یہ بات روز اول سے چلی آرہی ہے کہ حق گوئی کرنےوالوں کو کبھی ظالم وجابر معاشرہ برداشت نہیں کرتا ۔اس کام کے لیے وہ ایڑھی چوٹی کا زور لگاتا ہے اس کے راستے میں روکاوٹیں حائل کی جاتی ہیں ۔طعنہ و تشنیع،گالیاں، برابھلا،موت کی دھمکیاں،جیل ،تختہ دار اور اہل خانہ کو اذیتیں دینا ظالم حکمران کا شیوا رہا ہے ۔صاحب اقتداراپنے تخت وتاج سے ہر سہولت تو خرید سکتے ہیں مگرکلمہ حق کہنے والوں کو نہیں دبا سکتے ۔او ر اسی طرح ہر دور میں اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرنے والے سعادت حاصل کرتے رہے ہیں اور جنتوں کے حق دار ٹھہرے۔آپﷺ نے جب دین حق کا پرچار کیا تو عرب زمانہ جاہلیت میں غوطہ زن تھا۔لوگوں نے مجنوں،دیوانہ،شاعر جیسے الفاظ کسےآپﷺ پر اپنوں نے ساتھ چھوڑ دیا اقتدار والوں نے مال ودولت کی آفر کی، دین حق سے پھسلانے کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔اور آپﷺ کے جانثاروں پر زندگی تنگ کر دی گئی۔گرم صحراء،سولی ،قتل اور طرح طرح کی تکالیف سے دوچار کیاگیا مگروہ استقامت کا پہاڑبن کر امت کے لیے مشعل راہ بن گئے ۔ زیر تبصرہ کتاب"خون صحابہ" مولانا عبدالرشید حنیف کی کاوش ہے اس میں میں آپﷺ کی دی...
صحابہ کرام ؓ اجمعین وہ نفوس قدسی ہیں جن کو خاتم الانبیاﷺکےجمال جہاں آراسے اپنی آنکھیں روشن کرنے اور آپ کی مجلس نشینی کی سعادت نصیب ہوئی۔محسن انسانیت کے فیض صحبت نے ان کے شرف انسانیت کو جیتی جاگتی تصویر بنادیا۔ ان کاہر فرد خشیت الہی ،حق گوئی،ایثار،قربانی ،تقوی ،دیانت ،عدل اوراحسان کاپیکرجمیل تھا۔تمام علمائے حق کا اس بات پرکامل اتفاق ہےکہ صحبت رسول ﷺسے بڑھ کرکوئی شرف اور بزرگی نہیں۔اس صحبت سےمتمتع ہونےوالےپاک نفس ہستیوں کی عظمت اور حسن کردار پراللہ تعالی نے قرآن حکیم میں جابجامہر ثبت فرمائی ہے۔ان عظیم ہستیوں کی سیرت کا ایک بہترین مرقع تیار کرکے جناب طالب ہاشمی صاحب نے ہمارے ہاتھوں میں تھمادیاہے۔تاکہ ہم اس ان نقوش سے راہ ہدایت پاسکیں۔اور اپنی دنیا وآخرت کو بہتر بناسکیں۔اس سلسلے میں واضح رہے کہ صحابہ کرام ؓ اجمعین کی سیرت کے حوالے سے ایک نہایت اہم باب مشاجرات صحابہ ہے جوکہ ایک انتہائی نازک باب ہے ہاشمی صاحب نےاس میں اہل سنت کےطریقےپرچلتےہوئے کف لسان کامؤقف اختیار کیا ہے۔(ع۔ح)
ابو العاص بن ربیع ام المومنین حضرت خدیجہ کے بھانجے تھے۔ آنحضرت کی بعثت پریہ ایمان نہ لائے۔ بلکہ غزوہ بدر میں مشرکین کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف لڑے ۔اعلانِ نبوت سے قبل حضرت خدیجہ کی فرمائش پر حضرت محمد ﷺ نے اپنی بڑی بیٹی حضرت زینب کا نکاح ابو العاص بن ربیع سے کر دیا۔ ابو العاص حضرت بی بی خدیجہ کی بہن حضرت ہالہ بنت خویلد کے بیٹے تھے۔ حضرت زینب تومسلمان ہو گئی تھیں مگر ابو العاص شرک و کفر پر اڑا رہا۔ رمضان 2ھ میں جب ابو العاص جنگِ بدر سے گرفتار ہو کرمدینہ آئے۔ اس وقت تک حضرت زینب مسلمان ہوتے ہوئے مکہ مکرمہ ہی میں مقیم تھیں۔ چنانچہ ابو العاص کو قید سے چھڑانے کے لیے انہوں نے مدینہ میں اپنا وہ ہار بھیجا جو ان کی ماں حضرت خدیجہ نے ان کو دیا تھا۔ یہ ہار حضورِ اقدس ﷺ کا اشارہ پا کر صحابہ کرام نے حضرت زینب کے پاس واپس بھیج دیا اور حضور ﷺ نے ابو العاص سے یہ وعدہ لے کر ان کو رہا کر دیا کہ وہ مکہ پہنچ کر حضرت زینب کو مدینہ منورہ بھیج دیں گے۔ زیر نظر کتاب تین جید اہل علم کے تین مختلف مضامین کا مجموعہ ہے پہلا مضمون بعنوان ’’ دا...
سیدنا معاویہ ان جلیل القدر صحابہ کرام میں سے ہیں ،جنہوں نے نبی کریم ﷺ کے لئے کتابتِ وحی جیسے عظیم الشان فرائض سر انجام دئیے۔سیدنا علی کی وفات کے بعد ان کا دور حکومت تاریخ اسلام کے درخشاں زمانوں میں سے ہے۔جس میں اندرونی طور پر امن اطمینان کا دور دورہ بھی تھا اور ملک سے باہر دشمنوں پر مسلمانوں کی دھاک بھی بیٹھی ہوئی تھی۔لیکن افسوس کہ بعض نادان مسلمان بھائیوں نے ان پر اعتراضات اور الزامات کا کچھ اس انداز سے انبار لگا رکھا ہے کہ تاریخ اسلام کا یہ تابناک زمانہ سبائی پروپیگنڈے کے گردوغبار میں روپوش ہو کر رہ گیاہے۔ کئی اہل علم اور نامور صاحب قلم حضرات نے سیدنا معاویہ ابی سفیان کے متعلق مستند کتب لکھ کر سیدنا معاویہ کے فضائل ومناقب،اسلا م کی خاطر ان کی عظیم قربانیوں کا ذکر کے ان کے خلاف کےجانے والےاعتراضات کی حقیقت کو خوب واضح کیا ہے۔ زیر تبصرہ کتا ب ’’ دفاع حضرت امیر معاویہ ‘‘ مولانا قاضی مظہر حسین کی سید نا امیر معاویہ کے فضائل ومناقب اور دفاع کے حوالے ایک تحقیقی کاوش ہے ۔یہ کتاب دراصل مولوی مہرشاہ کی کتاب کھلی چھٹی کے جواب میں تحریر کی گ...
آج کا دور مصرفیتوں کا دور ہے۔ ہماری معاشرت کا انداز بڑی حد تک مشینی ہو گیا ہے۔ زندگی کی بدلتی ہوئی قدروں سے دلوں کی آبادیاں ویران ہو رہی ہیں۔ فکرونظر کا ذوق اور سوچ کا انداز بدل جانے سے ہمارے ہاں ہیرو شپ کا معیار بھی بہت پست سطح پر آگیا ہے۔ آج کھلاڑی‘ ٹی وی اور بڑی سکرین کے فن کار ہماری نسلوں کے آئیڈیل اور ہیرو قرار پائے ہیں جس کی وجہ سے ماضی کے وہ عظیم سپوت اور روشنی کی وہ برتر قندیلیں ہماری نظروں سے اوجھل ہو گئی ہیں۔اس لیے مسلمانوں کو حضرت بلال ؓجیسے صحابی رسولﷺ کی سیرت سے آگاہ کرکے ان میں ایمانی جوش پیدا کرنا ایک ضروری اور لازمی امر ہے۔ کیونکہ آج کا مسلمان دین کو چھوڑ کر دنیا میں اُلجھ گیا ہے‘ اسے دین کی طرف جاتا کوئی راستہ نظر ہی نہیں آتا۔ ہر طرف دنیا ہی دنیا کو دیکھنا چاہتا ہے‘ اسے صرف مال ودولت کی حرص وطمع ہے‘ دین کی کوئی پرواہ نہیں۔زیرِ تبصرہ کتاب میں حضرت بلالؓ کی سیرت کو بیان کر کے ان میں اس بات کو اجاگر کیا گیا ہے کہ ہمارے سلف کیا تھے انہوں نے دین کے لیے کیا کچھ کیا ‘ کیا کیا مصیبتیں جھلیں اور دوسری طرف ہمارے احوال ک...
تمام صحابہ کرام کو عمومی طور پر اور خلفائے راشدین کو خصوصی طور پر ، امت میں جو مقام و مرتبہ حاصل ہے ، اس کے بارے میں صرف اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ انبیاء کرام کے بعدیہ مقدس ترین جماعت تھی جس نے خاتم الانبیاء محمد رسول اللہ ﷺکی رسالت کی تصدیق کی ، آپﷺ کی دعوت پر لبیک کہا ، اپنی جان و مال سے آپﷺکا دفاع کیا ، راہِ حق میں بے مثال قربانیاں دیں ، نبی اکرم ﷺ کے اسوہ ء حسنہ کی بے چوں و چراں پیروی کی اور آپﷺ کی رحلت کے بعد اپنے عقیدہ و عمل کے ذریعے اس آخری دین اور اس کی تعلیمات کی حفاظت کی۔صحیح احادیث میں خلفائے راشدینکے جو فضائل بیان ہوئے ہیں ، وہ ہمارے لیے کافی ہیں۔اس لیے کہ جہاں ہم ان کے ذریعے صحابہ کرامکے حقیقی مقام و مرتبہ کو جان سکتے ہیں وہیں ان کی عقیدت میں غلو کے فساد سے بھی محفوظ رہ سکتے ہیں۔خلفائے راشدین میں سب سے برتر فضیلت سیدنا ابوبکرصدیق کو حاصل ہے ،اس کے بعد سیدنا عمرفاروق کو ،پھر سیدنا عثمان بن عفان کواور پھرسیدناعلی کو ۔صحابہ کرام کی اسی اہمیت وفضیلت کے پیش نظر متعدد اہل علم نے ان کی سیرت اور مقام ومرتبے پر بے شمار کتب تصنیف فرمائ...
مسلمانوں میں عام طور پر یہ خیال رائج ہو رہا ہے کہ دنیا اور دنیا کی دولت بہت بری چیز ہے۔اور اسلام حصول دولت اور سیم وزر جمع کرنے کے بہت خلاف ہے اور فقر وفاقہ ہی کی تعلیم دیتا ہے،چنانچہ اکثر ملا اور واعظ بھی اپنے وعظوں میں اسی قسم کی ذہنیت پیدا کرنے اور اسی کو تقویت دینے کی کوشش کرتے ہیں۔جس کا نتیجہ یہ ہو رہا ہے کہ مسلمان دن بدن کمزور اور نادار ہوتے چلے جا رہے ہیں۔افلاس اس کے سروں پر مسلط ہو رہا ہے،قرض بڑھتا جا رہا ہے ،اور اغیار سونے چاندی میں کھیلتے نظر آتے ہیں۔مسلمانوں کا وہ طبقہ جو دیندار یا روحانیت کا علمبردار کہلاتا ہے وہ تو یہی کہتا ہے کہ مسلمان دنیوی ترقی نہیں کر سکتے نہ ہی کرنی چاہئے۔ زیر تبصرہ کتاب " دولت مند صحابہ " جماعت اہل حدیث کے معروف عالم دین محترم مولانا حکیم عبد المجید سوہدروی کی تصنیف ہے ۔جس میں انہوں نے بطور نمونہ دولت مند صحابہ کرام ،صحابیات کرام اور تابعین عظام کے ایمان افروز تذکرے جمع فرما کر مسلمانوں کو یہ بتایا اور سمجھایا ہے کہ وہ دولت کمانا،بچانا اور پھر اسے صحیح جگہ پر لگانا سیکھیں۔جن تک و...
صحابہ کرام وہ نفوس قدسیہ ہیں جنہوں نے نبی کریمﷺ کا دیدار کیا اور دین اسلام کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان تمام ہسیتوں کو جنت کا تحفہ عنایت کیا ہے۔ دس صحابہ تو ایسے ہیں جن کو دنیا ہی میں زبان نبوتﷺ سے جنت کی ضمانت مل گئی۔تمام صحابہ کرام خواہ وہ اہل بیت سے ہوں یا غیر اہل بیت سے ہوں ان سے والہانہ وابستگی دین وایمان کا تقاضا ہے۔کیونکہ وہ آسمان ہدایت کے درخشندہ ستارے اور دین وایمان کی منزل تک پہنچنے کے لئے راہنما ہیں۔صحابہ کرام کے باہمی طور پر آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ انتہائی شاندار اور مضبوط تعلقات قائم تھے۔لیکن شیعہ حضرات باغ فدک کے مسئلے پر سیدنا ابو بکر صدیق اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا کے درمیان لڑائی اور ناراضگیاں ظاہر کرتے ہیں اور بھولے بھالے مسلمان ان کے پیچھے لگ کر سیدنا ابو بکر صدیق کو ظالم قرار دیتے اور ان پر طرح طرح کے اعتراضات وارد کرتے ہیں۔حالانکہ اگر حقائق کی نگاہ سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان مقدس ہستیوں کے درمیان ایسا کوئی نزاع سرے سے موجود ہ...
اسلام آخری مذہب ہے، قیامت تک دوسرا کوئی مذہب نازل ہونے والا نہیں ہے، اس دین کی حفاظت و صیانت کا سہرا صحابہٴ کرام کے سر ہے، صحابہ کی برگزیدہ جماعت نے اسلام کی بقا اور اس کے تحفظ کے لیے جان و مال کو قربان کیا، انھیں کے خونِ جگر سے سینچے ہوئے درخت کا پھل آج ہم سب کھا رہے ہیں، انہوں نے دین کو اس کی صحیح صورت میں محفوظ رکھنے کا جتن کیا، ان کی زندگی کا ہر گوشہ اسلام کی صحت و سلامتی کی کسوٹی ہے، جو لوگ صحابہٴ کرام سے جتنا قریب ہیں، وہ دین سے اتنا ہی قریب ہیں، اور جو لوگ جتنا اس جماعت سے دورہوں گے؛ ان کی باتیں اُن کا نظریہ، اُن کا عقیدہ اور اُن کا عمل اتنا ہی دین سے منحرف ہوگا۔ قرآن و سنت کی حفاظت میں صحابہٴ کرام نے جس طرح اپنے حیرت انگیز خداداد حافظے کو کام میں لائے اسی طرح دوسرے وسائل اختیار کرنے سے بھی انہوں نے دریغ نہیں کیا، انہوں نے آیات و احادیث کی حفاظت لکھ کر بھی کی ہے، بہت سے صحابہٴ کرامﷺ نے قرآن مجید لکھ کر اپنے پاس محفوظ کر رکھا تھا، اسی سے تلاوت کیاکرتے تھے، بہت سے صحابہٴ کرام نے چند سورتیں یا چند آیتیں لکھ رکھی تھیں، احادیث کا لک...
نبی اکرم کی حیات مبارکہ قیامت تک انسانیت کے لئے پیشوائی و رہنمائی کا نمونہ ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ترجمہ ”تحقیق تمہارے لئے رسول اللہ کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے“ زندگی کے جملہ پہلوؤں کی طرح معلم کی حیثیت سے بھی نبی اکرم کی ذاتِ اقدس ایک منفرد اور بے مثل مقام رکھتی ہے۔ نبوت اور تعلیم و تربیت آپس میں لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اسی لئے آپ نے اپنے منصب سے متعلق ارشاد فرمایا:۔’’بے شک میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں“ یہ وہ معلم تھے جن کی تعلیم و تدریس نے صحرا کے بدوؤں کو پورے عالم کی قیادت کے لئے ایسے شاندار اوصاف اور اعلیٰ اخلاق سے مزین کیا جس کی مثال تاریخ انسانیت میں کہیں نہیں ملتی۔تمام بھلائیاں بھی اس میں پوشیدہ ہیں آپ ایک مثالی معلم تھے۔ نبی کریم ﷺ بعض اوقات صحابہ کرام کو دین کی تعلیم سوالات کی صورت میں دیا کرتے تھے ۔آپ ﷺ صحابہ سے سوال کرتے اگر ان کو ان کےمتعلق معلوم ہوتا تو وہ جواب دے دیتے اور جواب نہ دینے کی صورت میں نبی...
صحابہ کرام کی عظمت سے کون انکار کرسکتاہے۔یہ وہی پاک باز ہستیاں ہیں جن کی وساطت سے دین ہم تک پہنچا۔انبیاء کرام کے بعد صحابہ کرام کی مقدس جماعت تمام مخلوق سے افضل اور اعلیٰ ہے یہ عظمت اور فضیلت صرف صحابہ کرام کو ہی حاصل ہے کہ اللہ نے انہیں دنیا میں ہی مغفرت،جنت اور اپنی رضا کی ضمانت دی ہے بہت سی قرآنی آیات اور احادیث اس پر شاہد ہیں۔صحابہ کرام سے محبت اور نبی کریم ﷺ نے احادیث مبارکہ میں جوان کی افضلیت بیان کی ہے ان کو تسلیم کرنا ایمان کاحصہ ہے بصورت دیگرایما ن ناقص ہے ۔لیکن اس پر فتن دور میں بعض بدبخت لوگ ان کی شان میں گستاخی کے مرتکب ہوکر اللہ تعالیٰ کے غیظ وغضب کودعوت دیتے ہیں ۔ صحابہ کرام وصحابیات رضی اللہ عنہن کےایمان افروز تذکرے، سوانح حیا ت، عظمت ودفاع سے متعلق ائمہ محدثین او راہل...
ہمارے ہاں شہادت حضرت حسین ؓکے ضمن میں بہت سے مغالطے اور اور غلط فہمیاں زبان زدعام و خاص ہیں۔ شیعہ حضرات اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے سانحہ کربلا کی آڑ میں صحابہ کرام پر اپنی تحریر و تقریر کا زور آزماتے ہیں۔ زیر مطالعہ مختصر سے رسالہ میں ڈاکٹر اسراراحمد صاحب نے سانحہ کربلا کے سیاق و سباق کی وضاحت کرتے ہوئے اس کی مکمل تفصیلات سے آگاہی فراہم کی ہے۔ اور اس حوالے سے بیان کیا جانے والے تمام رطب و یابس کی قلعی کھولی ہے۔ اس کتابچے کا پس منظر یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں ’ہجری سال نو مبارک‘ کے حوالے اہم باتیں ارشاد فرمائیں۔ پھر ’سانحہ کربلاکا تاریخی پس منظر‘ کے عنوان سے خطاب کیااس کے بعدواقعات کربلا کے ضمن میں حضرت محمد باقر سے مروی ایک روایت کا ترجمہ بھی شائع کیا گیا تھا۔ یہ کتابچہ در اصل ان تینوں کی یکجا صورت ہے۔
صحابہ کرام ؓ وہ نفوس قدسی ہیں جن کو خاتم الانبیاﷺکےجمال جہاں آراسے اپنی آنکھیں روشن کرنے اور آپ کی مجلس نشینی کی سعادت نصیب ہوئی۔محسن انسانیت کے فیض صحبت نے ان کے شرف انسانیت کو جیتی جاگتی تصویر بنادیا۔ ان کاہر فرد خشیت الہی ،حق گوئی،ایثار،قربانی ،تقوی ،دیانت ،عدل اوراحسان کاپیکرجمیل تھا۔تمام علمائے حق کا اس بات پرکامل اتفاق ہےکہ صحبت رسول ﷺسے بڑھ کرکوئی شرف اور بزرگی نہیں۔اس صحبت سےمتمتع ہونےوالےپاک نفس ہستیوں کی عظمت اور حسن کردار پراللہ تعالی نے قرآن حکیم میں جابجامہر ثبت فرمائی ہے۔ان عظیم ہستیوں کی سیرت کا ایک بہترین مرقع تیار کرکے جناب طالب ہاشمی صاحب نے ہمارے ہاتھوں میں تھمادیاہے۔تاکہ ہم اس ان نقوش سے راہ ہدایت پاسکیں۔اور اپنی دنیا وآخرت کو بہتر بناسکیں۔اس سلسلے میں واضح رہے کہ صحابہ کرام ؓ کی سیرت کے حوالے سے ایک نہایت اہم باب مشاجرات صحابہ ہے جوکہ ایک انتہائی نازک باب ہے ہاشمی صاحب نےاس میں اہل سنت کےطریقےپرچلتےہوئے کف لسان کامؤقف اختیار کیا ہے۔(ع۔ح)
ملکوں کے درمیاں تعلقات اور کاروبار وغیرہ کو باامن طریقے سے چلانے کے عمل کو سفارت کاری کہتے ہے ۔ بین الاقوامی مذاکرات بہ آسانی حل کرنے کے طریقے اور سفارت کار کے اسلوبِ عمل بھی سفارت کاری سے عبارت ہے ۔ امن ، جنگ ، تجارت ، تہذیب ، معاشیات ، اقتصادیات وغیرہ میں ممالک کے درمیاں معاہدے اور مفاہمتیں سفارتکاری ہی سے انجام پذیر ہو تی ہیں۔ سفارت کا عہدہ زمانۂ قدیم سے چلا آرہا ہے ۔ یعنی جب سےتہذیب وثقافت اور ریاستی امور وقوانین وضع کیے گئے اس وقت سے ہی یہ عہدہ بھی موجو ہے۔ یونانی ، چینی، ایرانی، اور رومی سیاسیات کےمطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ ان کے ہاں عہدۂ سفارت موجود تھا۔ زمانۂ جاہلیت میں جب عرب معاشرتی لحاظ سے مختلف گروہوں میں تقسیم تھے قبائلی نظام رائج تھا اور ان قبائل میں صدیوں پرانی رقابتیں اور دشمنیاں چلی آرہی تھیں تب بھی وہ قبائل تنازعات کے حل کے لیے سفارت پر یقین رکھتے تھے اور اپنے قبیلے سے سفارت کے لیے اس شخص کا نتخاب کرتے جو فصیح اللسان ہوتا۔اہل روما نے ایسے معاملات طے کرنے کے لیے مذہبی راہنماؤں کی ا...
آج کا دور مصرفیتوں کا دور ہے۔ ہماری معاشرت کا انداز بڑی حد تک مشینی ہو گیا ہے۔ زندگی کی بدلتی ہوئی قدروں سے دلوں کی آبادیاں ویران ہو رہی ہیں۔ فکرونظر کا ذوق اور سوچ کا انداز بدل جانے سے ہمارے ہاں ہیرو شپ کا معیار بھی بہت پست سطح پر آگیا ہے۔ آج کھلاڑی‘ ٹی وی اور بڑی سکرین کے فن کار ہماری نسلوں کے آئیڈیل اور ہیرو قرار پائے ہیں جس کی وجہ سے ماضی کے وہ عظیم سپوت اور روشنی کی وہ برتر قندیلیں ہماری نظروں سے اوجھل ہو گئی ہیں۔ آج بڑی شدت سے اس بات کی ضرورت ہے کہ عہد ماضی کے ان نامور سپوتوں اور رجال عظیم کی پاکیزہ سیرتوں اور ان کے اُجلے اُجلے کردار کو منظر عام پر لایا جائے۔زیرِ تبصرہ کتاب خاص اسی حوالے سے ہے جس میں حضرت ابو ذر غفاریؓ کی سیرت اور ان کے کردار کو بیان کیا گیا ہے کیونکہ صحابہ کرامؓ کی باکمال جماعت ان قدسی صفات انسانوں پر مشتمل تھی جن کے دلوں کی سر زمین خدا خوفی‘ خدا ترسی‘ جود وسخا‘ عدل ومساوات صدق وصفا اور دیانت داری سے مرصع ومزین تھی۔ صحابہ میں سے ایک بے مثال‘ حق کی تلاش میں مسلسل سر گرداں اور دنیا وآخرت کی سرفرازیوں سے نوازے جانے...
سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی ذات اقدس جود و سخا، عفو و درگزر اور حیاء وعفت کا وہ بحر بے کنار ہے جس نے بارہا زبان نبوت ﷺ سے جنت کی بشارتیں سنیں، ۔ حضرت ابوبکرصدیق ؓ کی شخصیت اور کارناموں پر متعدد کتب اشاعتی مراحل طے کر چکی ہیں لیکن سیدناابوبکرصدیق ؓ سے وابستہ جمیع پہلؤوں کا احاطہ معدودے چند کتب میں ہی نظر آتا ہے۔ زیر مطالعہ کتاب میں ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی نے نہایت خوبصورت انداز میں حضرت ابوبکرصدیق ؓ کی شخصیت اور کارناموں پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ کتاب کے ترجمہ کے فرائض شمیم احمد خلیل السلفی نے نہایت شاندار انداز میں نبھائے ہیں۔اس میں ابوبکرصدیق ؓکی زندگی سے متعلقہ کسی بھی پہلو کو تشنہ نہیں چھوڑا گیا ۔ آپ کے خاندان اور مقام و مرتبہ کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت ابوبکرصدیق ؓسے متعلقہ تمام احادیث کو کتاب کی زینت بنایا گیا ہے۔ جہاں آپ کے منہج حکومت کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ حضرت ابوبکرصدیق ؓپر کیے جانے والے تمام اعتراضات کا براہین قاطعہ کی روشنی میں مسکت جواب نے کتاب کی افادیت میں مزید اضافہ کر دیاہے۔ یقینی طور پر یہ کتاب حیات...
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ ان جلیل القدر صحابہ کرام میں سے ہیں ،جنہوں نے نبی کریم ﷺ کے لئے کتابتِ وحی جیسے عظیم الشان فرائض سر انجام دئیے۔سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد ان کا دور حکومت تاریخ اسلام کا درخشاں دور ہے۔جس میں اندرونی طور پر امن و امان کا دور دورہ بھی تھا اور ملک سے باہر دشمنوں پر مسلمانوں کی دھاک بھی بیٹھی ہوئی تھی۔لیکن افسوس کہ بعض نادان مسلمان بھائیوں نے ان پر اعتراضات اور الزامات کا کچھ اس انداز سے انبار لگا رکھا ہے کہ تاریخ اسلام کا یہ تابناک زمانہ سبائی پروپیگنڈے کے گرد و غبار میں روپوش ہو کر رہ گیا ہے۔ کئی اہل علم اور نامور صاحب قلم حضرات نے سیدنا معاویہ ابی سفیان رضی اللہ عنہ کے متعلق مستند کتب لکھ کر سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے فضائل و مناقب،اسلام کی خاطر ان کی عظیم قربانیوں کا ذکر کر کے ان کے خلاف کیے جانے والے اعتراضات کی حقیقت کو خوب واضح کیا ہے۔ زیر نظر کتاب ’’سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ حالات،فضائل اور مرویات‘‘ محترم ابو حمزہ عبد الخالق صدیقی حفظہ اللہ کی کاو...
سیدنا حسن دماد ِ رسول حضرت علی کے بڑے بیٹے اور نبی کریم ﷺ بڑے نواسے تھے۔حدیث نبوی ہےآپ جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں۔نبیﷺ نے ان کا نام حسن رکھا تھا۔ یہ نام اس سے پہلے کسی کا نہ تھا۔ رسول اللہ ﷺان سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔ آپ 15 رمضان المبارک 3ھ کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ حضرت حسن کو تقریباً آٹھ برس اپنے نانا رسول اللہ ﷺکے سایہ عاطفت میں رہنے کا موقع ملا۔ رسالت مآب اپنے اس نواسے سے جتنی محبت فرماتے تھے اس کے واقعات دیکھنے والوں نے ہمیشہ یا درکھے۔ اکثر حدیثیں محبت اور فضیلت کی حسن وحسین دونوں صاحبزادوں میں مشترک ہیں۔سیدنا حسن نےاپنی زندگی میں ایک بہت بڑا کارنامہ سرانجام دیا جس نےامت کےاتحاد میں زبردست کردار ادا کیا۔ امتِ اسلامیہ اس جلیل القدر سردار کی قرض دار رہے گی جس نے وحدت اوالفت ، خونریزی سے روکنے اور لوگوں کے مابین صلح کرانے میں زبردست کردار اداکیا ۔ اپنے عمدہ جہاد اور صبرِِ جمیل کے ذریعے ایسی مثال قائم کی جس کی ہمیشہ اقتدا کی جائےگی۔ زیر تبصرہ کتاب’’ سیدنا حسن بن علی شخصیت اورکارنامے ‘‘ حضرت حسن کی ولادت سےخلافت اور وفات ک...
سیدنا حسن دماد ِ رسول حضرت علی کے بڑے بیٹے اور نبی کریم ﷺ بڑے نواسے تھے۔حدیث نبوی ہےآپ جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں۔نبیﷺ نے ان کا نام حسن رکھا تھا۔ یہ نام اس سے پہلے کسی کا نہ تھا۔ رسول اللہ ﷺان سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔ آپ 15 رمضان المبارک 3ھ کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ حضرت حسن کو تقریباً آٹھ برس اپنے نانا رسول اللہ ﷺکے سایہ عاطفت میں رہنے کا موقع ملا۔ رسالت مآب اپنے اس نواسے سے جتنی محبت فرماتے تھے اس کے واقعات دیکھنے والوں نے ہمیشہ یا درکھے۔ اکثر حدیثیں محبت اور فضیلت کی حسن وحسین دونوں صاحبزادوں میں مشترک ہیں۔سیدنا حسن نےاپنی زندگی میں ایک بہت بڑا کارنامہ سرانجام دیا جس نےامت کےاتحاد میں زبردست کردار ادا کیا۔ امتِ اسلامیہ اس جلیل القدر سردار کی قرض دار رہے گی جس نے وحدت اوالفت ، خونریزی سے روکنے اور لوگوں کے مابین صلح کرانے میں زبردست کردار اداکیا ۔ اپنے عمدہ جہاد اور صبرِِ جمیل کے ذریعے ایسی مثال قائم کی جس کی ہمیشہ اقتدا کی جائےگی۔ زیر تبصرہ کتاب’’ سیدنا حسن بن علی شخصیت اورکارنامے ‘‘ حضرت حسن کی ولادت سےخلافت اور وفات کے ت...
حضرت خالد بن ولید ؓجلیل القدر صحابی اور اسلام کےعظیم جرنیل تھے ۔آپ کی شجاعت وبہادری اور زیرکی وبصیرت دیکھ کر ناطق وحی ﷺ نے آپ ؓعنہ کو ’سیف من سیوف اللہ ‘یعنی خدا کی تلوار کا پرشکوہ لقب عطا فرمایا۔زیر نظر کتابچہ میں آپ ؓکے بارے میں جامع معلومات فراہم کی گئی ہیں اور پیدائش سے لے کر جوانی،قبول اسلام اور کارہائے نمایاں کا مختصر تذکرہ ہے۔اس کے مطالعہ سے یقیناً حضرت خالد بن ولید ؓ کی محبت دل میں اور بڑھے گی اور آپ کی سیرت کو اپنانے کا جذبہ پیدا ہوگا۔حقیقت یہ ہے کہ آج امت کو خالد بن ولید کے کردار کی جس قدر ضرورت ہے ،تاریخ کے کسی دور میں نہیں رہی۔کیا عجب کہ کسی کے دل میں یہ جذبہ بیدار ہو جائے ۔وما ذالک علی اللہ بعزیر۔(ط۔ا)
خلیفۂ سوم سیدنا عثمان غنی کا تعلق قریش کے معزز قبیلے سے تھا۔ سلسلہ نسب عبد المناف پر رسول اللہ ﷺ سے جا ملتا ہے ۔ سیدنا عثمان ذوالنورین کی نانی نبی ﷺ کی پھوپھی تھیں۔ آپ کا نام عثمان اور لقب ” ذوالنورین “ ہے۔ اسلام قبول کرنے والوں میں آپ ” السابقون الاولون “ کی فہرست میں شامل تھے، آپ نے خلیفہ اول سیدنا ابوبکر صدیق کی دعوت پر اسلام قبول کیا تھا۔ ۔ حضور ﷺ پر ایمان لانے اور کلمہ حق پڑھنے کے جرم میں سیدنا عثمان غنی کو ان کے چچا حکم بن ابی العاص نے لوہے کی زنجیروں سے باندھ کر دھوپ میں ڈال دیا، کئی روز تک علیحدہ مکان میں بند رکھا گیا، چچا نے آپ سے کہا کہ جب تک تم نئے مذہب (اسلام ) کو نہیں چھوڑو گے آزاد نہیں کروں گا۔ یہ سن کر آپ نے جواب میں فرمایا کہ چچا ! اللہ کی قسم میں مذہب اسلام کو کبھی نہیں چھوڑ سکتا اور اس ایمان کی دولت سے کبھی دستبردار نہیں ہوں گا۔ سیدناعثمان غنی اعلیٰ سیرت و کردار کے ساتھ ثروت و سخاوت میں بھی مشہور تھے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جنت میں ہرنبی کا ساتھی و رفیق ہوتاہے میرا ساتھی ”عثمان “ ہوگا۔ سیدنا عثمان کے...
حضرت ابوبکر صدیق کے بعد مسلمانوں کی امارت حضرت عمر کواس وقت سونپی گئی جب حضرت ابو بکر فتنہ ارتدار کا استیصال کرچکے تھے اور اسلامی فوجیں عراق وشام کی سرحدوں پر ایران اور روم کی طاقتوں سے نبرد آزما تھیں لیکن جب حضرت عمر ؓ کی وفات ہوئی تو عراق وشام کلیۃً اسلامی سلطنت کے زیر اقتدار آچکے تھے ،بلکہ وہ ان سے گزر کر ایران او رمصر میں بھی اپنے پرچم لہرا چکی تھی جس کی وجہ سے اس کی حدوو مشرق میں چین مغرب میں افریقہ ،شمال میں بحیرہ قزوین اورجنوب میں سوڈان تک وسیع ہوگئی تھیں۔سیدنا فاروق اعظم کی مبارک زندگی اسلامی تاریخ کاوہ روشن باب ہے جس نےہر تاریخ کو پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔ آپ نے حکومت کے انتظام وانصرام بے مثال عدل وانصاف ،عمال حکومت کی سخت نگرانی ،رعایا کے حقوق کی پاسداری ،اخلاص نیت وعمل ،جہاد فی سبیل اللہ ،زہد وعبادت ،تقویٰ او رخوف وخشیت الٰہی او ردعوت کے میدانوں میں ایسے ایسے کارہائےنمایاں انجام دیے کہ انسانی تاریخ ا...
عثمان رضی اللہ عنہ کی ذات اقدس جود و سخا، عفو و درگزر اور حیاء وعفت کا وہ بحر بے کنار ہے جس نے بارہا زبان نبوت ﷺ سے جنت کی بشارتیں سنیں، جو جامع القرآن کے لقب سے ملقب ہے۔ حضرت عثمان ؓ کی شخصیت اور کارناموں پر متعدد کتب اشاعتی مراحل طے کر چکی ہیں لیکن عثمان غنی سے وابستہ جمیع پہلؤوں کا احاطہ معدودے چند کتب میں ہی نظر آتا ہے۔ زیر مطالعہ کتاب میں ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی نے نہایت خوبصورت انداز میں حضرت عثمان ؓ کی شخصیت اور کارناموں پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ کتاب کے ترجمہ کے فرائض شمیم احمد خلیل السلفی نے نہایت شاندار انداز میں نبھائے ہیں۔اس میں عثمان ؓکی زندگی سے متعلقہ کسی بھی پہلو کو تشنہ نہیں چھوڑا گیا ۔ آپ کے خاندان اور مقام و مرتبہ کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت عثمان سے متعلقہ تمام احادیث کو کتاب کی زینت بنایا گیا ہے۔ جہاں آپ کے منہج حکومت کو زیر بحث لایا گیا ہے وہیں دور خلافت میں مال و قضا کے ادارے کو ایک مستقل فصل میں سمویا گیا ہے۔ سیدنا عثمان کے گورنروں کی حقیقت سے نقاب کشائی کرنے کے ساتھ ساتھ شہادت عثمان کے اسباب پر بھی قیمتی آراء کا اظہار کیا گیا ہے۔...
سیدناعلی آنحضرت ﷺ کے چچا ابو طالب کے بیٹے تھے اور بچپن سے ہی حضورﷺ کے زیر سایہ تربیت پائی تھی بعثت کے بعد جب حضور ﷺ نے اپنے قبیلہ بنی ہاشم کے سامنے اسلام پیش کیا تو سیدناعلی نے سب سے پہلے لبیک کہی اور ایمان لے آئے۔اس وقت آپ کی عمر آٹھ برس کی تھی ہجرت کی رات نبی کریم ﷺ آپ کو ہی اپنے بستر پر لٹا کر مدینہ روانہ ہوئے تھے۔ ماسوائے تبوک کے تمام غزوات حضور ﷺ کے ساتھ تھے۔لڑائی میں بے نظیر شجاعت اور کمال جو انمردی کا ثبوت دیا۔آحضرت ﷺ کی چہیتی بیٹی سیدہ فاطمۃ الزہرا کی شادی آپ ہی کے ساتھ ہوئی تھی۔حضور ﷺ کی طرف سے خطوط اور عہد نامے بھی بالعموم آپ ہی لکھا کرتے تھے۔پہلے تین خلفاء کے زمانے میں آپ کو مشیر خاص کا درجہ حاصل رہا اور ہر اہم کام آپ کی رائے سے انجام پاتا تھا۔سیدنا علی بڑے بہادر انسان تھے۔ سخت سے سخت معر کوں میں بھی آپ ثابت قدم رہے ۔بڑے بڑے جنگو آپ کے سامنے آنے کی جر ات نہ کرتے تھے۔آپ کی تلوار کی کاٹ ضرب المثل ہوچکی ہے۔شجاعت کے علاوہ علم وفضل میں بھی کمال حاصل تھا۔ایک فقیہ کی حیثیت سے آپ کا مرتبہ بہت بلند ہے۔آپ کے خطبات سے کمال کی خوش بیانی اور فصاحت ٹپ...
سیدنا معاویہ ان جلیل القدر صحابہ کرام میں سے ہیں،جنہوں نے نبی کریم ﷺ کے لئے کتابت وحی جیسے عظیم الشان فرائض سر انجام دئیے۔سیدنا علی کی وفات کے بعد ان کا دور حکومت تاریخ اسلام کے درخشاں زمانوں میں سے ہے۔جس میں اندرونی طور پر امن اطمینان کا دور دورہ بھی تھا اور ملک سے باہر دشمنوں پر مسلمانوں کی دھاک بھی بیٹھی ہوئی تھی۔لیکن افسوس کہ بعض نادان مسلمان بھائیوں نے ان پر اعتراضات اور الزامات کا کچھ اس انداز سے انبار لگا رکھا ہے کہ تاریخ اسلام کا یہ تابناک زمانہ سبائی پروپیگنڈے کے گردوغبار میں روپوش ہو کر رہ گیاہے۔اور امر کی ضرورت محسوس کی جارہی تھی کہ تاریخ کی روشنی میں اصل حقیقت کو واضح کیا جائے۔ زیر تبصرہ کتاب" سیدنا معاویہ ، گمراہ کن غلط فہمیوں کا ازالہ" محترم محمد ظفر اقبال صاحب کی تصنیف ہے، جبکہ اس کے شروع میں مسلک دیو بند سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے معروف عالم دین شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خاں صاحب کی تقریظ موجود ہے۔مولف موصوف نے اس کتاب میں صحابی رسول سیدنا معاویہ کی سیرت،آپ کے فضائل ومناقب ،آپ کے عہد حکوم...