جادو کرنا یعنی سفلی اور کالے علم کے ذریعہ سے لوگوں کے ذہنوں او رصلاحیتوں کو مفلوج کرنا او ران کو آلام ومصائب سے دوچار کرنے کی مذموم سعی کرنا ایک کافرانہ عمل ہے یعنی اس کا کرنے والا دائرہ اسلام سے نکل جاتا اورکافر ہوجاتا ہے یہ مکروہ عمل کرنے والے تھوڑے سے نفع کے لیے لوگوں کی زندگیوں سے کھیلتے اور ان کے امن وسکون کوبرباد کرتے ہیں جولوگ ان مذموم کاروائیوں کا شکار ہوتے ہیں وہ عام طور پر اللہ کی یاد سے غافل ہوتے ہیں۔ او رلوگ اللہ کی طرف رجوع کرنے کی بجائےاپنے مصائب ومشکلات کے وقت دکھوں تکلیفوں کے مداوا اور غموں وپریشانیوں سے نجات کے ساتھ ساتھ سعادت ونیک بختی ،کامیابی کوکامرانی ،دولت کےحصول اورجاہ وحشمت کی طلب کےلیے مارے مارے عاملوں او رنجومیوں کے آستانوں پر ماتھے رگڑتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ ان نجمیوں نے ہر ہر خاندان میں پھوٹ ، عداوت ، دشمنی بغض اور حسد وکینہ کے بیج بودیے ہیں۔ ماں کوبیٹے، بہن کو بھائی اورباپ کو اولاد کا دشمن بنا چھوڑا ہے۔ انسانیت ان کی مذموم شیطانی کارستانیوں ،سیاہ کاریوں اور بدکاریوں سے جان بلب ہے اور کسی ایسی راہنمائی کی متلاشی ہے جوان کےدکھوں کا مدوا ثابت ہوسکے ، ان کے دین وایمان اور مادی دولت کےساتھ ساتھ ان کی عزت وناموس کی حفاظت کا بھی باعث بن سکے۔ زیر تبصر ہ کتاب ’’نجومیوں کی سیاہ کاریاں‘‘ جناب یحییٰ علی﷾ کی کاوش ہےجس میں انہوں نے امت کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ کر مرض کی درست تشخیص کی ہے او رنجومیوں کے ہاتھوں بر باد انسانیت اور زخمی روحوں کےزخموں پرشافی مرحم رکھا ہے۔ اوران کوان سفاک بہروپیوں کےجال سےنکالنے کی کامیاب کوشش کی ہے ۔قارئین عاملوں ، نجومیوں کی سیاہ کاریوں کوجاننےاور ان سے اپنے آپ اور دوسروں کے عقیدہ وایمان اور دولت وعزت کو بچانے کے لیے اس کتا ب سے ستفادہ کریں۔ اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطافرمائےمحترم محمد طاہر نقاش ﷾ کو اور ان کے علم وعمل ،کاروبار میں برکت او ران کو صحت وتندرستی والی زندگی عطائے فرمائے کہ انہوں نے اپنے ادارے’’ دار الابلاغ‘‘ کی مطبوعات مجلس التحقیق الاسلامی کی لائبریری اور کتاب وسنت ویب سائٹ پر پبلش کرنے کے لیے ہدیۃً عنائت کی ہیں۔ آمین(م۔ا)
حقیقی مومن سچی طلب ، محبت، عبودیت ، توکل، خوف وامید،خالص توجہ او رہمہ وقت حاجت مندی کی کیفیت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے پھر وہ اللہ کے رسول کی طرف رجوع کرتا ہے ۔ دریں صورت کہ اس کی ظاہر ی وباطنی حرکات وسکنات شریعت محمدی کے مطابق ہوں ۔ یہی وہ شریعت ہے جو اللہ تعالیٰ کی پسند اور مرضی کی تفصیل کواپنے اندر سموئے ہے ۔اللہ تعالیٰ اس کے علاوہ کوئی ضابطہ حیات قبول نہیں کرے گا۔ ہر وہ عمل جو اس طریقۂزندگی سے متصادم ہو وہ توشۂ آخرت بننے کی بجائے نفس پرستی کا مظہر ہوگا۔ جب ہرپہلو سے سعادت مندی شریعت محمدیہ پر موقوف ہے تو اپنی خیر خواہی کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اپنی زندگی کے تمام لمحات اس کی معرفت اورطلب کے لیے وقف کردے۔ زیر نظر کتاب ’’ خوشی نصیبی کی راہیں‘‘ امام ابن قیم الجوزیہ کی کتاب ’’طریق الہجرتین وباب السعادتین‘‘ کا ترجمہ وتلخیص ہے امام موصوف نے اس کتاب میں رجوع الی الرسول کےبنیادی خدوخال سمونے کی کی کوشش کی ہے اور اس کی ابتدا فقر وحاجت مندی اور بندگی سےکی ہے کہ یہ سعادت کا وہ دروازہ اور سیدھا راستہ ہےکہ خوشی نصیبی کے حصول کےلیے صرف اسی میں داخل ہوا جاسکتا ہے ۔ اور کتاب کا اختتام مکلف مخلوق جن وانس کے آخرت میں طبقات اور خوش بختی یا بد بختی کےگھر میں ان کےمراتب کےبیان پر کیا ہے ۔ترجمہ تلخیص کاکام جناب ڈاکٹر حافظ شہباز حسن صاحب نے انجام دیا ہے ڈاکٹر صاحب نےعبارات کا مفہوم پوری دیانت داری اور بھر پور محنت سے اردو میں منتقل کیا ہے ۔اس کتاب میں تلخیص کے عام انداز اکو اختیار نہیں کیا گیا تاکہ ترجمے کو تحقیقی مقالات میں حوالہ جات کےلیے بھی استعمال کیا جاسکے ۔خطباء کی سہولت کے لیے کتاب وسنت کےدلائل کو تلخیص میں سمونے کی بھر پور کوشش کی گئی ہے ۔ تلخیص کرتے وقت جہاں عبارت ،پیراگراف یا صفحات حذف کیے گئے ہیں ان کی نشاندہی نقاط لگا کر دی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کتاب کو امت مسلمہ کے لیے فائدہ مند او ر بنائے اورمترجم وناشر کی اس کاوش کوشرف قبولیت سے نوازے۔ (آمین) (م۔ا)
کسی بھی چیزکی فضیلت وشرافت کبھی اس کی عام نفع رسانی کی وجہ سے ظاہر ہوتی ہے اور کبھی ا سکی شدید ضرورت کی وجہ سے سامنے آتی ہے۔ انسان کی پیدائش کے فورا بعد اس کے لئے سب سے پہلے علم کی ہی ضرورت کو محسوس کیا گیا۔اور علم ہی کے بارے میں اللہ فرماتا ہے:"تم میں سے جو لو گ ایمان لائے اور جنہیں علم عطاکیا گیا اللہ ان کے درجات کوبلند کر ے گا"۔پھر اللہ کے نزدیک علم ہی تقویٰ کامعیار بھی ہے ۔نبی کریم نے فرمایا: علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔ اردو میں تعلیم کا لفظ، دو خاص معنوں میں مستعمل ہے ایک اصطلاحی دوسر ے غیر اصطلاحی ، غیر اصطلاحی مفہوم میں تعلیم کا لفظ واحد اور جمع دونوں صورتوں میں استعمال ہو سکتا ہے اور آدرش ، پیغام ، درسِ حیات، ارشادات، ہدایات اور نصائح کے معنی دیتا ہے۔ جیسے آنحضرت کی تعلیم یا تعلیمات ، حضرت عیسیٰ کی تعلیم یا تعلیمات اور شری کرشن کی تعلیمات، کے فقروں میں ، لیکن اصطلاحی معنوں میں تعلیم یا ایجوکیشن سے وہ شعبہ مراد لیا جاتا ہے جس میں خاص عمر کے بچوں اور نوجوانوں کی ذہنی اور جسمانی نشوونما، تخیلی و تخلیقی قوتوں کی تربیت و تہذیب ، سماجی عوامل و محرکات ، نظم و نسق مدرسہ، اساتذہ ، طریقہ تدریس ، نصاب ، معیار تعلیم ، تاریخ تعلیم ، اساتذہ کی تربیت اور اس طرح کے دوسرے موضوعات زیر بحث آتے ہیں۔علامہ اقبال کے تعلیمی تصورات یا فلسفہ تعلیم کے متعلق کتب و مقالات کی شکل میں اب تک جو کچھ لکھا گیا ہے اس میں تعلیم کے اصطلاحی مفہوم سے کہیں زیادہ تعلیم کے عام مفہوم کوسامنے رکھاگیا ہے۔ یعنی جو کچھ لکھا گیا ہے اس میں درس و تدریس ، تعلیم یا طلبہ و مدارس کے توسط سے پیدا ہونے والے مسائل سے بحث کرنے کے بجائے عام طور پر وہی باتیں کہی گئی ہیں جواقبال کے فکرو فن یا فلسفہ خودی و بےخودی یا تصور فرد و جماعت کے حوالے سے ، ان کو ایک بزرگ مفکر یا عظیم شاعر ثابت کرنے کے لئے کہی جاتی ہیں ، حالانکہ ان باتوں کا تعلق ، تعلیم کے اصطلاحی مفہوم سے نہیں بلکہ تعلیم کے اس عام مفہوم سے ہے جس کے دائرے میں ہر بزرگ اور صاحبِ نظر فلسفی یا شاعر کا پیغام درس حیات آ جاتا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب" تعلیم کے بنیادی مباحث " محترم ڈاکٹر وحید قریشی کی تصنیف ہے جس میں انہوں نے تعلیم کے حوالے سے انہی مباحث کو قلم بند کیا ہے۔اور تعلیم کے بنیادی مقاصد کو متعین کرنے کی کوشش کی ہے۔(راسخ)
زیر تبصرہ کتاب" تہذیب النسواں وتربیۃ الانسان " ریاست بھوپال کی ملکہ نواب شاہجہان بیگم صاحبہ کی تصنیف ہے جو انہوں نے انتہائی اخلاص کے ساتھ خاندان بھوپال کی مستورات اور بیگمات کی تعلیم وتربیت اور راہنمائی کے لئے مرتب کی تھی۔اس دور کے اہل علم وفضل اور اصحاب تحقیق نے اسے نہایت پسند فرمایا اور اصلاح نسواں کے لئے اس کو بڑا مفید قرار دیا۔مصنفہ موصوفہ نے اس کتاب میں عورتوں کی امراض،ادویہ گھٹی،عقیقہ،تقریبات،غذا ولباس،بیماری وعلاج،منت ونذر،توہمات،ادعیہ،تربیت،والدین کا برتاو،گھر کی آرائش،زیورات،تعلیم،فنون سپہ گری،کھانا پکانا،کپڑا سینا،کپڑا رنگنا،ازدواجی تعلقات،حقوق الزوجین،نکاح وطلاق وخلع،عدت،تیمارداری،تعزیت،موت،جزع وفزع،تجہیز وتکفین،سوگ ،خیرات،مقبرہ،زیارت قبور وغیرہ کو نہایت عمدگی سے بحوالہ نصوص واحادیث سلیس عبارت میں بڑی شرح وبسط کے ساتھ تحریر کیا ہے۔آپ ایک پڑھی لکھی اور دیندار خاتون تھیں ۔آپ نے اس کے علاوہ بھی کئی کتب لکھی ہیں جن میں سے تاج الاقبال ،خزینۃ اللغات،مثنوی صدق البیان ،تنظیمات شاہجہانیہ اور تاج الکلام قابل ذکر ہیں۔ یہ کتاب اگرچہ شاہی خاندان کی عورتوں کے لئے لکھی گئی تھی مگریہ اس قابل ہے کہ تمام پڑھی لکھی خواتین کو چاہئے کہ وہ اس کا مطالعہ کریں اور اپنی خانگی زندگی میں اس سے فائدہ اٹھائیں۔بارگاہ الہی میں دعا ہے کہ وہ مصنفہ کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور ان کے درجات حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
دنیا میں بے شمار مصلحین پیدا ہوئے ۔ بہت سے اصلاحی اورانقلابی تحریکیں اٹھیں مگر ان میں سے ہر ایک نے انسان کے خارجی نظام کو تو بدلنے کی کوشش کی لیکن اس کے اندرون کو نظر انداز کردیا۔ مگر نبی کریم ﷺ کی تحریک میں شامل ہونے والا انسان باہر کے ساتھ ساتھ اندر سے بھی بدل گیا اور کلیۃً بدل گیا۔جو لوگ آپﷺ کی دعوت پر لبیک کہتے گئے وہ آپ کی تربیت پاکر کندن بنتے گئے۔ اسلام کی آغوش میں آنے والے ہر شخص کے اندر ایسا کردار نمودار ہوا جس کی نظیر تاریخِ انسانی پیش کرنے سے قاصر ہے۔ تمام مخلوقات میں سے انسان ہی وہ خوش نصیب مخلوق ہے جس کی ہدایت اور تربیت کےلیے ایک طرف وحی والہام کی تعلیمات فراہم کی گئیں ، تو دوسری طرف ان تعلیمات کا ایک نمونہ کامل او رجامع اسوہ انبیاء ورسل کی صورت میں پیش کیا گیا۔ اورانسان ایک ایسا حیوانِ ناطق ہے جو تربیت کے مراحل سے گزر کر اشرف المخلوقات اوراخلیفۃ اللہ فی الارض بن سکتا ہے ۔ بصورت دیگر وہ جانوروں سے بدتر خصائل ورزائل کاشکار ہو کر قرآنی الفاظ میں اسفل السافلین کے زمرے میں شمار ہوتا ہے۔ خاتم النبین محمد ﷺ انسانیت کی اصلاح وتربیت کے لیے دائمی نمونۂ عمل کےبطور مبعوث کیے گئے توقرآن مجید نے ان کےحق میں ’’لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ‘‘ کی حجت پیش کی۔ تزکیہ وتربیت فرائض نبوت میں سے ہے ۔ یہی بات ہے کہ سیرت پیغمبرﷺ میں کسی ریاست کےاجتماعی معاملات کی درستی سے لے کر انفرادی آداب کی تلقین اور آموزش شامل ہے۔ اسی تربیت کے نتیجے میں عقائد صحیحہ اور اعمال صالحہ کی وہ لازوال نعمت میسر آتی ہے جو دین ودنیا میں فوز وفلاح کاسب سے بڑا سامان ہے۔ زیر نظر کتاب ’’محبتیں الفتیں‘‘ جناب مولانا سراج الدین ندوی کی تصنیف ہے ۔جس میں نے انہو ں تاریخ وسیرت کی کتب کا گہرائی سے مطالعہ کر کے نبی کریم ﷺکی آغوش میں جو کردار پروان چڑھے او ران نکات واصولوں کوپیش کیا ہے جو رسول اللہﷺ کردادر سازی میں پیش نظر رکھتے تھے۔ اور جسے رسول اللہ ﷺ نے عملی اعتبار سے صحابہ کرام کے تزکیہ وتربیت کے لیے استعمال کیا تو وہ خیر القرون کے مثالی انسان بن گئے۔ اس کتاب کا مطالعہ اسلامی معاشرے کے ہر فرد کےلیے ضروری ہے کہ تاکہ رسول اللہﷺ کے اصولِ تربیت کی روشنی میں نئی نسل کی اصلاح وتربیت کا عظیم کام انجام دیا جاسکے ۔اللہ تعالیٰ اس کتاب کو تمام اہل اسلام کےلیے نفع بخش بنائے او ر اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطافرمائےمحترم محمد طاہر نقاش ﷾ کو اور ان کے علم وعمل ،کاروبار میں برکت او ران کو صحت وتندرستی والی زندگی عطائے فرمائے کہ انہوں نے اپنے ادارے’’ دار الابلاغ‘‘ کی مطبوعات مجلس التحقیق الاسلامی کی لائبریری اور کتاب وسنت ویب سائٹ پر پبلش کرنے کے لیے ہدیۃً عنائت کی ہیں۔ آمین(م۔ا)
اسلام نے عورت کو وہ بلند مقام دیا ہے جو کسی بھی دوسرے مذہب نے نہیں دیا ہے۔دنیا کے مختلف مذاہب اورقوانین کی تعلیمات کا مقابلہ اگر اسلام کے اس نئے منفرد وممتازکردار(Role)سے کیا جائے، جو اسلام نے عورت کے وقار واعتبار کی بحالی، ا نسانی سماج میں اسے مناسب مقام دلانے، ظالم قوانین، غیر منصفانہ رسم و رواج اور مردوں کی خود پرستی، خود غرضی اور تکبر سے اسے نجات دلانے کے سلسلہ میں انجام دیا ہے، تو معترضین کی آنکھیں کھل جائیں گی، اور ایک پڑھے لکھےاورحقیقت پسند انسان کو اعتراف و احترام میں سر جھکا دینا پڑیگا۔اسلام میں مسلمان عورت کا مقام بلند اور مؤثر کردار ہے،اور اسے بےشمار حقوق سے نوازا گیا ہے۔اسلام نے عورتوں کی تمدنی حالت پر نہایت مفید اور گہرا اثر ڈالا۔ ذلت کے بجائے عزت ورفعت سےسرفراز کیا اور کم و بیش ہر میدان میں ترقی سے ہم کنار کیا چنانچہ قرآن کا ”وراثت وحقوق نسواں“ یورپ کے ”قانون وراثت“اور ”حقوق نسواں“ کے مقابلہ میں بہت زیادہ مفید اور فطرت نسواں کے زیادہ قریب ہے۔ عورتوں کے بارے میں اسلام کے احکام نہایت واضح ہیں، اس نے عورتوں کو ہر اس چیز سے بچانے کی کوشش کی ہے جو عورتوں کو تکلیف پہنچائے اور ان پر دھبہ لگائے۔ اسلام میں پردہ کا دائرہ اتنا تنگ نہیں ہے جتنا بعض لوگ سمجھتے ہیں، بلکہ وہ عین حیا اور غیرت ووقار کا تقاضہ ہے۔زیر تبصرہ کتاب " اسلام میں عورت کے حقوق "ہندوستان کے معروف عالم دین سید جلال الدین عمری کی کاوش ہے جس میں انہوں نے حقوق نسواں کے حوالے سے مغرب کے اسلام پر کئے گئے اعتراضات کی حقیقت کو واضح کرتے ہوئے مغرب کے دوہرے معیار کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔اس میں انہوں نے آزادی نسواں کا مغربی تصور اور اس کے نتائج پر زبر دست بحث کی ہے۔اللہ تعالی ان کی اس کاوش کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے۔آمین(راسخ)
امام بخاری کی شخصیت اور ان کی صحیح بخاری کسی تعارف کی محتاج نہیں سولہ سال کے طویل عرصہ میں امام بخاری نے 6 لاکھ احادیث سے اس کا انتخاب کیا اور اس کتاب کے ابواب کی ترتیب روضۃ من ریاض الجنۃ میں بیٹھ کر فرمائی اور اس میں صرف صحیح احادیث کو شامل کیا ۔ حدیث نبوی کے ذخائر میں صحیح بخاری کو گوناگوں فوائد اورمنفرد خصوصیات کی بنا پر اولین مقام اور اصح الکتب بعد کتاب الله کا اعزاز حاصل ہے ۔بلاشبہ قرآن مجید کےبعد کسی اور کتاب کو یہ مقام حاصل نہیں ہوا ۔ صحیح بخاری کو اپنے زمانہ تدوین سے لے کر ہردور میں یکساں مقبولیت حاصل رہی ۔ائمہ معاصرین اور متاخرین نے صحیح بخاری کی اسانید ومتون کی تنقید وتحقیق وتفتیش کرنے کے بعد اسے شرف قبولیت سےنوازا اوراس کی صحت پر اجماع کیا ۔ اسی شہرت ومقبولیت کی بناپر ہر دور میں بے شماراہل علم اور ائمہ حدیث ننے مختلف انداز میں صحیح بخاری کی شروحات لکھی ہیں ان میں فتح الباری از ابن حافظ ابن حجر عسقلانی کو امتیازی مقام حاصل ہے ۔ زیر نظر کتا ب’’ تفہیم القاری اردو ترجمہ وتوضیح ارشاد القاری ‘‘ محدث العصر حافظ محمد گوندلوی کی ’’ارشاد القاری الی نقد فیض الباری ‘‘ کی پہلی جلد کا اردو ترجمہ ہے ۔ارشاد القاری الی نقد فیض الباری چار جلدوں میں طبع ہوچکی جو کہ حافظ محمد گوندلوی اوران کے تلمیذ رشید حافظ عبد المنان نوری رحمہما اللہ کا علمی شاہکار ہے۔ارشاد القاری کے مطالعہ سے ایک طرف حدیث نبوی کی عظمت اور منہج سلف کی پاسداری ظاہر ہوتی ہے تو دوسری طرف حدیث نبوی پر جو تقلیدی رنگ چڑھانے کی سعی نامشکور کی گئی ہے اسکو قرآن وحدیث کے دلائل کے ساتھ صاف کردیاگیا ہے اور حدیث نبوی کی حقیقت کوخوب آشکار کیا گیا ہے شاہ صاحب نے جس رنگ ڈھنگ سے کلام کی اور جہاں کہیں اپنی طرف سےفنی اوراصولی بحث کر کے بڑا نکتہ بیان کیا۔حافظ گوندلوی اور نورپوری نے اسی انداز سےاس پر نقد کیا ہے اور اسی فنی اور اصولی بحث کی حقیقت کوبیان کرتے ہوئے اس کا صحیح معنی ومفہوم بتایاہے۔ارشاد القاری چونکہ عربی زبان میں تھی جسے طلبہ اور عام علماء کےلیے سمجھنا دشوا ر تھا ۔ حافظ عبد المنان نوری کے شاگرد خاص مولانا محمد طیب محمدی صاحب نے ارشاد القاری کی تفہیم کے لیے اس کے ترجمہ کاآغاز کیا اور صرف ایک ہی جلد کاترجمہ کر کے شائع کیا جو ان کی بہت بڑی کاوش ہے ۔اللہ تعالیٰ ان کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور انہیں ارشاد القاری کا مکمل ترجمہ وتوضیح کرنے کی توفیق دے (آمین)( م۔ا)
انسان شروع سےہی اس دنیا میں تمدنی او رمجلسی زندگی گزارتا آیا ہے پیدا ہونے سے لے کر مرنے تک اسے زندگی میں ہر دم مختلف مجلسوں سے واسطہ پڑتا ہے خاندان ،برادری اور معاشرے کی یہ مجالس جہاں ا س کے اقبال میں بلندی ،عزت وشہرت میں اضافے او ر نیک نامی کا باغث بنتی ہیں وہیں اس کی بدنامی ،ذلت اور بے عزتی کاباعث بنتی ہیں انسان کو ان مجلسوں میں شریک ہو کر کیسا رویہ اختیار کرناچاہیے کہ جو اسے لوگوں کی نظروں میں ایسا وقار اور عزت وتکریم والا مقام بخش دے کہ لوگ اس کے مرنے کے بعد بھی اسے یادرکھیں ۔دنیا میں کچھ مجلسیں اور محفلیں ایسی ہوتی ہیں کہ ان میں شریک ہو کر انسان اپنے دامن کوسعادت مندی کے موتیوں سے بھر لیتا ہے ۔ اجر وثواب اور اللہ تعالیٰ کی رضا وخوشنودی کا حقدار ٹھہرتا ہے۔ او رکچھ مجلسیں ایسی ہوتی ہیں جن میں شریک ہونا اس کے لیے بدبختی کاباعث بن جاتا ہے او ر اس جھولی میں موجود پہلے موتی بھی بکھر کر ضائع ہوجاتے ہیں ۔ یوں پھولوں اور کلیوں کی بجائے وہ کانٹوں کا حقدار ٹھہرتا ہے۔اور جس طرح باغات اپنے پھلوں سے پہنچانے جاتے ہیں، پھول کلیاں، خواہ وہ چنبیلی ہو یا گلاب، اپنی خوشبو سے پہنچانے جاتے ہیں۔ خاندان اپنے افراد کے رویوں سے پہنچانے جاتے ہیں، اسی طرح مجالس اپنے شرکاء سے پہنچانی جاتی ہیں، خواہ وہ مجالس مردوں کی ہوں یاخواتین کی ۔ اگرمجالس میں حاضری اور کار گزاری کا ماحاصل مثبت، پسندیدہ ،مہذب اورافرادو معاشرے کےلیے باعث نفع و راحت ہو توسمجھا جاتا ہے کہ یہ مجلس قابل تعریف وستائش ہے ۔اگر مجلس اس کے برعکس ہوتو اس کو ہمیشہ برے الفاظ سے یاد کیا جاتا ہے اور اس کے شرکاء کو کوئی بھی تحسین بھری نظروں اور پسندیدگی سے نہیں دیکھتا، بلکہ خود بھی ایسی مجلس سے بچتا ہے اور اپنے قریبی افراد اور اپنے خاندان کو بھی اس سے بچانے کی بھر پور کوشش کرتا ہے۔خاص طور پر جب یہ مجالس خواتین کی ہوگی تو معاملہ مزید احتیاط طلب ہوجائے گا۔ خواتین کی مجالس اس لیے بھی زیادہ اہمیت کی حامل ہوتی ہیں کہ یہ خواتین کے مستقل رویوں پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ اور ان مجالس کے خواتین پر مرتب ہونے والے اثرات آخر دم تک قائم رہتے ہیں ، اور پھر یہی اثرات اس کی نسل آئندہ آنے والے خاندان اور بچوں میں منتقل ہوجاتے ہیں۔ اگر یہ اثرات مثبت ہوں گے تو صحت مند افکار ونظریات کی حامل صالح نسل پروان چڑھے گی ورنہ مجرم اور دنگا وفساد کی دلدادہ نسل سامنے آئے گی۔ زیر نظر کتاب ’’مجالس خواتین‘‘ محمد امین بن مرزا عالم کی تصنیف ہے جس میں انہوں نے بڑے احسن انداز میں اس بات کو واضح کیا ہے کہ ایک مسلمان بہن کو کس طرح کی مجلس میں شرکت کرنی چاہیے؟اور اچھی اور بری مجالس کی پہچان کس طرح کی جائے ؟نیک مجالس کے ثمرات اور بری مجالس کےنقصانات کیا ہیں؟ اورمجالس قائم کرنے کے مقاصد کیا ہونے چاہئیں؟ اور خواتین اپنی مجالس کوزیادہ سےزیادہ موزروں اور فائدہ مند کیسے بناسکتی ہیں؟ مزید برآں مصنفہ نے بعض غیر موزوں مجالس کی نشاندہی کرتے ہوئے یہ بھی بتایا کہ خواتین کو کس طرح کی مجالس میں شریک ہونے سے بچنا چاہیے۔ یہ کتاب خواتین کے لیے انتہائی لائق مطالعہ ہے۔ اس کتاب سے استفادہ کرکے خواتین یہ جان سکتی ہیں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کی پسندیدہ مجالس میں شریک ہوکر ایک مسلمان خاتون خاتونِ اسلام سےلے کر خاتون ِجنت تک کےمراحل طے کرسکتی ہے؟۔اللہ اس کتاب کو خواتین ِاسلام کے لیے نفع بخش بنائے اور اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطافرمائےمحترم محمد طاہر نقاش ﷾ کو اور ان کے علم وعمل ،کاروبار میں برکت او ران کو صحت وتندرستی والی زندگی عطائے فرمائے کہ انہوں نے اپنے ادارے’’ دار الابلاغ‘‘ کی مطبوعات مجلس التحقیق الاسلامی کی لائبریری اور کتاب وسنت ویب سائٹ پر پبلش کرنے کے لیے ہدیۃً عنائت کی ہیں۔ آمین( م۔ا)
یہ دعوی بے بنیاد اور تاریخ کی تحریف ہےکہ اصحاب رسول ﷺ اور آل رسول ﷺ ایک دوسرے کی دشمنی دل میں چھپائے ہوئے تھے ۔ بلکہ وہ تو کافروں پر بڑے سخت اور آپس میں ایک دوسرے پر حم کرتے تھے ۔اور ان کے درمیان محبت ومودت تھی، ایک دوسرے کااحترام واکرام تھا اور وہ ایک دوسرے کی ثناخوانی میں رطب اللسان تھے ان کے درمیان رشتے داری اور سسرالی رشتہ تھا وہ دین کی سربلندی کرنے ،رسول اللہﷺ کی مدد کرنے اورکافروں کے خلاف جہاد کرنے میں شریک تھے۔اور یہ بات ہر ایک کومعلوم ہے کہ اصحاب رسول ﷺ اورآل رسول سب اہل فضل اورافضل لوگ ہیں۔ زیر نظر کتاب ’’ آل رسول واصحاب رسول ایک دوسرے کے ثنا خواں ‘‘ ایک عربی کتاب ’’ الثناء المتبال بین الآل والاصحاب ‘‘ کا اردو ترجمہ ہے جس میں آل رسول کی طرف سے صحابہ کرام کی تعریف وتوصیف اور صحابہ کرام کی طرف سے آل رسول کی تعریف وتوصیف کے سلسلے میں نصوص پیش کیے گئے ہیں۔جس کے مطالعہ سے یہ بات واضح طور پر معلوم ہوجاتی ہے کہ آل رسول اور اصحاب رسول اپنے دلوں میں ایک دوسرے سے محبت ومودت اور عزت رکھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ مترجم وناشرین کی اس کاوش کوقبول فرمائے اوراس کتاب کو امت مسلمہ کے لیے آل رسولﷺ واصحاب رسول ﷺسے محبت اور ان کی عزت واحترام کرنے کا ذریعہ بنائے (آمین)(م۔ا)
عربی زبان ایک زندہ وپائندہ زبان ہے۔ اس میں ہرزمانے کے ساتھ چلنے کی صلاحیت موجود ہے۔ اس زبان کو سمجھنے اور بولنے والے دنیا کے ہر خطے میں موجودہیں ۔عربی زبان وادب کو سیکھنا اور سکھانا ایک دینی وانسانی ضرورت ہے کیوں کہ قرآن کریم جوانسانیت کے نام اللہ تعالیٰ کا آخری پیغام ہے اس کی زبان بھی عربی ہے۔ عربی زبان معاش ہی کی نہیں بلکہ معاد کی بھی زبان ہے۔ اس زبان کی نشر واشاعت ہمارا مذہبی فریضہ ہے۔ اس کی ترویج واشاعت میں مدارس عربیہ اور عصری جامعات کا اہم رول ہے ۔عرب ہند تعلقات بہت قدیم ہیں اور عربی زبان کی چھاپ یہاں کی زبانوں پر بہت زیادہ ہے۔ہندوستان کا عربی زبان وادب سے ہمیشہ تعلق رہا ہے۔ یہاں عربی میں بڑی اہم کتابیں لکھی گئیں اور مدارس اسلامیہ نے اس کی تعلیم وتعلم کا بطور خاص اہتمام کیا۔لیکن عربی زبان کو اس وقت تک سیکھنا ناممکن ہے جب تک اس کے اصول وقواعد اور اس کی گرائمر (نحو وصرف)کو نہ سیکھ لیا جائے۔عہد تدوین سے لیکر آج تک عربی گرائمر(نحو وصرف) پر عربی واردو زبان میں مختصر ،معتدل،مغلق اور مطول ہر طرح کی بے شمار کتب لکھی جاچکی ہیں۔عربی گرائمر (نحو وصرف)کی سب سے مربوط اور مستند کتاب امام ابن مالک اندلسی کی "الفیہ ابن مالک"ہے۔اہل عرب میں یہ کتاب بڑی مشہور اور معروف ہےاور لوگوں کے ہاں اسے مقبولیت حاصل ہے۔اس کی تصنیف کے بعد علماء نحو نے دوسری کتب تصنیف کرنے کی بجائے اسی پر کام کرنے کو اہمیت دی اور اس کی متعدد شروحات لکھیں۔ان شروحات میں سے سب سے مقبول ترین شرح "شرح ابن عقیل "ہے۔جس میں انہوں نے انتہائی آسان انداز میں الفیہ کو حل کر دیا ہے۔زیر تبصرہ کتاب " آسان الفیہ وشرح ابن عقیل " بھی الفیہ ابن مالک اور شرح ابن عقیل کی اردو زبان میں تسہیل ہے،جو جامعہ سلفیہ فیصل آباد کے سابق اور جامعہ عربیہ جی ٹی روڈ گوجرانوالہ کے حالیہ استاذ محترم جاوید انور صدیقی صاحب ﷾کی کاوش ہے۔موصوف ایک عرصہ سے ایک مدارس میں ابن عقیل پڑھاتے رہے ہیں اور انہوں نے اپنے ان تجربات کی روشنی میں اسے اردو میں نہائت سہل انداز میں پیش کر دیا ہے۔اللہ تعالی ان کی اس محنت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
انسان کی خصلت ہے کہ وہ نسیان سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔ اس کے تحت وہ دانستہ یا نادانستہ گناہ کر بیٹھتا ہے ۔ بہترین انسان وہ ہے جسے گناہ کے بعد یہ احساس ہو جائے کہ اس سے غلطی ہوگئی ہے ۔ اگر اس نے توبہ نہ کی تویہ غلطی اس کے خالق ومالک کو اس سے ناراض کردے گی۔ اس سےاپنے معبود ومالک کی ناراضگی کسی صورت بھی برداشت نہیں ہوتی۔ اسی لیے وہ فوری طور پر اللہ کریم کے دربار میں حاضر ہوکر گڑگڑاتا ہے اور وہ آئندہ ایسے گناہ نہ کرنے کا پکا عزم کرتےہوئے توبہ کرتا ہے کہ اے مالک الملک اس مرتبہ معاف کردے آئندہ میں ایسا کبھی نہ کروں گا۔گناہ کے بعد ایسے احساسات اور پھر توبہ کے لیے پشیمانی وندامت پر مبنی یہ عمل ایک خوش نصیب انسان کےحصہ میں آتا ہے۔ جب کہ اس جہاںمیں کئی ایسے بدنصیب سیاہ کار بھی ہیں جن کوزندگی بھر یہ احساس نہیں ہوتا کہ ان کا مالک ان سے ناراض ہوچکا ہے اور وہ ہیں کہ دن رات گناہ کرتے چلےجاتےہیں اور رات کوگہری نیند سوتے ہیں یا مزید گناہوں پر مبنی اعمال میں مصروف رہ کر گزار دیتے ہیں۔جبکہ اللہ کریم اس وقت پہلے آسمان پر آکر دنیا والوں کوآواز دیتا ہے کہ: اے دنیاوالو! ہےکوئی جو مجھ سے اپنے گناہوں کی مغفرت طلب کرے ... ہے کوئی توبہ کرنے والا میں اسے ا پنی رحمت سے بخش دوں...؟۔ بہت کم ایسے خوش نصیب ہیں کہ جن کو مرنے سے قبل توبہ کی توفیق نصیب ہوتی ہے اور وہ گناہوں بھر زندگی سےتائب ہوکر ہدایت کوروشن شاہراہ پر سفر کرتے ہیں، پھر شیطان لعین اورانسا ن نما شیاطین کےحملوں سےبچ کر باقی زندگی گزارتے ہیں ۔ اور یوں اللہ کریم کو خوش کرنے کے بعد جنتوں کےحقدار بن جاتے ہیں۔ زیر نظر کتاب ’’گناہوں کی دلدل میں ‘‘خالد ابو صالح کی عربی تصنیف کا ترجمہ ہےاردو قالب میں ڈھالنے فرائض حافظ محمد عباس انجم گوندلوی ﷾ نےانجام دئیے ہیں۔تاریک زندگیوں کو تابناک اور پر نور لمحات میں بدلنے والے یہ مبارک لمحات ہی اس کتاب میں بیان کئے گئے ہیں۔اس کتاب میں ان لوگوں کی زندگیوں کانقشہ کھینچا گیا ہے کہ جنہوں نے اللہ اور اس کےرسول ﷺسے نافرمانی کی بنا پرجنگ چھیڑرکھی تھی۔ وہ مسلسل نافرمانی اور سیاہ کاری کی بنا پر جہنم کےکناروں تک پہنچ چکے تھے ، اور ان سے کوئی ایسا عمل سر زد ہوگیا کہ رحمت ایزدی جو ش میں آگئی ، ان کی ادا رب کریم کو پسند آگئی اوراس نے اپنی رحمت سے ان کی زندگی میں ایک خاموش عظیم انقلاب کے ذرائع پیدا کردیے ۔گناہوں کےسمندر میں ڈوبنے کےبعد ہدایت پانیوالوں کی روشن ایمان افروز اور دلوں کوتڑپا دینے والی داستانیں ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کر رہی ہیں کہ ہم کس طرح زندگی گزار رہے اور ہمیں کس طرح زندگی گزارنی چاہئے؟ کہ جس سے معاشرہ بھی ہمیں عزت کی نگاہ سے دیکھے، دنیا بھی ہر اعتبار سے کامیاب ہو ، آخرت میں جہنم سےنجات اور اللہ کی رضا وخوشنودی کاپروانہ بھی مل جائے ۔ گناہوں کےسمندر میں ڈوبنے کےبعد ہدایت پاکر ایمان کےساحلوں پر زندہ پہنچ جانےوالوں کی ایمان افروز داستانوں پر مشتمل یہ کتاب جنت چاہنے اور گناہوں سے بچنے خواہش مندوں کےلیے ایک تحفہ ہے۔اللہ تعالیٰ مصنف ،مترجم اور ناشر کی کاوشوں کو قبول فرمائے ۔ اور اس کتاب کو اہل ایمان کی زندگیوں میں تبدیلی کا ذریعہ بنائے اور اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطافرمائےمحترم محمد طاہر نقاش ﷾ کو اور ان کے علم وعمل ،کاروبار میں برکت او ران کو صحت وتندرستی والی زندگی عطائے فرمائے کہ انہوں نے اپنے ادارے’’ دار الابلاغ‘‘ کی مطبوعات مجلس التحقیق الاسلامی کی لائبریری اور کتاب وسنت ویب سائٹ پر پبلش کرنے کے لیے ہدیۃً عنائت کی ہیں۔آمین(م۔ا)
قرآن مجید واحد ایسی کتاب کے جو پوری انسانیت کےلیے رشد وہدایت کا ذریعہ ہے اللہ تعالی نے اس کتاب ِہدایت میں انسان کو پیش آنے والےتما م مسائل کو تفصیل سے بیان کردیا ہے جیسے کہ ارشادگرامی ہے کہ و نزلنا عليك الكتاب تبيانا لكل شيء قرآن مجید سیکڑوں موضوعا ت پرمشتمل ہے۔مسلمانوں کی دینی زندگی کا انحصار اس مقدس کتاب سے وابستگی پر ہے اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک اسے پڑ ھا اور سمجھا نہ جائے۔اس عظیم الشان کتاب نے تاریخِ انسانی کا رخ موڑ دیا ہے ۔ دنیابھر کی بے شمار جامعات،مدارس ومساجد میں قرآن حکیم کی تعلیم وتبلیغ اور درس وتدریس کا سلسلہ جاری ہے۔جس کثرت سے اللہ تعالیٰ کی اس پاک ومقدس کتاب کی تلاوت ہوتی ہے دنیا کی کسی کتاب کی نہیں ہوتی ۔ مگر تعجب وحیرت کی بات ہے کہ ہم میں پھر بھی ایمان وعمل کی وہ روح پیدا نہیں ہوتی جو قرآن نےعرب کے وحشیوں میں پیدا کر دی تھی۔ یہ قرآن ہی کا اعجاز تھا کہ اس نے مسِ خام کو کندن بنادیا او ر ایسی بلند کردار قوم پیدا کی جس نے دنیا میں حق وصداقت کا بول بالا کیا اور بڑی بڑی سرکش اور جابر سلطنتوں کی بساط اُلٹ دی ۔ مگڑ افسوس ہے کہ تاریخ کے یہ حقائق افسانۂ ماضی بن کر رہ گئے ۔ ہم نے دنیا والوں کواپنے عروج واقبال کی داستانیں تو مزے لے لے کر سنائیں لیکن خود قرآن سے کچھ حاصل نہ کیا ۔جاہل تو جاہل پڑھے لوگ بھی قرآن سےبے بہرہ ہیں۔قرآن کریم کو سمجھنے اور سمجھانے کے بنیادی اصول اور ضابطے یہی ہیں کہ قرآن کریم کو قرآنی اور نبوی علوم سےہی سمجھا جائے۔ یہ علوم قرآن کریم سے علیحدہ نہیں ۔ انہی کی پابندی کتاب اللہ کوتورات وانجیل کی طرح کھیل نہیں بننے دے گی۔اور نہ ہی تحریف کی من مانی روش کوشہ ملے گی۔الزام ترشیوں سے بچنے اور اپنے میلانات کی اصلاح کے لیے قرآن کی صحیح خدمت تبھی ہوسکے گی۔ زیر تبصرہ کتاب’’قرآن کریم اور چند مباحث‘‘ میں انہی ضابطوں اوراصولوں کودلائل سے پیش کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ قرآن کریم کے صحیح فہم ممکن ہو اور ایک علمی واعتقادی رشتہ قرآن کریم سے مزید استوار ہو۔یہ کتاب قرآن مجید کے تعارف،اور جملہ علوم قرآنی کی معرفت کے لیے سلسلے میں ایک آسان فہم انداز میں مرتب شدہ عمدہ کتاب ہے اور طالبانِ قرآن کےلیے نادر تحفہ ہے ۔ صاحب کتاب ڈاکٹر محمد ادریس زبیرفہم قرآن اور خواتین کی دینی تعلیم تربیت کے لیے کوشاں معروف ادارے ’’ دار الہدیٰ‘‘ کی سربراہ ڈاکٹر فرہت ہاشمی صاحبہ کے شوہر ہیں ۔ موصوف کا ملتان کے ایک علمی خانوادے سے تعلق ہے درس ِنظامی کے بعد پنجاب یونیورسٹی سے ایم عربی کی ڈگری حاصل کی۔ 1983ءانٹرنیشنل یونیورسٹی اسلام آباد کے کلیۃ الدین سے منسلک ہوگئے ۔1989ء میں گلاسگو یونیورسٹی سے علم حدیث میں ڈاکٹریٹ کیا عربی، اردو، انگریزی زبان میں بہت سے آرٹیکلز لکھنے کے علاوہ چند کتب کے مصنف بھی ہیں اللہ تعالیٰ ان کےعلم وعمل میں برکت فرمائے (آمین)(م۔ا)
قرآن مجید نہ تو قصوں کی کتاب ہے اور نہ کوئی تاریخی دستاویز، نہ وه کسی شخصیت کی سوانح حیات ہے، اور نہ ہی کسی قوم کی تاریخ، بلکہ قرآن مجید تو حضور اکرم صلی الله علیه وسلم کے عہد مبارک سے لیکر تاقیامت تک کے انسانوں کی ہدایت اور رہنمائی کے لئے نازل ہوا ہے۔اس لئےاس میں جو قصے بیان ہوئے ہیں انکا مقصد بهی انسانوں کی ہدایت ہے ۔ قرآن مجید نےجس قوم کو سب سے زیاده بطور مثال پیش فرمایا ہے وه ہے قوم یہود، جن پر اللہ تعالی کی رحمت کا اندازه اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالی نے ان میں حضرت موسی ؑ سےلیکر حضرت عیسی ؑ تک ایک قول کے مطابق ستر ہزار اور ایک قول کےمطابق چار ہزار انبیاء کرام مبعوث فرمائے۔ یعنی توریت جیسی عظیم الشان کتاب اورپهر اس کتاب کی تبلیغ کےلئے ہزاروں انبیاء کا تسلسل, اور پهر اسی قوم پر اللہ تعالی کے غضب کا اندازه اس بات سے لگائیں کہ اللہ تعالی نے بیٹهے بٹهائے انکے ہزاروں افراد کی شکلیں مسخ کردیں اور انہیں سور اوربندر بناکر ہلاک کردیا۔ یہود جب تک احکام الہی کےتابع رہے اس وقت تک اللہ تعالی کی محبت اور نصرت کے وه مستحق رہے, لیکن جب یہودیت نے اپنا رخ بدلا اوروه شیطانیت اور طاغوتیت کا دوسرا نام بن گئ تو پهر وہی یہودی جو"احباءالله" تهے "مغضوب علیہم" بن گئے۔ زیر تبصرہ کتاب " یہودیت تاریخ،عقائد،فلسفہ " رابرٹ وین ڈی ویئر کی انگریزی تصنیف ہے۔جس کا اردو ترجمہ ملک اشفاق صاحب نے کیا ہے۔مولف موصوف نے اس کتاب میں یہود کی تاریخ،عقائد اور فلسفے پر روشنی ڈالی ہے۔تقابل ادیان کے طالب علموں کے لئے یہ ایک مفید اور شاندار کتاب ہے۔آمین(راسخ)
پروفیسر سید ابو بکر غزنوی پا ک وہندکے ایک ایسے گھرانے سے تعلق رکھتے تھے جو اپنےعلمی عملی اور اصلاحی کا رناموں کے بدولت منفر د و ممتاز حیثیت رکھتا ہے اور جس کی دینی وسیاسی خدمات اس سرزمین میں مسلمانوں کے تاریخ کا ایک زریں باب ہیں۔اس خطۂ ارضی میں ان کے مورث اعلیٰ سید عبداللہ غزنوی اپنے علم وفضل اور زہد وتقویٰ کی وجہ سے وقت کے امام مانے جاتے تھے اور لوگ بلا امتیاز ان کا احترام کرتے تھے۔ ان کے والد ماجد مولانا سید داؤد غزنوی کی عملی وسیاسی زندگی بھی تاریخ اہل حدیث کا ایک سنہرا باب ہے ۔سید ابوبکر غزنوی بھی ایک ثقہ عالم دین ،نکتہ رس طبیعت کے مالک اور دین کےمزاج شناس تھے ۔مولانا سید غزنوی فطرتاً علم دوست مطالعہ پسند اور کم آمیز قسم کےآدمی تھے۔جن لوگوں نے ان کا بچپن دیکھا ہے وہ جانتے ہیں کہ کتاب ومطالعہ سے ان کا کتنا گہرا دلی تعلق تھا۔اردو فارسی ،انگریزی اور عربی زبان پوری دسترس رکھتے تھے انھوں نے پنجاب یونیورسٹی میں ایم اے عربی کا امتحان دیا توصوبہ بھر میں اول رہے۔ پروفیسر ابوبکر غزنوی نے اپنی تدریسی زندگی کا آغاز اسلامیہ کالج ریلوے روڈ میں عربی کے لیکچرر کی حیثیت سے کیا۔اس کے تھوڑے ہی عرصے بعد اسلامیہ کالج سول لائنز کو ڈگری کالج کی حیثیت حاصل ہوگئی تو موصوف شعبہ عربی کے صدر بن کر وہاں منتقل ہوگئے ۔اور اس کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی اورنٹیل کالج میں عربی کےخصوصی لیکچر بھی دیتےتھے۔ اس کے بعد جلد ہی انجینیرنگ یونیورسٹی لاہور نے اپنے دروازے ان کے لیے کھول دیے اور شعبہ اسلامیات کے صدر کی حیثیت سے وہاں اٹھ گئے ۔اس کے بعد بہالپور یونیورسٹی میں وائس چانسلر کے طور پر ان کا تقرر ہوا اور ابھی وہ یونیورسٹی کےاصلاح وترقی کے پرگراموں پر عمل کراہی رہےتھے اور یونیورسٹی کامعیار بلند ہورہا تھا کہ موت آگئی اور وہ اللہ کو عزیز ہوگئے۔مولانا سید ابوبکر غزنوی کی ذات متعدد اورصافِ فاضلہ کامجموعہ تھی ۔اور سید صاحب جدید وقدیم علوم پر یکساں دسترس رکھتے تھے آپ کی شخصیت مغربی علوم وفنون اور تہذیب وتمدن سے خو ب آگاہ تھی ۔ سید صاحب نے اپنے خطبات اور تحریروں کے ذریعے دین کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا ۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ خطبات ومقالات سید ابو بکر غزنوی ‘‘ سید صاحب کے مختلف مقالات ومحاضرات کا مجموعہ ہے جسے میاں طاہر صاحب نے مرتب کر کے شائع کیا ہے ۔ان خطبات میں ادب وآداب ، معاشرت ، مصیبت ، سیاست وحکومت، جہاد او ر عبادات سمیت زندگی کا کوئی بھی پہلو تشنہ نہیں چھوڑا۔ایک اعلیٰ انسانی معاشرے کی تشکیل کے لیے یہ تحریریں ایسا سرچشمہ فیض ہیں جو نئی نسل کی تربیت اور کردار سازی کے لیے رہنما کا درجہ رکھتی ہیں ۔اللہ تعالیٰ مرتب وناشر کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور سید صاحب کے درجات میں اضافے کا باعث اور قارئین کے لیےنفع بخش بنائے (آمین) (م۔ا)
مولانا مسعود عالم ندوی ہندوستان کے ایک معروف اور مایہ ناز عالم دین ہیں۔آپ کا ہندوستان کے چوٹی کے علماء میں شمار ہوتا ہے۔آپ نے اپنے وقت کے مشاہیر اہل علم سے شرف تلمذ حاصل کیا ہے۔آپ متعدد کتب کے مصنف ومترجم ہیں۔زیر تبصرہ کتاب " مولانا عبید اللہ سندھی اور ان کے افکار وخیالات پر ایک نظر " بھی آپ کی انہی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔یہ کتاب ان کے دو مضامین پر مشتمل ہے جو انہوں نے مولانا عبید اللہ سندھی حنفی کی کتاب"شاہ ولی اللہ اور ان کی سیاسی تحریک" اور پروفیسر محمد سرور کی کتاب "مولانا عبید اللہ سندھی اور ان کے افکار وتعلیمات" پر تنقید اور استدراک کے طور پر لکھے تھے۔پہلا مقالہ مولانا کی زندگی میں شائع ہوا اور ان کی نظر سے گزر چکا تھا۔اس سلسلے میں انہوں نے ناقد کو مسلسل پانچ خط بھی لکھے جس میں انہوں نے اپنے افکار کی مزید توضیح کی تھی۔وہ پانچوں خطوط اس کتاب میں شامل ہیں۔ان خطوط کے علاوہ مولانا نے "برہان دہلی" میں ابھی اپنے افکار کی مزید تشریح اور 'استدراک'کے بعض شبہات کی تصحیح کی تھی۔مولف موصوف کے مطابق انہوں نے اس کتاب میں مولانا کی تردید کی بجائے ان کے خیالات کی تنقید وتنقیح فرمائی ہے۔اور ان کا کہنا ہے کہ مولانا کے "نئے افکار" سے ہم متفق نہیں ہیں ،اور ان کے یہ افکار کتاب وسنت کے سیدھے راستے سے ہٹے ہوئے ہیں۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ مولف کی اس کاوش کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور تمام مسلمانوں کو کتاب وسنت پر عمل کرنے کی توفیق دے۔آمین(راسخ)
آج کل یوں تو پورا عالم اسلام استعمار اور دشمنوں کی سازشوں کےچنگل میں نظرآرہاہے لیکن دنیاکی سب سےبڑی جمہوریت کادعوی کرنےوالے ہندوستانی سیاستدان بھی آئے روزمسلمانوں کوہراساں کرنے اور انہیں طرح طرح سے خوف و وحشت میں مبتلا کرنےکی سازشیں رچاتےرہتےہيں۔اوریوں ہندوستان کےعوام اور اس کےاندر پائی جانےوالی سب سےبڑی اقلیت فی الحال بےشمارمسائل کاشکار ہے۔اوراس کاسب سےبڑا ثبوت ہندوستان میں ہرسطح پر مسلمانوں کوہراساں کئےجانےکےلئےکھیلاجانےوالا کھیل اور تمام اہم قومی وسرکاری اداروں سے ان کی بیدخلی ہے۔ہندوستان میں مسلمان دوسری سب سے بڑی قوم ہیں۔ یہاں ان کی تعداد تقریبا 30 کروڑ ہے۔پورے ہندوستان میں مسجدوں کی تعداد اگر مندروں سے زیادہ نہیں تو کسی طرح کم بھی نہیں ہے ۔ ایک سے ایک عالیشان مسجد جن میں دلی کی جامع مسجد بھی شامل ہے ، اس مسجد کو شاہی مسجد بھی کہا جاتا ہے ۔ان تمام مساجد میں پانچوں وقت اذان دی جاتی ہے ۔لیکن اس کے باوجودمسلمانوں کو ہر میدان سے باہر کیا جارہا ہے اور انہیں غربت،افلاس اور کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ وہ تعلیم میں، تجارت میں، ملازمت میں، صحت میں غرض زندگی کے ہر شعبے میں ملک کی دوسری برادری سے پیچھے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب" ہندوستان کے مسلمان امتیازی سلوک کا شکار"امت پانڈیا کی تصنیف ہے جس کا ارود ترجمہ محمد اختر صاحب نے کیا ہے۔مولف نے اس کتاب میں ہندوستانی مسلمانوں کی حالت زار پر مختلف زاویوں اور پہلوؤں سے گفتگو کی ہےاور ہندوستانی حکومت کے دوغلے پن اور جھوٹے دعوے کا پول کھول دیاہے۔(راسخ)
مغربی تہذیب جسے مسیحی بنیاد پرستی کا نام دیا جانا ،زیادہ صحیح ہوگا،قرون وسطی کی صلیبی جنگوں بلکہ اس سے بھی قبل اسلام اور عالم اسلام کے خلاف محاذ آراء رہی ہے۔جس نے تاریخ کے مختلف ادوار میں مختلف روپ دھارے ہیں۔البتہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ مغربی تہذیب ہو یا مسیحی بنیاد پرستی ،اسلام اور اسلامی اقدار ان کا بنیادی ہدف رہے ہیں۔بنیاد پرستی عصر حاضر کا ایک سلگتا ہوا موضوع ہے،جس کی سرحدوں کا تعین کرنا ایک مشکل امر ہے۔ایک طبقہ کے لئے ایک رویہ اگر بنیاد پرستی ہوتا ہے تو دوسرے طبقہ کے لئے وہی رویہ جائز اور عین درست ہوتا ہے۔جبکہ ایک طبقہ ایسا بھی پایا جاتا ہے جوبنیاد پرستی کو کسی روئیے کے طور پر تسلیم ہی نہیں کرتا ہے۔زیر تبصرہ کتاب " بنیاد مغرب اور عالم اسلام کی فکری وتہذیبی کشمکش اور مسلم اہل دانش کی ذمہ داری " دنیا میں پائے جانے والے انہی رویوں اور بنیاد پرستی کے موضوع پر لکھی گئی ہے ،جو محترم مولانا محمد عیسی منصوری صاحب کی کاوش ہے۔مولف موصوف نے اس کتاب میں مغربی افکار ونظریات اور ان کا تاریخی پس منظر،عہد وپیمان اور یورپی اقوام،نئے عالمی نظام کے خوش نما مقاصد،مغربی میڈیا اور عالم اسلام،روحانیت مغرب کا سب سے برا بحران،مغرب میں اسلام کا مستقبل،جدید نظریاتی چیلنج اور علماء کران اور اسلام اور مسلمانوں کے حوالے سے مغربی دانشوروں کے دو گروہ جیسے اہم موضوعات زیر بحث لائے ہیں۔اللہ ان کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
مولانا عبد اللہ سلیم دارالحدیث جامعہ کمالیہ ،راجووال کے بانی شیخ الحدیث مولانا محمد یوسف کے بڑے بیٹے تھے موصوف نیک طبع ، ملن سا ز ہر دلعزیزانسان تھے اچھے واعظ ، کامیاب مدرس اور منتطم تھے مسلک کی ترویج واشاعت میں مرحوم کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔دارالحدیث جامعہ کمالیہ کا تما م تر انتظام مرحوم کےذمہ تھا 21ستمبر 1993 کو اچانک حرکت قلب بند ہونے سے انتقال کر گے تھے ہزاروں لوگوں نے ان کے نمازے جنازہ میں شرکت کی ۔نامور اہل قلم نے ان کی وفات پر اپنے تاثرات کا اظہا رکیا اور تمام جماعتی رسائل میں ان کی خدمات کو سراہا گیا ۔زیرنظر کتاب بھی مولانا عبد اللہ سلیم کے تذکرہ وسوانح پر مشتمل ہے جو کہ جوانی کےعالم میں بہت سے لواحقین ومتعلقین کو غمزدہ چھوڑ اس دنیا ئے فانی سے اچانک رحلت فرماگئے تھے۔اس کتاب کو مرحوم کےایک مخلص دوست مولانا محمد ابراہیم خلیل فیروز پوری نے مرتب کیا۔ اللہ تعالیٰ مرحوم اور ان کے والد گرامی جناب مولانا یوسف کے درجات بلند فرمائے اور ان کی قبروں پراپنی رحمت کی برکھا برسائے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ وارفع مقام فرمائے (آمین)(م۔ا)
قرآن مجید وہ عظیم الشان کتاب ہے ،جسے اللہ تعالی کا کلام ہونے کا شرف حاصل ہے۔اس کو پڑھنا باعث اجر وثواب اور اس پر عمل کرنا باعث نجات ہے۔جو قوم اسے تھام لیتی ہے وہ رفعت وبلندی کے اعلی ترین مقام پر فائز ہو جاتی ہے،اور جو اسے پس پشت ڈال دیتی ہے ،وہ ذلیل وخوار ہو کر رہ جاتی ہے۔یہ کتاب مبین انسانیت کے لئے دستور حیات اور ضابطہ زندگی کی حیثیت رکھتی ہے۔یہ انسانیت کو راہ راست پر لانے والی ،بھٹکے ہووں کو صراط مستقیم پر چلانے والی ،قعر مذلت میں گرے ہووں کو اوج ثریا پر لے جانے والے ،اور شیطان کی بندگی کرنے والوں کو رحمن کی بندگی سکھلانے والی ہے۔ زیر تبصرہ کتاب " محاضرات قرآنی " محترم ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب کی تصنیف ہے۔جو درحقیقت ان کے ان دروس اور لیکچرز پر مشتمل ہے جو انہوں نےراولپنڈی اور اسلام آباد میں درس قرآن کے حلقات سے وابستہ مدرسات قرآن کے سامنے پیش کئے۔یہ محاضرات مختصر
علم حدیث سے مراد ایسے معلوم قاعدوں اور ضابطوں کا علم ہے جن کے ذریعے سے کسی بھی حدیث کے راوی یا متن کے حالات کی اتنی معرفت حاصل ہوجائے کہ آیا راوی یا اس کی حدیث قبول کی جاسکتی ہے یا نہیں۔اور علم اصولِ حدیث ایک ضروری علم ہے ۔جس کے بغیر حدیث کی معرفت ممکن نہیں احادیث نبویہ کا مبارک علم پڑہنے پڑھانے میں بہت سی اصطلاحات استعمال ہوتی ہیں جن سے طالب علم کواگاہ ہونا از حدضرورری ہے تاکہ وہ اس علم میں کما حقہ درک حاصل کر سکے ، ورنہ اس کے فہم وتفہیم میں بہت سے الجھنیں پید اہوتی ہیں اس موضوع پر ائمہ فن وعلماء حدیث نے مختصر ومطول بہت سے کتابیں تصنیف فرمائی ہیں۔ زیر نظر کتاب ’’علم حدیث مصطلحات اور اصول‘‘ محترم جناب ڈاکٹر محمد اریس زبیر صاحب کی کاوش ہے ۔جسے انہو ں نے اصول حدیث کی اہم عربی کتب سے استفادہ کر کے جملہ اصطلاحات حدیث کو حوالہ اور مثالوں کے ساتھ اردو دان طبقے اور حدیث کے طلبہ وطالبات کے لیے آسان فہم انداز میں بیان کیا ہے ۔ یہ کتاب اصول حدیث کی معرفت کےلیے اردو میں لکھی جانے والی کتب میں اہم اضافہ ہے ۔مدارس ویونیورسٹیوں میں زیر تعلیم طالبان ِ حدیث کےلیے بیش قیمت علمی تحفہ ہے ۔کتاب ہذا کے مصنف فہم قرآن اور خواتین کی دینی تعلیم تربیت کے لیے کوشاں معروف ادارے ’’ دار الہدیٰ‘‘ کی سربراہ ڈاکٹر فرہت ہاشمی صاحبہ کے شوہر ہیں۔موصوف کا ملتان کے ایک علمی خانوادے سے تعلق ہے درس ِنظامی کے بعد پنجاب یونیورسٹی سے ایم عربی کی ڈگری حاصل کی۔ 1983ءانٹرنیشنل یونیورسٹی اسلام آباد کے کلیۃ الدین سے منسلک ہوگئے ۔1989ء میں گلاسگو یونیورسٹی سے علم حدیث میں ڈاکٹریٹ کیا عربی، اردو، انگریزی زبان میں بہت سے آرٹیکلز لکھنے کے علاوہ چند کتب کے مصنف بھی ہیں اللہ تعالیٰ ان کےعلم وعمل میں برکت فرمائے۔ (آمین)(م۔ا)
چوتھی صدی ہجری کے نامور تاجدارِ حدیث امام دارقطنی ( (306 – 385جن کے تذکرے کے بغیر چوتھی صدی کی تاریخ نا مکمل رہے گی ۔ ان کا مکمل نام یہ ہے ابو الحسن علی بن عمر بن احمد بن مہدی بن مسعود بن النعمان بن دینار بن عبدللہ الدار قطنی البغدادی ہے، انہیں امام حافظ مجوِّد، شیخ الاسلام، محدث کے القاب سے یاد کیا جاتا ہے، ان کا تعلق بغداد کے محلہ دار قطن سے تھا جس کی وجہ سے انہیں الدارقطنی کہا جاتا ہے۔امام دارقطنی نے اپنے وطن کے علمی سرچشموں سے سیرابی حاصل کرنے کے بعد مختلف ممالک کا سفر کیا اور بڑے بڑے ائمہ کرام سے تعلیم حاصل کی جن میں ابی القاسم البغوی، یحیی بن محمد بن صاعد، ابی بکر بن ابی داود، ابی بکر النیسابوری، الحسین بن اسماعیل المحاملی، ابی العباس ابن عقدہ، اسماعیل الصفار، اور دیگر شامل ہیں۔امام دارقطنی ، علل حدیث اور رجالِ حدیث ، فقہ، اختلاف اور مغازی اور ایام الناس پر دسترس رکھتے تھےحافظ عبد الغنی الازدی فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺکی حدیث پر اپنے وقت میں سب سے بہتر دسترس رکھنے والے تین افراد ہیں۔ ابن المدینی، موسی بن ہارون اور امام دارقطنی ۔امام دارقطنی کی تصانیف 80 سے زائد ہیں۔ 385 ہجری کو ان کا انتقال ہوا اور بغداد کے قبرستان باب الدیر میں معروف الکرخی کی قبر کے نزدیک دفن ہوئے۔ زیر نظر کتاب’’امام دارقطنی‘‘ محققِ عصر ممتاز عالم دین مولانا ارشاد الحق اثری﷾ کی تصنیف ہے جس میں انہوں نے امام دار قطنی کی حیات خدمات کو پیش کرنے کے ساتھ ساتھ امام موصوف پر عائد کردہ الزامات کا مدلل جائزہ بھی لیا ہے ۔ خصوصاً السنن پر تبصرہ ، علل الحدیث ، جرح وتعدیل میں امام دارقطنی کا مقام ، تالیفات وغیرہ پر ان کی اہمیت کے پیش نظر جامع بحث کی ہے اور بتایا ہے کہ بعض فنون حدیث میں تو امام دارقطنی سابق محدثین سے بھی بازی لے گئے ہیں اور بعض فنون میں انہیں سابقیت کا مقام حاصل ہے ۔امام دارقطنی کی حیات وخدمات اور ان کے علمی مقام کو جاننے کےلیے یہ کتاب بیش قیمت علمی تحفہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ مولانا ارشاد الحق اثری ﷾ کی تدریسی، تحقیقی وتصنیفی ، علمی اور دعوتی خدمات کو قبول فرمائے اور آخرت میں ان کی نجات کا ذریعہ بنائے (آمین)(م۔ا)
جب کوئی معاشرہ مذہب کو اپنے قانون کا ماخذ بنا لیتا ہے تو اس کے نتیجے میں علم فقہ وجود پذیر ہوتا ہے۔ علم فقہ، دین کے بنیادی ماخذوں سے حاصل شدہ قوانین کے ذخیرے کا نام ہے۔ چونکہ دین اسلام میں قانون کا ماخذ قرآن مجید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی سنت ہے اس وجہ سے تمام قوانین انہی سے اخذ کیے جاتے ہیں۔ جب قرآن و سنت کی بنیاد پر قانون سازی کا عمل شروع کیا جائے تو اس کے نتیجے میں متعدد سوالات پیدا ہو جاتے ہیں۔قرآن مجید کو کیسے سمجھا جائے؟قرآن مجید کو سمجھنے کے لئے کس کس چیز کی ضرورت ہے؟ سنت کو سمجھنے کے لئے کس کس چیز کی ضرورت ہے؟ سنت کہاں سے اخذ کی جائے گی وغیرہ وغیرہ۔ ان سوالوں کا جواب دینے کے لئے جو فن وجود پذیر ہوتا ہے، اسے اصول فقہ کہا جاتا ہے۔اور تمام قدیم مسالک (احناف،شوافع،حنابلہ اور مالکیہ)نے قرآن وسنت سے احکام شرعیہ مستنبط کرنے کے لئے اپنے اپنے اصول وضع کئے ہیں۔بعض اصول تو تمام مکاتب فکر میں متفق علیہ ہیں جبکہ بعض میں اختلاف بھی پایا جاتا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب " محاضرات فقہ" محترم ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب کی تصنیف ہے۔جو درحقیقت ان کے ان دروس اور لیکچرز پر مشتمل ہے جو انہوں نےراولپنڈی اور اسلام آباد میں درس قرآن کے حلقات سے وابستہ مدرسات قرآن کے سامنے پیش کئے۔ یہ محاضرات مختصر
حدیث شریعتِ اسلامیہ کا دوسرا اور آخری الہامی ذخیرہ وماخذ ہے جسے قرآن کریم کی طرح بذریعہ وحی زبان رسالت نے پیش کیا ہے ۔ یہ اس اہستی کا عطا کردہ خزانہ ہے جس کا ہر قول وعمل ،لغرش وخطاء سے پاک اور محفوظ ہے اسی لیے اس منصب عالی کے نتائج بھی ہر خطا سےمحفوظ ہیں ۔جب کہ دوسرے مناصب کی شخصیت کو یہ مقام حاصل نہیں۔یہ وہ دین ہے جس کے بغیر قرآن وفہمی ناممکن اور فقہی استدلال فضول نظرآتے ہیں۔اس میں کسی کی پیونکاری کی ضرورت نہیں۔ یہ اس شخصیت کے کلمات ہیں جنہیں مان کر ابو بکروعمر ،عثمان وعلی یا ایک عام شخص صحابی رسول بنا اور اللہ تعالیٰ کے ہاں کا رتبہ پایا ۔ جس نے اسے نہ مانا وہ ابو لہب اور ابو جہل ٹھہرا۔ یہ وہ منزل من الل وحی ہے حسے نظر انداز کر کے کوئی شخص اپنے ایمان کو نہیں بچا سکتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ہر رسول کی بعثت کا مقصد صرف اس کی اطاعت قراردیا ہے ۔جو بندہ بھی نبی اکرم ﷺ کی اطاعت کرے گا تو اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی اور جو انسان آپ کی مخالفت کرے گا ،اس نے اللہ تعالی کے حکم سے روگردانی کی ۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کی تاکید کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا(الحشر:7) اللہ تعالیٰ کے اس فرمان ِعالی شان کی بدولت صحابہ کرام ،تابعین عظام اور ائمہ دین رسول اللہ ﷺ کے ہر حکم کو قرآنی حکم سمجھا کرتے تھے اور قرآن وحدیث دونوں کی اطاعت کویکساں اہمیت وحیثیت دیا کرتے تھے ،کیونکہ دونوں کا منبع ومرکز وحی الٰہی ہے ۔عمل بالحدیث کی تاکید اورتلقین کے باوجود کچھ گمراہ لوگوں نےعہد صحابہ ہی میں احادیث نبویہ سےمتعلق اپنےشکوک وشبہات کااظہارکرناشروع کردیا تھا ،جن کوپروان چڑہانےمیں خوارج ، رافضہ،جہمیہ،معتزلہ، اہل الرائے اور اس دور کے دیگر فرق ضالہ نےبھر پور کردار ادا کیا۔ لیکن اس دور میں کسی نے بھی حدیث وسنت کی حجیت سے کلیتاً انکار نہیں کیا تھا،تاآنکہ یہ شقاوت متحدہ ہندوستان کے چند حرماں نصیبوں کے حصے میں آئی،جنہوں نے نہ صرف حجیت حدیث سے کلیتاً انکار کردیا بلکہ اطاعت رسولﷺ سے روگردانی کرنے لگے اور رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کو عہد نبوی تک ہی قرار دینے کی سعی نامشکور کرنے لگے ۔اگر کوئی حدیث انکار کردے تو قرآن کا انکار بھی لازم آتا ہے۔ منکرین اور مستشرقین کے پیدا کردہ شبہات سےمتاثر ہو کر مسلمانوں کی بڑی تعداد انکار حدیث کے فتنہ میں مبتلا ہوکر دائرہ اسلام سے نکلی رہی ہے۔ لیکن الحمد للہ اس فتنہ انکار حدیث کے رد میں برصغیر پاک وہند میں جہاں علمائے حدیث نے عمل بالحدیث اورردِّ تقلید کے باب میں گراں قدر خدمات سرانجام دیں وہیں فتنہ انکار حدیث کی تردید میں بھی اپنی تمام تر کوششیں صرف کردیں۔اس سلسلے میں سید نواب صدیق حسن خان، سید نذیر حسین محدث دہلوی،مولانا شمس الحق عظیم آبادی ،مولانا محمد حسین بٹالوی ، مولانا ثناء اللہ امرتسری ، مولانا عبد العزیز رحیم آبادی،حافظ عبداللہ محدث روپڑی، مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی ،مولانا داؤد راز شارح بخاری، مولانا اسماعیل سلفی ، محدث العصر حافظ محمدگوندلوی وغیرہم کی خدمات قابل تحسین ہیں۔اور اسی طرح ماہنامہ محدث، ماہنامہ ترجمان الحدیث ،ہفت روزہ الاعتصام،لاہور ،پندرہ روزہ صحیفہ اہل حدیث ،کراچی وغیرہ کی فتنہ انکار حدیث کے رد میں صحافتی خدمات بھی قابل قدر ہیں ۔اللہ تعالیٰ علماءاور رسائل وجرائد کی خدمات کو شرف قبولیت سے نوازے (آمین) زیر تبصرہ کتاب’’ حدیث رسولﷺ( حقیقت ، اعتراضات او ر تجزیات ) ‘‘ محترم جنا ب ڈاکٹر محمد ادریس صاحب کی تصنیف ہےجس میں انہو ں نے حدیث وسنت کا تعارف،بدعت کا مفہوم،صحابہ کرام اور ان کا حدیثی منہج،صحابہ کرام کے بارے میں بعض غلط رجحانات ،تدوین حدیث اوراس کی تاریخ ،نقد وتحقیق کا آغاز جیسے اہم موضوعات کو بڑے عمدہ انداز میں تحریر کیا ہے۔مصنف موصوف فہم قرآن اور خواتین کی دینی تعلیم تربیت کے لیے کوشاں معروف ادارے ’’دار الہدی‘‘ کی سربراہ ڈاکٹر فرہت ہاشمی صاحبہ کے شوہر ہیں۔موصوف کا ملتان کے ایک علمی خانوادے سے تعلق ہے درس ِنظامی کے بعد پنجاب یونیورسٹی سے ایم عربی کی ڈگری حاصل کی۔ 1983ءانٹرنیشنل یونیورسٹی اسلام آباد کے کلیۃ الدین سے منسلک ہوگئے ۔1989ء میں گلاسگو یونیورسٹی سے علم حدیث میں ڈاکٹریٹ کیا عربی، اردو، انگریزی زبان میں بہت سے آرٹیکلز لکھنے کے علاوہ چند کتب کے مصنف بھی ہیں اللہ تعالیٰ ان کےعلم وعمل میں برکت فرمائے۔ (آمین) (م۔ا)
یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ عورت کی تخلیق مرد کے سکون واطمینان کا باعث ہے ۔ اور انسانی معاشرہ میں جتنی اہمیت ایک مرد کو حاصل ہے اتنی ہی ایک عورت کوبھی حاصل ہے اس لیے کہ وہ خاندان کی مرکزی اکائی ہے ۔ ، اگر یہ اسلامی پلیٹ فارم پر سیدھی چلتی رہی تو اس مادی دنیا کا اصل زیور وحسن ہے اورمرد کی زندگی میں نکھار اور سوز وگداز پیداکرنے والی یہی عورت ہے ۔ اس کی بدولت مرد جُہدِ مسلسل اور محنت کی دلدوز چکیوں میں پستا رہتاہے ۔ اور اس کی وجہ سے مرددنیا کے ریگزاروں کو گلزاروں او رسنگستانوں کو گلستانوں میں تبدیل کرنے کی ہر آن کوشش وکاوش کرتا رہتا ہے ۔اگر عورت بگڑ جائے اور اس کی زندگی میں فساد وخرابی پیدا ہوجائے تویہ سارے گلستانوں کو خارستانوں میں تبدیل کردیتی ہے اور مرد کوہر آن ولحظہ برائی کے عمیق گڑھوں میں دھکیلتی دیتی ہے ۔اسلام نے عورت کوہر طرح کے ظلم وستم ، وحشت وبربریت، ناانصافی ، بے حیائی وآوارگی اور فحاشی وعریانی سے نکال کر پاکیزہ ماحول وزندگی عطا کی ہے ۔ او ر جتنے حقوق ومراتب اسلام نے اسے دیے ہیں دنیا کے کسی بھی معاشرے اور تہذیب وتمدن میں وہ حقوق عورت کوعطا نہیں کیے گئے ۔اس لیے عورت کا اصل مرکز ومحور اس کے گھر کی چاردیواری ہے ۔جس کے اندر رہ کر گھر کے ایک چھوٹے سے یونٹ کی آبیاری کرنا اس کا فریضہ ہے ۔اسلام عورت کی تربیت پر خصوصی توجہ دیتا ہے کسی گھر کی عورت اگر نیک اور پرہیز گار ہے تو وہ امن وآشتی کا گہوارہ ہے اور اگر عورت بدکار فاسقہ وفاجرہ ہے تو وہ برائی کا اڈا ہ اور فحاشی وعریانی کاسیل رواں ہے۔اس لیے ہمیں اپنے گھر کی خواتین کو اسلامی تہذیب وتمدن ، دینی معاشرت ورہن سہن اور عقائد صحیحہ واعمال صالحہ پر گامزن رکھنے کی بھر پور کوشش کرنی چاہیے ۔زیر نظر کتاب’’ ہدیۃ النساء‘‘ڈاکٹر حافظ مبشر حسین لاہور ی ﷾ (فاضل جامعۃ الدعوۃ الاسلامیۃ،مرید کے ،سابق ریسرچ سکالرمجلس التحقیق الاسلامی ،لاہور) کی تصنیف ہے یہ کتاب ان کی اصلاحِ خاندان سیریز میں شامل ہے ۔ خواتین کے احکام ومسائل اور ان کی دینی واخلاقی تربیت پر ایک جامع کتاب ہے تاکہ اس کے مطالعہ سے ایک عورت پہلے اپنی اصلاح کرے اور پھر اپنے خاندان کے دیگر افراد کی اصلاح کےلی کمر بستہ ہوجائے ۔اللہ تعالی ٰ اس کتاب کو خواتین اسلام کےلیے نفع بخش بنائے (آمین)(م۔ا)
نبی کریم ﷺ کی سیرت کا مطالعہ کرنا ہمارے ایمان کا حصہ بھی ہے اور حکم ربانی بھی ہے۔ قرآن مجید نبی کریم ﷺ کی حیات طیبہ کو ہمارے لئے ایک کامل نمونہ قرار دیتا ہے۔اخلاق وآداب کا کونسا ایسا معیار ہے ،جو آپ ﷺ کی حیات مبارکہ سے نہ ملتا ہو۔اللہ تعالی نے نبی کریم ﷺ کے ذریعہ دین اسلام کی تکمیل ہی نہیں ،بلکہ نبوت اور راہنمائی کے سلسلہ کو آپ کی ذات اقدس پر ختم کر کےنبوت کے خاتمہ کے ساتھ ساتھ سیرت انسانیت کی بھی تکمیل فرما دی کہ آج کے بعد اس سے بہتر ،ارفع واعلٰی اور اچھے وخوبصورت نمونہ وکردار کا تصور بھی ناممکن اور محال ہے۔آپ ﷺ کی سیرت طیبہ پر متعدد زبانوں میں بے شمار کتب لکھی جا چکی ہیں،جو ان مولفین کی طرف سے آپ کے ساتھ محبت کا ایک بہترین اظہار ہے۔ ہر مولف نے سیرت لکھتے وقت کچھ نہ کچھ اصول سامنے رکھے ہیں،جنہیں علم سیرت بھی کہا جا سکتا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب " محاضرات سیرت ﷺ" محترم ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب کی تصنیف ہے۔ جو درحقیقت ان کے ان دروس اور لیکچرز پر مشتمل ہے جو انہوں نےراولپنڈی اور اسلام آباد میں درس قرآن کے حلقات سے وابستہ مدرسات قرآن کے سامنے پیش کئے ہیں ۔