ٹیپوسلطان برصغیرِ کا وہ اولین مجاہد آزادی اور شہید آزادی ہے جس نے آزادی کی پہلی شمع جلائی اور حریت ِفکر، آزادی وطن اور دینِ اسلام کی فوقیت و فضیلت کے لیے اپنی جان نچھاور کردی تھی، ٹیپوسلطان نے حق و باطل کے درمیان واضح فرق و امتیاز قائم کیا اور پرچم آزادی کو ہمیشہ کے لیے بلند کیا تھا۔ ٹیپوسلطان 1750 میں بنگلور کے قریب ایک قصبے میں پیدا ہوا ۔ٹیپوسلطان کا نام جنوبی ہندوستان کے ایک مشہور بزرگ حضرت ٹیپو مستان کے نام پر رکھا گیا تھا، ٹیپوسلطان کے آباؤ اجداد کا تعلق مکہ معظمہ کے ایک معزز قبیلے قریش سے تھا جو کہ ٹیپوسلطان کی پیدائش سے اندازاً ایک صدی قبل ہجرت کرکے ہندوستان میں براستہ پنجاب، دہلی آکر آباد ہوگیا تھا۔ٹیپوسلطان کے والد نواب حیدر علی بے پناہ خداداد صلاحیتوں کے حامل شخص تھے جو ذاتی لیاقت کے بے مثال جواں مردی اور ماہرانہ حکمت عملی کے سبب ایک ادنیٰ افسر ’’نائیک‘‘ سے ترقی کرتے ہوئے ڈنڈیگل کے گورنر بنے اور بعد ازاں میسور کی سلطنت کے سلطان بن کر متعدد جنگی معرکوں کے بعد خود مختار بنے اور یوں 1762 میں باقاعدہ ’’سلطنت خداداد میسور‘‘ (موجودہ کرناٹک) قائم کی۔ 20 سال تک بے مثال حکمرانی کے بعد نواب حیدر علی 1782 میں انتقال کرگئے اور یوں حیدر علی کے ہونہار جواں سال اور باہمت فرزند ٹیپوسلطان نے 1783 میں ریاست کا نظم و نسق سنبھالا۔دنیا کے نقشے میں ہندوستان ایک چھوٹا سا ملک ہے اور ہندوستان میں ریاست میسور ایک نقطے کے مساوی ہے اور اس نقطے برابر ریاست میں سولہ سال کی حکمرانی یا بادشاہت اس وسیع وعریض لامتناہی کائنات میں کوئی حیثیت و اہمیت نہیں رکھتی، مگر اسی چھوٹی اور کم عمر ریاست کے حکمران ٹیپوسلطان نے اپنے جذبے اور جرأت سے ایسی تاریخ رقم کی جو تاقیامت سنہری حروف کی طرح تابندہ و پایندہ رہے گی۔ ٹیپو کا یہ مختصر دور حکومت جنگ و جدل، انتظام و انصرام اور متعدد اصلاحی و تعمیری امور کی نذر ہوگیا لیکن اس کے باوجود جو وقت اور مہلت اسے ملی اس سے ٹیپو نے خوب خوب استفادہ کیا۔ٹیپوسلطان کو ورثے میں جنگیں، سازشیں، مسائل، داخلی دباؤ اور انگریزوں کا بے جا جبر و سلوک ملا تھا، جسے اس نے اپنی خداداد صلاحیتوں اور اعلیٰ حوصلے سے قلیل عرصے میں نمٹالیا، اس نے امور سیاست و ریاست میں مختلف النوع تعمیری اور مثبت اصلاحات نافذ کیں۔ صنعتی، تعمیراتی، معاشرتی، زرعی، سماجی اور سیاسی شعبوں میں اپنی ریاست کو خودکفیل بنادیا۔ فوجی انتظام و استحکام پر اس نے بھرپور توجہ دی۔ فوج کو منظم کیا، نئے فوجی قوانین اور ضابطے رائج کیے، اسلحہ سازی کے کارخانے قائم کیے، جن میں جدید ترین ٹیکنالوجی کے تحت اسلحہ اور پہلی بار راکٹ بھی تیار کیے گئے۔اور اس نے بحریہ کے قیام اور اس کے فروغ پر زور دیا، نئے بحری اڈے قائم کیے، بحری چوکیاں بنائیں، بحری جہازوں کی تیاری کے مراکز قائم کیے، فرانسیسیوں کی مدد سے اپنی فوج کو جدید خطوط پر آراستہ کیا، سمندری راستے سے تجارت کو فروغ بھی اس کے عہد میں ملا۔ ٹیپوسلطان جانتا تھا کہ بیرونی دنیا سے رابطہ ازبس ضروری ہے اسی لیے اس نے فرانس کے نپولین بوناپارٹ کے علاوہ عرب ممالک، مسقط، افغانستان، ایران اور ترکی وغیرہ سے رابطہ قائم کیا۔ٹیپو نے امن و امان کی برقراری، قانون کی بالادستی اور احترام کا نظام نہ صرف روشناس کرایا بلکہ سختی سے اس پرعملدرآمد بھی کروایا، جس سے رعایا کو چین و سکون اور ریاست کے استحکام میں مدد ملی۔ٹیپوسلطان کا یہ قول کہ ’’گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے‘‘ غیرت مند اور حمیت پسندوں کے لیے قیامت تک مشعل راہ بنا رہے گا۔ٹیپو سلطان اوائل عمر سے بہادر، حوصلہ مند اور جنگجویانہ صلاحیتوں کا حامل بہترین شہ سوار اور شمشیر زن تھا۔ علمی، ادبی صلاحیت، مذہب سے لگاؤ، ذہانت، حکمت عملی اور دور اندیشی کی خصوصیات نے اس کی شخصیت میں چار چاند لگادیے تھے، وہ ایک نیک، سچا، مخلص اور مہربان طبیعت ایسا مسلمان بادشاہ تھا جو محلوں اور ایوانوں کے بجائے رزم گاہ میں زیادہ نظر آتا تھا۔ وہ عالموں، شاعروں، ادیبوں اور دانشوروں کی قدر ومنزلت کرتا تھا، مطالعے اور اچھی کتابوں کا شوقین تھا، اس کی ذاتی لائبریری میں لا تعداد نایاب کتابیں موجود تھیں، ٹیپوسلطان وہ پہلا مسلمان حکمران ہے جس نے اردو زبان کو باقاعدہ فروغ دیا اور دنیا کا سب سے پہلا اور فوجی اخبار جاری کیا تھا۔اس کے عہد میں اہم موضوعات پر بے شمار کتابیں لکھی گئیں۔ زیر نظرکتاب ’’ ٹیپو سلطان (شیر میسور)‘‘ ایک انگریز مصنف سیموئیل سٹرینڈبرگ کی تصنیف ہے ۔جسے انگریزی سے اردو زبان میں محمد زاہد ملک نے ڈھالا ہے ۔اس کتاب میں ہندوستانی شہزادے ٹیپوسلطان کے تذکرہ پیش کیا گیا ہے۔ جس نے انگریزوں کے خلاف گراں قدر مزاحمت سرانجام دی۔ اس کی شدید مزاحمت سے انگریز بوکھلا گئے تھے ۔اللہ تعالیٰ موجود ہ حکمرانوں میں ٹیپو سلطان جیسی بہادر ی او رجذبۂ جہاد پیدا فرمائے ۔آمین( م۔ا)
عناوین |
|
صفحہ نمبر |
انتساب |
|
|
کچھ باتیں زیر نظر کتاب کے بارے میں |
|
6 |
زیر نظر کتاب تحریر کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی ؟ |
|
7 |
جنوبی ہندوستان کی منظر کشی |
|
10 |
سیاسی نقشہ |
|
11 |
1700ء کی دہائی کی ہندوستان |
|
12 |
1700ء کی دہائی میں لڑی جانے والی لڑائیوں کی صورت حال |
|
14 |
جنگی قیدی |
|
20 |
ٹیپو سلطان کی پیدائش اور بچپن |
|
22 |
حیدر علی کے خلاف بغاوت |
|
24 |
کریم تخت کا وارث نہ بن سکا |
|
25 |
باپ اور بیٹا... حیدر علی اور ٹیپو سلطان |
|
26 |
ٹیپو سلطان عملی فوجی تربیت کے میدان میں |
|
28 |
فرنگیوں اور میسور کی پہلی لڑائی 1767ء۔ 1769 |
|
30 |
مرہٹوں کے ساتھ پہلی لڑائی |
|
30 |
کمپنی کے خلاف نظام کے ساتھ اتحاد |
|
31 |
اور فرنگی بھاگ نکلے |
|
32 |
مرہٹوں کے ساتھ جنگ 1769ءتا 1772ء |
|
33 |
سرنگا پٹم میں شادی کی تقریب |
|
35 |
حیدر علی ... میسور کا مطلق العنان حکمران |
|
36 |
یہ جنگ ایک خونی جنگ ثابت ہوئی |
|
39 |
انگریزوں کی فوجی تیاریاں |
|
41 |
تخت نشینی اور ایک جنگ |
|
43 |
جنرل میتھو اور بجنور |
|
44 |
اگلان نشانہ .... اننت پور |
|
46 |
بنگلور کا امن |
|
49 |
ٹیپو سلطان .... اپناوزیر خارجہ آپ |
|
52 |
فرانس کی جانب سفارت کاروں کی روانگی |
|
54 |
ٹیپو... اپنی رعایا کا باپ |
|
56 |
لائبریری |
|
59 |
ٹیپو سلطان.... سماجی مصلح |
|
59 |
غلاموں سے مشقت لینے کی ممانعت |
|
62 |
انتظامی اصلاحات |
|
65 |
ریشم سازی |
|
67 |
نیا کیلنڈر |
|
69 |
ٹیپو سلطان او رمذہب |
|
70 |
کارن ویلس کا تقرر |
|
75 |
جنگ کا پہلا مرحلہ |
|
77 |
ٹیپو سلطان بے مزاحمت رہا |
|
82 |
فرنگیوں کی پسپائی |
|
84 |
جنگ کا دوسرا مرحلہ 1791ءتا 1792ء |
|
85 |
فرنگیوں کی دوسری کوشش |
|
87 |
سرنگا پٹم کا معاہدہ امن |
|
90 |
ٹیپو سلطان نے معاہدہ امن کی شرائط تسلیم کر لیں |
|
91 |
امن کے سات برس |
|
94 |
ملارٹک اعلامیہ |
|
97 |
جاکوبین کلب |
|
98 |
اور نظام حیدر آباد فرنگیوں کا باجگزار بن گیا |
|
100 |
ٹیپوسلطان اور نپولین |
|
101 |
قلمی دوست |
|
102 |
فرنگیوں اور میسور کی چوتھی لڑائی 1799ء |
|
106 |
آخری معرکہ ( 4مئی 1799ء) |
|
109 |
تجہیز و تکفین ( 5مئی 1799ء) |
|
112 |
جنگ کے نتائج و عواقب |
|
114 |
میسور کے راجہ کوبحال کر دیا گیا |
|
116 |
ٹیپو سلطان کے جرنیل |
|
117 |
خلاصہ |
|
118 |
|
|
|