھے، ان علما نے تصنیف و تالیف، درس و تدریس اور وعظ و تبلیغ میں نمایاں خدمات انجام دیں مثلاً درس و تدریس میں مولانا شاہ محمد اسحاق دہلوی، ان کے بھائی شاہ محمد یعقوب دہلوی اور مولانا فقیر اللہ مدراسی وغیرہ۔ یہ کتاب جہاں پیکران عظیمت کی زندگی کی خوبصورت تصویر ہے وہیں یہ قاری کے لیے راہ عمل متعین کرنے کا اہم ترین ذریعہ ہے۔(ع۔م)
پروفیسر طاہر القادری صاحب کا شمار پاکستان کی ان شخصیات میں سے ہوتا ہے جو اپنے آپ کو نمایاں کرنے کا فن بخوبی جانتے ہیں، لیکن تاسف کی بات یہ ہے کہ انہوں نے شہرت کی معراج پانے کے لیے مذہبی لبادہ اوڑھنا ضروری سمجھا۔ جس کا نقصان یہ ہوا کہ ہزاروں کی تعداد میں سادہ لوح مسلمان موصوف کو اسلام کا سفیر سمجھ کر ان کے لیے اپنا سب کچھ نچھاور کرنے کے لیے تیارہو گئے۔ زیر نظر کتاب میں ہمارے ممدوح کی ’محمد طاہر‘ سے ’شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری‘ بننے اور ان کا سائیکل سے لے کر لینڈکروزر تک کا سفر ہے۔ طاہر القادری صاحب کی شخصیت ان کے شباب سے لے کر اب تک کیوں متنازعہ رہی اس کا جواب وہ تمام حقائق ہیں جن کو اس کتاب میں یکجا کر دیا گیا ہے۔ اس کتاب کا مقصد ہرگز ہرگز کسی خاص مکتب فکر کو ہدف تنقید بنانا نہیں ہے بلکہ طاہر القادری صاحب کے پیروؤں کی آنکھوں پر بندھی ہوئی پٹی کو اتارنا ہے جن کی کھلی آنکھیں انہیں یہ بتانے میں دیر نہیں کریں گی کہ ایک ایسا شخص جس نے دولت و شہرت پانے کے لیے رسول خدا ﷺ کی حرمت پر ہاتھ ڈالنے سے گریز نہیں کیا ہرگز اس قابل نہیں ہے کہ اسے پلکوں پر بٹھایا جائے۔ کتاب کے مصنف محمد نواز کھرل نے پروفیسر طاہر القادری سے متعلق اخبارات و جرائد میں جو کچھ شائع ہوتا رہا ہے ان تمام تحریروں کو ایک جگہ جمع کر دیا ہے تاکہ ان کی روشنی میں قائد انقلاب اور ان کے کارکنان اپنی سمت کا از سر نو تعین فرمائیں۔ یہ کتاب 2002ء میں شائع ہوئی، جب پروفیسر صاحب پاکستان میں رہ کر ’مذہبی خدمات‘ انجام دے رہے تھے۔ ان دنوں وہ کینیڈا میں مقیم ہیں، اپنے نام کے ساتھ ’شیخ الاسلام‘ کا اضافہ کر چکے ہیں اور ان کی ’کرامات‘ سلسلہ بھی پوری رفتار کے ساتھ جاری ہے۔ (ع۔م)
اسلام کی اب تک کی تاریخ میں دور نبوت کے بعد خلافت راشدہ کا دور ہر اعتبار سے سب سے ممتاز اور تابناک رہا ہے، کیونکہ اس کی باگ ڈور ان ہستیوں کے ہاتھ میں تھی جنہو ں نے جہاں بانی اور جہاں بینی میں شمع نبوت سے روشنی حاصل کی تھی۔ ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی ہدیہ تبریک کے مستحق ہیں کہ انہوں نے سیرت خلفائے راشدین کے تمام پہلوؤں پر نہایت علمی انداز میں روشنی ڈالی۔ زیر مطالعہ کتاب ڈاکٹر موصوف کی دوسرے خلیفہ راشد حضرت عمر فاروق کی حیات و خدمات اور کارناموں پر مشتمل ہے۔ جس کا سلیس اردو ترجمہ شمیم احمد خلیل السلفی اور عبدالمعین بن عبدالوہاب مدنی نے کیا ہے۔ حضرت عمر فاروق ؓوہ شخصیت ہیں جنھوں نے فکری، سماجی، سیاسی، اقتصادی اور جنگی و فتوحاتی غرض ہر میدان میں انسانیت و روحانیت اور امن و آشتی کے لئے ایسے عدیم النظیر نقوش چھوڑے جن سے آج کی ترقی یافتہ کہی جانے والی دنیا بھی درست راہ لینے پر مجبور ہے۔ اس کتاب میں آپ کے دور کی آبادیاتی ترقی اور وقتی بحران سے نمٹنے کا تذکرہ ہے۔ گزرگاہوں اور خشکی اور سمندری وسائل، فوجی چھاؤنیوں اور تمدنی مراکز کے قیام کے سلسلہ میں آپ کے شدت اہتمام کا ذکر ہے۔ اس حقیقت پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے کہ آپ کے زمانہ میں بصرہ، کوفہ اور فسطاط جیسے بڑے بڑے شہر کیسے آباد ہوئے۔ آپ ؓکے دور کی فتوحات اور ان سے حاصل ہونے والے فوائد و الہٰی سنن کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے۔ غرضیکہ اس کتاب میں فاروق اعظم رضی اللہ کی زندگی کے کسی بھی پہلو کو تشنہ نہیں چھوڑا گیا۔ اس کتاب کی خاص بات یہ بھی ہے کہ اس میں کوئی بھی چیز حوالہ کے بغیر ذکر نہیں کی گئی۔ یہ کتاب خطبا و مقررین، علما و سیاسی قائدین، دانشوروں، طلبا اور عوام کے لئے یکساں اہمیت کی حامل ہے۔(ع۔م)
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے حضور نبی کریم ﷺ سے جو احادیث منضبط کی تھیں انہیں صحیفہ کا نام دیا گیا۔ ان صحائف میں اس بات کا خیال نہیں رکھا جاتا تھا کہ احادیث کی تعداد کتنی ہے۔ مثلاً حضرت ابو ایوب انصاری ؓاور بریدہ بن حصیب ؓکے صحیفوں میں 150 سے زیادہ احادیث تھیں۔ جبکہ عبداللہ بن عمرو بن عاص اور جابر بن عبداللہ ؓ کے صحیفوں میں ایک ہزار سے زائد احادیث موجود تھیں۔ زیر نظر صحیفہ ’ہمام بن منبہ‘ بھی حضرت ابو ہریرۃ ؓکی ان روایات کا مجموعہ ہےجوانھوں نے اپنے شاگرد ہمام بن منبہ بن کامل الصنعانی کو لکھوائی تھیں۔ ’صحیفہ ہمام بن منبہ‘ اگرچہ کتب احادیث میں متعدد جگہوں میں بکھرا ہوا تھا لیکن اصل صحیفہ مفقود تھا۔ اللہ تعالیٰ محترم ڈاکٹر حمیداللہ کی قبر پر رحمت نازل فرمائے، کہ انہوں نے دمشق اور برلن کی لائبریری سے مکمل صحیفے کو دریافت کر لیا۔ اسی صحیفے کا اردو قالب اس وقت آپ کے سامنے ہے، جو حافظ حامد محمود الخضری اور ان کے تلمیذ حافظ عبداللہ شمیم کی محنت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ جنہوں نے صحیفہ کے ترجمہ و تشریح اور تخریج و اضافہ کا کام نہایت عرق ریزی سے کیا ہے۔ اس صحیفہ کی کل 139 احادیث ہیں، ان میں سے 61 عقائد و ایمانیات، 46 عبادات، 9 معاملات، 17 اخلاق و آداب اور 6 متفرق مسائل سے تعلق رکھتی ہیں۔ علاوہ ازیں اس صحیفہ میں 12 قدسی احادیث بھی موجود ہیں۔(ع۔م)
ایک ہمہ گیر شخصیت، علم ہیئت کا ماہر، فلسفی اور ایک ہی وقت میں سائنسی اور عمرانی علوم پر دسترس رکھنے والا شخص تاریخ میں ابو ریحان محمد بن احمد البیرونی کے نام سے مشہور ہے۔ اس عبقری شخصیت نے ہندوستان اور ہندوؤں کے حالات پر مشتمل ’کتاب الہند‘ کے نام سے ایک جاندار کتاب لکھی، جس کا اردو ترجمہ آپ کے سامنے ہے۔ 1019ء میں البیرونی ہند کے حالات معلوم کرنے ہندوستان آیا۔ ہندوستان کی معاشرت، تہذیب و ثقافت، جغرافیہ، تمدن، یہاں کے مذاہب اور لوگوں کی اخلاقی حالت کا مطالعہ کرنے کے لیے اس نے سنسکرت زبان سیکھی۔ ہندوستان میں البیرونی نے کم و بیش دس سال گزارےاور اس دوران ہندو مذہب کے متعلق بہت سی معلومات حاصل کیں۔ یہ تمام معلومات زیر مطالعہ کتاب کا حصہ ہیں۔ ہندوؤں کے ہاں تصور خدا کیا ہے؟ دنیا سے نجات پانے کے کیا راستے ہیں؟ ہندوؤں کے دیگر مذاہب کے بارے میں کیا نظریات ہیں؟ اوربیوی کو خاوند کے ساتھ ستی کرنے کی کیا وجہ ہے؟ ہندو ازم سے متعلق یہ اور اس طرح کے دیگر بہت سے حقائق کو نہایت عرق ریزی کے ساتھ اس کتاب میں بیان کر دیا گیا ہے۔ اس کتاب کو ہندوؤں سے متعلق معلومات کا انسائیکلوپیڈیا کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ اس کتاب کے مطالعے سے اس بات کو سمجھنے میں مدد ملے گی کہ ہندوؤں کو دعوت دین دینے کے حوالے سے کہاں کہاں خامیاں موجود ہیں اور کن ذرائع کو ملحوظ رکھ کر ہم ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو مائل بہ اسلام کر سکتے ہیں۔(ع۔م)
محمد عاصم الحداد فقہ و اصول فقہ کے میں نہایت اعلیٰ ذوق کے حامل ہیں۔ اصول فقہ پر ان کی مختصر کتاب ’اصول فقہ پر ایک نظر‘ علمی دنیا میں نمایاں مقام رکھتی ہے اور متعدد مدارس میں بطور نصاب پڑھائی جا رہی ہے۔ محترم عاصم الحداد نے جہاں اصول فقہ کو اپنا موضوع سخن بنایا وہیں شریعت اسلامیہ کے عملی مسائل یعنی فقہی احکام پر بھی ایک شاندار اور منفرد کتاب لکھی جو اس وقت ’فقہ السنۃ‘ کے نام سے آپ کے سامنے ہے۔ کتاب کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، پہلا حصہ طہارت، نماز اور جنائز کے مسائل کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے جبکہ دوسرے حصے میں زکوٰۃ، رمضان اور حج و عمرہ کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔ فقہی احکام پر اردو زبان میں متعدد کتب موجود ہیں لیکن اس کتاب کی خاصیت یہ ہے کہ اس میں مولانا نے مکمل غیر جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے تمام فقہی مسالک کی بنیادوں کا تعارف کرایا ہےاور انہیں دوسرے کے قریب لانے کی کوشش کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بہت سے لوگ فقہی اختلافات کو ایک دوسرے سے نفرت کی بنیاد بنا لیتے ہیں حالانکہ مسالک کے مابین اختلاف اصولی نہیں سراسر اجتہادی ہے جس کی وجہ سے اپنے علاوہ دیگر تمام مسالک کے ساتھ متعصبانہ رویہ اختیار کرنا کسی طور درست نہیں ہے۔ مصنف نے کتاب کا اسلوب یہ اختیار کیا ہے کہ متن میں احناف، موالک، شوافع، حنابلہ اور جمہور اہل حدیث کا جن مسائل میں اتفاق ہے ان کو قلمبند کیا ہے اور جن مسائل میں اختلاف موجود ہے اس کو متن کے بجائے حاشیہ میں جگہ دی ہے۔ انہوں نے اپنی سی پوری کوشش کی ہے کہ ہر مسئلہ میں ہر مسلک کے متعلق قرآن و حدیث سے اس کی بنیاد کا ذکر کیا جائے اور یہ وضاحت بھی کی جائے کہ اگر دوسرے مسلک والوں کی بنیاد کسی اور آیت اور حدیث پر ہے تو اختلاف کا بنیادی سبب کیا ہے۔ تاکہ مسالک کے مابین موجود نفرت کی حدت کو کم کیا جا سکےاور ان مسالک سے وابستہ لوگ ایک دوسرے کی نیتوں پر حملے کرنے کی بجائے دیانت کے ساتھ دوسروں کوکوئی موقف طے کرنے کا حق دے سکیں۔(ع۔م)
اردو زبان میں قرآن حکیم کے متعدد تراجم ہو چکےہیں لیکن مولانا مودودی کا ترجمہ ان میں منفرد حیثیت رکھتا ہے ۔وہ خود فرماتے ہیں کہ ’’اردو زبان میں قرآن مجید کے جتنے ترجمے ہو چکے ہیں ان کے بعد اب کسی شخص کے لیے محض برکت وسعادت کی خاطر ایک نیا ترجمہ شائع کرنا وقت او رمحنت کا کوئی صحیح مصرف نہیں ہے۔اس راہ میں مزید کوشش اگر معقول ہوسکتی ہے تو صرف اس کی صورت میں جبکہ آدمی طالبین قرآن کی کئی ایسی ضرورت کو پورا کرے جو پچھلے تراجم سے پوری نہ ہوتی ہو۔‘‘اس کے بعد انہوں نے اپنے ترجمے کا اسلوب یہ بیان کیا ہے کہ ترجمے کو پڑھتے ہوئے ایک عام ناظر قرآن کا مفہوم ومدعا بالکل صاف صاف سمجھتا چلا جائے اور اس سے وہی اثر قبول کرے جو قرآن اس پہ ڈالتا چاہتا ہے اس لیے میں نے لفظی ترجمے کا طریقہ چھوڑ کر آزاد ترجمانی کا طریقہ اختیار کیا ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ ادبی اعتبار سے یہ ترجمہ انتہائی اعلیٰ مقام کا حامل ہے اور آزاد ترجمہ ہونے کے باوجود الفاظ قرآن سے قریب ترہے۔امید ہےکہ طالبین قرآن اس سے مستفید ہوں گے اور قرآنی مطالب سے واقفیت حاصل کر کے اس پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کریں گے۔(ط۔ا)
ہمارے ہاں مذہبی جہالت کا غلبہ ہے اور عوام کی اکثریت میں صحیح اور غیر صحیح روایات میں تمیز کی صلاحیت نہیں ہے وہ بلا تحقیق ہر روایت کو حدیث سمجھ کر رسول اکرم ﷺ کی طرف منسوب کر دیتے ہیں ۔زیر نظر کتاب کا مقصد تحریر یہ ہے کہ عوام میں پھیلی ہوئی ضعیف اور موضوع روایات کو صحیح احادیث سے الگ کیا جائے تاکہ جو رسول اکرم ﷺ کا قول یا فعل نہیں وہ آپ ﷺ سے منسوب نہ ہو اور لوگ اسے حدیث رسول ﷺ سمجھ کر اس پر عمل نہ کریں،کیونکہ صحیح حدیث دین ہے اور اس پر عمل کرنا واجب ہے جبکہ موضوع روایات نہ دین ہے اور نہ کلام رسول ۔بنا بریں ان پر عمل کرنا حرام ہے اسی طرح ضعیف روایت اصل کے اعتبار سے مشکوک ہوتی ہے اور دین کی بنیاد یقین پر ہے شک پر نہیں جس سے اجتناب ضروری ہے ۔فی زمانہ جبکہ بعض مذہب خروش عوام سے داد و تحسین اور مال وزر بٹورنے کے لیے موضوع ومنکر روایات بیان کر رہے ہیں ،اس کتاب کا مطالعہ بہت مفید رہے گا اور کھرے کھوٹے میں تمیز کے لیے معتبر کسوٹی ثابت ہو گا۔(ط۔ا)
نماز ،اسلام کا دوسرا رکن اور دین کا ستون ہے ۔یہ دین کا ایسا فریضہ ہے جس کا ترک کفر بھی ہے،شرک بھی اور نفاق بھی ۔یہ عظیم فریضہ اللہ تعالیٰ نے بموقع معراج عطا فرمایا اور اسی وقت ان پانچ نمازوں کی ادائیگی کو باعتبار اجروثواب پچاس کے برابر قرار دیا۔حدیث شریف میں نماز کو آنکھوں کی ٹھنڈک اور حصول راحت وطمانیت کا سبب قرار دیا گیا ہے ۔نماز سعادت دارین کے حصول کی ایک بڑی قوی اور عظیم اساس ہے،لیکن ان تمام برکتوں اور منفعتوں کا حصول چند شرائط کا متقاضی ہے ،جن میں پابندی وقت ،حفاظت خشوع اور متابعت طریقہ رسول ﷺ بہ طور خاص قابل ذکر ہیں۔زیر نظر کتاب میں نماز سے متعلق مختلف مسائل پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے اور نماز کی اہمیت ،طریق کار اور مختلف اقسام کو کتاب وسنت کی روشنی میں اجاگر کیا گیا ہے۔عصر حاضر میں جبکہ فریضہ نماز سے مجرمانہ تغاعل برتا جارہا ہے ،اس طرح کی کتابوں کا مطالعہ اشد ضروری ہے تاکہ اس عظیم فریضہ کی اہمیت اور اس کی ادائیگی کا صحیح طریقہ معلوم ہو سکے۔(ط۔ا)
حدیث رسول ﷺ کے مطابق اس امت میں ایک ایسا گروہ ہمیشہ موجود رہتا ہے جو حق کی صحیح ترجمانی کرتا ہے اور دین کی اصل شکل کو برقرار رکھتا ہے ۔ایسا کبھی نہیں ہوا کہ اہل حق بالکلیہ ضم ہو جائیں اور بدعت وضلالت کی حکمرانی قائم ہو جائے۔زیر نظر کتاب میں عالم اسلام کے عظیم مفکر مولانا ابو الحسن ندوی نے تاریخ کے صفحات سے دعوت وعزیمت کے تسلسل کو اجاگر کیا ہے اور اسلام کی تیرہ سو برس کی تاریخ میں اصلاح وانقلاب حال کی کوششوں کو بیان کیا ہے ۔انہوں نے ان ممتاز شخصیتوں اور تحریکوں کی نشاندہی کی ہے جنہوں نے اپنے اپنے وقت میں اپنی اپنی صلاحیتوں کے مطابق دین کے احیاء اور تجدید اور اسلام اور مسلمانوں کی حفاظت کے کام میں حصہ لیا اور جن کی مجموعی کوششوں سے اسلام زندہ اور محفوظ شکل میں اس وقت موجود ہے اوراس وقت ایک ممتاز امت کی حیثیت سے نظر آتے ہیں ۔اس کتاب کا مطالعہ ہر مسلمان کو لازماً کرنا چاہیے تاکہ مصلحین امت کے اصلاحی ودعوتی اور مجاہدانہ کارناموں سے واقفیت حاصل ہو سکے۔(ط۔ا)
قرآن شریف میں جناب محمد رسول اللہ ﷺ کو حکم دیا گیا ہے کہ آپ صلی ا للہ علیہ وسلم ملت ابراہیم کی پیروی کریں۔ثم اوحينا إليك ان اتبع ملة ابراهيم حنيفا-پھر یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ جو شخص اس سے روگردانی کرے گا وہ علم وبصیرت سے تہی اور جاہل وبے وقوف ہے۔ومن يرغب عن ملة ابراهيم الا من سفه نفسه-بنا بریں یہ ضروری ہے کہ ملت ابراہیم کے مراد ومفہوم کو جانا جائے اور اس کی اتباع کی جائے۔زیر نظر کتاب میں اسی نکتے کو اجاگر کیا گیا ہے کہ ملت ابراہیم دراصل توحید کی پکار اور شرک واہل شرک سے بے زاری ولاتعلقی کا اعلان ہے۔سیدنا ابراہیم ؑ نے اہل شرک سے کھل کر اظہار براءت کیا اور انہیں اپنا دشمن قرار دیااور ہر لمحہ توحید کے علم کو بلند کیے رکھا۔اسی لیے انہیں اسؤہ حسنہ قرار دیا گیا ہے ۔نبی مکرم ﷺ نے بھی ملت ابراہیم کی پیروی کا حق ادا کر دیا اور پوری زندگی توحید کی اشاعت اور شرک کی تردید میں بسر کر دی۔آج بھی ملت ابراہیم کو ازسر نو زندہ کرنے اور ہر سطح پر شرک واہل شرک سے براءت کو عقیدہ توحید کے اعلان واظہار کی ضرورت ہے،جس کے فہم کے لیے اس کتاب کا مطالعہ انتہائی مفید رہے گا۔(ط۔ا)
موجودہ دور سراسر مادیت کا دور ہے ،جس میں ہر شخص دنیوی مال ودولت اور جاہ ومنصب کےحصول میں سرگرداں نظر آتا ہے ۔تزکیہ نفس،اصلاح قلب اور فکر آخرت سے مکمل تغافل برتا جا رہا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر شخص بے چینی اور بے سکونی کا شکار ہے ۔ایسے میں اس کے طرح کے لڑیچر کی اشد ضرورت ہے جس میں اصلاح باطن اور اخلاص وللہیت کی اہمیت کا اجاگر کیا جائے اور ان کے حصول کا عملی طریقہ بھی واضح کیا جائے۔زیر نظر کتاب اسی ضرورت کو پورا کرتی ہے ۔مولانا ابو محمد امین اللہ پشاوری نے اس کتاب میں ایمان وتقویٰ،زہدوقناعت،محبت الہیٰ ،حسن خاتمہ کے اسباب،استقامت فی الدین کا طریق کار اور دیگر بہت سے مفید موضوعات پر بحث کی ہے ۔اس میں جا بہ جا قرآن وحدیث اور اقوال سلف سے بہت زیادہ استدلال کیا گیا ہے اور ضعیف اور موضوع روایات سے اجتناب کیا گیا ہے ۔گویا یہ ایک مستند کتاب ہے ،اصل کتاب عربی میں تھی جسے جناب محمد علی صدیقی نے اردو میں منتقل کیا ہے جس کی بدولت عوام بھی اس سے استفادہ کرسکتے ہیں ۔امید ہے اس کے مطالعہ سے اصلاح قلب ودین کا داعیہ بیدار ہو گا اور لوگ خداوند قدوس کی جانب متوجہ ہوں گے۔(ط۔ا)
ابن بطوطہ چھٹی صدی ہجری کا ایک معروف مسلمان سیاح تھأ۔اس زمانے میں سفر کی سہولیات بہت کم تھیں ۔اس عالم میں ابن بطوطہ نے رفت سفر باندھا اور کامل پچیس برس تک سمندر کی لہروں سے لڑتا،ہولناک ریگستانوں سے گرزتا،ہرشور دریاؤں کو کھگالتا اور اپنے ذوق سیاحت کو تسکین پہنچاتا رہا۔اس عرصے میں اس نے بے شمار خطوں اور ملکوں کی سیر کی اور جب وطن لوٹا تو پچاس برس کا بوڑھا ہو چکا تھا۔اس کا یہ طویل ،صبر آزما اور پرمشقت سفر،تفریحی نہیں تھا،علمی تھا۔اس نے جس ژدف نگاہی سے سب کچھ دیکھا ،جس قابلیت سے مشاہدات سفر مرتب کیے،جس خوبی سے اکابر رجال کے احوال وسوانح پر روشنی ڈالی وہ اسی کا حق ہے۔ابن بطوطہ کو مورخوں کے ہاں جونمایاں حیثیت حاصل ہے وہ اسی سفر نامے کی بدولت ہے۔یہ سفر نامہ لکھ کر اس نے تاریخ کے عظیم الشان دور کو زندہ کیا ہے۔یہ سفر نامہ ابن بطوطہ کی آپ بیتی بھی ہے اس نے اپنی روداد کچھ اس طرح لکھی ہے کہ روداد جہاں بھی اس میں شامل ہو گئی ہے۔اس عظیم سفر نامے کو اردو دان طبقے کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے امید ہے ارباب ذوق اس سے محفوظ ہوں گے۔(ط۔ا)
غلام احمد پرویز پاکستان میں فتنہ انکار حدیث کے سرغنہ اور سرخیل تھے۔ان کی ساری زندگی حدیث رسول ﷺ کی صحت وثبوت میں تشکیک ابھارنے میں بسر ہوئی اور لطف کی بات یہ ہے کہ وہ تردید حدیث کا کام قرآن حکیم کے ’’حقائق ومعارف‘‘اجاگر کرتے ہوئے سرانجام دیتے تھے۔حافظ محمد دین قاسمی صاحب نے زیر نظر کتاب میں ’’مفکر قرآن‘‘کے کردار وعمل کو اجاگر کیا ہے اور ان کے فکری تضاد پر روشنی ڈالی ہے۔قاسمی صاحب کا نام’رد پرویزیت‘میں ایک سند کی حیثیت رکھتا ہے اور اب تک ان کی متعدد کتابیں اس فتنہ کی سرکوبی کے حوالے سے شائع ہو چکی ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ ’مفکر قرآن‘صاحب قرآن کے نام پر جو کچھ پیش کرتے رہے وہ تحریف کی بد ترین شکل ہے لیکن ان کے مداح اسے معارف وحقائق کا نام دیتے ہیں۔زیر نظر کتاب کے مطالعہ سے معلوم ہوگا کہ پرویز صاحب ساری عمر متضاد باتیں کہتے رہے اور اپنی تردید خود ہی کرتے رہے۔ظاہر ہے کہ یہ ان کے باطل پر ہونے کی واضح دلیل ہے ،امید ہے اس کتاب کے مطالعہ سے پرویزصاحب کی دوغلی شخصیت بے نقاب ہوگی اور مقلد شیان حق کو سچ او رجھوٹ میں امتیاز کرنے میں سہولت ہوگی۔(ط۔ا)
امت مسلمہ کی ذلت ورسوائی کا ایک بڑا سبب ،صب تصریح حدیث پاک ،قرآن حکیم سے منہ موڑنا ہے ۔اگر کچھ لوگ قرآن پڑھتے بھی ہیں تو اس کے معانی ومفاہیم سے بے خبر ہیں۔ضرورت ہے کہ ہر مسلمان خدا کی آخری کتاب کو سمجھنے کو شش کرے ۔اس کے لیے کسی ایسی مختصر تفسیر کی ضرورت تھی جس کا مطالعہ آسان ہو اور اس کی عبارت عام فہم ہو۔اس ضرورت کو ’تفسیر احسن البیان‘نے بہ خوبی پورا کیا ہے ۔یہ معروف عالم دین جناب حافظ صلاح الدین یوسف کی تفسیر ہے۔جس میں منہج سلف کے مطابق قرآنی مطالب کی تشریح کی گئی ہے۔اسی بناء پر سعودی حکومت اسے شائع کر کے حجاج کرام میں تقسیم کرتی ہے ۔زیر نظر نسخہ بھی سعودیہ کا چھپا ہوا ہے ۔خدا کرے کہ مسلمان قرآن کی طرف لوٹ آئیں تاکہ فلاح وکامرانی ان کا مقدر بن سکے۔(ط۔ا)
امام بیہقی ؒ ایک عظیم محدث تھے،جن کی کتاب ’السنن الکبری‘کتب حدیث میں نمایاں مقام رکھتی ہے۔یہ کتاب پانچویں صدی ہجری میں مرتب کی گئی اور ارباب علم ونظر کے ہاں انتہائی اعلیٰ مرتبہ کی حامل ہے۔’السنن الکبریٰ‘میں بے شمار علمی نکات وفوائد موجود ہیں اور اس میں نقد کی روح کارفرما نظر آتی ہے۔اس کا مطالعہ ہر اس شخص کے لیے ضروری ہے جو تحقیق حدیث میں زیادہ سے زیادہ مسائل کا احاطہ کرنا چاہے یا نقد کے طرق اور باریکیوں سے آگاہی کا متمنی ہو۔زیر نظر مقالہ میں امام بیہقی کے منہج کو اجاگر کیا گیا ہے ،جسے انہوں نے ’السنن الکبریٰ‘کی تدوین وتالیف میں مد نظر رکھا ہے۔آغاز میں امام بیہقی کا مفصل تعارف کرایا گیا ہے پھر کتب حدیث میں ’السنن الکبریٰ‘کا مقام ومرتبہ اجاگر کیا گیا ہے۔بعد میں ان اصولوں کی وضاحت ہے جنہیں امام صاحب نے پیش نظر رکھا ہے۔روایات کے اخذ وقبول اور جرح ونقد میں جو ضابطے امام بیہقی کے سامنے رہے ہیں ،انہیں بھی بیان کیا گیا ہے۔یہ مقالہ ایم فل کی ڈگری کے حصول کے لیے لکھا گیا ہے ،چنانچہ تحقیق کے باب میں لائق بھروسہ ہے۔(ط۔ا)
قرآن شریف خداوند کریم کا کلام ہے جس میں انسان کی رشد وہدایت اور دائمی فلاح وکامرانی کے تمام اصول بیان کر دیئے گئے ہیں۔مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس قرآن کو پڑھے اور اس کے مطالب کو فہم کی گرفت میں لانے کی کوشش کرے۔ہماری مادری زبان چونکہ عربی نہیں ہے ،اس لیے تراجم قرآن کا سہارا لینا ناگزیر ہے اردو زبان میں بے شمار تراجم ہو چکے ہیں اور ہر ترجمے کی اپنی خصوصیات ہیں۔کتاب وسنت ڈاٹ کام پر اس سے پہلے بھی قرآن حکیم کے بعض تراجم پیش کیے جا چکے ہیں ۔اب حافظ نذر احمد صاحب کا ترجمہ پبلش کیا جار ہا ہے اس میں بعض ایسی خصوصیات ہیں جو پہلے تراجم میں نہ تھیں مثلاً پہلے ترجمے صرف لفظی یا محض بامحاورہ تھے۔اس میں لفظی ترجمہ بھی ہے اور بامحاورہ بھی۔پھر اس ترجمے کواہل حدیث،دیوبند اور بریلوی تینوں مکاتب فکر کے علما کی تائید حاصل ہے۔لہذا تمام افراد اس سے بلا جھجک استفادہ کر سکتے ہیں امید ہے اس کے مطالعہ سے قارئین میں قرآن فہمی کا ذوق پیدا ہو گا اور قرآن حکیم کی تعلیمات پر عمل کا جذبہ بیدار ہو گا۔ناظرین سے التجا ہے کہ وہ اس کے مطالعہ کے بعد مترجم،ناشر اور کتاب وسنت ڈاٹ کام کے اراکین کو اپنی دعاؤں میں ضرور یاد رکھیں۔خداوند قدوس ہم سب کو قرآن شریف پر حقیقی معنوں میں عمل پیرا ہونے کی توفیق رحمت فرمائے۔آمین یار ب العالمین(ط۔ا)
تہذیب عمومی طور پر کہا جاتا ہے کہ تہذیب وہ معاشرتی ترتیب ہے جو ثقافتی تخلیق کو فروغ دیتی ہے ۔تہذیب معاشرے کی طرز زندگی اور فکر واحساس کی آئینہ دار ہوتی ہے۔چنانچہ زبان آلات واوزار ،پیداوار کے طریقے اور سماجی رشتے،رہن سہن،اخلاق وعادات،رسوم وروایات،علم وادب،حکمت وفلسفہ،عقاید،فنون لطیفہ،خاندانی تعلقات وغیرہ تہذیب کے مختلف مظاہر گردانے جاتے ہیں ۔زیر نظر کتاب معروف مفکر ول ڈیورانٹ کی تصنیف کا اردو ترجمہ ہے جس میں اس نے انسانی تہذیب کے ارتقاء سے متعلق بحث کی ہے۔اس کتاب کا مقصد مغربی فکر سے قارئین کو روشناس کرانا ہے۔اسلامی نقطہ نظر جاننے کے لیے مولانا ابو الاعلی مودودی کی کتاب ’اسلامی تہذیب اور اس کے اصول مبادی‘کا مطالعہ مفید رہے گا۔(ط۔ا)
اہل حدیث اور احناف کے مابین جو مسائل اختلافی ہیں ۔ان میں سے ایک مسئلہ تراویح کی رکعات کا بھی ہے کہ وہ آٹھ ہیں یا بیس؟اس حوالے سے متعدد کتابیں دونوں جانب سے لکھی جا چکی ہیں۔زیر نظر کتاب بھی اسی موضوع پر ہے۔اس کتاب کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں انتہائی معتدل اور سنجیدہ علمی انداز سے بحث کی گئی ہے۔کتاب کے آغاز میں سنت اوراطاعت رسول کی اہمیت پر مختصر روشنی ڈالی گئی ہے۔اس کے بعد رمضان المبارک کے فضائل ومسائل بیان کیے گئے ہیں اور پھر تراویح کے مسئلے پر روشنی ڈالی ہے۔زیر نظر کتاب میں دلائل وبراہین قاطعہ سے ثابت کیا گیا ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے گیارہ رکعات (تین وتر سمیت)ہی پڑھی ہیں۔اسی طرح حضرت عمر ؓنے بھی گیارہ رکعات پڑھانے کا حکم دیا۔اسی طرح متعدد علمائے احناف نے بھی یہ اعتراف کیا ہے کہ تراویح گیارہ رکعات ہیں۔بیس رکعات کے حق میں جو دلائل پیش کیے جاتے ہیں ان کا بھی غیر جانبدارانہ تجزیہ کیا گیا ہے،جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ دلائل ضعیف ہیں،جن سے مدعا ثابت نہیں ہوتا۔اس مختصر کتابچہ کے مطالعہ سے یقیناً اس مسئلہ کو سمجھنے میں مدد ملے گی بشرطیکہ تعصب کی عینک اتار کر اس کا مطالعہ کیا جائے۔(ط۔ا)
زیر نظر کتاب نکولو میکاولی کی کتاب دی پرنس کا اردو ترجمہ ہے ۔میکاولی اطالبہ کا مشہور مفکر تھا،جسے حکومت وسیاست میں عملا شریک ہونے کا موقع ملا اور اس نے اپنے تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کتبا تحریر کی ۔میکاولی نے اس میں بتایا ہےکہ مملکت کیا ہے؟اس کی کتنی اقسام ہیں؟وہ کس طرح حاصل کی جاتی ہے اور کس طرح برقرار رکھی جاسکتی اور کیونکر ضائع ہوتی ہے ؟مصنف کے مطابق یہ کتاب اس نے پندرہ برس کے تجربات کی روشنی میں لکھی ہے اور جہاں بانی کے مطالعہ سے جو اصول اس کے سامنے آئے انہیں اس میں سمو دیا ہے۔عموماً میکاولی کو مکر وفریب ،دھوکہ دہی اور دھونس دھاندلی کی سیاست کا علمبردار سمجھا جاتا ہے جو حکومت کو برقرار رکھنے کے لیے ہر حربے کو جائز قرار دیتا ہے ۔زیر نظر کتاب کے مطالعہ سے اس کے خیالات سے حقیقی واقفیت حاصل کسی جاسکتی ہے جس سے کسی حتمی نتیجے تک پہنچنے میں یقینا ً مدد ملے گی۔(ط۔ا)
ارتھ شاستر کوتلیہ چانکیہ کی تصنیف ہے جو ایک برہمن گھرانے میں پیدا ہوا ۔اس کتاب کا زمانہ تصنیف 311سے 300ق۔م کے درمیان ہے۔’ارتھ شاستر‘نے برصغیر کے تمدن اور اسلوب سیاست پر گزشتہ دو ہزار سال کے دوران جو اثرات مرتب کیے ہیں ان کے نقوش آئندہ کئی صدیوں تک بھی واضح رہیں گے۔کوٹلیہ نے اس کتاب میں قدیم ہندوستانی تمدن کے ہر پہلو کو اپنی تحریر کا موضوع بنایا ہے۔علوم وفنون ،زراعت،معیشت،اردواجیات،سیاسیات،صنعت وحرفت ،قوانین،رسوم ورواج،توہمات،ادویات،فوجی مہارت،سیاسی وغیر سیاسی معاہدات اور ریاست کے استحکام سمیت ہر وہ موضوع کوتلیہ کی فکر کے وسیع دامن میں سماگیا ہے جو سوچ میں آسکتا ہے ۔علم سیاسیت کے پنڈت کہیں کوتلیہ کو اس کی متنوع علمی دستگاہ کی وجہ سے ہندوستان کا ارسطو کہتے ہیں اور کہیں ایک نئے اور واضح تر سیاسی نظام کا خالق ہونے کے باعث اس کا موازنہ میکاولی سے کیا جاتا ہے ۔بہر حال یہ کتاب اس کے افکار ونظریات کو سمجھنے کا معتبر ماخذ ہے۔(ط۔ا)