بعض لوگ سرسری طور پر حدیث کا مطالعہ کرتے ہیں اور جب انہیں کسی حدیث کے معنی سمجھ میں نہیں آتے تو وہ جھٹ سے اسے قرآن مجید کے کی خلاف یا دو صحیح احادیث کو متصادم قرار دے کر باطل ہونے کا فتوی دے دیتے ہیں،جو جہالت اور انکار حدیث کی سازش کا ہاتھ بٹانے کے مترادف ہے۔ایسا ہی کچھ طرز عمل سود سے متعلق صحیح مسلم کی دو صحیح احادیث کے ساتھ اختیار کیا گیا،اور احادیث سمجھ میں آنے کی وجہ سے ان کو باہم متصادم قرار دے دیا گیا۔(کتاب پر معترض کا نام موجود نہیں ہے)حالانکہ مسلم شریف کی صحت پر تمام اہل علم کا اتفاق ہےامام مسلم خود اپنی کتاب میں فرماتے ہیں۔''میں صحیح مسلم میں ہر وہ حدیث نہیں لکھتا جو میرے نزدیک صحیح نہیں ہے مسلم میں تو صرف وہ احادیث لکھیں ہے جس پر اجماع ہوچکا ہے ۔''اور پھر بظاہردو متعارض احادیث کو جمع کرنے کے طریقے بھی محدثین کے معروف ہیں۔لیکن ان معروف طریقوں کو چھوڑ کر سرے سے ہی حدیث کا انکار کر دینا اسلام کی خدمت ہر گز نہیں ہے۔زیر تبصرہ کتاب " صحیح مسلم میں بظاہر دو متعارض احادیث میں تطبیق " خادم حدیث مولانا محمد حسین میمن کی تصنیف ہے...
خدمت ِحدیث وسنت ایک عظیم الشان اور بابرکت کام ہے۔ جس میں ہر مسلمان کو کسی نہ کسی سطح پر ضرور حصہ ڈالنا چاہیے ،تاکہ اس کا شمار کل قیامت کےدن خدامِ سنت نبوی میں سے ہو۔اور یہ ایک ایسا اعزاز ہے کہ جس کی قدر وقیمت کااندازہ اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہونے پر ہی ہوسکتا ہے۔ احادیثِ رسول ﷺ کو محفوظ کرنے کے لیے کئی پہلوؤں اور اعتبارات سے اہل علم نے خدمات انجام دی ہیں۔ تدوینِ حدیث کا آغاز عہد نبوی سے ہوا او ر صحابہ وتابعین کے دور میں پروان چڑھا ۔ ائمہ محدثین کےدور میں خوب پھلا پھولا ۔مختلف ائمہ محدثین نے احادیث کے کئی مجموعے مرتب کئے۔محدثین کرام نے احادیث کی جمع وتدوین تک ہی اپنی مساعی کو محدود نہیں رکھا ،بلکہ فنی حیثیت سے ان کی جانچ پڑتال بھی کی ،اور اس کے اصول بھی مرتب فرمائے۔اس کے ساتھ ساتھ ہی انہوں نے کتب حدیث کو بھی مختلف طبقات میں تقسیم کر دیا اور اس کی خاص اصطلاحات مقرر کر دیں۔چنانچہ صحیحین ،سنن اربعہ،اصول خمسہ،اور صحاح ستہ وغیرہ اصطلاحات علماء کے ہاں معروف اور متداول چلی آ رہی ہیں۔ بعض نے کسی انداز سے تو بعض نے کسی اور انداز سے حدیث نبوی ﷺ کی خدمت کی۔ زیر تبصرہ...
اسلام ایک واحد دین ہے جو آج تک اپنی اصلی حالت میں برقرار ہے دیگر آسمانی کتب صحف آج تبدیل شدہ ہیں پچھلی امتوں نے اپنی کتابوں کے ساتھ جو روش اختیار کی وہ نہ بھولنے والا حادثہ ہے۔ قرآن مجید نے ان کی ناپاک کاوشوں کو کھول کھول کر بیان فرمایا ‘ اپنی کتاب میں تحریف‘مسائل گھڑنا‘ جھوٹے مسئلے بتا کر عامۃ الناس کو صراط مستقیم سے گمراہیوں کی گھٹا ٹوپ اندھیروں میں دھکیلنا‘اپنے ہاتھوں سے لکھ کر اسے اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کر دیتے تھے جیسا کہ اللہ رب العزت فرماتے ہیں’’ان لوگوں کے لیے ویل ہے جو اپنے ہاتھوں کی لکھی ہوئی کتاب کو اللہ کی طرف کا کہتے ہیں اور اس طرح دنیا کماتے ہیں ان کے ہاتھوں کی لکھائی کو اور ان کی کمائی کو ویل(ہلاکت)اور افسوس ہے۔‘‘ اور یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہیں کہ قرآن مجید اور احادیث نبویﷺ کے علاوہ باقی تمام مصحف آسمانی میں تحریف ورد وبدل ہوچکا ہے اور غیر مسلم خود اس بات کو تسلیم کرتے ہیں۔ لہذا جب انہوں نے اپنی کتب کو تحریف شدہ پایا تو انہوں نے اسلامی تعلیمات پر بھی تحریف اور ردوبدل کا الزام لگانا اور...
بعض احادیث ایسی ہیں جو دیکھنے میں متعا رض ہوتی ہےعام قاری کو سمجھنے میں مشکلات ہوتی ہے۔بعض لوگ سرسری طور پر احادیث کے مطالعہ کے بعد جب انہیں حدیث کے صحیح معنی آشکارا نہیں ہوتے تو وہ جھٹ سے اسے قرآن مجید کیخلاف یادو صحیح احادیثوں کو متصادم قرار دے کر باطل ہونے کا فتویٰ دیتے ہیں جو کہ جہالت اور انکار حدیث کی سازش میں ہاتھ بٹانے کے مترادف ہے۔ائمہ حدیث نے اس موضوع پر مستقل تصانیف لکھی ہیں اور تطبیق کے اصولوں کو واضح کیا ہے ۔ زیر نظر کتا ب ’’ احادیث متعارضہ اور ا ن کا حل ‘‘ مولانا محمد حسین میمن حفظہ اللہ کی تصنیف ہے انہو ں اس کتا ب میں دو بظاہر متضاد احادیث میں تطبیق دی ہے اور ثابت کیا ہےکہ کوئی بھی صحیح حدیث آپس میں اور صحیح حدیث قرآن مجید کے خلاف نہیں ہوتی یہ صرف اور صرف ذہنوں کا غمار اور پسماندہ سوچوں کا نتیجہ ہے۔یہ کتاب صحیح احادیث کی پاکیزہ تعلیمات کے درمیان ظاہری تعارض کےبہترین حل کا مستند ذخیرہ ہے۔(م۔ا)