اللہ رب العزت کے بے شمار احسانات میں سے بڑا احسان یہ ہے کہ اس نے ہم میں سے ایک نبی کو منتخب فرمایا اور انہیں کامل واکمل اور جامع شریعت دے کر مبعوث فرمایا۔ نبیﷺ نے نہایت جامعیت کے ساتھ دینی تعلیمات کو لوگوں تک پہنچانے کا حق ادا کر دیا۔ ان جامع تعلیمات کو دیکھتے ہوئے اور انہیں مد نظر رکھتے ہوئے بعض حضرات نے کہاوتیں اور ضرب الامثال جو کہ بظاہر مختصر مگر پر اثر الفاظ پر مشتمل ہوتے ہیں اور زبان وبیان میں نتائج اور اثرات کے لحاظ سے انتہائی اہمیت رکھتے ہیں کو متعارف کروایا۔ زیر تبصرہ کتاب بھی خاص ضرب الامثال اور کہاوتوں پر مشتمل ہے۔ اس میں 2800 اُردو کہاوتیں وضرب الامثال(مع انگریزی متبادل) یکجا کر کے الف بائی ترتیب سے پیش کیے گئے ہیں۔ جا بجا چند فارسی کہاوتیں اور ضرب الامثال وبعض اردو روز مرے ومحاورات بھی اس کتاب کا حصہ بن گئی ہیں۔ کہاوتوں اور ضرب الامثال کے بعد علمی استفادہ کی خاطر کہاوت‘ ضرب المثل اور محاوہ کے مفہوم‘ باہمی ربط وفرق اور اہمیت وافادیت پر مختلف ماہرین فن کے چند منتخب مفید علمی وادبی مضامین ومقالات اور معلوماتی شذرات پیش کیے گئے ہ...
عربی شاعری عربی ادب کی سب سے پہلی شکل ہے۔ عربی شاعری کا سب سے پہلا نمونہ چھٹی صدی میں ملتا ہے مگر زبانی شاعری اس سے بھی قدیم ہے۔ عربی شاعری صحیح تعریف اور اس کے اجزا میں محققین کا خاصا اختلاف رہا ہے۔ابن منظور کے مطابق شعر وہ منظوم کلام ہے جو وزن اور قافیہ میں مقید ہو۔ ظہورِ اسلام سے قبل جو بھی شاعری کی گئی اس کو جاہلیت سے تعبیر کیا گیا۔ظہورِ اسلام سے قبل عرب کا سارا علم شاعری پر محیط تھا، ان کے یہاں شاعری سے بڑھ کر علم، سرداری اور عزت و افتخار کا اور کوئی پیمانہ نہیں تھا۔ کسی کو باعزت کرنا ہو تو اس کی شان میں مدحیہ قصیدہ لکھتے اور ذلیل کرنا ہو تو اس کی ہجو کرتے۔ نیز یہ شعرا ءجس کو ذلیل کر دیتے پھر اس کی عزت خاک میں مل جاتی اور جس کی تعریف کر دیتے وہ عزت و ناموری کی بلندیوں پر پہنچ جاتا۔ دورِ جاہلی میں شعر کے علاوہ خطابت اور خطوط کو بھی کچھ اہمیت حاصل تھی۔ آغازِ اسلام میں شاعری دفاع کا ایک ذریعہ ثابت ہوئی، چنانچہ شاعرِ اسلام سیدنا حسان بن ثابت اور دوسرے مسلمان شعرا نے اپنی شاعری کے ذریعہ کفار قریش کے خلاف اسلام اور...
علوم نقلیہ کی جلالت وعظمت اپنی جگہ مسلمہ ہے مگر یہ بھی حقیقت کہ ان کے اسرار ورموز اور معانی ومفاہیم تک رسائی علم نحو کے بغیر ممکن نہیں۔ کلام الٰہی ،دقیق تفسیر ی نکات،احادیث رسول ﷺ ،اصول وقواعد ،اصولی وفقہی احکام ومسائل کا فہم وادراک اس علم کے بغیر حاصل نہیں کرسکتے یہی وہ عظیم فن ہےکہ جس کی بدولت انسان ائمہ کےمرتبے اور مجتہدین کی منزلت تک پہنچ جاتاہے ۔جوبھی شخص اپنی تقریر وتحریر میں عربی دانی کو اپنانا چاہتا ہے وہ سب سے پہلے نحو کےاصول وقواعد کی معرفت کا محتاج ہوتاہے ۔عربی مقولہ ہے : النحو فی الکلام کالملح فی الطعام یعنی کلام میں نحو کا وہی مقام ہے جو کھانے میں نمک کا ہے ۔ قرآن وسنت اور دیگر عربی علوم سمجھنےکے لیے’’ علم نحو‘‘کلیدی حیثیت رکھتاہے اس کے بغیر علوم ِاسلامیہ میں رسوخ وپختگی اور پیش قدمی کاکوئی امکان نہیں ۔ قرنِ اول سے لے کر اب تک نحو وصرف پرکئی کتب ان کی شروح لکھی کی جاچکی ہیں ...
ذرائع ابلاغ کی موجودہ برق رفتار ترقی نے دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال رکھا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے ساتھ ساتھ دیگر شعبہ ہائے زندگی میں ہونے والی اس زبر دست ترقی کے باعث نت نئے تصورات پر مبنی جدید اصطلاحات وضع ہو رہی ہیں۔ ان اصطلاحات کی بڑی تعداد مغرب میں تشکیل پاتی ہیں اور پھر ایسی جدید اصطلاحات کا ترجمہ نہ ہونے کے باعث جلد ہی دنیا بھر میں مروج ہو جاتی ہیں۔انگریزی سے ترجمہ کی اہمیت جتنی آج ہے پہلے محسوس نہیں کی گئی تھی۔ انگریزی ہماری معلومات‘ ہمارے خیالات اور ہمارے اظہار جذبات کا منبع ہے۔ رسالوں‘ اخباروں‘ ریڈیو اور ٹیلی وژن پر انگریزی متن کو اردو کا جامہ پہنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ ہمارے جیسے ترقی پذیر ممالک میں بہت کم لوگوں کو ان اصطلاحات کے سیاق وسباق سے آشنائی حاصل ہو پاتی ہے۔ ایک عرصہ سے ایک لغت کی ضرورت محسوس ہو رہی تھی جس میں ایسی اصطلاحات کو یکجا گیا گیا ہو۔زیرِ تبصرہ کتاب خاص اسی موضوع کے حوالے سے ہے جس میں مصنف نے انگریزی اصطلاحات کو بہت سادہ اور عام فہم زبان میں اردو زبان کے قالب میں ڈھالا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ اصطلاحات اردو زبان ہ...
عربی سیکھنا اور سکھانا امت مسلمہ کا اولین فریضہ ہے ۔ لیکن مسلمانوں کی اکثریت عربی زبان سے ناواقف ہے جس کی وجہ سے وہ فرمان الٰہی اور فرمان نبوی ﷺ کو سمجھنے سے قاصر ہیں ۔ حتی کہ تعلیم حاصل کرنے والے لوگوں کی اکثریت سکول ،کالجز ،یونیورسٹیوں کے نصاب میں شامل اسلامیات کے اسباق کو بھی بذات خود پڑھنے پڑھانے سے قا صر ہے ۔دنيا كي سب سے بڑی اسلامی مملکت پاکستان دنیا کے نقشے پر اس لیے جلوہ گر ہوئی تھی کہ اس کے ذریعے اسلامی اقدار اور دینی شعائر کا احیاء ہوگا۔ اسلامی تہذیب وثقافت کا بول بالا ہوگا اور قرآن کی زبان سرزمین پاک میں زند ہ وتابندہ ہوگی۔مگر زبان قرآن کی بے بسی وبے کسی کہ ارض پاکستان میں اس مقام پر پہنچ گئی ہے کہ دور غلامی میں بھی نہ پہنچی تھی۔علماء ومدارس کی اپنی حدتک عربی زبان کی نشرواشاعت کے لیے کوششیں وکاوشیں قابل ذکر ہیں۔ لیکن سرکاری طور پر حکومت کی طرف کماحقہ جدوجہد نہیں کی گئی۔ زیرتبصرہ کتاب ’’ جدید عربی ایسے بولیے ‘‘ مولانا بدر الزماں قاسمی کیرانوی کی کاوش ہے ۔ اس کتاب کی جدت،ندرت،اہمیت اور افادیت یہ ہے کہ یہ جدیداحوال وظروف اور...
زیر نظر کتاب جو حجم کے اعتبار سے مختصر ہے لیکن افادیت کے پہلو سے بڑی بڑی کتابوں پہ بھاری ہے اس میں عربی بول چال کے حوالے سے بہت ہی احسن انداز سے رہنمائی کی گئی ہے مختلف فنون اور پیشوں کے لیے عربی الفاظ مختلف عناوین کےتحت بیان کیے گئے ہیں جوعربی بول چال کی عملی مشق کےلیےمختلف افراد کےمکالمے بھی اس میں دیئے گئے ہیں مثلاً اگر کوئی عرب ملک میں جانے اور راستہ پوچھنے کی ضرورت ہو ،یا ہوٹل میں گفتگو کرنی پڑے ،یا پاسپورٹ آفس میں بات چیت کی ضرورت پڑے تو کس طریقے سے گفتگو ہوگی اس کےنمونے کتاب میں موجود ہیں آخر میں ایک جامع اور مختصر جدید عربی اردو لغت بھی شامل کتاب ہے عربی بول چال کے شوقین طبقے کےلیے یہ کتاب بہت ہی مفید ہے
عروض عربی زبان کا لفظ ہے اور لغت میں اس کے دس سے زائد معنی ہیں۔ علمِ عروض ایک ایسے علم کا نام ہے جس کے ذریعے کسی شعر کے وزن کی صحت دریافت کی جاتی ہے یعنی یہ جانچا جاتا ہے کہ آیا کلام موزوں ہے یا ناموزوں یعنی وزن میں ہے یا نہیں۔ یہ علم ایک طرح سے منظوم کلام کی کسوٹی ہے اور اس علم کے، دیگر تمام علوم کی طرح، کچھ قواعد و ضوابط ہیں جن کی پاسداری کرنا کلامِ موزوں کہنے کے لیے لازم ہے۔ اس علم کے ذریعے کسی بھی کلام کی بحر بھی متعین کی جاتی ہے۔ اس علم کے بانی یا سب سے پہلے جنہوں نے اشعار پر اس علم کے قوانین کا اطلاق کیا وہ ابو عبد الرحمٰن خلیل بن احمد بصری ہیں۔ زنظرکتاب ’’ جدید علم العروض‘‘ پٹنہ یونیورسٹی کے پروفیسر عبد المجید کی تصنیف ہے موصوف نے اس کتاب میں فن عروض کو ایک اصول کےماتحت مختصر اور سہل بنا کر پیش کیا ہے اور ساتھ ہی اس کا بھی لحاظ رکھا ہے کہ فن عروض کے اجزا ،بحور، وزحافات وغیرہ سب باقی رہیں ۔صاحب کتاب نہیں اس بات کو بھی واضح کیا ہے کہ اصلی بحریں صرف آٹھ ہیں ہی ہونی...
لیفٹیننٹ کرنل (ر) اشفاق حسین کا نام ادبی حلقوں میں کافی مشہور ہے ۔موصوف نے پنجاب یونیورسٹی سے صحافت اور انگریزی ادب میں ایم اے کرنے علاوہ نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز سے عربی میں ایڈوانس لیول انٹر پر یٹرشپ کے ڈپلومہ ہولڈر ہیں ۔اور تقریباً 29 سال پاک فوج سے وابستہ بھی رہے ، کالج آف آرمی ایجوکیشن،اپرٹوپا اور ملٹری کا لج جہلم میں تدریسی فرائض انجام دینے کے علاوہ سعودی عرب میں بطور مترجم بھی تعینات رہے ، انہوں نے کئی شہرہ آفاق کتابیں تصنیف کی ہیں جن میں طنز ومزاح کی شگفتہ کتابیں، جنٹلمین بسم اللہ ، جنٹلمین الحمد للہ ، جنٹلمین اللہ اللہ اور جنٹلمین سبحان اللہ ، جنٹل مین فی ارض اللہ شامل ہیں ۔ جینٹل مین سیریز کرنل (ر) اشفاق حسین صاحب کی خود نوشت ہے۔ یہ کتابیں ایک فوجی کی زندگی کی عکاسی کرتی ہیں۔ ان میں مزاح سے بھرپور، اور کچھ رلا دینے والے اقتباسات بھی۔ ہوشربا انکشافات بھی ہیں ۔کرنل اشفاق حسین کی زیر نظر کتاب ’’ جنٹل م...
لیفٹیننٹ کرنل (ر) اشفاق حسین کا نام ادبی حلقوں میں کافی مشہور ہے ۔موصوف نے پنجاب یونیورسٹی سے صحافت اور انگریزی ادب میں ایم اے کرنے علاوہ نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز سے عربی میں ایڈوانس لیول انٹر پر یٹرشپ کے ڈپلومہ ہولڈر ہیں ۔اور تقریباً 29 سال پاک فوج سے وابستہ بھی رہے ، کالج آف آرمی ایجوکیشن،اپرٹوپا اور ملٹری کا لج جہلم میں تدریسی فرائض انجام دینے کے علاوہ سعودی عرب میں بطور مترجم بھی تعینات رہے ، انہوں نے کئی شہرہ آفاق کتابیں تصنیف کی ہیں جن میں طنز ومزاح کی شگفتہ کتابیں، جنٹلمین بسم اللہ ، جنٹلمین الحمد للہ ، جنٹلمین اللہ اللہ اور جنٹلمین سبحان اللہ ، جنٹل مین فی ارض اللہ شامل ہیں ۔ جینٹل مین سیریز کرنل (ر) اشفاق حسین صاحب کی خود نوشت ہے۔ یہ کتابیں ایک فوجی کی زندگی کی عکاسی کرتی ہیں۔ ان میں مزاح سے بھرپور، اور کچھ رلا دینے والے اقتباسات بھی۔ ہوشربا انکشافات بھی ہیں ۔کرنل اشفاق حسین کی زیر نظر کتاب ’’
لیفٹیننٹ کرنل (ر) اشفاق حسین کا نام ادبی حلقوں میں کافی مشہور ہے ۔موصوف نے پنجاب یونیورسٹی سے صحافت اور انگریزی ادب میں ایم اے کرنے علاوہ نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز سے عربی میں ایڈوانس لیول انٹر پر یٹرشپ کے ڈپلومہ ہولڈر ہیں ۔اور تقریباً 29 سال پاک فوج سے وابستہ بھی رہے ، کالج آف آرمی ایجوکیشن،اپرٹوپا اور ملٹری کا لج جہلم میں تدریسی فرائض انجام دینے کے علاوہ سعودی عرب میں بطور مترجم بھی تعینات رہے ، انہوں نے کئی شہرہ آفاق کتابیں تصنیف کی ہیں جن میں طنز ومزاح کی شگفتہ کتابیں، جنٹلمین بسم اللہ ، جنٹلمین الحمد للہ ، جنٹلمین اللہ اللہ اور جنٹلمین سبحان اللہ ، جنٹل مین فی ارض اللہ شامل ہیں ۔ جینٹل مین سیریز کرنل (ر) اشفاق حسین صاحب کی خود نوشت ہے۔ یہ کتابیں ایک فوجی کی زندگی کی عکاسی کرتی ہیں۔ ان میں مزاح سے بھرپور، اور کچھ رلا دینے والے اقتباسات بھی۔ ہوشربا انکشافات بھی ہیں ۔کرنل اشفاق حسین کی زیر نظر کتاب ’’
اقبال پر جتنا علمی ،تحقیقی او رتخلیقی کام ہوا ۔ اتنا شاید ہی کسی اور شاعر او رادیب پر ہوا ہو۔ لیکن ا ن کے فکرو شعرکا کوئی جامع اشاریہ موجود نہیں تھا اقبال اکامی نے بڑی عمدگی کے ساتھ کلیات اقبال کاجامع اشاریہ شائع کیا ہے ۔زیرنظر کتاب ’’جوئے رواں‘ جسے طاہر حمید تنولی نے مرتب کیا ہے۔یہ شاعر مشرق علامہ اقبال کی اردو شاعری کا ایک ایسا اشاریہ ہے جس نے قارئین اقبال کے لیے مطلوبہ شعر تک پہنچنا آسان بنادیا ۔اس اشاریے کو مرتب کرتے وقت قاری کی سہولت کے پیش نظر کلیات کے ان نسخوں کواشاریے کی بنیاد بنایا گیا ہے جو عام طور قارئین کے زیر استعمال ہوتے ہیں اور ان کا متن بھی قابل اعتماد ہے ۔اس اشاریے میں میں کلیات اقبال کے شیخ غلام علی اینڈ سنز او راقبال اکادمی ،پاکستان کے شائع شدہ قدیم نسخوں کےصفحات نمبر درج کردیے گئے ہیں۔ان کے نسخوں کے لیے بالترتیب ،غ ع اوراکادمی کے ل مخففات استعمال کیے گیے ہیں۔...
مقررہ وزن اور بحر میں لکھی ہوئی تحریر شعر کہلاتی ہے ۔ شعر کی سطر مصرع کہلاتی ہے، ایک شعر میں دو مصرعے ہوتے ہیں۔ پہلے مصرعے کو مصرع اولیٰ اور دوسرے کو مصرع ثانی کہتے ہیں۔ اشعار کے مجموعے کانام شاعری ہے ۔شاعری کسی بھی انسان کے لیے اپنے احساسات و جذبات اور مشاہدات و تجربات کی عکاسی کا نام ہے کچھ لوگ مختلف فنون جیسے مجسمہ سازی، سنگ تراشی، نقش نگاری اور فنِ مصوری کے ذریعے اپنے خیال کا اظہار کرتے ہیں اور کچھ لوگوں کے خیالات کے اظہار کا ذریعہ شاعری ہوتا ہے۔ شاعری بہت سی زبانوں میں کی جاتی ہے ہر زبان کے اپنے اصول ہیں لیکن لفظ شاعری صرف اُردو زبان کے لیے مخصوص ہےہر دور کے شعرا کی تحریروں سے ان کے زمانے کے حالات و واقعات کی عکاسی ملتی ہے۔اردو شاعری کے سب سے بڑے شاعر تاریخ میں برصغیر ہندوستان میں ملتے ہیں تقسیمِ ہندوستان کے بعد بہت سے مشہور شعرا کا تذکرہ ملتا ہے جن میں برصغیر پاک و ہندکے شعرا ء شامل ہیں ان شعرا میں سب سے مشہور شاعر مشرق علامہ محمد اقبال ہیں ۔ عموماً مقررین اپنی تقریروں مناسب مواقع پر اشعار پیش کرکے سامعین سے داد وصول کرتے ہیں...
دہلی ہندوستان کا دل ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ شہر اپنی تہذیبی روح‘ ثقافتی رنگارنگی اور تاریخی کردار کے اعتبار سے ایک چھوٹا سا ہندوستان ہے۔ دہلی کلچر کے فروغ میں اردو نے ایک تاریخ ساز کردار ادا کیا ہے‘ اور آج بھی یہ زبان اس کی ادبی وتہذیبی شناخت کا اہم وسیلہ ہے۔ اردو کی کلچرل اہمیت اور دہلی کی ثقافتی زندگی سے اس کے گہرے رشتے پیشِ نظر آنجہانی محترمہ اندرا گاندھی سابق وزیر اعظم مرکزی حکومت ہند کے ایماء پر 1981ء میں اردو اکادمی کا قیام عمل میں آیا اور یہ ادارہ ادبی روشنی کو عام کرنے اور علمی خوشبوؤں کو پھیلانے میں پیش پیش ہے۔ ادبی شخصیات میں مولانا ابو الکالام آزاد بیسویں صدی کی مسلم دنیا کی عظیم ہستیوں میں سے ہیں۔ وہ عالم‘ مذہبی رہنما‘ مفسر قرآن‘ ادیب‘ نقاد‘ مکتوب نگار اور صحافی تھے۔ سب سے بڑھ کر وہ جس میدان میں بھی رہے صف اول کے لوگوں میں رہے۔زیرِ تبصرہ کتاب خاص ابوالکلام کے حواشی پر مشتمل ہے۔ ان کے حواشی کو مصنف نے جمع کیا ہے اور جو ترتیب دی ہے قابل تعریف ہے۔ مولانا ابو الکلام آزاد کے مختلف کتب جیسا کہ عربی&l...
شریعت اسلامی کے بنیادی مآخد اسی زبان میں ہیں لہذا قرآن وسنت اور شریعت اسلامیہ پر عبور حاصل کرنےکا واحد ذریعہ عربی زبان ہے اس لحاظ سے عربی سیکھنا اور سکھانا امت مسلمہ کا اولین فریضہ ہے ۔عربی زبان سیکھنے کےلیے نحو وصرف کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔فن صرف علم نحو ہی کی ایک شاخ ہے شروع میں اس کے مسائل نحو کے تحت ہی بیان کیےجاتے تھے معاذ بن مسلم ہرّاء یاابو عثمان بکر بن محمدمزنی نے علم صرف کو علم النحو سے الگ کرکے مستقل فن کی حیثیت مرتب ومدون کیا۔ صرف ونحوصرف کی کتابوں کی تدوین وتصنیف میں علماء عرب کےساتھ ساتھ عجمی علماء بھی پیش پیش رہے ۔مدارس میں پڑھنے والے طلباء صرف گردانیں یاد کرنے کےلیے ابواب الصرف کتاب پڑھتے ہیں بعض کتب میں مصادر کاترجمہ فارسی زبان میں ہے چونکہ اب فارسی زبان کی طرف قوم کا رجحان بہت کم ہوگیا ہے لہذا طلباء کے لیے معانی میں مشکل ہوتی ہے ۔ بعض کتب میں لازم کے ابواب کی مجہول گرادنوں کی متعدی باب کی مانند لکھ دیاگیا ہے جو کہ صرفی طور غلط ہے ۔ زیر تبصرہ کتاب’’ خاصیات ابواب الصرف ‘‘ مجلس المدینۃ العلمیۃ کی پیش کش ہے۔ جس می...
نسیم حجاز ی اردو کے مشہور ناول نگار تھے جو تاریخی ناول نگاری کی صف میں اہم مقام رکھتے ہیں۔ ان کا اصل نام شریف حسین تھا لیکن وہ زیادہ تر اپنے قلمی نام ’’نسیم حجازی‘‘ سے معروف ہیں۔ وہ تقسیم ہند سے قبل پنجاب کے ضلع گرداسپور میں 1914ء میں پیدا ہوئے۔ برطانوی راج سے آزادی کے وقت ان کا خاندان ہجرت کر کے پاکستان آگیا اور باقی کی زندگی انہوں نے پاکستان میں گزاری۔ وہ مارچ 1996ء میں اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ ان کے ناول مسلمانوں کے عروج و زوال کی تاریخ پر مبنی ہیں جنہوں نے اردو خواں طبقے کی کئی نسلوں پر اپنے اثرات چھوڑے ہیں۔ وہ صرف تاریخی واقعات ہی بیان نہیں کر تے بلکہ حالات کی ایسی منظر کشی کرتے ہیں کہ قاری خود کو کہانی کا حصہ محسوس کرنے لگتا ہے اور ناول کے کرداروں کے مکالموں سے براہ راست اثر لیتا ہے۔نسیم حجازی نے تقریبا 20 کے قریب ایمان افروز ناول تحریر کیے ہیں ۔ زیر نظر کتاب ’’ خاک اور خون‘‘ بھی انہی کاتحریر کردہ ناول ہے ۔ان کایہ تاریخی ناول برطانوی راج، تقسیم ہند، تحریک پاکست...
نسیم حجاز ی اردو کے مشہور ناول نگار تھے جو تاریخی ناول نگاری کی صف میں اہم مقام رکھتے ہیں۔ ان کا اصل نام شریف حسین تھا لیکن وہ زیادہ تر اپنے قلمی نام ’’نسیم حجازی‘‘ سے معروف ہیں۔ وہ تقسیم ہند سے قبل پنجاب کے ضلع گرداسپور میں 1914ء میں پیدا ہوئے۔ برطانوی راج سے آزادی کے وقت ان کا خاندان ہجرت کر کے پاکستان آگیا اور باقی کی زندگی انہوں نے پاکستان میں گزاری۔ وہ مارچ 1996ء میں اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ ان کے ناول مسلمانوں کے عروج و زوال کی تاریخ پر مبنی ہیں جنہوں نے اردو خواں طبقے کی کئی نسلوں پر اپنے اثرات چھوڑے ہیں۔ وہ صرف تاریخی واقعات ہی بیان نہیں کر تے بلکہ حالات کی ایسی منظر کشی کرتے ہیں کہ قاری خود کو کہانی کا حصہ محسوس کرنے لگتا ہے اور ناول کے کرداروں کے مکالموں سے براہ راست اثر لیتا ہے۔نسیم حجازی نے تقریبا 20 کے قریب ایمان افروز ناول تحریر کیے ہیں ۔ زیر نظر کتاب ’’ خاک اور خون‘‘ بھی انہی کاتحریر کردہ ناول ہے ۔ان کایہ تاریخی ناول برطانوی راج، تقسیم ہند، تحریک پاکست...
عام زندگی میں ہر انسان کو خوابوں سے واسطہ رہتا ہے جہاں انسان اچھا خواب دیکھ کر خوش ہوتا ہے وہیں برا خواب دیکھ کر پریشان بھی ہو جاتا ہے۔ خوابوں سے متعلق مناسب شرعی رہنمائی نہ ہونے کی وجہ سے بہت سارے لوگ فقط نیند میں نظر آنے والے واقعات پر کچھ غیر شرعی افعال سرانجام دینے لگتے ہیں۔ بہر حال شریعت مطہرہ نے اس سلسلہ میں بھی انسان کی کامل رہنمائی فرمائی ہے۔ علمائے امت نے دیگر فنون کی طرح اس فن کی بھی حفاظت کی اور اس فن میں بھی بہت سی کتب تصنیف فرمائیں جن میں شیخ عبدالغنی بن اسماعیل نابلسیؒ کی مشہور زمانہ کتاب ’تعطیر الأنام فی تعبیر المنام‘ کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ اسی کتاب کا اردو قالب اس وقت آپ کے سامنے ہے۔ ترجمہ کرتے ہوئے اس بات کو خاص طور پر مد نظر رکھا گیا ہے کہ ترجمہ سلیس اور بامحاورہ تو ہو لیکن مفہوم سے یک سرمو انحراف نہ ہو۔ کتاب کی فہرست میں عنوانات کا اردو ترجمہ تحریر کیا گیا ہے اورحروف تہجی کے اعتبار سے انھیں رقم کیا گیا ہے جس کی وجہ سے کسی بھی خواب کی تعبیر آسانی سے تلاش کی جا سکتی ہے۔ یاد رہے کہ یہ ترجمہ اصل کتاب کا کیا گیا ہے نہ کہ معروف مصطفیٰ زریق صاحب کی تلخیص کا...
فوائد الضیائیۃ علامہ ابن حاجب کی کتاب ’’الکافیۃ‘‘ کی اہم شرح ہے جو کہ شرح جامعی کے نام سے معروف ہے۔شرح جامعی شروح کافیہ میں ’’رضی‘‘ کےبعد نہایت اعلی وارفع اور سب سے زیادہ مشہور متداول ہے اس میں علامہ جامی نے اکثر شروح کافیہ کا باحسن وجوہ ملخص کیا ہے ۔علامہ جامی نے اس کتاب میں نحوی مباحث کو عقلیت کارنگ دیا ہے تاہم ٹھوس استعداد پیدا کرنے کےلیے یہ بہت عمدہ کتاب ہے ۔انہی عقلی مباحث میں سے ایک بحث ’’ حاصل ومحصول‘‘ ہےجس کی تشریح وتوضیح کے لیے علماء نحو نے مستقل رسائل وکتب تصنیف فرمائے ہیں ۔جناب اسجد سبحانی ارریاوی صاحب نے زیرنظر مختصر کتابچہ بعنوان’’ خیر الوصول الی الحاصل والمحصول‘‘ اسی بحث کو سہل انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔موصوف نے اس مختصر کتابچہ میں عبارت مع اعراب، حل لغات، سلیس ترجمہ، بہت زیادہ قیل وقال اور بے فائدہ اشکال واعترا...
دار المصنّفین ایک علمی و تحقیقاتی ادارہ ہے جو بھارت کے شہر اعظم گڑھ میں واقع ہے۔دار المصنّفین اعظم گڑھ کا شمار ہندوستان کے انتہائی اہم علمی اداروں میں ہوتا ہے، یہ ادارہ صرف علامہ شبلی مرحوم کے خوابوں کی تعبیر ہی نہیں بلکہ مولانا سید سلیمان ندوی اور مولانا عبد السلام ندوی کی علمی کاوشوں اور مولانا مسعود علی ندوی کی عملی جدوجہد کی زندہ تصویر بھی ہے۔1915ء میں جب اس کی تاسیس ہوئی تو مسلمانوں کا ایسا کوئی دوسرا ادارہ پورے ہندوستان میں موجود نہیں تھا ، اپنی تاسیس کے بعد اس ادارے نے جس طرح مصنّفین کی متعدد نسلوں کی تربیت کی یہ اس ادارے کی انفرادیت ہے سید سلیمان ندوی،شاہ معین الدین احمد ندوی،صباح الدین عبد الرحمن، ضیاء الدین اصلاحی ، اشتیاق احمد ظلی جیسی اہم شخصیات اس ادارے کے ناظم رہ چکے ہیں ۔دار المصنّفین کی متعدد اور متنوع موضوعات پر تصنیفی خدمات ہیں ان میں سے ایک موضوع ’’ دار المصنّفین‘‘ کی عربی خدمات بھی ہے ۔ زیر تبصرہ کتا ب’’ دار المصنّفین کی عربی خدمات ‘‘ ڈاکٹر ...
عربی زبان ایک زندہ وپائندہ زبان ہے۔ اس میں ہرزمانے کے ساتھ چلنے کی صلاحیت موجود ہے۔ اس زبان کو سمجھنے اور بولنے والے دنیا کے ہر خطے میں موجودہیں ۔عربی زبان وادب کو سیکھنا اور سکھانا ایک دینی وانسانی ضرورت ہے کیوں کہ قرآن کریم جوانسانیت کے نام اللہ تعالیٰ کا آخری پیغام ہے اس کی زبان بھی عربی ہے۔ عربی زبان معاش ہی کی نہیں بلکہ معاد کی بھی زبان ہے۔اس زبان کی نشر واشاعت ہمارا مذہبی فریضہ ہے۔ اس کی ترویج واشاعت میں مدارس عربیہ اور عصری جامعات کا اہم رول ہے ۔عرب ہند تعلقات بہت قدیم ہیں اور عربی زبان کی چھاپ یہاں کی زبانوں پر بہت زیادہ ہے۔ہندوستان کا عربی زبان وادب سے ہمیشہ تعلق رہا ہے۔ یہاں عربی میں بڑی اہم کتابیں لکھی گئیں اور مدارس اسلامیہ نے اس کی تعلیم وتعلم کا بطور خاص اہتمام کیا۔ زیر تبصرہ کتاب " درس مقامات، مقامات حریری کے دس مقاموں کی جدید شرح "محترم ابن الحسن عباسی، رفیق شعبہ تصنیف واستاذ جامعہ فاروقیہ کراچی کی کاوش ہے، جو عربی ادب کی معروف کتاب مقامات حریری کے پہلے دس مقامات کی نئی شرح ہے۔یہ کتاب عربی زبان وادب سیکھنے...
ہماری قومی زبان اردو اگرچہ ابھی تک ہمارے لسانی و گروہی تعصبات اور ارباب بست و کشاد کی کوتاہ نظری کے باعث صحیح معنوں میں سرکاری زبان کے درجے پر فائز نہیں ہو سکی لیکن یہ بات محققانہ طور پر ثابت ہے کہ اس وقت دنیا کی دوسری بڑی بولی جانے والی زبان ہے۔ ہر بڑی زبان کی طرح اس زبان میں بے شمار کتب حوالہ تیار ہو چکی ہیں اور اس کے علمی، تخلیقی اور تنقیدی و تحقیقی سرمائے کا بڑا حصہ بڑے اعتماد کے ساتھ عالمی ادب کے دوش بدوش رکھا جا سکتا ہے۔ ایسی زبان اس امر کی متقاضی ہے کہ اسے صحیح طور پر لکھا بولا جا سکے۔ کیونکہ کسی بھی زبان کی بنیادی اکائی اس کے اصول وقواعد ہیں۔ زبان پہلے وضع ہوتی ہے اور قواعد بعد میں لیکن زبان سے پوری واقفیت حاصل کرنے کےلیے قواعد زبان سے آگاہی ضروری ہے۔ اہل زبان نے قواعد کی ضرورت کبھی محسوس نہیں کیا اس لیے انہوں نے قواعد مرتب نہیں کیے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ اردو بولنے یا لکھنے والے پاکستانیوں کی بہت بڑی تعداد اپنی قومی زبان کی صحت کی طرف سے سخت غفلت برت رہی ہے۔ سکولوں اورکالجوں کےلیے گرائمر کی متعدد کتابیں شائع ہوئیں ہیں جو کاروباری مقاصد...
عربی زبان ایک زندہ وپائندہ زبان ہے۔ اس میں ہرزمانے کے ساتھ چلنے کی صلاحیت موجود ہے۔ اس زبان کو سمجھنے اور بولنے والے دنیا کے ہر خطے میں موجودہیں ۔عربی زبان وادب کو سیکھنا اور سکھانا ایک دینی وانسانی ضرورت ہے کیوں کہ قرآن کریم جوانسانیت کے نام اللہ تعالیٰ کا آخری پیغام ہے اس کی زبان بھی عربی ہے۔ عربی زبان معاش ہی کی نہیں بلکہ معاد کی بھی زبان ہے۔ اس زبان کی نشر واشاعت ہمارا مذہبی فریضہ ہے۔ اس کی ترویج واشاعت میں مدارس عربیہ اور عصری جامعات کا اہم رول ہے ۔عرب ہند تعلقات بہت قدیم ہیں اور عربی زبان کی چھاپ یہاں کی زبانوں پر بہت زیادہ ہے۔ہندوستان کا عربی زبان وادب سے ہمیشہ تعلق رہا ہے۔ یہاں عربی میں بڑی اہم کتابیں لکھی گئیں اور مدارس اسلامیہ نے اس کی تعلیم وتعلم کا بطور خاص اہتمام کیا۔ زیر تبصرہ کتاب " دروس اللغۃ العربیۃ لغیر الناطقین بھا " سعودی عرب کے معروف لغوی اور عالم دین ڈاکٹر ف ۔عبد الرحیم کی تین جلدوں پر مشتمل ایک شاندار تصنیف ہے ،جو اپنے موضوع پر انتہائی مفید کتاب ہے۔یہ کتاب مدینہ یونیورسٹی کی نصاب میں شامل ہےاور فروغ لغت عربیہ کے پیش نظر لکھ...
عربی زبان ایک زندہ وپائندہ زبان ہے۔ اس میں ہرزمانے کے ساتھ چلنے کی صلاحیت موجود ہے۔ اس زبان کو سمجھنے اور بولنے والے دنیا کے ہر خطے میں موجودہیں ۔عربی زبان وادب کو سیکھنا اور سکھانا ایک دینی وانسانی ضرورت ہے کیوں کہ قرآن کریم جوانسانیت کے نام اللہ تعالیٰ کا آخری پیغام ہے اس کی زبان بھی عربی ہے۔ عربی زبان معاش ہی کی نہیں بلکہ معاد کی بھی زبان ہے۔ اس زبان کی نشر واشاعت ہمارا مذہبی فریضہ ہے۔ اس کی ترویج واشاعت میں مدارس عربیہ اور عصری جامعات کا اہم رول ہے ۔عرب ہند تعلقات بہت قدیم ہیں اور عربی زبان کی چھاپ یہاں کی زبانوں پر بہت زیادہ ہے۔ہندوستان کا عربی زبان وادب سے ہمیشہ تعلق رہا ہے۔ یہاں عربی میں بڑی اہم کتابیں لکھی گئیں اور مدارس اسلامیہ نے اس کی تعلیم وتعلم کا بطور خاص اہتمام کیا۔ زیر تبصرہ کتاب "دیوان المتنبی"عالم عرب کے ایک معروف شاعرابو الطیب المتنبی کا قصیدہ ہے۔جس کا اردو ترجمہ محترم محمد امین کھوکھر اور محترم محمد یسین قصوری صاحب نے کیا ہے۔عربی زبان وادب سیکھنے کے حوالے سے یہ ایک مقبول ترین کتاب ہے ،جو متعدد دینی مدارس اور...
عربی زبان ایک زندہ وپائندہ زبان ہے۔ اس میں ہرزمانے کے ساتھ چلنے کی صلاحیت موجود ہے۔ اس زبان کو سمجھنے اور بولنے والے دنیا کے ہر خطے میں موجودہیں ۔عربی زبان وادب کو سیکھنا اور سکھانا ایک دینی وانسانی ضرورت ہے کیوں کہ قرآن کریم جوانسانیت کے نام اللہ تعالیٰ کا آخری پیغام ہے اس کی زبان بھی عربی ہے۔ عربی زبان معاش ہی کی نہیں بلکہ معاد کی بھی زبان ہے۔ اس زبان کی نشر واشاعت ہمارا مذہبی فریضہ ہے۔ اس کی ترویج واشاعت میں مدارس عربیہ اور عصری جامعات کا اہم رول ہے ۔عرب ہند تعلقات بہت قدیم ہیں اور عربی زبان کی چھاپ یہاں کی زبانوں پر بہت زیادہ ہے۔ہندوستان کا عربی زبان وادب سے ہمیشہ تعلق رہا ہے۔ یہاں عربی میں بڑی اہم کتابیں لکھی گئیں اور مدارس اسلامیہ نے اس کی تعلیم وتعلم کا بطور خاص اہتمام کیا۔ زیر تبصرہ کتاب "دیوان المتنبی"عالم عرب کے ایک معروف شاعرابو الطیب المتنبی کا قصیدہ ہے۔جس کا اردو ترجمہ محترم محمد امین کھوکھر اور محترم محمد یسین قصوری صاحب نے کیا ہے۔عربی زبان وادب سیکھنے کے حوالے سے یہ ایک مقبول ترین کتاب ہے ،جو متعدد دینی مدارس اور...
عربی زبان ایک زندہ وپائندہ زبان ہے۔ اس میں ہرزمانے کے ساتھ چلنے کی صلاحیت موجود ہے۔ اس زبان کو سمجھنے اور بولنے والے دنیا کے ہر خطے میں موجودہیں ۔عربی زبان وادب کو سیکھنا اور سکھانا ایک دینی وانسانی ضرورت ہے کیوں کہ قرآن کریم جوانسانیت کے نام اللہ تعالیٰ کا آخری پیغام ہے اس کی زبان بھی عربی ہے۔ عربی زبان معاش ہی کی نہیں بلکہ معاد کی بھی زبان ہے۔ اس زبان کی نشر واشاعت ہمارا مذہبی فریضہ ہے۔ اس کی ترویج واشاعت میں مدارس عربیہ اور عصری جامعات کا اہم رول ہے ۔عرب ہند تعلقات بہت قدیم ہیں اور عربی زبان کی چھاپ یہاں کی زبانوں پر بہت زیادہ ہے۔ہندوستان کا عربی زبان وادب سے ہمیشہ تعلق رہا ہے۔ یہاں عربی میں بڑی اہم کتابیں لکھی گئیں اور مدارس اسلامیہ نے اس کی تعلیم وتعلم کا بطور خاص اہتمام کیا۔عرب زبان نہایت فصیح وبلیغ ہے اور اس میں بے شمار دیوان اور قصائد لکھے گئے ہیں۔اس میں کچھ دیوان صحابہ کرام کی طرف بھی منسوب ہیں۔ان میں سے ایک معروف دیوان سیدنا علی کی منسوب ہے۔ زیر تبصرہ کتاب "دیوان حضرت علی "معروف صحابی رسولﷺ اور چوتھے خلیفہ سیدنا...