رجب اسلامی سال کا ساتواں قمری مہینہ ہے اور حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے نبیﷺ نے فرمایا ’سال بارہ مہینوں کا ہے جن میں سے چار حرمت والے ہیں لفظ رجب ترجیب سے ماخوذ ہے کہ جس کے معنی تعظیم کے ہیں ،اس مہینے کی تعظیم اور حرمت کی وجہ سے اس کا نام ’’ رجب ‘‘رکھا گیا کیوں کہ عرب اس مہینے میں لڑائی سے مکمل اجتناب کرتے تھے ۔اس مہینے میں کسی نیک عمل کو فضیلت کے ساتھ خاص نہیں کیا گیا جن بعض اعمال کو فضیلت کے ساتھ کے بڑھا چڑہا کر بیان کیا جاتا ہے وہ محض فرضی قصے اور ضعیف و موضوع روایات پر مبنی داستانیں ہیں لہذا جو اعمال کتاب و سنت سے ثابت ہیں ان پر عمل کرنا چائیے مسلمان اس ماہِ رجب میں کئی قسم کے کام کرتے ہیں مثلا صلاۃ الرغائب، نفلی روزں کا اہتمام ، ثواب کی نیت سے اس ماہ زکوۃ دینا ،22 رجب کو کونڈوں کی رسم ادا کرنا 27 رجب کو شب معراج کی وجہ سے خصوصی عبادت کرنا، مساجد میں چراغاں کرنا جلسے و جلوس کا اہتمام کرنا،آتش بازی اور اس جیسی دیگر خرافات پر عمل کرنا یہ سب کام بدعات کے دائرے میں آتے ہیں ۔ عطاء الرحمن ضیا اللہ صاحب نے زیر نظر کتابچہ بعنوان ’’ ماہ رجب بدعات کے گھیرے میں ‘‘ اختصار کے ساتھ قرآن و احادیث کی روشنی میں اس ماہ رجب میں رواج پا جانے والی بدعات و خرافات کا ردّ کیا ۔ اللہ تعالیٰ اس کتابچہ کو اہل اسلام کے لیے مفید بنائے اور ان کو خرافات سے محفوظ فرمائے ۔ (آمین) (م۔ا)
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ کے چچا ابو طالب کے بیٹے تھے اور بچپن سے ہی حضورﷺ کے زیر سایہ تربیت پائی تھی بعثت کے بعد جب حضور ﷺ نے اپنے قبیلہ بنی ہاشم کے سامنے اسلام پیش کیا تو سیدنا علی نے سب سے پہلے لبیک کہا اور ایمان لے آئے ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ماسوائے تبوک کے تمام غزوات حضور ﷺ کے ساتھ تھے ۔ بڑے بڑے جنگجو آپ کے سامنے آنے کی جرأت نہ کرتے تھے ۔ شجاعت کے علاوہ علم و فضل میں بھی کمال حاصل تھا ۔ ایک فقیہ کی حیثیت سے آپ کا مرتبہ بہت بلند ہے۔ خلیفۂ ثالث سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد آپ نے مسند خلافت کو سنبھالا۔ نماز فجر کے وقت ایک خارجی نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ پر زہر آلود خنجر سے حملہ کیا جس سے آپ شدید زخمی ہو گئے ۔ اور حملہ کے تیسرے روز رحلت فرما گئے ۔ انتقال سے پہلے تاکید کی کہ میرے قصاص میں صرف قاتل ہی کو قتل کیا جائے کسی اور مسلمان کا خون نہ بہایا جائے ۔ زیر نظر کتاب ’’ خصائص علی رضی اللہ عنہ ‘‘ امام نسائی رحمہ اللہ کی تصنیف ہے ۔ امام نسائی نے اس کتاب میں سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی وہ شخصی عظمتیں اور سیرت و کردار کی رفعتیں مختلف ابواب میں بیان کی ہیں جو تاجدار عرب و عجم ﷺ کی نطقِ گوہر بار سے مختلف اوقات میں بیان کی گئیں ۔ نوید احمد ربانی صاحب نے اس کتاب کو اردو قالب میں ڈھالا ہے ۔ محقق دوراں علامہ غلام مصطفیٰ ظہیر امن پوری حفظہ اللہ کے کتاب ہذا کے فوائد ، تحقیق و تخریج سے کتاب کی افادیت دوچند ہو گئی ہے ۔ (م۔ا)
ایک مثالی معاشرے کی تشکیل کے لیے تعلیم کا ہونا ازحد ضروری ہے ۔ استاد یا معلّم وہ ہے جو متعلم یا طالب علم کی مدد و معاونت اور رہنمائی کرتا ہے ۔ درس و تدریس کے میدان میں معلّم کی حیثیت ایک مربی و محسن کی مانند ہے ۔ اسلامی معاشرے میں ہمیشہ استاد کو قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے ۔ درس گاہ کوئی بھی ہو،معلّم کے بغیر درس گاہوں کا تقدس بالکل ایسا ہی ہے، جیسا کہ ماں کے بغیر گھر۔ اسلام نے دنیا کو علم کی روشنی عطا کی،استاد کو عظمت اور طالب علم کو اعلیٰ و ارفع مقام عطا کیا ہے ، نبیِ کریم ﷺ نے اپنے مقام و مرتبہ کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ”مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے‘‘ زیر نظر کتاب ’’ اساتذہ کا کردار اور چند عملی نمونے ‘‘ مفتی عبد اللطیف صاحب کی کاوش ہے انہوں نے اس کتاب میں بڑی جاں فشانی و محنت سے اکابر علماء و اساتذہ کے تعلیمی و تدریسی تجربات کو جمع کیا ہے ۔ (م۔ا)
قیامت آثار قیامت کو نبی کریم ﷺ نے احادیث میں وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے جیسا کہ احادیث میں ہے کہ قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک عیسیٰ بن مریم نازل نہ ہوں گے ۔ وہ دجال اور خنزیر کو قتل کریں گے ۔صلیب کو توڑیں گے ۔ مال عام ہو جائے گا اور جزیہ کو ساقط کر دیں گے اور اسلام کے علاوہ کوئی اور دین قبول نہ کیا جائے گا اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ اسلام کے سوا سب ادیان کو ختم کر دے گا اور سجدہ صرف اللہ وحدہ کے لیے ہو گا ۔ زیر نظر کتاب ’’ علامات قیامت اور نزول مسیح ‘‘ مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب کی مرتب شدہ ہے ۔ یہ کتاب تین حصوں پر مشتمل ہے ۔ پہلا حصہ حصۂ دوم ہی کی تلخیص ہے جس میں حضرت عیسیٰ کی علامات کا مقابلہ مرزا غلام احمد قادیانی کے حالات سے کیا گیا ہے ۔ دوسرا حصہ علامہ انور شاہ کشمیری کی عربی تصنیف التصريح بماتواتر في نزول المسيح کا اردو ترجمہ ہے ۔ جبکہ تیسرے حصے میں وہ تمام علاماتِ قیامت ایک خاص انداز میں پر مرتب کی گئی ہیں جو حصہ دوم کی احادیث میں آئی ہیں ، نیز علاماتِ قیامت کے بعض اہم پہلوؤں پر قرآن و سنت کی روشنی میں تحقیقی بحث کی گئی ہے ۔ (م۔ا)
سیرت نبوی ﷺ کامو ضوع ہر دور میں مسلم علماء ومفکرین کی فکر وتوجہ کا مرکز رہا ہے،اور ہر ایک نے اپنی اپنی وسعت وتوفیق کے مطابق اس پر خامہ فرسائی کی ہے۔ نبی کریم ﷺ کی سیرت کا مطالعہ کرنا ہمارے ایمان کا حصہ بھی ہے اور حکم ربانی بھی ہے۔ زیر نظر کتاب’’وہ نبیﷺ ‘‘ادارہ حقوق الناس کے تقابل ادیان و سیرت سیکشن کے انچارچ جناب مولانا خاور رشید بٹ صاحب کی کاوش ہے ۔یہ کتاب سیرت النبیﷺ پر اٹھنے والے غیر مسلم بہن بھائیوں کے بے شمار سوالات ،اعتراضات اور شکوک و شبہات کے محکم اور ٹھوس دلائل فراہم کرتی ہے ۔ صاحب تصنیف نے عبد الوارث گل صاحب ( بانی و چئیرمین ادارہ حقوق الناس ویلفیئر فاؤنڈیشن) کی خصوصی فرمائش پر یہ کتاب مرتب کی ہے ۔اللہ تعالیٰ مرتب و ناشرین کی اس عمدہ کاوش کو قبول فرمائے ۔(م۔ا)
سلطان محمود غزنوی (971ء ۔ 1030ء ) کا پورا نام یمین الدولہ ابو القاسم محمود ابن سبکتگین ہے ۔ 997ء سے اپنے انتقال تک سلطنت غزنویہ کے حکمران رہے۔ انہوں نے غزنی شہر کو دنیا کے دولت مند ترین شہروں میں تبدیل کیا ۔ اس کی وسیع سلطنت میں موجودہ مکمل افغانستان، ایران اور پاکستان کے کئی حصے اور شمال مغربی بھارت شامل تھا۔ وہ تاریخِ اسلامیہ کے پہلے حکمران تھے جنہوں نے سلطان کا لقب اختیار کیا۔ بت شکن سلطان محمود غزنوی اسلامی تاریخ کا ایسا درخشندہ ستارہ ہے جس پر بجا طور پر برصغیر کے مسلمان فخر کرتے ہیں ۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ سلطان محمود غزنوی‘‘ محمود غزنوی کی حیات و خدمات،کارناموں کے حوالے سے بہترین کتاب ہے۔ مصنف نے کوشش کی ہے کہ زیادہ سے زیادہ تاریخی حقائق کو یکجا کیا جائے ۔ اس کتاب میں ص 78 اور 80 مس ہیں یہ صفحات ملنے پر ان کو اس میں شامل کر دیا جائے گا۔ ان شاء اللہ(م۔ا)
زیر نظر ’’ قرآن مجید عکسی بدو ترجمہ مع محشی بنام حدیث التفاسیر‘‘مولانا عبدالستار محدث دہلوی( امیر ثانی جماعت غرباء اہلحدیث ۔ پاکستان) کے تفسیری حواشی پر مشتمل ہے مولانا عبد الستار دہلوی کے تفسیری حواشی کو مولانا ابو عمار عبد القہار دہلوی بن مولانا عبد الوہاب محدث دہلوی نے بڑی عرق ریزی اور باریک بینی سے مرتب کیا ہے ۔ تفسیر حواشی کے علاوہ ’’ حل لغات‘‘ کے عنوان سے اس میں عربی کلمات کے اصلی معانی ان کے طریقہ استعمال اور فنی باریکیوں پر مشتمل مفید معلومات بھی درج ہیں۔متعدد مقامات پر فاضل مرتب نے خود بھی اپنی خداد و بصیرت و فراست،علمی لیاقت اور فکری صلاحیت کی بنیاد پر جو نکتہ سنجی فرمائی اور مشکل مقامات کی عقدہ کشائی کی ہے اور مسائل کی الجھی ہوئی گتھی کو سلجھایا ہے اس سے اس تفسیری مجموعہ کی افادیت دو چند ہو گئی ہے۔ دو جلدوں پر مشتمل یہ تفسیری مجموعہ فوائد ستاریہ کے نام سے معروف ہے ۔(م۔ا)
اس روئے ارضی پر انسانی ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ کے بعد حضرت محمد ﷺ ہی ،وہ کامل ترین ہستی ہیں جن کی زندگی اپنے اندر عالمِ انسانیت کی مکمل رہنمائی کا پورا سامان رکھتی ہے ۔ رہبر انسانیت سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ قیامت تک آنے والے انسانوں کے لیے’’اسوۂ حسنہ‘‘ ہیں ۔ گزشتہ چودہ صدیوں میں اس ہادئ کامل ﷺ کی سیرت و صورت پر ہزاروں کتابیں اور لاکھوں مضامین لکھے جا چکے ہیں ۔اور کئی ادارے صرف سیرت نگاری پر کام کرنے کے لیے معرض وجود میں آئے ۔اور پورے عالمِ اسلام میں سیرت النبی ﷺ کے مختلف گوشوں پر سالانہ کانفرنسوں اور سیمیناروں کا انعقاد کیا جاتا ہے جس میں مختلف اہل علم اپنے تحریری مقالات پیش کرتے ہیں۔ ہنوذ یہ سلسلہ جاری و ساری ہے ۔ زیر نظر کتاب’’مطالعہ سیرت ‘‘مولانا وحید الدین خاں(مصنف کتب کثیرہ) کی تصنیف ہے۔انہوں اس کتاب میں سیرت رسول کا علمی اور تاریخی مطالعہ پیش کرتے ہوئے اس بات کو واضح کیا کہ سیرت نبوی کا اصل مقصد’’ اسوۂ نبوی‘‘ کو جاننا ہے۔(م۔ا)
ہندوستان کا وہ انقلابی دور جو جنگ آزادی سے متصف ہے اس دور کے تمام حالات کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو صرف اور صرف ایک جماعت نظر آئے گی جس نے خلوص اور نیک جذبے کے ساتھ استعماری قوتوں اور انگریزی ظلم و استبداد کے خلاف آزادی کا علم لہرایا اور پوری سرگرمی سے جنگ میں شریک رہی اور وہ جماعت ‘جماعت اہلحدیث ہے ۔ تاریخ کے سنہرے اوراق علمائے اہلحدیث کی بے مثال قربانیوں سے بھرپور ہیں۔علمائے اہل حدیث نے انگریز کی مخالفت میں اپنی جانیں قربان کیں ‘پھانسیوں پر وہ لٹکائے گئے ‘کالا پانی بھیجے گئے ‘جیل کی سزائیں کاٹیں ‘ان کی جائدادیں ضبط ہوئیں۔ زیر نظر کتابچہ ’’تحریک آزادی پاک و ہند اور اہل حدیث‘‘ مولانا محمد اشرف جاوید صاحب کا مرتب شدہ ہے۔ فاضل مرتب نے اس مختصر کتابچہ میں تحریک کا مختصرا تعارف ،انگریزی رپورٹ اور آخر میں مولانا فضل الٰہی اور عبد الغنی مجاہد کی خدمات اور خصوصاً سرحد و سلہٹ آسام کا ریفرنڈم پیش کیا ہے ۔ (م۔ا)
سیدنا خالد بن ولید قریش کے ایک معزز فرد اور بنو مخزوم قبیلہ کے چشم و چراغ تھے۔ سیدنا خالد بن ولید نے تلوار کے سائے میں پرورش پائی اس لیے وہ بہت پھرتیلے اور نڈر تھے۔ کشتی، گھڑ سواری اور نیزہ بازی کے ماہر تھے۔خالد بن ولید کئی جنگوں میں شریک رہے۔نبی ﷺ نے جنگ موتہ میں ان کی بے مثل بہادری پر انہیں سیف اللہ یعنی اللہ کی تلوار کا خطاب دیا۔ زیر نظر کتاب’’ خالد بن ولید سیف اللہ‘ الماس ایم اے کی تصنیف ہے ۔ یہ تاریخ اسلام کے اس عظیم سالار کی داستانِ حیات ہے جس کے جسم پر ایک انچ جگہ بھی ایسی نہیں تھی کہ جہاں زخم یا چوٹ نہ آئی ہو۔ یہ خالد بن ولید ہی ہیں جنہیں غیر مسلم مورخوں اور جنگی مبصروں نے بھی تاریخ کا ایک عظیم جرنیل قرار دیا ہے۔(م۔ا)
زیر نظر کتاب ’’ ہندو دھرم اور اسلام کا تقابلی مطالعہ ‘‘ حافظ محمد شارق سلیم کی تصنیف ہے۔اس کتاب میں انہوں نے ہندومت اور اسلام کی بہترین تحقیق پیش کی ہے۔کتاب کا موضوع اگرچہ دقیق ہے لیکن مصنف نے اسے قارئین کے لیے عام فہم بنانے کی بھرپور کوشش کی ہے ۔ سادہ اندازِ بیان اور مضمون پر گرفت اس کی قابل ذکر خصوصیات ہیں۔ کتاب کے مطالعے سے فاضل مصنف کی ہندو دھرم کی وسیع معلومات کا اندازہ ہوتا ہے۔ابواب کی ترتیب و تقسیم بھی نہایت عمدگی سے کی گئی ہے جس سے دونوں کا تقابل آسانی سے ممکن ہو جاتا ہے۔ تقابل ادیان کے موضوع پر اپنی نوعیت کی ایک منفرد کتاب ہے جس میں دونوں مذاہب کا نہایت مستند انداز سے تقابلی مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔فاضل مصنف نے بڑی عرق ریزی سے ان دونوں مذاہب پر تحقیق کر کے علم کے اس باب میں ایسی شمع جلائی ہے کہ جس کی روشنی سے صرف طلباء ہی نہیں بلکہ اہل علم حضرات بھی مستفید ہو سکتے ہیں۔(م۔ا)
زیر نظر مقالہ بعنوان ’’ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اجتہادی بصیرت اور عصر حاضر‘‘ محترم جناب ممتاز احمد سالک صاحب کا دکتورہ کا وہ تحقیقی مقالہ ہے جسے انہوں نے تقریبا18؍سال قبل جامعہ پنجاب میں پیش کر کے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ۔ مقالہ نگار نے تفسیر،حدیث،فقہ و سیرت،تاریخ و مغازی کی کتب سے استفادہ کر کے سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اجتہادی بصیرت کی روشنی میں جدید ترین سیاسی ،انتظامی اور معاشی مسائل کا جائزہ لینے کی اور اس کے حل میں رہنمائی لینے کی بھر پور کوشش کی ہے ۔ یہ تحقیقی مقالہ 8؍ابواب پر مشتمل ہے۔(م۔ا)
زیر نظر کتاب بعنوان ’’ فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات ایک علمی و تحقیقی جائزہ‘‘مفسر قرآن مصنف کتب کثیرہ حافظ صلاح الدین یوسف ﷾ کی تصنیف ہے اور المدینہ اسلامک ریسرچ سنٹر،کراچی کے دفاع حدیث انسائیکلوپیڈیا کی دوسری جلد ہے ۔ جلد اول امین احسن اصلاحی کے نظریات کے ردّ میں ہے ۔ کتاب ہذا فکر فراہی کے بانی مولانا حمید الدین فراہی اور اس فکر کے حامل دیگر اہل قلم کے افکار زائغہ اور نظریات باطلہ کے جائزہ پر مشتمل ماضی قریب اور عہد حاضر کے کچھ متجددین غامدی ،عمار خان ناصر بالخصوص فراہی کے گمراہ کن افکار و نظریات کی تردید و تنقید کا شاہکار ہے ۔ حافظ صلاح الدین یوسف صاحب نے اس کتاب میں قوی دلائل کی روشنی میں منکرین حدیث کے شبہات کو بے نقاب کر کے ان پر ایسی کاری ضرب لگائی ہے کہ جس کا جواب نہ ان کے پاس موجود ہے اور نہ آئندہ ہو گا ۔ ( ان شاء اللہ ) (م۔ا)
زیر نظر کتاب ’’ الإبداع شرح خطبة حجة الوداع‘‘ فضیلۃ الشیخ عبد اللہ بن محمد بن حمید رحمہ اللہ کی تصنیف ہے ۔ شیخ موصوف نے یہ کتاب اراکین مجلس رابطہ عالم کی خواہش پر 48 سال قبل 1972ء میں تصنیف کی ۔شیخ نے اس کتاب میں خطبۃ حجۃ الوداع کے معانی اور مقاصد جلیلہ کی وضاحت کرتے آسان اسلوب میں واضح فقرات میں خطبہ کی تشریح پیش کی ہے ۔مولانا محمد رفیق اثری حفظہ اللہ (شیخ الحدیث دار الحدیث محمدیہ (جلالپور پیروالہ) نے اردان طبقہ کے لیے آسان فہم انداز میں اس کا سلیس اردو ترجمہ کیا ہے ۔ چالیس سال قبل 1979ء میں دار العلوم محمدیہ ، جلالپور پیروالہ نے پہلی بار اسے شائع کیا ۔ بعد ازاں بیس سال قبل محمد افضل الاثری صاحب کی نظرثانی کے ساتھ مکتبۃ السنۃ،کراچی نے اسے شائع کیا ۔ اللہ تعالیٰ مصنف و مترجم کی اس کاوش کو قبول فرمائے ۔ (آمین)(م۔ا)
علم اسماء الرجال راویانِ حدیث کی سوانحِ عمری اور تاریخ ہے، اس میں راویوں کے نام، حسب و نسب، قوم و وطن، علم و فضل، دیانت و تقویٰ، ذکاوت و حفظ، قوت و ضعف اور ان کی ولادت وغیرہ کا بیان ہوتا ہے، بغیر اس علم کے حدیث کی جانچ مشکل ہے راویوں کے حالات اور ان کے متعلق جرح و تعدیل کے سلسلہ میں جو کتابیں لکھی گئیں انہیں کتب اسماءالرجال کہتے ہیں۔ ان کتابوں سے راویوں کے حالات, ان کی تاریخ پیدائش اور تاریخ وفات, ان کے شیوخ اور تلامذہ, ان کے متعلق ائمہ کی جرح و تعدیل, ان کے عقائد وغیرہ کا علم ہوتا ہے۔ ان کتابوں سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ کونسا راوی ثقہ تھا اور کونسا ضعیف۔ائمہ محدثین نے اس فن پر متعدد کتابیں لکھی ہیں۔ ز نظر کتاب ’’ ناقابل قبول راویوں کی کتاب‘‘ محترم جناب محمد سعید عمران صاحب کی تصنیف ہے فاضل مصنف نے اس کتاب میں تدوینِ حدیث کے دور کی پانچ مشہور کتابوں سے استفادہ کر کے ایسے 3161 راویوں کے صرف نام بمعہ حوالہ حروف تہجی کی ترتیب سے اس کتاب میں درج کر دئیے ہیں۔ اورجن کتابوں سے استفادہ کیا ہے ان کا مکمل نام مع مصنف و ناشر اور ان کتابوں کے نام کا مخفف بھی ہر غیر مقبول راوی کے نام کے ساتھ لکھ دیا ہے ۔ احادیث کی تحقیق کرنے والے حضرات غیر مقبول رواۃ کے اسماء کو اس کتاب میں آسانی سے دیکھ کر اصل مراجع تک پہنچ سکتے ہیں۔(م۔ا)
وتر کےمعنیٰ طاق کے ہیں ۔ احادیث نبویہ کی روشنی میں امت مسلمہ اس بات پر متفق ہے کہ ہمیں نمازِ وتر کی خاص پابندی کرنی چاہیے؛ کیونکہ نبی اکرم ﷺ سفر و حضر میں ہمیشہ نمازِ وتر کا اہتمام فرماتے تھے، نیز نبیِ اکرم ﷺ نے نماز ِوتر پڑھنے کی بہت زیادہ تاکید فرمائی ہے حتی کہ فرمایا کہ اگر کوئی شخص وقت پر وتر نہ پڑھ سکے تو وہ بعد میں اس کی قضا کرے ۔ آپ ﷺ نے امت مسلمہ کو وتر کی ادائیگی کا حکم متعدد مرتبہ دیا ہے ۔ نمازِ وتر کا وقت عشاء کی نماز کے بعد سے صبح ہونے تک رہتا ہے ۔ رات کے آخری حصہ میں نمازِ تہجد پڑھ کر نماز ِوتر کی ادائیگی افضل ہے ، نبی اکرم ﷺ کا مستقل معمول بھی یہی تھا ۔ البتہ وہ حضرات جو رات کے آخری حصہ میں نمازِ تہجد اور نمازِ وتر کا اہتمام نہیں کر سکتے ہیں تو وہ سونے سے قبل ہی وتر ادا کر لیں ۔ آپ کی قولی و فعلی احادیث سے ایک، تین، پانچ ،سات اور نو رکعات کے ساتھ نماز وتر کی ادائیگی ثابت ہے ۔ کتب احادیث وفقہ میں نماز کے ضمن میں صلاۃ وتر کے احکام و مسائل موجود ہیں ۔ نماز کے موضوع پر الگ سے لکھی گئی کتب میں بھی نماز وتر کے احکام موجود ہیں ۔ زیر نظر کتاب ’’مسنون نفلی نمازیں‘‘ محقق دوراں علامہ غلام مصطفیٰ ظہیر امن پوری﷾ کی تصنیف ہے ۔ اس کتاب کا ٹائٹل تو ’’ مسنون نفلی نمازیں‘‘ کے نام سے ہے لیکن اس میں صرف نماز وتر کے ہی جملہ تفصیلی احکام ہیں ۔ نماز وتر کے علاوہ نفلی نمازوں کا تذکرہ نہیں ہے ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ادارہ منہاج السنۃ النبویۃ لائبریری ،حیدرآباد ،دکن نے اس کا ٹائٹل پیج مسنون نفلی نمازیں کے نام سے بنا دیا ہے جبکہ اس میں صرف نماز وتر کے احکام و مسائل ہیں ۔ (م۔ا)
دنیا جہان میں مختلف نظریات اور مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ پائے جاتے ہیں ۔ لہذا ایک دوسرے کے نقطہ ہائے نگاہ کی تفہیم کے لیے بحث مباحثوں اور مناظروں کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ زیر نظر کتاب میں بھی ڈاکٹر ذاکر نائیک اور رشمی بھائی زاویری کے درمیان ''گوشت خوری جائز یا ناجائز'' کے موضوع پر ہونے والے مباحثے کو مرتب کیا گیا ہے جس میں فریقین کی طرف سے اپنے مؤقف کے اثبات میں جدید سائنسی حقائق کی روشنی میں پرزور دلائل دئیے گئے ہیں۔کتاب کے دوسرے حصے میں ڈاکٹر ذاکر نائیک نے موضوع سے متعلقہ سوالات کا بالدلائل تسلی بخش جواب پیش کیا ہے۔ ان سوالات کا تعلق دنیا میں کھائے جانے والی مختلف غذاؤں سے متعلق تھا کہ کون کون سی غذا جس کو دین اسلام حرام قرار دیتا ہے اور اس کی کیا حکمتیں ہیں اور جن غذاؤں کو حلال قرار دیتا ہے اس میں کیا کیا فوائد ہیں۔(م۔ا)
کسی بھی مسلمان کی عزت وآبرو کا دفاع کرنا انسان کو جنت میں لے جانے کا سبب بن سکتا ہے۔سیدنا ابو درداء فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:جو شخص اپنے بھائی کی عزت سے اس چیز کو دور کرے گا جو اسے عیب دار کرتی ہے ، اللہ تعالی قیامت کے دن اس کے چہرے سے آگ کو دور کر دے گا۔(ترمذی:1931)اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ کسی بھی مسلمان کی عزت کا دفاع کرنا ایک مستحب اور بے حدپسندیدہ عمل ہے۔اور اگر ایسی شخصیات کی عزتوں کا دفاع کیا جائے جو صاحب فضیلت ہوں تو اس عمل کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔مثلا اگرکسی صحابی کی شان میں گستاخی کی جاتی ہےاور ان پر غلط الزامات لگائے جاتے ہیں تو ایسے صحابی کی عزت کادفاع کرنا بہت بڑی عبادت اور بہت بڑے اجروثواب کا باعث ہے۔یزید بن معاویہ ؓ تابعین میں سے ہیں اور صحابی رسول سیدنا امیر معاویہ کے بیٹے ہیں۔بعض روافض اور مکار سبائیوں نے ان پر بے شمار جھوٹے الزامات لگائے ہیں اور ان کی عزت پر حملہ کیا ہے۔ان کی عزت کا دفاع کرنا بھی اسی حدیث پر عمل کرنے میں شامل ہے۔ زیر تبصرہ کتاب" قسطنطنیہ پر پہلا حملہ اور امیر یزید بن معاویہؓ کے بارے میں بشارت نبویﷺ" ہندوستان کے معروف عالم دین محترم شیخ ابو الفوزان کفایت اللہ سنابلی صاحب﷾ کی تصنیف ہے، جس میں انہوں نے ایک تو یزید بن معاویہ ؓ پر کئے گئے اعتراضات کا تسلی بخش جواب دیا ہے اور پھر ان کے فضائل ومناقب پر گفتگو کی ہے۔ یہ کتاب اپنے موضوع پر ایک علمی ، تحقیقی اور منفرد وشاندار کتاب ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ان کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
شام سریانی زبان کا لفظ ہے جو حضرت نوح کے بیٹے حضرت سام بن نوح کی طرف منسوب ہے۔ طوفان نوح کے بعد حضرت سام اسی علاقہ میں آباد ہوئے تھے۔ ملک شام کے متعدد فضائل احادیث نبویہ میں مذکور ہیں، قرآن کریم میں بھی ملک شام کی سرزمین کا بابرکت ہونا متعدد آیات میں مذکور ہے۔ یہ مبارک سرزمین پہلی جنگ عظیم تک عثمانی حکومت کی سرپرستی میں ایک ہی خطہ تھی۔ بعد میں انگریزوں اور اہل فرانس کی پالیسیوں نے اس سرزمین کو چار ملکوں (سوریا، لبنان، فلسطین اور اردن) میں تقسیم کرا دیا،لیکن قرآن و سنت میں جہاں بھی ملک شام کا تذکرہ وارد ہوا ہے اس سے یہ پورا خطہ مراد ہے جو عصر حاضر کے چار ملکوں (سوریا، لبنان، فلسطین اور اردن)پر مشتمل ہے۔ اسی مبارک سرزمین کے متعلق نبی اکرمﷺ کے متعدد ارشادات احادیث کی کتابوں میں محفوظ ہیں مثلاً اسی مبارک سرزمین کی طرف حضرت امام مہدی حجاز مقدس سے ہجرت فرما کر قیام فرمائیں گے اور مسلمانوں کی قیادت فرمائیں گے۔ حضرت عیسیٰ کا نزول بھی اسی علاقہ یعنی دمشق کے مشرق میں سفید مینار پر ہو گا۔ غرضیکہ یہ علاقہ قیامت سے قبل اسلام کا مضبوط قلعہ و مرکز بنے گا۔ زیرنظر کتابچہ ’’ فضائل الشام‘‘ابو امیمہ اویس صاحب کا مرتب شدہ ہے فاضل مرتب نے اس کتابچہ میں بلاد شام کی جغرافیائی حدود،حدیث کی روشنی میں ملکِ شام کی وجہ تسمیہ،ملکِ شام کی فضیلت میں قرآنی آیات کے علاوہ 30 احادیث تحقیق و تخریج اور اردو ترجمہ کے ساتھ پیش کی ہیں۔(م۔ا)
سیدنا خالد بن ولید قریش کے ایک معزز فرد اور بنو مخزوم قبیلہ کے چشم و چراغ تھے۔ نبی ﷺ نے جنگ موتہ میں ان کی بے مثل بہادری پر انہیں سیف اللہ یعنی اللہ کی تلوار کا خطاب دیا۔ سیدنا خالد بن ولید نے تلوار کے سائے میں پرورش پائی اس لیے وہ بہت پھرتیلے اور نڈر تھے۔ کشتی، گھڑسواری اور نیزہ بازی کے ماہر تھے۔ نبی پاک ﷺ کی وفات کے بعد خلیفہ اول سیدنا ابوبکر صدیق کے دور میں آپ اسلامی لشکروں کی سپہ سالاری کے فرائض انجام دیتے رہے۔ آپ نے جنگ احد سے سیدنا عمر فاروق کے دور خلافت تک جتنی جنگیں لڑیں ان جنگوں میں آپ نے ایک جنگ بھی نہیں ہاری۔ سیدنا خالد بن ولید امیر المومنین سیدنا عمر فاروق کی خلافت میں 21ھ 642ء میں شام کے شہر حمص میں فوت ہوئے ۔اپنی وفات پر انہوں نے خلیفۃ الوقت عمر فاروق کے ہاتھوں اپنی جائیداد کی تقسیم کی وصیت کی۔سوانح نگاروں نے سیدنا خالد بن ولید کی شجاعت و بہادری ، سپہ سالاری ،فتوحات کے متعلق کئی کتب تصنیف کی ہیں ۔ زیر نظر کتاب’’ شمشیر بے نیام‘‘ معروف ناول نگار عنایت اللہ التمش کے سحر انگیز قلم سے حضرت خالد بن ولیدؓ کی عسکری زندگی پر لکھا گیا ایک شاہکار ناول ہے۔ یہ تاریخ اسلام کے اس عظیم سالار کی داستانِ حیات ہے جس کے جسم پر ایک انچ جگہ بھی ایسی نہیں تھی کہ جہاں زخم یا چوٹ نہ آئی ہو۔ یہ خالد بن ولید ہی ہیں جنہیں غیر مسلم مورخوں اور جنگی مبصروں نے بھی تاریخ کا ایک عظیم جرنیل قرار دیا ہے۔(م۔ا)
کسی آدمی کی وہ بات ماننا،جس کی نص حجت شریعہ،قرآن و حدیث میں نہ ہو،نہ ہی اُس پر اجماع ہو اور نہ وہ مسئلہ اجتہادی ہو تقلید کہلاتا ہے ۔ تقلید اورعمل بالحدیث کے مباحث صدیوں پرانے ہیں ۔زمانہ قدیم سے اہل رائے اور ہل الحدیث باہمی رسہ کشی کی بنیاد ’’ تقلید‘‘ رہی ہے موجودہ دور میں بھی عوام وخواص کے درمیان مسئلہ تقلید ہی موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔ حالانکہ گزشتہ چند دہائیوں میں تقلیدی رجحانات کے علاوہ جذبۂ اطاعت کو بھی قدرے فروغ حاصل ہوا ہے ۔ امت کا درد رکھنے والے مصلحین نے اس موضوع پر سیر حاصل بحثیں کی ہیں اور کئی کتب تصنیف کیں ہیں۔ زیر نظر کتابچہ ’’سلف صالحین اورتقلید‘‘ غالبًا محدث العصر حافظ زبیر علی کے تقلید کے متعلق ایک تحقیقی مضمون کی کتابی صورت ہے ۔ حافظ صاحب مرحو م نے اس رسالہ میں کہا ہے کہ علماء کے لیے تقلید جائز نہیں بلکہ حسبِ استطاعت کتاب وسنت اور اجماع پر قولاً وفعلاً عمل کرنا ضرروی ہے اوراگر ادلۂ ثلاثہ میں کوئی مسئلہ نہ ملے تو پھر اجتہاد جائز ہے۔ اللہ تعالیٰ حافظ صاحب کی تمام تحقیقی وتصنیفی ، تدریسی وتبلیغی جہود کو قبول فرمائےاور ان کی مرقد پر اپنے رحمتوں کا نزول اور جنت الفردوس عطا فرمائے ۔(آمین)(م۔ا)
علوم اسلامیہ میں سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موضوع کو ایک ممتاز مقام حاصل ہے، قرآن وحدیث علوم وحی ہیں اور سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کا عملی نمونہ ہے۔ تاریخ انسانی کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ قوموں نے اپنے نبیوں، مذہبی رہنماؤں اور لیڈروں کے تذکروں میں قصہ گوئی اور غلو سے کام لیا اور ان کی مستند سیرت کہیں بھی محفوظ نہیں بلکہ انبیائے کرام کی سیرت ہمیں قرآن وحدیث سے زیادہ مستند انداز میں پتہ چلتی ہے۔ تاریخ انسانی نے ایک مرحلہ یہ بھی دیکھا کہ ایک شخص کی سیرت کو اس طرح محفوظ کیا گیا کہ پوری امت وجود میں آگئی اور اس کے اخلاق کریمانہ، نشست وبرخاست، طعام وقیام حتی کہ زندگی کے ہر ہر مرحلے پر اس کا عمل رہتی دنیا تک اسوہ حسنہ قرار پایا۔ اس شخص کی زندگی کے تذکرے سے دنیا کا بابرکت ترین علم ’’سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ وجود میں آیا۔ زیرِ تبصرہ کتاب خاص اسی موضوع پر ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور مقالات یا خطبات کو مرتب کیا گیا ہے۔ یہ کتاب مصنف کی ریڈیائی تقاریر، مختلف رسائل میں شائع ہونے والے مضامین، مقالات اور چند خطبات پر مشتمل ہے۔ اس کتاب میں بہت سے اہم مضامین کو شامل کیا گیا ہے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ تعلیم وتربیت، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی معلمانہ حکمت عملی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آداب تعلیم وغیرہ۔ حوالہ جات سے کتاب کو مزین کیا گیا ہے۔ کتاب کا اسلوب نہایت عمدہ، سادہ اور عام فہم ہے۔ یہ کتاب ’’خطبات ومقالات سیرت‘‘ پروفیسر عبد الجبار شاکر کی مرتب کردہ ہے۔ آپ تصنیف وتالیف کا عمدہ شوق رکھتے ہیں، اس کتاب کے علاوہ آپ کی درجنوں کتب اور بھی ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مؤلف وجملہ معاونین ومساعدین کو اجر جزیل سے نوازے اور اس کتاب کو ان کے میزان میں حسنات کا ذخیرہ بنا دے اور اس کا نفع عام فرما دے۔ آمین۔ (م ۔ ا)
فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق اہل بیت سے محبت رکھنا جزو ایمان ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات اور عبدالمطلب بن ہاشم کی ایمان قبول کرنے والی ساری اولاد اہل بیت میں شامل ہے۔ کسی بھی طرح کے قول وفعل سے ان کو ایذا دینا حرام ہے۔ بعض لوگ اہل بیت کےلیے لفظ ’’ علیہ السلام‘‘ استعمال کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ جبکہ سلف صالحین سے اہلبیت کےلیے علیہ السلام کا لفظ لکھنا، پڑھنا اور بولنا ثابت ہے۔ زیرنظر کتابچہ ’’اہلبیت کےلیے علیہ السلام اور سلف صالحین کا مؤقف‘‘ ابو امیمہ اویس صاحب کا مرتب شدہ ہے۔ مرتب موصوف نے اس کتابچہ میں صحاح ستہ سے ایسی 74 احادیث منتخب کر کے پیش کی ہیں کہ جن میں اہل بیت کےلیے علیہ السلام کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ (م ۔ ا)
اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کا ہر کام گناہ کہلاتا ہے، اہل علم نے کتاب وسنت کی روشنی میں گناہ کی دو قسمیں بیان کی ہیں۔ صغیرہ گناہ اور کبیرہ گناہ۔ بہترین انسان وہ ہے جسے گناہ کے بعد یہ احساس ہو جائے کہ اس سے غلطی ہوگئی ہے۔ گناہ کے بعد احساس ندامت اور پھر توبہ کےلیے پشیمانی کا احساس خوش نصیب انسان کے حصہ میں آتا ہے۔ گناہ انسان کے مختلف جوارح واعضاء سے سرزد ہوتے ہیں۔ زیر نظر کتاب ’’اعضائے انسانی کے گناہ‘‘ مولانا مفتی ثناء اللہ محمود صاحب کی تصنیف ہے۔ انہوں نے اس کتاب میں جن انسانی اعضاء سے گناہ صادر ہوتے ہیں، ان کی نشاندہی کی گئی ہے اور صادر ہونے والے گناہوں کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ ان گناہوں کے مراتب اور ان کا توڑ بھی بیان کیا گیا ہے۔ (م ۔ ا)
دین اسلام میں رسول اللہ ﷺ کی اطاعت اسی طرح فرض ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کی اطاعت فرض ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے : مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّه (سورہ نساء:80) جس نے رسول اللہﷺ کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی ۔ اور سورۂ محمد میں اللہ تعالیٰ کا ارشادِ مبارک ہے : يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ(سورہ محمد:33) ’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو اللہ اور رسول ﷺ کی اطاعت کرو (اور اطاعت سے انحراف کر کے ) اپنے اعمال ضائع نہ کرو۔‘‘اطاعت رسول ﷺ کے بارے میں یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ رسو ل اکرم ﷺ کی اطاعت صرف آپﷺ کی زندگی تک محدود نہیں بلکہ آپﷺ کی وفات کے بعد بھی قیامت تک آنے والے تمام مسلمانوں کے لیے فرض قرار دی گئی ہے ۔ اطاعت رسول ﷺ کے بارے میں صحیح بخاری شریف کی یہ حدیث بڑی اہم ہے ۔ کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا’’میر ی امت کے سب لوگ جنت میں جائیں گے سوائے اس شخص کے جس نے انکار کیا تو صحابہ کرام نے عرض کیا انکار کس نے کیا؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہوگا او رجس نے میر ی نافرمانی کی اس نے انکار کیا ۔(صحیح بخاری :7280)گویا اطاعتِ رسول ﷺ اورایمان لازم وملزوم ہیں اطاعت ہے تو ایمان بھی ہے اطاعت نہیں تو ایمان بھی نہیں ۔ اطاعت ِ رسول ﷺ کے بارے میں قرآنی آیات واحادیث شریفہ کے مطالعہ کے بعد یہ فیصلہ کرنا مشکل نہیں کہ دین میں اتباع سنت کی حیثیت کسی فروعی مسئلہ کی سی نہیں بلکہ بنیادی تقاضوں میں سے ایک تقاضا ہے ۔اتباع سنت کی دعوت کو چند عبادات کے مسائل تک محدود نہیں رکھنا چاہیے بلکہ یہ دعوت ساری زندگی پر محیط ہونی چاہیے۔جس طر ح عبادات(نماز ،روزہ، حج وغیرہ) میں اتباع سنت مطلوب ہے اسی طرح اخلاق وکردار ،کاروبار، حقوق العباد اور دیگر معاملات میں بھی اتباع سنت مطلوب ہے۔ زیر نظر کتاب’’ اتباع اور تقلید میں فرق ‘‘ ابو الاسلام سجد صدیق ررضا﷾ کی تحریر ہے موصوف نے مضبوط دلائل کے ساتھ اتباع اور تقلید میں فرق کو واضح کیا ہے۔(م۔ا)