حافظ عبد المنان نور پور ی(1941ء۔26فروری2012؍1360ھ ۔3ربیع الثانی 1433ھ) کی شخصیت محتاج تعارف نہیں ۔آپ زہد ورع اورعلم وفضل کی جامعیت کے اعتبار سے اپنے اقران معاصر میں ممتاز تھے اللہ تعالیٰ نے آپ کو علم وتقویٰ کی خوبیوں اور اخلاق وکردار کی رفعتوں سے نوازا تھا ۔ آپ کا شمار جید اکابر علماء اہل حدیث میں ہوتاہے حافظ صاحب بلند پایا کے عالمِ دین اور مدرس تھے ۔ حافظ صاحب 1941ءکو ضلع گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے اور پرائمری کرنے کے بعد دینی تعلیم جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ سے حاصل کی ۔ حافظ صاحب کوحافظ عبد اللہ محدث روپڑی ،حافظ محمد گوندلوی ، مولانا اسماعیل سلفی وغیرہ جیسے عظیم اساتذہ سے شرفِ تلمذ کا اعزاز حاصل ہے۔ جامعہ محمدیہ سے فراغت کے بعد آپ مستقل طور پر جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ میں مسند تدریس پر فائز ہوئے او ر درس وتدریس سے وابسطہ رہے اور طویل عرصہ جامعہ میں بطور شیخ الحدیث خدمات سرانجام دیتے رہے ۔ اوائل عمرہی سے مسند تدریس پر جلوہ افروز ہونےکی وجہ سےآپ کو علوم وفنون میں جامعیت عبور اور دسترس حاصل تھی چنانچہ علماء فضلاء ،اصحا ب منبرومحراب اہل تحقیق واہل فتویٰ بھی مسائل کی تحقیق کے لیے آپ کی طرف رجوع کرتے تھے ۔ بے شمار طالبانِ علومِ نبوت نے آپ سے استفادہ کیا حافظ صاحب علوم وفنون کے اچھے کامیاب مدرس ہونےکے ساتھ ساتھ اچھے خطیب ،واعظ ، محقق ،ناقد اور محدثانہ بصیرت اور فقاہت رکھنے و الے مفتی ومؤلف بھی تھے عربی اردو زبان میں آپ نے علمی و تحقیقی مسائل پر کئی کتب تصنیف کیں۔آپ انتہائی مختصر اور جامع ومانع الفاظ میں اپنا مدعا بیان کرنے کےماہر،اندازِ بیان ایسا پر اثر کہ ہزاروں سوالوں کاجواب انکے ایک مختصر سےجملہ میں پنہاں ہوتا ،رعب وجلال ایسا کہ بڑے بڑے علماء ،مناظر او رقادر الکلام افراد کی زبانیں بھی گویا قوت گویائی کھو بیٹھتیں۔حافظ صاحب واقعی محدث العصر حافظ محمدگوندلوی کی علمی مسند کے صحیح وارث اورحقیقی جانشین ہونے کا حق ادا کیا۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے(آمین)زیر نظر کتاب حافظ عبد لمنان نورپوری کی حیات وخدمات پر جامع کتاب ہے ۔جسے ان کے تلمیذِ خاص مولانا محمد طیب محمدی ﷾ (مدیر ادارہ تحقیات سلفیہ،گوجرانوالہ ) نےمرتب کیا ہے ۔اس کتاب میں مرتب موصوف نے طویل مقدمہ تحریر کرنے کے بعد 42 ابواب قائم کیے ہیں جن میں انہوں نے حافظ نوری کا تعارف ،تعلیم وتعلم ،تدریس وتصنیف ،خطابت ،اساتذہ وتلامذہ کے علاوہ حافظ صاحب مرحوم کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے ۔یہ کتاب حافظ صاحب مرحوم کے تفصیلی تعارف اور حیات وخدمات کے حوالے سے گراں قدر علمی تحفہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ حافظ صاحب کے درجات بلند فرمائے اور ان کی مرقد پر اپنے رحمتوں کانزول فرمائے اور کتاب ہذا کے مرتب کےعلم وعمل میں اضافہ اور ان کی تمام مساعی جمیلہ کو شرف قبولیت سے نوازے (آمین) (م۔ا)
شریعتِ اسلامیہ میں دعا کو اایک خاص مقام حاصل ہے اورتمام سابقہ شرائع ومذاہب میں بھی دعا کا تصور موجود رہا ہے ۔صرف دعا ہی میں ایسی قوت ہے کہ جو تقدیر کو بدل سکتی ہے ۔دعا ایک ایسی عبادت ہے جو انسا ن ہر لمحہ کرسکتا ہے اور اپنے خالق ومالق اللہ رب العزت سے اپنی حاجات پوری کرواسکتا ہے۔اورجس طرح جسم کی بقا کے لیے خوراک ضروری ہے،اسی طرح روح کی حیات کا انحصار تلاوتِ قرآن ،ذکر واذکار اور ادعیہ ماثورہ کے اہتمام پر ہے ۔ کتاب وسنت میں مختلف مقامات پراللہ تعالیٰ کا بکثرت ذکر کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔اذکاراور دعاؤں کااہتمام کرنے کے ایسے بے شمار فوائد ہیں جن کا انسان تصور بھی نہیں کرسکتا ۔مگر یہ یاد رہے انسان کی دعا اسے تب ہی فائدہ دیتی ہے جب وہ دعا کرتے وقت دعا کےآداب وشرائط کوبھی ملحوظ رکھے۔ امت مسلمہ کے لیے مسنون دعاؤں تک بآسانی رسائی کےلیے علماء ومحدثین نے دعاؤں کے موضوع پر کئی کتب تحریر کی ہیں ۔ جن میں مفصل بھی ہیں اور مختصر بھی ہیں۔مختصر کتابوں میں سے شیخ سعیدبن علی القحطانی ﷾ کی ’’حصن المسلم‘‘جامعیت واختصار کے لحاظ سے عمدہ ترین کتاب ہے جسے قبول عام حاصل ہے۔اس کی افادیت کے پیش نظر اردو زبان میں اس کے متعدد تراجم شائع ہوچکے ہیں۔لیکن تحقیق وتخریج کے اعتبارسے ان میں کافی سقم باقی تھا۔زیر نظر’’ حِصن المسلم ‘‘ کا نسخہ مولانا فا روق رفیع﷾ (مدرس جامعہ لاہور الاسلامیہ) کا ترجمہ ،تحقیق وتخریج شدہ ہے ۔مترجم موصوف نے اس کتاب میں مکمل تحقیق وتخریج کے علاوہ مفید اضافے بھی کیے ہیں۔فنِ حدیث،جرح وتعدیل کے ماہر مولانا ابو سیف حافظ جمیل احمد ﷾(مدرس جامعہ الدعوہ الاسلامیہ ،مریدکے ،فاضل مدینہ یونیورسٹی ) کی کتاب ہذا پر نظر ثانی سے اس کتاب کی افادیت میں مزید اضافہ ہوگیا ہے ۔ اللہ تعالی ٰ اس کتاب کو عوام الناس کے لیے مفید بنائے اور مترجم ومحقق کے علم وعمل میں اضافہ فرمائے (آمین)(م۔ا)
دینی مدارس کے طلباء ،اساتذہ ،علمائے کرام ،مشائخ عظام اصحاب صفہ او رعلوم نبویﷺ کے وارث اور امین ہیں ۔ یہی مدارس دینِ اسلام کے وہ قلعے ہیں جہاں سے قال اللہ قال الرسول ﷺکی پاکیزہ صدائیں دن رات گونجتی ہیں ۔ روزِ اول سے دینِ اسلام کا تعلق تعلیم وتعلم اور درس وتدریس سے رہا ہے ۔نبی کریم ﷺ پر سب سے پہلے جو وحی نازل ہوئی وہ تعلیم سے متعلق تھی۔ اس وحی کے ساتھ ہی رسول اللہﷺ نےایک صحابی ارقم بن ابی ارقم کے گھر میں دار ارقم کے نام سے ایک مخفی مدرسہ قائم کیا ۔صبح وشام کے اوقات میں صحابہ کرام وہاں مخفی انداز میں آتے اور قرآن مجید کی تعلیم حاصل کرتے تھے یہ اسلام کی سب سے پہلی درس گاہ تھی۔ہجرت کے بعدمدینہ منورہ میں جب اسلامی ریاست کاقیام عمل میں آیا تو وہاں سب سے پہلے آپﷺ نے مسجد تعمیر کی جو مسجد نبوی کے نام سے موسوم ہے ۔اس کے ایک جانب آپ نے ایک چبوترا(صفہ) بھی تعمیر کرایا ۔ یہاں بیٹھ کر آپﷺ مقامی وبیرونی صحابہ کرام کو قرآن مجید اور دین کی تعلیم دیتے تھے ۔یہ اسلام کاپہلا باقاعدہ اقامتی مدرسہ تھا جو تاریخ میں اصحاب صفہ کے نام سے معروف ہے ۔ یہاں سے مسجد اور مدرسہ کا ایسا تلازمہ قائم ہواکہ پھر جہاں جہاں مسجد یں قائم ہوتی گئیں وہاں ساتھ ہی مدرسے بھی قائم ہوتے گئے ۔اسلامی تاریخ ایسے مدارس اور حلقات ِحدیث سے بھری پڑی ہے کہ غلبۂ اسلام ،ترویج دین اور تعلیمات اسلامیہ کو عام کرنے میں جن کی خدمات نے نمایاں کردار ادا کیا۔ برصغیر پاک وہند میں بھی اسلام کی ترویج اور تبلیغ کے سلسلے میں مدارس دینیہ اور مَسندوں کی خدمات روزِ روشن کی طرح عیاں ہیں کہ جہاں سے وہ شخصیا ت پیدا ہوئیں جنہوں نے معاشرے کی قیادت کرتے ہوئے اسلامی تعلیمات کو عام کیا اور یہ شخصیات عوام الناس کے لیے منارہ نور کی حیثیت رکھتی ہیں ۔ زیرنظر کتاب ’’ تاریخ وتعارف مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ ،دہلی ‘‘ دہلی کی اس عظیم الشان معیا ری درس گاہ کے تعارف پر مشتمل ہے کہ جس سے پاک وہند کے بے شمار جید علماء نے فیض پایا ۔مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ کو شیخ عبد الرحمن اور شیخ عطاء الرحمن نے 1921ء میں قائم کیا کہ جس کی صرف ستائیس سالہ مختصر مدت کارکردگی میں مدارس کے اندر کوئی دوسر ی مثال نہیں ۔مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی او ر مولانا احمدللہ پرتاب گڑھی وغیرہ اس مدرسہ کے اولین اساتذہ اور محدث العصر حافظ عبداللہ روپڑی اس کے اولین ممتحن اورمدیر تعلیم مقررہوئے او ر اس مدرسہ کے آخری وجودقیام ِپاکستان تک اس منصب پر فائز رہے ۔ مدرسے کے مہتم تعلیمی معاملات میں موصوف پر ہی اعتماد کرتے او ران کی بات اور فیصلے کو حرف آخر میں سمجھتے تھے (لیکن ناجانے کیوں صاحب کتاب نے حافظ عبد اللہ روپڑی ا ور ان کےخاندان کی مدرسہ کے لیے تعلیمی خدمات کو بطور خاص اہتمام سے بیان کیوں نہیں کیا ) 1947ء تک یہ مدرسہ قائم رہا ۔ملک کی آزادی اور تقسیم کے بعد پیش آنے والے حوادث وفسادات کی وجہ سے یہ مدرسہ بند ہوگیا ۔ شیخ عطاء الرحمن کے صاحبزادے شیخ عبدالوہاب اور ان کاخاندان ہجرت کر کے کراچی منتقل ہوگیا۔کتاب کے مرتب شیخ اسعد اعظمی ﷾ نے اس کتاب میں مدرسہ کی تعمیر،اس کے قواعد وضوابط، نصاب ِتعلیم، نظام امتحان، اساتذہ ، فاضلین اور مدرسہ کے متعلق علماء کے تاثرات اور بانیانِ مدرسہ کے حالات واقعات کو تفصیل سے بیان کیا ہےجوکہ قابل مطالعہ ہیں ۔ مدرسہ کے بانی شیخ حاجی عبد الرحمن انتہائی سخی اور فیاض انسان تھے روزانہ شام کو مدرسہ آتے .. طلباء کے لیے سیر وتفریح او ر ہرجمعہ کو مدرسہ کے اساتذہ کی دعوت کا خاص اہتمام کرتے لیکن مدرسہ کے نظم و نسق کے معاملہ بڑے سخت اور اصولوں کے پابند تھے ۔مدرسہ کے نظم وضبط کی خلاف ورزی اور کتاہی کرنے والے طلباء سے ناراض ہوتے ۔مدرسہ کے قیام کےایک سال بعد ہی وفات پاگئے ۔ان کے بعد شیخ عطاء الرحمن نے مدرسہ کا انتظام سنبھالہ ۔یہ اگرچہ بذات خود عالمِ دین نہ تھے مگر انہیں علم اور علماء سے گہرا قلبی تعلق تھا ۔ ہر روز ڈیڑھ میل کا سفر طے کر کے نمازِ فجر سے قبل مدرسہ میں آتے طلباء کو نماز کے لیے خود اٹھاتے جماعت سے پیچھے رہنے والوں کوسزا دیتے ۔مدرسہ میں طلباء کےلیے تیار ہونے والے کھانے کی خود نگرانی کرتے ۔ کبھی کبھی اچانک کھانا منگوا کر کھانے کا معیار چیک کرتے ۔ دار الحدیث رحمانیہ میں تعلیم وتربیت ،دعوت وتبلیغ کے علاوہ نشر واشاعت کا بھی انتظام تھاجس کے تحت دینی کتب کی اشاعت کے علاوہ ایک ماہوار علمی رسالہ ’’محدث ‘‘بھی شائع ہوتا تھا جس کا آغاز مئی 1933 میں ہوا۔ مدرسہ کا تعلیمی معیار بھی بہت بلند تھاجس میں بنیادی کردار و ہ سالانہ امتحان تھا جوکہ روپڑی خاندان کے سالارِ اول حافظ عبداللہ محدث روپڑی اور مولانا محمدحسین روپڑی (والد گرامی حافظ عبدالرحمن مدنی﷾ مدیر جامعہ لاہور الاسلامیہ ،لاہور) لیا کرتے اور امتحان کی نگرانی خطیبِ ملت حافظ اسماعیل روپڑی اور مناظر اسلام عبد القادر روپڑی کیا کرتے۔اس لیے مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ کاخاص علمی تعلق اس امرتسری روپڑی خاندان سےتھا۔ اسی مناسبت سے حافظ عبد الرحمن مدنی ﷾ نے اپنے رفقاء(شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ مدنی ﷾،مولاناعبدالسلام کیلانی) کی مشاورت سے لاہور میں مدرسہ رحمانیہ کے نام سے دینی درس گاہ قائم کی جو اب بین الاقوامی طور پر جامعہ لاہور الاسلامیہ کے نام سے معروف ہے۔ اور 1970 میں مجلس التحقیق الاسلامی ،لاہور کی طرف سے ماہوار علمی رسالہ ’’محدث ‘‘جاری کیا جس کو علمی وفکری حلقوں میں بہت قبول عام حاصل ہوا۔ یہ رسالہ اب بھی جاری وساری ہے ۔ دار الحدیث رحمانیہ ،دہلی کے بانیان ومنتظمین کی مدرسہ کے طلبا ،اساتذہ، علماء سے شفقت ومحبت اور امور مدرسہ سے وابستگی اور دلچسپی آج کے مدارس کے منتظمین اور مہتمم حضرات کےلیے قابلِ اتباع نمونہ ہے ۔ اللہ دین اسلام کے لیے کام کرنے والے تمام مدارس دینیہ اورعلماء کی حفاظت فرمائے (آمین)( م۔ا )
گزشتہ چند سالوں کے دوران اسلامی بینک کاری نے غیر معمولی ترقی کی ہے اس وقت دنیا کے تقریبا 75 ممالک میں اسلامی بینک کام کررہے ہیں ان میں بعض غیر مسلم ممالک بھی شامل ہیں۔ صرف پاکستان میں مختلف بینکوں کی تین سو سے زائد برانچوں میں اسلامی بینکاری کے نام پرکام ہور ہا ہے ۔ان میں بعض بینک تو مکمل طور پر اسلامی بینک کہلاتے ہیں ۔اور بعض بنیادی طور پر سودی ہیں ۔ایسی صورتِ حال میں رائج الوقت اسلامی بینکاری کا بے لاگ تجزیہ کرنےکی ضرورت ہےتاکہ معلوم ہوسکےک کہ یہ شرعی اصولوں سے ہم آہنگ ہیں یا نہیں؟زیر نطر کتابچہ''اسلامی بینکاری کی حقیقت؟'' حافظ ذوالفقار ﷾ (شیخ الحدیث ابوہریرہ اکیڈمی ،لاہور)کا تالیف شدہ ہے۔ جس میں انہوں نے موجودہ اسلامی بینکوں کےطریقہ کار اور ان میں رائج مالی معاملات کا شرعی اصولوں کی روشنی میں منصفانہ جائزہ لے کر دینی نقطہ نظر واضح کرنے کی کوشش کی ہے ۔موصوف حافظ صاحب کی اسلامی معیشت کے حوالے مزید دو کتابیں بھی طبع ہوچکی ہیں اور کتاب وسنت ویب سائٹ پر موجود ہیں ۔ اللہ تعالی موصوف کے علم وعمل اور زورِ قلم میں برکت فرمائے اور ان کی مساعی جمیلہ کوشرف قبولیت بخشے (آمین) (م۔ا)
اسلام دین فطرت ہے،جو تمام انسانوں اور جنوں کے لئے نازل کیا گیا ہے۔دین اسلام بلا تفریق سب کی ہدایت اور بھلائی کے لئے آیاہے،جس کی تعلیمات پر عمل کر کے رحمت الہی کا حصول ممکن ہوتا ہے۔اسلام کے متعدد محاسن اور بے شمار فوائد ہیں۔یہ عقل وفکر کو مخاطب کرتا ہے اور اسے مزید جلا بخشتا ہے۔یہ صلاحیتوں کو منظم کر کے انسانیت کی خدمت پر آمادہ کرتا ہے۔وحی کی روشنی میں عقل با بصیرت ہو جاتی ہے اور صرف دنیوی مفادات کے حصول کی بجائے آخرت کی تیاری میں مگن ہو جاتی ہے۔یہ اسلام ہی ہے جو نہ صرف اپنے ماننے والوں کو بلکہ اپنے منکرین کو بھی بحیثیت ان کے لا محدود حقوق ومراعات دیتا ہے ،بلکہ وہ تو حیوانات کے حقوق کا بھی پاسدار ہے اور چرند وپرند اور موسم کا بھی محافظ ہے۔اسلام نے زندگی مرد ،عورت ،غلام ،آزاد ،آقا ،غلام سمیت تمام کے حقوق وفرائض کا تفصیل سے تذکرہ کیاہے۔زیر نظر کتاب اسلام کے انہی عظیم محاسن پر مشتمل ہے ،جو سعودی عرب کے مشہور عالم دین شیخ عبد العزیز محمد السلمان کی کاوش ہے۔جس کا اردو ترجمہ ابو اسعد قطب الدین محمد الاثری نے کیا ہے۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ اس کتاب کو ہم سب مسلمانوں کے نافع ومفید بنائے،اور ہمیں بھی اسلام کے ان عظیم محاسن کو اپنے کی توفیق دے ۔آمین (راسخ)
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات اور دستور زندگی ہے،جو مسلمانوں کو جہاں تجارت اور سیاست سمیت ہر میدان میں باہمی طور پر آپس میں پیار ،محبت اور مل جل کر رہنے کی ترغیب دیتا ہے،وہیں اپنے آپ کو کفار کی دوستیوں اور ان کے راز دان بننے سے منع کرتا ہے۔آج صورتحال یہ ہے بن چکی ہے کہ کفار ہمارے ملکوں سے حاصل کردہ منافع اور پرافٹ سے مسلمانوں کے بچوں ،بوڑھوں اور عورتوں پر بم برسارہے ہیں۔اگر مسلمان غیر مسلموں کی مصنوعات کا بائیکاٹ کر دیں اور آپس کی تجارت شروع کر دیں ،تو کفار کو مسلمانوں پر حملے کرنے اور ان کے ملکوں پر قبضے کرنے کی کبھی جرات نہ ہو۔زیر نظر کتاب (غیر مسلموں کی مصنوعات اور ہم) باجی ام عبد منیب کی تصنیف ہے ،جس میں انہوں نے مسلمانوں کو غیرت دلاتے ہوئے یہ ترغیب دی ہے کہ وہ غیر مسلموں کی مصنوعات کو چھوڑ کر اپنی ملکی اور مسلمانوں کی مصنوعات استعمال کریں ،تاکہ مسلمانوں کی باہمی تجارت بڑھے اوران کی اقتصادی حالت درست ہواور کفار کو مسلمانوں پر ظلم کرنے کی جرات نہ ہو سکے۔نیز انہوں نے بعض اسلامی ممالک کی طرف سے بعض غیر اسلامی ممالک کی مصنوعات کے بائیکاٹ سے ان کو ہونے والے نقصان کا بھی تفصیلی تذرکرہ کیا ہے،جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگر مسلمان متحد ہوجائیں تو دنیا کی کوئی طاقت ان کو مغلوب نہیں کر سکتی ہے۔ اللہ تعالی ان کی اس کاوش کو قبول فرمائیں اور تمام مسلمانوں کے اندر جذبہ اسلامی بیدار فرمائیں۔آمین(راسخ)
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو بندوں کی رشد و ہدایت کے لیے نازل فرمایاہے۔،یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کیا جانے والا ایسا کلام ہے جس کے ایک ایک حرف کی تلاوت پر دس دس نیکیاں ملتی ہیں۔اور قرآن مجید کی درست تلاوت اسی وقت ہی ممکن ہو سکتی ہے، جب اسے علم تجویدکے قواعد وضوابط اور اصول وآداب کے ساتھ پڑھا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو ترتیل کے ساتھ پڑھنے کا حکم دیا ہے ۔لہٰذا قرآن کریم کو اسی طرح پڑھا جائے جس طرح اسے پڑھنے کا حق ہے۔اور ہرمسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ علمِ تجوید کے بنیادی قواعد سے آگاہی حاصل کرے،اور قراء کرام کا تجربہ گواہ ہے کہ اگر بچپن میں ہی تلفظ کے ساتھ قاعدہ پڑھا دیا جائے تو بڑی عمر میں تلفظ کا مسئلہ پیدا نہیں ہوتا ہے۔انہی مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے شیخ القراء استاد محترم جناب قاری محمد ابراہیم میر محمدی صاحب﷾نے بچوں کے لئے قاری قاعدہ اور تجویدی قاعدہ دو قاعدے مرتب کئے ہیں۔ ان میں سے ایک قاعدہ یہی "بچوں کے لئے تجویدی قاعدہ" ہے ۔ اس میں حروف مفردہ،حروف مستعلیہ ،ملتی جلتی آوازوں والے حروف،حروف قلقلہ ،حروف مدہ اور حرکات وغیرہ کی ادائیگی کی انتہائی آسان اور سہل انداز میں پہچان کروائی گئی ہے۔اگرچہ یہ قاعدہ بچوں کے لئے لکھا گیا ہے ،مگر بچوں اور بڑوں سب کے انتہائی مفید اور شاندار ثابت ہوا ہے۔اللہ تعالی استادمحترم قاری صاحب کی ان خدمات کو قبول ومنظور فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو بندوں کی رشد و ہدایت کے لیے نازل فرمایاہے۔،یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کیا جانے والا ایسا کلام ہے جس کے ایک ایک حرف کی تلاوت پر دس دس نیکیاں ملتی ہیں۔اور قرآن مجید کی درست تلاوت اسی وقت ہی ممکن ہو سکتی ہے، جب اسے علم تجویدکے قواعد وضوابط اور اصول وآداب کے ساتھ پڑھا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو ترتیل کے ساتھ پڑھنے کا حکم دیا ہے ۔لہٰذا قرآن کریم کو اسی طرح پڑھا جائے جس طرح اسے پڑھنے کا حق ہے۔اور ہرمسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ علمِ تجوید کے بنیادی قواعد سے آگاہی حاصل کرے،اور قراء کرام کا تجربہ گواہ ہے کہ اگر بچپن میں ہی تلفظ کے ساتھ قاعدہ پڑھا دیا جائے تو بڑی عمر میں تلفظ کا مسئلہ پیدا نہیں ہوتا ہے۔انہی مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے شیخ القراء استاد محترم جناب قاری محمد ابراہیم میر محمدی صاحب﷾نے بچوں کے لئے قاری قاعدہ اور تجویدی قاعدہ دو قاعدے مرتب کئے ہیں۔ ان میں سے ایک قاعدہ یہی "بچوں کے لئے قاری قاعدہ" ہے ،جو آڈیو اور ویڈیو سہولت کے ساتھ موجود ہے۔اگر کوئی استاد میسر نہ ہوتو کیسٹ کے ذریعے بھی اسے پڑھا جا سکتا ہے،اور اپنے تلفظ کی درستگی کی جا سکتی ہے۔اس میں حروف مفردہ،حروف مستعلیہ ،متشابہ الصوت حروف،حروف قلقلہ ،حروف مدہ اور حرکات وغیرہ کی ادائیگی کی انتہائی آسان اور سہل انداز میں پہچان کروائی گئی ہے۔ اگرچہ یہ قاعدہ بچوں کے لئے لکھا گیا ہے ،مگر بچوں اور بڑوں سب کے انتہائی مفید اور شاندار ثابت ہوا ہے۔اللہ تعالی استادمحترم قاری صاحب کی ان خدمات کو قبول ومنظور فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
عہد رسالت اور عہد صحابہ وتابعین ،یہ تینوں دور رسول اللہ ﷺ کے فرمان کی رو سےخیر القرون (بہترین زمانے ) ہیں اسلام کے ان بہترین زمانوں میں شادی بیاہ کا مسئلہ بالکل سادہ اور نہایت آسان تھا ۔رشتہ طے ہونے کےبعد کے جب نکاح کاپروگرام بنتا تو تاریخ تعین کرکے لڑکے والے گھر کے چند افراد کو ساتھ لے کر لڑکی والوں کے گھر جاتے اورنکاح پڑھ کر لڑکی کو اپنے گھر لے آتے ۔ اس کے لیے نہ برات کا کوئی سلسلہ تھا اور نہ جہیز ،بری اور زیورات کا اور نہ دیگر تکلفات ۔ اس سے نہ لڑکے والوں پر کوئی بوجھ پڑتا اور نہ لڑکی والوں پر ۔دونو ہی سکھی رہتے۔ یہی اسلامی تعلیمات اور اسوۂ رسول کا تقاضا تھا جس پر خیر القرون کےمسلمانوں نے عمل کر کے دنیا کو اسلامی تمدن ومعاشرت کا بہترین نمونہ دکھلایا اور اپنی عظمت کا سکہ منوایا۔آج اس کےبرعکس ہم اپنے اسلام اوراس کی تعلیمات سے دور ہوگئے تو ہماری عظمت بھی ایک قصہ پارینہ بن گئی ہے اور رسوم ورواج کی وہ بیڑیاں بھی ہم نے اپنے گلوں کا ہار بنا لی ہیں جن کو ہمارے پیارے نبیﷺ نے کاٹ کر پھینک دیا تھا ۔نتیجۃً ہماری شادیاں بھی ایک عذاب بن گئی ہیں ۔زیر نظر ’’کتابچہ ‘‘بارات اور جہیز کا تصور مفاسد اور حل‘‘ مفسر قرآن مولانا حافظ صلاح الدین یوسف ﷾ کی مذکورہ موضوع پر نہایت عمدہ تحریر ہے جس میں انہوں نے دور حاضر میں شادی نکاح کے مواقع پر پائے جانے والے رسم ورواج بالخصوص بارات اور جہیز کے نقصانات اور ان کی شرعی حیثیت کو قرآن وحدیث کی روشنی میں واضح کیا ہے ۔ جوکہ تمام اہل اسلام کے لیے انتہائی مفید اور قابل مطالعہ اور ایک دوسرے کو بطور تحفہ دینے کےلائق ہے ۔تاکہ اس سے معاشرہ میں رواج پا جانے والے رسم ورواج کا خاتمہ ہوسکے او ر شادی بیاہ کی تقریبات کو سنت نبوی کے مطابق ادا کیا جاسکے ۔اللہ تعالی حافظ صاحب کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور اسے لوگوں کی اصلاح کا ذریعہ بنائے (آمین) (م۔ا)
شاید ہی اسلام کاکوئی حکم اور مسئلہ ہو کہ جومختلف مسالک کے فلسفیانہ اور تخیلاتی بھنور میں پھنس کر اپنے اصل حلیے کو نہ کھو چکا ہو انہی مسائل میں سے ایک مسئلہ عذاب قبر کا مسئلہ ہے جس کے بارے میں لوگ افراد وتفریط کا شکار ہیں اور منکرین حدیث کی طرح منکرین عذابِ قبر کے عقیدہ کے حاملین بھی موجود ہیں جس کی کوئی بھی معقول دلیل موجود نہیں اس کے برعکس اثبات قبر پر بہت سی آیات قرآنیہ اور سینکڑوں احادیث موجود ہیں۔فرمانِ نبوی ﷺ کے مطابق موت کے بعدکا مرحلہ آخرت کی ہی پہلی سیڑھی اور زینہ ہے اس مرحلہ میں موت سے لے کر یوم البعث کے قائم ہونےتک جو کچھ قرآن کریم اور صحیح احادیث میں ثابت ہے اس پرایمان لانالازمی ہے ۔عذاب ِ قبر دین اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ایک اہم عقیدہ ہے عقلی وعلمی گمراہیوں میں غرق ہونے والے اور بے دین افراد اگرچہ عذاب قبر کا انکار کرتے ہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ اس کے برحق ہونے پر کتاب وسنت میں دلائل کے انبار موجود ہیں اسی لیے جملہ اہل اسلام کا اس پر اجماع ہے اور وہ اسے برحق مانتے ہوئے اس پرایمان رکھتے ہیں ۔اس مسئلے پر امام بیہقی ،امام ابن قیم ، اما م جلال الدین سیوطی ، اورامام ابن رجب جیسے کبار محدثین اور آئمہ کرام نے باقاعدہ کتب تالیف فرمائی ہیں ۔ زیر نظر کتابچہ’’عذاب قبر ‘‘معروف عالم دین مو لانا صفی الرحمن مباکپوری اور مولانا ابو عبد اللہ جابر دامانوی ﷾ کی مسئلہ اثبات عذاب قبر پر اہم تحریر یں ہیں۔جس میں انہوں نے عذاب قبر کے متعلق جو مختلف شکوک شبہات ونظریات محض عقلی بنیادوں پر پائے جاتے ہیں کتاب وسنت کی روشنی میں منکرین عذاب قبر کا کافی وشافی جواب دیا گیا ہے اور دلائل وبراہین سے ثابت کیا گیا ہے کہ عذاب قبر برحق ہے ۔ محمد یٰسین راہی ﷾ (مدیر اداہ تبلیغ اسلام، جام پور) نے ان دونوں تحریروں کو یکجا کرکے شائع کیا ہے۔ اللہ تعالی ہمیں حق کے اتباع کی توفیق عطا فرمائے او رباطل سےمکمل طور پر اجتناب کی توفیق دے ( آمین ) ( م۔ا)
رمضان المبارک اسلامی سال کا نواں مہینہ ہے یہ مہینہ اپنی عظمتوں اور برکتوں کے لحاظ سے دیگر مہینوں سے ممتاز ہے ۔رمضان المبارک وہی وہ مہینہ ہےکہ جس میں اللہ تعالیٰ کی آخری آسمانی کتاب قرآن مجید کا نزول لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر ہوا۔ ماہ رمضان میں اللہ تعالی جنت کے دروازے کھول دیتا ہے او رجہنم کے دروازے بند کردیتا ہے اور شیطان کوجکڑ دیتا ہے تاکہ وہ اللہ کے بندے کو اس طر ح گمراہ نہ کرسکے جس طرح عام دنوں میں کرتا ہے اور یہ ایک ایسا مہینہ ہے جس میں اللہ تعالی خصوصی طور پر اپنے بندوں کی مغفرت کرتا ہے اور سب سے زیاد ہ اپنے بندوں کو جہنم سے آزادی کا انعام عطا کرتا ہے۔رمضان المبارک کے روضے رکھنا اسلام کےبنیادی ارکان میں سے ہے نبی کریم ﷺ نے ماہ رمضان اور اس میں کی جانے والی عبادات ( روزہ ،قیام ، تلاوت قرآن ،صدقہ خیرات ،اعتکاف ،عبادت لیلۃ القدر وغیرہ )کی بڑی فضیلت بیان کی ہے ۔ کتب احادیث میں ائمہ محدثین نے کتاب الصیام کے نام سے باقاعدہ عنوان قائم کیے ۔ اور کئی علماء اور اہل علم نے رمضان المبارک کے احکام ومسائل وفضائل کے حوالے سے کتب تصنیف کی ہیں ۔زیر تبصرہ کتاب ’’تحفۂ رمضان ‘‘مولانا عبد الغفور اثری کے سیالکوٹ کی ایک مسجد میں رمضان المبارک میں دیئے گئے دروس کا مجموعہ ہے جس میں انہو ں ماہ رمضان کے فضائل وبرکات ،صوم رمضان کی فرضیت، قیام رمضان ، شب قدرآخری عشرہ میں عبادت اور نفلی روزوں کی فضیلت کو بڑے احسن انداز میں دلائل کےساتھ بیان کیا ہے ۔اللہ تعالیٰ ان کی مساعی جمیلہ کوقبول فرمائےاور تمام اہل اسلام کو رمضان المبارک کی تعظیم اور قدر کی توفیق عطافرمائے (آمین)(م۔ا)
رمضان المبارک اسلامی سال کا نواں مہینہ ہے جوکہ بہت ہی عظمت اور برکتوں والا مہینہ ہے ۔ اس عظیم الشان مہینے کا پانا یقیناً اللہ تعالی کی طرف سے بہت بڑی نعمت ہے۔جب رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہوتا تو رسول اللہ ﷺ صحابہ کرام کو اس کے آنے کی بشارت سناتے اور انہیں مبارکباد دیتے۔ا س ماہ مبارک کی قدر منزلت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سلف صالحین چھ ماہ تک یہ دعا کرتے تھے کہ یا اللہ! ہمیں رمضان المبارک کا مہینہ نصیب فرما ۔پھر جب یہ ماہ مبارک گزر جاتا تو یہ دعا کرتے کہ اے اللہ ! ہم نے اس مہینے میں جو عبادات کیں تو انہیں قبول فرمالے۔ رمضان المبارک وہی وہ مہینہ ہےکہ جس میں اللہ تعالیٰ کی آخری آسمانی کتاب قرآن مجید کا نزول لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر ہوا۔ ماہ رمضان میں اللہ تعالی جنت کے دروازے کھول دیتا ہے او رجہنم کے دروازے بند کردیتا ہے اور شیطان کوجکڑ دیتا ہے تاکہ وہ اللہ کے بندے کو اس طرح گمراہ نہ کر سکے جس طرح عام دنوں میں کرتا ہے اور یہ ایک ایسا مہینہ ہے جس میں اللہ تعالی خصوصی طور پر اپنے بندوں کی مغفرت کرتا ہے اور سب سے زیاد ہ اپنے بندوں کو جہنم سے آزادی کا انعام عطا کرتا ہے۔رمضان المبارک کے روضے رکھنا اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ہے نبی کریم ﷺ نے ماہ رمضان اور اس میں کی جانے والی عبادات ( روزہ ،قیام ، تلاوت قرآن ،صدقہ خیرات ،اعتکاف ،عبادت لیلۃ القدر وغیرہ )کی بڑی فضیلت بیان کی ہے ۔ کتبِ احادیث میں ائمہ محدثین نے کتاب الصیام کے نام سے باقاعدہ عنوان قائم کیے ۔ اور کئی علماء اور اہل علم نے رمضان المبارک کے احکام ومسائل وفضائل کے حوالے سے کتب تصنیف کی ہیں ۔زیر تبصرہ کتاب ’’ رمضان مبارک روح کی ترقی کا مہینہ‘‘ ڈاکٹر ام کلثوم صاحبہ کی تصنیف ہے جسے انہوں نے عام فہم انداز میں مرتب کیا او ر رمضان المبارک میں کرنے والے کام اور رمضان المبارک کے جملہ احکام ومسائل کو بیان کرنے کے بعد بعض اہم مسائل کو سوالات کی صورت میں بھی بیان کر دیا ہے ۔اللہ تعالی مصنفہ کی اس کاوش کو قبول فرمائے او راس کتاب کو عوام الناس کے لیے مفید بنائے (آمین) (م۔ا)
سید الانبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ سے محبت وعقیدت مسلمان کے ایمان کا بنیادی حزو ہے ۔ اور اللہ رب العزت کی نعمتوں میں ایک بہت بڑی نعمت او ر دولت ہے۔ حب ِنبوی دنیا کی تمام محبتوں میں بالکل منفرد اور ان میں سب سے ممتاز ہے ۔یہ کوئی حادثاتی اور اتفاقی محبت نہیں کہ اچانک قائم کر لی جائے او راچانک سے ختم کردی جائے یا پھر کبھی کرلی جائے اور کبھی نہ بھی کی جائے تو کو ئی حرج نہ ہو۔ بلکہ رسول اللہ ﷺ سے محبت ہی صرف وہ چیز ہے جو دنیااور آخرت میں کامیابی کی ضمانت اور اللہ رب العزت کی محبت پانے کاذریعہ ہے ۔اور اسی طرح کسی بھی شخص کاایمان اس وقت تک مکمل قرار نہیں دیا جاسکتا جب تک رسول اللہ ﷺ کو تمام رشتوں سے بڑھ کر محبوب ومقرب نہ جانا جائے۔فرمانِ نبویﷺ ہے تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا جب تک اسے رسول اللہﷺ کے ساتھ ماں،باپ ،اولاد اور باقی سب اشخاص سے بڑھ کر محبت نہ ہو۔چنانچہ رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کے مطابق اسلام میں حرمت اور ناموس کے اعتبار سے کسی نبی میں کوئی فرق نہیں ۔ تمام انبیاء میں سی کسی بھی نبی پر کوئی دشنام طرازی کی جاتی ہے تو اس کی سزا قتل کے علاوہ کوئی نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ امت مسلمہ کاشروع دن سے ہی یہ عقیدہ ہےکہ نبی کریم ﷺ کی ذات گرامی سے محبت وتعلق کےبغیر ایمان کا دعویٰ باطل اور غلط ہے۔ہر دو ر میں اہل ایمان نے آپ ﷺ کی شخصیت کے ساتھ تعلق ومحبت کی لازوال داستانیں رقم کیں۔اور اگر تاریخ کے کسی موڑ پرکسی بد بخت نے آپﷺ کی شان میں کسی بھی قسم کی گستاخی کرنے کی کوشش کی تو مسلمانوں کے اجتماعی ضمیر نے شتم رسولﷺ کے مرتکبین کو کیفر کردار تک پہنچایا۔ چند سال قبل ڈنمارک ناروے وغیرہ کے بعض آرٹسٹوں نے جوآپ ﷺ کی ذات گرامی کے بارے میں خاکے بنا کر آپﷺ کامذاق اڑایا۔جس سے پورا عالم اسلام مضطرب اور دل گرفتہ ہواتونبی کریم ﷺ سے عقیدت ومحبت کے تقاضا کو سامنے رکھتے ہوئےاہل ایما ن سراپا احتجاج بن گئے اور سعودی عرب نے جن ملکوں میں یہ نازیبا حرکت ہوئی ان کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا ۔ زیرتبصرہ کتاب'' فداہ ﷺ ابی وامی '' اس سلسلے کی کڑی ہے جو کہ امیر جماعۃ الدعوۃ حافظ محمد سعید ﷾ کے صاحبزادہ حافظ طلحہ سعید ﷾ کی کاوش ہے ۔ جس میں انہوں نے موجودہ دو ر میں اسلام کے خلاف ہونے والی سازشوں کےپس پردہ محرکات کو بیان کرنے کے بعد تحفظ حرمت رسولﷺ کے علمی اور تحقیقی پہلو اور نبی کریم ﷺ سے محبت اور صحابہ کرام کے طرز ِ عمل کو بڑے احسن انداز میں سپرد قلم کیا ہے ۔ اللہ تعالی ان کی اس کاوش کو شرف قبولیت سے نوازے (آمین) (م۔ا)
خطابت اللہ تعالیٰ کی عطاکردہ،خاص استعداد وصلاحیت کا نام ہے جس کےذریعے ایک مبلغ اپنے مافی الضمیر کے اظہار ،اپنے جذبات واحساسات دوسروں تک منتقل کرنے اور عوام الناس کو اپنے افکار ونظریات کا قائل بنانے کے لیے استعمال کرتا ہے ۔ایک قادر الکلام خطیب اور شاندار مقرر مختصر وقت میں ہزاروں ،لاکھوں افراد تک اپنا پیغام پہنچا سکتا ہے اوراپنے عقائد ونظریات ان تک منتقل کرسکتا ہے۔خطابت صرف فن ہی نہیں ہے بلکہ اسلام میں خطابت اعلیٰ درجہ کی عبادت اورعظیم الشان سعادت ہے ۔خوش نصیب ہیں وہ ہستیاں جن کومیدانِ خطابت کے لیے پسند کیا جاتا ہے۔شعلہ نوا خطباء حالات کادھارا بدل دیتے ہیں،ہواؤں کےرخ تبدیل کردیتے ،معاشروں میں انقلاب بپا کردیتے ہیں ۔تاریخ کےہر دورمیں خطابت کو مہتم بالشان اور قابل فخر فن کی حیثیت حاصل رہی ہے اور اقوام وملل او رقبائل کے امراء وزعما کے لیے فصیح اللسان خطیب ہونا لازمی امرتھا۔قبل از اسلام زمانہ جاہلیت کی تاریخ پر سرسری نگاہ ڈالیں تو اس دور میں بھی ہمیں کئی معروف ِ زمانہ فصیح اللسان اور سحر بیان خطباء اس فن کی بلندیوں کو چھوتے ہوئے نظرآتے ہیں۔دورِ اسلام میں فنِ خطابت اپنے اوج کمال تک پہنچ گیا تھا ۔نبی کریم ﷺ خود سحرآفرین اور دلنشیں اندازِ خطابت اور حسنِ خطابت کی تمام خوبیوں سے متصف تھے ۔اللہ تعالیٰ نے ہر دور میں وراثتِ نبوی کے تحفظ اور تبلیغِ دین کےلیے ایسی نابغۂ روز گار اور فرید العصر شخصیات کو پیدا فرمایا کہ جنہوں نے اللہ تعالی کی عطا کردہ صلاحیتوں اور اس کے ودیعت کردہ ملکۂ خطابت سے بھر پور استفادہ کرتے ہوئے پر زور انداز میں دعوت حق کوپیش کیا اور لوگوں کے قلوب واذہان کو کتاب وسنت کے نور سے منور کیا ۔ ماضی قریب میں امام الہند مولانا ابو الکلام آزاد، سیدابو بکر غزنوی، آغا شورش کاشمیری، سید عطاء اللہ بخاری ، حافظ محمد اسماعیل روپڑی،مولانا محمد جونا گڑھی وغیرہم کا شمار میدان خطابت کے شہسواروں میں ہوتا ہے ۔اور خطیبِ ملت علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید میدان ِ خطابت کے وہ شہسوار ہیں جنہوں نے اللہ کی توفیق سے ایک نیا طرزِ خطابت ایجاد کیا ۔اور شیخ القرآن مولانا محمدحسین شیخوپوری گلستانِ کتاب وسنت کے وہ بلبل شیدا ہیں کہ دنیا انہیں خطیبِ پاکستان کے لقب سے یاد کرتی ہے۔خطباء ومبلغین اور دعاۃِ اسلام کےلیے زادِراہ ،علمی مواد اور منہج سلف صالحین کےمطابق معلومات کاذخیرہ فراہم کرنا یقیناً عظیم عمل اوردینِ حق کی بہت بڑی خدمت ہے اور واعظین ومبلغین کا بطریق احسن علمی تعاون ہے ۔اس لیے علماء نے ہر دور میں یہ رزیں کارنامہ سرانجام دینے کی کوشش کی ہے تاکہ وہ خطباء ودعاۃ جن کے پاس مصادر ومراجع میسر نہیں یا جن کے پاس وقت کی قلت ہے ان کے لیے خطباء کی تیاری کےلیے آسانی ہوسکے ۔ماضی قریب میں اردوزبان میں خطبات کے مجموعہ جات میں اسلامی خطبات از مولانا عبدالسلام بستوی ، خطباتِ محمدی از مولانا محمد جونا گڑھی ،خطبات ِنبوی از مولانا محمد داؤد راز اور بعض اہل علم کے ذاتی نام سے (خطبات آزاد ،خطبات علامہ احسان الٰہی ظہیر ، خطبات یزدانی ،مواعظ طارق وغیرہ ) خطبات کے مجموعات قابلِ ذکر ہیں ۔اور عربی زبان میں خطباء واعظین حضرات کے لیے 12 ضخیم مجلدات پر مشتمل ''نضرۃ النعیم ''انتہائی عمدہ کتاب ہے ۔زیر نظر کتاب ''زاد الخطیب''ڈاکٹر حافظ محمد اسحاق زاہد ﷾( فاضل وسابق استاذِ حدیث جامعہ لاہور الاسلامیہ،لاہور؍فاضل مدینہ یونیورسٹی ) کی وہ عظیم الشان تصنیف ہے جو اپنی جملہ خوبیوں(ہر خطبہ کے آغاز میں متعین موضوع کے اہم عناصر کا ذکر۔متعین موضوع اور مواد کے لیے صر ف صحیح احادیث کا انتخاب او رضعیف ،خود ساختہ اور بناوٹی احادیث سے قطعی اجتناب۔ خطبات کی ترتیب میں ترتیبی پہلو۔خطبہ کے شروع میں تمہید کابیان ۔خطبات میں علمی ثقاہت اورجلالت ِبیان کی نمایاں جھلک ۔آیات واحادیث کےمکمل حوالہ جات او رہر دعوی ٰ دلیل سے مزین۔انداز ِ بیان سادہ مگر انتہائی پر مغز ۔آسان محاورات اورسہل عبارات سے اپنا مدعا بیان کر نے کی بھر پور کوشش) کی بناپر تین مجلدات میں 75 علمی موضوعات پر مشتمل خطباتِ جمعہ اپنی نوعیت کا منفرد مجموعہ ہے ۔جس کا دار مدار اورانحصار موضوع ،من گھڑت روایات اور قصہ گوئی کےبجاے کتاب وسنت کی صحیح نصوص پر ہے ۔ فاضل مصنف نے ایسا امتیازی اور منفرد اندازِ نگارش اختیار کیا ہے جو اسے تمام دیگر مجموعہ ہائے خطبات سے ممتاز کرتا ہے ۔یہ خطبات جامع بھی ہیں او رمفصل بھی۔ہر موضوع کا مناسب حق ادا کیا گیا ہے ،ان میں کوئی اہم پہلو تشنہ نہیں چھوڑا گیا ۔ایک ایک موضوع پر اتنا علمی مواد مناسب ترتیب کے ساتھ جمع کردیا ہے گیا ہے کہ ایک موضوع دودو تین تین خطبوں کےلیے کافی ہے۔ان اعتبارات سے یہ مجموعۂ خطبات علماء وخطباء اور اہل علم کےلیے بلاشبہ بیش قیمت علمی تحفہ او رآیاتِ قرآنیہ اور احادیث ِصحیحہ کا ایک خزینہ ہے ۔اس کتاب کی جلد اول اور دو م جمعیۃ احیاء التراث الاسلامی کویت کی جانب سے 2008ء میں سب سے پہلے پاکستان میں طبع ہوئیں اور پھر ہندوستان میں ۔برصغیر پاک وہندکے ہزاروں خطباء اور واعظین حضرات میں اس کو تقسیم کیاگیا۔ جمعیت احیاء الترث کی اشاعت کے علاوہ پاک وہند کے بعض اہم مکتبات نے بھی اس کتاب کو شائع کیا اب تک کئی ایڈیشن شائع ہوکر ہزاروں دعاۃ ،واعظین اوراہل علم کےہاتھوں میں پہنچ چکے ہیں جن سے وہ مستفید ہور ہے ہیں ۔دورِ حاضر میں عالمِ اسلام میں اردو زبان میں سلفی منہج وفکرپر مرتب کے جانے والے خطبات میں سب سے زیادہ جن خطبات سے استفادہ کیا جاتا ہے وہ اعزاز ماشاء اللہ زاد الخطیب کو حاصل ہے (اللهم زد فزد)الحمد للہ زاد الخطیب کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ اس کی افادیت کے پیش نظر اس کے مختلف زبانوں میں ترجمہ کا کام بڑی تیزی سے جاری ہے ۔ پہلی دو جلدوں کا سندھی زبان میں ترجمہ مکمل ہوچکا ہے ۔فارسی اور پشتو زبان میں بھی ترجمہ ہورہا ہے ۔اسی طرح ہندوستان کی بعض علاقائی زبانوں اور بنگالی زبان میں بھی ترجمہ کروانےکا منصوبہ ہے۔فاضل مصنف استاد محترم ڈاکٹر حافظ محمد اسحاق زاہد﷾ زاد الخطیب کے علاوہ تقریبا ایک درجن چھوٹی بڑی کتب کے مصنف ومترجم ہیں ۔محترم حافظ صاحب دینی تعلیم کے حصول کے لیے 1982میں جامعہ لاہور الاسلامیہ،لاہور ( جامعہ رحمانیہ )میں داخل ہوئے اور یہاں ثانوی کے امتحان میں امتیازی نمبر حاصل کرکے اول آنے پر انہیں1986 میں مدینہ یونیورسٹی میں داخلہ کا شرف حاصل ہوا۔مدینہ یونیورسٹی کے کلیۃ الحدیث سے فراغت سے کے بعد 1991ء میں اپنے مادرِ علمی جامعہ لاہور الاسلامیہ میں تدریس کا آغازکیا اور پھر کچھ عرصہ بعدکویت تشریف لے گے قیامِ کویت کے دوران 2007ء میں جامعہ کراچی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔پی ایچ ڈی میں تحقیقی مقالہ کاعنوان ''حدیثِ مو ضو ع ، تا ر یخ ، اسباب،علامت اورمشہور موضوع احادیث کاتحقیقی جائزہ'' ہے مقالہ نگار نے یہ مقالہ عربی زبان میں پیش کیا۔موصوف کی تدریسی وتصنیفی خدمات اور مزید تعارف کےلیے زاد الخطیب جلد3 ص5۔10 ملاحظہ فرمائیں۔ زاد االخطیب کی تینوں جلدیں پہلے بھی کتاب وسنت ویب سائٹ موجود ہیں لیکن زیر تبصرہ نئے ایڈیشن میں اس کی پہلی دوجلدوں میں تیسری جلدکی طرح مواد کی سیٹنگ اورحوالہ جات کوجدید اسلوب کے مطابق درج کیا گیا ہے اس لیے جلد اول اور دو م کو دوبارہ کتاب وسنت ویب سائٹ پر اپ ڈیٹ کیا گیا ہے ۔اشاعتِ دین کے لیے اللہ تعالیٰ محترم حافظ صاحب کی تمام مساعی جمیلہ کوشرفِ قبولیت سے نوازے اورزاد الخطیب کی مقبولیت میں مزید اضافہ فرمائے ۔خطباء ومبلغین کو اس نادر علمی ذخیرہ سے مستفید ہونے کی توفیق مرحمت فرمائے اور مصنف موصوف کے علم وعمل میں برکت اور زورِقلم میں اضافہ فرمائے (آمین)(م۔ا)
کسی بھی مسلمان کے لئے یہ بہت بڑی سعادت کی بات ہے کہ وہ نبی کریم ﷺ کی احادیث مبارکہ کو تدریس ،تقریر یا تحریر کے ذریعے لوگوں تک پہنچائے،آپ ﷺ نے ایسے سعادت مند افراد کے لئے تروتازگی کی دعا فرمائی ہے۔چنانچہ محدثین کرام نے اسی سعادت اور کامیابی کے حصول کے لئے کوششیں کیں احادیث نبویہ کو اپنی اپنی کتب میں جمع فرمایا۔اسلام کے انہی درخشندہ ستاروں میں سے ایک علامہ علاء الدین علی متقی بن حسام الدین ہندی برھان پوری ہیں ،جنہوں نے زیر تبصرہ کتاب " کنز العمال فی سنن الاقوال والافعال "تصنیف فرمائی ہے۔اور اس کا اردو ترجمہ کرنے کی سعادت محترم مولانا مفتی احسان اللہ شائق نے حاصل کی ہے۔یہ کتاب دراصل امام سیوطی کی ہے ۔انہوں نے پہلے "الجامع الکبیر"نامی ایک کتاب لکھی ،جس میں تمام احادیث کو جمع فرمایا،اور یہ کتاب آج بھی نام سے موجود ہے۔اس میں انہوں نے احادیث مبارکہ کو حروف تہجی کی ترتیب پر مرتب فرمایا،اور قسم الاقوال اور قسم الافعال دونوں کو الگ الگ جمع فرمایا۔پھر اسی جامع الکبیر کی قسم الاقوال میں سے مختصر احادیث کو منتخب کیا اور "الجامع الصغیر "نامی کتاب لکھ ڈالی۔پھر کچھ عرصہ بعد "جامع صغیر " کا استدراک کرتے ہوئے "زوائد الجامع "نامی کتا ب لکھ دی۔علامہ علاء الدین علی متقی کا کام یہ ہے کہ انہوں نے امام سیوطی کی ان کتب کو فقہی ترتیب پر مرتب کرتے ہوئے "کنز العمال فی سنن الاقوال والافعال"نامی یہ کتاب تالیف فرمادی،جو نبی کریم ﷺ کی احادیث مبارکہ پر مشتمل ایک عظیم الشان ذخیرہ ہے۔اللہ تعالی مولف کی اس محنت کو قبول فرمائے اور ہمیں آپ کی احادیث مباکہ پر عمل کرنے کی بھی توفیق دے۔آمین(راسخ)
بعض لوگ سرسری طور پر حدیث کا مطالعہ کرتے ہیں اور جب انہیں کسی حدیث کے معنی سمجھ میں نہیں آتے تو وہ جھٹ سے اسے قرآن مجید کے کی خلاف یا دو صحیح احادیث کو متصادم قرار دے کر باطل ہونے کا فتوی دے دیتے ہیں،جو جہالت اور انکار حدیث کی سازش کا ہاتھ بٹانے کے مترادف ہے۔ایسا ہی کچھ طرز عمل سود سے متعلق صحیح مسلم کی دو صحیح احادیث کے ساتھ اختیار کیا گیا،اور احادیث سمجھ میں آنے کی وجہ سے ان کو باہم متصادم قرار دے دیا گیا۔(کتاب پر معترض کا نام موجود نہیں ہے)حالانکہ مسلم شریف کی صحت پر تمام اہل علم کا اتفاق ہےامام مسلم خود اپنی کتاب میں فرماتے ہیں۔''میں صحیح مسلم میں ہر وہ حدیث نہیں لکھتا جو میرے نزدیک صحیح نہیں ہے مسلم میں تو صرف وہ احادیث لکھیں ہے جس پر اجماع ہوچکا ہے ۔''اور پھر بظاہردو متعارض احادیث کو جمع کرنے کے طریقے بھی محدثین کے معروف ہیں۔لیکن ان معروف طریقوں کو چھوڑ کر سرے سے ہی حدیث کا انکار کر دینا اسلام کی خدمت ہر گز نہیں ہے۔زیر تبصرہ کتاب " صحیح مسلم میں بظاہر دو متعارض احادیث میں تطبیق " خادم حدیث مولانا محمد حسین میمن کی تصنیف ہے ،جس میں انہوں نے قرآن وحدیث اور اصول حدیث کی روشنی میں معترض کے اعتراضات کا مدلل اور مسکت جواب دیا ہے۔اللہ تعالی ان کی اس خدمت کو قبول فرمائے۔آمین(راسخ)
علامہ سید بدیع الدین راشدی کا شمار ان کبار علماء کرام اور مشائخ عظام میں ہوتا ہے، جنہوں نے توحید وسنت کی اشاعت،باطل مذاہب کی تردید اور باطل وکفریہ عقائد کے خلاف جہاد میں اپنی زندگی کھپا دی۔آپ کی شخصیت راشدی خاندان کے ماتھے کا جھومر ہے۔آپ نے عالم اسلام کو بالعموم اور اہل سندھ کو بالخصوص شرعی تعلیم سے روشن کرتے ہوئے صحیح منہج ودرست عقائد پر گامزن کیا اور ان کو تقلید شخصی اور غیر اسلامی رسومات کے خلاف جہاد کرنے کا حوصلہ بخشا۔آپ تقریر وتحریر دونوں میدانوں کے شہسوار تھے۔آپ کا علمی وادبی مقام ومرتبہ بہت بلند ہے۔آپ ان علماء حق میں سے تھے جو باطل کے سامنے سینہ سپر ہوجاتے تھے۔آپ عربی ،اردو،سندھی اور فارسی کے ماہر تھے۔آپ نے مختلف علوم وفنون پر ڈیڈھ سو کے قریب کتب تصنیف فرمائی ہیں،جو ہمارے لئے ایک سرمایہ صد افتخار ہے۔المختصر آپ گلشن اہل حدیث کے وہ پھول تھے،جس کی خوشبو آج بھی علمی ،ادبی سیاسی اور مذہبی میدان میں مہک رہی ہے۔زیر تبصرہ کتابچہ "رموز راشدیہ"آپ کے ایک طویل انٹرویو پر مشتمل ہے ،جو 1982ء میں آپ سے لیا گیا تھا،یہ انٹرویو آپ کی زندگی کے حوالے سے ایک دستاویز ہے۔جسے مولانا عبد الرحمن میمن نے انتہائی محنت سے مرتب کیاہے۔جو فائدہ کی غرض سے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے۔اللہ تعالی شاہ صاحب اور اس انٹرویو کے مرتب محترم عبد الرحمن میمن کو جزائے خیر دے اور ان کو جنت الفرودس میں اعلی مقام عطا فرمائے۔آمین(راسخ)
تمام اہل سنت والجماعت کا اس بات پر اجماع ہے کہ قرآن اللہ تعالی کی کلام ہے اور مخلوق نہیں ہے۔قرآن مخلوق ہے یا غیر مخلوق ہے؟ اس بحث کا آغاز عباسی دور میں ہوا۔معتزلہ کا عقیدہ ہے کہ قرآن مخلوق ہے، کلام الہی نہیں ہے۔ان کے ہاں رسول اللہ پر معانی کا القاء ہوتا تھا اور آپ انہیں الفاظ کا جامہ پہنا دیتے تھے۔ مامون الرشید کے دور میں حکومت کا مسلک اعتزال تھا۔ لہذا یہ مسئلہ 827ء میں شدت اختیار کر گیا۔ اور علمائے اسلام سے جبراً یہ اقرار لیا گیا کہ قرآن کلام قدیم نہیں بلکہ مخلوق ہے۔ بہت سے علما نے انکار کر دیا اور قید وبند کی مصیبتوں میں گرفتار ہوئے۔ امام احمد بن حنبل پر بھی اس سلسلے میں بڑے ظلم ڈھائے گئے لیکن وہ اپنے نظریے پر قائم رہے۔زیر تبصرہ مضمون " قرآن مخلوق نہیں بلکہ اللہ کا کلام ہے " جماعت اہل حدیث کے معروف عالم دین حافظ زبیر علی زئی کی کاوش ہے ،جس میں انہوں نے مدلل گفتگو کرتے ہوئے اہل سنت والجماعت کے عقیدے کو ثابت کیا ہے کہ قرآن مجید مخلوق نہیں ،بلکہ اللہ تعالی کا کلام ہے۔اس مضمون کی افادیت کو دیکھتے ہوئے ہدیہ قارئین کیا جا رہا ہے۔اللہ ان کی اس خدمت کو قبول فرمائے ۔ آمین (راسخ)
علامہ شیخ محمد ناصر الدین البانی عصر حاضر میں مسلمانوں کے نامور علماء کرام میں سے ہیں۔آپ علم حدیث کے ان نمایاں علماء کرام میں سے شمار کئے جاتے ہیں،جو فن جرح وتعدیل میں یگانہ روز گار شمار کئے جاتے ہیں۔آپ مصطلح الحدیث میں حجت مانے جاتے ہیں۔ان کے بارے میں اہل علم فرماتے ہیں کہ انہوں نے حافظ ابن حجر اور حافظ ابن کثیر وغیرہ جیسے علماء جرح وتعدیل کے دور پھر سے زندہ کردیا ہے۔زیر تبصرہ مضمون " مختصر سیرت محدث امام مجدد محمد ناصر الدین البانی"محترم طارق علی بروہی کی کاوش ہے ،جس میں انہوں نے اس عظیم الشان محدث اور عالم دین کی زندگی اور سیرت کو قلمبند کیا ہے،تا کہ حدیث کے طالب علم ان کی مانند اپنی زندگی کو خدمت حدیث میں کھپا دیں اور حدیث مبارکہ میں محدثین کے اصولوں کو پیش نظر رکھیں۔اللہ تعالی مولف کو جزائے خیر سے نوازے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
توسّل اور اس کے شرعی حکم کے بارے میں بڑا اضطراب واِختلاف چلا آ رہا ہے ۔کچھ اس کو حلال سمجھتے ہیں اورکچھ حرام ۔کچھ کو بڑا غلو ہے اور کچھ متساہل ہیں ۔اور کچھ لوگوں نے تو اس وسیلہ کے مباح ہونے میں ایسا غلو کیا کہ اﷲکی بارگاہ میں اس کی بعض ایسی مخلوقات کا وسیلہ بھی جائز قرار دے دیاہے ، جن کی نہ کوئی حیثیت ہے نہ وقعت ۔مثلاً اولیاء کی قبریں ،ان قبروں پر لگی ہوئی لوہے کی جالیاں ،قبر کی مٹی ،پتھر اور قبر کے قریب کا درخت۔اس خیال سے کہ ''بڑے کا پڑوسی بھی بڑا ہوتا ہے''۔اور صاحب قبر کے لئے اﷲکا اکرام قبر کو بھی پہنچتا ہے 'جس کی وجہ سے قبر کا وسیلہ بھی اﷲکے پاس درست ہوجاتا ہے ۔یہی نہیں بلکہ بعض متاخرین نے تو غیر اﷲسے استغاثہ کو بھی جائز قرار دے دیا اور دعویٰ یہ کیا کہ یہ بھی وسیلہ ہے 'حالانکہ یہ خالص شرک ہے جو توحید کی بنیاد کی خلاف ہے۔ زیر تبصرہ کتاب "ممنوع اور مشروع وسیلہ کی حقیقت" اردن کے معروف عالم دین محدث العصر شیخ محمد ناصر الدین البانی کی کی وش ہے۔اس میں انہوں نے وسیلے کی لغوی واصطلاحی تعریف،وسیلے کی اقسام ،مشروع وسیلہ اور ممنوع وسیلہ وغیرہ جیسی مباحث کو قرآن وسنت کی روشنی میں جمع فرما دیا ہے۔یہ کتاب اپنے موضوع پربڑی مفید اور شاندار ہے ،جس کا ہر طالب علم کو مطالعہ کرنا چاہئے۔اللہ تعالی مولف کے اس عمل پر انہیں جزائے خیر عطا فرمائے۔آمین(راسخ)
نبی اکرمﷺ سے صدق دل سے محبت کرنا ہر مسلمان کے دین و ایمان کا بنیادی تقاضا ہے اور آپ ﷺ سے اظہارِ محبت کی اہم ترین صورت یہ ہے کہ آپ ﷺ کے اَقوال افعال،احادیثِ نبویہ سے محبت کی جائے اور آپﷺ کی احادیث اورفرمودات سے محبت کا طریقہ یہ ہے کہ انہیں خلوصِ دل سے سچا و منزل من اللہ یعنی وحی تسلیم کیا جائے ۔ انکی کامل اتباع و اطاعت کی جائے ، انہیں اپنا اوڑھنا ، بچھونا اور حرزِ جان بنا لیا جائے ، انہیں پڑھا ، لکھا اور یاد کیا جائے اور دوسرے لوگوں تک منتقل کیا جائے ۔مولانا وحید الزماں کا نام ان خوش قسمت لوگوں کی فہرست میں شامل ہے ، جنہوں نے آنحضرت ﷺ کے ارشادات و فرمودات سے اظہارِ محبت کرتے ہوئے علم حدیث کے میدان میں نمایاں خدمات انجام دیں ۔ اس کی اس سے بڑی دلیل اور کیا ہو سکتی ہے کہ صحاح ستہ و موطاء کے تراجم جو گزشتہ سو سال سے تاحال ہر دینی و علمی لائبریری کی زینت بنے ہوئے ہیں مولانا مرحوم ہی کے فیضانِ قلم کا نتیجہ ہیں اور آج تک ہونے والے دیگر تراجم میں انہی سے بکثرت استفادہ کیا گیا ہے۔آپ محض اُردو تراجم کے شہسوار نہ تھے بلکہ عربی میں گہری مہارت بھی رکھتے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ مرحوم نے بعض عربی کتابوں کی تصحیح و تہذیب میں بھی نمایاں خدمت انجام دیں۔مولانا کو دینی کتب تصنیف و تالیف ، تراجم اور تصحیح و تہذیب کا جتنا شوق تھا ، اس سے کہیں زیادہ کتابوں کو طبع کرانے اور پھر مفت تقسیم کرانے کا شوق تھا۔ مولانا مرحوم 1267ھ میں کانپور میں پیدا ہوئے اور اپنے والد بزرگوار مسیح الزمان اور برادر اکبر حافظ بدیع الزمان کے علاوہ دیگر علمائے کانپور سے دینی علوم حاصل کئے اور چھوٹی ہی عمر میں تصنیف و تالیف کا سلسلہ شروع کر دیا ۔کتب ِاحادیث کے تراجم کے علاوہ کئی کتب تالیف کیں ان میں سے مایہ ناز کتا ب'' اسرار اللغة مع انوار اللغة الملقب به وحيد اللغات ''ہے جوکہ آج لغات الحدیث کے نام سے معروف ہے ۔یہ کتاب پہلی مرتبہ 1907ء میں انوار اللغۃ ملقب بہ وحید اللغات کے نام سے شائع ہوئی۔ موجودہ ایڈیشن پہلی اشاعت کے تقریبا سو سال بعد نعمانی کتب خانہ لاہور نے پہلی مرتبہ نہایت اعلی تحقیقی معیار اور جدید اسلوب کے ساتھ کمپیوٹر کمپوزنگ کے ساتھ شایان شان انداز میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کی ۔ یہ کتاب رسول اللہ ﷺ کے احادیث مبارکہ کے الفاظ کی اردو زبان میں سب سے جامع لغت ہے۔علامہ وحید الزماں نے اس لغت میں اہل لغت کے مروجہ طریقے کے مطابق مادوں کو حروف تہجی پر ترتیب دیا ہے اس جدید ایڈیشن میں حتی المقدور قدیم الفاظ کوجدید اردو الفاظ کے ساتھ تبدیل کردیا گیاہے ۔اوربعض جگہوں پر جملوں کی تصحیح کے ساتھ ساتھ حواشی لگانے کا اہتمام بھی کیا گیا ہے ۔اور کتاب میں مذکورہ تمام فارسی اشعار کا اردو ترجمہ حاشیہ میں ذکر کردیا گیا ہے ۔ لغات الحدیث میں میں لفظ کو سمجھانے کےلیے مؤلف نے قدیم وجدید الفاظ اور محاورات کا ذخیرہ جمع کردیا ہے نیز انہوں نے نے احادیث،تاریخی واقعات،ذاتی تجربات اور واقعات سے کام لے کر عام قاری کی دلچسپی کا سامان پیداکرادیا ہے ۔یہ کتاب احادیث نبویہ کے غریب الفاظ کو سمجھنے کے لیے طالبان علوم نبوت اور اہل علم کےلیے بیش قیمت علمی تحفہ ہے ۔اللہ تعالیٰ اس کتاب کے مصنف اور اس کتاب کو اعلی معیار پر تیارکرنے والے تمام احباب کی مساعی جمیلہ کوقبول فرمائے (آمین)(م۔ا )
خدمت حدیث بھی بلاشبہ عظیم شرف وسعادت ہے او راس عظیم شرف اور سعادت کبریٰ کے لیے اللہ تعالیٰ نےہمیشہ اپنی مخلوق میں عظیم لوگوں کاانتخاب فرمایا انہی سعادت مند چنیدہ شخصیات میں سرفہرست مجددِ ملت ،محدثِ عصر علامہ شیخ ناصر الدین البانی(1914۔1999ء) کا نام عالی شان ہے جنہوں نے ساری زندگی شجرِ حدیث کی آبیاری کی ۔امام البانی حدیث وفقہ کے ثقہ اما م تھے تما م علوم عقلیہ ونقلیہ پر عبور واستحضار رکھتے تھے ۔آپ کی شخصیت مشتاقان علم وعمل کے لیے نعمت ربانی تھی اورآج بھی آپ کی علمی وتحقیقی او رحدیثی خدمات اہل علم او رمتلاشیان حق کےلیے روشن چراغ ہیں۔آپ کی خدمات کے اثرات وثمرات کودیکھ کر ہر سچا مسلمان یہی محسوس کرتا ہے کہ اللہ تعالی نے آپ کوتجدیدِ دین کے لیے ہی پیدا فرمایا تھا۔علامہ ناصر الدین البانی کاشمار ان عظیم المرتبت شخصیات میں ہوتاہے کہ جنہوں نے علمی تاریخ کےدھارے کا رخ بدل دیا ۔شیخ البانی نے اپنی خدمات حدیث سے امت میں احادیث کی جانچ پرکھ کاشعور زندہ کیا۔شیخ کی ساری زندگی درس وتدریس اور تصنیف وتالیف میں گزری ۔ان کی مؤلفات اور تعلیقات کی تعداد تقریبا دوصد سے زائد ہے۔دور حاضر میں شیخ البانی نے احادیث کی تحقیق اور تخریج کا جو شاندار کام کیا ہے ماضی میں اس کی مثالی نہیں ملتی ۔زیر نظر کتاب سلسلة احاديث الصحيحة شیخ کی عظیم الشان تصانیف میں سے ہے جس میں شیخ نے عوام الناس کے فائدے کےلیے مختلف ابواب ،فصول،مسائل اور فوائد سےمتعلقہ صحیح احادیث کو جمع کردیا ہے ۔شیخ نے اس کتاب میں تبویب بندی اور کسی خاص ترتیب کا لحاظ نہیں رکھا بلکہ تخریج وتحقیق کے اصول وقواعد کے مطابق جیسے جیسے احادیثِ صحیحہ میسر آتی گئیں انہیں کتاب میں قلم بند کرتے رہے۔اور مختصراً متونِ احادیث ،اسانید طرق اور رواۃ پر بھی بحث کرتے ہوئے فقہی فوائد پر بھی روشنی ڈالی ہے اور بعض مقامات پر کسی خاص موضوع پر طویل ابحاث بھی پیش کی ہیں ۔ فضیلۃ الشیخ ابو میمون محمد محفوظ اعوان ﷾ نے سلسلہ احادیث الصحیحہ کا ترجمہ کرنے کے علاوہ اس کتاب کی فقہی ترتیب،کتاب بندی،باب بندی اور تخریج وغیرہ کا کام بھی سر انجام دیا ۔ انصار السنہ پبلی کیشنز،لاہور نے اسے 6جلدوں میں شائع کیا ہے۔ اللہ تعالی شیخ البانی اس کتاب کو طباعت کےلیے تیار کرنے والے تمام احبا ب کی جہود کو قبول فرمائے (آمین) (م۔ا)
اللہ تعالی نے نبی کریم کو ﷺآخری نبی اور رسول بنا کر بھیجا ہے۔آپ ﷺ خاتم النبیین اور سلسلہ نبوت کی بلند مقام عمارت کی سب سے آخری اینٹ ہیں ،جن کی آمد سے سلسلہ نبوی کی عمارت مکمل ہو گئی ہے۔آپ کے بعد کوئی برحق نبی اور رسول نہیں آسکتا ہے ۔لیکن آپ نے فرمایا کہ میرے بعد متعدد جھوٹے اور کذاب آئیں گے جو اپنے آپ کو نبی کہلوائیں گے۔آپ کے بعد آنے والے متعدد کذابوں میں سے ایک جھوٹا اور کذاب مرزا غلام احمد قادیانی ہے ،جس نے نبوت کا دعوی کیا اور شریعت کی روشنی میں کذاب اور مردود ٹھہرا۔لیکن اللہ رب العزت نے اس کےجھوٹ وفریب کوبے نقاب کرد یا اور وہ دنیا وآخرت دونوں جہانوں میں ذلیل وخوار ہو کر رہ گیا۔زیر نظر کتاب ’’ثبوت حاضر ہیں‘‘ قادیانیوں کے خلاف لکھنے والے معروف قلمکار محمد متین خالد کی کاوش ہے،جس میں انہوں نے قادیانیوں کے بدترین کفریہ عقائد وعزائم پر مبنی عکسی شہادتیں اکٹھی کر دی ہیں۔اور اس کی طرف سے کئے جانے والے جھوٹے دعوؤں اور کفریہ عقائد و قابل اعتراض باتوں کو ایک جگہ جمع کر دیا ہے ،تاکہ ان کے جرائم کو تمام مسلمان پہچان سکیں۔ اللہ تعالی ان کی اس محنت کو قبول ومنظور فرمائے اور تمام مسلمانوں کو قادیانیوں کے اس خطرناک فتنے سے محفوظ فرمائے۔آمین(راسخ)
قرآن وحدیث کے فہم اوراس کی تشریح وتوضیح میں اختلاف ہوجانا کوئی بڑی بات نہیں ۔ اختلاف صحابہ تابعین کے درمیان بھی موجود تھا لیکن اس کے سبب وہ فرقوں اور گروہوں میں تقسیم نہیں ہوئے اس لیے کہ اس ااختلاف کے باوجود سب کامرکز اطاعت او رمعیارِ عقیدت ایک تھا قرآن اور حدیث رسول ﷺ۔ وہ اپنے اختلاف کو کتاب وسنت کی کسوٹی پر پیش کرتے تھے ۔لہذا جس کی بات معیار پر پوری اترتی وہ سچا ہوتا او ر دوسرا اپنی رائے اور موقف کوچھوڑ دیتا جب تک لوگ اس نہج پر کار بند رہے امت محمدیہ فرقہ وگروہ بندی سے محفوظ رہی ۔زیر نظر کتاب '' متنازعہ مسائل کے محمدی فیصلے '' محترم ابو عبد اللہ آصف محمود ﷾کی تصنیف ہے جس میں انہوں نے صرف ایسی صحیح یا حسن احادیث کا انتخاب کر کے پیش کیا ہے کہ جن احادیث میں امت میں پائے جانے متنازعہ مسائل کا حل موجود ہے ۔نیزکتاب کے آخر میں مشرکین کے اس پروپیگنڈے کا بھی مدلل جواب دیاہے کہ امت محمد یہ میں شرک کا وجود نہیں ۔بازار میں '' متنازعہ مسائل کے خدائی فیصلے '' کے نام سے بھی ایک کتاب ہے جس میں فقہی باب بندی کے ساتھ ترجمےکے ساتھ قرآن مجید کی وہ تمام آیات جمع کردی گئی ہیں جو متنازعہ واختلافی مسائل کا شافی حل پیش کرتی ہیں ۔ اللہ تعالی سے دعا کہ وہ مؤلف کی اس کوشش کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے،اور تمام اہل اسلام کی ہدایت کا ذریعہ بنائے (آمین)(م۔ا)
قرآن مجیدایک کامل دستورِحیات اورانسانیت کوجینے کا ڈھنگ سکھاتا ہے ،قرآن صرف انہی کے لیے منہج ودستور بن سکتا ہے جو اس کے معانی ومطالب کوسمجھ سکیں اس کے معانی سے واقفیت صرفی ونحوی اعتبار سے قرآن کے جاننے وپر موقوف ہے ۔لغت عرب کے قواعد کو جانے بغیر اگر کوئی قرآن سمجھنےکی کوشش کرے گا تو بجائے ہدایت کےگمراہی اور کجروی کا شکار ہوسکتا ہے ۔ ایسی لغرشوں سے بچانے کے لیے علمائے عجم نے قرآن کے ترجمہ وتفسیر اور اعراب سےمتعلق متعدد کتابیں لکھی ہیں ۔زیرِنطرکتاب بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جسے ’’جامعه ام القریٰ‘‘مکہ مکرمہ کے معلم ڈاکٹر عبد اللہ عباس ندوی نے انگریزی دان طبقہ کے لیے عربی سے انگلش میں تصنیف کیا۔ پروفیسر ڈاکٹر عبد الرزاق (فاضل جامعہ ریاض) نے افادہ عام کے لیے اس کااردو ترجمہ کیا ہے ۔مترجم نے ترجمہ سلیس او رعام فہم بنانےکی حتی المقدور کوشش کی ہے ۔اس کتاب میں قرآن مجید کےکلمات والفاظ کی صرفی تصریف اور نحوی ترکیب کے ساتھ لغوی معنی کو بیان کیا گیا ہے ۔انگریزی متن کے بعض مختلف فیہ مقامات پرتر جمہ میں توضیحی