یزید بن معاویہ ؓ تابعین میں سے ہیں اور صحابی رسول سیدنا امیر معاویہ کے بیٹے ہیں۔بعض روافض اور مکار سبائیوں نے ان پر بے شمار جھوٹے الزامات لگائے ہیں ۔یزید بن معاویہ پر لگائے جانے والے بیشتر الزامات بے بنیاد، من گھڑت اور سبائیوں کے تراشے ہوئے ہیں۔ زیر نظر کتاب محترم جناب حافظ عبید اللہ صاحب کی تصنیف ہے۔اس کتاب میں انہوں نے ہندوستان کے ایک عالم سید طاہر حسین گیاوی کی ابو المآثر علامہ حبیب الرحمٰن الاعظمی کی کتاب کے ناقدانہ جائزہ میں لکھی گئی کتاب بعنوان ’’ شہید کربلا او رکردار ِ یزید ‘‘ پر ناقدانہ جائزہ پیش کیا گیا ہے ۔گویا حافظ عبید اللہ کی کتاب ہذا علامہ حبیب الرحمٰن الاعظمی کی کتاب کے جواب کا جواب الجواب ہے۔(م۔ا)
طاہر القادری صاحب کا نام محتاج تعارف نہیں ان کے معتقدین انہیں مفکر اسلام،نابغہ عصر، قائد انقلاب اور شیخ الاسلام ایسے پر فخر القاب سے یاد کرتے ہیں جبکہ ان کے ناقدین انہیں احسان فراموش، شہرت کا بھوکا اور حب جاہ و منصب کا حریص قرار دیتے ہیں۔موصوف کے ناقدین میں محض مسلکی مخالفین ہی شامل نہیں بلکہ بریلوی علما بھی ،جن کی طرف قادری صاحب اپنا انتساب کرتے ہیں،موصوف کو خطرے کی گھنٹی سمجھتے ہوئے اہل سنت میں شمار کرنے پر تیار نہیں۔شہرت و ناموری کی خاطر قادری صاحب کرسمس کا کیک کاٹنے اور دشمنان صحابہ روافض کی مجالس کو رونق بخشنے سے بھی ذرا نہیں شرماتے اور اب تو نوبت بایں جا رسید کہ انہوں نے اعداے ملت یہود ونصاریٰ کے حق میں بھی فتاویٰ صادر کرنے شروع کر دیے ہیں۔زیر نظر کتاب جناب قادری کے نقاب سنیت کو الٹ کر ان کے باطنی رفض وتشیع کوآشکار کرتی ہے۔اس کتاب کے فاضل مصنف قبل ازیں طاہرالقادری کی علمی خیانتیں کے نام سے بھی ایک کتاب تحریر کر چکے ہیں۔اس کے جواب میں ایک صاحب نے قادری صاحب کا دفع کرنے کی ناکام کوشش کی جس کے جواب میں زیر تبصرہ کتاب منصہ شہود پر آئی ہے۔بہ حیثیت مجموعی اس کے مندرجات سے اتفاق ہونے...
عصر حاضر کی بے شمار بدعات میں سےایک بدعت یہ بھی ہے کہ ہر سال 12 ربیع الاول کے روز حضرت محمدﷺ کی پیدائش کا جشن منایا جاتا ہے اور اسے عید میلاد النبیﷺ کا نام دیا جاتا ہے۔ حالانکہ امر واقعہ یہ ہے کہ نبی مکرم ﷺ پر دین کی تکمیل ہو چکی اور آپ ﷺ کی وفات کے بعد دین میں کسی بھی قسم کا اضافہ بدعت کے زمرے میں آئے گا۔ ’میلاد النبیﷺ‘ کے موضوع پر ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب نے ایک ضخیم کتاب لکھی اور دور از کار تاویلات کا سہار لیتے ہوئے میلاد النبی کا اثبات کیا۔ زیر نظر کتاب میں فاضل مؤلف عبدالوکیل عبدالناصر نے ڈاکٹر موصوف کی کتاب کا تحقیقی تجزیہ پیش کرتے ہوئے کتاب میں بیان کردہ علمی خیانتوں اور ناقابل یقین تضادات کا پردہ چاک کیا ہے۔
دور ِحاضر میں اصول تحقیق ایک فن سے ترقی کرتاہوا ایک اہم علم کی صورت اختیار کرچکا ہے ۔ عالمِ اسلام کی تمام یونیورسٹیوں ، علمی اداروں ، مدارس اور کلیات میں تمام علوم پر تحقیق زور شور سے جاری ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اصول تحقیق کا مادہ تمام عالمِ اسلام کی یونیورسٹیوں میں عموماً ا ور برصغیر کی جامعات اور متعدد اداروں میں خصوصاً نصاب کے طور پر پڑھایا جاتا ہے ۔ان تمام اداروں میں بھی جہاں گریجویٹ اوراس کے بعد کی کلاسوں میں مقالہ لکھوایا جاتا ہے یا ایم فل وڈاکٹریٹ کی باقاعدہ کلاسیں ہوتی ہیں وہاں تحقیق نگاری یا اصول تحقیق کی بھی باقاعدہ تدریس ہوتی ہے تحقیق واصول تحقیق پر متعدد کتب موجود ہیں ۔ زیر نظر کتاب’’علومِ اسلامیہ میں تحقیقی مقالہ نگاری‘‘ کی کاوش ہے ۔یہ کتاب علوم ِاسلامیہ میں تحقیقی مضامین، مقالہ جات اور علمی ریسرچ کرنے والے اسکالرز اور اپنی تدریسی پیشہ وارانہ ترقی کے لیے تحقیقی مقالات شائع کرنےوالے اساتذہ کے مسائل کو زیر بحث لاتی ہے ۔اس میں ان کی ضرورت کے لیے قابل عمل مشورے اور حسبِ حال تجاویز پیش کی گئی ہیں۔ ن...
عمار خان ناصر ایک علمی گھرانے کے چشم و چراغ ، پاک و ہند کی مشہور علمی شخصیت مولانا سرفراز خان صفدرکے پوتے اور دوسری مشہور شخصیت مولانا زاہد الراشدی﷾ کے صاحبزادے ہیں۔لیکن موجودہ دور کے مشہور متجدد جاوید احمد غامدی کے شاگردِ رشید بھی ہیں۔کچھ عرصے سے اُنہوں نے اپنے استاد غامدی صاحب اور اپنے افکارِ فاسدہ کے پھیلانے کو اپنا مشن بنایا ہوا ہے۔موصوف ایک رسالے"ماہنامہ الشریعہ"کے مدیر اور غامدی صاحب کے ادارے ’المورد‘ کے اسسٹنٹ فیلو ہیں، اسی نسبت سے انکی تحاریر غامدی صاحب کے رسالے مجلہ اشراق میں بھی چھپتی رہتی ہیں،غامدی صاحب کے تجدد پسندانہ افکار و نظریات کے دفاع، انکی اشاعت و ترویج کے لیے انکی خدمات ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ انکے مکتبہ فکر کی آواز چونکہ تجدد دین کی ہے اس لیے بہت سے علماء ان کے اجتہادات،نظریات ، غلط فہمیوں اور افراط و تفریط پر وقتا فوقتا اپنی رائے کا اظہار کرتے رہتے ہیں ۔ان علماء میں سے ایک نام جامعہ مدنیہ، لاہور کے ڈاکٹر مفتی عبدالواحد صاحب اور مفتی شعیب احمد صاحب کابھی...
موجودہ زمانہ مُہیب وتاریک فتنوں کا زمانہ ہے۔ اگر یہ فتنے کفر والحاد کے لباس میں ہوتے تو ان سے بچنا کم از کم اُس مسلمان کے لیے ایک درجے میں آسان تھا جو اپنی دینی اور ایمانی روایات سے عمل کی کمی بیشی کے باوجود شعوری یا غیر شعوری طور پر وابستہ ہے۔ لیکن یہ فتنے شیطان کے مزین کردہ پردوں میں ظاہر ہو رہے ہیں‘ ایک مسلمان قرآن وسنت کا مطالعہ کرنے والا‘ اسلامی روایات کا حامل‘ مسلم معاشرے کا فرد‘ مسلمانوں کی صفوں میں شامل‘ دینی اجتماعات کا مقرر‘ یکاک اُس کے فکر ونظر میں زبردست تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں تو وہ راہ راست سے ہٹ جاتا ہے اور غلط افکار کی نشریات میں محو مصروف ہو جاتا ہے۔ زیرِ تبصرہ کتاب بھی خاص ایسے افکار جو قرآن وسنت کے برعکس کی تردید اور وضاحت پر لکھی گئی ہے۔ اس میں غامدی صاحب کے غلط نظریات اور افکار کی قرآن وسنت سے تردید کی گئی ہے اور اس کے اسقام ومعائب کو بے نقاب کیا گیا ہے۔ اور غامدیت کی اصلیت‘ مقاصد واہداف‘ انحرافات‘ اس کے طبعی نتائج واثرات‘ دائرہ کار‘ مآخذ اور سرچشموں پر سیر حاصل اور مدلل...
یہ حقیقت کسی وضاحت کی محتاج نہیں کہ ہمارا ملک خالص کتاب وسنت پر مبنی مکمل اسلام کے تعارفی نا م کلمہ طیبہ کے مقدس نعرہ پرمعرض وجود میں آیا تھا۔ جس کا ادنیٰ ثبوت یہ ہے کہ 1956ء، 1963ء اور پھر 1973ء کے ہر آئین میں اس ملک کانام اسلامیہ جمہوریہ پاکستان لکھا جاتا رہاہے اور سر فہرست یہ تصریح بھی ہے کہ پاکستان کا سرکاری مذہب اسلام ہوگا اور کتاب وسنت کےخلاف کوئی قانون نہیں بنایاجائے گا۔ 1973ء کے منظورشدہ آئین وہ آئین ہے جس پربریلوی مکتبِ فکر کے سیاسی لیڈرشاہ احمد نورانی،مولوی عبدالمصطفیٰ الازہری وغیرہما کےبھی دستخط ثبت ہیں۔اسی طرح جب صدر پاکستان جنرل ضیاءالحق نے اسلامی نظام کی طرف پیش رفت کی ایمان پرور نوید سنائی تھی۔ جس سے یہ امید پیدا ہوئی تھی کہ اب اس مملکت میں نظریاتی مقاصد ہی نہیں بلکہ در پیش سیاسی، اقتصادی، ثقافتی، اورتمدنی مسائل کے حل کی راہیں بھی کھل جائیں گی۔ مگر افسوس کہ احناف کے ایک گروہ نے تمام مذکورہ حقائق اور ملکی تقاضوں سے آنکھیں موندکر کتاب و سنت کو نظر انداز کرتے ہوئے فقہ حنفی کے نفاذ کا نعرہ بلند کیا اور ملتان کے قاسم باغ سے یہ مطالبہ کر دیا کہ چو...
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی ختم نبوت کسی بھی دلیل کی محتاج نہیں۔ اس کے باوجود تاریخ کے مختلف ادوار میں ختم نبوت کے ناقابل تسخیر قلعہ میں بعض "مہم جو" سارقوں نے نقب زنی کی کوشش کی۔ اور ہر ایک کو منہ کی کھانا پڑی۔ انہی میں مرزا غلام احمد قادیانی بھی طالع آزما ہو گذرے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب ایسے ہی حقائق آفریں اور چشم کشا مناظروں کی فکر انگیز روداد ہے جس میں قادیانیوں کے باطل نظریات کی دلائل اور متانت سے بھرپور تردید کی گئی ہے۔ طرز گفتگو سادہ و سلیس اور اصلاحی فکر لئے سنجیدہ و پر تاثر ہے۔ تردید قادیانیت کے موضوع پر یہ کتاب ایک عمدہ اضافہ ہے۔
تحقیق ایک اہم علمی فریضہ ہے۔ تحقیق کے ذریعے ہم نامعلوم کا علم حاصل کرتے ہیں۔ غیر محسوس کو محسوس بناتے ہیں۔ جو باتیں پردۂ غیب میں ہوتی ہیں، انہیں منصۂ شہود پر لاتے ہیں تا کہ کسی امر میں یقینی علم ہم کو حاصل ہو، اور اس کی بنیاد پر مزید تحقیق جاری رکھی جا سکے۔تحقیق ایک مسلسل عمل ہے۔مزید واقعاتی حقائق کا جائزہ لینے اور ان کے اثرات معلوم کرنے کا نام بھی تحقیق ہے ۔ تحقیق کے عربی لفظ کا مفہوم حق کو ثابت کرنا یا حق کی طرف پھیرنا ہے۔تحقیق کے لغوی معنیٰ کسی شئے کی حقیقت کا اثبات ہے۔ ’’تحقیق کے لیے انگریزی میں استعمال ہونے والا لفظ ریسرچ ہے…اس کے ایک معنیٰ توجہ سے تلاش کرنے کے ہیں، دوسرے معنیٰ دوبارہ تلاش کرنا ہے۔دور حاضر میں اصول تحقیق ایک فن سے ترقی کرتاہوا باقاعدہ ایک علم بلکہ ایک اہم علم کی صورت اختیار کرچکا ہے ۔ عالمِ اسلام کی تمام یونیورسٹیوں ، علمی اداروں ، مدارس اور کلیات میں تمام علوم پر تحقیق زور شور سے جاری ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اصول تحقیق کا مادہ تمام عالمِ اسلام کی یونیورسٹیوں میں عموماً ا ور برصغیر کی جامعات اور متعدد اداروں میں خصوصاً...
پروفیسر طاہر القادری صاحب کا شمار پاکستان کی ان شخصیات میں سے ہوتا ہے جو اپنے آپ کو نمایاں کرنے کا فن بخوبی جانتے ہیں، لیکن تاسف کی بات یہ ہے کہ انہوں نے شہرت کی معراج پانے کے لیے مذہبی لبادہ اوڑھنا ضروری سمجھا۔ جس کا نقصان یہ ہوا کہ ہزاروں کی تعداد میں سادہ لوح مسلمان موصوف کو اسلام کا سفیر سمجھ کر ان کے لیے اپنا سب کچھ نچھاور کرنے کے لیے تیارہو گئے۔ زیر نظر کتاب میں ہمارے ممدوح کی ’محمد طاہر‘ سے ’شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری‘ بننے اور ان کا سائیکل سے لے کر لینڈکروزر تک کا سفر ہے۔ طاہر القادری صاحب کی شخصیت ان کے شباب سے لے کر اب تک کیوں متنازعہ رہی اس کا جواب وہ تمام حقائق ہیں جن کو اس کتاب میں یکجا کر دیا گیا ہے۔ اس کتاب کا مقصد ہرگز ہرگز کسی خاص مکتب فکر کو ہدف تنقید بنانا نہیں ہے بلکہ طاہر القادری صاحب کے پیروؤں کی آنکھوں پر بندھی ہوئی پٹی کو اتارنا ہے جن کی کھلی آنکھیں انہیں یہ بتانے میں دیر نہیں کریں گی کہ ایک ایسا شخص جس نے دولت و شہرت پانے کے لیے رسول خدا ﷺ کی حرمت پر ہاتھ ڈالنے سے گریز نہیں کیا ہرگز اس قابل نہیں ہے کہ اسے پلکوں پر بٹھایا جائے...
ترقی یافتہ علمی دنیا میں تحقیقی مقالہ لکھنے یا "رسمیات تحقیق" کو سائنٹیفک اور معیاری بنانے کا کام اور اس پر عمل کا آغاز اٹھارویں صدی ہی میں شروع ہوچکا تھا- چنانچہ حواشی و کتابیات کے معیاری اصول اور اشاریہ سازی کا اہتمام مغربی زبانوں میں لکھی جانے والی کتابوں میں اسی عرصے میں نظر آنے لگا تھا۔ معاشرتی علوم اور ادبیات میں علمی نوعیت کی جدید رسمیات پر مبنی کتابیں اور تحقیقی مجلے اس وقت عام ہونے لگے تھے جب رائل ایشیا ٹک سوسائٹی نے خصوصا تاریخ کے موضوعات پر اپنے مطالعات کو جدید اصولوں کے تحت شائع کرنے کا آغاز کیا اور یورپ کے دیگر ملکوں جیسے جرمنی، اٹلی، فرانس اور ہالینڈ کے تحقیقی اور اشاعتی اداروں نے بھی اس جانب پیش قدمی کی اور اسی زمانے میں خصوصا تحقیق و ترتیب متن کی بہترین کوششیں سامنے آنے لگیں۔مغربی جامعات اور تحقیقی و طباعتی ادارے اس بارے میں اپنے اختیار کردہ یا وضع کردہ رسمیات کو بے حد اہمیت دیتے اور ان کی پابندی کرتے ہیں۔ ان اداروں اور جامعات میں ان رسمیات کے معیارات میں فرق یا اختلاف ہو سکتا ہے۔ لیکن ہر ادارہ یا جامعہ اپنے لئے وضع کردہ اور اختیا...
دور ِحاضر میں اصول تحقیق ایک فن سے ترقی کرتاہوا ایک اہم علم کی صورت اختیار کرچکا ہے ۔ عالمِ اسلام کی تمام یونیورسٹیوں ، علمی اداروں ، مدارس اور کلیات میں تمام علوم پر تحقیق زور شور سے جاری ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اصول تحقیق کا مادہ تمام عالمِ اسلام کی یونیورسٹیوں میں عموماً ا ور برصغیر کی جامعات اور متعدد اداروں میں خصوصاً نصاب کے طور پر پڑھایا جاتا ہے ۔ان تمام اداروں میں بھی جہاں گریجویٹ اوراس کے بعد کی کلاسوں میں مقالہ لکھوایا جاتا ہے یا ایم فل وڈاکٹریٹ کی باقاعدہ کلاسیں ہوتی ہیں وہاں تحقیق نگاری یا اصول تحقیق کی بھی باقاعدہ تدریس ہوتی ہے تحقیق واصول تحقیق پر متعدد کتب موجود ہیں ۔ زیر نظر کتاب’’ معروضی اصولِ تحقیق وتدوین‘‘ ڈاکٹر سعیدالرحمن بن نورحبیب کی مرتب شدہ ہےاس مختصر کتاب میں فاضل مرتب نے تحقیق واصول تحقیق سے متعلق 413 معروضی انداز کے سوالات بناکر کا ان کے جوابات پیش کیے ہیں۔اس کےبعد اقسام تحقیق،32؍مختلف تحقیقی...
دور ِحاضر میں اصول تحقیق ایک فن سے ترقی کرتاہوا ایک اہم علم کی صورت اختیار کرچکا ہے ۔ عالمِ اسلام کی تمام یونیورسٹیوں ، علمی اداروں ، مدارس اور کلیات میں تمام علوم پر تحقیق زور شور سے جاری ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اصول تحقیق کا مادہ تمام عالمِ اسلام کی یونیورسٹیوں میں عموماً ا ور برصغیر کی جامعات اور متعدد اداروں میں خصوصاً نصاب کے طور پر پڑھایا جاتا ہے ۔ان تمام اداروں میں بھی جہاں گریجویٹ اوراس کے بعد کی کلاسوں میں مقالہ لکھوایا جاتا ہے یا ایم فل وڈاکٹریٹ کی باقاعدہ کلاسیں ہوتی ہیں وہاں تحقیق نگاری یا اصول تحقیق کی بھی باقاعدہ تدریس ہوتی ہے تحقیق واصول تحقیق پر متعدد کتب موجود ہیں ۔ زیر نظر کتاب’’ معروضی اصولِ تحقیق وتدوین‘‘ ڈاکٹر سعیدالرحمن بن نورحبیب کی مرتب شدہ ہےاس مختصر کتاب میں فاضل مرتب نے تحقیق واصول تحقیق سے متعلق 413 معروضی انداز کے سوالات بناکر کا ان کے جوابات پیش کیے ہیں۔اس کےبعد اقسام تحقیق،32؍مختلف تحقیقی...
جناب مفتی تقی عثمانی صاحب دیوبندی مکتب فکر کی معروف شخصیت ہیں۔آپ مولانا مفتی محمد شفیع کے صاحبزادے اور بے شمار کتابوں کے مصنف ہیں۔موصوف وفاقی شرعی عدالت کے جج بھی رہ چکے ہیں آج کل آپ اسلامی بینکوں کی سرپرستی فرمارہے ہیں اور حیلوک کے ذریعے ’مروجہ اسلامی بینکاری‘کے جواز کا فتوی دے رہے ہیں۔مفتی تقی عثمانی صاحب کی ایک کتاب’فقہی مقالات‘ہے جو ان کے فقہی مضامین کا مجموعہ ہے ۔اس کی چوتھی جلد میں موصوف نے ’حرام اشیاء سے علاج‘کے ضمن میں گفتگو کرتے ہوئے بعض کبار حنفی علما کے حوالے سے یہ فتوی دیا کہ علاج کی خاطر سورہ فاتحہ کو پیشاب اور خون سے لکھا جائز ہے ۔اس پر عامۃ المسلمین کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا تو مفتی صاحب نے ’اسلام‘اقبار میں یہ وضاحت کی وہ نجاست سے سورہ فاتحہ کے لکھنے کو جائز نہیں سمجھتے۔زیر نظر مختصر کتابچہ میں ان کے اس وضاحتی بیان کا جائزہ لیتے ہوئے اس مسئلہ سے متعلق احناف کے نقطہ نظر پر تنقیدی نگاہ ڈالی گئی ہے امید ہے اس کے مطالعہ سے حق کو سمجھنے میں مدد ملے گی ۔ان شاء اللہ۔(ط۔ا)
عمار خان ناصر پاک و ہند کی مشہور علمی شخصیت مولانا سرفراز خان صفدرکے پوتے اور دوسری مشہور شخصیت مولانا زاہد الراشدی﷾ کے صاحب زادے ہیں۔ گوجرانوالہ سے شائع ہونے والے ماہ نامے ’’الشریعہ‘‘کے مدیر ہیں۔معروف طریقے سے مولوی ہیں،لیکن موجودہ دور کے مشہور متجدد جاوید احمد غامدی کے شاگردِ رشید بھی ہیں۔ اُنھوں نے اپنے استاد غامدی صاحب اور اپنے افکارِ فاسدہ کے پھیلانے کو اپنا مشن بنایا ہوا ہے۔کئی اہل علم نے عمارخاں کے نظریات پر نقدکیا ہے ناقدین میں مفتی عبدالواحد صاحب سرفہرست ہیں ۔ زیر نظر کتابچہ ’’مقام عبرت‘‘ ڈاکٹر مفتی عبد الواحد عمار خان ناصر کے ناقدانہ تحریر کی کتابی صورت ہے۔یہ رسالہ مولانا سرفراز خان صفدر کےپوتے او رمولانا زاہد الراشدی کے بیٹے حافظ محمد عمار خان صاحب کےامت کےاجماعی تعامل اوراہل سنت کےعلمی مسلمات کے دائروں سے تجاوز اورخطرناک بے اصولیوں پر مشتمل ہے۔(م۔ا)
دین اسلام کے بنیادی اور اہم ترین اصولوں میں سے ایک اصول یہ ہے کہ تمام انسانوں سے بالعموم اور اپنےمسلمان بھائیوں کےساتھ بالخصوص ،خیر خواہی ،ہمدردی او ربھلائی کامعاملہ کیا جائے سب سے بڑی خیر خواہی یہ ہے کو لوگو ں کو صراط مستقیم کی رہنمائی کی جائے برائیوں اور معصیتوں سے خبردار کیا جائے اسی کا دوسرا نام ''فريضہ تبلیغ دین'' یعنی امر بالمعروف ونہی عن المنکر ہے عصر حاضر میں جو حضرات خدمت دین کا فريضہ سر انجام دے رہے ہیں ان میں ایک دیوبندی مکتب فکر کے نامور عالم دین حضرت مولانا محمدسرفراز صاحب ہیں جو ماشاء اللہ دو درجن کتابوں کے مصنف ہیں اور ان کے حلقہ میں ان کی تصانیف کو خوب پذیرائی حاصل ہے لیکن چونکہ وہ تمام مسائل کو اپنے مخصوص زاویہ نظر وفکر میں پیش کرتے ہیں اس لیے اکثروبیشتر اس کے تحفظ میں حد اعتدال سے تجاوز کرجاتے ہیں اپنے او ردوسرے مکتب فکر کے حضرات کےلیے عدل وانصاف کےپیمانے بھی ان کے ہاں مختلف ہیں جواصول اپنے دفاع میں ایک جگہ بڑی محنت وکاوش سے منتخب کرتے ہیں وہی...
زير نظر کتاب میں مولانا عبدالمنان نوری پوری کے ان مناظرات کو جمع کیا گیا ہے جو وقتا فوقتا مختلف عنوانات پر بذریعہ خط وکتابت ہوئے-ان مکالموں میں کیا مرزا غلام احمد قادیانی نبی ہے؟کیا تقلید واجب ہے؟تعداد التراویح،مسئلہ رفع الیدین اور فاتحہ خلف الامام جیسے مسائل قابل ذکر ہیں-کتاب کے آخر میں حافظ عبدالسلام بھٹوی صاحب کے تین مناظروں کا تذکرہ کیا گیا ہے، جن میں پہلا مناظرہ ایک دین اور چار مذہب کے نام سے ہے،جس کا جواب قاضی حمیداللہ صاحب نے اظہار المرام کے نام سے دیا اس کا جواب بھٹوی صاحب نے کشف الظلام کی صورت میں دیا-جبکہ تیسرا مناظرہ سورۃ فاتحہ اور احناف کے نام سے سپرد قلم کیا گیا ہے-
حضرت مولانا عبدالقادر روپڑی اہل حدیث کے مایہ ناز مناظر، ہر دلعزیز خطیب، سیاسی رہنما اور تحریک پاکستان کے نامور مجاہد تھے۔ ایسی نابغہ روزگار شخصیات روز روز پیدا نہیں ہوتیں۔ آپ کے علمی، دینی، تبلیغی اور ملی خدمات کا دائرہ بے حد وسیع ہے ۔ آپ مسلک اہل حدیث کے دفاع کے لیے ہر وقت آمادہ رہتے ان کی پوری زندگی اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے بسر ہوئی۔ زیر تبصرہ کتاب میں جیسا کہ نام سے ظاہر ہے مسئلہ مسنون تراویح، صداقت مسلک اہل حدیث اور ضلالت بریلویت، فاتحہ خلف الامام، بشریت مصطفیٰﷺ، مسئلہ حاضر و ناظر، نفی علم غیب، مسئلہ استمداد لغیر اللہ، عدم سماع موتی اور ایسے ہی دیگر عنوانات پر مناظروں کی روداد قلمبند کی گئی ہے اور ان مناظروں میں حضرت حافظ صاحب نے بہت سلجھے انداز میں کتاب و سنت کے دلائل و براہین دیتے ہوئے اپنے حریفوں کو شکست سے دوچار کر رکھا ہے یہ ایمان افروز روداد علما، طلبہ اور پڑھے لکھے احباب کے لیے یکساں مفید ہے۔اس فن سے دلچسپی رکھنے والوں کو چاہیے کہ وہ اس کتاب کا ایک ایک لفظ بغور پڑھیں کیونکہ اس فن میں الفاظ کی پہچان اور ہیر پھیر بھی نتائج بدلنے میں اپنا اثر رکھتے ہیں۔(ع۔م)
&nbs...
جب کوئی شخص کسی بڑے عہدے پر فائز ہو جاتا ہے تو اس کا منصب حصول علم کی راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔کہیں فرائض منصبی حصول علم کے لئے ضروری فراغت کا دائرہ تنگ کرنے لگتے ہیں تو کہیں احساس کمال جذبہ طلب پر چھانے لگتا ہے۔نیز مناصب کا تزک واحتشام مادی اور نفسیاتی الجھنیں پیدا کر دیتا ہے۔علاوہ ازیں جب اس کا حلقہ ارادت وسیع ہوجاتا ہے تو اس کے علم وتجربہ پر اعتماد کرنے والوں کے لئے اس کے نظریات وافکار میں سے صحیح وغلط میں امتیاز کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔اور اس طرح بغیر علم حاصل کئے بلند مقام پر پہنچ جانے والے اشخاص ضلوا فاضلوا کا مصداق بن جاتے ہیں اور یہ صورت حال تابع اور متبوع دونوں کے لئے فتنہ بن جاتی ہے۔ایسا ہی کچھ معاملہ بریلوی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے نامور نابغہ عصر ڈاکٹر پروفیسر طاہر القادری کے ساتھ پیش آیا ہے۔جنہیں اتفاق سے قومی ذرائع ابلاغ میں بھر پور تشہیر بھی میسر ہے۔لیکن ان کے مبلغ علم کا یہ حال ہے کہ صحیح عربی عبارت بھی نہیں پڑھ سکتے اور قرآن مجید کے ترجمہ میں بے شمار غلطیاں کرتے نظر آتے ہیں،اور ان کی یہ غلطیاں خود ان کے اپنے مسلک کے لوگ نکال نکال کر ان کے م...
نقد و تنقید دراصل لغوی طور پر کھرے وکھوٹے کی پہچان کا نام ہے جوہری سکوں کے کھرے کھوٹے کوجانچتا ہے اس کے اس عمل کو نقد وتنقید کہا جاتا ہے اسی طر ح فرد کےفکر وخیال، عقیدہ وعمل کو جانچنے اور صحیح وغلط کی معرفت کے عمل کا نام نقد ہے، سماج میں پنپے ہوئے عقیدہ وعمل کے حسن وقبح اور اچھائی وبرائی کو جانچنے اور دینی، تاریخی اورسیاسی تحریروں کے نقائص کو نمایاں کرنے کا نام نقد وتنقید ہے۔ لیکن تنقید کے سلسلے میں بنیادی بات یہی ہے کہ نقاد کو چاہیے کہ وہ متن کو متن ہی کے اصول و قوانین کی روشنی میں پڑھے، اپنے مفروضات کی روشنی میں نہیں۔ اور نقد علمی، تاریخی، دینی، سیاسی ہرطرح کا ہوسکتا ہے۔ اور تنقیدی عمل کےلیے ضروری ہے خواہ وہ لسانی ہو یا قلمی اس کے پیچھے ایسے اصول وضوابط نہ ہوں کہ جس سے تنقید ی عمل فساد بن جائے۔ محترم جناب عبد المعید صاحب نے زیرنظر کتابچہ ’’ نقد کےدینی اصول ‘‘ میں دینی نقد کی شکل نمایاں کرتے ہوئے نقد وتنقیدکےکچھ اصول وضوابط پیش کیے...
اہل پاکستان کے لئے ڈاکٹر طاہر القادری کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ان کی شخصیت اہل علم کے ہاں ہمیشہ سے متنازعہ رہی ہے۔ان کے معتقدین انہیں مفکر اسلام،نابغہ عصر، قائد انقلاب اور شیخ الاسلام ایسے پر فخر القاب سے یاد کرتے ہیں۔جبکہ ان کے ناقدین انہیں احسان فراموش، شہرت کا بھوکا اور حب جاہ و منصب کا حریص قرار دیتے ہیں۔موصوف کے ناقدین میں محض مسلکی مخالفین ہی شامل نہیں ہیں، بلکہ ان کے ہم مکتب فکر بریلوی علما بھی ،جن کی طرف قادری صاحب اپنا انتساب کرتے ہیں،موصوف کو خطرے کی گھنٹی سمجھتے ہوئے اہل سنت میں شمار کرنے پر تیار نہیں ہیں۔شہرت و ناموری کی خاطر قادری صاحب کرسمس کا کیک کاٹنے اور دشمنان صحابہ روافض کی مجالس کو رونق بخشنے سے بھی ذرا نہیں شرماتے ۔اور اب تو نوبت بایں جا رسید کہ انہوں نے اعداے ملت یہود ونصاریٰ کے حق میں بھی فتاویٰ صادر کرنے شروع کر دیئے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب " پروفیسر طاہر القادری ،ایک علمی وتحقیقی جائزہ "بریلوی مکتب فکر کے معروف عالم دین مفتی غلام سرور قادری مشیر وفاقی شرعی عدالت پاکستان ومہتمم جامعہ غوثیہ مین مارکیٹ لاہور...
محترم جناب ڈاکٹر ذاکر نائیک ﷾ہندوستان کے ایک معروف مبلغ اور داعی ہیں۔آپ اپنے خطبات اور لیکچرز میں اسلام اور سائنس کے حوالے سے بہت زیادہ گفتگو کرتے ہیں، اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسلام نے آج سے چودہ سو سال پہلے جو کچھ بتا دیا تھا، آج کی جدید سائنس اس کی تائید کرتی نظر آتی ہے۔ اور یہ کام وہ زیادہ تر غیر مسلموں کو اسلام کی دعوت دیتے وقت کرتے ہیں ،تاکہ ان کی عقل اسلام کی حقانیت اور عالمگیریت کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے سامنے سر تسلیم خم کر دے۔اسلام اگرچہ سائنس کی تائید کا محتاج نہیں ہے، اور اس کا پیغام امن وسلامتی اتنا معروف اور عالمگیر ہے کہ اسے مسلم ہو یا غیر مسلم دنیا کا ہر آدمی تسلیم کرتا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب " ڈاکٹر ذاکر نائیک کے فیصلہ کن مناظرے " محترم ڈاکٹر ذاکر نائیک ﷾کی انگریزی کتاب کا اردو ترجمہ ہے ۔ترجمہ کرنے کی سعادت سید علی عمران اور انجم سلطان شہباز صاحبان نے حاصل کی ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے ڈاکٹر ذاکر نائیک کے ان فیصلہ کن مناظروں کو ایک جگہ جمع کر دیا ہے جن میں انہوں نے فریق مخالف کو مستند عقلی ونقلی دلائل کے ذریعے خاموش ہو جانے...
ڈاکٹر ذاکر نائک کا نام عوامی و علمی حلقوں میں کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ ان کی موجودہ زمانہ سے ہم آہنگ کتابیں اور ہر فکر سے منسلک لوگوں سے مناظرے خود ان کا تعارف ہیں۔ ان کی اسلام پر چالیس اعتراضات اوران کے مدلل جوابات، قرآن اور جدید سائنس، تصور خدا بڑے مذاہب کی روشنی میں، اسلام اور دہشت گردی، اسلام میں عورتوں کے حقوق وغیرہ جیسی کتابیں زیور طبع سے آراستہ ہو کر عوام و خواص سے داد وصول کر چکی ہیں۔ زیر مطالعہ کتاب ڈاکٹر موصوف کے چند مشہور مناظروں پر مشتمل ہے۔ پہلا مناظرہ ’قرآن اور بائبل سائنس کی روشنی میں‘ کے عنوان سے ہے جس میں ڈاکٹر ذاکر نائیک نے قرآن جبکہ کرسچن سکالر ڈاکٹر ولیم کیمبل نے بائبل کو سائنس سے ثابت کرنے کے لیے اپنے اپنے دلائل دئیے ہیں۔ دوسرا مناظرہ ’اسلام اور ہندو مت میں خدا کا تصور‘ کے موضوع پر ہے جو ڈاکٹر ذاکر نائیک اور ہندو سکالر سری سری روی شنکر کے مابین ہے۔ تیسرا اور آخری مناظرہ گوشت خوری کے موضوع پر ہے جس میں ہندوؤں کے مناظر رشمی بھائی زاویری نے حصہ لیا ہے۔ ان مناظروں میں اسلام کی حقانیت پر بہت سے علمی و عقلی دلائل قارئین کے لیے افادے کے...
افراد امت تک دین کا پیغام پہنچانا نبوی مشن ہے جسے ارباب علم نےسنبھال رکھا ہے اور بخیر وخوبی سرانجام دے رہے ہیں لیکن بعض لوگ دین ومذہب کے نام پر لوگوں کا جذباتی ،مذہبی اورمعاشی استحصال کررہے ہیں افسوس کہ جناب طاہر القادری صاحب کا نام بھی انہی میں شامل ہے موصوف دین اور عشق رسول ﷺ کے نام پرمعاشرے میں بدعات کو فروغ دے رہے ہیں ان کےنام سے بہت سی کتابیں منصۂ شہود پر آچکی ہیں لیکن ان میں محکم استدلال کے بجائے من گھڑت اور ضعیف وواہی روایات سے دلیل اخذ کی جانے کی کوشش کی جاتی ہے اسی طرح تفسیر میں بھی موصوف کامنہج درست نہیں جناب ڈاکٹر رفض وتشیع کی طرف بھی میلان رکھتے ہیں جیسا کہ وہ باقاعدہ مجالس عزا میں جاکر خطاب کرتے ہیں زیرنظر کتاب میں ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کی علمی خیانتوں کو طشت ازبام کیا گیا ہے جس سے ان کااصل چہرہ بے نقاب ہوکر سامنے آگیا ہے امیدہے کہ اس کےمطالعہ سے قارئین کو جناب ''شیخ الاسلام '' کو پہنچاننے میں آسانی رہے گی-
یزید بن معاویہ ؓ تابعین میں سے ہیں اور صحابی رسول سیدنا امیر معاویہ کے بیٹے ہیں۔بعض روافض اور مکار سبائیوں نے ان پر بے شمار جھوٹے الزامات لگائے ہیں ۔یزید بن معاویہ پر لگائے جانے والے بیشتر الزامات بے بنیاد، من گھڑت اور سبائیوں کے تراشے ہوئے ہیں۔ زیر نظر کتاب’’ یزید بن معاویہ کے دور حکومت میں مخالف تحریکیں‘‘ ڈاکٹر محمد الہادی کی کتاب مواقف المعارضة في عهد يزيد بن معاويه کا اردو ترجمہ ہے ۔ فاضل مصنف نے اس تحقیقی کتاب میں کربلا، واقعہ حرہ،اور محاصرہ مکہ کے واقعات وحقائق کی تحقیق پیش کی ہے۔فاضل مصنف نے اپنی اس علمی تحقیق میں سبائیوں کی طرف سے یزید پر لگائے جانے والے الزامات واعتراضات کو غلط ثابت کیا ہے ۔(م۔ا)