شریعتِ اسلامیہ میں دعا کو اایک خاص مقام حاصل ہے ۔او رتمام شرائع ومذاہب میں بھی دعا کا تصور موجود رہا ہے مگر موجود ہ شریعت میں اسے مستقل عبادت کادرجہ حاصل ہے ۔صرف دعا ہی میں ایسی قوت ہے کہ جو تقدیر کو بدل سکتی ہے ۔دعا ایک ایسی عبادت ہے جو انسا ن ہر لمحہ کرسکتا ہے اور اپنے خالق ومالق اللہ رب العزت سے اپنی حاجات پوری کرواسکتا ہے۔مگر یہ یاد رہے انسان کی دعا اسے تب ہی فائدہ دیتی ہے جب وہ دعا کرتے وقت دعا کےآداب وشرائط کوبھی ملحوظ رکھے۔ بہت سارے اہل علم نے قرآن وحدیث سے مسنون ادعیہ پر مشتمل بڑی وچھوٹی کئی کتب تالیف کی ہیں تاکہ قارئین ان سے اٹھاتے ہوئے اپنے مالک حقیقی سے تعلق مضبوط کرسکیں۔ زیر تبصرہ کتاب ’’منتخب دعائیں‘‘ شیخ محمد بن عبدالعزیز المسند کامرتب کردہ دعاؤں کامجموعہ ہے ۔ یہ مجموعہ شیخ موصوف نے ائمہ مساجد اور دیگر حضرات کے لیے جمع کیا ہے ۔تاکہ وہ رمضان وغیر رمضان ، سجدوں ،نماز وتر میں اور ختم قرآن کےموقعہ پر ان ادعیہ مبارکہ سے استفادہ کرسکیں۔(م۔ا)
سحری اور افطاری یہ دونوں کھانے روزے جیسی اہم عبادت کالازمی جزو ہیں۔شریعت نے روزے کے ساتھ یہ دوکھانے مقرر کر کے یہ باور کرا دیا کہ راہبوں اور جوگیوں کایہ خیال کہ جتنا زیادہ طویل فاقہ کیا جائے اتنا ہی زیادہ نفس پاک ہوتا ہے یہ قطعی غلط ہے۔سحری کا وقت طلوع فجر سے قبل فجر کی اذان ہونے تک ہے ۔ جان بوجھ کر سحری ترک کرنا رسول اللہ ﷺ کی نافرمانی ہے۔اور افطاری روزہ ختم ہونے کی علامت ہے ۔چاہے ایک گھونٹ پانی یا ایک رمق برابر کھانے کی چیز ہی سے افطار کیا جائے ۔افطاری کا وقت سورج غروب ہونے پر ہے ۔جیسے کہ حدیث نبوی ہے ’’ جب رات آجائے دن چلا جائے اور سورج غروب ہوجائے تو روزہ دار روزہ افطار کرلے ‘‘(صحیح بخاری)اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا:’’ جب تک لوگ روزہ افطار کرنے میں جلدی کرتے رہے ہیں گے ۔ تب تک یہ دین غالب رہے گا کیوں کہ یہود اور نصاریٰ افطار کرنے میں تاخیر کرتےہیں‘‘۔(سنن ابوداؤد) زیر تبصرہ کتابچہ’’ سحری ،افطاری اور افطاریاں‘‘ محترمہ ام عبد منیب صاحبہ کا ہے جس میں انہوں نے سحری کی اہمیت وضرورت اور اس ک...
اللہ تعالیٰ نے ہر مسلمان کے دوسرے مسلمان پر کچھ حقوق رکھے ہیں جن کو ادا کرنا اخلاقی اور شرعی فرض بنتا ہے اور انہیں حقوق العباد کا درجہ حاصل ہے۔ان حقوق میں سے ایک حق یہ ہے کہ جب کوئی مسلمان بھائی فوت ہو جائے تو اس کی نمازہ جنازہ ادا کی جائے اور یہ نمازہ جنازہ حقیقت میں اس جانے والے کے لیے دعا ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی اگلی منزل کو آسان فرمائےاس لیے کثرت سے دعائیں کرنی چاہیں۔لیکن بدقسمتی سے عوام الناس میں اکثر لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کو جنازے کے مسائل تو دور کی بات جنازہ میں پڑھی جانے والی دعائیں بھی یاد نہیں ہوتیں جس وجہ سے وہ اپنے جانے والے عزیز کے لیے دعا بھی نہیں کر سکتے۔جبکہ اس کے مقابلے میں بعد میں مختلف بدعات کو اختیار کر کے مرنے والے کے ساتھ حسن سلوک کا رویہ ظاہر کرنا چاہتے ہوتے ہیں جو کہ درست نہیں اورشریعت کےخلاف ہے۔ زیر نظر کتاب’’سفر آخرت ‘‘مفتی عبید اللہ خان عفیف حفظہ اللہ کی تصنیف ہے ۔انہوں نےاس کتاب میں میت اور جنازہ سے متعلق اسلامی احکام ومسائل اور اس موقع پر کی جانے والی رسوم وبدعات کو صراح...
سفر انسانی زندگی کا ایک حصہ ہے،جس کے بغیر کوئی بھی اہم مقصد حاصل نہیں ہو سکتا ہے۔انسان متعدد مقاصد کے تحت سفر کرتا ہے اور دنیا میں گھوم پھر کر اپنے مطلوبہ فوائد حاصل کرتا ہے۔اسلام دین فطرت ہے جس نے ان انسانی ضرورتوں اور سفر کی مشقتوں کو سامنے رکھتے ہوئے بعض رخصتیں اور گنجائشیں دی ہیں۔مثلا مسافر کو حالت سفر میں روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے ،جس کی بعد میں وہ قضاء کر لے گا۔اسی طرح مسافر کو نماز قصر ونماز جمع پڑھنے کی رخصت دی گئی ہے کہ وہ چار رکعت والی نماز کو دو رکعت کر کے اور دو دو نمازوں کو جمع کر کے پڑھ سکتا ہے۔اسی طرح سفر کے اور بھی متعدد احکام ہیں جو مختلف کتب فقہ میں بکھرے پڑے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب " سفر اور سواری پر نماز "معروف مبلغہ داعیہ،مصلحہ،مصنفہ کتب کثیرہ اور کالم نگار محترمہ ام عبد منیب صاحبہ کی تصنیف ہے ۔ جس میں انہوں نے سفر کے انہی احکام کو بیان کیا ہے کہ نماز قصر کب ہو گی اور کتنے دنوں تک ہو گی اور کیا سواری پر نماز ادا کی جاسکتی ہے یا نہیں کی جا سکتی ہے۔محترم محمد مسع...
اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو دین عطا کیا ہے، یہ محض رسوم عبادت یا چند اخلاقی نصائح کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ یہ زندگی کے تمام پہلوؤں میں رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اس دین کو ماننے والوں کے لئے صرف یہی ضروری نہیں کہ وہ اس دین کو نظریاتی طور پر مان لیں بلکہ ا س کا عملی زندگی میں اطلاق بھی ان کی ذمہ داری ہے۔دین کا عملی زندگی میں اطلاق صرف یہی تقاضانہیں کرتا کہ اس پر خود عمل کیا جائے بلکہ یہ بات بھی دین کے تقاضے میں شامل ہے کہ اس دین کو دوسروں تک پہنچایا بھی جائے اور ایک دوسرے کی اصلاح کی جائے۔ جہاں کہیں بھی کوئی شرعی یا اخلاقی خرابی نظر آئے، ا س کی اصلاح کرنے کی کوشش کی جائے۔دنیا کا کوئی بھی کام احسن انداز میں کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اس کام میں پہلے اچھی طرح مہارت حاصل کی جائے اور پھر اس کی مناسب منصوبہ بندی کرکے اس پر عمل درآمد کیا جائے۔ جو لوگ اللہ کے دین کی دعوت کا کام سوچ سمجھ کر کرنا چاہتے ہوں ، ان کے لئے بھی یہ ضروری ہے کہ وہ خود میں وہ صلاحیتیں پیدا کریں جو دعوت دین کے لئے ضروری ہیں اور پھر اس کام کو مناسب حکمت عملی اور منصوبہ بندی سے انجام دیں۔ زیر تبصرہ کتاب &quo...
ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ دعوت و تبلیع اور اشاعتِ دین کا کام اسی طرح انتہائی محنت اور جان فشانی سے کرے جس طرح خود خاتم النبیین ﷺ اور آپ کے خلفائے راشدین اور تمام صحابہ کرام کرتے رہے ہیں ۔ مگر آج مسلمانوں کی عام حالت یہ ہے کہ اسلام کی دعوت و تبلیغ تو بہت دور کی بات ہے وہ اسلامی احکام پر عمل پیرا ہونے بلکہ اسلامی احکام کا علم حاصل کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہوتے ۔ علما و فضلا اور واعظین و مبلغین پر مزید ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ فریضہ دعوت کو دینی و شرعی ذمہ داری سمجھیں اور دعوت دین کے کام کو مزید عمدہ طریقے سے سرانجام دیں۔ زیر نظر کتاب ’’سلفی دعوت کے اصول ‘‘ فضیلۃ الشیخ عبد السلام بن برجس آل عبد الکریم کے ایک لیکچر کی کتابی صورت ہے شیخ موصوف نے اس میں اس بات کو واضح کیا ہے کہ جو دعوت الی اللہ جسے ہم سلفی دعوت کہتے ہیں وہ دیگر تمام بدعتی دعوتوں سے کچھ اصولوں میں جدا اور ممتاز ہے اور اسے اپنے انہی اصولوں کی بنا پر دوسرے ان فرقوں سے جداگانہ حیثیت حاصل ہے جو صراط مستقیم سے بھٹکی ہوئی ہیں۔ (م۔ا)
عظیم آباد پٹنہ میں پیدا ہوئے ۔ ان کا شمار سید نذیر حسین محدث دہلوی اور شیخ حسین بن محسن یمانی کے خاص تلامذہ میں ہوتا ہے۔ ان کی شروحاتِ حدیث سے پورے عالم اسلام نے استفادہ کیا اور حدیث کا کوئی طالب علم ان کی خدمات سے مستغنی نہیں رہ سکتا ۔ شمس الحق عظیم آبادی پہلے عالم ہیں جنہوں نے حدیث کی مشہور عام کتاب ’’ سنن دارقطنی ‘‘ کو پہلی مرتبہ تدوین نو اور اپنی شرح کے ساتھ شائع کیا۔ ان کی مشہور تصانیف میں ’’ غایۃ المقصود شرح سنن ابی دادو ‘‘ ، ’’ عون المعبود علی سنن ابی داود ‘‘ ، ’’ التعلیق المغنی شرح سنن الدارقطنی ‘‘ ، ’’ رفع الالتباس عن بعض الناس ‘‘ ، ’’ اعلام اھل العصر باحکام رکعتی الفجر ‘‘ وغیرہ شامل ہیں ۔ زیرت تبصرہ کتاب’’سنت فجر کے احکام ومسائل‘‘ شیح الکل فی الکل سید نذیر حسین محدث دہلوی کے نامور شاگرد محدث العصر مولانا شمس الحق عظیم آابادی کی عربی تصنیف’’ اعلام اھل ال...
یہ کتاب دراصل محدث نبیل علامہ ناصر الدین البانی رحمتہ اللہ علیہ کی عربی تصنیف "آداب الزّفاف فی السّنۃ المطھّرۃ" کا اردو ترجمہ ہے۔ یہ کتاب انہوں نے اپنے ایک دوست کی شادی کے موقع پر تحریر فرمائی ہے۔ اس میں انہوں نے وقت کی قلت کے باعث فقط ان مسائل پر قلم اٹھایا ہے جو سہاگ رات سے قبل اور بعد میں پیش آمدہ ہیں۔ اسی طرح مباشرت کے آداب کا تذکرہ بھی اس کتاب کا حصہ ہے۔ ان کی یہ کوشش اس بناء پر بہت خوش آئند ہے کہ انہوں نے ایک ایسے موضوع پر قلم اٹھا کر لوگوں کیلئے کتاب و سنت کی راہنمائی مہیا کی ہے جس پر لاتعداد مخرب الاخلاق کتابچے، رسائل و جرائد اور مضامین زیر گردش ہیں۔ شیخ موصوف نے اس نازک موضوع پر ایسی پاکیزہ اور اعلٰی معلومات بہم پہنچائی ہیں جن کی بنیاد اللہ تعالٰی کا مقدس کلام اور رسول رحمت ﷺ کی زبان اطہر سے نکلے ہوئے محبوب ترین الفاظ ہیں۔ یہ کتاب اس لحاظ سے بھی انتہائی مفید ہے کہ شادی کرنے والے نوجوان اس سے مناسب رہنمائی لے سکتے ہیں کیونکہ ہمارے برصغیر میں ایسے مسائل کے متعلق سوال کرتے ہوئے عموماً لوگ جھجک محسوس کرتے ہیں۔
اسلام کی بنیاد پانچ ارکان پر ہے ان میں سے ایک حج و عمرہ ہیں۔یہ اللہ کی طرف عائد کردہ وہ فریضہ ہے جسے ہر مسلمان پر سال میں ایک بار یا زندگی میں ایک بار بشرط استطاعت ادا کرنا لازم ہے۔اس کی بہت زیادہ فضیلت ہے۔حج کی قبولیت سے گزشتہ سارے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ لیکن جس طرح باقی فرائض اسلام ادا کرنے کے لیے کچھ آداب و احکام ہیں ایسے ہی حج کے بھی ہیں۔انہی میں سے حج کے مختلف مقامات و شعائر پر ادعیہ ماثورہ پڑھنا بھی ہے۔ذیل کے کتابچے میں الفتح ٹریول والوں نے حج میں پڑھی جانے والی یہی دعائیں نقل فرمائی ہیں۔مثلا طواف کے سات چکروں ، صفاء و مروہ اور منیٰ و عرفات وغیرہ پر۔(ع۔ح)
اسلام کی بنیاد پانچ ارکان پر ہے ان میں سے ایک حج و عمرہ ہیں۔یہ اللہ کی طرف عائد کردہ وہ فریضہ ہے جسے ہر مسلمان پر سال میں ایک بار یا زندگی میں ایک بار بشرط استطاعت ادا کرنا لازم ہے۔اس کی بہت زیادہ فضیلت ہے۔حج کی قبولیت سے گزشتہ سارے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ لیکن جس طرح باقی فرائض اسلام ادا کرنے کے لیے کچھ آداب و احکام ہیں ایسے ہی حج کے بھی ہیں۔انہی میں سے حج کے مختلف مقامات و شعائر پر ادعیہ ماثورہ پڑھنا بھی ہے۔ذیل کے کتابچے میں الفتح ٹریول والوں نے حج میں پڑھی جانے والی یہی دعائیں نقل فرمائی ہیں۔مثلا طواف کے سات چکروں ، صفاء و مروہ اور منیٰ و عرفات وغیرہ پر۔(ع۔ح)
بیت اللہ کی زیارت اور فریضۂ حج کی ادائیگی ہر صاحب ایمان کی تمنا اور آرزو ہے۔ ہر صاحب استطاعت اہل ایمان کے لیے زندگی میں ایک دفعہ فریضہ حج کی ادائیگی فرض ہے ۔اجر و ثواب کے لحاظ سے یہ رکن بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ جس طرح نماز، روزہ، زکوٰۃ، اسلام کے ارکان اور فرائض ہیں اسی طرح حج دین کا بہت بڑا رکن اور رفیع الشان فریضہ ہے۔ نماز اور روزہ صرف بدنی عبادتیں ہیں، زکوٰۃ صرف مالی عبادت ہے، لیکن حج اپنے اندر بدنی اور مالی دونوں قسم کی عبادتیں سموئے ہوئے ہے۔ یعنی حاجی گھر سے چل کر مکہ مکرمہ، عرفات اور مدینہ منورہ سے ہو کر لوٹتا اور ساتھ ہی مال بھی خرچ کرتا ہے تو گویا دونوں قسم کی بدنی اور مالی عبادتوں کا شرف حاصل کرتا ہے۔ حج کرنے سے پہلے حج کے طریقۂ کار سے مکمل آگاہی ضروری ہے۔ تمام كتب حديث و فقہ میں اس کی فضیلت اور احکام و مسائل کے متعلق ابواب قائم کیے گئے ہیں اور تفصیلی مباحث موجود ہیں۔ اس موضوع پر اب تک اردو و عربی زبان میں چھوٹی بڑی بیسیوں کتب لکھی جا چکی ہیں اور ہنوز یہ سلسلہ جاری و ساری ہے ۔ زیر تبصرہ کتاب ’’سوئے حرم (حج...
بیت اللہ کی زیارت اور فریضۂ حج کی ادائیگی ہر صاحب ایمان کی تمنا اور آرزو ہے۔ ہر صاحب استطاعت اہل ایمان کے لیے زندگی میں ایک دفعہ فریضہ حج کی ادائیگی فرض ہے ۔اجر و ثواب کے لحاظ سے یہ رکن بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ جس طرح نماز، روزہ، زکوٰۃ، اسلام کے ارکان اور فرائض ہیں اسی طرح حج دین کا بہت بڑا رکن اور رفیع الشان فریضہ ہے۔ نماز اور روزہ صرف بدنی عبادتیں ہیں، زکوٰۃ صرف مالی عبادت ہے، لیکن حج اپنے اندر بدنی اور مالی دونوں قسم کی عبادتیں سموئے ہوئے ہے۔ یعنی حاجی گھر سے چل کر مکہ مکرمہ، عرفات اور مدینہ منورہ سے ہو کر لوٹتا اور ساتھ ہی مال بھی خرچ کرتا ہے تو گویا دونوں قسم کی بدنی اور مالی عبادتوں کا شرف حاصل کرتا ہے۔ حج کرنے سے پہلے حج کے طریقۂ کار سے مکمل آگاہی ضروری ہے۔ تمام كتب حديث و فقہ میں اس کی فضیلت اور احکام و مسائل کے متعلق ابواب قائم کیے گئے ہیں اور تفصیلی مباحث موجود ہیں۔ اس موضوع پر اب تک اردو و عربی زبان میں چھوٹی بڑی بیسیوں کتب لکھی جا چکی ہیں اور ہنوز یہ سلسلہ جاری و ساری ہے ۔ زیر تبصرہ کتاب ’’سوئے حرم (حج...
حج اسلام کے ارکانِ خمسہ میں اسے ایک رکن ہے ۔ بیت اللہ کی زیارت او رفریضۂ حج کی ادائیگی ہر صاحب ایمان کی تمنا اور آرزو ہے ہر صاحب استطاعت اہل ایمان کے لیے زندگی میں ایک دفعہ فریضہ حج کی ادائیگی فرض ہے اور اس کے انکار ی کا ایمان کامل نہیں ہے اور وہ دائرہ اسلام سےخارج ہے اجر وثواب کے لحاظ سے یہ رکن بہت زیادہ اہمیت کاحامل ہے۔اور جس طرح نماز ،روزہ ، زکوٰۃ ،اسلام کے ارکان اور فرائض ہیں اسی طرح حج دین کا بہت بڑا رکن اور فیع الشان فریضہ ہے نماز اور روزہ صرف بدنی عبادت ہے ۔ زکوٰۃ صرف مالی عبادت ہے ۔ لیکن حج اپنے اندر بدنی اور مالی دونوں قسم کی عبادتیں سموئے ہوئے ۔ یعنی حا جی گھر سے چل کر مکہ مکرمہ ،عرفات اورمدینہ منورہ سے ہو کر لوٹتا اور ساتھ ہی مال بھی خرچ کرتا ہے تو گویا دونوں قسم کی بدنی اور مالی عبادتوں کا شرف حاصل کرتا ہے ۔حج کرنے سے پہلے حج کے طریقۂکار سےمکمل آگاہی ضرور...
دینِ اسلام نے سود کو حرام اور کبیرہ گناہ قرار دیا ہے بلکہ سود لینے والا اللہ اور اس رسول کے خلاف اعلان جنگ کرتا ہے۔ تمام مسلمانوں کا اس کی حرمت پر اتفاق ہے۔ سود خواہ کسی غریب و نادار سے لیا جائے یا کسی امیر اور سرمایہ دار سے، یہ ایک ایسی لعنت ہے جس سے نہ صرف معاشی استحصال، مفت خوری ، حرص و طمع، خود غرضی ، شقاوت و سنگدلی، مفاد پرستی ، زر پرستی اور بخل جیسی اخلاقی قباحتیں جنم لیتی ہیں بلکہ معاشی اور اقتصادی تباہ کاریوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے، اس لیے دین ِاسلام اسے کسی صورت برداشت نہیں کرتا۔ زیر تبصرہ کتابچہ ’’سود اور ربا کے خلاف علماء کرام کی عوامی اور قانونی جدوجہد اور وفاقی شرعی عدالت کا تاریخ ساز فیصلہ‘‘وفاقی شرعی عدالت پاکستان کا سود کے خلاف وہ تاریخی فیصلہ جو وفاقی شرعی عدالت نے 14 نومبر 1991ء میں صادر کیا ۔ جناب ڈاکٹر سید اسعد گیلانی صاحب نے اس فیصلے کے لیے علماء کی طرف سے کی جانے والی جدوجہد اور کاوشوں کو پیش کیا ہے ۔اللہ تعالیٰ اس کو مرتب کرنے والے احباب اور ناشرین کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور ہماری معیشت کو سود جیسی لعنت...
سود کو عربی زبان میں ”ربا“کہتے ہیں ،جس کا لغوی معنیٰ زیادہ ہونا ، پروان چڑھنا ، او ر بلندی کی طرف جانا ہے ۔ اور شرعی اصطلاح میں ربا (سود) کی تعریف یہ ہے کہ : ” کسی کو اس شرط کے ساتھ رقم ادھار دینا کہ واپسی کے وقت وہ کچھ رقم زیادہ لے گا “۔سرمایہ دارانہ نظام زندگی کے مختلف شعبوں میں جو بگاڑ پیدا کیا ہے اس کا سب سے بڑا سبب سود ہے ۔ ہماری معاشی زندگی میں سود کچھ اس طرح رچا بسا دیاگیا ہے کہ لوگ اس کو معاشی نظام کا ایک لازمی عنصر سجھنے لگے ہیں اور اس کےبغیر کسی معاشی سرگرمی کو ناممکن سمجھتے ہیں وجہ یہ ہے کہ اب وہ امت مسلمہ جس کو اللہ تعالیٰ نےاپنی کتاب میں سود مٹانے کے لیے مامور کیا تھا جس کو سودخوروں سےاعلان جنگ کرنے کا حکم دیا تھا۔ اب اپنی ہر معاشی اسکیم میں سود کوبنیاد بناکر سودخوری کےبڑے بڑے ادارے قائم کررکھے ہیں اور سودی نظام کو استحکام بخشا جار ہا ہے ۔جس کے نتیجے میں امت مسلمہ کو معاشی اور اقتصادی تباہ کاریوں کا سامنا بھی کرنا پڑھ رہا ہے ۔ سودخواہ کسی غریب ونادار سے لیاجائے یا کسی امیر اور سرمایہ دار سے ، یہ ایک ایسی لعنت ہے جس سے ن...
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات اور دستور زندگی ہے۔اسلام نے ہمیں زندگی کے تمام شعبوں کے بارے میں راہنمائی فراہم کی ہے۔عبادات ہوں یا معاملات،تجارت ہو یا سیاست،عدالت ہو یا قیادت ،اسلام نے ان تمام امور کے بارے میں مکمل تعلیمات فراہم کی ہیں۔اسلام کی یہی عالمگیریت اور روشن تعلیمات ہیں کہ جن کے سبب اسلام دنیا میں اس تیزی سے پھیلا کہ دنیا کی دوسرا کوئی بھی مذہب اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا ہے۔اسلامی تعلیمات نہ صرف آخرت کی میں چین وسکون کی راہیں کھولتی ہیں ،بلکہ اس دنیوی زندگی میں اطمینان ،سکون اور ترقی کی ضامن ہیں۔اسلام کی اس بے پناہ مقبولیت کا ایک سبب مساوات ہے ،جس سے صدیوں سے درماندہ لوگوں کو نئی زندگی ملی اور وہ مظلوم طبقہ جو ظالموں کے رحم وکرم پر تھا اسے اسلام کے دامن محبت میں پناہ ملی۔اشیاء کی خرید وفروخت کے سلسلہ میں سونے چاندی کو بطور قیمت مقرر اور ادا کرنے کا سلسلہ قدیم زمانہ سے چلا آ رہا ہے۔عربوں کے ہاں دینار اور درہم کا رواج بھی اسی سلسلہ کی کڑی تھی۔ زیر تبصرہ کتاب" سونا چاندی کے زیورات کیسے خریدیں؟"محترم پروفیسر سعید مجتبی سعیدی صاحب کی تصنیف ہے، جس م...
شادی ایک سماجی تقریب ہے جو دنیا کے ہر مذہب ہر خطے اور ہر قوم میں جاری وساری ہے کیونکہ اس کا تعلق زندگی کی بقا اور تسلسل کے اس مخصوص عمل سے ہے جسے چھوڑ دینے سے نسلِ انسانی ہی منقطع ہوکررہ جائے گی۔اسکی اہمیت کےپیش نظر ہر قوم اور ہر مذہب نے اس کے لیے اپنے اپنے معاشرتی اور مذہبی پس منظر میں طریقے وضع کر رکھے ہیں ۔یہ طریقے بہت سی رسومات کا مجموعہ ہیں۔ان رسومات کے بعض پہلویا تو انتہائی شرم ناک ہیں یا اہل معاشرہ اور شادی کرانے والے شخص اوراس کے متعلقین کے لیے مالی اور جسمانی تکلف اور تکلیف کاباعث ہیں۔دینِ اسلام میں بھی شادی کوایک اہم معاشرتی تقریب کی حیثیت حاصل ہے ۔تقریب نکاح کاطریقہ اس قدر آسان ہونے کے باوجود ہمارے موجودہ معاشرے میں اسے ایک مشکل ترین تقریب بنادیاگیا ہے ۔بات طے کرنے سےلے کر قدم قدم پر ایسی رسومات ادا کی جاتی ہیں جن میں مال خرچ بھی ہوتا ہے اور متعلقین کوبھی بار با...
شادی کی تقریبات میں ولیمہ ایک ایسا عمل ہے جو مسنون ہے۔یعنی نبی کریم ﷺ نے اس کاحکم دیا ہے ۔اور آپ نے خودبھی اپنی شادیوں کا ولیمہ کیا ہے ۔ اس کا سب سے بڑا مقصد اللہ کا شکر ادا کرنا ہے کہ اللہ نے زندگی کےایک نہایت اہم اور نئے موڑ پر مدد فرمائی اور اسے ایک ایسا رفیق حیات اور رفیق سفر دیا جو اس کے لیے تفریح طبع اور تسکین خاطر کاباعث بھی ہوگا او رزندگی کے نشیب وفراز میں اس کاہم دم اورہم درد اور مددگار بھی۔دعوت ولیمہ جب سنت ہے دنیاوی رسم نہیں تو اسے کرنا بھی اسی طرح چاہیے جس میں اسلامی ہدایات سے انحراف نہ ہو جب کہ ہمارے ہاں اس کےبرعکس ولیمہ بھی اس طرح کیا جاتا ہے کہ وہ بھی شادی بیاہ کی دیگر رسموں کی طرح بہت سی خرابیوں کامجموعہ بن کر رہ گیا۔ زیر تبصرہ کتابچہ ’’شادی بیاہ‘‘ نامور عالم دین مفسر قران مولانا حافظ صلاح الدین یوسف﷾ کی ایک اہم تحریری کاوش ہے جس میں انہوں نےولیمہ کامسنون طریقے کو بیان کر کے غیرمسنون طریقوں کی بھی نشاندہی کی ہے اور اسی طرح شادی کے سلسلے میں ہمارے معاشرے میں پائے جانے والے بعض غیر ضروری امور اور رسومات کو بیان کیا ہے۔...
بننا سنورنا عورت کی فطرت میں داخل ہے،اور اس کے لئے یہ کام ہر معاشرے میں جائز سمجھا گیا ہے۔لیکن مصیبت یہ ہے کہ بننے سنورنے کے ساتھ ہی عورت میں یہ خواہش شدت سے انگڑائیاں لینے لگتی ہے کہ کوئی دوسرا شخص اس کے بننے سنورنے کو دیکھے اور پھر اس کے سراپے حسن ،لباس اور زیور وغیرہ کی تعریف بھی کرے۔عورت کی اس فطری خواہش کو اللہ تعالی نے اس طرح لگام دی ہے کہ ہر شادی شدہ عورت کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنے شوہر کے بن سنور کر رہے ،تاکہ شوہر اس کے حسن ونزاکت سے لطف اندوز ہو ،اس کو دیکھ کر مسرور ہو اور اس کے دل میں بیوی کی محبت دو چند ہو جائے۔ زیر تبصرہ کتاب " شادی ،شوہر اور سنگھار"معروف مبلغہ داعیہ،مصلحہ،مصنفہ کتب کثیرہ اور کالم نگار محترمہ ام عبد منیب صاحبہ کی تصنیف ہے ۔ جس میں انہوں نےعورت کے لئے بننے سنورنے کی حدود وقیود اور شرعی پردے کی اہمیت وضرورت پر گفتگو کی ہے ۔اللہ نے ان کو بڑا رواں قلم عطا کیا تھا،انہوں نے سو کے قریب چھوٹی بڑی اصلاحی کتب تصنیف فرمائی ہیں۔ محترمہ ام عبد منیب صاحبہ محمد مسعود عبدہ کی اہلیہ ہیں ۔ موصوف تقریبا 23 سال قبل جامعہ لاہو...
ہمارا معاشرہ اسلامی ہونے کے باوجود غیر اسلامی رسوم ورواج میں بری طرح جکڑچکا ہے،اور ہندو تہذیب کے ساتھ ایک طویل عرصہ تک رہنے کے سبب متعدد ہندوانہ رسوم ورواجات کو اپنا چکا ہے۔کہیں شادی بیاہ پر رسمیں تو کہیں بچے کی ولادت پر رسمیں،کہیں موسمیاتی رسمیں تو کہیں کفن ودفن کی رسمیں۔الغرض ہر طرف رسمیں ہی رسمیں نظر آتی ہیں۔اسلامی تہذیب وثقافت کا کہیں نام ونشان نہیں ملتا ہے۔ الا ما شاء اللہ۔انہیں رسوم ورواج میں سے شادی کے موقعوں پر ادا کی جانے والی رسوم ہیں،جس کا اسلامی تہذیب کے ساتھ کوئی دور کا بھی تعلق نہیں ہے۔ان رسوم ورواج میں اسلامی تعلیمات کا خوب دل کھول استخفاف کیا جاتا اور غیر شرعی افعال سر انجام دیئے جاتے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب " شادی کی جاہلانہ رسمیں"مولانا علامہ ابو الخیر اسدی صاحب کی تصنیف ہے۔ جس میں انہوں نے شادی بیاہ کے مواقع پر کی جانے والی رسوم ورواجات پر روشنی ڈ الی ہے کہ یہ کیسے اسلامی معاشرے کا حصہ بنیں اور مسلمانوں کو ان سے بچنے کی تلقین کی ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ مولف کی اس محنت کو قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(ر...
نکاح کرنا نبی کریمﷺ کی سنت ہے۔ نکاح کے بعد میاں بیوی کا مخصوص تعلقات قائم کرنا ایک فطری امر ہے۔ شریعت مطہرہ میں اس ضمن میں بھی بہت سی جامع تعلیمات و احکامات موجود ہیں۔ زیر نظر کتابچہ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے شادی کی پہلی رات سے متعلق ہے جس میں شادی کی پہلی رات میاں بیوی کی رہنمائی کے لیے کھلے انداز میں گفتگو کی گئی ہے۔ کتابچہ کے مصنف عبدالہادی عبدالخالق کی یہ کوشش اس بناء پر بہت خوش آئند ہے کہ انہوں نے ایک ایسے موضوع پر قلم اٹھا کر لوگوں کیلئے کتاب و سنت کی رہنمائی مہیا کی ہے جس پر لاتعداد مخرب الاخلاق کتابچے، رسائل و جرائد اور مضامین زیر گردش ہیں۔ مصنف نے اس نازک موضوع پر ایسی پاکیزہ اور اعلٰی معلومات بہم پہنچائی ہیں جن کی بنیاد اللہ تعالیٰ کا مقدس کلام اور رسول رحمت ﷺ کی زبان اطہر سے نکلے ہوئے محبوب ترین الفاظ ہیں۔ یہ کتاب اس لحاظ سے بھی انتہائی مفید ہے کہ شادی کرنے والے نوجوان اس سے مناسب رہنمائی لے سکتے ہیں کیونکہ ہمارے برصغیر میں ایسے مسائل کے متعلق سوال کرتے ہوئے عموماً لوگ جھجک محسوس کرتے ہیں۔(ع۔م)
شادی ایک سماجی تقریب ہے جو دنیا کے ہر مذہب ہر خطے اور ہر قوم میں جاری وساری ہے کیونکہ اس کا تعلق زندگی کی بقا اور تسلسل کے اس مخصوص عمل سے ہے جسے چھوڑ دینے سے نسلِ انسانی ہی منقطع ہوکررہ جائے گی۔اسکی اہمیت کےپیش نظر ہر قوم اور ہر مذہب نے اس کے لیے اپنے اپنے معاشرتی اور مذہبی پس منظر میں طریقے وضع کر رکھے ہیں ۔یہ طریقے بہت سی رسومات کا مجموعہ ہیں۔ان رسومات کے بعض پہلویا تو انتہائی شرم ناک ہیں یا اہل معاشرہ اور شادی کرانے والے شخص اوراس کے متعلقین کے لیے مالی اور جسمانی تکلف اور تکلیف کاباعث ہیں۔دین اسلام میں بھی شادی کوایک اہم معاشرتی تقریب کی حیثیت حاصل ہے ۔تقریب نکاح کاطریقہ اس قدر آسان ہونے کے باوجود ہمارے موجودہ معاشرے میں اسے ایک مشکل ترین تقریب بنادیاگیا ہے ۔بات طے کرنے سےلے کر قدم قدم پر ایسی رسومات ادا کی جاتی ہیں جن میں مال خرچ بھی ہوتا ہے اور متعلقین کوبھی با...
شادی ایک سماجی تقریب ہے جو دنیا کے ہر مذہب ہر خطے اور ہر قوم میں جاری وساری ہے کیونکہ اس کا تعلق زندگی کی بقا اور تسلسل کے اس مخصوص عمل سے ہے جسے چھوڑ دینے سے نسلِ انسانی ہی منقطع ہوکررہ جائے گی۔ دینِ اسلام میں بھی شادی کوایک اہم معاشرتی تقریب کی حیثیت حاصل ہے ۔تقریب نکاح کاطریقہ اس قدر آسان ہونے کے باوجود ہمارے موجودہ معاشرے میں اسے ایک مشکل ترین تقریب بنادیاگیا ہے ۔بات طے کرنے سےلے کر قدم قدم پر ایسی رسومات ادا کی جاتی ہیں جن میں مال خرچ بھی ہوتا ہے اور متعلقین کوبھی بار بار مال اور وقت خرچ کر کے ان رسومات میں شریک کیا جاتا ہے ۔ ان رسومات پر ایک طائرانہ نظر رڈالنے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ان میں سے اکثر کاتعلق ہندو مذہب کی شادی کی رسومات سے ہے ۔اور کچھ لوازمات مغربی معاشرے کے بھی شامل کر لیے گیے ہیں۔ زیر تبصرہ کتابچہ ’’ شادی کے مسائل کتاب و سنت کی روشنی میں &lsqu...
شادی مشرقی و اسلامی گھرانے کی ایک ایسی رسم ہے جسے معاشرے میں بنیادی حیثیت حاصل ہے ۔اس کی اساس پر ایک نئے گھر اور خاندان کا آغاز ہوتا ہے۔اس میں کامیابی ایک مضبوط اور مستحکم معاشرے کی ضمانت ہے اور اس میں ناکامی معاشرتی تباہی کو مستوجب ہے۔مغرب اور اہل یورپ کی شادیوں کی ناکامی کی وجہ تو واضح ہے کہ ان لوگوں نے ایک جداگانہ معاشرتی نظام ترتیب دیا ہے اور الگ طور پر فلسفہ حیات تشکیل دیا ہے۔لیکن اہل مشرق یا اسلامی گھرانوں میں شادیوں کی ناکامی عام طور پر یہ ہے کہ لوگوں میں غلط رسومات نے جنم لے لیا ہے۔ان رسومات کی وجہ سے بہت زیادہ مسائل شادیوں سے پہلے ہی ہو جاتے ہیں اور ایسے ہی بہت زیادہ بعد میں ہو جاتے ہیں۔مثلا کثیر جہیز کی طلب، زیادہ حق مہر متعین کروانا اور شادی میں ضد کی وجہ سے بے دریغ مال خرچ کرنا وغیرہ ۔ اسی طرح شوہر اور بیوی کے درمیان رویوں کی وجہ سے باہمی بے اعتمادی یا تعلقات میں سرد مہر ی پیدا ہو جانا وغیرہ۔زیرنظر کتاب میں مصنف نے معاشرتی اصلاح کی خاطر انہی رویوں اور مسائل کی طرف نشاندہی کی ہے۔(ع۔ح)
اسلام ایک مکمل اور ضابطۂ حیات ہے۔ اسلام سے محبت کرنے والے ہر شخص کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے شب وروز قرآن وسنت اور اسلام کی دی گئی تعلیمات کے مطابق بسر کرے۔ دنیاوی زندگی کا کوئی بھی معاملہ ہو اسے قرآن وسنت کے سانچےمیں ڈھالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ دنیاوی معاملات میں ایک حساس معاملہ شادی کی تقریب کا ہے کہ شادی کی تقریب کو کیسے قرآن وسنت کی روشنی اور رہنمائی کے مطابق انجام دیا جائے۔زیرِ تبصرہ کتاب بھی خاص اسی موضوع پر ہے ۔ جس کی تالیف کا سبب بھی یہی تھا کہ شادی کی تقریب میں نامناسب رسوم اور دیگر غلطیوں کی نشاندہی کرنا اور قرآن وسنت کی رہنمائی کو لوگوں تک پہنچانا۔ اس کتاب کو آٹھ حصوں میں اور ہر حصے کو طوالت کی صورت میں مباحث میں تقسیم کیا گیا ہے اور عامۃ الناس کے لیے موضوعا ت کو مختصر ٹکڑوں کی صورت یا نکات کی صورت میں ترتیب سے بیان کیا گیا ہے۔ احادیث کے حوالے کو اختصار سے بیان کرتے ہوئے صرف مذکورہ مرجع کی متعلقہ’کتاب‘ کا ذکر کیا گیا ہے۔ سنن اربعہ کی احادیث ہونے کی صورت میں شیخ البانی کا حکم اجمالی بھی بیان کیا گیا ہے۔ مسائل قرآن وسنت سے بیان کیے گ...