اسلام نے ہمیں زندگی کے تمام شعبوں کے بارے میں راہنمائی فراہم کی ہے۔عبادات ہوں یا معاملات،تجارت ہو یا سیاست،عدالت ہو یا قیادت ،اسلام نے ان تمام امور کے بارے میں مکمل تعلیمات فراہم کی ہیں۔اسلام کی یہی عالمگیریت اور روشن تعلیمات ہیں کہ جن کے سبب اسلام دنیا میں اس تیزی سے پھیلا کہ دنیا کی دوسرا کوئی بھی مذہب اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا ہے۔اسلامی تعلیمات نہ صرف آخرت کی میں چین وسکون کی راہیں کھولتی ہیں ،بلکہ اس دنیوی زندگی میں اطمینان ،سکون اور ترقی کی ضامن ہیں۔اسلام کی اس بے پناہ مقبولیت کا ایک سبب مساوات ہے ،جس سے صدیوں سے درماندہ لوگوں کو نئی زندگی ملی اور وہ مظلوم طبقہ جو ظالموں کے رحم وکرم پر تھا اسے اسلام کے دامن محبت میں پناہ ملی۔ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات اور دستور زندگی ہے۔اسلامی نظامِ حیات میں جہاں عبادت کی اہمیت ہے وہیں معاملات ومعاشرت اور اخلاقیات کو بھی اولین درجہ حاصل ہے،اسلام کاجس طرح اپنانظامِ معیشت ہے اوراپنے اقتصادی اصول ہیں اسی طرح اسلام کا اپنانظامِ سیاست وحکومت ہے،اسلام کا نظامِ سیاست وحکم رانی موجودہ جمہوری نظام سے مختلف اوراس کے نقائص ومفاس...
اسلام نے ہمیں زندگی کے تمام شعبوں کے بارے میں راہنمائی فراہم کی ہے۔عبادات ہوں یا معاملات،تجارت ہو یا سیاست،عدالت ہو یا قیادت ،اسلام نے ان تمام امور کے بارے میں مکمل تعلیمات فراہم کی ہیں۔اسلام کی یہی عالمگیریت اور روشن تعلیمات ہیں کہ جن کے سبب اسلام دنیا میں اس تیزی سے پھیلا کہ دنیا کی دوسرا کوئی بھی مذہب اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا ہے۔اسلامی تعلیمات نہ صرف آخرت کی میں چین وسکون کی راہیں کھولتی ہیں ،بلکہ اس دنیوی زندگی میں اطمینان ،سکون اور ترقی کی ضامن ہیں۔اسلام کی اس بے پناہ مقبولیت کا ایک سبب مساوات ہے ،جس سے صدیوں سے درماندہ لوگوں کو نئی زندگی ملی اور وہ مظلوم طبقہ جو ظالموں کے رحم وکرم پر تھا اسے اسلام کے دامن محبت میں پناہ ملی۔ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات اور دستور زندگی ہے۔اسلامی نظامِ حیات میں جہاں عبادت کی اہمیت ہے وہیں معاملات ومعاشرت اور اخلاقیات کو بھی اولین درجہ حاصل ہے،اسلام کاجس طرح اپنانظامِ معیشت ہے اوراپنے اقتصادی اصول ہیں اسی طرح اسلام کا اپنانظامِ سیاست وحکومت ہے،اسلام کا نظامِ سیاست وحکم رانی موجودہ جمہوری نظام سے مختلف اوراس کے نقائص ومفاس...
دور جدید کا انسان جن سیاسی،معاشرتی اور معاشی مسائل سے دوچار ہے اس پر زمانے کا ہر نقش فریادی ہے۔ آج انسان اس رہنمائی کا شدید حاجت مند ہے کہ اسے بتلایا جائے۔ اسلام زندگی کے ان مسائل کا کیا حل پیش کرتا ہے۔ زندگی کے مختلف شعبوں میں اس کا وہ نقطہ اعتدال کیا ہے؟جس کی بناء پر وہ سیاسی ،معاشی اور معاشرتی دائرے میں استحکام اور سکون واطمینان سے انسان کو بہرہ ور کرتا ہے ۔اس وقت دنیا میں دو معاشی نظام اپنی مصنوعی اور غیر فطری بیساکھیوں کے سہارے چل رہے ہیں۔ایک مغرب کا سرمایہ داری نظام ہے، جس پر آج کل انحطاط واضطراب کا رعشہ طاری ہے۔دوسرا مشرق کا اشتراکی نظام ہے، جو تمام کی مشترکہ ملکیت کا علمبردار ہے۔ ایک مادہ پرستی میں جنون کی حد تک تمام انسانی اور اخلاقی قدروں کو پھلانگ چکا ہے تو دوسرا معاشرہ پرستی اور اجتماعی ملکیت کا دلدادہ ہے۔لیکن رحم دلی،انسان دوستی اور انسانی ہمدردی کی روح ان دونوں میں ہی مفقود ہے۔دونوں کا ہدف دنیوی مفاد اور مادی ترقی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔اس کے برعکس اسلام ایک متوسط اور منصفانہ معاشی نظریہ پیش کرتا ہے، وہ سب سے پہلے دلوں میں خدا پرستی،انسان دوستی...
اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے ،جوانسان کی دینی و دنیوی ہر معاملہ میں پوری راہنمائی کرتاہے اور انسانی زندگی کا کوئی پہلو تشنہ اور ناقص نہیں چھوڑتا جہاں انسان کی راہنمائی نہ ہو۔اسلام دیگرانسانی اقدار کے تحفظ کے ساتھ خاندانی زندگی کا کامل نظام دیتاہے ،جو انسانی سوچ کا عکاس اوردنیا کا معتدل ترین نظام ہے۔اسلام خاندانی نظام واحد مؤثرنظام ہے ،جوعصمت کا محافظ ، خاندانی کفالت کا بہترین ذمہ دار اور خاندان کے افراد کے حقوق وفرائض کا اصل محافظ ہے۔اسی نظام کو اپنانے سے معاشرتی استحکام پیدا ہو سکتاہے اور معاشرتی ناہمواریوں اور باہمی خاندانی تنازعات کا ازالہ ممکن ہے۔زیر نظر مقالہ میں خاندان کی اہمیت ،معاشرتی حقوق و فرائض اور خاندانی افراد کے حقوق کا مفصل بیان ہے،ان تعلیمات پر عمل کر کے معاشرتی نظام کو مستحکم بنایا جاسکتاہے اور تیزی سے روبہ زوال نظام خاندان کے بگاڑ کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے اور معاشرے میں پھیلی بددلی کا ازالہ کیا جاسکتاہے۔(ف۔ر)
فاروق اصغر صارم اپنی قابلیت کے اعتبار سے ایک منجھے ہوئے عالم دین تھے جو کہ اس وقت ایک حادثہ کا شکار ہو کر دنیائے فانی سے کوچ کر گئے ہیں-مصنف کی اس کوشش کے ساتھ ساتھ علم وراثت پر بڑی پختہ گرفت تھی اور مسائل وراثت کے ماہرین میں ان کا شمار ہوتا تھا-زیر تبصرہ کتاب ناپ تول کے اسلامی اوزان اور دور حاضر کے پیمانوں کے درمیان تقابل ، موازنہ وغیرہ کے موضوع پر جامع اور مستند کتاب ہے۔ اور مبتدی ومنتہی جملہ طبقات کے لئے یکساں مفید ہے، جامعیت و وسعت کے اعتبار سے مختلف عہود واَدوار میں عہدِ نبوی کے مطابق ناپ تول وغیرہ کے پیمانوں کو محیط ہے۔ اس کتاب میں اسلامی کرنسی کی تفصیل، ماپنے کے اسلامی پیمانے ، پیمائش کے اسلامی پیمانے، اور کتاب کے آخر میں مسافتِ قصر کی تحدید، سونا، چاندی وغیرہ جیسے اہم مضامین کی تشریح کی گئی ہے۔مصنف نے رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں پائے جانے والے مختلف اوزان کی موجودہ دور کےمطابق بہترین تشریح کر کے ان اوزان کو دور حاضر کےمطابق واضح کیا ہے جس سے شرعی امور کو سمجھنے میں بہت زیادہ آسانی پیدا ہو گئی ہے-
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات اور دستور زندگی ہے، جس میں تجارت سمیت زندگی کے تمام شعبوں کے حوالے سے مکمل راہنمائی موجود ہے۔اسلام تجارت کے ان طور طریقوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے ،جس میں بائع اور مشتری دونوں میں سے کسی کو بھی دھوکہ نہ ہو ،اور ایسے طریقوں سے منع کرتا ہے جن میں کسی کے دھوکہ ،فریب یا فراڈ ہونے کا اندیشہ ہو۔یہی وجہ ہے اسلام نے تجارت کے جن جن طریقوں سے منع کیا ہے ،ان میں خسارہ ،دھوکہ اور فراڈ کا خدشہ پایا جاتا ہے۔اسلام کے یہ عظیم الشان تجارتی اصول درحقیقت ہمارے ہی فائدے کے لئے وضع کئے گئے ہیں۔اسلام کے انہی درخشندہ اصولوں کو فروغ دینے کے لئےفیڈرل شریعت کورٹ نے 14 نومبر 1991ء کو ایک تاریخی فیصلہ دیا کہ سود اپنی تمام شکلوں کے ساتھ حرام ہے اور ملک کی معیشت کو اس لعنت سے جلد از جلد پاک کیا جائے۔لیکن حکومت وقت نے عدالت عالیہ میں جا کر اس فیصلے کے خلاف حکم التواء حاصل کر لیا اور یہ فیصلہ آج تک عملی طور پر نافذ نہ ہو سکا۔ زیر تبصرہ کتاب" اسلامی بنکاری، نظریاتی بنیادیں اور عملی تجربات "پروفیسر ڈاکٹر اوصاف احمد صاحب ریسرچ سکالر اسلامی ترقیاتی بینک کے...
اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ دینِ اسلام صرف نظریاتی دین نہیں بلکہ عملی دین ہے اور دنیا وآخرت درست کرنے کے لیے اس کی جامع ہدایات زندگی کے ہر شعبہ میں اعلیٰ ترین راہِ اعتدال کی مظہر ہیں۔حاملین دین متین اور فقہاء امت کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ توحید پر مبنی یہ دینِ حنیف محض ایک نظریہ بن کر نہ ہرے بلکہ عملی زندگی کے تمام شعبوں میں اس کا نفاذ ہو‘ زندگی کے تمام معاملات قرآن وسنت کے نور سے منور ہوں تاکہ لوگوں کی دنیا وآخرت درست ہو سکے۔ اس مقصد کے لیے فقہاء امت نے جسمانی تکلیفیں اٹھا کر اور مشقتیں برداشت کر کے قرآن وسنت کی عملی تطبیق کے راستے امت کے سامنے کھول کھول کر بیان کئے تاکہ زندگی کے تمام شعبوں میں اقامت دین کا فریضہ ادا کیا جا سکےاور آج کل ایک معاشی یا معاشرتی مسائل میں سے بینکاری کا مسئلہ بہت اہم ہے اور اسلامی بینکاری کا رجحان دنیا میں روز بروز بڑھ رہا ہے۔زیرِ تبصرہ کتاب میں خاص اسی مسئلے پر توجہ دی گئی ہے اور اس مسئلے کے حوالے سے ہر شبے اور اشکال کوزائل کرنے کی کوشش کی گئی ہےاور عملی طور پر اس...
یہ بات ایک بدیہی حقیقت ہے کہ موجودہ دور میں غالب فکر و فلسفہ سرمایہ داری کا ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ فکر اب روبہ زوال ہے ۔ گزشتہ کچھ دہائیوں سے اسے بچانے کی سر توڑ کوششیں کی جا رہی ہیں ۔ لیکن ہر وہ نظام جو غیرفطری اور غیر حقیقی ہو اسے زوال تو بہر حال آنا ہی ہوتا ہے ۔ اس سب کچھ کے باوجود چند لوگ ابھی بھی اس فکر اور فلسفے کے گن گا رہے ہیں ۔ اور اس کے متوالے ہوئے بیٹھے ہیں ۔ تاہم کچھ صاحبان حقیقت ایسے بھی ہیں جن کی نگاہ دور رس نے اس کے کھوکھلے پن کا جائزہ لے لیا ہے ۔ اور اس کے بودے پن کو علمی بنیادوں پر واضح کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ زیرنظر کتاب بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے ۔ جس میں سرمایہ دارانہ نظام کا معاشی اور سیاسی پہلو سے جائزہ لینے کی کوشش فرمائی ہے ۔ چناچہ وہ لکھتے ہیں کہ انیسویں اور بیسویں صدی کے مخصوص مسائل کے پیش نظر اجتماعی زندگی میں احیائے اسلام کی فکری و عملی جدوجہد کو تین عنوانات میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ۔ پہلا اسلامی معاشیات دوسرا اسلامی جمہوریت اور تیسرا اسلامی سائنس جبکہ اس کتاب میں انہوں نے اولیں دو کے حوالے سے رقم فرمایا ہے ۔ یہ کتاب راقم کے مختلف مضامی...
گزشتہ چند سالوں کے دوران اسلامی بینک کاری نے غیر معمولی ترقی کی ہے اس وقت دنیا کے تقریبا 75 ممالک میں اسلامی بینک کام کررہے ہیں ان میں بعض غیر مسلم ممالک بھی شامل ہیں۔ صرف پاکستان میں مختلف بینکوں کی تین سو سے زائد برانچوں میں اسلامی بینکاری کے نام پرکام ہور ہا ہے ۔ان میں بعض بینک تو مکمل طور پر اسلامی بینک کہلاتے ہیں ۔اور بعض بنیادی طور پر سودی ہیں ۔ایسی صورتِ حال میں رائج الوقت اسلامی بینکاری کا بے لاگ تجزیہ کرنےکی ضرورت ہےتاکہ معلوم ہوسکےک کہ یہ شرعی اصولوں سے ہم آہنگ ہیں یا نہیں؟زیر نطر کتابچہ''اسلامی بینکاری کی حقیقت؟'' حافظ ذوالفقار ﷾ (شیخ الحدیث ابوہریرہ اکیڈمی ،لاہور)کا تالیف شدہ ہے۔ جس میں انہوں نے موجودہ اسلامی بینکوں کےطریقہ کار اور ان میں رائج مالی معاملات کا شرعی اصولوں کی روشنی میں منصفانہ جائزہ لے کر دینی نقطہ نظر واضح کرنے کی کوشش کی ہے ۔موصوف حافظ صاحب کی اسلامی معیشت کے حوالے مزید دو کتابیں بھی طبع ہوچکی ہیں اور کتاب وسنت ویب سائٹ پر موجود ہیں ۔ اللہ تعالی موصوف کے علم وعمل اور زورِ قلم میں برکت فرمائے اور ان کی مساعی جمیل...
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات اور دستور زندگی ہے ،جس نے عبادت،سیاست ،عدالت اور تجارت سمیت زندگی کے ہر شعبہ سے متعلق مکمل تعلیمات فراہم کی ہیں۔ایک مسلمان آدمی کے لئے شرعا واجب اور ضروری ہے کہ وہ رزق حلال کمائے اور رزق حرام سے بچنے کی کوشش کرے۔رزق حلال کا حصول تب ہی ممکن ہو سکتاہے جب انسان شریعت کے بتلائے ہوئے طریقوں کے مطابق اسے حاصل کرے۔حصول رزق کے منجملہ ذرائع میں سے ایک اہم ترین اور بہت بڑا ذریعہ تجارت ہے ۔اور اگر تجارت حلال طریقے سے ہوگی تو اس سے حاصل ہونے والا نفع بھی حلال اور پاکیزہ ہوگا ۔اوراگر تجارت غیر شرعی اور ممنوع طریقے سے ہوگی تو اس سے حاصل ہونے والا نفع بھی حرام ہو گا۔اسلام نے تجارت کے جائز وناجائز تمام طریقوں کو تفصیل سے بیان کردیا ہے ۔لیکن ایک مسلمان اسی وقت ہی حرام طریقوں سے بچ سکتا ہے ،جب اسے حرام طریقوں کا علم ہوگا۔زیر تبصرہ کتاب (اسلامی تجارت)فضیلۃ الشیخ ابو نعمان بشیر احمد کی تصنیف ہے،جس میں انہوں نے اسلامی تجارت کو بنیاد بناتے ہوئے تجارت کی تمام حلال وحرام صورتوں کو تفصیل سے بیان کر دیا ہے ،تاکہ ہر مسلمان شریعت کے مطابق تجارت کرے اور رزق...
یکم مئی کا دن دنیا بھر کے مزدوروں کے اتحاد اور یکجہتی کا دن ہےجس دن دنیا بھر کے لاکھوں کروڑوں مزدور محنت کش 1886ءمیں شکاگو میں شہید ہونے والے مزدوروں کو ان کی عظیم جدوجہد اورقربانی دینے کیلئے خراج عقیدت پیش کرتے ہیں ۔اسلام نے ہمیں زندگی کے تمام شعبوں کے بارے میں راہنمائی فراہم کی ہے۔عبادات ہوں یا معاملات،تجارت ہو یا سیاست،عدالت ہو یا قیادت ، طب ہو یا انجینئرنگ ،اسلام نے ان تمام امور کے بارے میں مکمل تعلیمات فراہم کی ہیں۔اسلام کی یہی عالمگیریت اور روشن تعلیمات ہیں کہ جن کے سبب اسلام دنیا میں اس تیزی سے پھیلا کہ دنیا کی دوسرا کوئی بھی مذہب اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا ہے۔اسلامی تعلیمات نہ صرف آخرت کی میں چین وسکون کی راہیں کھولتی ہیں ،بلکہ اس دنیوی زندگی میں اطمینان ،سکون اور ترقی کی ضامن ہیں۔اسلام کی اس بے پناہ مقبولیت کا ایک سبب مساوات ہے ،جس سے صدیوں سے درماندہ لوگوں کو نئی زندگی ملی اور وہ مظلوم طبقہ جو ظالموں کے رحم وکرم پر تھا اسے اسلام کے دامن محبت میں پناہ ملی۔اﷲ تعالیٰ نے محنت کی عظمت اور مزدوروں کے حقوق بیان فرمائے اور اس کے آخری رسول ﷺ ان احکامات خد...
اسلامی نظامِ معیشت کے ڈھانچے کی تشکیل نو کا کام بیسویں صدی کے تقریبا نصف سے شروع ہوا ۔ چند دہائیوں کی علمی کاوش کے بعد 1970ءکی دہائی میں اس کے عملی اطلاق کی کوششوں کا آغاز ہوا نہ صرف نت نئے مالیاتی وثائق ،ادارے اور منڈیاں وجود میں آنا شروع ہوئیں بلکہ بڑے بڑے عالمی مالیاتی اداروں نے غیر سودی بنیادوں پرکاروبار شروع کیے۔بیسوی صدی کے اختتام تک اسلامی بینکاری ومالکاری نظام کا چرچا پورے عالم میں پھیل گیا ۔اسلامی مالیات اور کاروبار کے بنیادی اصول قرآن وسنت میں بیان کردیے گئے ہیں۔ اور قرآن وحدیث کی روشنی میں علمائے امت نے اجتماعی کاوشوں سے جو حل تجویز کیے ہیں وہ سب کے لیے قابل قبول ہونے چاہئیں۔کیونکہ قرآن کریم اور سنت رسول ﷺ کے بنیادی مآخذ کو مدنظر رکھتے ہوئے معاملات میں اختلافی مسائل کےحوالے سےے علماء وفقہاء کی اجتماعی سوچ ہی جدید دور کے نت نئے مسائل سے عہدہ برآہونے کے لیے ایک کامیاب کلید فراہم کرسکتی ہے ۔زیر نظر کتاب ’’اسلامی مالیات...
اسلامی معاشیات ایک ایسا مضمون ہے جس میں معاشیات کے اصولوں اور نظریات کا اسلامی نقطہ نظر سے مطالعہ کیا جاتا ہے۔ اس میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ ایک اسلامی معاشرہ میں معیشت کس طرح چل سکتی ہے۔ موجودہ زمانے میں اس مضمون کے بنیادی موضوعات میں یہ بات شامل ہے کہ موجودہ معاشی قوتوں اور اداروں کو اسلامی اصولوں کے مطابق کس طرح چلایا جا سکتا ہے مثلاً بینکاری کو اسلامی بنیادوں میں کیسے ڈھالا جاسکتا ہے یا موجودہ نظامِ سود کو کیسے تبدیل کیا جائے جس سے سود کے بغیر ادارے، کاروبار اور معیشت چلتی رہے۔ اسلامی معیشت کے بنیادی ستونوں میں زکوٰۃ، خمس، جزیہ وغیرہ شامل ہیں۔ اس میں یہ تصور بھی موجود ہے کہ اگر صارف (Consumer) یا پیداکار(Producer) اسلامی ذہن رکھتے ہوں تو ان کا بنیادی مقصد صرف اس دنیا میں منافع کمانا نہیں ہوگا بلکہ وہ اپنے فیصلوں اور رویوں میں آخرت کو بھی مدنظر رکھیں گے۔ اس سے صارف اور پیداکار کا رویہ ایک مادی مغربی معاشرہ کے رویوں سے مختلف ہوگا اور م...
اسلامی معاشیات ایک ایسا مضمون ہے جس میں معاشیات کے اصولوں اور نظریات کا اسلامی نقطہ نظر سے مطالعہ کیا جاتا ہے۔ موجودہ زمانے میں اس مضمون کے بنیادی موضوعات میں یہ بات شامل ہے کہ موجودہ معاشی قوتوں اور اداروں کو اسلامی اصولوں کے مطابق کس طرح چلایا جا سکتا ہے ۔ اسلامی معیشت کے بنیادی ستونوں میں زکوٰۃ، خمس، جزیہ وغیرہ شامل ہیں۔ اسلامی مالیات اور کاروبار کے بنیادی اصول قرآن وسنت میں بیان کردیے گئے ہیں۔ اور قرآن وحدیث کی روشنی میں علمائے امت نے اجتماعی کاوشوں سے جو حل تجویز کیے ہیں وہ سب کے لیے قابل قبول ہونے چاہئیں۔کیونکہ قرآن کریم اور سنت رسول ﷺ کے بنیادی مآخذ کو مدنظر رکھتے ہوئے معاملات میں اختلافی مسائل کےحوالے سے علماء وفقہاء کی اجتماعی سوچ ہی جدید دور کے نت نئے مسائل سے عہدہ برآہونے کے لیے ایک کامیاب کلید فراہم کرسکتی ہے ۔ زیرنظر کتاب’’اسلامی معاشیات ‘‘سید مناظر احسن گیلانی کی تصنیف ہے جوکہ دو ابواب پر مشتمل ہے۔یہ کتاب اسلام کے معاشی...
اسلام کی بنیادی تعلیمات کا مقصد انسان کی دنیوی اور اخروی زندگی کوسکو ن اور مسرتِ دوام سے ہمکنار کرنا ہے ۔اسلامی تعلیمات کے مطابق اشیائے ضرورت صرف اس حد تک اختیار کرنی چاہییں کہ جہاں پہنچ کر انسان خروی زندگی کی فلاح کے مقصد سے غفلت کاشکار نہ ہو۔جس موڑ پر آکر اشیائے ضرورت انسان کو اپنے پنجے میں جکڑ کر فرائض سے غافل کردیں ان سے رُک جانا بہتر ہے ۔اشیائے ضرورت کی اہمیت اگر ہے تو اتنی ہی کہ جتنی ہمیں ہمارے نبی اکر م ﷺ کی حیات طیبہ سے ملتی ہے جس کے نقوش صحابہ کرام ؓ اجمعین کے گھروں اوررہن سہن میں ملتے ہیں۔انہی کی مختصر جھلک محترمہ ام عبد منیب صاحبہ نے کتابچہ ہذا میں پیش کی ہے۔اس کتاب کے تمام مندرجات کاتعلق حلال وحرام یا جائز وناجائز کے نقطۂ نظر سے نہیں بلکہ اسے دنیاوی ساز وسامان کے بے لگام رجحان کوصحیح رخ دینے کےلیے لکھا گیا ہے۔لہذا اسے اسی خیال سے پڑھا اور سمجھا جائے۔حقیقت یہی ہے کہ موت کے بعد...
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات اور دستور زندگی ہے،جس میں تجارت سمیت زندگی کے تمام شعبوں کے حوالے سے مکمل راہنمائی موجود ہے۔ اسلام تجارت کے ان طور طریقوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے ،جس میں بائع اور مشتری دونوں میں سے کسی کو بھی دھوکہ نہ ہو ،اور ایسے طریقوں سے منع کرتا ہے جن میں کسی کے دھوکہ ،فریب یا فراڈ ہونے کا اندیشہ ہو۔ یہی وجہ ہے اسلام نے تجارت کے جن جن طریقوں سے منع کیا ہے، ان میں خسارہ، دھوکہ اور فراڈ کا خدشہ پایا جاتا ہے۔ اسلام کے یہ عظیم الشان تجارتی اصول درحقیقت ہمارے ہی فائدے کے لئے وضع کئے گئے ہیں۔سود کو عربی زبان میں ”ربا“ کہتے ہیں، جس کا لغوی معنی زیادہ ہونا، پروان چڑھنا ، او ر بلندی کی طرف جانا ہے ۔ اور شرعی اصطلاح میں ربا (سود) کی تعریف یہ ہے کہ: ” کسی کو اس شرط کے ساتھ رقم ادھار دینا کہ واپسی کے وقت وہ کچھ رقم زیادہ لے گا “۔سودخواہ کسی غریب ونادار سے لیاجائے یا کسی امیر اور سرمایہ دار سے، یہ ایک ایسی لعنت ہے جس سے نہ صرف معاشی استحصال، مفت خوری، حرص وطمع، خود غرضی، شقاوت وسنگدلی، مفاد پرستی، زر پرستی اور بخل جیسی...
سرمایہ دارانہ نظامایک معاشی و معاشرتی نظام ہے جس میں سرمایہ بطور عاملِ پیدائش نجی شعبہ کے اختیار میں ہوتا ہے۔ یعنی دوسرے الفاظ میں کرنسی چھاپنے کا اختیار حکومت کی بجائے کسی پرائیوٹ بینک کے اختیار میں ہوتا ہے۔اشتراکی نظام کے برعکس سرمایہ دارانہ نظام میں نجی شعبہ کی ترقی معکوس نہیں ہوتی بلکہ سرمایہ داروں کی ملکیت میں سرمایہ کا ارتکاز ہوتا ہے اور امیر امیر تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس میں منڈی آزاد ہوتی ہے اس لیے اسے آزاد منڈی کا نظام بھی کہا جاتا ہے۔ اگرچہ آج کل کہیں بھی منڈی مکمل طور پر آزاد نہیں ہوتی مگر نظریاتی طور پر ایک سرمایہ دارانہ نظام میں منڈی مکمل طور پر آزاد ہوگی۔ جملہ حقوق، منافع خوری اور نجی ملکیت اس نظام کی وہ خصوصیات ہیں جس سے سرمایہ دارانہ نظام کے مخالفین کے مطابق غریبوں کا خون چوسا جاتا ہے۔ جدید دانشوروں کے مطابق آج سرمایہ دارانہ نظام اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہا ہے اور ایک متبادل نظام کی آوازیں شدت سے اٹھنا شروع ہو گئیں ہیں۔مختصراًسرمایہ دارانہ نظام یہ کہتا ہے کہ ذاتی منافع کے لئے اور ذاتی دولت و جائیداداور پیداواری وسائل رکھنے میں ہر شخ...
سود کو عربی زبان میں ”ربا“کہتے ہیں، جس کا لغوی معنیٰ زیادہ ہونا، پروان چڑھنا، او ر بلندی کی طرف جانا ہے ۔ اور شرعی اصطلاح میں ربا (سود) کی تعریف یہ ہے کہ: ” کسی کو اس شرط کے ساتھ رقم ادھار دینا کہ واپسی کے وقت وہ کچھ رقم زیادہ لے گا “۔سرمایہ دارانہ نظام زندگی کے مختلف شعبوں میں جو بگاڑ پیدا کیا ہے اس کا سب سے بڑا سبب سود ہے۔ ہماری معاشی زندگی میں سود کچھ اس طرح رچا بسا دیاگیا ہے کہ لوگ اس کو معاشی نظام کا ایک لازمی عنصر سجھنے لگے ہیں اور اس کےبغیر کسی معاشی سرگرمی کو ناممکن سمجھتے ہیں وجہ یہ ہے کہ اب وہ امت مسلمہ جس کو اللہ تعالیٰ نےاپنی کتاب میں سود مٹانے کے لیے مامور کیا تھا جس کو سودخوروں سےاعلان جنگ کرنے کا حکم دیا تھا۔ اب اپنی ہر معاشی اسکیم میں سود کوبنیاد بناکر سودخوری کے بڑے بڑے ادارے قائم کررکھے ہیں اور سودی نظام کو استحکام بخشا جار ہا ہے ۔جس کے نتیجے میں امت مسلمہ کو معاشی اور اقتصادی تباہ کاریوں کا سامنا بھی کرنا پڑھ رہا ہے۔ سودخواہ کسی غریب ونادار سے لیاجائے یا کسی امیر اور سرمایہ دار سے، یہ ایک ایسی لعنت ہے...
سود کو عربی زبان میں ”ربا“کہتے ہیں ،جس کا لغوی معنی زیادہ ہونا ، پروان چڑھنا ، او ر بلندی کی طرف جانا ہے ۔ اور شرعی اصطلاح میں ربا (سود) کی تعریف یہ ہے کہ : ” کسی کو اس شرط کے ساتھ رقم ادھار دینا کہ واپسی کے وقت وہ کچھ رقم زیادہ لے گا “۔سودخواہ کسی غریب ونادار سے لیاجائے یا کسی امیر اور سرمایہ دار سے ، یہ ایک ایسی لعنت ہے جس سے نہ صرف معاشی استحصال، مفت خوری ، حرص وطمع، خود غرضی ، شقاوت وسنگدلی، مفاد پرستی ، زر پرستی اور بخل جیسی اخلاقی قباحتیں جنم لیتی ہیں بلکہ معاشی اور اقتصادی تباہ کاریوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے، اس لیے دین اسلام اسے کسی صورت برداشت نہیں کرتا۔ شریعت اسلامیہ نے نہ صرف اسے قطعی حرام قرار دیاہے بلکہ اسے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ قرار دیاہے ۔اللہ تعالی فرماتے ہیں۔" جولوگ سود کھاتے ہیں وہ یوں کھڑے ہوں گے جیسے شیطان نے کسی شخص کو چھو کر مخبوط الحواس بنا دیا ہو ۔اس کی وجہ ان کا یہ قول ہے کہ تجارت بھی تو آخر سود کی طرح ہے، حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال قرار دیا ہے اور سود کو حرام۔ اب جس شخص کو اس کے رب کی ط...
سرمایہ دارانہ نظام ایک معاشی و معاشرتی نظام ہے جس میں سرمایہ بطور عاملِ پیدائش نجی شعبہ کے اختیار میں ہوتا ہے۔ یعنی دوسرے الفاظ میں کرنسی چھاپنے کا اختیار حکومت کی بجائے کسی پرائیوٹ بینک کے اختیار میں ہوتا ہے۔اشتراکی نظام کے برعکس سرمایہ دارانہ نظام میں نجی شعبہ کی ترقی معکوس نہیں ہوتی بلکہ سرمایہ داروں کی ملکیت میں سرمایہ کا ارتکاز ہوتا ہے اور امیر امیر تر ہوتا چلا جاتا ہے۔زیر نظر کتاب’’انقلابی عمل:ایک اسلامی تجزیہ ‘‘ جناب امین اشعر ، مولانا سید محمد محبوب الحسن بخاری اورخالد جامعی کی مشترکہ کاوش ہے ۔ مرتبین نے اس کتاب کو4؍ ابواب میں تقسیم کیا ہے ۔جن کے عنوانات حسب ذیل ہیں ۔ باب اول لبرل سرمایہ دار انقلاب، باب دو م :اشتراکی سرمادارنہ انقلاب، باب سوم :سرمایہ دارانہ قوم پرست انقلاب، باب چہ...
جب سے مہذب انسانی معاشرہ وجود میں آیا ہےتب سے اس میں ٹیکسوں کا تصور کسی نہ کسی صورت میں موجود رہا ہے۔کہا جاتا ہے کہ یونان اور روم میں سب سے پہلے استعمال ہونے والی اشیاء پر ٹیکس لگایا گیا۔درآمدی ڈیوٹی کو اندرون ملک بننے والے مال پر وصول ہونے والی ڈیوٹی پر ترجیح دی جاتی تھی۔جنگ کے دنوں میں جائیداد پر بھی عارضی طور پر ٹیکس عائد کر دیا جاتا تھا ۔پھر اس کا دائرہ کار دیگر اشیاء تک وسیع کر دیا گیا۔چونکہ دنیا میں اسلام کے علاوہ جتنے بھی مذاہب ہیں ان میں موثر مالی نظام کا فقدان ہے۔لہذا دنیا کے غیر اسلامی ممالک کو اپنے مالی نظاموں کے لئے مروجہ نظام ٹیکس کا سہارا لینا پڑا۔جبکہ اسلام میں اس کمی کونظام زکوۃ کے ذریعےبحسن وخوبی پوراکر دیا گیا ہے۔افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ایک طرف ہم اسلام کی عظمت وکاملیت کے دعویدار ہیں تو دوسری طرف عملی طور اس کی نفی کرتے ہیں اور غیر اسلامی نظام حیات پر عمل پیرا ہو کر ثابت کرتے ہیں کہ فی زمانہ اسلامی نظام قابل عمل نہیں ہے۔ زیر تبصرہ کتاب " انکم ٹیکس کی شرعی حیثیت، علمی وتحقیقی مقالہ " محترم مولانا فضل الرحمن بن میاں محمد صا...
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات اور دستور زندگی ہے،جس میں تجارت سمیت زندگی کے تمام شعبوں کے حوالے سے مکمل راہنمائی موجود ہے۔اسلام تجارت کے ان طور طریقوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے ،جس میں بائع اور مشتری دونوں میں سے کسی کو بھی دھوکہ نہ ہو ،اور ایسے طریقوں سے منع کرتا ہے جن میں کسی کے دھوکہ ،فریب یا فراڈ ہونے کا اندیشہ ہو۔یہی وجہ ہے اسلام نے تجارت کے جن جن طریقوں سے منع کیا ہے ،ان میں خسارہ ،دھوکہ اور فراڈ کا خدشہ پایا جاتا ہے۔اسلام کے یہ عظیم الشان تجارتی اصول درحقیقت ہمارے ہی فائدے کے لئے وضع کئے گئے ہیں۔سود کو عربی زبان میں ”ربا“کہتے ہیں ،جس کا لغوی معنی زیادہ ہونا ، پروان چڑھنا ، او ر بلندی کی طرف جانا ہے ۔ اور شرعی اصطلاح میں ربا (سود) کی تعریف یہ ہے کہ : ” کسی کو اس شرط کے ساتھ رقم ادھار دینا کہ واپسی کے وقت وہ کچھ رقم زیادہ لے گا “۔سودخواہ کسی غریب ونادار سے لیاجائے یا کسی امیر اور سرمایہ دار سے ، یہ ایک ایسی لعنت ہے جس سے نہ صرف معاشی استحصال، مفت خوری ، حرص وطمع، خود غرضی ، شقاوت وسنگدلی، مفاد پرستی ، زر پرستی اور بخل جیس...
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات اور دستور زندگی ہے،جس میں تجارت سمیت زندگی کے تمام شعبوں کے حوالے سے مکمل رہنمائی موجود ہے۔اسلام تجارت کے ان طور طریقوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے ،جس میں بائع اور مشتری دونوں میں سے کسی کو بھی دھوکہ نہ ہو ،اور ایسے طریقوں سے منع کرتا ہے جن میں کسی کے دھوکہ ،فریب یا فراڈ ہونے کا اندیشہ ہو۔یہی وجہ ہے اسلام نے تجارت کے جن جن طریقوں سے منع کیا ہے ،ان میں خسارہ ،دھوکہ اور فراڈ کا خدشہ پایا جاتا ہے۔اسلام کے یہ عظیم الشان تجارتی اصول درحقیقت ہمارے ہی فائدے کے لئے وضع کئے گئے ہیں۔دین اسلام نے سود کو حرام قرار دیا ہے اور تمام مسلمانوں کا اس کی حرمت پر اتفاق ہے۔لیکن افسوس کہ اس وقت پاکستان میں موجود تمام بینک سودی کاروبار چلا رہے ہیں۔حتی کہ وہ بینک جو اپنے آپ کو اسلامی کہلاتے ہیں وہ بھی سود کی آلائشوں سے محفوظ نہیں ہیں۔اس وقت بینکوں کی جانب سے متعدد انواع کے کارڈ جاری کئے جاتے ہیں ، جن میں سے اکثر سودی ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب" بینک سے جاری ہونے والے مختلف کارڈ کے شرعی احکام "اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کی جانب سے شائع کی گئی ہے...
اسلام جس طرح عبادات کے بات میں ہدایات دیناہے اسی طرح معاملات میں بھی مکمل رہنمائی فراہم کرتا ہے معاملات میں معیشت وتجارت کامسئلہ بہت اہم ہے میدان معیشت میں فی زمانہ ایسی بہت سی جدید صورتیں پیدا ہوچکی ہیں جو اس سے پہلے نہ تھی انہی میں ایک مسئلہ بینکنگ کاہے علماء نے اس طرف بھی توجہ کی ہے اور اسلامک بینکنگ کے کامیات تجربے بھی کیے گئے ہیں اگرچہ بعض اہل علم کو اس پر تحفظات ہیں بینکاری میں ایک اہم مسئلہ سود کا ہے کیونکہ غیراسلامی بینکاری کی اساس ہی سود پرقائم ہے جبکہ اسلام میں یہ انتہائی شدید گناہ ہے حتی کہ اسے خدا اور رسول ﷺ سے جنگ کے مترادف قراردیاگیاہے لیکن اس درجہ شناعت کے باوجود بعض لوگ مروجہ بینکوں کے سود کو جائز قرار دینے پر تلے ہوئے ہیں زیر نظر کتاب میں اس کا مفصل رد کیا گیاہے نیز جدید بینکاری کے حوالے سے بھی پیش قیمت او رمفید معلومات اس میں شامل ہیں جس سے بینکنگ کے متعلق شرعی معلومات سے آگاہی حاصل ہوتی ہے-
عقائد وعبادت کی طرح معاملات بھی دین کا ایک اہم شعبہ ہے ، جس طرح عقائد اور عبادات کے بارے میں جزئیات واحکام بیان کیے گئے ہیں ،اسی طرح شریعت اسلامی نے معاملات کی تفصیلات بھی بیان کرنے کا اہتمام کیاہے ، حلال وحرام،مکروہ اور غیر مکروہ ، جائز اور طیب مال کے مکمل احکام قرآن وحدیث میں موجود ہیں اور شریعت کی دیگر جزئیات کی طرح اس میں بھی مکمل رہنمائی کی گئی ہے ، جولوگ نماز اور روزہ کا اہتمام کرتے ہیں مگر صفائی معاملات اور جائز وناجائز کی فکر نہیں کرتے ، وہ کبھی اللہ کے مقرب نہیں ہوسکتے۔تجارت کسب معاش کا بہترین طریقہ ہے ، اسے اگر جائز اور شرعی اصول کے مطابق انجام دیاجائے تو دنیوی اعتبارسے یہ تجارت نفع بخش ہوگی اور اخروی اعتبار سے بھی یہ بڑے اونچے مقام اور انتہائی اجروثواب کا موجب ہوگی ، تجارت ؍کا روبار اگر اسلامی اصول کی روشنی میں کیاجائے تو ایسی تجارت کی بڑی فضیلت آئی ہے اور ایسے افراد کو انبیاء وصلحاء کی معیت کی خو شخبری دی گئی ہے ۔ زیر تبصرہ کتاب ’’تجارت کے اسلامی اصول وضوابط‘‘پروفیسر ڈاکٹر نور محمد غفاری‘‘ (سابق استاذ انٹرنیشنل یونیورسٹی ،اسلام آ...