اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی بندگی اور عبادت کے لیے پیدا کیا اور انسان کی راہنمائی کے لیے انبیاء کرام و رسولوں کی جماعت کو انسانیت کی ہدایت کے لیے مبعوث فرمایا۔ مگر اس کے باوجود بھی حضرت انسان ایک اندھے کی طرح کسی کا مقلد بن کر اپنی ثقافت، شرافت، معاشرہ اور اپنی ہی دینی تعلیمات و تربیت کے دشمن بنے ہوئے ہیں۔ اگر دین سے ہٹ کر بھی اسے دیکھا جائے تو عقل سلیم رکھنے والا شخص اس کو ہرگز نہیں تسلیم کرے گا کہ ایک گھر میں خوشیوں کا محفل ہو اور ساتھ والے گھر میں رنج و الم کا ماتم، ہر ایسی رسم جو اپنے ساتھ بے شمار طوفان لاتی ہے، اس کا اسلام سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں۔ اپریل فول منانے والےفرسٹ اپریل کوجھوٹ کی آڑ لے کر اپنے دوسرے بھائیوں کو بیوقوف بنا کر خوشی محسوس کرتے ہیں۔ہمیں یہ بھی احساس نہیں کہ ایک سازش کے تحت مسلمان نو جوانوں کو اپنی تہذیب سے دور کیا جارہا ہے نیو ائیر نائٹ، ویلنٹائن ڈے، اپریل فول جیسی رسمیں اپنا کر ہم نہ صرف اپنا مالی نقصان کرتے ہیں بلکہ تہذیبی موت سے بھی دو چار ہو رہے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب"اپریل فول" عبدالوارث ساجد کی ایک تحقیقی تصنیف ہے۔ جس میں موصوف نے اپریل فو...
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات اوردستور زندگی ہے۔اس کی اپنی تہذیب، اپنی ثقافت، اپنےرہنے سہنے کے طور طریقے اور اپنے تہوار ہیں ،جو دیگر مذاہب سے یکسر مختلف ہیں۔تہوار یاجشن کسی بھی قوم کی پہچان ہوتے ہیں،اور ان کے مخصوص افعال کسی قوم کو دوسری اقوام سے جدا کرتے ہیں۔جو چیز کسی قوم کی خاص علامت یا پہچان ہو ،اسلامی اصطلاح میں اسے شعیرہ کہا جاتا ہے،جس کی جمع شعائر ہے۔اسلام میں شعائر مقرر کرنے کا حق صرف اللہ تعالی کو ہے۔اسی لئے شعائر کو اللہ تعالی نے اپنی طرف منسوب کیا ہے۔لہذا مسلمانوں کے لئے صرف وہی تہوار منانا جائز ہے جو اسلام نے مقرر کر دئیے ہیں،ان کے علاوہ دیگر اقوام کے تہوار میں حصہ لینا مسلمانوں کے لئے جائز نہیں ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ غیر مسلم تہوار، اسلامی تہذیب کے سینے پر خنجر ‘‘ محترم تفضیل احمد ضیغم صاحب کی تصنیف ہے ۔ جس میں انہوں نے کافر اقوام کے بے شمار تہواروں کو جمع کر کے مسلمانوں کو ان بچنے اور ان میں شرکت نہ کرنے کی ترغیب دی ہے،کیونکہ غیر اسلامی تہوار منانا مسلمانوں کے لئ...
اپنی حقیقت ،اپنی صورت، ہیئت اور وجود کو چھوڑ کر دوسری قوم کی حقیقت ، اس کی صورت اختیار کرنے اور اس کے وجود میں مدغم ہو جانے کا نام تشبہ ہے۔ شریعتِ مطہرہ مسلم وغیر مسلم کے درمیان ایک خاص قسم کا امتیاز چاہتی ہے کہ مسلم اپنی وضع قطع،رہن سہن اور چال ڈھال میں غیر مسلم پر غالب اوراس سے ممتاز ہو،اس امتیاز کے لیے ظاہری علامت داڑھی اور لباس وغیرہ مقرر کی گئی کہ لباس ظاہری اور خارجی علامت ہے۔اور خود انسانی جسم میں داڑھی اور ختنہ کو فارق قراردیا گیا ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے موقع بہ موقع اپنے اصحاب کو غیرمسلموں کی مشابہت اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے ۔ تمام ادیان میں صرف دینِ اسلام کو ہی جامع، کامل و اکمل ہونے کا شرف حاصل ہے، دنیا کے کسی خطے میں رہنے والا، کوئی بھی انسان ہو ، کسی بھی زبان کا ہو، کسی بھی نسل کا ہو، اگر وہ اپنی زندگی کے کسی بھی شعبے کے بارے میں راہنمائی لینا چاہتا ہو ،تواس کے لیے اسلام میں مکمل راہنمائی کا سامان موجود ہے،اگر کوئی انسان اسلام میں داخل ہو کر اسلام کی راہنمائی کے مطاب...
غیر ت آدمی کا اندرونی ڈر اور خوف ہے جو اس لیے رونما ہوتا ہےکہ وہ سمجھتا ہےکہ اس کے بالمقابل ایک مزاحم پید ہوا ہے عربی لغت کے مطابق غیرت خوداری اور بڑائی کا وہ جذبہ ہے جو غیر کی شرکت کو لمحہ بھر کے لیے برداشت نہیں کرتا ۔ غیرت کا تعلق فطرت سے ہے فطری طور پر تخلیق میں غیرت ودیعت کی گئی ہے غیرت سے محروم شخص پاکیزہ زندگی سے محروم ہے او رجس کے اندر پاکیزہ زندگی معدوم ہو تو پھر اس کی زندگی جانوروں کی زندگی سے بھی گئی گزری ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی ذات کے سلسلہ میں غیرت مند او رمنفعل بنایا ہے یہی وجہ ہے کہ انسان خواہ کتنا ہی مجبور ولاچار کیوں نہ ہو لیکن آخری دم تک اپنی عزت وآبرو کی حفاظت وصیانت میں جان کی بازی لگائے رکھتا ہے ۔جس قوم کے اندر غیرت وحمیت کا جذبہ موجود ہوگا اس کی نسل اور تعمیری زندگی گزار سکے گی اور وہی معاشرہ حسنِ اخلاق کا پیکر بن کر اعلیٰ اقدار کا مستحق بھی ہوگا۔حدیث کی رُو سے اللہ تعالیٰ کے نزدیک غیرت دو طرح کی ہے غیر ت مبغوض اور غیر محبوب۔محبوب غیر ت وہ ہے جو&nb...
اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمتوں میں صحت اور فراغت بھی ہیں ان کا صحیح استعمال اور قدر دانی انسان کو عام انسانوں سےممتاز کرتی ، دنیا میں ترقی کے عروج سے نوازتی اور اُخروی کامیابی سے ہمکنار کرتی ہے، مسلمان کی زندگی میں اصل تو یہ ہے کہ اس میں فراغت کا کوئی بیکار وقت ہوتا ہی نہیں کیونکہ مسلمان کا وقت اور اس کی عمر اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہوتے ہیں اور اسلامی تعلیم و تربیت نوجوانوں میں یہ شعور پیدا کرتی ہے کہ وہ اپنی زندگی کے ہر لمحہ اور ہر گھڑی کواللہ تعالیٰ کی امانت سمجھیں اور اسے خیر و بھلائی کے کاموں میں صرف کریں ، خود نبی اکرم ﷺ نے ہماری فرصت و فراغت کی ہر گھڑی سے استفادہ کرنے کی دعوت دی ہے؛ فرمایا’’ پانچ چیزوں سے پہلے پانچ چیزوں کے وجود کو غنیمت سمجھیں ۔‘‘ان پانچ چیزوں میں سےایک مشغولیت سے پہلے فراغت ہے۔ زیر نظر کتاب’’ فرصت کے لمحات ‘‘ تین ائمہ حرم فضیلۃ الشیخ سعود الشریم ، فضیلۃ الشیخ عبد الباری الثبيتي،فضیلۃ الشیخ صلاح البدیر حفظہم اللہ کے خطبات سےوقت کی قدر وقیمت سے متعلق&n...
لفظ عمرانیات عربی کے لفظ عمران سے نکلا ہے، جس کے معنیٰ ہیں، آبادی، سماج، معاشرت، رہن سہن۔ سماج کے لیے عمران کا لفظ ابن خلدون نے استعمال کیا تھا۔ اردو میں عمرانیات کی اصطلاح سب سے پہلے 1935ء میں علم الاخلاق میں ملتی ہے۔ اس کے لیے انگریزی میں لفظ Sociology مستعمل ہے، جس کی اصل لاطینی اور یونانی ہے۔عمرانیات یا سماجیات سماجی رویے، اس کے مآخذ، ترقی، تنظیم اور اداروں کے مطالعے کا علم ہے۔ یہ ایک ایسا سماجی علم ہے جو مختلف تجرباتی تفتیشی طریقوں اور تنقیدی جائزوں کے ذریعے معاشرتی نظم، بدنظمی اورمعاشرتی تبدیلی کے بارے میں ایک علمی ڈھانچہ وضع کرتا ہے۔ ایک ماہر عمرانیات کا عمومی ہدف سماجی پالیسی اور فلاح کے لیے براہ راست لاگو ہونے والی تحقیق منعقد کرنا ہوتا ہے، تاہم عمرانیات کے علم میں معاشرتی عمل کی تصوراتی تفہیم کو بہتر بنانا بھی شامل ہے۔ موضوعاتی مواد کا احاطہ فرد کے کردار اور عمل سے لے کر پورے نظام اور سماجی ڈھانچے کی تفہیم تک جاتا ہے۔عمرانی مسئلہ یا سماجی مسائل بنیادی ...
عصر حاضر کے جدید مسائل میں سے ایک اہم ترین مسئلہ فوٹو گرافی یا عکسی تصاویر کا بھی ہے، جسے عربی زبان میں صورۃ شمسیہ کہا جاتا ہے، جو دور حاضر میں انسانی زندگی کا لازمی جزو بن چکا ہے۔آج کوئی بھی شخص جو فوٹو گرافی کو جائز سمجھتا ہو یا ناجائز سمجھتا ہو ،بہر حال اپنی معاشی ،معاشرتی اور سماجی تقاضوں کے باعث فوٹو بنوانے پر مجبور ہے۔اس مسئلہ میں اگر افراد کے اذہان ورجحانات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت دو متضاد انتہاؤں پر پائی جاتی ہے۔کچھ لوگ ایسے ہیں جو ہر قسم کی تصاویر ،عکسی تصاویر اور مجسموں کو سجاوٹ اور (مذہبی اور غیر مذہبی)جذباتی وابستگی کے ساتھ رکھنے اور آویزاں کرنے میں کوئی مضائقہ اور کوئی حرج محسوس نہیں کرتے ہیں۔ان میں عام طور پر وہ لوگ شامل ہیں جن کا دین سے کوئی بھی تعلق برائے نام ہی ہے۔جبکہ دوسری انتہاء پر وہ لوگ پائے جاتے ہیں ،جو ہر قسم کی تصاویرخواہ وہ ہاتھ سے بنائی گئی ہوں یا مشین اور کیمرے کے ذریعے سے،انہیں مطلقا حرام سمجھتے ہیں ،مگر اس کے باوجود قومی شناختی کارڈ،پاسپورٹ ،کالج اور یونیورسٹی میں داخلے کا فارم اور بعض دی...
ڈاکٹر طہ جابر علوانی (1935-2016) عراق کےشہر فلوجہ میں پیدا ہوئے ۔ڈاکٹر موصوف علمی دنیا کا ایک اہم نام ہے۔ فقہ اسلامی اور فکر اسلامی دونوں میں انہوں نے اپنی ایک پہچان بنائی اور اپنے اجتہادی فکر و فلسفہ کے ذریعہ دونوں کو ہم آہنگ کرنے کی بھر پور کوشش کی۔ ابتدائی تعلیم تو وطن(عراق) میں ہی حاصل کی لیکن ثانویہ سے لے کر ڈاکٹریٹ کی ڈگری تک کی تعلیم جامعہ ازہر قاہرہ میں حاصل کی، اور فقہ و اصولِ فقہ کو ہی اپنی تحقیق و دراسہ کا میدان بنایا اور مقاصد شریعت کے موضوع کو اُجاگر کرکے اپنی وسعتِ فکری کو جلا بخشی اور تقریباً ساٹھ سالوں تک اپنی خطابت و کتابت سے علمی دنیا کو سیراب کرتے رہے۔ آپ سن 1981 میں ہیر نڈن ، ورجینیا، امریکہ میں قائم ہونے والے ادارے المعہد العالمی للفکر الاسلامی (IIIT) کے بانیوں میں سے ہیں1984 سے 1986 تک اس ادارہ کے نائب صدر اور اس ادارہ کے تحت قائم شعبہ ریسرچ واسٹڈیز کے صدر کے عہدے پر فائز رہے۔ زیر نظر کتاب ’’فکراسلامی کی اصلاح امکانات اور دشواریاں
ڈاکٹر طہ جابر علوانی (1935-2016) عراق کےشہر فلوجہ میں پیدا ہوئے ۔ڈاکٹر موصوف علمی دنیا کا ایک اہم نام ہے۔ فقہ اسلامی اور فکر اسلامی دونوں میں انہوں نے اپنی ایک پہچان بنائی اور اپنے اجتہادی فکر و فلسفہ کے ذریعہ دونوں کو ہم آہنگ کرنے کی بھر پور کوشش کی۔ ابتدائی تعلیم تو وطن(عراق) میں ہی حاصل کی لیکن ثانویہ سے لے کر ڈاکٹریٹ کی ڈگری تک کی تعلیم جامعہ ازہر قاہرہ میں حاصل کی، اور فقہ و اصولِ فقہ کو ہی اپنی تحقیق و دراسہ کا میدان بنایا اور مقاصد شریعت کے موضوع کو اُجاگر کرکے اپنی وسعتِ فکری کو جلا بخشی اور تقریباً ساٹھ سالوں تک اپنی خطابت و کتابت سے علمی دنیا کو سیراب کرتے رہے۔ آپ سن 1981 میں ہیر نڈن ، ورجینیا، امریکہ میں قائم ہونے والے ادارے المعہد العالمی للفکر الاسلامی (IIIT) کے بانیوں میں سے ہیں1984 سے 1986 تک اس ادارہ کے نائب صدر اور اس ادارہ کے تحت قائم شعبہ ریسرچ واسٹڈیز کے صدر کے عہدے پر فائز رہے۔ زیر نظر کتاب ’’فکراسلامی کی اصلاح امکانات اور دشواریاں
لعنت دھتکار اور پھٹکار کا عربی نام ہے اور لعنت ایک بدعا ہے اس کا معنیٰ اللہ کی رحمت سے دور ہونے اور محروم ہونے کے ہیں۔ جب کوئی کسی پر لعنت کرتا ہے توگویا وہ اس کے حق میں بدعا کرتا ہے کہ تم اللہ کی رحمت سے محروم ہو جاؤ رسول کریم ﷺ نے کسی پر لعنت کرنے کو بڑی سختی سے منع کیا فرمایا ہے یہاں تک کہ بے جان چیزوں پر بھی لعنت کرنے سے منع کیا ہے ۔ لعنت اور ناشکری جہنم میں جانے کا باعث بن سکتے ہیں جیسے کہ نبی ﷺ نے فرمایا’’ اے عورتو! صدقہ کیا کرو میں نےجہنم میں دیکھاکہ اس میں عورتوں کی تعدادزیادہ ہے عورتوں نےعرض کیا یارسول اللہﷺ اس کی کیاوجہ ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ ’’تم لعنت زیادہ کرتی ہو اور اپنے شوہر کی ناشکری کرتی ہو ‘‘۔ جس شخص پر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی لعنت ہو اس کی دینوی اخروی ذلت ورسوائی میں قعطا کوئی شک وشبہ نہیں او روہ خسارے ہی خسار...
عمرانیات یا سماجیات سماجی رویے، اس کے مآخذ، ترقی، تنظیم اور اداروں کے مطالعے کا علم ہے۔ یہ ایک ایسا سماجی علم ہے جو مختلف تجرباتی تفتیشی طریقوں اور تنقیدی جائزوں کے ذریعے معاشرتی نظم، بدنظمی اورمعاشرتی تبدیلی کے بارے میں ایک علمی ڈھانچہ وضع کرتا ہے۔ ایک ماہر عمرانیات کا عمومی ہدف سماجی پالیسی اور فلاح کے لیے براہ راست لاگو ہونے والی تحقیق منعقد کرنا ہوتا ہے، تاہم عمرانیات کے علم میں معاشرتی عمل کی تصوراتی تفہیم کو بہتر بنانا بھی شامل ہے۔ موضوعاتی مواد کا احاطہ فرد کے کردار اور عمل سے لے کر پورے نظام اور سماجی ڈھانچے کی تفہیم تک جاتا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’قرآنی عمرانیات‘‘ ڈاکٹر سیدضمیر علی اختر کی کاوش ہے۔ انہوں نے یہ کتاب اسلامی عمرانیات کے نصاب کے مطابق مرتب کی ہے۔ اس کتاب کی تیاری میں انہوں نے نے بعض غلط فہمیوں کو دور کرنے اور انہیں صحیح اسلامی مناظر میں پیش کرنےکی کوشش کی ہے۔ یہ کتاب قرآنی عمرانیات علوم مروجہ کے علاوہ جامعات میں ایک روز افزوں مقبولیت حاصل ہونےوالے مضمون عمرانیات کی ایک نصابی ضروریات کوپورا کرتی ہے۔ (م۔ا)
اسلام میں موسیقی اور گانے بجانے کی شدید مذمت کی گئی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے واضح الفاظ میں اس حوالے سے وعید کا تذکرہ کیاہے۔ نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" میرى امت میں سے ایسے لوگ ضرور پیدا ہونگے جو شرمگاہ [زنا] ’ ریشم ’ شراب اور گانا وموسیقی کو حلال کرلیں گے" یہ دل میں نفاق پیدا کرنے اور انسان کو ذکرالہی سے دور کرنے کا سبب ہے۔ ارشادِباری تعالی ہے: ﴿وَمِنَ النّاسِ مَن يَشتَرى لَهوَ الحَديثِ لِيُضِلَّ عَن سَبيلِ اللَّهِ بِغَيرِ عِلمٍ وَيَتَّخِذَها هُزُوًا ۚ أُولـٰئِكَ لَهُم عَذابٌ مُهينٌ﴾( سورة القمان)" لوگوں میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو لغو باتو ں کو مول لیتے ہیں تاکہ بے علمی کے ساتھ لوگوں کو اللہ کی راہ سے بہکائیں اور اسے مذاق بنائیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے رسوا کن عذاب ہے"جمہور صحابہ وتابعین اور عام مفسرین کے نزدیک لہو الحدیث عام ہے جس سے مراد گانا بجانا اور اس کا ساز وسامان ہے او ر سازو سامان، موسیقی کے آلات او رہر وہ چیزجو انسان کو خیر او ربھلائی سے غافل کر دے اور اللہ کی عبادت سے دور کردے۔ اس میں ا...
ہنسنا ہنسانا ایک جائز کام ہے جیسا کہ حضور ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے عملی نمونوں سے واضح ہوتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ زندگی کی مصیبتوں اور سختیوں کو برداشت کرنے میں ہنسنے ہنسانے والی کیفیت بڑا رول ادا کرتی ہے۔ ہنسی مذاق جائز ہے لیکن حد کے اندر کیوں کہ کسی بھی چیز کی زیادتی مضر ہوتی ہے،جھوٹی باتیں گھڑ کر لوگوں کو ہنسانے کی کوشش نہ کی جائے،ہنسی مذاق کے ذریعے کسی کی تحقیر وتذلیل نہ کی جائے۔الا یہ کہ وہ خود اسکی اجازت دے دے اور اس پر ناراض نہ ہو۔کسی کی تحقیر کرنابڑاگناہ ہے جیسا کہ قرآن میں ہے: ﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا يَسخَر قَومٌ مِن قَومٍ... ﴾ (الحجرات)’’اے ایمان والو!لوگوں کو چاہیے کہ ایک دوسرے کامذاق نہ اُڑائیں۔ ڈاکٹر بدر الزماں محمد شفیع نیپالی حفظہ اللہ نے زيرنظر كتاب ’’لاک ڈاؤن میں ہنسی مذاق‘‘میں کتاب وسنت کی روشنی میں ہنسی مذاق کے...
سماجی تبدیلی کے لیے برپا کی گئی جدوجہد سے حکمرانوں اور محکوموں ‘ ظالموں اور مظلموں اور جابروں اور مجبوروں کے درمیان اعلیٰ وادنی اقدار کی بنا پر قائم کی گئی تفریق وامتیاز کا تصور کمزور ہونے لگتا ہے۔ لوگوں کے ذہن میں یہ بات راسخ ہونے لگتی ہے کہ اقدر کی بنیاد پر حکمران اور محکوم طبقات کے مابین قائم کی گئی فوقیتی ترتیب فطری نوعیت کی نہیں ہوتی اور نہ ہی کسی ازلی وابدی اصول پر مشتمل ہوتی ہے جیسا کہ حکمران طبقات ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں‘ بلکہ اقدار کی فوقیتی ترتیب کا تصور ریاستی پروپیگنڈا مشیزی کی پیداوار ہوتا ہے۔ حکمرانوں کی طاقت اور آئیڈیالوجی کا مظہر ہوتا ہے۔ جہاں استحصال‘ ظلم وجبر اور تشدد ہووہاں استحصال زدگان کا اُٹھ کھڑے ہونا فطری عمل ہے۔ا ور آج بہت سے ازم وجود میں آگئے ہیں اور ہمارا عہد دہشت گردی‘ جنگوں اور سرمایہ داری کے زوال کا دور ہے۔اس لیے زیرِ تبصرہ کتاب میں ان تمام موضوعات کو سمیٹا گیا ہے۔ مضامین پیچیدہ اور فلسفیانہ مباحث کو قدرے آسان پیرائے میں پیش کیا گیا ہے اور مصنف نے لبرل ازم یا نیولبرل ازم کی حقیقت کو آشکارہ کیا...
جدیدیت ان نظریاتی تہذیبی ،سیاسی اور سماجی تحریکوں کے مجموعے کا نام ے جو 17ویں اور 18 صدی کے یورپ میں روایت پسندی اورکلیسائی استبداد کے ردّ عمل میں پیدا ہوئیں۔یہ وہ دور تھا جب یورپ میں کلیسا کا ظلم اپنے عروج پر تھا ۔اور مابعدجدیدیت؍پس جدیدیت دراصل جدیدیت کے ردّ عمل کانام ہے ۔اور مابعدجدیدیت آج کے دور کافلسفہ، ترقی یافتہ معاشروں کا عقیدہ طرزِ زندگی، معاشرتی صورت حال اور نظریہ حیات کانام ہے اردو میں مابعدجدیدیت پر علمی انداز سے مذہبی موقف کوبہت کم پیش کیا گیا ہے ۔ زیر نظر کتاب ’’مابعدجدیدیت اور اسلامی تعلیمات ‘‘ پروفیسر ڈاکٹر احمد ندیم کی کاوش ہے ۔ اس کتاب میں انہوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ جدیدیت ہو یامابعدجدیدیت کوئی بھی نظریہ اسلام کی صاف ستھری اور پرازحکمت تعلیمات کے لیے چیلنج کا درجہ نہیں رکھتا۔اسلام کی رہنمائی آفاقی، ابدی،سرمدی اور ناقابل تغیر ہےاسی لیے قرآن کریم چیلنج کرتا ہے ۔ا...
جدیدیت ان نظریاتی تہذیبی ،سیاسی اور سماجی تحریکوں کے مجموعے کا نام ے جو 17ویں اور 18 صدی کے یورپ میں روایت پسندی اورکلیسائی استبداد کے ردّ عمل میں پیدا ہوئیں۔یہ وہ دور تھا جب یورپ میں کلیسا کا ظلم اپنے عروج پر تھا ۔اور مابعدجدیدیت؍پس جدیدیت دراصل جدیدیت کے ردّ عمل کانام ہے ۔اور مابعدجدیدیت آج کے دور کافلسفہ، ترقی یافتہ معاشروں کا عقیدہ طرزِ زندگی، معاشرتی صورت حال اور نظریہ حیات کانام ہے اردو میں مابعدجدیدیت پر علمی انداز سے مذہبی موقف کوبہت کم پیش کیا گیا ہے ۔ زیر نظر کتاب ’’مابعدجدیدیت اور اسلامی تعلیمات ‘‘ پروفیسر ڈاکٹر احمد ندیم کی کاوش ہے ۔ اس کتاب میں انہوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ جدیدیت ہو یامابعدجدیدیت کوئی بھی نظریہ اسلام کی صاف ستھری اور پرازحکمت تعلیمات کے لیے چیلنج کا درجہ نہیں رکھتا۔اسلام کی رہنمائی آفاقی، ابدی،سرمدی اور ناقابل تغیر ہےاسی لیے قرآن کریم چیلنج کرتا ہے ۔ا...
آج ہم جس دور میں سانس لے رہے ہیں‘ یہ مغربی تہذیب کے غلبہ کا دور ہے۔یہ تہذیب اپنے طاقتور آلات کے ذریعہ ملکی سرحدوں کی حدود‘ درسگاہوں اور گھروں کی دیواروں کو عبور کر کے‘ افراد کے دل کی گہرائیوں تک پہنچ چکی ہے۔ عورت ومرد اس تہذیب کے مظاہر پر فریفتہ ہو رہے ہیں۔ اس تہذیب کی پیدا کردہ ایجادات نے اگرچہ انسان کو بہت ساری سہولتیں بھی پہنچائی ہیں‘ آمد ورفت اور رابطہ میں آسانیاں پیدا ہو گئی ہیں‘ گرمی وسردی سے بچاؤ کےلیے انتظامات ہو گئے ہیں‘ خوبصورتی اور زیب وزینت کے نت نئے سامان ایجاد ہوئے ہیں‘ انسانی جسم کو لاحق بعض اہم بیماریوں کے علاج میں سہولتیں پیدا ہو گئی اور ظاہری روشنی اور چمک دمک میں اضافہ ہو ا ہے لیکن اس کے کئی ایک نقصانات بھی جیسا کہ رشتوں کی اہمیت گنوا دی گئی ہے لوگ ڈپریشن کے مرض میں مبتلا ہو رہے ہیں اور مالداروں کو احساس برتری اور غریبوں کو احساس کمتری کے امراض میں مبتلا کر دیا گیا ہے غرض اس مادی تہذیب نے رونق اور زیب وزینت کے نت نئے سامان کی قیمت پر انسان کے دل اور روح کو آخری حد تک بے چین کر دیا ہے۔ دل رو...
ماں اس ہستی کا نام ہے جو زندگی کے تمام دکھوں اور مصیبتوں کو اپنے آنچل میں چھپا لیتی ہے۔ اپنی زندگی اپنے بچوں کی خوشیوں، شادمانیوں میں صَرف کرتی چلی آئی ہے اور جب تک یہ دنیا قائم و دائم ہے یہی رسم جاری رہے گا۔یوں تو دنیا میں سبھی اشرف المخلوقات چاہے وہ کوئی بھی زبان بولتا ہو، چاہے کسی بھی مذہب سے اس کا تعلق ہو ماں ہر ایک کے لیئے قابلِ قدر ہے۔ اسلامی تعلیم کی روشنی میں اللہ کی طرف سے ماں دنیائے عظیم کا سب سے خوبصورت تحفہ ہے۔ ماں تو ایک ایسا پھول ہے جو رہتی دنیا تک ساری کائنات کو مہکاتی رہے گی۔ اس لئے تو کہتے ہیں کہ ماں کا وجود ہی ہمارے لئے باعثِ آرام و راحت، چین و سکون، مہر و محبت، صبر و رضا اور خلوص و وفا کی روشن دلیل ہے۔ماں اپنی اولادوں کے لیے ایسا چھاؤں ہے جس کا سایہ کبھی ختم نہیں ہونے والا ہے۔اسلامی تعلیمات کے مطابق بنی نوع انسان پر حقوق اللہ کے بعد حقوق العباد میں سے سب سے زیادہ حق اس کے والدین کا ہوتا ہے۔ ایک شخص نے نبی کریم ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! مجھ پر سب سے زیادہ حق کس کا ہے؟ آپ نے فرمایا :تیری ماں کا۔ اس نے دوبارہ اور...
انسان کے لیے گھر اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے او ر اللہ تعالی نے کتاب ِمبین میں گھر کی سہولت کی دستیابی کواپنا انعام قرار دیا ہے ۔انسان جب اپنے چاروں اطراف نظر دوڑائے تو کتنے ہی لوگ ایسے نظر آئیں گے ، جو گھر جیسی نعمت سے محرومی کی وجہ سے سڑکوں کے کنارروں اور پارکوں میں پڑے راتیں بسر کرتے ہیں یا چھت کی عدم دستیابی کے سبب خیموں میں زندگی کے دن گزار نے پر مجبور ہیں ۔ ایسی صورت میں گھر کی سہولت جیسی نعمت کا احساس دو چند ہوجاتا ہے اوراس نعمت غیر مترقبہ پر اللہ تعالی کا جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے ۔چونکہ گھر کا میسر آنا انسان کے لیے سعادت مندی کی علامت او راللہ کریم کی بہت بڑی نعمت ہے ،اس اعتبار سے گھر کے سر پرست پر کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں جن پرعمل پیرا ہو کر وہ اپنے اور اپنے گھر والوں کے لیے نجات کاساماں کرسکتا ہے او ر روز ِقیامت اپنی مسؤلیت سے عہدہ برآ ہوسکتا ہے ۔گھریلو معاملات کی اصلاح اور اولاد ووغیرہ کی دینی واخلاقی تربیت گھر کےسر پرست کی ذمہ داری ہے ۔زیر نظر کتا ب''مثالی گھر'' مولانا فاروق رفیع ﷾ (مدرس جامعہ لاہور الاسلامیہ) کی تصنیف ہے...
حبِ رسول ﷺ اہل ایمان کے لیے ایک روح افزاءباب کی حیثیت رکھتا ہے۔ حبِ رسول ﷺ کے بروئے شریعت کچھ تقاضے ہیں۔ خود نبی ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ مجھے اپنی جان، مال، اولاد، ماں باپ غرض جمیع انسانیت سے بڑھ کر محبوب نہ سمجھے‘‘۔ محبت رسول ﷺ کا مظہر اطاعتِ رسول ہے ۔ رسول اللہ ﷺ سے سچی محبت کےبغیر مومن ہونے کا دعویٰ منافقت کی بیّن دلیل ہے اور حب رسول ﷺ ہی وہ پیمانہ ہےجس سے کسی مسلمان کے ایمان کوماپا جاسکتا ہے۔ دعوائے محبت ہو اوراطاعت مفقود ہو تو دعویٰ کی سچائی پر حرف آتاہے۔ حب رسولﷺ کےتقاضوں میں سے ایک تقاضا تو نبی ﷺ کا ادب و احترام کرنا، آپ سے محبت رکھنا ہے۔ ۔پیغمبر اعظم وآخر الزمان ﷺ کا یہ اعجاز بھی منفرد ہے کہ آپ کے جان نثاروں کی زندگیاں جہاں محبتِ رسول کی شاہکار ہیں وہاں ہر ایک کی زندگی سنت رسولﷺ کی آئینہ دار ہے۔ ان نفوس قدسیہ نے دونوں جہتوں میں راہنمائی کا عظیم الشان معیار قائم فرمایا ہے۔صحابہ کرام نبی کریم ﷺ سے سچی محبت کرتے تھے اوراس محبت میں مال ودولت کیا جان تک قربان کردیتے تھے تاریخ...
دورِ حاضر میں مخلوط معاشرہ انتہائی خطرناک صورت اختیار کر چکا ہے ۔مخلوط معاشرے کی ابتدا کہاں سے ہوئی ؟ یہ جاننا ایک مشکل امر ہے لیکن اس دعوے میں کوئی اشتباہ اور باک نہیں ہے کہ اس کی ابتدا ان معاشروں میں ہوئی جن میں الہامی تعلیمات سے انتہائی زیادہ روگردانی کے جراثیم پھیل گئے او ر انہوں نے الہامی تعلیمات کے برعکس ہرکام انجام دینا اپنے اورلازم کرلیا۔غیر مسلم معاشرے مشرق کے ہوں یا مغرب کے ان میں نہ تو خوف آخرت پایا جاتا ہے نہ توحید کا اقرار ،ان کی مذہبی رسومات وروایات میں مخلوط معاشرہ کسی نہ کسی سطح پر ضرور پایا جاتا ہے لیکن مسلمانوں کی زندگی میں مخلوط ،معاشرے کا در آنا ایک المیہ ہے جس پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے۔ زیر نظر کتابچہ میں محترمہ ام عبد منیب صاحبہ نے واضح کیا ہے کہ قرآن وحدیث میں مخلوط معاشرے سے بچاؤ کے لیے وسیع پیمانے پر احکامات بیان کیے گئے ہیں اور ان کےایک ایک جزو کی تفصیل بھی موجود ہے تاکہ مخلوط معاشرے کے ایمان پرمسموم اثرات سے فرد اور جماعت دونوں محفوظ رہیں۔اللہ اس کتابچہ کو عوام الناس کی اصلاح کا ذریعہ بنائے (آمین) محترمہ ام عبد...
پیغمبرِ اسلام کے رفعت ذکر کے متنوع مظاہر میں سے ایک مظہر یہ ہے کہ آپ ﷺ کی ذات ستودہ صفات اورتعلیمات پر آئے روز نئی نئی کتابیں اور مقالات لکھے جا رہے ہیں اور دنیا کے گوشے گوشے میں بسنے والے انسان اپنی ضرورت اور ذوق کے مطابق ان کا مطالعہ کر رہے ہیں۔ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ تاریخ و سیرت اور احادیث کی کتب کو اگر پیش نظر رکھا جائے تو آقائے دو جہاںؐ کا برپا کردہ معاشرہ اپنی ساری رعنائیوں اور تابانیوں کے ساتھ پڑھنے والے کے سامنے آجاتا ہے۔ ڈاکٹر اکرم ضیاء العمری نے زیرِ نظر کتاب ’’المجتمع المدنی فی عھد النبوۃ‘‘ میں سیرت نگاری کا ایک جدید منہج متعارف کرایا ہے جو محدثین کے اصولِ تحقیق کے بھی مطابق ہے اور جدید مغربی مؤرخین کے اختیار کردہ اصولِ تحقیق پر بھی پورا اترتا ہے۔ اس قابلِ قدر کتاب کو اردو قالب میں منتقل کرنے کی سعادت مرحومہ عذرا نسیم فاروقی کے حصے میں آئی ہے۔ اور یہ ’’مدنی معاشرہ، عہد رسالت میں‘‘ کے نام سے مطبوعہ شکل میں پیش خدمت ہے۔ (م۔ آ۔ ہ)
ہندوستان دنیا کا ایسا خطہ ہے جہاں آٹھویں صدی سے لے کر بیسویں صدی تک دو غیرملکی حکمران، عرب مسلمان اور انگریز(برطانوی) قابض رہے۔ 712 ء میں مسلمان حکمران محمد بن قاسم نے ہندوستان میں قدم رکھا اور 1857 کے غدر کے بعد باقاعدہ مسلمانوں کے اقتدار کا خاتمہ ہوا۔ برطانوی سامراج جس کی ابتداء 1757 ء کو ہوئی تھی کا خاتمہ 1947 ء کو ہوا۔ محمد بن قاسم نے دمشق میں موجود مسلمان خلیفہ الولید اور بغداد کے گورنر حجاج بن یوسف کی آشیر باد سے، 712 ء میں ہندوستان پر حکمرانی کا آغاز کیا ۔ 1590ء تک مسلمان حکمران شہنشاہ اکبر تقریباً پورے ہندوستان پر قابض ہو چکا تھا۔ اورنگ زیب کے دور (1657-1707) میں اس سلطنت میں کچھ اضافہ ہوا۔ زیر تبصرہ کتا ب ’’ہندوستان کے مسلمان حکمرانوں کے عہد کے تمدنی جلوے‘‘ دار المصنفین کے رفیق سید صباح الدین عبد الرحمٰن کی مرتب شدہ ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے سلاطین دہلی اور شاہان مغلیہ کے عہد کے دربار،محلات، حرم، لباس، پارچہ بافی، زیورات، جوہرات، خوشبوئیات، خورد و نوش، ساز وسامان، تہوار، تقریبات، موسیقی، اور مصوری وغیرہ کی مکمل تفصیل بیان کی...
ہندوستان دنیا کا ایسا خطہ ہے جہاں آٹھویں صدی سے لے کر بیسویں صدی تک دو غیرملکی حکمران، عرب مسلمان اور انگریز(برطانوی) قابض رہے۔ 712 ء میں مسلمان حکمران محمد بن قاسم نے ہندوستان میں قدم رکھا اور 1857 کے غدر کے بعد باقاعدہ مسلمانوں کے اقتدار کا خاتمہ ہوا۔ برطانوی سامراج جس کی ابتداء 1757 ء کو ہوئی تھی کا خاتمہ 1947 ء کو ہوا۔ محمد بن قاسم نے دمشق میں موجود مسلمان خلیفہ الولید اور بغداد کے گورنر حجاج بن یوسف کی آشیر باد سے، 712 ء میں ہندوستان پر حکمرانی کا آغاز کیا ۔ 1590ء تک مسلمان حکمران شہنشاہ اکبر تقریباً پورے ہندوستان پر قابض ہو چکا تھا۔ اورنگ زیب کے دور (1657-1707) میں اس سلطنت میں کچھ اضافہ ہوا۔ زیر تبصرہ کتا ب ’’ہندوستان کے مسلمان حکمرانوں کے عہد کے تمدنی جلوے‘‘ دار المصنفین کے رفیق سید صباح الدین عبد الرحمٰن کی مرتب شدہ ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے سلاطین دہلی اور شاہان مغلیہ کے عہد کے دربار،محلات، حرم، لباس، پارچہ بافی، زیورات، جوہرات، خوشبوئیات، خورد و نوش، ساز وسامان، تہوار، تقریبات، موسیقی، اور مصوری وغیرہ کی مکمل تفصیل بیان کی...