سلطنت عثمانیہ یا خلافت عثمانیہ سن 1299ء سے 1922ء تک قائم رہنے والی ایک مسلم سلطنت تھی جس کے حکمران ترک تھے۔ اپنے عروج کے زمانے میں (16 ویں – 17 ویں صدی) یہ سلطنت تین براعظموں پر پھیلی ہوئی تھی اور جنوب مشرقی یورپ، مشرق وسطٰی اور شمالی افریقہ کا بیشتر حصہ اس کے زیر نگیں تھا۔ اس عظیم سلطنت کی سرحدیں مغرب میں آبنائے جبرالٹر، مشرق میں بحیرۂ قزوین اور خلیج فارس اور شمال میں آسٹریا کی سرحدوں، سلوواکیہ اور کریمیا (موجودہ یوکرین) سے جنوب میں سوڈان، صومالیہ اور یمن تک پھیلی ہوئی تھی۔ مالدووا، ٹرانسلوانیا اور ولاچیا کے باجگذار علاقوں کے علاوہ اس کے 29 صوبے تھے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’دولت عثمانیہ ‘‘دار المصنفین شبلی اکیڈمی ،اعظم گڑھ ہند کے رفیق خاص جناب ڈاکٹر محمد عزیر کی تصنیف ہے ۔ بقول سید سلیمان ندوی (سابق ناظم دارالمصنفین)یہ کتاب اپنی تصنیف کے وقت دولت عثمانیہ کے تاریخ کے متعلق تحریری کی جانی والی اردو زبان میں پہلی کتاب تھی ۔اس سے پہلے دولت عثمانیہ کے متعلق جوکچھ لکھا گیا وہ محض پورپین مصنفین کے تراجم اورخیالات تھے ۔ لیکن مصنف کتاب...
ابو الاثر حفیظ جالندھری پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو کے نامور مقبول رومانی شاعر اور افسانہ نگار تھے جنہوں نے پاکستان کے قومی ترانہ کے خالق کی حیثیت سے شہرتِ دوام پائی موصوف ہندوستان کے شہر جالندھر میں 14 جنوری 1900ء کو پیدا ہوئے۔ آزادی کے وقت 1947ء میں لاہور آ گئے۔ آپ نے تعلیمی اسناد حاصل نہیں کی، مگر اس کمی کو انہوں نے خود پڑھ کر پوری کیا۔ آپ نے محنت اور ریاضت سے نامور شعرا کی فہرست میں جگہ بنالی۔ حفیظ جالندھری گیت کے ساتھ ساتھ نظم اور غزل دونوں کے قادرالکلام شاعر تھے۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ زیر نظر کتاب ’’ شاہنامہ اسلام‘‘ ہے ۔ اس میں انہوں نے اسلامی روایات اور قومی شکوہ کا احیا کیا جس پر انہیں فردوسی اسلام کا خطاب دیا گیا۔یہ کتاب اسلام کی منظوم تاریخ ہے اس کتاب کا بیشتر حصہ اس عہد عہد زریں سےتعلق رکھتا ہے جب اسلام کےہادی اعظم اپنے جمالِ جہاں آراسے دنیا کو نورانی کررہے تھے۔(م۔ا)
نبیﷺ کے جانثار صحابہ کرامؓ جنہیں انبیائے کرام کے بعد دنیا کی مقدس ترین ہستیاں ہونے کا شرف حاصل ہے۔ جن کے بارے میں قرآں کریم کی ؓورضوا عنہ کی ضمانت موجود ہے اور جنہیں آقا دو جہاں ﷺ نے اصحابی کالنجوم فرما کر ستاروں کی مانند قرار دیا ہے‘ روئے زمین پر وہ مبارک ہستیاں تھی جن کی سانس قرآن وسنت کی معطر خوشبووں سے لبریز تھیں اور جن کا ہر ہر لمحہ قال اللہ وقال الرسول کی مکمل عکاسی کرتا تھا۔ ایسی شخصیات اور ان کے عہد کا تعارف اور ان کے کارنامے عوام تک پہنچانا قابل تعریف اور قابل سعادت ہے کیونکہ وہ ہمارے رہنماء تھے اور دین کو ہم تک پہنچانے میں انہوں نے بہت سے قربانیاں پیش کی ہیں۔ زیرِ تبصرہ کتاب میں صحابہؓ کے عہد زریں کا ہی تذکرہ کیا گیا ہے۔ اس میں اسلوب سادہ اور عام فہم اپنایا گیا ہےاور ترتیب ایسی دی گئ ہے کہ کوئی مضمون چھوٹنے نا پائے اور دور حاضر کے تقاضوں کے مطابق بھی ہے۔اور اہم باتوں کی وضاحت اور تفصیل کے لیے حاشیہ کی مدد لی گئی ہے ۔ اس کتاب کے مطالعے سے عوام کم وقت میں زیادہ معلومات حاصل کر سکتے ہیں ۔ یہ کتاب’’ صحابہ کرامؓ...
مسلمان قوم کی تاریخ فرقوں کی بہتات کی وجہ سے بے پناہ تحریف کا شکار رہی، کیونکہ ہر فرقہ اس کوشش میں رہا کہ وہ اپنوں کی شان بڑھائے اور دوسروں کو گرائے۔ ان کے اس طرز عمل سے عظیم ترین ہستیوں کی تاریخ میں شگاف پیدا ہوگئے۔ مسلمان قوم میں سے چند لوگوں نے حضرت علی المرتضی ؓسے اس قدر غلو آمیز محبت کی کہ آپ کی طرف ایسی باتیں منسوب کر دیں جو اصل واقعات اور تاریخ سے میل نہیں رکھتیں اور اسی دوران دوسرے صحابہ کرام کی شان گھٹانے کی ناکام کوششیں کیں اور انھیں حضرت علی کا حق غصب کرنے، ان پر ظلم کرنے نیز اپنے حق میں برا بیج بونے والوں کے روپ میں پیش کیا۔ اس ضمن میں اگرچہ اہل السنت والجماعۃ کی طرف سے اگرچہ کافی کام ہوا ہے لیکن ڈاکٹر عثمان بن محمد ناصری حفظہ اللہ نے زیر نظر کتاب کی صورت میں بعثت رسولﷺ سے سانحہ کربلا تک صحابہ کرام کے فضائل اور جس انداز میں ان کی عدالت پر اعتراضات کے جوابات دئیے ہیں اس طریق پر اس سے قبل کام سامنے نہیں آیا۔ کتاب کا سلیس اردو ترجمہ ابو مسعود عبدالجبار سلفی نے بہت ہی خوبصورت انداز میں کیا ہے۔ کتاب کو چار فصول میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلی فصل مطالعہ تاریخ کی کیفیت، امام طبر...
حفاظتِ حدیث کے نقطہ نگاہ سے جب رویانِ حدیث کی جانچ پڑتال شروع ہوئی توان کے عہد اور ان کی معاصرت کی تلاش شروع ہوئی۔ اس طرح علم طبقات الرجال وجود میں آیا۔ تذکرہ رجال کی قدیم ترین کتابوں میں سے ایک مہتم بالشان کتاب ’طبقات الکبیر‘ کا اردو قالب اس وقت آپ کے سامنے ہے۔ نہ صرف یہ کہ یہ کتاب ایک بہت ہی وسیع تذکرہ ہے بلکہ ایسے جزئی واقعات پر بھی اس کا احاطہ ہے جن کے ذکر سے دوسری کتب خالی ہیں۔ ’طبقات ابن سعد‘ کی ترتیب طبقات پر ہے۔ مصنف سب سے پہلے محمد رسول اللہﷺ کی سیرت طیبہ بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ ایک ایک چیز کے لیے متعدد روایتیں پیش کرتے ہیں۔ عہد رسالت کے بعد وہ ایک ایک مقام کی تعیین کے ساتھ وہاں کے رہنے والے صحابہ کرام اور تابعین کے حالات طبقہ بہ طبقہ بیان کرتے ہیں۔ ابن سعد سب سے پہلے بدری صحابی کا ذکرکرتے ہیں اس کے بعد سابقون الاولون کا پھر مدینہ منورہ کے دیگر صحابہ کا اس کے بعد مدینہ منورہ کے تابعین کا۔ اس کے بعد اسی ترتیب کے بموجب بصریین، کوفیین اور دیگر مقامات میں رہنے والے صحابہ و تابعین کا طبقات پر مرتب تذکرہ اس کتاب میں ملتا ہے۔ آخری حصہ خواتین کے تذک...
زیر نظر کتاب تاریخ اسلامی کا بہت وسیع ذخیرہ اور تاریخی اعتبار سے ایک شاندار تالیف ہے جس میں مصنف نے بہت عرق ریزی سے کام لیا ہے۔واقعات کو بالاسناد ذکر کیا ہے جس سے محققین کے لیے واقعات کی جانچ پڑتال اور تحقیق سہل ہو گئی ہے۔یہ کتاب سیرت رسول ﷺ اور سیر صحابہ وتابعین پر یہ تالیف سند کی حیثیت رکھتی ہے اور سیرت نگاری پر لکھی جانے والی کتب کا یہ اہم ماخذ ہے المختصر سیرت نبوی اور سیرت صحابہ وتابعین پر یہ ایک عمدہ کتا ب ہے ۔جس کا مطالعہ قارئین کو ازمنہ ماضیہ کی یاد دلاتا ہےاور ان عبقری شخصیات کے کارہائے نمایاں قارئین میں دینی ذوق ،اسلامی محبت اور ماضی کی انقلابی شخصیات کے کردار سے الفت و یگانگت پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں۔لہذا فحش لٹریچر ،گندے میگزین اور ایمان کش جنسی ڈائجسٹ کی بجائے ایسی تاریخی کتب کا مطالعہ کرنا چاہیے جو شخصیات میں نکھار ،ذوق میں اعتدال ،روحانیت میں استحکام اور دین سے قلبی لگاؤ کا باعث بنیں ۔
سائنس کی تنظیم و تٰرقی کی تاریخ ایک مثبت اور باقاعدہ علم ہے۔ ایسے مثبت علم کی تحصیل میں انسان کی مساعی سے ہر وقت اضافہ ہی ہوتا آ رہا ہے۔ کار ہائے صناعی و فنون لطیفہ کا مطالعہ ہم ان اقوام کی ذہنیت سے واقف کراتا ہے جو ان کے بانی ہیں۔اقوام عالم کے ادیان و مذاہب کے ارتقاء کی جانچ بھی انسان کے لیے نہایت ضروری مشغلہ ہے۔ حال تک لوگ سائنس کو دینیات ہی کا ایک جزو تصور کرتے تھے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’عظیم مسلمان دانشور‘‘مولوی عبد الرحمٰن (صدر حیدر آباد اکیڈمی، سابق پرنسپل عثمانیہ یونیورسٹی کالج) کی ہے۔ جس میں 1950ء میں قرون وسطیٰ کے مسلمانوں کی علمی خدمات کو اجاگر کیا گیا ہے۔مزیدساتویں صدی عیسوی سے لے کر تیرہویں صدی عیسوی تک تمام سائنسی ادوار، شخصیات اور علمی خدمات کو انتہائی تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔یہ کتاب علمی لحاظ سے انتہائی مفید ہےجس کے مطالعہ سے ہمارے دلوں میں جذبات پیدا ہوں گے کہ ہم بھی اپنے سابقہ عظیم شخصیات کی طرح نئے نئے کام سر انجام دیں۔ ہم مصنف اور دیگر ساتھیوں کے لئے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی محنتوں اور کاوشوں کو قبول فرمائے او...
مذہب و سیاست حقیقتاً ایک دوسرے کے حریف نہیں ہیں بلکہ حلیف ہیں ان کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ لیکن جب دونوں کے استعمال اور طریق استعمال میں توازن برقرار نہ رہے اور باہمی کشش ختم ہو جائے تو یقیناً دونوں کے کردار مختلف شکلوں میں نمودار ہوتے ہیں۔ ’لا مذہبی دور کا تاریخی پس منظر‘ مولانا تقی امینی کی ایک شاندار کاوش ہے جس میں لا مذہی دور کی اجمالی تاریخ بیان کی گئی ہے تاکہ اس کے ذریعے مذہب کی نشأۃ ثانیہ کے نوک پلک درست کرنے میں سہولت ہو۔ چونکہ نئے دور کا آغاز اور لا مذہبی نظریات کے فروغ کا زیادہ تعلق یورپ سے وابستہ ہے اس لیے وہیں کے حالات بیان کرنے پر اکتفا کیا گیا ہے۔ ابتدا میں وحی الٰہی کی روشنی میں چند اثرات ذکر کیے گئے ہیں کہ خواہشات و اغراض کو غلبہ ہو کر جب مذہب کی متحرک اور مستقل حیثیت باقی نہیں رہتی ہے تو زندگی میں اس قسم کے اثرات ہوتے ہیں۔ اس سلسلہ میں یہود و نصاریٰ کے حالات سے زیادہ مدد لی گئی ہے۔(ع۔م)
مالا کنڈ ڈویژن میں صوفی محمد نے تحریک نفاذ شریعت محمدی کی بنیاد رکھی بعد ازاں صوفی محمد کے منظر عام سے ہٹ جانے کے بعد اس کے داماد فضل اللہ نے اس تحریک کوسنبھالا اور سوات میں اپنی ایک متوازی حکومت قائم کرلی جو 2009 کے فوجی آپریشن کے شروع ہونے سے قبل یہاں کی سیاہ و سفید کی مالک تھی ۔ مسلم خان اس تحریک کا ترجمان تھا جس کو ستمبر 2009 میں پاک فوج نے گرفتار کر لیا۔ اس تحریک کے خلاف ہونے والی فوج...
پروفیسر ڈاکٹر جمیلہ شوکت (پ:1941ء) نے پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے (عربی، اسلامیات، تاریخ) کیا ۔ اور ’مسندِ عائشہ ؓ‘ پر تحقیق کے اعتراف میں کیمبرج یونیورسٹی، برطانیہ نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری عطا کی۔ بطور استاد، ادارہ علوم اسلامیہ، پنجاب یونیورسٹی میں تدریس سے وابستہ (1966ء۔2000ء) رہیں اور بطور پروفیسر سبک دوش ہوئیں۔ ادارہ علوم اسلامیہ پنجاب یونیورسٹی کی چیئرپرسن، شیخ زاید اسلامک سینٹر کی ڈائریکٹر اور پنجاب یونیورسٹی فیکلٹی آف اسلامک اینڈ اورینٹل لرننگ کی ڈین کے طور پر خدمات انجام دیں۔ بطور نگران 50 سے زیادہ پی ایچ ڈی اور 20 سے زیادہ ایم فل تحقیق کاروں کو رہنمائی دی۔ لاہور کالج یونیورسٹی برائے خواتین میں بھی تدریسی خدمات انجام دیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل حکومتِ پاکستان کی رکن رہیں۔ پنجاب یونیورسٹی کے تین تحقیقی مجلوں: مجلہ تحقیق، الاضواء، القلم کی مدیراعلیٰ رہیں۔ 30 سے زائد تحقیقی مقالات اردو، عربی، انگریزی میں شائع ہوئے۔ پنجاب یونیورسٹی نے ان کی مثالی خدمات کے اعتراف میں پروفیسر ایمریطس مقرر کیا ہے۔ ایم اے عربی میں اندلس ک...
مسلمانوں نے اپنے ابتدائی ہزار سالہ دورحکومت میں سائنسی، سیاسی، طبی اور علمی چور پر ہر میدان میں دنیا کی راہنمائی کی اور انہیں علم وحکمت کے نئے نئے نادر تحفے عطا کئے۔ سائنس کو مذہب کا حریف سمجھا جاتا ہے،لیکن یہ ایک غلط فہمی ہے۔دونوں کا دائرہ کار بالکل مختلف ہے ،مذہب کا مقصد شرف انسانیت کا اثبات اور تحفظ ہے۔وہ انسان کامل کا نمونہ پیش کرتا ہے،سائنس کے دائرہ کار میں یہ باتیں نہیں ہیں،نہ ہی کوئی بڑے سے بڑا سائنس دان انسان کامل کہلانے کا مستحق ہے۔اسی لئے مذہب اور سائنس کا تصادم محض خیالی ہے۔مذہب کی بنیاد عقل وخرد،منطق وفلسفہ اور شہود پر نہیں ہوتی بلکہ ایمان بالغیب پر زیادہ ہوتی ہے۔اسلام نے علم کو کسی خاص گوشے میں محدود نہیں رکھا بلکہ تمام علوم کو سمیٹ کر یک قالب کر دیا ہےاور قرآن مجید میں قیامت تک منصہ شہود پر آنے والے تمام علوم کی بنیاد ڈالی ہے۔چنانچہ مسلمانوں نے تفکر فی الکائنات اور حکمت تکوین میں تامل وتدبر سے کام لیا اور متعددسائنسی اکتشافات سامنے لائے ۔تاریخ میں ایسے بے شمار مسلمان سائنسدانوں کے نام ملتے ہیں،جنہوں نے بے شمار نئی نئی...
آج جو سائنس اہلِ مغرب کے لیے نقطہِ عروج سمجھی جا رہی ہے اور جس نے مسلمانوں کی نظروں کو خیرہ کر کے انہیں احساسِ کمتری کا شکار بنادیا ہے، انہیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اس برگ وبار کو ان کے اسلاف ہی نے کئی صدیوں تک اپنے خونِ جگر سے سینچ کر پروان چڑھایا ہے۔ یہ سائنس جس کے برگ وبار سے دنیا آج لطف اندوز ہورہی ہے اور جو دیگر ضروریاتِ زندگی کی طرح انسانی زندگی کا ایک اٹوٹ حصہ اور لازمہ بن چکی ہے، اس کی تخم ریزی ہمارےمسلمان اباء ہی نے بدستِ خویش کی تھی۔سائنس کی دنیا میں اقوامِ عالم نے ہمارے ہی بزرگوں کی انگشت پکڑ کر چلنا سیکھا ہے۔ سائنس جس پر آپ اہلِ مغرب کی اجارہ داری ہے یہ درحقیقت مسلم خانوادے کی چشم وچراغ ہے، اغیار کے گھرانے اس کے لیے بانجھ تھے۔ اہلِ یونان صرف اس کی تمنا ہی گوشہِ جگر میں پال سکتے تھے کیونکہ ان کے یہاں اس کی تخم پاشی کے لیے سرے سے عوامل ہی ناپید تھے اور یورپ میں حال یہ تھا کہ وہاں ایسی اولاد کی تمنا حاشیہِ خیال میں لانا بھی جرم تھا۔ اگر کوئی اس کی خواہش بھی کرتا تو کلیسا کی آگ میں جلا کر خاکستر کردیا جاتا۔ سائنس اپنے وجود کی...
مؤرخین کی جانب سے تاریخ اسلام پر متعدد کتب سامنے آ چکی ہیں لیکن ایسی کتب معدودے چند ہی ہیں جن میں ایسے اصولوں کی وضاحت کی گئی ہو جن کی روشنی میں معلوم کیا جا سکے کہ بیان کردہ تاریخی واقعات کا تعلق واقعی حقیقت کے ساتھ ہے۔ علامہ ابن خلدون نے تاریخ اسلام پر ’کتاب العبر و دیوان المبتداء والجز فی ایام العرب والعجم والبریر‘ کے نام سے ایک شاندار کتاب لکھی اور اس کے ایک حصے میں وہ اصول اور آئین بتائے جن کے مطابق تاریخی حقائق کو پرکھا جا سکے۔ انہی اصول وقوانین کا اردو قالب ’مقدمہ ابن خلدون‘ کے نام سے آپ کے سامنے ہے۔ کتاب کے رواں دواں ترجمے کےلیے علامہ رحمانی کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔ مقدمے کی تقسیم چھ ابواب اور دو جلدوں میں کی گئی ہے۔ دونوں جلدیں تین، تین ابواب پر محیط ہیں۔ پہلے باب میں زمین اور اس کے شہروں کی آبادی، تمول و افلاس کی وجہ سے آبادی کے حالات میں اختلاف اور ان کے آثار سے بحث کی گئی ہے۔ دوسرے باب میں بدوی آبادی اوروحشی قبائل و اقوام پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ تیسرے باب میں دول عامہ، ملک، خلافت اور سلطانی مراتب کو قلمبند کرتے ہوئے کسی ب...
اسلامی تاریخ مسلمانوں کی روشن اور تابندہ مثالوں سے بھری پڑی ہے۔لیکن افسوس کہ آج کا مسلمان اپنی اس تاریخ سے کٹ چکا ہے۔اپنی بد اعمالیوں اور شریعت سے دوری کے سبب مسلمان آج پوری دنیا میں ذلیل ورسوا ہو رہے ہیں۔اور ہر میدان میں انہیں شکست وہزیمت کا سامنا ہے ۔ تاہمصدر اسلام میں جب خلفائے راشدین تاریخ اسلام کے ابواب صفحہ ہستی پر منقوش کر رہے تھے تو عجمی دسیسہ کار تاریخ اسلام کے ان زریں اور تابناک ابواب کو مسخ کرنے کی کوششوں میں مصروف تھے۔ہمارا ایمان ہے کہ نبی کریم ﷺ کی ازواج مطہرات تمام صنف اناث میں ہی نہیں بلکہ انبیائے کرام کے بعد تمام انسانوں سے شرف مجد میں بلند ترین مقامات پر فائز تھیں۔مگر عجمیت کے شاطر،عیار، اورخبیث افراد نے بظاہر اسلام کا لبادہ اوڑھ کر بڑی چابکدستی سے اسلام کو نیست ونابود کرنے کے لئے ایک لائحہ عمل مرتب کیا اور امہات المومنین پر طرح طرح کے بہتانات لگائے۔
زیر تبصرہ کتاب ’’ ملت اسلامیہ کی مختصر تاریخ‘‘ ثروت صولت کی کاوش ہے۔ جس میں ملت اسلامیہ کی پوری تاریخ کو اسلامی نقطۂ نظر سے پرکھ کر پیش کیا ہے اور اس میں امت مسل...
اللہ رب العزت نے اپنے بندوں کی رشد و ہدایت کے لیے انبیاء کرام و رسل عظام کی ایک برزگزیدہ جماعت کو مبعوث فرمایا۔ اس مقدس و مطہر جماعت کو کچھ ایسے حواری اور اصحاب بھی عنائت کیے جو انبیاء کرام کی تصدیق و حمایت کرتے۔ اللہ رب العزت نے سید الاوّلین و الآخرین حضرت محمد ﷺ کو صحابہ کرام کی ایک ایسی جماعت عطا فرمائی جن کے بارے میں اللہ کی یہ مشیت ہوئی کہ وہ خاتم النبیین سے براہ راست فیض حاصل کریں اور رسول اللہ ﷺ خود ان کا تزکیہ نفس کرتے ہوئے کتاب و حکمت کی تعلیم دیں۔ اور یہ وہ مقدس نفوس تھے جن کا ذکر قرآن مجید اور دیگر آسمانی کتب میں بھی اللہ رب العزت نے فرمایا اورنبی کریم ﷺ نے" خیر امتی قرنی" کے مقدس کلمات سے نوازہ۔ تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ ایک مسلمان کامیابی اور فتح و نصرت کے لیے کبھی ظاہری وسائل پر اعتماد نہیں کرتا بلکہ اسباب کی بجائے اسباب کے رب پر اعتماد کرتے ہوئے آتش نمرود میں کود کر تاریخ کے ماتھے کا جھومر بن جاتا ہے۔ دین حنیف کی سر بلندی کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہر دور میں کچھ ایسے افراد کو پیدا کیا کہ حق گوئی، بے باکی جن کا خاصہ تھی جو جابر و...
اپنے وسیع تر مفہوم میں ہر وہ تحریر جو کسی شکل میں محفوظ کی گئی ہو کتاب کہلاتی ہے۔ گویا مٹی کی تختیاں، پیپرس کے رول، اور ہڈیاں جن پر تحریر محفوظ ہے کتاب ہے؛ یہ چمڑے یا جھلی پر بھی ہو سکتی ہے اور کاغذ پر بھی۔ کتاب لکھے اور چھاپے گئے کاغذوں کے مجموعہ کو کہتے ہیں ، جن کی جلد بندی کی گئی ہواور انھیں محفوظ کرنے کے لیے جلد موجود ہو۔موجودہ دور میں طرزیات اور سائنس کی ترقی کی بدولت کتاب صرف کاغذ پر چھپی تحریر ہی نہیں رہی، بلکہ اب کتاب ای بک کرئیٹر [انٹرنیٹ]] اور بک ریڈر کے ذریعے ڈیجیٹل ہو چکی ہے۔ کتابوں کے شوقین یا کتابیں زیادہ پڑھنے والے کو عموماً ، کتابوں کا رَسیا یا کتابوں کا کیڑا کہاجاتا ہے۔ زیرِ تبصرہ کتاب ’’ کتاب المعارف ‘‘ابی محمد بن عبد اللہ بن مسلم ابن قتیبہ الدینوری (213ھ۔ 276ھ)کی ہے جس کا اردو ترجمہ پروفیسر علی محسن صدیقی نے کیا ہے۔ جس میں تخلیق کائنات و تذکرہ انبیاء، انساب عرب، آپ ﷺ کی اہمیت و فضیلت کو بیان کیا گیا ہے۔اور آپﷺ کی پیدایش سے لے کر وفات تک کے تمام واقعات، غزوات ، خلفائے راشدین اور صحابہ کرام کی جانثاری کو بیان کیا گی...
تاریخی حقائق اس بات کے گواہ ہیں کہ جب قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں نے اسلامی اصولوں کو اپنا شعاربنا کر عملی میدان میں قدم رکھا تو دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا کو زیر نگین کرلیا۔مسلمان دانشوروں ، سکالروں اور سائنسدانوں نے علم و حکمت کے خزانوں کو صرف اپنی قوم تک محدود نہیں رکھابلکہ دنیا کی پسماندہ قوموں کو بھی استفادہ کرنے کا موقعہ فراہم کیا۔ چنانچہ اُس وقت کی پسماندہ قوموں نے جن میں یورپ قابل ذکر ہے مسلمان سکالروں سے سائنس اورفلسفہ کے علوم حاصل کئے۔یورپ کے سائنسدانوں نے اسلامی دانش گاہوں سے باقاعدہ تعلیم حاصل کرلی اور یورپ کو نئے علوم سے روشناس کیا۔حیرت کی بات ہے کہ وہی مسلم ملت جس نے دنیا کو ترقی اور عروج کا سبق پڑھایا آج انحطاط کا شکار ہے۔ جس قوم نے علم و حکمت کے دریا بہا دیئے آج ایک ایک قطرے کے لئے دوسرے اقوام کی محتاج ہے۔ وہی قوم جو دنیا کی عظیم طاقت بن کر ابھری تھی آج ظالم اور سفاک طاقتوں کے سامنے بے بس نظر آرہی ہے۔ یہ اتنا بڑا تاریخی سانحہ ہے جس کے مضمرات کاجاننا امت مس...
آج کل یوں تو پورا عالم اسلام استعمار اور دشمنوں کی سازشوں کےچنگل میں نظرآرہاہے لیکن دنیاکی سب سےبڑی جمہوریت کادعوی کرنےوالے ہندوستانی سیاستدان بھی آئے روزمسلمانوں کوہراساں کرنے اور انہیں طرح طرح سے خوف و وحشت میں مبتلا کرنےکی سازشیں رچاتےرہتےہيں۔اوریوں ہندوستان کےعوام اور اس کےاندر پائی جانےوالی سب سےبڑی اقلیت فی الحال بےشمارمسائل کاشکار ہے۔اوراس کاسب سےبڑا ثبوت ہندوستان میں ہرسطح پر مسلمانوں کوہراساں کئےجانےکےلئےکھیلاجانےوالا کھیل اور تمام اہم قومی وسرکاری اداروں سے ان کی بیدخلی ہے۔ہندوستان میں مسلمان دوسری سب سے بڑی قوم ہیں۔ یہاں ان کی تعداد تقریبا 30 کروڑ ہے۔پورے ہندوستان میں مسجدوں کی تعداد اگر مندروں سے زیادہ نہیں تو کسی طرح کم بھی نہیں ہے ۔ ایک سے ایک عالیشان مسجد جن میں دلی کی جامع مسجد بھی شامل ہے ، اس مسجد کو شاہی مسجد بھی کہا جاتا ہے ۔ان تمام مساجد میں پانچوں وقت اذان دی جاتی ہے ۔لیکن اس کے باوجودمسلمانوں کو ہر میدان سے باہر کیا جارہا ہے اور انہیں غربت،افلاس اور کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ وہ تعلیم میں، تجارت میں، ملازمت میں، ص...
ہندوستان دنیا کا ایسا خطہ ہے جہاں آٹھویں صدی سے لے کر بیسویں صدی تک دو غیرملکی حکمران، عرب مسلمان اور انگریز(برطانوی) قابض رہے۔ 712 ء میں مسلمان حکمران محمد بن قاسم نے ہندوستان میں قدم رکھا اور 1857 کے غدر کے بعد باقاعدہ مسلمانوں کے اقتدار کا خاتمہ ہوا۔ برطانوی سامراج جس کی ابتداء 1757 ء کو ہوئی تھی کا خاتمہ 1947 ء کو ہوا۔ محمد بن قاسم نے دمشق میں موجود مسلمان خلیفہ الولید اور بغداد کے گورنر حجاج بن یوسف کی آشیر باد سے، 712 ء میں ہندوستان پر حکمرانی کا آغاز کیا۔ 1590ء تک مسلمان حکمران شہنشاہ اکبر تقریباً پورے ہندوستان پر قابض ہو چکا تھا۔ اورنگ زیب کے دور (1657-1707) میں اس سلطنت میں کچھ اضافہ ہوا۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ہندوستان کے مسلمان حکمرانوں کے عہد کے تمدنی کارنامے‘‘ دار المصنفین شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ کے رفقاء کی مرتب کردہ ہے۔ اس کتاب میں سلاطین دہلی اور شاہان مغلیہ کے عہد کے فن تعمیر، رفاہ عام کے کام، شہروں اور گاؤں کی آبادی، باغات، ترقی حیوانات، ترقی تعلیم، کاغذ سازی، کتب خانے او رخطاطی وغیرہ پر تفصیلیر و شنی ڈالی گئی ہے۔ (م۔ا)
یوسف بن تاشفین مراکش کے جنوب میں صحرائی علاقے کارہنے والا تھا جس نے اپنے ساتھیوں کی مدد سے صحرائے اعظم اور اس کے جنوب میں خاندان مرابطین کی حکومت قائم کی اور بعد ازاں اسے اسپین تک پھیلادیا۔ یوسف بن تاشفین نے 1061ءسے 1107ءتک حکومت کی۔ وہ بڑا نیک اور عادل حکمران تھا،اس کی زندگی بڑی سادہ تھی۔ تاریخ اسلام میں اس کی بڑی اہمیت ہے۔ اس نے صحرائے اعظم میں رہنے والے نیم وحشی اور حبشی باشندوں سے کئی سال تک لڑائیاں کیں اور اپنی حکومت دریائے سینی گال تک بڑھادی تھی۔ یہ لوگ ان قبائل کے خلاف جہاد ہی نہیں کرتے تھے بلکہ ان میں اسلام کی تبلیغ بھی کرتے تھے اور اس طرح انہوں نے بے شمار بربروں اور حبشیوں کو مسلمان بنایا۔صحرائے اعظم میں اسلام کی اشاعت اور اندلس میں مسیحی یلغار کو روکنا اس کے بہت بڑے کارنامے ہیں۔ شہر مراکش کی تعمیر بھی قابل فخر کارناموں میں شمار ہوتی ہے کیونکہ اس طرح اس نے ایک نیم وحشی علاقے میں دار الحکومت قائم کرکے تہذیب اور علم کی بنیاد ڈالی۔ یوسف نے تقریباً پچاس سال حکومت کی۔ اس کی قائم کی ہوئی سلطنت دولت مرابطین (1061ءتا...