قرآن کریم اللہ کہ وہ مقدس کتاب ہے جس کی خدمت باعثِ خیر وبرکت اور ذریعۂ بخشش ونجات ہے ۔یہی وجہ ہےکہ قرونِ اولیٰ سے عصر حاضر تک علماء ومشائخ کے علاوہ مسلم معاشرہ کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے اصحاب بصیرت نے حصول برکت کی خاطر اس کی کسی نہ کسی صورت خدمت کی کوشش کی ہے ۔اہل علم نے اگر اس کے الفاظ ومعانی ،مفاہیم ومطالب ،تفسیر وتاویل ،قراءات ولہجات اور علوم قرآن کی صورت میں کام کیا ہے تو دانشوروں نے اس کے مختلف زبانوں میں تراجم ،کاتبوں نے مختلف خطوط میں اس کی کتابت کی ،ادیبوں اور شاعروں نےاس کے محامد ومحاسن کواپنے الفاظ میں بیان کر کے اس کی خدمت کی اور واعظوں اور خطیبوں نے اپنے وعظوں اور خطبات سے اس کی تعریف اس شان سے بیان کی کہ ہر مسلمان کا دل ا س کی تلاوت ومطالعہ کی جانب مائل ہواا ور امت مسلمہ ہی نہیں غیر مسلم بھی اس کی جانب راغب ہوکر اس سے منسلک ہوگئے ۔ بعض اہل علم وقلم نے اس کے موضوعات ومضامین پر قلم اٹھایا ااور بعض نے اس کی انڈیکسنگ اور اشاریہ بندی کی جانب توجہ کی ۔ مختلف اہل علم نے اس حوالے سے كئی کتب تصنیف کی ہیں علامہ وحید الزمان کی ’’تبویب القرآن فی مضامین الفرقان ‘‘، شمس العلماء مولانا سید ممتاز علی کی ’’ اشاریہ مضامین قرآن ‘‘ اور ’’مضامین قرآن‘‘از زاہد ملک قابل ذکر ہیں ۔ زیر نظر کتاب ’’جامع اشاریہ مضامین ِ قرآن ‘‘ بھی اسی سلسلہ کی کڑی ہے۔اس اہم کتاب کو ڈاکٹر اطہر محمد اشرف نے بڑی محنت شاقہ اور عرق ریزی سے مرتب کیا ہے۔موصوف نے پورے قرآن کا ایک جامع اشاریہ مرتب فرماکر ایک عظیم کارنامہ انجام دیا ہے جو رہتی دنیا تک انسانوں کےلیے ایک مشعل کا کام دے گا۔محترم ڈاکٹر صاحب نےہر لفظِ قرآن کے ماخذکےلیے سخت محنت شاقہ سے کام لیا ہے اوراس کے پیش نظر تمام مشکلات اور فہم کی دشواریاں دور کردی ہے ہیں ۔ قرآن مجید میں بکھرے ہوئے احکامات اورہدایات کویکجا کر کے ایک نوع کے تمام مضامین کومربوط اورمنضبط کر کے قاری کےلیے قرآن مجید کوسمجھنا اوراس پرعمل کرنا سہل کردیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ موصوف کی اس کاوش کو شرف قبولیت سے نوازے اور حامل قرآن کےلیے نفع بخش بنائے (آمین) (م۔ا)
ہر انسان جس میں ادنی سی بھی معرفت ہو وہ جانتا ہے کہ بہت سے ممالک میں عورتوں کے اظہار حسن وجمال ،مردوں سے عدم حجاب اور نمائش زینت –جسے اللہ تعالی نے حرام قرار دیا ہوا ہےـ کے باعث ہی مصیبتیں عام ہوئی ہیں۔بلا شک وشبہ عورتوں کی بے پردگی عظیم منکرات اور اللہ تعالی کی طرف سے نازل ہونے والی عقوبتوں اور مصیبتوں کے اسباب میں سے سب سے بڑا سبب ہے۔اسلام وہ عظیم الشان مذہب ہے جو عورت کی تعلیم وتربیت پر بہت زیادہ زور دیتا ہے،اور اسے پیکر عفت وعصمت اور شرم وحیاء کا مجسمہ مننے کی ترغیب دیتا ہے۔مسئلہ کی اہمیت کے پیش نظر عرب وعجم کے کئی نامور علماء نے اس موضوع پر بلند پایہ کتابیں تصنیف فرمائی ہیں لیکن آج سے چند سال قبل ایک فاضل مصری بہن محترمہ نعمت صدتی نے اس موضوع پر جس دلنشیں انداز میں قلم اٹھایا ہے اور سچی بات ہے کہ یہ انہی کا حصہ ہے ۔یہی وجہ ہے کہ آپ کے رشحات فکر کا مجموعہ "التبرج"جب منصہ شہود پر آیا تو نہایت قلیل مدت میں اس کے بیسیوں ایڈیشن ہاتھوں ہاتھ نکل گئے۔یہ کتاب اختصار ،جامعیت ،دلنشینی اور شگفتگی کی وہ تاثیر اپنے اندر لئے ہوئے ہے جو بہت کم کتابوں کو نصیب ہوتی ہے۔کتاب کی افادیت کے پیش نظر اس کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے ،تاکہ اردو داں طبقہ بھی اس سے مستفید ہو سکے۔ترجمہ محترم محمد خالد سیف صاحب نے کیا ہے ۔کتاب کے شروع میں سماحۃ الشیخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز کے مقالہ "رسالۃ تبحث فی مسائل الحجاب والسفور" کا اردو ترجمہ بطور مقدمہ کے ڈال دیا گیا ہے۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ مولفہ اور مترجم کی اس محنت کو قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
مجدد الف ثانی حضرت شیخ احمد سر ہندی 971ھ کو ہند و ستا ن کے مشر قی پنجا ب کے علاقہ سرہند میں پیدا ہوئے، آپ کے والد ماجد شیخ عبدا لا حد چشتی اپنے وقت کے جلیل القدر عالم وعارف تھے .... حضرت مجدد الف ثانی کا سلسلہ نسب 29واسطوں سے امیر المو منین سیدنا حضرت عمر فاروق سے ملتاہے۔آپ نے صغر سنی میں ہی قرآن حفظ کر کے اپنے والد سے علوم متداولہ حاصل کیے پھر سیالکوٹ جا کر مولانا کمال الدیّن کشمیری سے معقولات کی تکمیل کی اور اکابر محدثّین سے فنِ حدیث حاصل کیا ۔ آپ سترہ سال کی عمر میں تمام مراحل تعلیم سے فارغ ہو کر درس و تدریس میں مشغول ہوگئے ۔1599ء میں آپ نے خواجہ باقی باللہ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ آپ کے علم و بزرگی کی شہرت اس قدر پھیلی کہ روم، شام، ماوراء النہر اور افغانستان وغیرہ تمام عالمِ اسلام کے مشائخ علماء اور ارادتمند آکر آپ سے مستفیذ ہوتے۔ یہاں تک کہ وہ ’’مجدد الف ثانی ‘‘ کے خطاب سے یاد کیے جانے لگے ۔ یہ خطاب سب سے پہلے آپ کے لیے ’’عبدالحکیم سیالکوٹی‘‘ نے استعمال کیا ۔ طریقت کے ساتھ وہ شریعت کے بھی سخت پابند تھے ۔ مجدد الف ثانی مطلقاً تصوف کے مخالف نہیں تھے۔ آپ نے ایسے تصوف کی مخالفت کی جو شریعت کے تابع نہ ہو۔ قرآن و سنت کی پیروی اور ارکان اسلام پر عمل ہی آپ کے نزدیک کامیابی کا واحد راستہ ہے۔مغل بادشاہ اکبر کے دور میں بہت سی ہندوانہ رسوم و رواج اور عقائد اسلام میں شامل ہو گئے تھے۔ اسلام کا تشخص ختم ہو چکا تھا اور اسلام اور ہندومت میں فرق کرنا مشکل ہو گیا تھا۔ ان کے مطابق دین میں ہر نئی بات بدعت ہے اور بدعت گمراہی ہے۔ آپ اپنے ایک مکتوب میں بدعات کی شدید مخالفت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: ’’لوگوں نے کہا ہے کہ بدعت کی دو قسمیں ہیں: بدعت حسنہ اور بدعت سیئہ۔ بدعت دافع سنت ہے، اس فقیر کو ان بدعات میں سے کسی بدعت میں حسن و نورانیت نظر نہیں آتی اور سوائے ظلمت اور کدورت کے کچھ محسوس نہیں ہوتا‘‘حضرت مجدد الف ثانی کو اپنے مشن کی تکمیل کے لئے دورِ ابتلاء سے بھی گزرنا پڑا۔ بعض امراء نے مغل بادشاہ جہانگیر کو آپ کے خلاف بھڑکایا اور یقین دلایا کہ آپ باغی ہیں اور اس کی نشانی یہ بتائی کہ آپ بادشاہ کو تعظیمی سجدہ کرنے کے قائل نہیں ہیں، چنانچہ آپ کو دربار میں طلب کیا جائے۔ جہانگیر نے حضرت مجدد الف ثانی کو دربار میں طلب کر لیا۔ آپ نے بادشاہ کو تعظیمی سجدہ نہ کیا۔ جب بادشاہ نے وجہ پوچھی تو آپ نے کہا: سجدہ اللہ کے علاوہ کسی اور کے لئے جائز نہیں ہے۔ یہ اللہ کا حق ہے جو اس کے کسی بندے کو نہیں دیا جا سکتا۔ہندوستان میں اشاعت ِدین اور تبلیغ اسلام کے لیے آپ کی کاوشیں ناقابل فراموش ہیں۔ زیر نظر کتاب ’’سیرتِ امام ربانی حضرت مجدد الف ثانی‘‘علامہ ابوالبیان محمد داؤد پسروری کی تصنیف ہے ۔یہ کتاب مجدد الف ثانی کی سیرت پر ایک جامع کتاب ہے جس میں آپ کے حالات بالتفصیل بیان کئے گئے ہیں ۔مجدد الف ایک معروف شخصیت ہیں جن کی ہندوستا ن میں اشاعتِ اسلام کےلیے بڑی خدمات ہیں ۔ویب سائٹ پر ان کی سیرت وتعارف کے حوالے سے کوئی کتاب نہ تھی ۔اس لیے کتاب کو ویب سائٹ پر پیش کیا گیا ہے۔ کتاب کے مندرجات سے ادارے کا کلی اتفاق ضروری نہیں ہے۔(م۔ا)
یہود ونصاری پہلے دن ہی سے دین اسلام سے حسد کرتے چلے آرہے ہیں۔ دونوں قوموں کو شروع سے "اہلِ کتاب" ہونے کا زعم تھا۔ یہود بنی اسرائیل میں آخری نبی کی آرزو لیے بیٹھے تھے۔لیکن بنی اسماعیل میں آخری نبی کے ظہور نے انہیں اسلام کا بدترین دشمن بنادیا ۔ مدینہ میں انہوں نے غزوہ خندق میں معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئےمسلمانوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کی کوشش کی ۔نبی کریمﷺ نے انہیں مدینہ سے نکال دیا۔ سیدنا عمر ؓ نے ان کی سازشوں کی وجہ سے انہیں آخر جزیرۃ العرب سےہی نکال باہرکیا ۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ مجھے اپنے محبوب ﷺ کا جملہ اچھی طرح یاد ہے۔" یہود ونصاریٰ کو جزیرۃ العرب سے نکال دو۔ (ابوداود:2635)ان دونوں قوموں نے مسلسل اپنی سازشیں جاریں رکھیں اور مسلمانوں کو بڑا نقصان پہچانے کی کوششوں میں رہے اورمسلمانوں کو ان سے بعد میں بہت سی جنگیں لڑنی پڑیں۔ان کے ان سب تخریبی کاموں کے باوجود مسلم اقوام میں کبھی تذبذب، اضطراب اور جذبہ شکستگی کا احساس تک نہ پیدا ہوا، بلکہ انہوں نے ہر میدان میں ثابت قدمی کا ثبوت پیش کیا،اور ڈٹ کر ان کا مقابلہ کیا۔زیر تبصرہ کتاب" یہود ونصاری کی اسلام کے خلاف سازشیں "امام مسجد نبوی فضیلۃ الشیخ عبد الرحمن الحذیفی کے خطبہ جمعہ کے اردو ترجمہ پر مشتمل ہے جو انہوں نے مسجد نبوی میں ارشاد فرمایا تھا۔اس خطبہ میں انہوں نے مسلمانوں کو یہود و نصاری کی عالم اسلام کے خلاف سازشوں سے آگاہ کرتے ہوئے ان سے ہوشیار رہنے کی ترغیب دی ہے،کہ آج عالم اسلام ہر طرح کے وسائل ہونے کے باوجود کس طرح تنزلی اور محکومی کی زندگی گزار رہا ہے۔امت مسلمہ کا درد رکھنے والے اہم دل حضرات کے لئے یہ ایک شاندار اور مفید ترین کتابچہ ہے۔بارگاہ الہی میں دعا ہے کہ وہ امت مسلمہ کو تمام میدانوں میں رہبر اور راہنما بنائے۔آمین(راسخ)
قلب عضو رئیس ہے ،ضامن حیات ہے اعضائے جسم انسانی میں مرکزیت اورعلوئیت کا مرتبہ ومقام رکھتا ہے ۔ اس میں خواہشات کی دنیا آباد ہے اور دل سے ہی فیصلوں کا صدور ہوتا ہے۔ اور وجودِ انسانی کا مرکز دل ہے انسانی زندگی کی بقا کے لیے ضروری ہے کہ اپنے مرکز دل سے اس کا رابطہ برابر قائم رہے ، قلب ہی وہ اولین سرچشمہ ہے جہاں سے خیالات،احساسات ،جذبات اورارادوں کےجھرنے پھوٹتے ہیں فساد اگر اس میں آجائے تو پھر سارے کردار میں پھیل جاتا ہے او راصلاح بھی اگر اس سرچشمہ کی ہوجائے تو ساری سیرت سنور جاتی ہے ۔ قلب درست ہو تو یہی اصل مربی ومزکی ہے یہی مفتی وجج ہے یہی اگر بگڑ جائے تو باہر کی کوئی امداد انسان کو نہیں سنوار سکتی اور دل انسانی جسم کا اہم او رکلیدی عضو ہے جو جسم انسانی کی طرح فکروعمل میں بھی بنیادی کردار کرتا ہے اس لیے قرآن وحدیث کی نظر میں قلب کی درستی پر انسانی عمل کی درستی کا انحصار ہے نبی کریم ﷺ نے فرمایا یاد رکھو!کہ جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے اگر وہ سنور گیا تو سارا بدن سنور گیا اور جووہ بگڑا تو سارا بدن بگڑگیا ،سنو وہ دل ہے۔ اور اسی طرح ارشاد نبوی کی ترجمانی کسی شاعرنے ان الفاظ میں کی ہے دل کے بگاڑ سے ہی بگڑتا ہے آدمی جس نے اسے سنبھال لیا وہ سنبھل گیا قلبِ انسانی اپنی حیات کےلیے خون کا صرف گیارہ فیصد استعمال کرتا ہے باقی 89 فیصد خون جسم انسانی کے دوسرے اعضائے رئیسہ وشریفہ کی حیات قائم رکھنے کےلیے پمپ کردیتاہے ۔انسان کا یہ عظیم دل بھی علالتوں کی زد میں آتاہے ۔ قلب کی یہ علالتیں کبھی روحانی ہوتی ہیں، نفسیاتی ہوتی ہیں اور کبھی عضویاتی وجسمانی ہوتی ہیں ۔ زیر نظر کتاب ’’ دل کی بیماریاں اور علاج نبویﷺ‘‘ غزنوی خاندان کے معروف ڈاکٹر خالد غزنوی کی تصنیف ہے ۔ جوکہ امراضِ قلب میں علاج نبوی ﷺ اور دل کی مادی علالتوں کے متعلق بحث کرتی ہے ۔روحانی امراض سے اس کا تعلق نہیں۔موصوف نے اس کتاب میں طب ِنبویؐ اور ارشادات نبویؐ کی روشنی میں دل کی بیماریوں کا علاج بڑے احسن انداز میں بیان کیاہے ۔ کیونکہ دل کی بیماریوں کا کوئی بھی علاج علاجِ نبوی سےبہتر نہیں ہوسکتاہے۔ڈاکٹر خالد غزنوی صاحب اس کتاب کے علاوہ طب کے سلسلے میں تقریبا چھ کتب کے مصنف ہیں ۔اللہ تعالیٰ ان کی کاوشوں کو قبول فرمائے اور ان کی کتب کو عوام الناس کےلیے نفع بخش بنائے (آمین) (م۔ا)
روزہ اسلام کا ایک بنیادی رکن ہے اور رمضان المبارک اسلامی سال کا نواں مہینہ ہے یہ مہینہ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں،برکتوں، کامیابیوں اور کامرانیوں کا مہینہ ہے ۔اپنی عظمتوں اور برکتوں کے لحاظ سے دیگر مہینوں سے ممتاز ہے ۔رمضان المبارک وہی مہینہ ہےکہ جس میں اللہ تعالیٰ کی آخری آسمانی کتاب قرآن مجید کا نزول لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر ہوا۔ ماہ رمضان میں اللہ تعالی جنت کے دروازے کھول دیتا ہے او رجہنم کے دروازے بند کردیتا ہے اور شیطان کوجکڑ دیتا ہے تاکہ وہ اللہ کے بندے کو اس طر ح گمراہ نہ کرسکے جس طرح عام دنوں میں کرتا ہے اور یہ ایک ایسا مہینہ ہے جس میں اللہ تعالی خصوصی طور پر اپنے بندوں کی مغفرت کرتا ہے اور سب سے زیاد ہ اپنے بندوں کو جہنم سے آزادی کا انعام عطا کرتا ہے۔رمضان المبارک کے روضے رکھنا اسلام کےبنیادی ارکان میں سے ہے نبی کریم ﷺ نے ماہ رمضان اور اس میں کی جانے والی عبادات ( روزہ ،قیام ، تلاوت قرآن ،صدقہ خیرات ،اعتکاف ،عبادت لیلۃ القدر وغیرہ )کی بڑی فضیلت بیان کی ہے ۔روزہ کے احکام ومسائل سے ا گاہی ہر روزہ دار کے لیے ضروری ہے ۔لیکن افسوس روزہ رکھنے والے بیشتر لوگ ان احکام ومسائل سےلا علم ہوتے ہیں،بلکہ بہت سے افراد تو ایسے بھی ہیں جو بدعات وخرافات کی آمیزش سے یہ عظیم عمل برباد کرلینے تک پہنچ جاتے ہیں ۔ کتبِ احادیث میں ائمہ محدثین نے کتاب الصیام کے نام سے باقاعدہ عنوان قائم کیے ۔ اور کئی علماء اور اہل علم نے رمضان المبارک کے احکام ومسائل وفضائل کے حوالے سے مستقل کتب تصنیف کی ہیں۔ زیر نظر کتابچہ ’’ روزے کی حقیقت‘‘ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ کے روزوں کے احکام ومسائل کے متعلق ایک رسالے کا ترجمہ ہے ۔ اس رسالے میں روزے کے جملہ احکام ومسائل اختصار کے ساتھ موجود ہیں ۔ محدث العصر علامہ ناصر الدین البانی کی اس کتابچے پر تعلیق وتخریج سے اس کی افادیت میں مزید اضافہ ہوگیا ہے ۔ تنطیم الدعوۃ الی القرآن والسنۃ کے ذمہ داران نے اس کاترجمہ کروا کر اسے طاعبت سے آراستہ کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کتابچہ کو عوام الناس کےلیے نفع بخش بنائے۔آمین)م۔ا)
تفسیر کا معنی بیان کرنا یا کھولنا یا کسی تحریر کےمطالب کوسامعین کےقریب ِفہم کردینا ہے ۔قرآن مجید ایک کامل ومکمل کتاب ہے مگر اس کوسمجھنے کےلیے مختلف علوم کی ضرورت ہے ۔قرآن مجید کی آیات کا ترجمہ کرنا اور ان کامطلب بیان کرنا علم تفسیر ہے اور علم تفسیر وہ علم ہے جس میں الفاظِ قرآن کی کیفیت ،نطق،اور الفاظ کے معانی اور ان کےافرادی ترکیبی حالات اور ان کے تتمات کا بیان ہوتاہے ۔ قرآن کلام الٰہی ہے جو رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوا ۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ میں ایسی قابلیت پیدا کردی تھی کہ آپ منشاء الٰہی کو سمجھ جاتے تھے اور آپ کو وحی جلی اور وحی خفی کے ذریعہ سےاحکام سے آگاہ بھی کردیاجاتا تھا ۔جو سورت یاآیت نازل ہوتی آپ مسلمانوں کو اس کامطلب سمجھاتےدیتے تھے ۔اس لیے قرٖٖآن مجید کےمفسر اول حضور ﷺ اور پہلی تفسیر حدیث ِرسول ﷺہے ۔آپ ﷺ نے قرآن کی جو تفسیر بیان کی اس کا کچھ حصہ آپ کی حیات ِمبارکہ میں ہی ضبط تحریر میں آیا او رکچھ حصہ صحابہ کرام کے سینوں میں محفوظ رہا جو اس عہد کے بعد ضبطِ تحریر میں آیا ۔عہد خلافت راشد ہ میں مسلمانوں کی زیادہ توجہ حفظ قرآن اور تدوین حدیث اور ملکی معاملات پر رہی اس لیے تفسیر کے نام سے سوائے تفسیر ابی بن کعب اور تفسیر ابن عباس کےاورکوئی تفسیر کی کتاب مرتب نہیں ہوئی۔ اس کے بعد عصر حاضر تک قرآن کریم کی ہزاروں تفاسیر لکھی جا چکی ہیں اور ہر صدی میں متعدد کتب تفسیر کی کئی لکھی گئیں ۔اس کے علاوہ قرآن کریم کےمتعدد پہلوؤں پر علمی و تحقیقی کام موجود ہے ۔ زیر نظر کتاب ’’تاریخ التفسیر‘‘ عبد الصمد صارم الازہری کی تصنیف ہے جس میں انہوں نے عہدِ رسالت سے لے کرچودویں صدی ہجری تک لکھی جانےوالی کتب تفسیر اور مفسرین کا مختصراً تذکرہ کرنےکےبعد حدیث وتفسیر کی بعض اصطلاحات ، طبقات المفسرین اور ایک مفسر کےلیے جن کاعلوم کا جاننا ضروری ہے ان کوبھی بالاختصار تحریر کیا ہے ۔ یہ کتاب اہل علم او رطالبان ِعلوم نبوت کے لیے مفسرین اور کتب تفاسیر کے تعارف کے حوالے سے قیمتی تحفہ ہے اللہ تعالی مؤلف اور ناشرین کی اس کاوش کوقبول فرمائے (آمین)(م۔ا)
اسلام ایک دینِ کامل اور مکمل ضابطۂ حیات ہے ۔اسلام کے تمام اوامر ونواہی اور حلال وحرام کو اللہ تعالیٰ اور نبی کریم ﷺنے بیان کردیا ہے ۔جن امور کو اختیار کرنے کو کہا گیا ہے اللہ تعالیٰ اور نبی ﷺ نے انہیں کرنے کا حکم دیا ہے یا ان پر عمل کی فضیلت بیان کردی ہے اسی طرح جن امور کو اختیار کرنے سے روکا ہے انہیں حکماً روک دیا ہے یہ ان کو کرنے کی سزا اور نقصانات بیان کردیئے ہیں ۔ ہمارے ماحول اور معاشرے میں ہماری عادات میں بہت سے اقوال وافعال یعنی کام اور ایسی باتیں شامل کی جاچکی ہیں جن کو عام طور کوئی اہمیت نہیں دی جاتی لیکن وہ بہت بڑے جرم ہیں اوران جرائم کی سزا نبی کریم ﷺ نے مقرر فرمائی ہے اور وہ کام کرنے والے کو اپنی ملت سے خارج قرار دیا ہے۔جس سے یہ معلوم ہوتا ہے ہے کہ قیامت کے دن اس شخص کا حشر ایمان والوں میں نہیں ہوگا اور نہ ہی وہ رسول اللہﷺ کی شفاعت پائے گا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایسے مجرموں میں شامل ہونے سے محفوظ رکھے ۔زیر نظر کتاب ’’وہ ہم میں سے نہیں ‘‘ محترم عادل سہیل ظفرصاحب کی کاوش ہے جس میں انہوں نےاحادیث میں وارد ہونے والے ان جرائم کو جمع کردیا ہے جن کی سزا رسول اللہﷺ نے یہ طے فرمائی ہے کہ ان کوکرنے والے ’’ ہم میں سے نہیں ‘‘اللہ تعالیٰ ہمیں ایسے کاموں کو اختیار کرنے سے محفوظ فرمائے جن کے بارے میں نبیﷺ نے فرمایا ’’فلیس منا؍ٔٔٔ.... پس وہ ہم سے نہیں‘‘ اور اس کتاب کو عوام الناس کے لیے نفع بخش بنائے۔ (آمین)( م۔ا )
چودہویں صدی کے مشہور سیاح ابن بطوطہ نے اپنی زندگی کے 28سال سیاحت میں گزارے ۔ان کا مکمل نام ابوعبداللہ محمد ابن بطوطہ ہے۔ مراکش کے شہر طنجہ میں1304ء کو پیدا ہوا اور 1378ء میں وفات پائی۔ ادب، تاریخ، اور جغرافیہ کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اکیس سال کی عمر میں پہلا حج کیا۔ اس کے بعد شوق ِسیاحت میں افریقہ کے علاوہ روس سے ترکی پہنچا۔ جزائر شرق الہند اور چین کی سیاحت کی۔ عرب، ایران ، شام ، فلسطین ، افغانستان ، اور ہندوستان کی سیر کی۔ چار بار حج بیت اللہ سے مشرف ہوا۔ محمد تغلق کے عہد میں ہندوستان آیا تو توسلطان نے اُس کی بڑی آؤ بھگت کی اور قاضی کے عہدے پر سرفراز کیا۔ یہیں سے ایک سفارتی مشن پر چین جانے کا حکم ملا۔ 28 سال کی مدت میں اس نے 75ہزار میل کاسفر کیا۔ آخر میں فارس کے بادشاہ ابوحنان کے دربار میں آیا۔ اور اس کے کہنے پر اپنے سفر نامے کو کتابی شکل دی۔ اس کتاب کا نام عجائب الاسفارنی غرائب الدیار ہے۔ یہ کتاب مختلف ممالک کے تاریخی و جغرافیائی حالات کا مجموعہ ہے۔یورپ والوں کو انیسویں صدی میں ابن بطوطہ کے سفرنامہ کا علم ہوا۔ اسکے بعد اسکے کئی ترجمے یورپی زبانوں میں شائع ہوئے۔ اردو میں بھی کئی ترجمے شائع ہوئے۔ سب سے پہلا ترجمہ 1898 میں محمد حسین نے لاہور سے شائع کیا تھا۔ اسکے علاوہ کئی خلاصے بھی شائع ہوئے۔ زیر نظر کتاب ’’ خلاصہ تحفۃ النظار یعنی سفر نامہ شیخ ابن بطوطہ‘‘ سفر نامہ ابن بطوطہ کے ایک خلاصہ کااردو ترجمہ ہے مولوی عبدالرحمن خاں صاحب (سابق پرنسپل جامعہ عثمانیہ حیدر آباد،انڈیا) نے اسے اردوزبان میں منتقل کیا ہے۔موصوف نے اردوترجمہ کےعلاوہ تمہید میں سفرنامہ کےاسلامی عہد اوراس کےتاریخی اور سیاسی پس منظر پر جوکلام کیا ہے اس سے اس کتاب کی افادیت میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ یہ سفر نامہ جہاں بے حددلچسپ اور دلآویز ہے ۔نایاب وبیش قیمت معلومات کاگنجینہ بھی ہے ۔ ان میں بہت سی معلومات ایسی ہیں۔ جوکسی دوسرے ذریعہ سے حاصل نہیں ہوسکتیں۔(م۔ا)
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو بندوں کی رشد و ہدایت کے لیے نازل فرمایاہے۔،یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کیا جانے والا ایسا کلام ہے جس کے ایک ایک حرف کی تلاوت پر دس دس نیکیاں ملتی ہیں۔اور قرآن مجید کی درست تلاوت اسی وقت ہی ممکن ہو سکتی ہے، جب اسے علم تجویدکے قواعد وضوابط اوراصول وآداب کے ساتھ پڑھا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو ترتیل کے ساتھ پڑھنے کا حکم دیا ہے ۔لہٰذا قرآن کریم کو اسی طرح پڑھا جائے جس طرح اسے پڑھنے کا حق ہے۔اور ہرمسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ علمِ تجوید کے بنیادی قواعد سے آگاہی حاصل کرے۔فن تجوید پر عربی زبان میں بے شمار کتب موجود ہیں۔جن میں سے مقدمہ جزریہ ایک معروف اور مصدر کی حیثیت رکھنے والی عظیم الشان منظوم کتاب ہے،جو علم تجوید وقراءات کے امام علامہ جزری کی تصنیف ہے۔اس کتاب کی اہمیت وفضیلت کے پیش نظر متعدد اہل علم نے اس کی شاندار شروحات لکھی ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب " التقدمۃ الشریفیۃ فی شرح المقدمۃ الجزریۃ "بھی مقدمہ جزریہ کی ایک مفصل شرح ہے جواستاذ القراء والمجودین قاری محمد شریف صاحب بانی مدرسہ دار القراء لاہور پاکستان کی کاوش ہے۔جو ان کی سالہا سال کی محنت وکوشش اور عرصہ دراز کی تحقیق وجستجو کا نتیجہ ہے۔اور شائقین علم تجوید کے لئے ایک نادر تحفہ ہے۔ تجوید وقراءات کے ہر طالب علم کو اس کا ضرور مطالعہ کرنا چاہئے۔اللہ تعالی مولف کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
تعلیم حیات انسانی کا وہ تجربہ ہے جس پر اس کے وجود اور بقاء کا انحصار ہے۔تعلیم ہی وہ عمل ہے جو حیات انسانی کے قافلے کو رواں دواں رکھے ہوئے ہے۔تعلیم ہی کے ذریعے سے ایک نسل کے تجربات دوسری نسل تک پہنچتے ہیں اور تعلیم ہی وہ اساس ہے جس پر حیات انسانی کی عمارت قائم ہے۔اسلامی تہذیب کی اساس اگرچہ ایمان پر قائم ہے مگر وہ تعقل سے صرف نظر نہیں کرتی ہے۔اسلامی تہذیب نے محسوسات کا ادراک کیا ہے اور اس کی حقیقت کو تسلیم کیا ہےلیکن اسے ما بعد الطبیعات سے منسلک کیا ہے۔انسان اور کائنات کے بارے میں اسلامی تہذیب کا اساسی نقطہ یہ ہے کہ ان دونوں کی تخلیق میں ایک مقصدیت پائی جاتی ہے۔اسلامی نقطہ نظر سے انسان کا وجود بے مقصد ہے اور نہ ہی کائنات کی تخلیق وتنظیم بے سبب۔ارشاد باری تعالی ہے۔ أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لَا تُرْجَعُونَ * فَتَعَالَى اللَّهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيمِ) (المؤمنون 115-116)"کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم نے تمہیں فضول ہی پید اکیا ہےاور تمہیں ہماری طرف کبھی پلٹنا ہی نہیں ہے۔پس بالا وبرتر ہے باشاہ حقیقی۔کوئی اس کے سوا معبود نہیں ،مالک ہے عرش عظیم کا۔جبکہ جدید تہذیب مادہ پرست،قوم پرسی اور خود غرضی کے اصولوں پر استوار ہے۔اس تہذیب کے متعدد ایسے پہلو ہیں جن کا تنقیدی جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ زیر تبصرہ کتاب" تعلیم اور جدید تہذیبی چیلنج " دعوہ اکیڈمی اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے ڈائرکٹر جنرل محترم ڈاکٹر خالد علوی صاحب کی کاوش ہے ،جس میں انہوں نے تعلیم کے مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے تہذیب مگرب کے نقائص کو عیاں کیا ہے۔(راسخ)
ٹیپوسلطان برصغیرِ کا وہ اولین مجاہد آزادی اور شہید آزادی ہے جس نے آزادی کی پہلی شمع جلائی اور حریت ِفکر، آزادی وطن اور دینِ اسلام کی فوقیت و فضیلت کے لیے اپنی جان نچھاور کردی تھی، ٹیپوسلطان نے حق و باطل کے درمیان واضح فرق و امتیاز قائم کیا اور پرچم آزادی کو ہمیشہ کے لیے بلند کیا تھا۔ ٹیپوسلطان 1750 میں بنگلور کے قریب ایک قصبے میں پیدا ہوا ۔ٹیپوسلطان کا نام جنوبی ہندوستان کے ایک مشہور بزرگ حضرت ٹیپو مستان کے نام پر رکھا گیا تھا، ٹیپوسلطان کے آباؤ اجداد کا تعلق مکہ معظمہ کے ایک معزز قبیلے قریش سے تھا جو کہ ٹیپوسلطان کی پیدائش سے اندازاً ایک صدی قبل ہجرت کرکے ہندوستان میں براستہ پنجاب، دہلی آکر آباد ہوگیا تھا۔ٹیپوسلطان کے والد نواب حیدر علی بے پناہ خداداد صلاحیتوں کے حامل شخص تھے جو ذاتی لیاقت کے بے مثال جواں مردی اور ماہرانہ حکمت عملی کے سبب ایک ادنیٰ افسر ’’نائیک‘‘ سے ترقی کرتے ہوئے ڈنڈیگل کے گورنر بنے اور بعد ازاں میسور کی سلطنت کے سلطان بن کر متعدد جنگی معرکوں کے بعد خود مختار بنے اور یوں 1762 میں باقاعدہ ’’سلطنت خداداد میسور‘‘ (موجودہ کرناٹک) قائم کی۔ 20 سال تک بے مثال حکمرانی کے بعد نواب حیدر علی 1782 میں انتقال کرگئے اور یوں حیدر علی کے ہونہار جواں سال اور باہمت فرزند ٹیپوسلطان نے 1783 میں ریاست کا نظم و نسق سنبھالا۔دنیا کے نقشے میں ہندوستان ایک چھوٹا سا ملک ہے اور ہندوستان میں ریاست میسور ایک نقطے کے مساوی ہے اور اس نقطے برابر ریاست میں سولہ سال کی حکمرانی یا بادشاہت اس وسیع وعریض لامتناہی کائنات میں کوئی حیثیت و اہمیت نہیں رکھتی، مگر اسی چھوٹی اور کم عمر ریاست کے حکمران ٹیپوسلطان نے اپنے جذبے اور جرأت سے ایسی تاریخ رقم کی جو تاقیامت سنہری حروف کی طرح تابندہ و پایندہ رہے گی۔ ٹیپو کا یہ مختصر دور حکومت جنگ و جدل، انتظام و انصرام اور متعدد اصلاحی و تعمیری امور کی نذر ہوگیا لیکن اس کے باوجود جو وقت اور مہلت اسے ملی اس سے ٹیپو نے خوب خوب استفادہ کیا۔ٹیپوسلطان کو ورثے میں جنگیں، سازشیں، مسائل، داخلی دباؤ اور انگریزوں کا بے جا جبر و سلوک ملا تھا، جسے اس نے اپنی خداداد صلاحیتوں اور اعلیٰ حوصلے سے قلیل عرصے میں نمٹالیا، اس نے امور سیاست و ریاست میں مختلف النوع تعمیری اور مثبت اصلاحات نافذ کیں۔ صنعتی، تعمیراتی، معاشرتی، زرعی، سماجی اور سیاسی شعبوں میں اپنی ریاست کو خودکفیل بنادیا۔ فوجی انتظام و استحکام پر اس نے بھرپور توجہ دی۔ فوج کو منظم کیا، نئے فوجی قوانین اور ضابطے رائج کیے، اسلحہ سازی کے کارخانے قائم کیے، جن میں جدید ترین ٹیکنالوجی کے تحت اسلحہ اور پہلی بار راکٹ بھی تیار کیے گئے۔اور اس نے بحریہ کے قیام اور اس کے فروغ پر زور دیا، نئے بحری اڈے قائم کیے، بحری چوکیاں بنائیں، بحری جہازوں کی تیاری کے مراکز قائم کیے، فرانسیسیوں کی مدد سے اپنی فوج کو جدید خطوط پر آراستہ کیا، سمندری راستے سے تجارت کو فروغ بھی اس کے عہد میں ملا۔ ٹیپوسلطان جانتا تھا کہ بیرونی دنیا سے رابطہ ازبس ضروری ہے اسی لیے اس نے فرانس کے نپولین بوناپارٹ کے علاوہ عرب ممالک، مسقط، افغانستان، ایران اور ترکی وغیرہ سے رابطہ قائم کیا۔ٹیپو نے امن و امان کی برقراری، قانون کی بالادستی اور احترام کا نظام نہ صرف روشناس کرایا بلکہ سختی سے اس پرعملدرآمد بھی کروایا، جس سے رعایا کو چین و سکون اور ریاست کے استحکام میں مدد ملی۔ٹیپوسلطان کا یہ قول کہ ’’گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے‘‘ غیرت مند اور حمیت پسندوں کے لیے قیامت تک مشعل راہ بنا رہے گا۔ٹیپو سلطان اوائل عمر سے بہادر، حوصلہ مند اور جنگجویانہ صلاحیتوں کا حامل بہترین شہ سوار اور شمشیر زن تھا۔ علمی، ادبی صلاحیت، مذہب سے لگاؤ، ذہانت، حکمت عملی اور دور اندیشی کی خصوصیات نے اس کی شخصیت میں چار چاند لگادیے تھے، وہ ایک نیک، سچا، مخلص اور مہربان طبیعت ایسا مسلمان بادشاہ تھا جو محلوں اور ایوانوں کے بجائے رزم گاہ میں زیادہ نظر آتا تھا۔ وہ عالموں، شاعروں، ادیبوں اور دانشوروں کی قدر ومنزلت کرتا تھا، مطالعے اور اچھی کتابوں کا شوقین تھا، اس کی ذاتی لائبریری میں لا تعداد نایاب کتابیں موجود تھیں، ٹیپوسلطان وہ پہلا مسلمان حکمران ہے جس نے اردو زبان کو باقاعدہ فروغ دیا اور دنیا کا سب سے پہلا اور فوجی اخبار جاری کیا تھا۔اس کے عہد میں اہم موضوعات پر بے شمار کتابیں لکھی گئیں۔ زیر نظرکتاب ’’ ٹیپو سلطان (شیر میسور)‘‘ ایک انگریز مصنف سیموئیل سٹرینڈبرگ کی تصنیف ہے ۔جسے انگریزی سے اردو زبان میں محمد زاہد ملک نے ڈھالا ہے ۔اس کتاب میں ہندوستانی شہزادے ٹیپوسلطان کے تذکرہ پیش کیا گیا ہے۔ جس نے انگریزوں کے خلاف گراں قدر مزاحمت سرانجام دی۔ اس کی شدید مزاحمت سے انگریز بوکھلا گئے تھے ۔اللہ تعالیٰ موجود ہ حکمرانوں میں ٹیپو سلطان جیسی بہادر ی او رجذبۂ جہاد پیدا فرمائے ۔آمین( م۔ا)
کتاب اللہ اور سنت رسول ﷺدینِ اسلامی کے بنیادی مآخذ ہیں۔ احادیث رسول ﷺ کو محفوظ کرنے کے لیے کئی پہلوؤں اور اعتبارات سے اہل علم نے خدمات انجام دیں۔ تدوینِ حدیث کا آغاز عہد نبوی ﷺ سے ہوا صحابہ وتابعین کے دور میں پروان چڑھا او ر ائمہ محدثین کےدور میں خوب پھلا پھولا ۔مختلف ائمہ محدثین نے احادیث کے کئی مجموعے مرتب کئے او رپھر بعدمیں اہل علم نے ان مجموعات کے اختصار اور شروح ،تحقیق وتخریج او رحواشی کا کام کیا۔مجموعاتِ حدیث میں اربعین نویسی، علوم حدیث کی علمی دلچسپیوں کا ایک مستقل باب ہے ۔عبداللہ بن مبارک وہ پہلے محدث ہیں جنہوں نے اس فن پر پہلی اربعین مرتب کرنے کی سعادت حاصل کی ۔بعد ازاں علم حدیث ،حفاظت حدیث، حفظ حدیث اورعمل بالحدیث کی علمی او رعملی ترغیبات نے اربعین نویسی کو ایک مستقل شعبۂ حدیث بنادیا۔ اس ضمن میں کی جانے والی کوششوں کے نتیجے میں اربعین کے سینکڑوں مجموعے اصول دین، عبادات، آداب زندگی، زہد وتقویٰ او رخطبات و جہاد جیسے موضوعات پر مرتب ہوتے رہے ۔اس سلسلۂ سعادت میں سے ایک معتبر اور نمایاں نام ابو زکریا یحییٰ بن شرف النووی کا ہے جن کی اربعین اس سلسلے کی سب سے ممتاز تصنیف ہے۔امام نووی نے اپنی اربعین میں اس بات کا التزام کیا ہے کہ تمام تر منتخب احادیث روایت اور سند کے اعتبار سے درست ہوں۔اس کے علاوہ اس امر کی بھی کوشش کی ہے کہ بیشتر احادیث صحیح بخاری اور صحیح مسلم سے ماخوذ ہوں ۔اپنی حسن ترتیب اور مذکورہ امتیازات کے باعث یہ مجموعۂ اربعین عوام وخواص میں قبولیت کا حامل ہے انہی خصائص کی بناپر اہل علم نے اس کی متعدد شروحات، حواشی اور تراجم کیے ہیں ۔عربی زبان میں اربعین نووی کی شروحات کی ایک طویل فہرست ہے ۔ اردوزبان میں بھی اس کے کئی تراجم وتشریحات پاک وہند میں شائع ہوچکی ہیں ۔زیر نظر شرح بھی اسی سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے ۔جس میں احادیث کا ترجمہ فوائد وتشریح انڈیا کے جید عالم دین شیخ عبد الہادی عبد الخالق مدنی ﷾کی کاوش ہے۔انہوں نے آسان فہم انداز میں بھر پور ترجمانی کی ہے اورعلمی واصلاحی فوائد تحریر کیے ہیں ۔اس کتاب کی اہم خوبی ہرروایت کی تخریج کےساتھ ساتھ صحت وسقم کے اعتبار سے ہر روایت پر محدث العصر حالظ زبیر علی زئی کا نمایاں حکم ہے ۔نیز احادیث کے متن کے لیے دار المہناج بیروت سے شائع شدہ اربعین نووی کے محقق نسخے کو اصل قرار دیا گیا ہے ۔ جسے محققین نے تین قلمی نسخوں کی روشنی میں مرتب کیا ہے ۔اور اسی طرح فاضل نوجوان مولانا عبد اللہ یوسف ذہبی﷾ (ایم فل سکالر لاہور انسٹی ٹیوٹ فارسوشل سائنسز) نے اپنے رفقاء کے ساتھ بڑی محنت وجانفشانی سے اس کتاب کو خوب سے خوب تر بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی ہے ۔جس سے اس کتاب کی افادیت میں مزید اضافہ ہوگیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس کتاب کو طباعت کے لیے تیار کرنے والے تمام احباب کوجزائے خیر عطا فرمائے ، ان کی دین ِاسلام کی اشاعت وترویج کے لیے محنتوں کوقبول فرمائے اور اس کتاب کو عوام وخواص کی اصلاح کاذریعہ بنائے (آمین) (م۔ا)
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو بندوں کی رشد و ہدایت کے لیے نازل فرمایاہے۔،یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کیا جانے والا ایسا کلام ہے جس کے ایک ایک حرف کی تلاوت پر دس دس نیکیاں ملتی ہیں۔اور قرآن مجید کی درست تلاوت اسی وقت ہی ممکن ہو سکتی ہے، جب اسے علم تجویدکے قواعد وضوابط اوراصول وآداب کے ساتھ پڑھا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو ترتیل کے ساتھ پڑھنے کا حکم دیا ہے ۔لہٰذا قرآن کریم کو اسی طرح پڑھا جائے جس طرح اسے پڑھنے کا حق ہے۔اور ہرمسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ علمِ تجوید کے بنیادی قواعد سے آگاہی حاصل کرے۔فن تجوید پر اب تک عربی کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی بہت سارے رسائل و کتب لکھی جا چکی ہیں۔ جن سے استفادہ کرنا اردو دان طبقہ کے لئے اب نہایت سہل اور آسان ہو گیا ہے ۔ پیشِ نظر کتاب بھی انہی کتب میں ایک اضافہ ہے۔ زیر تبصرہ کتاب " شرح فوائد مکیہ "ماہر فن تجوید وقراءات قاری محمد عبد الرحمن مکی الہ آبادی کی معروف کتاب "فوائد مکیہ" کی شرح ہے۔اس کتاب میں مولف نے علم تجوید کے مسائل کو بیان کیا ہے۔ شائقین علم تجوید کے لئے یہ ایک مفید اور شاندار کتاب ہے،جس کا تجوید وقراءات کے ہر طالب علم کو مطالعہ کرنا چاہئے۔اللہ تعالی مولف کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
اسلام دینِ فطرت ہے ۔ اس نے انسان کےاجتماعی شعور کوملحوظ رکھا ہے ۔ اسلام انسانوں کے باہمی میل جول سے پیدا ہونے والی اجتماعیت کو نہ صرف تسلیم کرتا ہے ۔ بلکہ اس اجتماعیت کی نشو ونما میں معاونت کرتا ہے اوراسے ایسے فطری اصول دیتا ہے جن سے اجتماعیت کو تقو یت ملے۔ اوروہ اس کےلیے صالح بنیادیں فراہم کرت ہے اور ایسے عوامل کا قلع قمع کرتاہے جو اسے بگاڑ دیں یا محدود اور غیر مفید بنادیں ۔اور اسلام فرد کی انفرادیت کو بنیاد قرار دیتا ہے۔فرد اجتماعی زندگی کےلیے جو جمعیتیں بناتا ہے ۔اسلام اس کی حوصلہ افزائی اور ان کےلیے اصول وقوانین فراہم کرتا ہے ۔ اسلام کی پہلی اجتماعی اکائی اس کا خاندان ہےاس میں میاں بیوی، والدین،رشتہ دار ، ہمسائے اور پھر عام انسانی برادر شامل ہے ۔اسلام نے ان میں سے ہرایک کے متعلق تفصیلی احکام دئیے ہیں ۔اسلام کےمعاشرتی نظام کے کچھ بنیادی اصول اور خصوصیات ہیں جن پرسارا معاشرتی ڈھانچہ استوار ہے ۔اوراسلام کا دعویٰ ہے کہ انفرادی اور اجتماعی زندگی کےلیے جن اصولوں کی ضرورت تھی وہ اللہ تعالیٰ نے انسان کوسمجھائے اسے جس بنیادی فکر اور جس رہنمائی کی ضرورت تھی وہ رب العالمین نے مہیا کردی۔ انسانوں کا باہمی فکری اختلاف ان کا اپنا پیدا کردہ ہے ۔اللہ تعالیٰ نے انہیں فکری تشت نہیں دیا بلکہ فکری وحدت عطا کی تھی قرآن نے بڑے جامع الفاظ میں اسے بیان کیا ہے ۔كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللَّهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِين(البقرۃ:213)’’سب آدمی ایک ہی طریقے پر تھے ۔پھر اللہ تعالیٰ نےپیغمبروں کوبھیجا جو انہیں خوشخبری سناتےاور ڈراتے تھے ۔‘‘ اسلام ایک ایسا معاشرہ چاہتاہے جس میں خیر وشر کےپیمانے متعین ہوں۔کیوں کہ جس معاشرےمیں باہمی خیر کے قیام اور شر کےمٹانے کی سعی نہیں ہوتی وہ بالآخر ہلاک ہوجاتا ہے ۔ لہذا اسلام نے سب سے پہلے ان امور کی نشاندہی کی جو معاشرے کےلیے مہلک ثابت ہوتے ہیں ۔ اور وہ گناہ بھی بتائے جو فرد اور جماعت کے ایمان کو ضائع کردیتے ہیں۔ زیر نظر کتاب ’’اسلام کا معاشرتی نظام‘‘ڈاکٹر خالد علوی کی تصنیف ہے جس میں انہوں نے اسلام اور جدید معاشرتی نظریات کو بیان کرتے ہوئے اسلام کےان اصولوں کوبیان کیا ہے کہ جن اصولوں پر اسلام کامعاشرتی نظام قائم ہے۔ اور اپنی خصوصیات کی بدولت دنیا کے تمام معاشرتی نظاموں سےمختلف اور منفرد ہے ۔اسلام کامعاشرتی نظام خیر واصلاح ،طہارت وتقدس، ہمدردی وخیرخواہی اوراعتدال وتوازن پر قائم ہے ۔ اس نظام میں انسان کی انفرادی اور اجتماعی بہبود کاپورا انتطام موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اسلامی معاشرت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی تو فیق عطافرمائے۔آمین (م۔ا)
دنیا میں بسنے والےتمام لوگ ملاقات کے وقت اپنے اپنے مذہب ، تہذیب وتمدن اور اطوار اوخلاق کی بنا پر ایک دوسرے کے لیے نیک جذبات کا اظہار مختلف انداز میں کرتے ہیں ۔دین اسلام کی تعلیمات انتہائی اعلیٰ اور ممتاز ہیں۔ اسلام نے ملاقات کے وقت’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ او رجواباً وعلیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہنے کا حکم دیا ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے :’’ایک مسلمان کادوسرے مسلمان پر حق ہے کہ وہ اس کے سلام کا جواب دے (صحیح بخاری) سلام کے جہاں اللہ تعالیٰ کی رحمت طلب کرنے کے لیے دعائیہ کلمات ہیں وہاں آپس میں محبت واخوت بڑھانے کا ذریعہ اوراجنبیت کو ختم کرنے کا باعث بھی ہیں۔مسلمانوں کا آپس ملاقات کے وقت زبان سےسلام کہنے کے ساتھ ہاتھ سے مصافحہ کرنا ایسی عظیم سنت ہے کہ اس پر عمل کرنے سے دل سے حسد ،بغض، اور کینہ وغیرہ دورہو جاتاہے زیر نظر کتابچہ ’’سلام اور مصافحہ کے فضائل ومسائل‘‘ محترم مولانا محمداختر صدیق﷾(فاضل مدینہ یونیورسٹی و جامعہ لاہور ،لاہور ) کی کاوش ہے ۔اس کتابچہ میں انہوں نے قرآن حدیث کی روشنی سلام اور مصافحہ کی اہمیت وفضیلت اوراس کے احکا م ومسائل کوبڑے احسن انداز میں بیان کرنے کےبعد دوہاتھوں سے مصافحہ کرنے کی بھی وضاحت کی ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس کتابچہ کو عوام الناس کےلیےنفع بخش بنائے۔مصنف کتاب ماشاء اللہ ایک اچھے واعظ مترجم ومصنف ہونےکے ساتھ ساتھ کامیاب مدرس بھی ہیں موصوف مدینہ یونیورسٹی سے فراغت کے بعد اپنی مادرِ علمی جامعہ لاہور الاسلامیہ ،عبد اللہ بن مسعود اسلامک سنٹر اور لاہور میں بچیوں کی ایک معروف درسگاہ میں کچھ عرصہ تدریسی خدمات پیش کرنے کے علاوہ مجلس التحقیق الاسلامی ، اور مکتبہ اسلامیہ ،لاہور میں تحقیق وتصنیف اور ترجمہ کا کام بھی کرتے رہے ہیں۔ موصوف کئی کتب مکتبہ اسلامیہ کی طرف سے شائع ہوچکی ہیں ۔ان دنوں سعودی عرب میں جالیات کے ادارے میں بطور واعظ ومترجم اپنی خدمات پیش کررہے ہیں۔اللہ تعالیٰ ان کے علم وعمل او رزور ِقلم میں اضافہ فرمائے (آمین) (م۔ا)
نظام قدرت کی یہ عجیب نیرنگی اور حکمت ومصلحت ہےکہ یہاں ہر طرف اور ہر شے کے ساتھ اس کی ضد اور مقابل بھی پوری طرح سے کارفرما اور سر گرم نظر آتا ہے۔حق وباطل،خیر وشر،نوروظلمت،اور شب وروز کی طرح متضاد اشیاء کے بے شمار سلسلے کائنات میں پھیلے ہوئے ہیں۔اور تضادات کا یہ سلسلہ مذاہب ،ادیان اور افکار واقدار تک پھیلا ہوا ہے،اور ان میں بھی حق وباطل کا معرکہ برپا ہے۔تاریخ اسلام کے مطالعہ سے یہ افسوسناک حقیقت سامنے آتی ہے کہ اسلام کو خارجی حملوں سے کہیں زیادہ نقصان اس کے داخلی فتنوں ،تحریف وتاویل کے نظریوں ،بدعت وتشیع ،شعوبیت وعجمیت اور منافقانہ تحریکوں سے پہنچا ہے،جو اس سدا بہار وثمر بار درخت کو گھن کی طرح کھوکھلا کرتی رہی ہیں ،جن میں سر فہرست شیعیت اور رافضیت کی خطرناک اور فتنہ پرور تحریکیں ہیں ۔جس نے ایک طویل عرصے سے اسلام کے بالمقابل اور متوازی ایک مستقل دین ومذہب کی شکل اختیار کر لی ہے۔ زیر تبصرہ کتاب " شیعیت کا آپریشن " محترم محمود اقبال کی تصنیف ہے۔جس میں انہوں نے شیعہ کے عقائد ونظریات کے متعلق بڑی اچھی بحث کی ہے اور بڑی جامعیت کے ساتھ ان کی شاخوں ،،عقائد،ان کی تحریفات وتاویلات،تاریخ اسلام میں ان کے منفی وظالمانہ،تقیہ کے تحت ان کے مخفی خیالات سے حقیقت پسندانہ انداز میں پردہ اٹھایا ہے۔یہ کتاب اس اہم موضوع پر بڑی جامع اور شاندار کتاب ہے اور اردو کے دینی وتاریخی لٹریچر کے ایک خلا کی بڑی حد تک تکمیل کرتی ہے۔اللہ تعالی مولف کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور تمام مسلمانوں کو اس قدیم فتنے سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین(راسخ)
طالب الہاشمی ۱۹۲۲ء میں ضلع سیالکوٹ میں پیدا ہوئے اور ۱۶ فروری ۲۰۰۸ء کو لاہور میں وفات پائی ۔جناب طالب ہاشمی ان خوش نصیب ہستیوں میں سے تھے جنہیں اللہ تعالیٰ اپنے دین کی خدمت کے لیے چن لیتا ہے۔موصوف ایک بلند پایہ مصنف ، خوبصورت نثر نگار، اور علم و ادب کے نکتہ شناس تھے بہت سے علمی و تاریخی موضوعات کے علاوہ ان کا سب سے محبوب موضوع تحریر و تصنیف اصحاب رسولﷺ و کا تذکرہ جمیل ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اس موضوع پر کام کرنے کا انہوں نے حق ادا کر دیا (جتنا کہ انسانی استطاعت میں ہے) اس موضوع پر ان کا کام اپنی کیفیت و کمیت کے اعتبار سے اتنا دقیع اور وزنی ہے کہ شاید کوئی ایک ادارہ بھی اتنا کام نہ کر سکتا جتنا اکیلے انہوں نے کیا، اللہ تعالیٰ اسے قبول فرمائے۔ ان کے کام کی قبولیت کی ایک علامت تو خود ان کی کتابوں کی بے پناہ مقبولیت ہے ۔ بہت کم مصنف ایسے ہوں گے جن کی تصانیف کو ایسا قبول عام حاصل ہوا ہو۔ اسے ان کے خلوص کا ثمرہ بھی کہا جا سکتا ہے۔اس کے علاوہ دیگر موضوعات پر بھی ان کی تصانیف بڑی تعداد میں ہیں۔زندگی کے آخری برسوں میں انہوں نے شاید اپنی زندگی کی سب سے بڑی سعادت حاصل کی کہ سیرت پاک پر ایک متوسط ضخامت کی ایسی کتاب تالیف فرمائی جو خاص طور پر نوجوان نسل کے لیے سر مایہ ہدایت ہے اگرچہ اس سے ہر عمر کا انسان یکساں کسبِ فیض کر سکتاہے۔ متوسط کتب سیرت میں یہ کتاب ایک اہم حیثیت رکھتی ہے ۔بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے بھی انہوں نے بطور خاص بہت قیمتی سرمایہ فراہم کیا جو زیادہ تر کہانیوں کی شکل میں ہے ۔ جناب طالب ہاشمی کی چھوٹی بڑی تصنیفات کی تعداد ۱۲۰ تک پہنچتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مغفرت کاملہ سے نوازے اور ان کی خدمات کا انہیں بہترین اجر عطا فرمائے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’یہ تیرے پُر اسرار بندے ‘‘ طالب الہاشمی کی تصنیف ہے ۔جس میں 80 صحابہ کرام اور 40 مشاہیر امت کا دلنشیں تذکرہ ہے ۔اصحاب صفہ کے عمومی حالات ان کے علاوہ ہیں۔ یہ کتاب اس قدر مقبولیت کی حامل ہے کہ اس کے تقریبا 12 ایڈییشن شائع ہوچکے ہیں ۔۔اللہ تعالیٰ طالب الہاشمی کی کاوشو ں کو قبول فرمائے اور اہل اسلام کو صحابہ کرام جیسی زندگی بسر کرنے کی توفیق عطافرمائے۔آمین(م۔ا)
کلمات قرآنیہ کی کتابت کا ایک بڑا حصہ تلفظ کے موافق یعنی قیاسی ہے،لیکن چند کلمات تلفظ کے خلاف لکھے جاتے ہیں اور رسم کے خلاف اس معروف کتاب کو رسم عثمانی یا رسم الخط کہا جاتا ہے۔تمام اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قرآن مجید کو رسم عثمانی کے مطابق لکھنا واجب اور ضروری ہے ،اور اس کے خلاف لکھنا ناجائز اور حرام ہے۔لہذا کسی دوسرے رسم الخط جیسے ہندی، گجراتی، مراٹھی، ملیالم، تمل، پنجابی، بنگالی، تلگو، سندھی، فرانسیسی، انگریزی ،حتی کہ معروف وقیاسی عربی رسم میں بھی لکھنا جائز نہیں ہے،کیونکہ یہ درحقیقت کتاب اللہ کے عموم و اطلاق، نبوی فرمودات، اور اجماع صحابہ و اجماعِ امت سے انحراف ہے ۔ زیر تبصرہ کتاب " قرآنی معلومات اور تحقیق "دراصل علم قراءات کے امام علامہ دانی کی علم الرسم پر لکھی گئی مایہ ناز کتاب"المقنع"کا اردو ترجمہ ہے۔ترجمہ کرنے کے سعادت محترم پروفیسر عبد الرزاق صاحب نے حاصل کی ہے۔امام دانی نے اس کتاب میں رسم عثمانی کے قواعد وضوابط کو بیان کیا ہے۔یہ کلمات قرآنیہ کے رسم الخط پر مبنی ایک منفرد کتاب ہے۔ جس میں حذف، زیادت، ہمزہ، بدل اور قطع ووصل وغیرہ جیسی مباحث کو بیان کیا گیا ہے۔ یہ کتاب اگرچہ طلباءکے لیے لکھی گئی ہے ،لیکن اپنی سہولت اور سلیس عبارت کے پیش نظر طلباء اور عوام الناس سب کے لیے یکساں مفید ہے۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور اسے ان کے درجات کی بلندی کا ذریعہ بنائے۔آمین(راسخ)
روزہ اسلام کا ایک بنیادی رکن ہے اور رمضان المبارک اسلامی سال کا نواں مہینہ ہے یہ مہینہ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں،برکتوں، کامیابیوں اور کامرانیوں کا مہینہ ہے ۔اپنی عظمتوں اور برکتوں کے لحاظ سے دیگر مہینوں سے ممتاز ہے ۔رمضان المبارک وہی مہینہ ہےکہ جس میں اللہ تعالیٰ کی آخری آسمانی کتاب قرآن مجید کا نزول لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر ہوا۔ ماہ رمضان میں اللہ تعالی جنت کے دروازے کھول دیتا ہے او رجہنم کے دروازے بند کردیتا ہے اور شیطان کوجکڑ دیتا ہے تاکہ وہ اللہ کے بندے کو اس طر ح گمراہ نہ کرسکے جس طرح عام دنوں میں کرتا ہے اور یہ ایک ایسا مہینہ ہے جس میں اللہ تعالی خصوصی طور پر اپنے بندوں کی مغفرت کرتا ہے اور سب سے زیاد ہ اپنے بندوں کو جہنم سے آزادی کا انعام عطا کرتا ہے۔رمضان المبارک کے روضے رکھنا اسلام کےبنیادی ارکان میں سے ہے نبی کریم ﷺ نے ماہ رمضان اور اس میں کی جانے والی عبادات ( روزہ ،قیام ، تلاوت قرآن ،صدقہ خیرات ،اعتکاف ،عبادت لیلۃ القدر وغیرہ )کی بڑی فضیلت بیان کی ہے ۔روزہ کے احکام ومسائل سے ا گاہی ہر روزہ دار کے لیے ضروری ہے ۔لیکن افسوس روزہ رکھنے والے بیشتر لوگ ان احکام ومسائل سےلا علم ہوتے ہیں،بلکہ بہت سے افراد تو ایسے بھی ہیں جو بدعات وخرافات کی آمیزش سے یہ عظیم عمل برباد کرلینے تک پہنچ جاتے ہیں ۔ کتبِ احادیث میں ائمہ محدثین نے کتاب الصیام کے نام سے باقاعدہ عنوان قائم کیے ۔ اور کئی علماء اور اہل علم نے رمضان المبارک کے احکام ومسائل وفضائل کے حوالے سے کتب تصنیف کی ہیں ۔ زیر نظر کتاب’’ رمضان المبارک کے فضائل واحکام‘‘شارح مشکاۃ مولانا عبید اللہ محدث مبارکپوری کی تالیف لطیف ہے ۔اس میں ماہِ رمضان کے احکام ومسائل بڑے آسان فہم انداز میں مختصر مگر جامع بیان کیے گئے ہیں۔
آج کے بچے کل کے بڑے ہوتے ہیں، اس لئے زندہ اور باشعور قومیں اپنے نونہالوں کی تربیت کا آغاز ان کے بچپن ہی سے کردیتی ہیں۔یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ بچوں کو فطری طور پر کہانیاں سننے اور کہانیاں پڑھنے کا بہت شوق ہوتا ہے۔اس لئے کہانیاں بچوں کی سیرت وکردار کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی بچوں کے لئے لکھی گئی کتابوں کا سیلاب آیا ہوا ہے،لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ان میں سے بیشتر کتابیں چڑیلوں،جانوروں،جاسوسوں،چوروں اور ڈاکوؤں وغیرہ کی فرضی داستانوں کی بھر مار ہوتی ہے۔ان کو پر کشش بنانے کے لئے تصویروں اور عمدہ گیٹ اپ کا سہارا لیا جاتا ہے۔یہ دلچسپ تو ہوتی ہیں لیکن بچوں کے ذہنوں پر کوئی اچھا اور مفید اثر نہیں ڈالتی ہیں،الٹا ان کے خیالات اور افکار کو گدلا کرنے کا سبب بنتی ہیں۔چنانچہ امر کی شدید ضرورت محسوس کی جارہی تھی کہ بچوں کے ایسی کتب لکھی جائیں جو مفید ہونے کے ساتھ ان کی تربیت کا بھی ذریعہ ہوں۔ زیر تبصرہ کتاب" یمن کا سورما اور دوسری کہانیاں "محترم طالب ہاشمی صاحب کی کاوش ہے ۔جس میں انہوں نے اس کمی کو دور کرنے کی مقدور بھر کوشش کی ہےاور بامقصد اور دلچسپ کہانیوں پر مشتمل کتب لکھنے کا آغاز کیا ہے۔اور یہ کتاب اس سلسلے کی تیسری کڑی ہے۔ اس سے پہلے دو کتابیں"چاندی کی ہتھکڑی اور دوسری کہانیاں"اور "قسمت کا سکندر اور دوسری کہانیاں" چھپ کر بچوں میں مقبولیت حاصل کر چکی ہیں۔اگرچہ اب میدان میں اور بھی متعدد کتب چھپ کر منظر عام پر آ چکی ہیں۔اس کتاب میں انہوں نے احادیث سے ماخوذ واقعات کے ساتھ ساتھ ایسی تاریخی یا نیم تاریخی کہانیاں قلمبند کی ہیں جن سے کوئی نہ کوئی اخلاقی سبق ملتا ہےیامعلومات میں اضافہ ہوتا ہے۔یہ اگرچہ کوئی تحقیقی یا علمی کتاب نہیں ہے لیکن سائٹ پر بچوں سے متعلقہ مواد نہ ہونے کے سبب اسے بچوں کے بطور تحفہ پیش کیا جارہا ہے۔(راسخ)
شیخ محمد اکرام (1908۔1971ء)چک جھمرہ (ضلع لائل پور ) میں پیدا ہوئے۔ گورنمٹ کالج لاہور اور آکسفورڈ میں تعلیم پائی ۔ 1933ء میں انڈین سول سروس میں شامل ہوئے اور سوات ، شولا پور، بڑوچ اور پونا میں اعلٰی انتظامی عہدوں پر فائز رہے۔ آپ پونا کے پہلے ہندوستانی کلکٹر اور دسٹرکٹ مجسٹریٹ تھے۔ قیام پاکستان کے بعد اطلاعات اور نشریات کے ڈپٹی سیکرٹری مقرر ہوئے۔ پھر وزارت اطلاعات و نشریات کے جائنٹ سیکرٹری اور بعد میں کچھ مدت کے لیے سیکرٹری کے عہدے پر فائز ہوئے۔ 1955ء سے 1957ء تک مشرقی پاکستان میں متعین رہے ، پہلے کمشنر ڈھاکہ اور پھر ممبر بورڈ آف ریونیو کی حیثیت سے ۔1958ء تک محکمہ اوقاف کے ناظم اعلیٰ پاکستان مقرر ہوئے۔دفتری کاموں کے ساتھ ساتھ ادبی سرگرمیاں بھی جاری رہیں۔ ہندی مسلمانوں کی ثقافتی اور مذہبی تاریخ لکھی جو تین جلدوں میں شائع ہوئی۔ آب کوثر ، رود کوثر ، موج کوثر ، غالب اور شبلی کے سوانح بھی مرتب کیے۔ برصغیر پاک و ہند کی فارسی شاعری کا ایک مجموعہ ارمغان پاک مرتب کیا۔ جو1950 ء میں شائع ہوا۔ علمی خدمات کی بنا پر حکومت ایران نے آپ کو نشان سپاس اور حکومت پاکستان نے ستارہ امتیاز کے اعزازات عطا کیے۔ پنجاب یونیورسٹی کی طرف سے ڈاکٹر آف لٹریچر کی اعزازی ڈگری ملی۔ زیر تبصرہ کتاب’’ موج کوثر‘‘شیخ محمد اکرام کی تصنیف ہے ۔اور یہ سلسلۂ کوثر کی تیسری او رآخری کڑی ہے جوسن 1800ء سے لے کر قیام پاکستان تک کی اہم مذہبی ،فکری اور قومی تحریکوں اور ان کے زعماء وقائدین کے حالات کو کوائف پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کے مطالعے سے مسلمانانِ برصغیر پاک وہند کی گزشتہ ڈیڑھ سوسال کی علمی تہذیبی ،ثقافتی اور اسلامی وملی تاریخ نکھر کر سامنے آجاتی ہے اور اس دور کی تحریکوں اور نمایاں شخصیتوں کےبارے میں ضروری معلومات حاصل ہوجاتی ہیں۔بعض احباب کی فرمائش پر یہ کتاب پبلش کی گئی ہے ۔(م۔ا)
قرآن مجید اللہ تعالی کی طرف سے نازل کی جانے والی کتب سماویہ میں سے سب سے آخری کتاب ہے ۔جسےاللہ تعالی نے امت کی آسانی کے لئے سات حروف پر نازل فرمایا ہے۔ یہ تمام کے تمام ساتوں حروف عین قرآن اور منزل من اللہ ہیں۔ان تمام پرایمان لانا ضروری اور واجب ہے،اوران کا انکار کرنا کفر اور قرآن کا انکار ہے۔اس وقت دنیا بھر میں سبعہ احرف پر مبنی دس قراءات اور بیس روایات پڑھی اور پڑھائی جارہی ہیں۔اور ان میں سے چار روایات (روایت قالون،روایت ورش،روایت دوری اور روایت حفص)ایسی ہیں جو دنیا کے کسی نہ کسی حصے میں باقاعدہ رائج اور متداول ہیں،عالم اسلام کے ایک بڑے حصے پر قراءت امام عاصم بروایت حفص رائج ہے، جبکہ مغرب ،الجزائر ،اندلس اور شمالی افریقہ میں قراءت امام نافع بروایت ورش ، لیبیا ،تیونس اور متعدد افریقی ممالک میں روایت قالون عن نافع ،مصر، صومالیہ، سوڈان اور حضر موت میں روایت دوری عن امام ابو عمرو بصری رائج اور متداول ہے۔ہمارے ہاں مجلس التحقیق الاسلامی میں ان چاروں متداول روایات(اور مزید روایت شعبہ) میں مجمع ملک فہد کے مطبوعہ قرآن مجید بھی موجود ہیں۔عہد تدوین علوم سے کر آج تک قراءات قرآنیہ کے موضوع پر بے شمار اہل علم اور قراء نے عربی و اردو میں کتب تصنیف فرمائی ہیں اور ہنوز یہ سلسلہ جاری وساری ہے۔ زیر نظر کتاب '' قراءۃ حضرت امام نافع بہ روایت سیدنا قالون " مدرسہ عربی،خیر المدارس ملتان کے استاذ شیخ القراء واستاذ الاساتذہ محترم قاری رحیم بخش بن فتح محمد صاحب پانی پتی کی ایک منفرد اور شاندار تالیف ہے۔جس میں مولف نے امام نافع مدنی کے راوی امام قالون کی روایت کو انتہائی آسان اور سہل انداز میں پیش کیا ہے۔قاری رحیم بخش صاحب نے قراءسبعہ میں سے ہر قاری کے دونوں رواۃ کی روایتوں کو الگ الگ رسالے میں قلم بند کیا ہے،اور آپ کے یہ رسالے اتنے محقق اور مستند ہیں کہ راقم نے جمع کتابی کے پروجیکٹ پر کام کرنے کے دوران ان کا متعدد بار مطالعہ کیا مگر ان میں کوئی سہو اور غلطی نظر نہ آئی۔ مولف موصوف علم قراءات کے میدان میں بڑا بلند اور عظیم مقام ومرتبہ رکھتے ہیں۔آپ نے علم قراءات پر متعددعلمی وتحقیقی کتب تصنیف فرمائی ہیں۔ اللہ تعالی قراء ات قرآنیہ کے حوالے سے سر انجام دی گئی ان کی ان خدمات جلیلہ کو قبول فرمائے۔آمین(راسخ)
قرآن مجید پوری انسانیت کے لیے کتاب ِہدایت ہے او ر اسے یہ اعزاز حاصل ہے کہ دنیا بھرمیں سب سے زیاد ہ پڑھی جانے والی کتاب ہے ۔ اسے پڑھنے پڑھانے والوں کو امامِ کائنات نے اپنی زبانِ صادقہ سے معاشرے کے بہتر ین لوگ قراردیا ہے اور اس کی تلاوت کرنے پر اللہ تعالیٰ ایک ایک حرف پرثواب عنایت کرتے ہیں۔ دور ِصحابہ سے لے کر دورِ حاضر تک بے شمار اہل علم نے اس کی تفہیم وتشریح اور ترجمہ وتفسیرکرنے کی خدمات سر انجام دیں اور ائمہ محدثین نے کتبِ احادیث میں باقاعدہ ابواب التفسیر کے نام سےباب قائم کیے۔آٹھویں صدی ہجری کے مؤرخ ومفسر حافظ عماد الدین بن عمر المعروف حافظ ابن کثیر نےایک تفسیر ’’تفسیر القرآن العظیم‘‘ تحریر فرمائی جس کواللہ تعالیٰ نے قبول امت کا درجہ عطا فرمایا جس میں امام ابن کثیر نے اپنے وقت کے تمام ذرائع بروئے کار لاکر اس میں احادیث وآثار کے علاوہ بنی اسرائیل کی روایات سے بعض قصص بھی نقل کیے ۔ اس تفسیر کو بلاشبہ ہر دور میں بےحد قبول عام حاصل ہوا۔ اصل عربی کتاب لاکھوں کی تعداد میں شائع ہوچکی ہے ۔ہندوستان کے مختلف اہل علم نے اس کا اردوزبان میں ترجمہ کیا جن میں مولانا محمدجوناگڑھی کےترجمہ کو بڑی مقبولیت حاصل ہے اسی ترجمہ کو آج تک شائع کیا جارہا ہے ۔تفسیر ابن کثیر کا ایک ترجمہ مولانا محمدداود راغب رحمانی نے الفضل الکبیر کےنام سے کیا اور دس جلدوں میں شائع کیا۔ زیر تبصرہ کتاب’’تفسیر السراج المنیر تلخیص تفسیر ابن کثیر‘‘ در اصل الفضل االکبیر ترجمہ تفسیر ابن کثیر اردو کی تلخیص وتہذیب ہے ۔ الفضل الکبیرکی تلخیص وتہذیب اور اس میں اضافہ کا یہ اہم کام ہندوسنان کے معروف عالم دین حال مقیم سعودی عرب جناب مولانا ابو الاشبال احمد شاغف ﷾نے انجام دیا ہے ۔المکتبۃ السلفیۃ،لاہور نے اسے دو ضخیم جلدوںمیں حسن طباعت سےآراستہ کیا ہے ۔ اس تفسیر میں فقہی مسائل اورائمہ کےاختلافات بیان کرنے سے امکانی حد تک احتراز کیا گیا ہے تاکہ عام مسلمانوں تک اللہ اوراس کےرسول اللہ ﷺ کی سیدھی سیدھی باتیں پہنچ جائیں۔اور اس میں تفسیر بالرائے سے قطعی اجتناب کیا گیا ہے کیونکہ اللہ کے رسول نےتفسیر بالرائے سے منع فرمایا ہے ۔ قارئین کرام مطالعہ کرنے کے بعد تفسیر السراج المنیرکو ایک مستقل تفسیر خیال فرمائیں گے ۔ان شاء اللہ (م۔ا)
آج کے بچے کل کے بڑے ہوتے ہیں، اس لئے زندہ اور باشعور قومیں اپنے نونہالوں کی تربیت کا آغاز ان کے بچپن ہی سے کردیتی ہیں۔یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ بچوں کو فطری طور پر کہانیاں سننے اور کہانیاں پڑھنے کا بہت شوق ہوتا ہے۔اس لئے کہانیاں بچوں کی سیرت وکردار کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی بچوں کے لئے لکھی گئی کتابوں کا سیلاب آیا ہوا ہے،لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ان میں سے بیشتر کتابیں چڑیلوں،جانوروں،جاسوسوں،چوروں اور ڈاکوؤں وغیرہ کی فرضی داستانوں کی بھر مار ہوتی ہے۔ان کو پر کشش بنانے کے لئے تصویروں اور عمدہ گیٹ اپ کا سہارا لیا جاتا ہے۔یہ دلچسپ تو ہوتی ہیں لیکن بچوں کے ذہنوں پر کوئی اچھا اور مفید اثر نہیں ڈالتی ہیں،الٹا ان کے خیالات اور افکار کو گدلا کرنے کا سبب بنتی ہیں۔چنانچہ امر کی شدید ضرورت محسوس کی جارہی تھی کہ بچوں کے ایسی کتب لکھی جائیں جو مفید ہونے کے ساتھ ان کی تربیت کا بھی ذریعہ ہوں۔ زیر تبصرہ کتاب" قسمت کا سکندر اور دوسری کہانیاں"محترم طالب ہاشمی صاحب کی کاوش ہے ۔جس میں انہوں نے اس کمی کو دور کرنے کی مقدور بھر کوشش کی ہےاور بامقصد اور دلچسپ کہانیوں پر مشتمل کتب لکھنے کا آغاز کیا ہے۔ اور یہ کتاب اس سلسلے کی دوسری کڑی ہے۔اس سے پہلے " چاندی کی ہتھکڑی اور دوسری کہانیاں "نامی ایک کتاب چھپ کر بچوں میں مقبولیت حاصل کر چکی ہے۔ اگرچہ اب میدان میں اور بھی متعدد کتب چھپ کر منظر عام پر آ چکی ہیں۔اس کتاب میں انہوں نے احادیث سے ماخوذ واقعات کے ساتھ ساتھ ایسی تاریخی یا نیم تاریخی کہانیاں قلمبند کی ہیں جن سے کوئی نہ کوئی اخلاقی سبق ملتا ہےیامعلومات میں اضافہ ہوتا ہے۔یہ اگرچہ کوئی تحقیقی یا علمی کتاب نہیں ہے لیکن سائٹ پر بچوں سے متعلقہ مواد نہ ہونے کے سبب اسے بچوں کے بطور تحفہ پیش کیا جارہا ہے۔ (راسخ)