شرعی اعتبار سے کسی غیرمسلم کا مسلمانوں کی مساجد میں (سوائے مسجد حرام کے)داخل ہونا جائز ہے ۔جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے ثمامہ بن اثال کو اسلام لانے سے پہلے مسجد نبوی میں رسی سے باندھ دیا تھا۔ اسی طرح ثقیف اور نجران کا وفد اسلام لانے سے پہلے مسجد میں داخل ہواتھا۔ اگر ساتھ میں انہیں مسجد کے آداب بتا دئیے جائیں توزیادہ بہتر ہے تاکہ وہ مسجد کے تقدس کی پامالی نہ کرے مثلا ساتر لباس پہن کر مسجد آنا، مسجد میں گندگی نہ پھیلانا، یہاں گندی بات نہ کرنا وغیرہ ۔ اور رہی بات مسجد کے تقدس کی تو مسجد کا تقدس ہر حال میں قائم رکھنا چاہیے وہ مسلم کے لیے ہو یا غیر مسلم کے لیے ، اللہ کے گھروں میں پاکیزگی اور قرآن و شریعت کے دائرے کو مدعوکار رکھتے ہوئے داخل ہونا چاہیے۔شرعی طور پر مقبول ضروریات میں عمومی طور پر درج ذیل ضروریات ہیں ۔ اسلام کی طرف رغبت دلانے کے لیے کسی کافر کو مسجد میں داخل کرنا ، اور رکھنا ،مسلمان امام ، یا قاضی سے اپنے فیصلے کروانے کے لیے کافر کا مسجد میں داخل ہونا،مسلمان امام ، یا قاضی ، یا حاکم سے ملاقات کے لیے کافر کا مسجد میں داخل ہونا،لیکن اس بات...
شرعی اعتبار سے کسی غیرمسلم کا مسلمانوں کی مساجد میں (سوائے مسجد حرام کے)داخل ہونا جائز ہے ۔جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے ثمامہ بن اثال کو اسلام لانے سے پہلے مسجد نبوی میں رسی سے باندھ دیا تھا۔ اسی طرح ثقیف اور نجران کا وفد اسلام لانے سے پہلے مسجد میں داخل ہواتھا۔ اگر ساتھ میں انہیں مسجد کے آداب بتا دئیے جائیں توزیادہ بہتر ہے تاکہ وہ مسجد کے تقدس کی پامالی نہ کرے مثلا ساتر لباس پہن کر مسجد آنا، مسجد میں گندگی نہ پھیلانا، یہاں گندی بات نہ کرنا وغیرہ ۔ اور رہی بات مسجد کے تقدس کی تو مسجد کا تقدس ہر حال میں قائم رکھنا چاہیے وہ مسلم کے لیے ہو یا غیر مسلم کے لیے ، اللہ کے گھروں میں پاکیزگی اور قرآن و شریعت کے دائرے کو مدعوکار رکھتے ہوئے داخل ہونا چاہیے۔شرعی طور پر مقبول ضروریات میں عمومی طور پر درج ذیل ضروریات ہیں ۔ اسلام کی طرف رغبت دلانے کے لیے کسی کافر کو مسجد میں داخل کرنا ، اور رکھنا ،مسلمان امام ، یا قاضی سے اپنے فیصلے کروانے کے لیے کافر کا مسجد میں داخل ہونا،مسلمان امام ، یا قاضی ، یا حاکم سے ملاقات کے لیے کافر کا مسجد میں داخل ہونا،لیکن اس بات...
جدید صنعتی اور فکری انقلاب نے جو بہت سے مسائل پیدا کر دیے ہیں ان میں ایک جدید دور میں پیدا ہونے والے مسائل کا فقہی اور شرعی حل بھی ہے ۔ جو جدید ایجادات اور نئے معاملات کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں ۔ ان مسائل کا حل کرنا ایک مشکل اور دشوار کام ہے ۔ اس لئے کہ ان کے لیے قرآن و حدیث اور فقہ کے قدیم ذخیرہ میں ان کی نظائر اور ان سے قریب ترین صورتیں تلاش کرنی ہوتی ہیں ۔ احکام کی علتوں اور اسباب پر غور کرنا ہوتا ہے ۔ اور اپنے زمانہ کے عرف اور رواج کو بھی سامنے رکھنا پڑتا ہے ۔ اس مشکل اور دشوار کام کو حل کرنا علما کے ذمہ ہے ۔ اور وہی ان کے صحیح حل تلاش کرنے کے اہل ہیں ۔ چناچہ ہر زمانہ کے اہل علم اور اہل افتا نے اپنے اپنے دور کے مسائل حل کیے ہیں ۔ موجودہ دور میں بھی ایسی متعدد کوششیں ہو چکی ہیں ۔ زیر نظرکتاب بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے ۔ مؤلف نے ایسے تمام جدید مسائل کو جن کا تعلق عبادات ، معاشرت اور معاملات اور اجتماعی مسائل سے ہے یکجا کر دیا ہے ۔ اور نہائت اختصار و ایجاز کے ساتھ ، سہل ، عام فہم زبان اور دل نشین اسلوب میں مسائل پر گفتگو کی ہے اور ہر مسلہ مس...
جدید صنعتی اور فکری انقلاب نے جو بہت سے مسائل پیدا کر دیے ہیں ان میں ایک جدید دور میں پیدا ہونے والے مسائل کا فقہی اور شرعی حل بھی ہے ۔ جو جدید ایجادات اور نئے معاملات کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں ۔ ان مسائل کا حل کرنا ایک مشکل اور دشوار کام ہے ۔ اس لئے کہ ان کے لیے قرآن و حدیث اور فقہ کے قدیم ذخیرہ میں ان کی نظائر اور ان سے قریب ترین صورتیں تلاش کرنی ہوتی ہیں ۔ احکام کی علتوں اور اسباب پر غور کرنا ہوتا ہے ۔ اور اپنے زمانہ کے عرف اور رواج کو بھی سامنے رکھنا پڑتا ہے ۔ اس مشکل اور دشوار کام کو حل کرنا علما کے ذمہ ہے ۔ اور وہی ان کے صحیح حل تلاش کرنے کے اہل ہیں ۔ چناچہ ہر زمانہ کے اہل علم اور اہل افتا نے اپنے اپنے دور کے مسائل حل کیے ہیں ۔ موجودہ دور میں بھی ایسی متعدد کوششیں ہو چکی ہیں ۔ زیر نظرکتاب بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے ۔ مؤلف نے ایسے تمام جدید مسائل کو جن کا تعلق عبادات ، معاشرت اور معاملات اور اجتماعی مسائل سے ہے یکجا کر دیا ہے ۔ اور نہائت اختصار و ایجاز کے ساتھ ، سہل ، عام فہم زبان اور دل نشین اسلوب میں مسائل پر گفتگو کی ہے اور ہر مسلہ مس...
اللہ تعالیٰ نے قرآن وسنت کی شکل میں دینِ اسلام کو قیامت تک کے لیے محفوظ فرماکر معیار ہدایت مقرر کردیا ہے اور قرآن وسنت کے احکام میں اتنی وسعت اور لچک رکھی ہے کہ یہ تاقیامت پیش آنے والے مسائل میں امت ِ مسلمہ کی رہنمائی کرسکیں۔یہی وجہ ہے کہ قرآن وسنت کی روشنی میں پیش آمدہ مسائل کے حل کے لیے اجتہاد کا دروازہ قیامت تک کے لیے کھلا رکھا گیا ہے۔ عصر حاضر میں امت مسلمہ کو بے شمار نئے مسائل کا سامنا ہے ان پیدا ہونے والے نئے مسا ئل کے حل کےلیے قرآن وسنت سے براہِ راست اجتہاد کے حوالے سے اہل علم افراط وتفریط کا شکار ہیں ۔جدید فقہی مسائل کے حوالے سے مختلف اہل علم اوربالخصوص فقہ اکیڈمی انڈیا کی کتب قابل ذکر ہیں ۔زیر نظر کتاب ’’جدید فقہی مسائل ‘‘ ڈاکٹر حافظ مبشر حسین لاہوری﷾ (ریسرچ سکالر ادارہ تحقیقات اسلامی ،اسلام آباد) کی تالیف ہے ۔جس میں انہوں نے جدید فقہی مسائل کے حل کےلیے تمام فقہی&n...
شریعتِ اسلامیہ میں نماز بہت بڑا اور اہم رکن ہے اور اس پر مواظبت لازم قرار دی گئی ہے بلکہ کفر وایمان کے درمیان نماز ایک امتیاز ہے۔عقیدہ توحید کے بعد کسی بھی عمل کی قبولیت کےلیے دو چیزوں کاہونا ضروری ہے۔ نیت اور طریقۂ رسول ﷺ ۔لہٰذا نماز کے بارے میں آپ کاﷺ واضح فرمان ہے ’’ نماز اس طرح پڑھو جس طرح تم مجھے پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو‘‘ (بخاری) نماز کے مسائل میں رفع الیدین کوایک بنیادی اور اساسی حیثیت حاصل ہے۔نماز میں رفع الیدین رسول اللہ ﷺ سے متواتر ثابت ہے۔امام شافعی فرماتے ہیں کہ رفع الیدین کی حدیث کو صحابہ کرام کی اس قدر کثیر تعداد نے روایت کیا ہے کہ شاید اور کسی حدیث کواس سے زیادہ صحابہ نے روایت نہ کیا ہو۔ لیکن صد افسوس اس مسئلہ کو مختلف فیہ بنا کر دیگر مسائل کی طرح تقلید اور مسلکی تعصب کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ۔اثبا ت رفع الیدین پر امام بخاری کی جزء رفع الیدین ،حافظ زبیر علی زئی کی نور العینین فی مسئلۃ رفع الیدین وغیرہ کتب قابل ذکر ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب ’’جزء رفع الیدین‘&lsqu...
انسان کی زندگی دکھ سکھ ، غمی و خوشی ، بیماری و صحت ، نفع و نقصان اور آزادی و پابندی سے مرکب ہے۔ اس لیے شریعت نے صبر اور شکر دونوں کو لازمی قرار دیا ہے تاکہ بندہ ہر حال میں اپنے خالق کی طرف رجوع کرے۔ دکھ ، غمی ، بیماری ، نقصان اور محکومیت پر صبر کا حکم ہے اور ساتھ ساتھ ان کو دور کرنے کے اسباب اختیار کرنے کا بھی حکم ہے جبکہ سکھ ، خوشی ، صحت ، نفع اور آزادی پر شکر کرنے کا حکم ہے اور ساتھ ساتھ ان کی قدردانی کا بھی حکم دیا گیا ہے۔ اگر دونوں طرح کے حالات کو شریعت کے مزاج اور منشاء کے مطابق گزارا جائے تو باعث اجر وثواب ورنہ وبال جان۔لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم دونوں حالتوں میں خدائی احکام کو پس پشت ڈالتے ہیں۔ مشکل حالات پر صبر کے بجائے ہائے ہائے، مایوسی و ناامیدی اور واویلا کرتے ہیں جبکہ خوشی کے لمحات میں حدود شریعت کو یکسر پامال کردیتے ہیں۔ اس کی بے شمار مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ آپ نے اکثر دیکھا ہو گا کہ جب کسی گھر میں کوئی فوتگی ہو جاتی ہے تو لوگوں کی زبانیں تقدیر خداوندی پر چل پڑتی ہیں اور مرنے والے کو کہہ رہے ہوتے ہیں کہ " ابھی تو تیرا وقت بھی نہیں آیا ت...
شاہ ولی اللہ دہلوی برصغیر کی جانی مانی علمی شخصیت ہیں۔ شاہ صاحب بنیادی طور پر حنفی المسلک تھے۔ وہ دور برصغیر میں تقلیدی جمود کا دور تھا اور فقہ حنفی کو حکومتی سرپرستی حاصل تھی۔شاہ ولی اللہ جیسے ماہر فقہ نے اسی مکتبہ فکر میں پرورش پائی تھی۔ لیکن جب آپ حج کے لیے مکہ گئے تو وہاں سے عرب شیوخ سے درس حدیث لیا یہیں سے آپ کی طبیعت میں تفہیم دین بارے تقلیدی جمود کے خلاف تحریک اٹھی۔ وہاں سے تشریف لاکر سب سے پہلے آپ نے برصغیر کے عوام کو اپنی تحریروں سے یہ بات سمجھادی کہ دین کسی ایک فقہ میں بند نہیں بلکہ چاروں اماموں کے پاس ہے۔ یہ جامد تقلید کے خلاف برصغیر میں باضابطہ پہلی کوشش تھی۔ اس کے بعد شاہ صاحب نے ساری زندگی قرآن و سنت کو عام کرنے کے لیے وقف کردی۔ پیش نظر کتاب ’حجۃ اللہ البالغۃ‘ بھی موصوف ہی کی مشہور و معروف تالیف ہے جس میں آپ نے نہایت شرح و بسط کے ساتھ احکام شرع کی حکمتوں اور مصلحتوں پر روشنی ڈالی ہے۔یہ کتاب انسانوں کے شخصی اور اجتماعی مسائل، اخلاقیات، سماجیات او راقتصادیات کی روشنی میں فلاح انسانیت کی عظیم دستاویز کا خلاصہ ہے۔ اردو ترجمہ کرنے کے فرائض مولا...
حرمت رضاعت کتنی بار دودھ پینے سے ثابت ہوتی ہے؟ اس حوالے سے ہمارے ہاں مختلف مؤقف پائے جاتے ہیں- زیر نظر کتاب میں ابوجابر عبداللہ دامانوی صاحب نے اسی موضوع پر جامعہ عربیہ، بنوری ٹاؤن کے ایک فتوی کا علمی وتحقیقی جائزہ پیش کرتے ہوئے اپنی آراء کا اظہار کیاہے-اور واضح اور محکم دلائل کے ساتھ ثابت کیاہےکہ حرمت رضاعت پانچ بار دودھ پینے سے ثابت ہوتی ہے اس سے کم پر نہیں - مصنف نے کتاب میں جہاں حنفی حضرات کی جانب سے پیش کی جانے والی تمام احادیث کا اصل مفہوم بیان کیا ہے وہاں ان پرصحت وضعف کا حکم بھی لگایا ہے-علاوہ ازیں حرمت رضاعت کے چند اصول بیان کرتے ہوئے کتاب وسنت کے اصل مؤقف کی جانب راہنمائی فراہم کی گئی ہے
شریعتِ اسلامیہ میں نماز بہت بڑا اور اہم رکن ہے اور اس پر مواظبت لازم قرار دی گئی ہے بلکہ کفر وایمان کے درمیان نماز ایک امتیاز ہے۔عقیدہ توحید کے بعد کسی بھی عمل کی قبولیت کےلیے دو چیزوں کاہونا ضروری ہے۔ نیت اور طریقۂ رسول ﷺ ۔لہٰذا نماز کے بارے میں آپ کاﷺ واضح فرمان ہے ’’ نماز اس طرح پڑھو جس طرح تم مجھے پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو‘‘ (بخاری) رکوع میں جاتے ہوئے اور رکوع سے کھڑا ہوتے وقت ہاتھوں کو کندھوں یا کانوں تک اٹھانا (یعنی رفع الیدین کرنا) نبی کریم ﷺ کی سنت مبارکہ ہے۔آپ ﷺ نے اپنی زندگی کے آخری ایام تک اس سنت پر عمل کیا ہے۔نماز میں رفع الیدین رسول اللہ ﷺ سے متواتر ثابت ہے۔امام شافعی فرماتے ہیں کہ رفع الیدین کی حدیث کو صحابہ کرام کی اس قدر کثیر تعداد نے روایت کیا ہے کہ شاید اور کسی حدیث کواس سے زیادہ صحابہ نے روایت نہ کیا ہو۔ او رامام بخاری نے جزء رفع الیدین میں لکھا ہے ہے ک...
یہ مسئلہ ایک طویل عرصہ سے استخوان نزاع بنا ہوا ہے کہ آیا اجتہاد کا دروازہ بند ہو چکا ہے یا کھلا ہے ،اور یہ کہ کیا ہر شخص پر ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک کی تقلید واجب ہے یا نہیں؟مقلدین حضرات کا کہنا ہے کہ اجتہاد کا مطلق کا دروازہ بند ہو چکا ہے اور اب ہر شخص کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان ائمہ میں سے کسی ایک کی تقلید کرے ۔اس کے برعکس اہل حدیث کا کہنا ہے ہ باب اجتہاد تاقیامت واہے اور تقلید شخصی کا قرآن وحدیث سے کوئی ثبوت نہیں،لہذا یہ درست نہیں۔زیر نظر کتابچہ امام شوکانی ؒ کی تصنیف ہے جو یمن کے ایک جلیل القدر عالم ،فقیہ،مفسر ،مجتہد اور محدث تھے۔امام صاحب ؒ نے اس میں ارباب تقلید کے دلائل کا جائزہ لیا ہے اور ان کے مغالطوں کا تجزیہ کر کے ان کا تارو پود بکھیر دیا ہے ،نیز یہ بھی ثابت کیا ہے کہ خود ائمہ متبوعین نے لوگوں کو اپنی تقلید سے روکا ہے ۔امید ہے کہ مسئلہ تقلید کو سمجھنے کے لیے اس کا مطالعہ مفید ثابت ہو گا۔(ط۔ا)
قرآن و حدیث ہی کامل و اکمل دین ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اسی پر عمل کر کے ؓ کا لقب حاصل کیا اور قیامت تک کیلئے یہی قانون قرار پایا۔ دوسری طرف راہ حق کی طرف سب سے بڑی رکاوٹ تقلید شخصی ہے۔ کہ جس کی بدولت نبی اکرم ﷺ کے بعد پوری امت میں سے کسی ایک عالم کو امام مختص کر کے اس کی ہر صحیح یا غلط بات کو مان لیا جاتا ہے۔ دور حاضر میں اس موضوع پر سلف صالحین سے لے کر آج تک علماء تحریاً و تقریراً اظہار حق کرتے رہے ہیں۔ انہی میں ایک کاوش یہ زیر تبصرہ کتاب بھی ہے ، جو کہ درحقیقت پشتو زبان میں تحریر کی گئی تھی۔ یہ اس کا اردو ترجمہ ہے۔ مصنف محترم، فقہ حنفی پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ آئے دن مختلف مقلدین کی جانب سے شبہات و سوالات کے جوابات کے علاوہ مناظروں میں بھی جہالت کے خلاف تحقیق کی تلوار سے جنگ لڑ رہے ہیں۔ تقلید کی حقیقت اور کتاب و سنت کے اتباع کی طرف والہانہ دعوت دیتی یہ ایک عمدہ کتاب ہے۔
جب کوئی معاشرہ مذہب کو اپنے قانون کا ماخذ بنا لیتا ہے تو اس کے نتیجے میں علم فقہ وجود پذیر ہوتا ہے۔ علم فقہ، دین کے بنیادی ماخذوں سے حاصل شدہ قوانین کے ذخیرے کا نام ہے۔ چونکہ دین اسلام میں قانون کا ماخذ قرآن مجید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی سنت ہے اس وجہ سے تمام قوانین انہی سے اخذ کیے جاتے ہیں۔ جب قرآن و سنت کی بنیاد پر قانون سازی کا عمل شروع کیا جائے تو اس کے نتیجے میں متعدد سوالات پیدا ہو جاتے ہیں۔قرآن مجید کو کیسے سمجھا جائے؟قرآن مجید کو سمجھنے کے لئے کس کس چیز کی ضرورت ہے؟ سنت کو سمجھنے کے لئے کس کس چیز کی ضرورت ہے؟ سنت کہاں سے اخذ کی جائے گی وغیرہ وغیرہ۔ ان سوالوں کا جواب دینے کے لئے جو فن وجود پذیر ہوتا ہے، اسے اصول فقہ کہا جاتا ہے۔اور تمام قدیم مسالک (احناف،شوافع،حنابلہ اور مالکیہ)نے قرآن وسنت سے احکام شرعیہ مستنبط کرنے کے لئے اپنے اپنے اصول وضع کئے ہیں۔بعض اصول تو تمام مکاتب فکر میں متفق علیہ ہیں جبکہ بعض میں اختلاف بھی پایا جاتا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب " حقیقۃ الفقہ" محترم مولانا حافظ محمد یوسف جے پوری کی تصن...
اس کتاب کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے-پہلے حصہ میں وہ موضوعات زیر بحث لائے گئے ہیں جو قرآن و حدیث یا اجماع صحابہ کے خلاف ہیں جن کی تہذیب اجازت نہیں دیتی اور حصہ دوم میں وہ امور صحیہ اور مسلمہ درج کیے گئے ہیں جن پر بالخصوص اہل حدیث کا عمل ہے –مصنف نے اس کتاب میں جن باتوں پر خصوصی بحث کہ ہے اور اپنا موضوع بنایا ہے وہ رسول اللہ , صحابہ , تابعین کے زمانے کا طرز عمل ہے، اسلام میں فرقہ بندی , تقلید کے معنی , ابتداء و اسباب , تقلید کی تردید کتاب و سنت و تفاسیر ز اقوال صحابہ تابعین و تبع تابعین آ ئمہ اربعہ کے اقوال سے ہے- اس طرح نماز , روزہ , حج, زکوۃ , نکاح , رضاعت , طلاق و بیوع اور کھا نے پینے کے متعلق سب مسائل کا بیان ہے -جبکہ حصہ دوم میں امام ابو حنیفہ , شافعی , ملا علی قاری کے اقوال , کتب احادیث , آئمہ حدیث , کتب فقہ , اور دوسرے اہم موضوع بیان کیے ہیں-ہر بحث کو الگ الگ باب بنا کر اس کے بارے میں احناف کے فقہی مسائل کو بیا ن کر کے قرآن وسنت کی روشنی میں اور علمائے احناف کی آراء کی روشنی میں اس کی وضاحت کی گئی ہے-
قانون اسلامی ، اختصاصی مطالعہ کورس ۔چوبیس درسی اکائیوں پر مشتمل اس کورس کو مختلف سکالرز نے مرتب کیا اور شریعہ اکیڈمی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی ،اسلام آباد نے تقریبا بیس سال قبل اسے کتابی صورت میں شائع کیا ہے۔یہ کورس بنیادی طور پر علم اصول فقہ کے اختصاصی مطالعے کےلیے تیار کیا گیا ہے۔ جس کا مقصد علم اصول فقہ کے جملہ مباحث کو عام فہم انداز میں طلبہ کے ذہن نشین کرانا ہے۔ پانچوں مکاتبِ فقہ کےبنیادی اصولوں کا تقابلی مطالعہ بھی اس میں شامل ہے۔ اسی طرح مناہج اجتہاد، قواعد فقہیہ اور تقنین (فقہی احکام کی ضابطہ بندی) کے موضوعات بھی کورس کا حصہ ہیں۔ چوبیس درسی اکائیوں پر مشتمل اس کورس میں کوشش کی گئی ہیں کہ اصول فقہ کے مباحث کی ضروری تفصیلات مثالوں کے ساتھ پیش کر دی جائیں۔ رسرچ سکالرز کے افادہ اور نیٹ پر محفوظ کرنے کی غرض سے اسے کتاب وسنت سائٹ پر پبلش کیا گیا ہے۔اس کورس کے کل 24 اجزاء ہیں۔ جزءاول (علم اصول فقہ: ایک تعارف (حصہ اول ) اور بیسواں جزء (فقہ حنفی وفقہ مالکی ) دستیاب نہیں ہوسکے ۔(م۔ا)...
وحدت و اتحاد ایک ایسی ضرورت ہے جس کی طرف اسلام باربار دعوت دیتا ہے اور تاکید کرتاہے کہ جس امت کادین ایک، دینی شعائر ایک، شریعت و قانون ایک، منزل ایک اور خدا و رسول ایک ہو، اسے بہرحال خود بھی ایک ہونا چاہئے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک نے جہاں امت کو ایک ہوکر اللہ کی رسی کو پکڑنے کی تاکید کی ہے اور افتراق و انتشار سے روکا ہے، وہاں خطاب واحد کے بجائے جمع کے صیغوں سے کیاہے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ہر فرد جزو امت ہے وہ کسی صورت میں امت سے جدا نہیں ہوسکتا ہے۔ وحدت امت کی فرضیت، اہمیت اور ضرورت کی اس سے بڑی دلیل اور کیاہوسکتی ہے کہ شریعتِ اسلام نے امت کو دن میں پانچ بار جمع ہوکر نماز قائم کرنے کاحکم دیا، پھر ہفتہ میں ایک بار اس سے بڑے اجتماع کے لئے جمعہ کو فرض قرار دیا اور پھر نماز عید کی شکل میں سالانہ اجتماع کا اہتمام کیا اور تاکید کی کہ یہ اجتماع آبادی سے نکل کر کھلے میدان میں منعقد ہو اور مردوں کے ساتھ عورتوں کو بھی اس میں شرکت کی ترغیب دی پھر اس سے بڑا اہتمام یہ کیاکہ فرضیت حج کے ذریعہ مشرق و مغرب، جنوب شمال اور دنیا کے اطراف و اکناف میں بسنے والی امت کو ایک م...
قانون اسلامی ، اختصاصی مطالعہ کورس ۔چوبیس درسی اکائیوں پر مشتمل اس کورس کو مختلف سکالرز نے مرتب کیا اور شریعہ اکیڈمی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی ،اسلام آباد نے تقریبا بیس سال قبل اسے کتابی صورت میں شائع کیا ہے۔یہ کورس بنیادی طور پر علم اصول فقہ کے اختصاصی مطالعے کےلیے تیار کیا گیا ہے۔ جس کا مقصد علم اصول فقہ کے جملہ مباحث کو عام فہم انداز میں طلبہ کے ذہن نشین کرانا ہے۔ پانچوں مکاتبِ فقہ کےبنیادی اصولوں کا تقابلی مطالعہ بھی اس میں شامل ہے۔ اسی طرح مناہج اجتہاد، قواعد فقہیہ اور تقنین (فقہی احکام کی ضابطہ بندی) کے موضوعات بھی کورس کا حصہ ہیں۔ چوبیس درسی اکائیوں پر مشتمل اس کورس میں کوشش کی گئی ہیں کہ اصول فقہ کے مباحث کی ضروری تفصیلات مثالوں کے ساتھ پیش کر دی جائیں۔ رسرچ سکالرز کے افادہ اور نیٹ پر محفوظ کرنے کی غرض سے اسے کتاب وسنت سائٹ پر پبلش کیا گیا ہے۔اس کورس کے کل 24 اجزاء ہیں۔ جزءاول (علم اصول فقہ: ایک تعارف (حصہ اول ) اور بیسواں جزء (فقہ حنفی وفقہ مالکی ) دستیاب نہیں ہوسکے ۔(م۔ا)...
خاندان کے لغوی معنی ہیں، گھرانہ، قبیلہ، کنبہ۔ خاندان سے مراد افراد کا ایسا منظم گروہ ہے، جسکا آغاز تعلق ازواج میں منسلک دو افراد (یعنی میاں بیوی) سے ہوتا ہے۔ اور پھر ان کی نسل بڑھنے سے انسانی رشتوں اور تعلقات میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ اور یوں خاندانی کی حدود میں وسعت آجاتی ہے۔ دنیا میں پہلے خاندان کا آغاز ابو البشر حضرت آدم ؑ اور ان کے جوڑے حضرت حوا سے ہوا۔ جو اصل میں انسانی معاشرے کا سنگ بنیاد ہے۔ منصوبہ بندی کے معنی ہیں تجویز کرنا، تدبیر کرنا،خاکہ یا نقشہ بنانا۔ اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ تحدید خاندان۔ اصطلاح میں خاندانی منصوبہ بندی سے مرادکنبہ کی پرورش کا وہ طریقہ جس میں بچوں کی تعداد پر نظر رکھی جائے تاکہ ملکی آبادی بے تکان نہ بڑھے، خاندانی منصوبہ بندی ضبط ولادت کا دوسرا نام نہیں بلکہ اسمیں ہر وہ عمل اور کوشش شامل ہے جو زوجین کو خاندان کی حدود میں سکون اور تشفیات کا سامان کرے۔ ماں کی صحت اور خاندان میں توازن برقرار رکھنے کے لیے بچوں کی پیدائش میں وقفہ کا انتظام کرنا، مانع حمل تدابیر کے ذریعے بچوں کی پیدائش کو روکنا اور ادویات اور میکانکی طریقے سے رضاکا...
دین اسلام ایک فطری اور ہمہ گیر مذہب ہے جس نے انسانی زندگی سے متعلقہ کسی پہلو کو بھی رہنمائی سے تشنہ نہیں چھوڑا۔ خاندانی نظام کو بے رواہ روی سے بچانے کے لیے اسلام نے بہت اہم اقدامات کیے ہیں جو معاشرتی ضروریات کے عین مطابق ہیں۔ اسلام کے بیان کردہ انہی اساسی نظریات کو سید سابق نے اپنی مشہور کتاب ’فقہ السنۃ‘ میں ایک باب کے طور پر نقل کیا جس کو انہوں نے ’نظام الاسرۃ‘ کا نام دیا۔ حافظ محمد اسلم شاہدروی نے اسی باب کو اردو قالب میں ڈھالا اور بعض مقامات پر توضیح و تشریح کر کے بھی مسئلہ کی وضاحت کی۔ اس میں منگنی، نکاح، طلاق، خلع، عدت اور پرورش وغیرہ جیسے احکام کے ضمن میں بیسیوں مسائل پر کتاب و سنت کی آرا سامنے آئی ہیں۔ کتاب کا اسلوب سادہ اور عام فہم ہے۔ کتاب علماے کرام ہی لائق مطالعہ نہیں بلکہ عامۃ المسلمین بھی اس سے استفادہ کر کے اسلام کے خاندانی نظام کو سمجھنے اور مستحکم کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ کتاب میں موجود احادیث و آثار کی تخریج کی گئی ہے لیکن بہت سی جگہوں پر ایسی احادیث بھی نظر آتی ہیں جو مکمل حوالہ جات سے خالی ہیں۔ بہرحال مجموعی طور پر افادہ عام کے لیے یہ ایک...
شریعت اسلامیہ میں سفید بالوں کو خضاب لگانے کو جائز قرار دیا گیاہے۔بشرطیکہ وہ کالے کے علاوہ کوئی رنگ ہو۔سیدنا ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم نے فرمایا:'' بڑھاپے کی سفیدی کو بدل دو، یہود جیسے نہ بنو۔''کالے خضاب کے بارے میں فقہا کے درمیان اختلاف ہے۔ شوافع عام حالات میں اسے حرام قرار دیتے ہیں۔ مالکیہ، حنابلہ اور احناف اسے حرام تو نہیں البتہ مکروہ کہتے ہیں۔ امام ابو حنیفہ کے شاگرد قاضی ابو یوسفؒ اس کے جواز کے قائل ہیں۔ حافظ ابن حجر ؒ کہتے ہیں: ''بعض علما نے سیاہ خضاب کے استعمال کو جائز قرار دیا ہے۔'' (ابن حجر، فتح الباری، دار المعرفہ، بیروت، ١٠/ ٣٥٤) ایک قول حضرت عمر بن الخطابؒ کے بارے میں مروی ہے کہ وہ کالا خضاب استعمال کرنے کا حکم دیتے تھے۔ (عبد الرحمن مبارک پوری، تحفۃ الاحوذی شرح جامع الترمذی، طبع دیو بند، ٥/ ٣٥٦)۔ متعدد صحابۂ کرام سے بھی اس کا استعمال ثابت ہے، مثلاً حضرت عثمان بن عفانؓ، حضرت مغیرہ بن شعبہؓ، حضرت عمرو بن العاصؓ، حضرت جریر بن عبد اللہؓ، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ، حضرت حسنؓ، حضرت حسینؓ، حضرت عقبہ بن عامرؓ، حضرت عب...
شریعت اسلامیہ میں سفید بالوں کو خضاب لگانے کو جائز قرار دیا گیاہے۔بشرطیکہ وہ کالے کے علاوہ کوئی رنگ ہو۔سیدنا ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم نے فرمایا:'' بڑھاپے کی سفیدی کو بدل دو، یہود جیسے نہ بنو۔''کالے خضاب کے بارے میں فقہا کے درمیان اختلاف ہے۔ شوافع عام حالات میں اسے حرام قرار دیتے ہیں۔ مالکیہ، حنابلہ اور احناف اسے حرام تو نہیں البتہ مکروہ کہتے ہیں۔ امام ابو حنیفہ کے شاگرد قاضی ابو یوسفؒ اس کے جواز کے قائل ہیں۔ حافظ ابن حجر ؒ کہتے ہیں: ''بعض علما نے سیاہ خضاب کے استعمال کو جائز قرار دیا ہے۔'' (ابن حجر، فتح الباری، دار المعرفہ، بیروت، ١٠/ ٣٥٤) ایک قول حضرت عمر بن الخطابؒ کے بارے میں مروی ہے کہ وہ کالا خضاب استعمال کرنے کا حکم دیتے تھے۔ (عبد الرحمن مبارک پوری، تحفۃ الاحوذی شرح جامع الترمذی، طبع دیو بند، ٥/ ٣٥٦)۔ متعدد صحابۂ کرام سے بھی اس کا استعمال ثابت ہے، مثلاً حضرت عثمان بن عفانؓ، حضرت مغیرہ بن شعبہؓ، حضرت عمرو بن العاصؓ، حضرت جریر بن عبد اللہؓ، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ، حضرت حسنؓ، حضرت حسینؓ، حضرت عقبہ بن عامرؓ، حضرت عب...
امت میں اختلاف کا ہونا ناگزیر ہے، ہر دور میں ہوتا آیاہے اور ہوتا رہے گا، حقیقت میں یہ بھی اللہ کی قدرت کا مظاہرہ ہے اس کو کوئی مٹانے کے درپے ہوتو بھی مٹ نہیں سکتا، یہ الگ بات ہے کہ ہر اختلاف نہ تو مذموم ہے اور نہ ہی ہر اختلاف محمود ہوسکتا، وہ اختلاف جس کا منشاء وسبب قبیح ہو وہ اختلاف یقینا مذموم ہے، اختلاف خواہ مذموم ہو یا محمود اس کے حدود سے تجاوز کرنا اور مخالفین کے ساتھ اعتدال سے ہٹ کر افراط وتفریط کا معاملہ کرنا جائز نہیں۔ فقہی مباحث میں جو کچھ اختلاف پایا جاتا ہے اس کا اکثر حصہ افضلیت و اولیت پر مبنی ہےایک نوع فروعی واجتہادی اختلاف کی ہے، یہ اختلاف محمود ہے۔ جس طرح انبیاء کی شریعتیں الگ الگ رہی ہیں، فروعی مسائل میں ہر مجتہد کی آراء مختلف ہوئی ہیں، کسی کو باطل نہیں کہا جاسکتا، اس قسم کا اختلاف امت کی آسانی کے لیے ہے۔ زیر نظر کتابچہ’’خلاف الامۃ فی العبادات‘‘ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ کا ایک اہم رسالہ ہے ۔امام موصوف نے اس میں اختلافات امت کے اسباب وعلل پر نہایت گراں قدر تحریری سرمایہ محفوظ کردیا ہے...
نماز دین اسلام کے بنیادی پانچ ارکان میں سے کلمہ توحید کے بعد ایک اہم ترین رکن ہے۔اس کی فرضیت قرآن و سنت اور اجماعِ امت سے ثابت ہے۔ یہ شب معراج کے موقع پر فرض کی گئی ،اور امت کو اس تحفہ خداوندی سے نوازا گیا۔ اس کو دن اور رات میں پانچ وقت پابندی کے ساتھ باجماعت ادا کرنا ہر مسلمان پر فرض اور واجب ہے۔لیکن نماز کی قبولیت کے لئے سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ وہ نبی کریم ﷺ کی نماز کے موافق ہو۔نماز کے مختلف فیہ مسا ئل میں سے ایک مسئلہ فاتحہ خلف الامام کا ہے کہ امام کے پیچھے مقتدی سورۃ الفاتحہ پڑھے گا یا نہیں پڑھے گا۔ہمارے علم کے مطابق فرض نفل سمیت ہر نماز کی ہر رکعت میں سورۃ الفاتحہ پڑھنا فرض اور واجب ہے،نمازی خواہ منفرد ہو،امام ہو یا مقتدی ہو۔کیونکہ سورۃ الفاتحہ نماز کے ارکان میں سے ایک رکن ہے اور اس کے بغیر نماز نامکمل رہتی ہے۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اس شخص کی کوئی نماز نہیں جس نے اس میںفاتحۃ الکتاب نہیں پڑھی۔دوسری جگہ فرمایا: “جس نے أم القرآن(یعنی سورۃ الفاتحہ)پڑھے بغیرنماز ادا کی تو وہ نمازناقص ہے، ناقص ہے، ناقص ہے، نا مکمل ہے۔یہ احادیث اور اس معنی پر دلالت کرنے...
امام کے پیچھے مقتدی کو سورۃ الفاتحہ پڑھنی چاہئے یا نہیں۔ اس مسئلے پر اختلاف پایا جاتا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب میں اسی مسئلہ کی نفیس تحقیق ہے۔ اسلوب بیان سنجیدہ ، محققانہ اور معتدل ہے۔ زبان کچھ حد تک پیچیدہ ہے شاید عوام کو ان علمی نکات کو سمجھنے میں کچھ دقت ہو۔ ممکن ہے یہ کتاب "دلچسپ" نہ ہو اور زبان اور مناظرانہ نوک جھونک کے چٹخارہ پسند حضرات اس سے محظوظ نہ ہو سکیں۔ لیکن اس میں شبہ نہیں کہ یہ بلند پایہ تحقیقات پر مشتمل مدبرانہ انداز میں تصنیف کی گئی شاندار کتاب ہے۔ فریق مخالف دیوبندی عالم سرفراز خان صفدر صاحب کی مشہور کتاب "احسن الکلام" کے بھی چیدہ چیدہ گوشوں پر علمی گرفت کی گئی ہے۔
اس کتاب میں حنفی مذہب کی اعلی کتاب ہدایہ کی پوری چھان بین کی گئی ہے اور یہ دکھایا گیا ہے کہ ہدایہ میں امام ابوحنیفہ ،امام ابو یوسف ، امام شافعی اور امام مالک وغیرہ کے مذاہب بیان کرنے ،تاریخی واقعات،موقوف اور مرفوع حدیث کی تمیز ،خلفاء اور صحابہ کے مسئال اور رایوں کےناموں میں مصنف ہدایہ نے فاش غلطیاں کی ہیں ۔ہدایہ میں بہت سی ایسی احادیث ہیں جوبالکل لاپتہ اور بے اصل ہیں اکثر صحیح احادیث کا انکار ہے ار احادیث میں کمی وزیادتی بھی ہے ۔اغلاط ہدایہ یعنی درایت محمدی جس کے مطالعہ سے معلوم ہوگا کہ ہدایہ وغیرہ فقہ کی کتابوں کی احادیث ناقابل اعتبار ہیں۔فقہ کی کتابوں کے تمام مسائل امام ابوحنیفہ کے نہیں ۔ہدایہ کے ایک سوخلاف عقل ونقل مسائل ،ہدایہ کے امام صاحب اوران کے شاگردوں کےایک سواختلافی مسائل،ہدایہ میں خود امام صاحب کے اقوال میں حلال وحرام کااختلاف وغیرہ درج ہے۔ہدایہ کی اصلیت پر ایک اہم کتاب درایت محمدی۔(ک۔م)