چوتھی صدی ہجری کے نامور تاجدارِ حدیث امام دارقطنی ( (306 – 385جن کے تذکرے کے بغیر چوتھی صدی کی تاریخ نا مکمل رہتی ہے ۔ ان کا مکمل نام یہ ہے ابو الحسن علی بن عمر بن احمد بن مہدی بن مسعود بن النعمان بن دینار بن عبدللہ الدار قطنی البغدادی ہے، انہیں امام حافظ مجوِّد، شیخ الاسلام، محدث کے القاب سے یاد کیا جاتا ہے، ان کا تعلق بغداد کے محلہ دار قطن سے تھا جس کی وجہ سے انہیں الدارقطنی کہا جاتا ہے۔امام دارقطنی نے اپنے وطن کے علمی سرچشموں سے سیرابی حاصل کرنے کے بعد مختلف ممالک کا سفر کیا اور بڑے بڑے ائمہ کرام سے تعلیم حاصل کی جن میں ابی القاسم البغوی، یحیی بن محمد بن صاعد، ابی بکر بن ابی داود، ابی بکر النیسابوری، الحسین بن اسماعیل المحاملی، ابی العباس ابن عقدہ، اسماعیل الصفار، اور دیگر شامل ہیں۔امام دارقطنی ، علل حدیث اور رجالِ حدیث ، فقہ، اختلاف اور مغازی اور ایام الناس پر دسترس رکھتے تھے۔آپ کی امامت وثقاہت پر تمام محدثین کا اتفاق ہے۔حافظ عبد الغنی الازدی فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺکی حدیث پر اپنے وقت میں سب سے بہتر دسترس رکھنے والے تین افراد ہیں۔ ابن المدینی، موسی بن ہارون اور امام دارقطنی ۔امام دارقطنی کی تصانیف 80 سے زائد ہیں۔ 385 ھ میں ان کا انتقال ہوا اور بغداد کے قبرستان باب الدیر میں معروف الکرخی کی قبر کے نزدیک دفن ہوئے۔امام دارقطنی کی تصانیف میں سے ان کی مشہور زمانہ کتاب’’ سنن دارقطنی ‘‘ اپنی شان ومقام کےلحاظ سے جداگانہ مقام رکھتی ہے ۔اس میں احادیث کی تعداد 4835 ہے ۔ اس کتاب پر عربی زبان میں تشریح وتعلیق، تحقیق وتخریج کے کام تو ہوئے ہیں لیکن اس کا اردو زبان میں ترجمہ تشریح کا کام ابھی باقی تھا ۔اس کمی کو پورا کرنے کے لیے عزیز دوست محترم جناب حافظ فیض اللہ ناصر ﷾(فاضل جامعہ لاہور الاسلامیہ ،لاہور ) نے سنن دار قطنی کا سلیس اور رواں ترجمہ کرنے کی سعادت حاصل کی ہے ۔موصوف نے اس کتاب کا ترجمہ کرتے وقت مؤسسۃ الرسالۃ ،بیروت کا مطبوعہ نسخہ سامنے رکھا ہے جس کی تحقیق وتخریج کا کام محقق دوراں الشیخ شعیب الأرنؤوط نے کیا ہے ۔مترجم نے اس تحقیق وتخریج کو بھی اختصار کے ساتھ اس مترجم نسخے کی زینت بنادیا ہے ۔ جس سے اس کتاب کے علمی مقام اور افادیت میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ فاضل مترجم اس کتاب کے علاوہ بھی تقریبا نصف درجن کتب کےمترجم ومرتب ہیں۔جس میں امام شافعی کتاب مسندشافعی کاترجمہ بھی شامل ہے۔ ۔تصنیف وتالیف وترجمہ کے میدان میں موصوف کی حسن کارکردگی کے اعتراف میں ان کی مادر علمی جامعہ لاہورالاسلامیہ،لاہور نے2014ء کے آغاز میں انہیں اعزازی شیلڈ وسند سے نوازاہے ۔اللہ تعالیٰ ان کے علم وعمل اور زورِ قلم میں اضافہ فرمائے (آمین) (م۔ا)
عقیدۂ حیات مسیح یعنی حضرت عیسیٰ ابن مریم کا زندہ آسمان پر اٹھایا جانا اور ان کا قرب قیامت اس دنیا میں دوبارہ نازل ہونا مسلمانوں کا اجماعی عقیدہ ہے جوقرآن اوراحادیث سے منصوص ہے۔ حیات عیسیٰ کا منکر دائرۂ اسلام سے خارج ہے۔ اس عقیدہ کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ محدثین نے اپنی کتبِ حدیث میں ’’نزولِ عیسیٰ ابن مریم‘‘ کے عنوان سے مستقل ابواب قائم کیے ہیں۔ ہر دور میں اہل علم نے اس موضوع پر مستقل کتابیں لکھی ہیں۔ 1891ء میں مرزا قادیانی نے حیات مسیح کا انکار کیا اور اپنے نام نہاد الہام کی بنیاد پر وفات مسیح کا عقیدہ گھڑا اور خود مسیح موعود بن بیٹھا حالانکہ مرزا قادیانی نے جو پہلی کتاب ’’براہین احمدیہ‘‘ کے نام سے لکھی، اس میں قرآن کریم کے حوالہ سے حضرت عیسیٰ ابن مریم کے دوبارہ نازل ہونے کا ذکر کیا اور اس عقیدہ پر تقریباً 12 سال تک قائم بھی رہا۔ پھر یکایک اپنے ’’خاص الہام‘‘ کی بنیاد پر وفات مسیح کا اعلان کر دیا۔ اس نے وفات مسیح کے موضوع پر ’’فتح اسلام‘‘، ’’توضیح مرام‘‘ اور ’’ازالہ اوہام‘‘ کے نام سے کتابیں لکھیں جن میں قرآن کریم کی تیس آیات میں معنوی تحریف کر کے تحریر کیا کہ ان آیات سے وفات مسیح کا ثبوت ملتا ہے۔ مرزا قادیانی کے ہمعصر علمائے کرام نے مرزا قادیانی کی مذکورہ کتابوں کا مدلل جواب دیا۔ بعض اہل علم نے مرزا قادیانی کو چیلنج دیا کہ ان کی کتابوں میں دیے گئے دلائل کو توڑنے اور بعض مصنفین نے تو دلائل توڑنے کا جواب دینے والوں کو انعام دینے کا اعلان بھی کیا لیکن نہ تو مرزا قادیانی کو جواب دینے کی ہمت ہوئی اور نہ کسی قادیانی ہی نے انعامی چیلنج کو قبول کیا اور یہ چیلنج آج بھی برقرار ہے۔مرزا قایانی کے رد میں لکھی جانے والی کتابوں میں’’غایت المرام‘‘ اور ’’تائید الاسلام‘‘ نامی کتابیں قابل ذکر ہیں جو مرزا قادیانی کی زندگی میں ہی ’’رحمۃ للعالمینﷺ‘‘ کے مصنف قاضی محمد سلیمان سلمان منصوریؒ نے رقم فرمائیں اور یہ کتب دراصل مرزا قادیانی کی تصانیف فتح الاسلام، توضیح مرام اور ازالہ اوہام کا مدلل جواب تھیں۔ انھوں نے مرزا قادیانی کے پاس اپنی مذکورہ کتابیں اس خلوص نیت سے بھیجیں کہ اس کی اصلاح ہو سکے۔ قاضی صاحب مرحوم نے مناظرہ بازی کے بجائے علمی مکالمہ کا راستہ اپنایا۔ کتاب کے ساتھ ایک پیش گوئی بھی لکھ کر روانہ کی۔ انھوں نے لکھا:’’چونکہ آپ پیش گوئیاں بہت کرتے ہیں اس لیے بہ توفیق الٰہی، میں بھی تین باتیں لکھ دیتا ہوں:(1)آپ کو حج نصیب نہیں ہوگا۔(2) آپ سے اس کتاب کا جواب نہ بن پڑے گا۔(3) آپ کی موت میری موت سے قبل ہوگی۔‘‘ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ قاضی صاحب کتاب ’’غایت المرام‘‘ کی اشاعت کے بعد مرزا قادیانی پندرہ سال زندہ رہا لیکن جواب لکھنے کی ہمت نہیں ہوئی اور نہ حج ہی نصیب ہوا اور مرزا کی موت بھی پہلے واقع ہو گئی۔ زیر تبصرہ ’’ تائید الاسلام‘‘برصغیر نامور مؤرخ وسیرت نگار علامہ قاضی محمد سیلمان منصوپوری کی تصنیف ہے ۔قاضی صاحب کی یہ تصنیف 1998ء میں منصۂ شہود پر آئی تھی۔ اس کتاب میں انہوں نے مرزا غلام احمد قادیانی کے عقائد باطلہ کا ناقدانہ جائزہ لیتے ہوئے مرزا غلام احمد قادیانی کے دعوی مسیح موعود اور مہدی کی حقیقت کو واضح کیا ہے۔ ابتدائے کتاب میں ان تیس قرآنی آیات کی صحیح تفسیر پیش کی ہے جن سے استدلال کرتے ہوئے مرزا نے سید نا عیسیٰ کووفات یافتہ ثابت کیا تھا اور یہ لکھا تھاکہ اب وہ دنیامیں دوبارہ نہیں آئیں گے۔ قاضی صاحب نے مرزا غلام احمد قادیانی کی ایک ایک عبارت کو
دینی مدارس کے طلباء، اساتذہ ،علمائے کرام، مشائخ عظام اصحاب صفہ او رعلوم نبویﷺ کے وارث اور امین ہیں ۔ یہی مدارس دینِ اسلام کے وہ قلعے ہیں جہاں سے قال اللہ قال الرسول ﷺکی پاکیزہ صدائیں دن رات گونجتی ہیں۔ روزِ اول سے دینِ اسلام کا تعلق تعلیم وتعلم اور درس وتدریس سے رہا ہے۔ نبی کریم ﷺ پر سب سے پہلے جو وحی نازل ہوئی وہ تعلیم سے متعلق تھی۔ اس وحی کے ساتھ ہی رسول اللہﷺ نے ایک صحابی ارقم بن ابی ارقم کے گھر میں دار ارقم کے نام سے ایک مخفی مدرسہ قائم کیا۔ صبح و شام کے اوقات میں صحابہ کرام وہاں مخفی انداز میں آتے اور قرآن مجید کی تعلیم حاصل کرتے تھے یہ اسلام کی سب سے پہلی درس گاہ تھی۔ ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں جب اسلامی ریاست کاقیام عمل میں آیا تو وہاں سب سے پہلے آپﷺ نے مسجد تعمیر کی جو مسجد نبوی کے نام سے موسوم ہے۔ اس کے ایک جانب آپ نے ایک چبوترا(صفہ) بھی تعمیر کرایا۔ یہاں بیٹھ کر آپﷺ مقامی و بیرونی صحابہ کرام کو قرآن مجید اور دین کی تعلیم دیتے تھے۔ یہ اسلام کاپہلا باقاعدہ اقامتی مدرسہ تھا جو تاریخ میں اصحاب صفہ کے نام سے معروف ہے۔ یہاں سے مسجد اور مدرسہ کا ایسا تلازمہ قائم ہواکہ پھر جہاں جہاں مسجد یں قائم ہوتی گئیں وہاں ساتھ ہی مدرسے بھی قائم ہوتے گئے۔ اسلامی تاریخ ایسے مدارس اور حلقات ِحدیث سے بھری پڑی ہے کہ غلبۂ اسلام، ترویج دین اور تعلیمات اسلامیہ کو عام کرنے میں جن کی خدمات نے نمایاں کردار ادا کیا۔ برصغیر پاک وہند میں بھی اسلام کی ترویج اور تبلیغ کے سلسلے میں مدارس دینیہ اور مَسندوں کی خدمات روزِ روشن کی طرح عیاں ہیں کہ جہاں سے وہ شخصیا ت پیدا ہوئیں جنہوں نے معاشرے کی قیادت کرتے ہوئے اسلامی تعلیمات کو عام کیا اور یہ شخصیات عوام الناس کے لیے منارہ نور کی حیثیت رکھتی ہیں۔ پاک ہند میں سلفی فکر ومنہج کے حامل مدارس کی اشاعت دین، دعوت وتبلیغ، تصنیف وتالیف، شروح حدیث، درس وتدریس، دینی صحافت میں بڑی نمایاں خدمات ہیں اوران کے اثرات پورے عالم اسلام میں موجود ہیں۔ ان سلفی مدارس میں مسند سید نذیر حسین دہلوی دارالحدیث رحمانیہ، دہلی، جامعہ سلفیہ، بنارس، جامعۃ امام ابن تیمیہ، بہار ہند،جامعہ سلفیہ ،فیصل آباد، جامعہ محمدیہ، گوجرانوالہ، مدرسہ رحمانیہ ؍جامعہ لاہور الاسلامیہ، لاہور،جامعہ اہل حدیث، لاہور، جامعہ ستاریہ اسلامیہ، جامعہ ابی بکر ،کراچی قابل ذکر ہیں۔ ان مدارس کے فاضلین وفیض یافتگان کا شمار عالم اسلام کی نامور شخصیات میں ہوتا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’تاریخ مرکز دار العلوم ‘‘ جامعہ سلفیہ بنارس کے قیام، احوال خدمات پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کو شیخ محفوظ الرحمٰن فیضی﷾ نے مرتب کیا ہے ۔یہ کتاب تین حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلے حصہ میں آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس کی مرکزی دار العلوم کے قیام کی تجویز اورتعمیر کے معلومات درج ہیں۔ دوسرے حصہ 1963ء میں مرکزی دارالعلوم کے سنگ بنیاد وتاسیس کی پر مسرت کی مختصر روداد اور تیسرا حصہ مارچ 1066ءمیں مرکزی دار العلوم کے تعلیمی افتتاح کی پروقار تقریب کی مختصر تفصیل پر مشتمل ہے۔ اللہ تعالیٰ عالم اسلام کی ان درس گاہوں کوقائم دائم رکھے۔ (آمین)
"ریاض الصالحین" ساتویں صدی ہجری کے امام ابو زکریا یحییٰ بن شرف النووی کی ایسی عظیم الشان تالیف ہے کئی صدیوں سے یہ مجموعہ حدیث سے امت مسلمہ میں مقبول ہے ۔اس میں عام آدمی کودرپیش تمام مسائل کا حل قرآن کریم کی آیات اور منتخب صحیح احادیث کی روشنی میں پیش کیا گیا ہے عبادات سے لے کر معاملات تک اور معاشرت سے لے کر سیاسیات تک، زندگی کے تمام اہم شعبوں کے لیے قرآن و حدیث سے جس طرح رہنمائی مہیا فرمائی گئی ہے اس نے اسے اسلامی لٹریچر میں ایک نمایاں اور ممتاز مقام حاصل کیا ہے اور اسی وجہ سے اسے ہر طبقے میں یکساں مقبولیت حاصل ہے۔ یہ ایک بہترین تبلیغی نصاب ہے جو قرآنی آیات اور صحیح احادیث سے مزین ہے۔ ضعیف و موضوع روایات اور من گھڑت قصے کہانیوں سے پاک جو اس لائق ہے کہ عوام اسے حرز جاں اور آویزۂ گوش بنائیں۔ یہ ایک ضابطہ حیات ہے جس کی روشنی میں ایک مسلمان اپنے شب و روز کے معمولات مرتب کر سکتا ہے اور ایک ایسا آئینہ ہے جس کو سامنے رکھ کر اپنے اخلاق و کردار کی کوتاہیوں کو دور کیا جا سکتا ہے۔اس کتاب کی اسی اہمیت کی وجہ سےعربی زبان میں اس کی متعدد شروح لکھی گئی ہیں اور اردو زبان میں بھی اس کے متعدد تراجم کئے گئے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ر یاض الصالحین ‘‘وطن عزیز کے معروف عالم دین استاذ الاساتذہ مصنف ومترجم کتب کثیرہ مولانا محمد صادق خلیل (سابق استاد جامعہ لاہور اسلامیہ ،لاہور ) کے ترجمہ وحواشی پر مشتمل ہے ۔ مولانا صادق خلیل نے یہ ترجمہ تقریبا چالیس سال قبل اس وقت کیا کہ جب آپ جامعہ تدریس القرآن والحدیث ،راولپنڈی میں بطور شیخ الحدیث خدمات انجام دے رہے تھے ۔موصوف نے ریاض الصالحین کا مفید ترجمہ وحواشی تحریر کرنے کے علاوہ ایک علمی مقدمہ بھی لکھا جو کتاب ہذامیں شامل اشاعت ہے ۔اللہ تعالیٰ مرحوم کی خدمت حدیث کی کاوشوں کو شرف قبولیت سے نوازے ۔ (آمین) (م۔ا)
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات اور دستور زندگی ہے۔ اس کی اپنی تہذیب اور اپنی ثقافت ہے جو دنیا کی ساری تہذیبوں اور ثقافتوں سے منفرد اور ممتاز حیثیت کی حامل ہے۔آج مسلمانان عالم کو کسی بھی احساس محرومی میں مبتلاہوئے بغیر اس سچائی ودیانت پر ڈٹ جاناچاہئے کہ درحقیقت اسلامی تہذیب اور قرآن و سنت کے اصولوں سے ہی دنیاکی دیگر اقوام کی تہذیبوں کے چشمے پھوٹے ہیں۔ جبکہ صورتحال یہ ہے کہ مغربی و مشرقی یورپی ممالک اس حقیقت اور سچائی کو تسلیم ہی نہیں کرتے ہیں اور الٹا وہ اس حقیقت سے کیوں منہ چراتے ہیں۔تہذیب عربی زبان کا لفظ ہے جو اسم بھی ہے اور شائستگی اور خوش اخلاقی جیسے انتہائی خوبصورت لفظوں کے مکمل معنوں کے علاوہ بھی کسی درخت یا پودے کو کاٹنا چھاٹنا تراشنا تا کہ اس میں نئی شاخیں نکلیں اور نئی کونپلیں پھوٹیں جیسے معنوںمیں بھی لیاجاتاہے ا ور اسی طرح انگریزی زبان میں تہذیب کے لئے لفظ”کلچر“ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ میرے خیال سے آج دنیا کو اس سے بھی انکار نہیں کرناچاہے کہ ”بیشک اسلامی تہذیب و تمدن سے ہی دنیا کی تہذیبوں کے چشمے پھوٹے ہیں جس نے دنیاکو ترقی و خوشحالی اور معیشت اور سیاست کے ان راستوں پر گامزن کیا ہے کہ جس پر قائم رہ کر انسانی فلاح کے تمام دروازے کھلتے چلے جاتے ہیں۔ اسلام ہی وہ عظیم الشان مذہب ہے جو پاکیزہ نسل اور صالح معاشرے کے قیام کے راہنما اصول مہیا کرتا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب" پاکیزہ نسل اور صالح معاشرہ کیوں اور کیسے؟" محترم حافظ محمد ساجد اسید ندوی صاحب کی تصنیف ہے، جس میں انہوں نے اسلام کے عفت وعصمت پر مبنی روشن اصولوں کا تذکرہ کیا ہے۔ ا للہ تعالی ان کی اس خدمت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔ آمین(راسخ)
قرآن مجید اللہ تعالی کی طرف سے نازل کی جانے والی آسمانی کتب میں سے سب سے آخری کتاب ہے۔ جسے اللہ تعالی نے امت کی آسانی کی غرض سے قرآن مجید کو سات حروف پر نازل فرمایا ہے۔ یہ تمام کے تمام ساتوں حروف عین قرآن اور منزل من اللہ ہیں۔ان تمام پرایمان لانا ضروری اور واجب ہے،اوران کا انکار کرنا کفر اور قرآن کا انکار ہے۔اس وقت دنیا بھر میں سبعہ احرف پر مبنی دس قراءات اور بیس روایات پڑھی اور پڑھائی جارہی ہیں۔اور ان میں سے چار روایات (روایت قالون،روایت ورش،روایت دوری اور روایت حفص)ایسی ہیں جو دنیا کے کسی نہ کسی حصے میں باقاعدہ رائج اور متداول ہیں،عالم اسلام کے ایک بڑے حصے پر قراءت امام عاصم بروایت حفص رائج ہے، جبکہ مغرب ،الجزائر ،اندلس اور شمالی افریقہ میں قراءت امام نافع بروایت ورش، لیبیا ،تیونس اور متعدد افریقی ممالک میں روایت قالون عن نافع ،مصر، صومالیہ، سوڈان اور حضر موت میں روایت دوری عن امام ابو عمرو بصری رائج اور متداول ہے ۔قراءات قرآنیہ کے موضوع پر اب تک متعدد کتب لکھی جا چکی ہیں جن میں علم قراءات کے اصول وضوابط کو بیان کیا گیا ہے، لیکن قراءات قرآنیہ کی تاریخ کے حوالے کوئی مستقل کتاب موجود نہیں تھی۔ زیر نظر کتاب ''قراءات قرآنیہ، تعارف وتاریخ '' محترم ڈاکٹر عبد الھادی الفضلی صاحب کی تصنیف ہے جس کا اردو ترجمہ کرنے کی سعادت راقم (قاری محمد مصطفی راسخ، نائب مدیر مجلس التحقیق الاسلامی، لاہور) کے حصے میں آئی ہے۔ مولف موصوف نے اس کتاب کے پہلے باب میں قراءات قرآنیہ کے سولہ تاریخی مراحل کا تذکرہ کیا ہے، اس کے بعد قراءات کی تعریف،قراءات کے مصادر، اختلاف قراءات کے اسباب، قراءات میں اختیار، قراءات کے معیار اور قراءات وتجوید کا فرق بیان کیا ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ قراء ات قرآنیہ کے حوالے سے سر انجام دی گئی مولف اور مترجم کی ان کی ان خدمات جلیلہ کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔ آمین(راسخ)
اللہ تعالی کی رسی یعنی قرآن کریم کے ساتھ انسان کا تعلق اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتا جب تک قرآن کریم کی تشریح وتفسیر رسول اللہ ﷺ کی سنت ،حدیث یعنی آپ کے طریقہ سے نہ ہو اور آپ ﷺ کےطریقہ کےساتھ وابستہ ہونا اس وقت تک ناممکن ہے جب تک اس علم پر عمل نہ کیا جائے ۔کتبِ حدیث کے مجموعات میں سے ایک مجموعۂ حدیث ’’مشکاۃ المصابیح‘‘ کے نام سے معروف ہے ۔مشکاۃ المصابیح احادیث نبویہ ﷺ کا انمول ذخیرہ ہے جسے امام بغوی نے ’مصابیح السنۃ‘ کے نام سے حدیث کی مشہور کتابوں صحاح ستہ، مؤطا امام مالک، مسند امام احمد ، سنن بیہقی اور دیگر کتب احادیث سے منتخب کیا ہے۔ پھر علامہ خطیب تبریزی نے ’مصابیح السنۃ‘ کی تکمیل کرتے ہوئے اس میں کچھ اضافہ کیا۔ اور راوی حدیث صحابی کا نام اور حدیث کی تخریج کی اور اس کو تین فصول میں تقسیم کیا ۔ اس کتاب کو تالیف کے دور سے ہی شرق وغرب کے عوام وخواص دونوں میں یکساں طور مقبولیت حاصل ہے۔مصنفین ، علماء وطلبا ، واعظین وخطباء سب ہی اس کتاب سےاستفادہ کرتےچلے آرہےہیں۔یہ کتاب اپنی غایت درجہ علمی افادیت کے پیش نظر برصغیر پاک وہند کےدینی مدارس کےقدیم نصاب درس میں شامل چلی آرہی ہے ۔اسی اہمیت کے پیش نظر کئی اہل علم نے عربی ،اردو زبان میں شروحات اور حواشی لکھے ہیں۔اوراس پر تحقیق وتخریج کا کام بھی کیا ہے حتیٰ کہ خود مصنف کے استاذ محترم نے بھی اپنے لائق شاگرد کی تالیف کی ایک جامع شرح قلمبند فرمائی۔ یہ اعزاز بہت ہی کم لوگوں حاصل ہوا ہوگا۔’’مشکوٰۃ المصابیح‘‘ دراصل دوکتابوں کا مجموعہ ہے ایک کا نام مصابیح السنہ اور دوسری کا نام مشکوٰۃ ہے۔کتبِ حدیث کےمجموعات میں اس کا نام سر فہرست ہے ۔یہ مجموعہ جہاں دینی مدارس کے نصاب میں شامل ہے تووہیں یہ عام پرھے لکھے افراد کےلیے بھی روشنی کامینارہ ہے۔ اصولی طور پر اگر اس کی اہمیت کودیکھا جائے تواحادیث کا یہ ایسا ذخیرہ ہے کہ جوہر ایک مسلمان گھرانے کی ضرورت ہے کیونکہ اس میں دین ِاسلام کےتقریبا ہر قسم کے مسائل درج ہیں کہ جن کو سمجھنا اور ان پر عمل کرنا ہر مسلمان کادینی فریضہ ہے ۔مدارس دینیہ میں مشکوٰۃ عربی شروح میں سے مرعاۃ المفاتیح اور مرقاۃ المفاتیح زیادہ مقبول ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب علی بن سلطان محمد القاری معروف ملا علی کی مشکوٰۃ المصابیح کی عربی شرح مرقاۃ المفاتیح کا سلیس اردو ترجمہ ہے۔یہ شرح ملا علی قاری کے علم وفکر کا عظیم مجموعہ اور مشکوٰۃ المصابیح کی دیگر شروح میں ممتاز ہے۔مرقاۃ کا یہ اولین اردو ترجمہ ہے۔مترجمین نے ترجمہ کی سلاست اور روانی کو برقرار رکھتے ہوئے ترجمہ میں ہم آہنگی اور یکسانیت کاخاص اہتمام کیا ہے ۔اور احادیث کی مکمل تخریج کابھی اہتمام کیا ہے ۔اس مبسو ط عربی شرح کا ترجمہ جید علماء کی کی ایک ٹیم نے کیا ہے۔جس سے مشکاۃ المصابیح کے مدرسین اور طلباء کے لیے آسانی ہوگئ ہے ۔یہ ترجمہ گیارہ ضخیم مجلدات پر مشتمل ہے۔ اللہ تعالیٰ مترجمین وناشرین کی اس اہم کاوش کو شرف قبولیت سے نوازے (آمین) (م۔ا)
امام محمد بن اسماعیل بخاری کی شخصیت اور ان کی صحیح بخاری محتاجِ تعارف نہیں۔ آپ امیر االمؤمنین فی الحدیث امام المحدثین کے القاب سے ملقب تھے۔ ان کے علم و فضل ، تبحرعلمی اور جامع الکمالات ہونے کا محدثین عظام او رارباب ِسیر نے اعتراف کیا ہے امام بخاری ۱۳ شوال ۱۹۴ھ ، بروز جمعہ بخارا میں پیدا ہوئے۔ دس سال کی عمر ہوئی تو مکتب کا رخ کیا۔ بخارا کے کبار محدثین سے استفادہ کیا۔ جن میں امام محمد بن سلام بیکندی، امام عبداللہ بن محمد بن عبداللہ المسندی، امام محمد بن یوسف بیکندی زیادہ معروف ہیں۔اسی دوران انہوں نے امام عبداللہ بن مبارک امام وکیع بن جراح کی کتابوں کو ازبر کیا اور فقہ اہل الرائے پر پوری دسترس حاصل کر لی۔ طلبِ حدیث کی خاطر حجاز، بصرہ،بغداد شام، مصر، خراسان، مرو بلخ،ہرات،نیشا پور کا سفر کیا ۔ ان کے حفظ و ضبط اور معرفتِ حدیث کا چرچا ہونے لگا۔ ان کے علمی کارناموںم میں سب سے بڑا کارنامہ صحیح بخاری کی تالیف ہے جس کے بارے میں علمائے اسلام کا متفقہ فیصلہ ہے کہ قرآن کریم کے بعد کتب ِحدیث میں صحیح ترین کتاب صحیح بخاری ہے ۔ فن ِحدیث میں اس کتاب کی نظیر نہیں پائی جاتی آپ نے سولہ سال کے طویل عرصہ میں 6 لاکھ احادیث سے اس کا انتخاب کیا اور اس کتاب کے ابواب کی ترتیب روضۃ من ریاض الجنۃ میں بیٹھ کر فرمائی اور اس میں صرف صحیح احادیث کو شامل کیا۔ امام بخاری کی صحیح بخاری کے علاوہ بھی متعد د تصانیف ہیں۔حدیث نبوی کے ذخائر میں صحیح بخاری کو گوناگوں فوائد اورمنفرد خصوصیات کی بنا پر اولین مقام اور اصح الکتب بعد کتاب الله کا اعزاز حاصل ہے ۔بلاشبہ قرآن مجید کےبعد کسی اور کتاب کو یہ مقام حاصل نہیں ہوا ۔ صحیح بخاری کو اپنے زمانہ تدوین سے لے کر ہردور میں یکساں مقبولیت حاصل رہی ۔ائمہ معاصرین اور متاخرین نے صحیح بخاری کی اسانید ومتون کی تنقید وتحقیق وتفتیش کرنے کے بعد اسے شرف ِقبولیت سےنوازا اوراس کی صحت پر اجماع کیا ۔ اسی شہرت ومقبولیت کی بناپر ہر دور میں بے شماراہل علم اور ائمہ حدیث ننے مختلف انداز میں صحیح بخاری کی شروحات لکھی ہیں ان میں فتح الباری از ابن حافظ ابن حجر عسقلانی کو امتیازی مقام حاصل ہے ۔اوربعض اہل علم تراجم ابواب ، امام بخاری کااجتہادوغیرہ جیسے موضوعات کو زیر بحث لائے ہیں ۔اور بعض نے صحیح بخاری کا اختصار بھی کیا ہے ۔ زیر تبصرہ کتاب’’ مختصرصحیح بخاری ‘‘ نویں صدی ہجری کے معروف عالم امام زبیدی کا صحیح بخاری کا مرتب کردہ اختصار’’ التجرید الصریح لاحادیث الجامع الصحیح‘‘ کا اردو ترجمہ ہے ۔یہ کتاب یقیناً ان لوگوں کے لیے انمول تحفہ ہے جو علم کا ذوق تورکھتے ہیں لیکن وقت کی قلت کے پیش نظر ان کےذوق کی بھرپور تسکین نہیں ہوپاتی۔کیونکہ اس میں صحیح بخاری کے اختصار کے ساتھ ساتھ جامعیت کا بھی لحاظ رکھا گیا ہے۔اس مختصر صحیح بخاری کا ترجمہ برصغیر پاک وہند کے معروف عالم دین مولانا محمد داؤد راز دہلوی کا ہے جس کی تصحیح اور تخریج مکتبہ اسلامیہ کے ریسرچ اسکالرز نےبڑی مہارت کی ہے نیز شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد﷾ کی نظرثانی اور اس پر جامع مقدمہ تحریر کرنے اور شیخ احمد زھوۃ ،شیخ احمد عنایۃ کی تخریج سے کتاب کی افادیت میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔اللہ تعالیٰ تمام کی کاوشوں کو قبول فرمائے۔ (آمین) (م۔ا)
اللہ تعالی نے جن وانس کو صر ف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے ۔جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاریات:56) ’’میں نے جنوں اور انسانوں کو محض اس لیے پیدا کیا وہ صرف میری عبادت کریں‘‘ او ر عبادت کے لیے اللہ تعالیٰ نے زندگی کا کو ئی خاص زمانہ یا سال کا کوئی مہینہ یا ہفتے کا کو ئی خاص دن یا کوئی خاص رات متعین نہیں کی کہ بس اسی میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کی جائے اور باقی زمانہ عبادت سے غفلت میں گزار دیا جائے بلکہ انسان کی تخلیق کا اصل مقصد ہی یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے۔ سنِ بلوغ سے لے کر زندگی کے آخری دم تک اسے ہر لمحہ عبادت میں گزارنا چاہیے۔ لیکن اس وقت مسلمانوں کی اکثریت اللہ تعالیٰ کی عبادت سے غافل ہے اور بعض مسلمانوں نے سال کے مختلف مہینوں میں صرف مخصوص دنوں کو ہی عبادت کے لیے خاص کررکھا ہے اور ان میں طرح طرح کی عبادات کو دین میں شامل کر رکھا ہے جن کا کتاب وسنت سے کوئی ثبوت نہیں ہے۔ اور جس کا ثبوت کتاب اللہ اور سنت رسولﷺ سے نہ ملتا ہو وہ بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے بدعت اور شرک ایسے جرم ہیں جو توبہ کے بغیر معاف نہیں ہوتے۔ شرک تواس لیے کہ مشرک اللہ کے علاوہ کسی اور کو مالک الملک کی وحدانیت کے برابر لانے کی ناکام کوشش کرتا ہے اور بدعت اس لیے کہ بدعتی اپنے عمل سے یہ تاثر دیتا ہے کہ دین نامکمل تھا اور اس نے دین میں یہ اضافہ کر کے اسے مکمل کیا ہے۔ یعنی شریعت سازی کی مساعی ناتمام کادوسرا نام بدعت ہے۔ اس وقت بدعات وخرافات اور علماء سوء نے پورے دین کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ وقت کے راہبوں ،صوفیوں، نفس پرستوں اور نام نہاد دعوتِ اسلامی کے دعوے داروں نے قال اللہ و قال الرسول کے مقابلے میں اپنے خود ساختہ افکار و خیالات اور طرح طرح کی بدعات وخرافات نے اسلام کے صاف وشفاف چہرے کو داغدار بنا دیا ہے جس سے اسلام کی اصل شکل گم ہوتی جارہی ہے۔ اور مسلمانوں کی اکثریت ان بدعات کو عین اسلام سمجھتی ہے۔ دن کی بدعات الگ ہیں، ہفتے کی بدعات الگ، مہینے کی بدعات الگ، عبادات کی بدعات الگ، ولادت اور فوتگی کے موقع پر بدعات الگ غرض کہ ہر ہر موقع کی بدعات الگ الگ ایجاد کررکھی ہیں۔ انہی بدعات میں سے معراج کی رات کی بدعات، ربیع الاول میں ودلات رسولﷺ کے سلسلے میں کی جانے بدعات اور ماہ شعبان میں شب برات کے سلسلے میں من گھڑت موضوع احادیث کو سامنے رکھتے ہوئے کی جانے والی بدعات ہیں۔ بدعات وخرافات کی تردید اور اتباع سنت کو اجاگر کرنے کے لیے ہر دور میں اہل علم نے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ زیر نظر کتابچہ ’’بدعات سے گریز کیجئے‘‘ مفتی دیارسعودی عرب ورئیس ادارہ بحوث علمیہ شیخ ابن باز کےرد بدعات کے موضوع پر ایک عربی رسالے التحذیر من البدع کا اردو ترجمہ ہے شیخ نے اس کتابچہ میں جشن عید میلاد النبی، جشن شب معراج، جشن شب برات(ماہ شعبان کی پندرہویں رات، خادم مسجدنبوی شیخ احمد کےخواب کی حقیقت کا آیات قرآنی اوراحادیث نبویہ کی روشنی میں جائزہ لیا ہے اور ثابت کیا کہ ان کا قرآن وحدیث سے کوئی ثبوت نہیں یہ ساری بدعات ہیں جو گمراہی و ضلالت پر مبنی ہیں۔ اللہ تعالیٰ شیخ مرحوم اور مترجم کی کاوش کو قبول فرمائے اور اس کتابچہ کو عوام الناس کی اصلاح کا ذریعہ بنائے۔ آمین( م۔ا)
کسی آدمی کی وہ بات ماننا،جس کی نص حجت ِشریعہ،قرآن و حدیث میں نہ ہو،نہ ہی اُس پر اجماع ہو اور نہ وہ مسئلہ اجتہادی ہو تقلید کہلاتا ہے ۔ تقلید اورعمل بالحدیث کے مباحث صدیوں پرانے ہیں ۔زمانہ قدیم سے اہل رائے اور ہل الحدیث باہمی رسہ کشی کی بنیاد ’’ تقلید‘‘ رہی ہے موجودہ دور میں بھی عوام وخواص کے درمیان مسئلہ تقلید ہی موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔ حالانکہ گزشتہ چند ہائیوں میں تقلیدی رجحانات کے علاوہ جذبۂ اطاعت کو بھی قدرے فروغ حاصل ہوا ہے ۔ امت کا در د رکھنے والے مصلحین نے اس موضوع پر سیر حاصل بحثیں کی ہیں ۔اور کئی کتب تصنیف کیں ہیں ۔ زیرتبصرہ کتا ب’’اہل حدیث اوراہل تقلید‘‘ مفسر قرآن حافظ صلاح الدین یوسف ﷾ کے رد تقلید کے موضوع اگست 1937ء تافروری 1974ء سولہ اقساط میں ہفت روزہ الاعتصام میں شائع ہونے والے مضامین کی کتابی صورت ہے ۔ان مضامین کی افادیت اورکئی اہل علم کےاصرار پر 1976ء میں شارح سنن نسائی شیخ الحدیث مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی نے ان مضامین کو مرتب کروا کر کتابی صورت میں شائع کیا ۔اس مختصر سی کتاب میں مصنف کتاب نے اہل حدیث اور اہل تقلید کے نقطۂ نظر کے مابین فرق کی خوب توضیح کی ہے اور جماعت اہل حدیث اور مسلک اہل حدیث پر بے سروپا الزامات کی حقیقت کو بھی خو ب آشکار ا کیا ہے اور اہل حدیث اور مسلک اہل حدیث پر بعض اعتراضات کا دلائل کے ساتھ تنقیدی جائزہ پیش کیا ہے ۔ ۔(م۔ا)
صحابہ کرام اور ہل بیت کی عظمت سے کون انکار کرسکتاہے۔یہ وہی پاک باز ہستیاں ہیں جن کی وساطت سے دین ہم تک پہنچا۔اہل بیت سے محبت رکھنا جز و ایمان ہے اس لیے کہ اس مسئلہ کی بڑی اہمیت ہے ا ہل علم نے اس مسئلہ پر مستقل رسائل تصنیف کیے ہیں جس میں انہوں نے اس مسئلہ کی اہمیت کو بیان کیا ہے چنانچہ اہل السنہ کے نزدیک فرمان نبویﷺ کے مطابق اہل بیت سے محبت رکھنا جزو ایما ن ہے اور کسی طرح کے قول وفعل سے ان کوایذا دینا حرام ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’اہل بیت کے بارے میں شیعہ کا موقف ‘‘علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید کی تصنیف ہے۔ اس کتاب میں شیعہ کے اہل بیت کے بارے میں معتقدات کو بیان کیاگیا ہے۔ اور اس حقیقت کوبھی آشکارا کیاگیا ہے کہ شیعہ بظاہر سیدنا علی سے گہری عقیدت ومحبت رکھنے والے ہیں لیکن باطن میں وہ ان کے دشمن ہیں۔ یہ کتاب علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید کی شیعہ کے متعلق ایک چشم کشا تحریر کی تلخیص ہے۔ کتاب کا نام ’’اہل بیت کے بارے میں شیعہ کا موقف‘‘ ادارۃ دعوۃ الاسلام، انڈیا کی طرف سے تجویز کردہ ہے۔ (م۔ا)
دنیا بھر کے ایک ارب سے زائد مسلمانوں کے لئے نیو ورلڈ آرڈر جنم لینے سے پہلے ہی ختم ہو چکا ہے۔بیسویں صدی نے بہت سے رہنماؤں کو ایک نئے عالمی نظام کے بارے میں باتیں کرتے ہوئے دیکھا۔پہلی جنگ عظیم کے بعد امریکی صدر وڈروولسن نے مستقبل کے عالمی نطام کے موضوع پر مباحثے مین جان ڈالنے کی کوشش کی۔انہوں نے ایک ایسی دنیا کا خواب دیکھا جس میں کچھ اصولوں اور تسلیم شدہ آفاقی قدروں کی حکمرانی کا تصور تھا۔یہ خواب مجلس اقوام کی ناقص ساخت اور اس کے فوری خاتمے کے ساتھ بکھر گیا۔دنیا نہ ایک نئی جنگ سے بچ سکی اور نہ جمہوریت ہی محفوظ رہی بلکہ دنیا دائیں اور بائیں بازو کی کلیت پسندی کے نرغے میں آگئی۔دوسری جنگ عظیم کے بعد ایک بار پھر نئی امیدیں پروان چڑھنے لگیں۔اقوام متحدہ کی بنیادرکھی گئی اور ایک نئے عہد کے بارے میں باتیں ہونے لگیں۔مگر بہت جلد ہی یہ امیدیں بھی خاک میں مل گئیں اور نسل انسانی تباہ کن سرد جنگ کے دور میں داخل ہو گئی۔مغرب کو اسلام سے کوئی خطرہ نہیں ہے لیکن مغرب اسلام کو سب سے بڑے خطرے کے طور پر پیش کرتا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب" اسلامی تحریک درپیش چیلنج"محترم پروفیسر خورشید احمد صاحب کی تصنیف ہے جس میں انہوں نے اسی منظر نامے کو پیش کیا ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف موصوف کی اس محنت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
مولانا عبد الغفار حسن رحمانی عمر پوری ، خانوادہ عمر پور، مظفر نگر یو پی سے تعلق رکھنے والے معروف محدث تھے ۔آپ ہندوستان ، پاکستان اور سعودی عرب کی معروف جامعات سے منسلک رہے ۔ آپ کے تلامذہ میں دنیا بھر کے معروف علمائے دین شامل ہیں، اسی لیے آپ کو بجا طور پر استاذالاساتذہ کہا جاتا ہے۔آپ کے بیٹے ڈاکٹر صہیب حسن اور ڈاکٹر سہیل حسن سعودی جامعات سے تعلیم یافتہ ہیں اور صاحب تحریر وتصنیف علمی بصیرت کے حامل ہیں اور ان کاشمارہ جید علماء اور سکالرز میں ہوتا ہے ۔ڈاکٹر سہیل حسن ﷾ تو اسلامی یونیورسٹی میں عرصہ دراز سے خدمات انجام دے رہے او راس وقت اعلیٰ عہدٰے پر فائز ہیں۔ اور ان کے برادر اکبر ڈاکٹر صہیب حسن ﷾ نے جب مدینہ یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کی توانہیں یونیورسٹی کی طرف سے برطانیہ میں مبعوث کردیا گیا۔ جہاں وتقریباً عرصہ 36 سے برطانیہ میں علمی ودینی خدمات کے علاوہ تحریر وتقریر کے ذریعے دعوت وتبلیغ کا فریضہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔اللہ تعالیٰ ان کی کوششوں وکاوشوں کو شرف قبولیت سے نوازے ۔ زیر تبصرہ کتاب’’ فتاوی صراط مستقیم‘‘ ڈاکٹر صہیب حسن ﷾کے علمی مقالات وفتاوی ٰ جاتا ت پر مشتمل ہے موصوف طویل عرصہ سے مغرب میں مقیم ہیں اس لیے آپ مغربی دنیا میں اٹھنے والی تحریکوں کے پس پردہ محرکات کے رمز شناس ہیں۔ اس کتاب کا ایک حصہ انہی کی مختلف کانفرنسوں میں کی گئی تقریروں کا گلدستہ ہے ۔ امت مسلمہ کو طرح طرح کے خطرات سے آگاہ کرنے اوربچانے کے لیے انہوں نے کتنی بصیرت افروز باتیں کی ہیں اس کااندازہ اس کتاب کےمطالعہ سے ہوگا۔ موصوف نے دیار مغرب میں رہنے والے مسلمانوں کی دینی رہنمائی کے لیے اہم فتوے صادر کیے جو برطانیہ سے شائع ہونے والے علمی مجلہ ’’صراط مستقیم ‘‘ میں چھپتے رہے ۔کتاب ہذا کے دوسرے حصہ میں انہی فتاویٰ جات کویکجا کیا گیا ہے ۔جن میں عقائد، نماز، زکاۃ، بدعات،رسوم ورواج، متعہ ، شادی بیاہ ، طلاق، عورت کی امامت ، مخلوط سوسائٹیوں اور جنازے کے مسائل جیسے امور واضح کرنے کے علاوہ ہر طرح کے شک وارتیاب،جہل ،اوہا م اوراضطراب کا شافی جواب دیا گیا ہے۔مکتبہ اسلامیہ کے مدیر جناب محمد سرور عاصم ﷾ نے اس کتاب کو بڑے خوبصورت دلکش انداز اور طباعت پر شائع کیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ مصنف وناشرین کی اس عمدہ کاوش کو قبول فرمائے اوراسے قارئیں کے نفع بخش بنائے ۔(آمین)(م۔ا)
اسلامی تاریخ ہمارے سامنے مسلمان عورت کابہترین اورپاکیزہ نمونہ پیش کرتی ہے۔ آج جب زمانہ بدل رہا ہے، مغربی تہذیب و تمدن او رطرزِ معاشرت ہمارے گھروں میں سرایت کررہا ہے، تہذیب مغرب کی دلدادہ مسلمان خواتین او رلڑکیاں اسلام کی ممتاز اور برگزیدہ خواتین کے اسوہ حسنہ کو چھوڑ کر گمراہ اور ذرائع ابلاغ کی زینت خواتین کواپنے لیے آئیڈل سمجھ رہی ہیں۔ ہمیں اپنے اسلاف کی خدمات کو پڑھنے کی اشد ضرورت ہے۔ اسلام کے ہردور میں عورتوں نےمختلف حیثیتوں سے امتیاز حاصل کیا ہے ،اور بڑے بڑے عظیم کارنامے سر انجام دیئے ہیں۔ ازواجِ مطہرات طیباتؓ اور اکابر صحابیاتؓ، تابعیات، صالحات کی زندگیاں ہمارے لئے بہترین نمونہ ہیں۔ان کے دینی، اخلاقی معاشرتی اور علمی کارنامے نہ صرف دنیا وآخرت دونوں جہانوں میں نجات کا ذریعہ ہیں، بلکہ موجودہ دور کے تمام معاشرتی خطرات سے محفوظ رکھنے کے بھی ضامن ہیں۔ اسلامی تاریخ میں ایسی خواتین بھی گزری ہیں جن کے سامنے اچھے اچھے سیاستدان اور حرب وضرب کے ماہر اپنے آپ کے بے بس پاتے تھے ان کی زبان کی کاٹ تلوار سے تیز تھی اوربعض کے اشعار دشمن کے لیے شمشیر برہنہ سے کم نہ تھے۔ ایک بہادر خاتون نے بنوامیہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ خلافت کے حق دار نہیں ہیں اور اتنا بڑا اعزاز انہیں زیب نہیں دیتا۔تاریخ میں ایسی خواتین کا ذکر بھی ملتا ہے جنہوں نے شاہی غیظ وغضب کی بھی پرواہ نہیں کی اور شاہی خاندان کے بعض خودسر افراد کے غرور وتمکنت کا جنازہ نکال دیا۔ زیر تبصرہ کتاب مؤرخ اسلام مولانا اسحاق بھٹی کی ایک شہرۂ آفاق کتاب کا منتخب حصہ ہے جسے مکتبہ فہیم انڈیا کے مدیر نے ’’ساٹھ باکمال خواتین‘‘ کے نام سے شائع کیا ہے۔ یہ کتاب 10 بہادر صحابیات اور 50 دیگر نامور تابعیات وصالحات کے دلنشیں تذکرہ پر مشتمل ہے۔ (م۔ا)
اب یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ پوری دنیا میں آزادی اظہار رائے، حقوق انسانی اور مساوات کا ڈھنڈورا پیٹنے والا مغرب منافقت اور دوغلے پن کے کینسر کا شکار ہے۔خوشنما اور دل ربا اصطلاحات میں روشن خیالی کا درس دینے والے نام نہاد مصلح کا اصل چہرہ بے نقاب ہو چکا ہے۔حالیہ برسوں میں اسلام دشمنی کے پے درپے واقعات نے اب ثابت کر دیا ہے کہ مغرب میں آزادی اظہار رائے کا مطلب ہے، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعےاجتماعی طور پر اسلام اور اس کی مقدس شخصیات کی توہین وتحقیر، اسلامی تعلیمات کا تمسخر اور مسلمانوں کی تذلیل۔حیران کن بات یہ ہے کہ یہ مذموم حرکات کسی ایک فرد کا ذاتی عمل یا کوشش کا نتیجہ نہیں بلکہ ایسی ناپاک جسارتیں پورے مغربی معاشرے کی اجتماعی سوچ کا مظہر ہیں جو تہذیبوں کے ٹکراؤ اور ایک نئی صلیبی جنگ کا پیش خیمہ ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب" آزادی اظہار رائے کے نام پر"محترم متین خالد صاحب کی کاوش ہے، جس میں انہوں نے مغرب کی نام نہاد آزادی رائے کےنام پر اس کی اسلام دشمنی کا پردہ چاک کیا ہے۔یہ کتاب اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ اس میں بیان کردہ مدلل انکشافات اور جامع اکتشافات نہایت چونکا دینے والے ہیں۔محسوس ہوتا ہے کہ مغرب نے بہت سی باتوں کو یونہی فرض کر کے یا آنکھیں بند کر کے اپنی توپوں کا رخ اسلام اور مسلمانوں کی طرف کر رکھا ہے جو سراسر عالمی اخلاقی اقدار کے خلاف ہے۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف موصوف کی اس محنت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے ۔آمین(راسخ)
آج امت مسلمہ کی زبوں حالی اس انتہاکو پہنچ چکی ہے کہ جھوٹ سچ سے اور کھوٹا کھرے سے بالکل پیوست نظر آتا ہے۔جس طرح علم ظاہر کے حامل علمائے حق کی صفوں میں علمائے سوءداخل ہو چکے ہیں ، اسی طرح علم باطن کے حامل مشائخ حق پرست کے بھیس میں نفس پرست لوگ شامل ہو چکے ہیں۔ عوام الناس کی روحانی اور باطنی تنزلی کی انتہا یہاں تک ہو چکی کہ ایک طبقے نے بیعت طریقت کو لازم قرار دے کر فرائض کے ترک کرنے اور شریعت اور طریقت کو الگ الگ ثابت کرنے کا بہانہ بنا لیا ۔ ضلو ا فا ضلوا (خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا)۔ دوسرے طبقے نے بیعت طریقت کو گمراہی سمجھ کر اس کی مخالف کا بیڑا اٹھا لیا۔ان حالات میں اہل حق کیلئے افراط و تفریط کے شکار ان دونوں طبقوں سے چومکھی لڑائی لڑنے کے سوا چارہ نہیں۔ تاکہ احکام شریعت کو نکھار کر پیش کیا جائے اور حق و باطل کی حد فاصل کو واضح کیا جائے۔ زیر تبصرہ کتاب’’تصوف کیا ہے‘‘جو کہ مولانا محمد منظور نعمانی،مولانا محمد اویس ندوی،اور مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کے مقالات سے تحریر کی گی ہے جس میں مذکورہ مصنفین نے افراط و تفریط سے دامن بچائے ہوئے اہل سنت والجماعت کے حقیقی نقطہ نظر کو واضح کیا ہے۔علم تصوف، تصوف کیا ہے، لفظ صوفی کی تحقیق،بیعت طریقت کا شرعی ثبوت، ضرورت مرشد، آداب مرشد، خانقاہوں کا قیام، اعتقادات، اسباق تصوف، معمولات شب و روز، معارف و حقائق، اخلاق حمیدہ ، تصوف کے متعلق کیے جانے والے عمومی سوالات وغیرہ جیسے اہم ترین عنوانات پر تسکین بحث کی ہے۔اللہ رب العزت سے دعا کرتے ہیں کہ اللہ فاضل مصنفین کو اس کار خیر پر اجرے عظیم سے نوازے ۔آمین (شعیب خان)
کسی بھی زبان کو سمجھنے کے لیے اس کے بنیادی اصول و قواعد کا جاننا بہت ضروری ہوتا ہے۔ کوئی انسان اس وقت تک کسی زبان پر مکمل عبور حاصل نہیں کر سکتا جب تک وہ اس زبان کے بنیادی قواعد میں پختگی حاصل نہ کر لے۔یہ عالم فانی بے شمار زبانوں کی آماجگاہ ہےاور اس میں بہت سی زبانوں کا تعلق زمانہ قدیم سے ہے۔موجوہ تمام زبانوں میں سب سےقدیم زبان عربی ہے اس کاوجود اس وقت سے ہےجب سےیہ کائنات معرض وجود میں آئی اور یہی زبان روزِ قیامت بنی آدم کی ہوگی۔عربی زبان سے اہل عجم کا شغف رکھنا اہم اور ضروری ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی پاک کلام بھی عربی میں ہے۔اہل اسلام کی تمام تر تعلیمات کا ذخیرہ عربی زبان میں مدوّن و مرتب ہے اور ان علوم سے استفادہ عربی گرائمر(نحو و صرف) کے بغیر نا ممکن ہے۔ زیر تبصرہ کتاب "املاء الصرف اردو شرح ارشاد الصرف" مولانا مفتی عطا الرحمٰن کی ارشاد الصرف کی بے مثال اردو شرح ہے۔ جس میں فوائد و تحقیقات کے ساتھ چار ہزار نایاب صیغہ جات کو بڑے سہل انداز سے حل کیا گیا ہے۔ یہ اردو شرح مدرسین اور طلباء عظام کے لیے نہایت مفید اور کار آمد ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ فاضل مصنف کی محنت کو اپنی بارگاہ میں قبول و منظور فرمائے۔ آمین(عمیر)
تحقیق عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں کسی چیز کی اصلیت وحقیقت معلوم کرنے کے لئے چھان بین اور تفتیش کرنا۔اصطلاحا تحقیق کا مطلب ہے کہ کسی منتخب موضوع کے متعلق چھان بین کر کے کھرے کھوٹے اور اصلی ونقلی مواد میں امتیاز کرنا،پھر تحقیقی قواعد وضوابط کے مطابق اسے استعمال میں لانا اور اس سے نتائج اخذ کرنا ۔ایسا تحقیقی کام سندی تحقیق میں کیا جاتا ہے ،جو ہر مقالہ کی آخری منزل ہوتی ہے۔ترقی یافتہ علمی دنیا میں تحقیقی مقالہ لکھنے یا "رسمیات تحقیق" کو سائنٹیفک اور معیاری بنانے کا کام اور اس پر عمل کا آغاز اٹھارویں صدی ہی میں شروع ہوچکا تھا- چنانچہ حواشی و کتابیات کے معیاری اصول اور اشاریہ سازی کا اہتمام مغربی زبانوں میں لکھی جانے والی کتابوں میں اسی عرصے میں نظر آنے لگا تھا۔لیکن افسوس کہ آج تک اردو میں تحقیق کی رسمیات متفقہ طور پر نہ طے ہو سکیں۔ نہ ان کے بارے میں سوچا گیا اور نہ ہی کوئی مناسب پیش رفت ہوسکی۔ چنانچہ ایک ہی جامعہ میں، بلکہ اس جامعہ کے ایک ہی شعبے میں لکھے جانے والے مقالات باہم ایک دوسرے سے مختلف ہو سکتے ہیں۔ کسی ایک مقالے میں حواشی کسی طرح لکھے جاتے ہیں اور کتابیات کسی طرح مرتب کی جاتی ہے۔ دوسرے مقالے میں ان کے لکھنے اور مرتب کرنے کے اصول مختلف ہوسکتے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب " اردو میں اصول تحقیق، منتخب مقالات "اسی جانب ایک سنگ میل ہےجسے محترمہ ڈاکٹر سلطانہ بخش نے مختلف اہل علم کے مقالات سے مرتب فرمایا ہے۔یہ کتاب مقالہ نگار حضرات کے علمی وتحقیقی تجربوں اور وسیع وگہرے مطالعے کا نچوڑ ہے۔اس میں فن تحقیق کے وہ سارے پہلو آ گئے ہیں جو تحقیق کرنے والے ہر طالب علم ،ہر استاذ اور تمام محققین کے لئے نہایت مفید ہیں۔ (راسخ)
تصوف رہبانیت میں مکمل یگانگت ہے تصوف کی تاریخ بہت پرانی ہے یہ دراصل یونانی افکار کا مجموعہ ہے اسلام کی پہلی تین صدیوں میں تصوف کا وجود نہ ہونے کے برابر تھا۔ تصوف ایسی مہلک بیماری ہے جس نے امت مسلمہ میں افتراق کی خلیج کو وسیع کیا۔ اس کی ترویج و اشاعت سے بدعات کو فروغ حاصل ہوا۔ تاریخ شاہد ہے کہ صوفیہ کی جانب سے ہر دور میں توحید وسنت کے روشن چہرے کو مسخ کرنے کی بھر پور کوششیں کی گئی ہیں ۔تصوف کو خوش نما خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا۔ اس طرح سادہ لوح عوام کو فریب میں مبتلا رکھا گیا۔ اس کی قباحتوں کو نظر سے اوجھل رکھنے کے لیے اس کا نام زہد، عبادت،ذکر وفکر،طریقت رکھا گیا ۔اور الحاد، زندقہ، وحدت الوجود جیسے مشرکانہ نظریات کے پھیلنے کا سبب تصوف ہی ہے۔ اوراس کے پردے میں غیراسلامی افکار کو فروغ ہوا۔ ہندواونہ رسم و رواج کو اختیار کیاگیا۔ خانقاہوں میں عرس کے موقع پر صوفیاء مشائخ کی موجودگی میں رقص وسرور، قوالی، کی محفلیں جمتی ہیں مردوزن کا بے محابا اختلاط ہوتا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’افکار صوفیہ کتاب وسنت کی روشنی میں‘‘ کویت کے مشہور سلفی عالم دین شیخ عبد الرحمٰن عبدالخالق کی تصوف کی خرافات او رحقیقت کے متعلق تحریر شدہ عربی کتاب ’’ الفکر الصوفی فی ضوء الکتاب و السنۃ ‘‘کا اردوترجمہ ہے۔ اس کتا ب میں نہایت عرق ریزی اور محنت سے صوفیہ کے حالات پر مرتب شدہ مستند کتابوں سے استفادہ کر کے صوفیا کے افکار کو کتاب وسنت پر پیش کر کے ان کی تردید کی ہے۔ اورمستند کتب کے حوالہ جات سے ثابت کیا ہے کہ صوفیہ کی وجہ سے اسلامی معاشرہ میں کس قدر ناقابل علاج بیماریوں نے جنم لیا ہے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر رکیب حملے کیے گئے فرعون کومومن ثابت کیا گیا اور ابلیس کو موحد کہا گیا۔ مولانا صادق خلیل نے تقریبا 38 سال قبل اس کتاب کو اردو قالب میں ڈھالا۔ اللہ تعالیٰ مصنف ومترجم اور ناشرین کی اس کاوش کو قبول فرمائے۔ (آمین) (م۔ا)
عربی زبان ایک زندہ وپائندہ زبان ہے۔ اس میں ہرزمانے کے ساتھ چلنے کی صلاحیت موجود ہے۔ اس زبان کو سمجھنے اور بولنے والے دنیا کے ہر خطے میں موجودہیں ۔عربی زبان وادب کو سیکھنا اور سکھانا ایک دینی وانسانی ضرورت ہے کیوں کہ قرآن کریم جوانسانیت کے نام اللہ تعالیٰ کا آخری پیغام ہے اس کی زبان بھی عربی ہے۔ عربی زبان معاش ہی کی نہیں بلکہ معاد کی بھی زبان ہے۔اس زبان کی نشر واشاعت ہمارا مذہبی فریضہ ہے۔ اس کی ترویج واشاعت میں مدارس عربیہ اور عصری جامعات کا اہم رول ہے ۔عرب ہند تعلقات بہت قدیم ہیں اور عربی زبان کی چھاپ یہاں کی زبانوں پر بہت زیادہ ہے۔ہندوستان کا عربی زبان وادب سے ہمیشہ تعلق رہا ہے۔ یہاں عربی میں بڑی اہم کتابیں لکھی گئیں اور مدارس اسلامیہ نے اس کی تعلیم وتعلم کا بطور خاص اہتمام کیا۔ زیر تبصرہ کتاب " البشیر شرح نحو میر" محترم علامہ غلام جیلانی میرٹھی صاحب کی تصنیف ہے جو عربی زبان پر لکھی گئی معروف ترین کتاب "نحو میر "کی اردو شرح ہے۔عربی زبان سیکھنے کے حوالے سے یہ ایک مقبول ترین کتاب ہے ،جو متعدد دینی مدارس اور سکولوں وکالجوں کے نصاب میں داخل ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف اور شارح کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
کسی بھی زبان کو سمجھنے کے لیے اس کے بنیادی اصول و قواعد کا جاننا بہت ضروری ہوتا ہے۔کوئی انسان اس وقت تک کسی زبان پر مکمل عبور حاصل نہیں کر سکتا جب تک وہ اس زبان کے بنیادی قواعد میں پختگی حاصل نہ کر لے۔یہ عالم فانی بے شمار زبانوں کی آماجگاہ ہےاور اس میں بہت سی زبانوں کا تعلق زمانہ قدیم سے ہے۔موجوہ تمام زبانوں میں سب سےقدیم زبان عربی ہے اس کاوجود اس وقت سے ہےجب سےیہ کائنات معرض وجود میں آئی اور یہی زبان روزِ قیامت بنی آدم کی ہوگی۔عربی زبان سے اہل عجم کا شغف رکھنا اہم اور ضروری ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی پاک کلام بھی عربی میں ہے۔اہل اسلام کی تمام تر تعلیمات کا ذخیرہ عربی زبان میں مدوّن و مرتب ہے اور ان علوم سے استفادہ عربی گرائمر(نحو و صرف) کے بغیر نا ممکن ہے۔ زیر نظر کتاب"کنوز العرب" جو کہ ابن ہشام انصاریؒ کی کتاب"شذور الذھب" کا اردو ترجمہ و شرح ہے۔ ابن ہشام انصاریؒ عربی گرائمر کے مایہ ناز مصنفین میں سے ہیں اس کے علاوہ بھی وہ بہت سی کتب کے مصنف بھی ہیں۔ مولانا عبد الناصر صاحب اور مولانا خورشید انور صاحب نے آسان و عام فہم اسلوب کے ساتھ اس کا ترجمہ و شرح کو احاطہ تحریر میں لائے ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مصنف و مترجمین کو اجر عظیم سے نوازے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔ آمین(عمیر)
نبی اکرم ﷺ کی سیرتِ مبارکہ نے ملتِ اسلامیہ کی زندگی کے ہر پہلو کے لئے راہنمائی فراہم کی ہے۔ ان میں سے ایک پہلو ثقافتی اور تہذیبی بھی ہے۔ دنیا کی تمام تہذیبوں اور ثقافتوں کے مقابلے میں اسلام کی تہذیب و ثقافت بالکل منفرد اور امتیازی خصوصیات کی حامل ہے۔ اس کی بنیادی وجہ وہ اُصول و ضوابط اور افکار و نظریات ہیں جو نبی اکرم ﷺ نے اپنے اُسوہ حسنہ کے ذریعے اُمتِ مسلمہ کو عطا فرمائے ہیں۔ ثقافت کی تمام ترجہات میں اُسوہ حسنہ سے ہمیں ایسی جامع راہنمائی میسر آتی ہے جس سے بیک وقت نظری، فکری اور عملی گوشوں کا احاطہ ہوتا ہے۔ ایسی جامعیت دنیا کی کسی دوسری تہذیب یا ثقافت میں موجود نہیں ہے۔ مغربی مفکرین اسلام اور پیغمبر اسلام کے بارے میں اپنے تمام تر تعصبات کے با وجود اسلام کی عظیم الشان تہذیب اور ثقافت کی نفی نہیں کر سکے۔ انہیں برملا اعتراف کرنا پڑا کہ مسلمانوں نے یورپ کو تہذیب کی شائستگی کی دولت ہی سے نہیں نوازا بلکہ شخصیت کی تعمیر و کردار کے لئے بنیادیں فراہم کیں، تاریکی میں ڈوبے ہوئے یورپ کو ثقافت کی روشنی سے ہمکنار کیا، جنگل کے قانون کی جگہ ابن آدم کو شرفِ انسانی کی توقر و احترام کا شعور عطا کیا اور یوں اس کرہ ارضی پر ان مہذب معاشروں کے قیام کی راہ ہموار کی جو آج بھی تاریخ کے ماتھے کا جھومر ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب "آئینہ اسلامی تہذیب وتمدن "محترم پروفیسر مزمل احسن شیخ صاحب، ابو طاہر صدیقی صاحب اور ابو خالد صدیقی صاحبان کی مشترکہ کوشش ہے،جس میں انہوں نے بڑی خوبصورتی کے ساتھ اسلامی تہذیب وثقافت پر روشنی ڈالی ہے۔ یہ کتاب انہوں نے انٹر میڈیٹ علوم اسلامیہ کے امتحان کے لئے تیار کی ہے۔ اللہ تعالی ان کی اس کاوش کو قبو ل فرمائے۔ آمین(راسخ)
رجب کے مہینےمیں کسی نیک عمل کو فضیلت کے ساتھ خاص نہیں کیا گیا جن بعض اعمال کوفضیلت کےساتھ کے بڑھا چڑہا کر بیان کیاجاتا ہے وہ محض فرضی قصے اور ضعیف و موضوع روایات پر مبنی داستانیں ہیں لہذا جواعمال کتاب وسنت سےثابت ہیں ان پر عمل کرنا چائیے مسلمان اس ماہِ رجب میں کئی قسم کے کام کرتے ہیں مثلا صلاۃ الرغائب، نفلی روزں کا اہتمام ، ثواب کی نیت سے اس ماہ زکاۃ دینا وغیرہ اور 22 رجب کو کونڈوں کی رسم اداکرنا 27 رجب کو شب معراج کی وجہ سے خصوصی عبادت کرنا، مساجد پر چراغاں کرنا جلسے وجلوس کااہتمام کرنا،آتش بازی اور اس جیسی دیگر خرافات پر عمل کرنایہ سب کام بدعات کے دائرے میں آتے ہیں ۔ماہِ رجب کی 22 تاریخ کو خصوصا خواتین امام جعفر صادق کے نام پر مٹی کے چھوٹے چھوٹے پیالے (کونڈے) حلوہ وغیرہ سےبھر کر گھروں میں تقسیم کرتیں ہیں اوراس کےفیوض وبرکات پر عجیب وغریب داستانیں سناتیں ہیں جبکہ حقیقت میں شریعت میں ماہِ رجب میں اس قسم کی بدعات کا کوئی تصور نہیں او رنہ ہی اس طرح کی ماہ رجب میں دیگر رسومات جوموجودہ دور میں ہیں ان کا اسلام سے تعلق ہے ۔ زیر تبصرہ کتابچہ ’’کونڈوں کی حقیقت‘‘ اہل سنت والجماعت سے تعلق رکھنے والے مولانا مفتی محمود الحسن بدایوانی سے 1970ء میں ماہ رجب میں کی جانے مختلف اور کونڈوی کی شرعی حیثیت کے متعلق استفتاء کا جواب پر مشتمل ہے ۔مفتی موصوف نے قرآن وسنت کی روشنی میں اس سوال کا تفصیلی جواب دیتے ہوئے لکھا کہ کونڈوں کی مروجہ رسم مذہب اہل سنت والجماعت میں محض بے اصل ،خلاف شرع اور بدعت محدثہ ممنوعہ ہے ۔ کیونکہ نہ نبی کریم ﷺسے اس کا ثبوت ہے نہ صحابہ کرام وتابعین عزام سے اورائمہ اسلام سے منقول ہے۔لہذا برادران اہل سنت والجماعت کو اس لغو رسم سے دور رہنا چاہیے اور اپنے دوسرے بھائیوں کو اس رسم کے پاس پھٹکنے نہ دیں نہ خود اس رسم کو بجا لائیں اور نہ اس میں شرکت کر کے دشمنان حضرت امیر معاویہ کی خوشی میں شریک ہوکر گناہ کبیرہ کے مرتکب ہوں۔اس فتوے پر اس وقت کے اکابر مفتیان نے دستخط فرمائے ۔جن میں مفتی محمد شفیع، مولانااحتشام الحق تھانوی ، مفتی ولی حسن ٹونکی،سید عبد الجبار، مولانا ابو الفضل عبد الحنان ، مولانا مفتی عبد القہار وغیرہ کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔اس قدیم متفقہ فتویٰ کو قارئین کے استفادہ کے لیے اب کتاب وسنت سائٹ پر پبلش کیا ہے ۔اللہ اسے لوگوں کی اصلاح کا ذریعہ بنائے (آمین)(م۔ا)
توحید اور رسالت اس لائحہ عمل کے دوبنیادی اجزا ہیں۔جن کو صحت کے ساتھ قبول کرنے او رنتیجہ کے طور پر ان کو عملی زندگی میں نافذ کرنے سےاس مقصدِ عظیم کو حاصل کیا جاسکتا ہےجسے اخروی کامیابی کہا جاتا ہے۔ توحید،حیات وکائنات کی تخلیق کا مقصد اولین وآخرین ہے اور اس کاصرف ایک تقاضا ہے کہ جن وانس اپنے جملہ مراسم عبودیت صرف اور صرف ایک اللہ کے لیےخالص کرلیں اور ایک مسلمان شعوری یا غیرشعوری طور پر دن میں بیسیوں مرتبہ اس کا اعلان کرتا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے دنیا والوں کے لیے ہدایت ورہنمائی کے لیے تمام انبیاء ورسول میزان عدل کے ساتھ مبعوث فرمائے۔ ان سب کی دعوت کا نقطہ آغاز توحید تھا۔ سب نےتوحید کی دعوت کو پھیلانے عام کرنے اور توحیدکی ضد شرک تردید میں پورا حق ادا کیا۔ زیر تبصرہ کتاب’’توحید اور پیامبر توحید‘‘ڈاکٹر محمد ایوب شاہد کی تصنیف ہے ۔فاضل مصنف نے اس کتاب میں توحید ومخالف فکر کی تردید کی گئی ہے ۔ فلسفہ یونان سےمغلوب،فکر تصوف وحدت الوجود، وحدت الشہود اورجدید فکری یلغاروں کا قرآن وحدیث کے دلائل کی روشنی میں رد کیاگیاہے۔اور اس کتاب میں نبی اکرمﷺ کو بحیثیت ’’علمبردار توحید‘‘ پیش کیا گیاہے۔اورتوحید کوشرک سےبچاؤ کے لیے جو کوشش کی گئی ہے اسے سمجھ کر اس پر عمل پیرا ہوکر توحید کےپیغام کو سمجھنے کی توفیق عطافرمائے ۔(آمین) کتاب ہذا پر حافظ تنویر الاسلام (مدرس جامعہ لاہور الاسلامیہ (البیت العتیق) کی تحقیق ونظر ثانی سے کتاب کی افادیت میں مزیداضافہ ہوگیاہے۔(م۔ا)
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات اور دستور زندگی ہے ،جس میں زندگی کے ہر ہر گوشے سے متعلق راہنمائی موجود ہے۔اس کی ایک اپنی ثقافت ،اپنی تہذیب اور اپنا کلچر ہے ،جو اسے دیگر مذاہب سے نمایاں اور ممتاز کرتا ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے پاکستانی اور ہندوستانی معاشرے میں ہندوانہ رسوم ورواجات کا چلن عام ہے۔جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بہت سارے لوگ ہندو مذہب سے مسلمان ہوئے ہیں اور ہمیشہ سے ہندووں کے ساتھ رہتے بستے چلے آ رہے ہیں۔وہ مسلمان تو ہو گئے لیکن ان کے عام رسم ورواج ہندوانہ ہی رہے۔بعض ہندوانہ رسمیں اسلامی پیوندکاری کے ساتھ جاری وساری ہیں۔انہی ہندوانہ رسول ورواجات میں سے ایک میت کے گھرپہلے، تیسرے، ساتویں، اکیسویں اور چالیسویں دن کھانے کا اہتمام کرنا،مولوی صاحب سے ختم پڑھوانا اور تبرکا چنے اور پھل مکھانے تقسیم کرنے کی رسوم ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب "اصلاح رسوم یعنی میت کے گھر کا کھانا" محترم میاں محمد صدیق مغل صاحب کی تصنیف ہے جس میں انہوں نے انہی رسوم ورواجات کی حرمت کے حوالے مختلف علمائے کرام کے فتاوی جات کو جمع فرما دیا ہے۔ پر گفتگو فرمائی ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف موصوف کی اس محنت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔ آمین(راسخ)