اپنے وسیع تر مفہوم میں ہر وہ تحریر جو کسی شکل میں محفوظ کی گئی ہو کتاب کہلاتی ہے۔ گویا مٹی کی تختیاں، پیپرس کے رول، اور ہڈیاں جن پر تحریر محفوظ ہے کتاب ہے؛ یہ چمڑے یا جھلی پر بھی ہو سکتی ہے اور کاغذ پر بھی۔ کتاب لکھے اور چھاپے گئے کاغذوں کے مجموعہ کو کہتے ہیں ، جن کی جلد بندی کی گئی ہواور انھیں محفوظ کرنے کے لیے جلد موجود ہو۔موجودہ دور میں طرزیات اور سائنس کی ترقی کی بدولت کتاب صرف کاغذ پر چھپی تحریر ہی نہیں رہی، بلکہ اب کتاب ای بک کرئیٹر [انٹرنیٹ]] اور بک ریڈر کے ذریعے ڈیجیٹل ہو چکی ہے۔ کتابوں کے شوقین یا کتابیں زیادہ پڑھنے والے کو عموماً ، کتابوں کا رَسیا یا کتابوں کا کیڑا کہاجاتا ہے۔ زیرِ تبصرہ کتاب ’’ کتاب المعارف ‘‘ابی محمد بن عبد اللہ بن مسلم ابن قتیبہ الدینوری (213ھ۔ 276ھ)کی ہے جس کا اردو ترجمہ پروفیسر علی محسن صدیقی نے کیا ہے۔ جس میں تخلیق کائنات و تذکرہ انبیاء، انساب عرب، آپ ﷺ کی اہمیت و فضیلت کو بیان کیا گیا ہے۔اور آپﷺ کی پیدایش سے لے کر وفات تک کے تمام واقعات، غزوات ، خلفائے راشدین اور صحابہ کرام کی جانثاری کو بیان کیا گی...
ایک ہمہ گیر شخصیت، علم ہیئت کا ماہر، فلسفی اور ایک ہی وقت میں سائنسی اور عمرانی علوم پر دسترس رکھنے والا شخص تاریخ میں ابو ریحان محمد بن احمد البیرونی کے نام سے مشہور ہے۔ اس عبقری شخصیت نے ہندوستان اور ہندوؤں کے حالات پر مشتمل ’کتاب الہند‘ کے نام سے ایک جاندار کتاب لکھی، جس کا اردو ترجمہ آپ کے سامنے ہے۔ 1019ء میں البیرونی ہند کے حالات معلوم کرنے ہندوستان آیا۔ ہندوستان کی معاشرت، تہذیب و ثقافت، جغرافیہ، تمدن، یہاں کے مذاہب اور لوگوں کی اخلاقی حالت کا مطالعہ کرنے کے لیے اس نے سنسکرت زبان سیکھی۔ ہندوستان میں البیرونی نے کم و بیش دس سال گزارےاور اس دوران ہندو مذہب کے متعلق بہت سی معلومات حاصل کیں۔ یہ تمام معلومات زیر مطالعہ کتاب کا حصہ ہیں۔ ہندوؤں کے ہاں تصور خدا کیا ہے؟ دنیا سے نجات پانے کے کیا راستے ہیں؟ ہندوؤں کے دیگر مذاہب کے بارے میں کیا نظریات ہیں؟ اوربیوی کو خاوند کے ساتھ ستی کرنے کی کیا وجہ ہے؟ ہندو ازم سے متعلق یہ اور اس طرح کے دیگر بہت سے حقائق کو نہایت عرق ریزی کے ساتھ اس کتاب میں بیان کر دیا گیا ہے۔ اس کتاب کو ہندوؤں سے متعلق معلومات کا انسائیکلوپیڈیا کہا جائے تو...
تاریخ نویسی ہو یا سیرت نگاری ایک مشکل ترین عمل ہے۔ اس کےلیے امانت ودیانت او رصداقت کاہونا از بس ضروری ہے۔ مؤرخ کے لیے یہ بھی ضروری ہےکہ وہ تعصب، حسد بغض، سے کوسوں دور ہو۔ تمام حالات کو حقیقت کی نظر سے دیکھنے کی مکمل صلاحیت رکھتاہو۔ ذہین وفطین ہو اپنے حافظےپر کامل اعتماد رکھتا ہو۔ حالات و واقعات کوحوالہ قرطاس کرتے وقت تمام کرداروں کا صحیح تذکرہ کیا گیا ہو۔ اس لیے کہ تاریخ ایک ایسا آئینہ ہے کہ جس کے ذریعے انسان اپنا ماضی دیکھ سکتاہے اور اسلام میں تاریخ ، رجال اور تذکرہ نگار ی کو بڑی اہمیت حاصل ہے اور یہ اس کے امتیازات میں سے ہے۔ بے شمارمسلمان مصنفین نے اپنے اکابرین کے تذکرے لکھ کر ان کےعلمی عملی، تصنیفی،تبلیغی اورسائنسی کارناموں کوبڑی عمدگی سے اجاگر کیا ہے۔ اسلاف کے تذکروں میں توحید اور عظمت اسلام کی خاطرقربانیاں دینے والے جانثاروں، میدان جہاد میں شجاعت و بہادری دکھانے والے سالاروں اور عدل وانصاف کو قائم رکھنے والے امراء وسلاطین کے تذکروں کو بڑی مقبولیت حاصل ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’کردار کے غازی‘‘ میں جناب ابو علی عبد الوکیل نے ایسی ہی ا...
تاریخی حقائق اس بات کے گواہ ہیں کہ جب قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں نے اسلامی اصولوں کو اپنا شعاربنا کر عملی میدان میں قدم رکھا تو دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا کو زیر نگین کرلیا۔مسلمان دانشوروں ، سکالروں اور سائنسدانوں نے علم و حکمت کے خزانوں کو صرف اپنی قوم تک محدود نہیں رکھابلکہ دنیا کی پسماندہ قوموں کو بھی استفادہ کرنے کا موقعہ فراہم کیا۔ چنانچہ اُس وقت کی پسماندہ قوموں نے جن میں یورپ قابل ذکر ہے مسلمان سکالروں سے سائنس اورفلسفہ کے علوم حاصل کئے۔یورپ کے سائنسدانوں نے اسلامی دانش گاہوں سے باقاعدہ تعلیم حاصل کرلی اور یورپ کو نئے علوم سے روشناس کیا۔حیرت کی بات ہے کہ وہی مسلم ملت جس نے دنیا کو ترقی اور عروج کا سبق پڑھایا آج انحطاط کا شکار ہے۔ جس قوم نے علم و حکمت کے دریا بہا دیئے آج ایک ایک قطرے کے لئے دوسرے اقوام کی محتاج ہے۔ وہی قوم جو دنیا کی عظیم طاقت بن کر ابھری تھی آج ظالم اور سفاک طاقتوں کے سامنے بے بس نظر آرہی ہے۔ یہ اتنا بڑا تاریخی سانحہ ہے جس کے مضمرات کاجاننا امت مس...
موجودہ مادی دور میں جہاں اور بہت سے مسائل باعث پریشانی ہیں وہاں ایک انتہائی پریشان کن مسئلہ یہ بھی ہے کہ اپنے بچوں کی صحیح اسلامی خطوط پر تربیت کیونکر کی جائے معاشرے میں عمومی طورپر الحادولادینیت کا دور دورہ ہے درس گاہوں کی حالت بھی ابتر ہے اس کےلیے یقیناً بہت احیتاط کی ضرورت ہے لہذا ہمہ وقت بارگاہ ایزدی میں دست بدعا رہنا چاہئے کہ وہ نونہالان وطن کی صحیح تعلیم وتربیت کے لیے ذرائع وسائل مہیا فرمائے بچوں کی تربیت کاایک اہم طریقہ حکایات اور کہانیاں بھی ہیں بچوں میں طبعی طور پر کہانیوں سے ایک لگاؤ ہوتا ہے لیکن عموماً جنوں اور پریوں با بادشاہوں کی کہانیاں سنائی جاتی ہیں جن میں کوئی اخلاقی سبق نہیں ہوتا بلکہ الٹا منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں زیرنظر کتاب میں بچوں کےلیے اسلامی نقطہ نظر سے بہت ہی عمدہ کہانیاں تحریر کی گئی ہیں جن سے بچوں میں اسلامی عقائد وآداب مستحکم ہوں گے البتہ اس کایہ پہلو کھٹکتا ہے کہ یہ فرضی کہانیاں ہیں بہتر ہوتا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین وتابعین عظام اور تاریخ کے سچے واقعات کو کہانی کے انداز میں بیان کیاجاتا۔
برصغیر میں اسلام اور مسلمانوں سے متعلق منعدد امور توجہ طلب ہیں کیونکہ ان سے متعلق جو تفصیلات عام لوگوں کو معلوم ہیں وہ زیادہ تر غلط اور بہت کم صحیح ہیں۔ان امور میں بعض کا تعلق عقائد سے بعض کا عمل سے اور بعض کی حیثیت صرف علمی و نظری ہے۔ برصغیر میں مسلمانوں کی آمد اور اسلام کی اشاعت سے متعلق موضوع بھی بعض غلط فہمیوں یا غلط بیانیوں کا شکار ہوا ہے۔جس کی بنا پر تصوف کی تعظیم و تمجید کے لئے ایک بات یہ بھی مشہور کی گئی ہے کہ برصغیر پاک و ہند میں اسلام کی اشاعت میں صوفیاء کا کردار ہے بے حد عظیم ہے۔ تاریخی طور پر اگر یہ بات ثابت ہو جاتی تو اسے تسلیم کرنے میں کوئی حرج نہ تھا، لیکن ایک خالص تاریخی و علمی مسئلہ کو عقیدت و احترام کے زور پر ثابت کرنا آج کے علمی معیار و مقام کے شایانِ شان نہیں۔خوشی کا مقام ہے کہ محترم غازی عُزیر صاحب نے اس موضوع پر قلم اٹھایا ہے۔ زیرِ تبصرہ کتاب ’’ کیا اقلیم ہند میں اشاعتِ اسلام صوفیاء کی مرہونِ منت ہے؟ ‘‘ میں واضح کیا گیا ہے کہ ہندستان میں اسلام صوفیاء کے ذریعہ نہیں بلکہ فقط محدثین کرام اور علمائے حق کے ذریعہ آیا...
اسلام اللہ تعالی کی طرف سے آسمانی دین ہے جس کی دعوت تمام انبیاء کرام نے مختلف اوقات میں مختلف انداز سے دی ہے اور جس نبی کے امتیوں نے اسے قبول کیا انہیں مسلم اور جنہوں نے قبول نہیں کیا انہیں غیر مسلم یا کافر سے نام سے موسوم کیا گیا-دین اسلام کی کی تعلیمات کے نزول کے لیے آخری مسلمہ حیثیت رسول اللہ ﷺ کو دی گئی ہے اسی لیے یہ تقاضا ہے کہ جب تک کوئی شخص آخر الزماں پیغمبر محمد رسول اللہ ﷺ کی نبوت کا اقرار نہیں کرتا وہ مسلم کے درجے میں داخل نہیں ہوتا-اسی لیے اس کتاب میں مصنف نے ان لوگوں کے حالات کو یکجا کیا ہے جنہوں نے اسلام کا مطالعہ کیا اور اسلامی تعلیمات نے ان کواس چیز پر مجبور کر دیا کہ وہ احقاق حق کا اعلان برملا کریں اور ابطال باطل کا اظہار سر عام کر کے کائنات کے سامنے حقانیت اسلام کو واضح کریں-اس کتاب میں مصنف نے ایسے تمام لوگوں کے حالات و واقعات اور قبول اسلام سے پہلے کی حالت اور قبول اسلام کے بعد دلی اطمینان اور پیش آمدہ مسائل کو اکٹھا کر کے غیر مسلموں کو سوچ و بچار کا پیغام دیا ہے اور مسلمانوں کو نعمت اسلام سے سرفراز ہونے کی وجہ سے ایک مبارک باد کا پیغام دیا ہے کہ اللہ تعالی نے انہ...
یہ حقیقت ہے کہ مسلمان ہندوستان میں ابھر نہیں سکے۔ وہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ آزادی کے بعد سے آج تک جس قدر مسائل سے ہندوستانی مسلمان دوچار رہے ہیں، کوئی اور قوم ان حالات سے گزرتی تو ممکن تھا کہ وہ اپنا وجود ہی خطرہ میں ڈال چکی ہوتی۔ اُس کی شناخت ختم ہو جاتی اور اس کے عقائد بگڑ جاتے۔ لیکن غالباً یہ مسلمانوں کی خود کی کوشش کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ خدا برحق کی مصلحت ہے کہ مسلمان ہندوستان میں نہ صرف باقی رہیں بلکہ اپنی مکمل شناخت اور عقائد و افکار میں بھی وہ نمایاں حیثیت برقرار رکھیں۔۱۸۵۷ء کے بعد کے ہندوستانی مسلمانوں کی، اس وقت کی کسی حد تک تصویر کشی ڈاکٹر سرولیم ہنٹر کی کتاب’ ’ہمارے ہندوستانی مسلمان‘‘ میں تلاش کی جاسکتی ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ ہمارے ہندوستانی مسلمان‘‘ڈاکٹر سرولیم ہنٹر کی انگریزی کتاب OUR INDIAN MUSLMANS کا اردو ترج...
ہندوستان دنیا کا ایسا خطہ ہے جہاں آٹھویں صدی سے لے کر بیسویں صدی تک دو غیرملکی حکمران، عرب مسلمان اور انگریز(برطانوی) قابض رہے۔ بہرحال آج کل یوں تو پورا عالم اسلام استعمار اور دشمنوں کی سازشوں کےچنگل میں نظرآرہاہے لیکن دنیاکی سب سےبڑی جمہوریت کادعوی کرنےوالے ہندوستانی سیاستدان بھی آئے روزمسلمانوں کوہراساں کرنے اور انہیں طرح طرح سے خوف و وحشت میں مبتلا کرنےکی سازشیں رچاتےرہتےہيں۔اوریوں ہندوستان کےعوام اور اس کےاندر پائی جانےوالی سب سےبڑی اقلیت فی الحال بےشمارمسائل کاشکار ہے۔اوراس کاسب سےبڑا ثبوت ہندوستان میں ہرسطح پر مسلمانوں کوہراساں کئےجانےکےلئےکھیلاجانےوالا کھیل اور تمام اہم قومی وسرکاری اداروں سے ان کی بیدخلی ہے۔ہندوستان میں مسلمان دوسری سب سے بڑی قوم ہیں۔ یہاں ان کی تعداد تقریبا 30 کروڑ ہے۔پورے ہندوستان میں مسجدوں کی تعداد اگر مندروں سے زیادہ نہیں تو کسی طرح کم بھی نہیں ہے ۔ ایک سے ایک عالیشان مسجد جن میں دلی کی جامع مسجد بھی شامل ہے ، اس مسجد کو شاہی مسجد بھی کہا جاتا ہے ۔ان تمام مساجد میں پانچوں وقت اذان دی جاتی ہے ۔لیکن اس کے باوجودمسلمانوں کو...
سائنس کو مذہب کا حریف سمجھا جاتا ہے،لیکن یہ ایک غلط فہمی ہے۔دونوں کا دائرہ کار بالکل مختلف ہے ،مذہب کا مقصد شرف انسانیت کا اثبات اور تحفظ ہے۔وہ انسان کامل کا نمونہ پیش کرتا ہے،سائنس کے دائرہ کار میں یہ باتیں نہیں ہیں،نہ ہی کوئی بڑے سے بڑا سائنس دان انسان کامل کہلانے کا مستحق ہے۔اسی لئے مذہب اور سائنس کا تصادم محض خیالی ہے۔مذہب کی بنیاد عقل وخرد،منطق وفلسفہ اور شہود پر نہیں ہوتی بلکہ ایمان بالغیب پر زیادہ ہوتی ہے۔اسلام نے علم کو کسی خاص گوشے میں محدود نہیں رکھا بلکہ تمام علوم کو سمیٹ کر یک قالب کر دیا ہےاور قرآن مجید میں قیامت تک منصہ شہود پر آنے والے تمام علوم کی بنیاد ڈالی ہے۔چنانچہ مسلمانوں نے تفکر فی الکائنات اور حکمت تکوین میں تامل وتدبر سے کام لیا اور متعددسائنسی اکتشافات سامنے لائے ۔تاریخ میں ایسے بے شمار مسلمان سائنسدانوں کے نام ملتے ہیں،جنہوں نے بے شمار نئی نئی چیزیں ایجاد کیں اور دنیا میں مسلمانوں اور اسلام کا نام روشن کیا۔مسلم حکمرانوں نے جہاں ساری دنیا کو اپنی ایجادات سے فائدہ پہنچایا وہیں ہندوستان کے مسلم حکم...
برصغیر پاک و ہند میں کچھ ایسی شخصیات نے جنم لیا جو علم و ادب اور صحافت کے افق پر ایک قطبی ستارے کی طرح نمودار ہوئے اور دیر تک چھائے رہے۔ ان شخصیات میں سے مولانا ابو الکلام آزادؒ سرِ فہرست ہیں، مولانا کو اللہ تعالیٰ نے بے پناہ صلاحیتوں سے نوازہ تھا۔ مولانا آزادؒ عربی، اردو، فارسی اور انگریزی کے عظیم سکالر تھے، آپ نہایت ہی زیرک اور بے باک انسان تھے۔ جب فرنگی حکومت نے ایک منصوبہ کے تحت تقسیم برصغیر کا پروگرام بنایا اور ان کا ارادہ تھا کہ مسلمان پسماندہ ہیں اس لیے ان کو چند ایک رعایتوں کے ساتھ اپنا آلہ کار بنا لیا جائے گا۔ مولانا آزادؒ نے جب برطانوی حکومت کی چالوں میں شدّت محسوس کی تو برصغیر کے مسلمانوں کو اس خطرناک چال سے بچانے کے لیے مولانا نے باقاعدہ کوششیں کیں۔ مولانا یہ چاہتے تھے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی نو(9) کروڑ سے زیادہ ہے اور وہ اپنی اس زبردست تعداد کے ساتھ ایسی مذہبی و معاشرتی صفات کے حامل ہیں کہ ہندوستان کی قومی و وطنی زندگی میں فیصلہ کن اثرات ڈال سکتے ہیں۔ مولانا کا یہ نظریہ تھا کہ اگر آج ہندوستان کے مسلمان ایک الگ ملک حاصل کر ل...
دینِ اسلام کا دوسرا بڑا ماخذ حدیث رسول ﷺ ہے جو بذریعہ وحی آپﷺ کو عطا کیاگیا ۔اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس کی حفاظت کے لیے وہی بڑے اسباب وذرائع پیدا فرمائے جوقرآن حکیم کے لیے پیدا کیے ۔ یعنی حفظ وکتابت نبی اکرم ﷺ نے صحابہ کرام کو اپنی احادیث کو حفظ کرنے اور لکھنے کا حکم بھی دیا۔اور پھر صحابہ کرام کےبعد بھی احادیث کو زبانی یاد کرنے اور لکھنے کا عمل جاری رہا ۔اور اسی طرح صحابہ کرام سےلے کر تدوین حدیث کے دور تک حفاظتِ حدیث یہ کام جاری رہا۔محدثین نے باقاعدہ اسماء علم الرجال کے فن کو وضع کیا اور یہ صرف امت محمد یہ کی خصوصیت ہے۔اس سے پہلے کسی بھی نبی کی امت نے یہ کام سرانجام نہیں دیا کہ ہر حدیث کی سند اور راوی کے حالات قلمبند کیے اور اس میں کمال دیانت داری کا مظاہر ہ کیا ۔بڑے بڑ ے ائمہ محدثین نے اس میں کارہائے نمایاں سر انجام دیے اور بڑی بڑی ضخیم کتب اس فن میں مرتب کیں۔علم حدیث کے ترویج...
تجارت کی غرض سے عرب تاجر ہندوستان کے ساحلوں پر آتے جاتے رہتے تھے اس سلسلے میں ایک بڑی تعداد سری لنکا میں آباد ہو گئی تھی اس کے علاوہ مکران کے ساحلی علاقوں میں بھی عرب مسلم آبادیاں تھیں ایک روایت کے مطابق فتح سندھ سے قبل عرب مسلمان سندھ میں بستے تھے پانچ سو عرب مسلمان مکران سے سندھ میں آکر آباد ہو گئے تھے دیبل کی بندرگاہ کی وجہ سے بھی سندھ میں مسلمان آبادیاں تھیں۔ بعض روایتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ عرب مسلمانوں کا دوسرا مرکز ہندوستان کا وہ آخری کنارہ تھا جس کو ہندوؤں کے پرانے زمانے میں "کیرالہ" کہتے تھے اور بعد کو "ملیبار" کہنے لگے یہاں تجارت کی غرض سے آنے والے بہت سے عرب تاجر بس گئے تھے۔ تجارت کے علاوہ عربوں کے ہندوستان پر حملوں کو بھی تاریخ میں عربوں کی آمد کی وجہ بتایا جاتا ہے۔ زیر تبصرہ کتا ب ’’ہندوستان عربوں کی نظر میں‘‘ ضیاء الدین اصلاحی کی کاوش ہے۔ جسے انہوں نے ہندوستان کے متعلق قدیم عربی مصنفین خصوصاً جغرافیہ نویسوں اور ساحوں کی عربی کتابوں سے استفادہ کر کے اردو میں دو جلدوں میں پیش کیا ہے۔ (م۔ا)
مغلیہ سلطنت 1526ء سے 1857ء تک برصغیر پر حکومت کرنے والی ایک مسلم سلطنت تھی جس کی بنیاد ظہیر الدین بابر نے 1526ء میں پہلی جنگ پانی پت میں دہلی سلطنت کے آخری سلطان ابراہیم ل...
مغلیہ سلطنت 1526ء سے 1857ء تک برصغیر پر حکومت کرنے والی ایک مسلم سلطنت تھی جس کی بنیاد ظہیر الدین بابر نے 1526ء میں پہلی جنگ پانی پت میں دہلی سلطنت کے آخری سلطان ابراہیم ل...
وہابی تحریک در اصل اس تحریک کا نام ہے جو شیخ محمد بن عبدالوہاب النجدی ؒ نے نجد میں چلائی ۔یہ ایک اصلاحی تحریک تھی جس کا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں میں جو غیر ضروری اوہام اور غیر شرعی اعمال و رسوم پیدا ہو گئے ہیں انہیں ختم کر کے دین کو اپنی قدیم سادگی پر واپس لایا جائے اور دین پر مر مٹنے کی جو تمنا صحابہ کرام میں موجود تھی اسے پھر سے زندہ کر دیا جائے۔ظاہر ہے کہ اس مقصد کے حصول میں وہابیوں کو مختلف طاقتوں سے ٹکرانا پڑا اور وہ ٹکرائے۔ہندوستان کی وہابی تحریک کا اس سے حقیقتاً کوئی تعلق نہ تھا۔مگر چونکہ یہ لوگ بھی دینی جذبات سے لبریز تھے ،ان میں بھی روح جہاد کار فرماتھی اوریہ بھی دین کو عہد اول کی سادگی پر واپس لانا چاہتے تھے اس لیے یہ لوگ بھی وہابی مشہور ہو گئے یا دوسروں نے ان کی تحریک کو وہابی تحریک مشہور کر دیا۔زیر نظر کتاب میں اس تحریک کی مفصل تاریخ مستند حوالہ جات کی روشنی میں بیان کی گئی ہے ،جس سے اس کے تمام گوشے نکھر کر سامنے آ جاتے ہیں اور تمام شکو ک و شبہات کا ازالہ ہو جاتا ہے ۔
ہندوستان دنیا کا قدیم ترین ملک ہے ۔ اس ملک کوو ہی قدامت حاصل ہےجو دنیا کے کسی پرانے سے پرانے ملک کو حاصل ہوسکتی ہے۔ ہندوستان کےبارے میں مؤرخوں کی رائے ہے کہ اس ملک کی تہذیب او ر تمدن یونان سے بھی قدیم ہے۔ہندوستان ابتداء ہی ایک نہایت زرخیز ملک ہے ۔ لیکن اس کی زرخیزی اس ملک کے باشندوں کےلیے ہمیشہ مصیبت بنی ر ہے ۔ چنانچہ ہندوستان کے گرد وپیش جب بھی کسی قوم کو ذرا بھی اقتدار حاصل ہوا وہ ہندوستان پر چڑھ دوڑی تاکہ ہندوستان کی زرخیزی سے مالا مال ہو سکے ۔ ہندوستان دنیا کا ایسا خطہ ہے جہاں آٹھویں صدی سے لے کر بیسویں صدی تک دو غیرملکی حکمران، عرب مسلمان اور انگریز(برطانوی) قابض رہے۔ 712 ء میں مسلمان حکمران محمد بن قاسم نے ہندوستان میں قدم رکھا اور 1857 کے غدر کے بعد باقاعدہ مسلمانوں کے اقتدار کا خاتمہ ہوا ۔ برطانوی سامراج جس کی ابتداء 1757 ء کو ہوئی تھی کا خاتمہ 1947 ء کو ہوا۔ محمد بن قاسم نے دمشق میں موجود مسلمان خلیفہ الولید اور بغداد کے گورنر حجاج بن یوسف کی آشیر باد سے، 712 ء میں ہندوستان پر حکمرانی کا آغاز کیا ۔ 1590ء تک مسلمان حکمران...
ہندوستان دنیا کا قدیم ترین ملک ہے ۔ اس ملک کوو ہی قدامت حاصل ہےجو دنیا کے کسی پرانے سے پرانے ملک کو حاصل ہوسکتی ہے۔ ہندوستان کےبارے میں مؤرخوں کی رائے ہے کہ اس ملک کی تہذیب او ر تمدن یونان سے بھی قدیم ہے۔ہندوستان ابتداء ہی ایک نہایت زرخیز ملک ہے ۔ لیکن اس کی زرخیزی اس ملک کے باشندوں کےلیے ہمیشہ مصیبت بنی ر ہے ۔ چنانچہ ہندوستان کے گرد وپیش جب بھی کسی قوم کو ذرا بھی اقتدار حاصل ہوا وہ ہندوستان پر چڑھ دوڑی تاکہ ہندوستان کی زرخیزی سے مالا مال ہو سکے ۔ ہندوستان دنیا کا ایسا خطہ ہے جہاں آٹھویں صدی سے لے کر بیسویں صدی تک دو غیرملکی حکمران، عرب مسلمان اور انگریز(برطانوی) قابض رہے۔ 712 ء میں مسلمان حکمران محمد بن قاسم نے ہندوستان میں قدم رکھا اور 1857 کے غدر کے بعد باقاعدہ مسلمانوں کے اقتدار کا خاتمہ ہوا ۔ برطانوی سامراج جس کی ابتداء 1757 ء کو ہوئی تھی کا خاتمہ 1947 ء کو ہوا۔ محمد بن قاسم نے دمشق میں موجود مسلمان خلیفہ الولید اور بغداد کے گورنر حجاج بن یوسف کی آشیر باد سے، 712 ء میں ہندوستان پر حکمرانی کا آغاز ک...
مسلمانوں میں دینی تعلیم کے اہتمام کا سلسلہ عہد نبوی ہی میں شروع ہوچکا تھا۔ دارارقم ،درس گاہ مسجد قبا ، مسجد نبوی اور اصحاب صفہ کے چبوترہ میں تعلیم وتربیت کی مصروفیات اس کے واضح ثبوت ہیں۔ چوتھی وپانچویں صدی ہجری کی معروف دینی درس گاہوں میں مصر کا جامعہ ازہر ، اصفہان کا مدرسہ ابوبکر الاصفہانی ، نیشاپور کا مدرسہ ابو الاسحاق الاسفرائینی اور بغداد کا مدرسہ نظامیہ شامل ہیں۔غرضیکہ مدارس کی تاریخ وتاسیس کی کڑی عہد رسالت سے جاکر ملتی ہے اور مدارس میں پڑھائی جانے والی کتب حدیث کی سند کا سلسلہ حضور اکرم ﷺ تک پہنچتا ہے۔ برصغیر میں مدارس کا قیام دوسری صدی ہجری یعنی آٹھویں صدی عیسوی میں ہوا۔اور جب دہلی میں مسلم حکومت قائم ہوئی تو دہلی کے علاوہ دوسرے شہروں وقصبوں ودیہاتوں میں کثیر تعداد میں مکاتب ومدارس قائم ہوئے۔ مدارس کے قیام کا بنیادی مقصد کتاب وسنت اور ان سے ماخوذ علوم وفنون کی تعلیم وتعلم ، توضیح وتشریح ، تعمیل واتباع ، تبلیغ ودعوت کے ساتھ ایسے رجال کار پیدا کرنا ہے جو اس تسلسل کو قائم وجاری رکھ سکیں ، نیز انسانوں کی دنیاوی زندگی کی رہنمائی کے ساتھ ایسی کوشش کرنا ہے...
ہندوستان میں مسلم حکمرانی کا آغاز ، برصغیر پاک و ہند میں بتدریج مسلمان فتح کے دوران ہوا ، جس کا آغاز بنیادی طور پر فتح محمد بن قاسم کی زیرقیادت فتح سندھ اور ملتان کے بعد ہوا تھا۔ پنجاب میں غزنویوں کی حکمرانی کے بعد ، غور میں سلطان محمد کو عام طور پر ہندوستان میں مسلم حکمرانی کی بنیاد رکھنے کا سہرا دیا جاتا ہے زیرنظر کتاب’’ہندوستان کے سلاطین علماء اورمشائخ کےتعلقات پر ایک نظر‘‘ سیدصباح الدین عبد الرحمٰن ایم اے کی مرتب شدہ ہے۔فاضل مرتب نے اس کتاب میں اسلامی ہند کی مذہبی،ذہنی اور فکری تاریخ پر اجمالی تبصرہ کیا ہے۔(م۔ا)
ہندوستان میں مسلمان آباد ہوئے تو شاید ہی کوئی ایسی جگہ ہو جہاں ان کے پڑوسی غیر مسلم نہ ہوں۔ روز مرہ زندگی میں ان سے برابر سابقہ رہا اسلام میں پڑوسیوں کے حقوق کی بڑی اہمیت ہے۔ ہندوستان میں مسلمان حکمرانوں کے عہد میں صرف لڑائیاں ہی نہیں ہوتی رہیں بلکہ ان کے یہاں روادای ، فراخ دلی اور انسان دوستی بھی ر ہی ۔ او رمسلمانوں کا یہ عقیدہ رہا ہے کہ رہا ہے کہ حکومت الحاد ، بے دینی کفر اور شرک کے ساتھ تو عرصۂ دراز تک قائم رہ سکتی ہے مگر جبر،ظلم اور چیرہ دستی سے قرار نہیں رکھی جاسکتی ہے ۔ اسی لیے ہندوستان کے مسلمان فرمان رواؤں نےاپنے دورِ حکومت میں عدل وانصاف پر ہرزمانہ میں زور دیا ۔ یہ عدل پسندی اور انصاف پروری رواداری اور فراخ دلی کے بغیر عمل میں نہیں آسکتی ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ ہندوستان کےعہد ماضی میں مسلمانوں حکمرانوں کی مذہبی رواداری ‘‘ سید صباح الدین عبد الرحمٰن(مصنف کتب کثیرہ کی دو جلدوں پر مشتمل تصنیف ہے۔بنیادی طور پر اس کتاب...
آج کل یوں تو پورا عالم اسلام استعمار اور دشمنوں کی سازشوں کےچنگل میں نظرآرہاہے لیکن دنیاکی سب سےبڑی جمہوریت کادعوی کرنےوالے ہندوستانی سیاستدان بھی آئے روزمسلمانوں کوہراساں کرنے اور انہیں طرح طرح سے خوف و وحشت میں مبتلا کرنےکی سازشیں رچاتےرہتےہيں۔اوریوں ہندوستان کےعوام اور اس کےاندر پائی جانےوالی سب سےبڑی اقلیت فی الحال بےشمارمسائل کاشکار ہے۔اوراس کاسب سےبڑا ثبوت ہندوستان میں ہرسطح پر مسلمانوں کوہراساں کئےجانےکےلئےکھیلاجانےوالا کھیل اور تمام اہم قومی وسرکاری اداروں سے ان کی بیدخلی ہے۔ہندوستان میں مسلمان دوسری سب سے بڑی قوم ہیں۔ یہاں ان کی تعداد تقریبا 30 کروڑ ہے۔پورے ہندوستان میں مسجدوں کی تعداد اگر مندروں سے زیادہ نہیں تو کسی طرح کم بھی نہیں ہے ۔ ایک سے ایک عالیشان مسجد جن میں دلی کی جامع مسجد بھی شامل ہے ، اس مسجد کو شاہی مسجد بھی کہا جاتا ہے ۔ان تمام مساجد میں پانچوں وقت اذان دی جاتی ہے ۔لیکن اس کے باوجودمسلمانوں کو ہر میدان سے باہر کیا جارہا ہے اور انہیں غربت،افلاس اور کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ وہ تعلیم میں، تجارت میں، ملازمت میں، ص...
ہندوستان دنیا کا ایسا خطہ ہے جہاں آٹھویں صدی سے لے کر بیسویں صدی تک دو غیرملکی حکمران، عرب مسلمان اور انگریز(برطانوی) قابض رہے۔ 712 ء میں مسلمان حکمران محمد بن قاسم نے ہندوستان میں قدم رکھا اور 1857 کے غدر کے بعد باقاعدہ مسلمانوں کے اقتدار کا خاتمہ ہوا۔ برطانوی سامراج جس کی ابتداء 1757 ء کو ہوئی تھی کا خاتمہ 1947 ء کو ہوا۔ محمد بن قاسم نے دمشق میں موجود مسلمان خلیفہ الولید اور بغداد کے گورنر حجاج بن یوسف کی آشیر باد سے، 712 ء میں ہندوستان پر حکمرانی کا آغاز کیا۔ 1590ء تک مسلمان حکمران شہنشاہ اکبر تقریباً پورے ہندوستان پر قابض ہو چکا تھا۔ اورنگ زیب کے دور (1657-1707) میں اس سلطنت میں کچھ اضافہ ہوا۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ہندوستان کے مسلمان حکمرانوں کے عہد کے تمدنی کارنامے‘‘ دار المصنفین شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ کے رفقاء کی مرتب کردہ ہے۔ اس کتاب میں سلاطین دہلی اور شاہان مغلیہ کے عہد کے فن تعمیر، رفاہ عام کے کام، شہروں اور گاؤں کی آبادی، باغات، ترقی حیوانات، ترقی تعلیم، کاغذ سازی، کتب خانے او رخطاطی وغیرہ پر تفصیلیر و شنی ڈالی گئی ہے۔ (م۔ا)
یہ حقیقت ہے کہ مسلمان ہندوستان میں ابھر نہیں سکے۔ وہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ آزادی کے بعد سے آج تک جس قدر مسائل سے ہندوستانی مسلمان دوچار رہے ہیں، کوئی اور قوم ان حالات سے گزرتی تو ممکن تھا کہ وہ اپنا وجود ہی خطرہ میں ڈال چکی ہوتی۔ اُس کی شناخت ختم ہو جاتی اور اس کے عقائد بگڑ جاتے۔ لیکن غالباً یہ مسلمانوں کی خود کی کوشش کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ خدا برحق کی مصلحت ہے کہ مسلمان ہندوستان میں نہ صرف باقی رہیں بلکہ اپنی مکمل شناخت اور عقائد و افکار میں بھی وہ نمایاں حیثیت برقرار رکھیں۔۱۸۵۷ء کے بعد کے ہندوستانی مسلمانوں کی، اس وقت کی کسی حد تک تصویر کشی ڈاکٹر سرولیم ہنٹر کی کتاب’ ’ہمارے ہندوستانی مسلمان‘‘ میں تلاش کی جاسکتی ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ ہمارے ہندوستانی مسلمان‘‘ڈاکٹر سرولیم ہنٹر کی انگریزی کتاب OUR INDIAN MUSLMANS کا اردو ترجمہ ہے۔ 1944ء میں جب مترجم کتاب جناب صادق حسین نے اس کتاب کاترجمہ کیا تو اس وقت ہندوستان میں تحریک آزادی پورے شباب پر تھی۔ڈاکٹر سرولیم ہنٹر نےکتاب کے چوتھے باب میں مسلمانوں کی اقتصادی حالت او...
زندہ رہنےکی خواہش کاسب سے بڑا مظہر یادگاریں بنانا اور یاد منانا ہے یادگاریں بنانے کاسلسلہ سیدنا نوح سے قبل کے زمانے میں اس وقت شروع ہوا جب یغوث ،یعوق ،ودّ، سواع اور نسر نامی اللہ کےنیک بندے وفات پاگئے۔جب ان کی وفات کے بعد لوگوں کو ان کی یاد ستانے لگی تو شیطان نے ان دلوں میں یہ بات ڈال دی کہ کیوں نہ ان کی تصویر یا مجسمہ بنالیا جائے ۔ تاکہ ان کی یاد کوباقی رکھا جاسکے۔تو ان مجسموں کے ساتھ آہستہ آہستہ وہی سلوک کیا جانے لگا جودورِ حاضر میں مزاروں ،بتوں اور محترم شخصیات سے منسوب اشیاء وآثار کےساتھ کیا جارہا ہے اس طرح دنیا میں سب سے پہلے شرک کی بنیاد رکھ دی گئی۔نبی کریم ﷺ نے یادگار یں مٹانے کے لیے باقاعدہ صحابہ کرام کوبھیجا اور صحابہ کرام نے بھی اپنے اپنے دور ِخلافت میں وہ یادگاریں جو شرک کے گڑھ تھے ،قبریں جوباقاعد پوجی جاتی تھیں اورتصوریں جو شرک کادروازہ کھولتی&n...