ایک مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے ہر عمل میں احکامات الٰہی کو مد نظر رکھے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں تقلیدی رجحانات کی وجہ سے بعض ایسی چیزیں در آئی ہیں جن کا قرآن وسنت سے ثبوت نہیں ملتا۔اللہ تعالیٰ نے ہر مسلمان کے دوسرے مسلمان پر پانچ حق رکھے ہیں جن کو ادا کرنا اخلاقی اور شرعی فرض بنتا ہے اور انہیں حقوق العباد کا درجہ حاصل ہے۔ان پانچ حقوق میں سے ایک حق یہ ہے کہ جب کوئی مسلمان بھائی فوت ہو جائے تو اس کی نمازہ جنازہ ادا کی جائے اور یہ نمازہ جنازہ حقیقت میں اس جانے والے کے لیے دعا ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی اگلی منزل کو آسان فرمائےاس لیے کثرت سے دعائیں کرنی چاہیں۔لیکن بدقسمتی یہ ہے عوام الناس میں اکثر لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کو جنازے کے مسائل تو دور کی بات جنازہ میں پڑھی جانے والی دعائیں بھی یاد نہیں ہوتیں جس وجہ سے وہ اپنے جانے والے عزیز کے لیے دعا بھی نہیں کر سکتے۔جبکہ اس کے مقابلے میں بعد میں مختلف بدعات کو اختیار کر کے مرنے والے کے ساتھ حسن سلوک کا رویہ ظاہر کرنا چاہتے ہوتے ہیں جو کہ درست نہیں اورشریعت کےخلاف ہے۔ زیر تبصرہ کتا ب’’کتاب الجنائز ‘‘ محترم جناب پروفیسرابو حمزہ محمد اعظم چیمہ صاحب کی تصنیف ہے ۔یہ کتاب مسائل جنازہ سے متعلق ایک جامع کتاب ہے اور اپنے موضوع میں انسائیکلوپیڈیاکی حیثیت رکھتی ہے ۔ جس میں موت سے سوگ تک کے جمیع احکام ومسائل ایک لڑی میں اس طرح پرو دیے گئے ہیں کہ عام سوجھ بوجھ رکھنے والا شخص بھی اس سے بھر پور استفادہ کرسکتا ہے ۔نیز فاضل مصنف نے بھر پور محنت اور باریک بینی سے ان مسائل کا بھی جائزہ لیا حو کسی وجہ سے اختلافات کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں اور ان میں راجع موقف کودلائل وبراہین کی روشنی میں واضح کیا ہے ۔اللہ تعالیٰ اس کتاب کو شرف قبولیت سے نوازے اور مصنف کے لیے آخرت میں نجات کا ذریعہ بنائے ۔(آمین) (م۔ا)
انسان کی خصلت ہے کہ وہ نسیان سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔ اس کے تحت وہ دانستہ یا نادانستہ گناہ کر بیٹھتا ہے ۔ بہترین انسان وہ ہے جسے گناہ کے بعد یہ احساس ہو جائے کہ اس سے غلطی ہوگئی ہے ۔ اگر اس نے توبہ نہ کی تویہ غلطی اس کے خالق ومالک کو اس سے ناراض کردے گی۔ اس سےاپنے معبود ومالک کی ناراضگی کسی صورت بھی برداشت نہیں ہوتی۔ اسی لیے وہ فوری طور پر اللہ کریم کے دربار میں حاضر ہوکر گڑگڑاتا ہے اور وہ آئندہ ایسے گناہ نہ کرنے کا پکا عزم کرتےہوئے توبہ کرتا ہے کہ اے مالک الملک اس مرتبہ معاف کردے آئندہ میں ایسا کبھی نہ کروں گا۔گناہ کے بعد ایسے احساسات اور پھر توبہ کے لیے پشیمانی وندامت پر مبنی یہ عمل ایک خوش نصیب انسان کےحصہ میں آتا ہے۔ جب کہ اس جہاںمیں کئی ایسے بدنصیب سیاہ کار بھی ہیں جن کوزندگی بھر یہ احساس نہیں ہوتا کہ ان کا مالک ان سے ناراض ہوچکا ہے اور وہ ہیں کہ دن رات گناہ کرتے چلےجاتےہیں اور رات کوگہری نیند سوتے ہیں یا مزید گناہوں پر مبنی اعمال میں مصروف رہ کر گزار دیتے ہیں۔جبکہ اللہ کریم اس وقت پہلے آسمان پر آکر دنیا والوں کوآواز دیتا ہے کہ: اے دنیاوالو! ہےکوئی جو مجھ سے اپنے گناہوں کی مغفرت طلب کرے ... ہے کوئی توبہ کرنے والا میں اسے ا پنی رحمت سے بخش دوں۔ زیر نظر کتاب ’’ اسلام میں توبہ کی اہمیت وفضیلت اور اس کا طریقہ‘‘ شیخ محمد بن ابراہیم الحمد حفظہ اللہ کی تالیف الطريق الي التوبة کا اردو ترجمہ ہے ۔اس کتاب میں توبہ کی فضیلت بیان کرنے کے ساتھ ساتھ قرآن وحدیث کی روشنی میں اس بات کو ثابت کیا ہے کہ توبہ کا دروازہ بلاتفریق پوری انسانیت کے چوبیس گھنٹہ کھلا ہے۔ او ران غلطیوں کی نشاندہی کر تے ہوئے نہایت ہی جامع انداز میں ان کا علاج بھی پیش کیا ہےکہ جن غلطیوں کے اکثر لوگ توبہ کے تعلق سے شکار ہو جایا کرتے ہیں ۔الغرض یہ کتابچہ طریقہ توبہ کے تمام شکلوں وصورتوں پر مشتمل ہے۔(م۔ا)
قرآن ِ مجید انسانوں کی راہنمائی کےلیے رب العالمین کی طرف سے نازل کی گئی آخری کتاب ہے ۔اور قرآن کریم ہی وہ واحد کتاب ہے جو تاقیامت انسانیت کے لیے رشد وہدایت کا سرچشمہ اور نوعِ انسانی کےلیے ایک کامل او رجامع ضابطۂ حیات ہے ۔ اسی پر عمل پیرا ہو کر دنیا میں سربلند ی او ر آخرت میں نجات کا حصول ممکن ہے لہذا ضروری ہے کہ اس کے معانی ومفاہیم کوسمجھا جائے ،اس کی تفہیم کے لیے درس وتدریس کا اہتمام کیا جائے او راس کی تعلیم کے مراکز قائم کئے جائیں۔ قرٖآن فہمی کے لیے ترجمہ قرآن اساس کی حیثیت رکھتا ہے ۔آج دنیاکی میں کم وبیش 103 زبانوں میں قرآن کریم کے مکمل تراجم شائع ہوچکے ہیں۔جن میں سے ایک اہم زبان اردو بھی ہے ۔اردو زبان میں اولین ترجمہ کرنے والے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے دو فرزند شاہ رفیع الدین اور شاہ عبد القادر ہیں ۔ اب تو اردو زبان میں بیسیوں تراجم دستیاب ہیں ۔ہنوز یہ سلسلہ جاری وساری ہے ۔ زیرہ تبصرہ کتاب ’’ قرآن مجید کے آٹھ منتخب اردو تراجم ‘‘ڈاکٹر محمد شکیل کی اوج کی کاوش ہے ۔دراصل یہ ڈاکٹر شکیل اوج کا وہ تحقیقی مقالہ ہے جو انہوں نے 2000 ء میں کراچی یونیورسٹی میں پیش کر کے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔موصوف نے اپنے اس مقالہ میں مولانا احمد رضا خان بریلوی، مولانا محمود حسن دیوبندی، مولانا ثناء اللہ امرتسری، مولانا عبد الماجد دریاآبای،مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی ، مولانا امین احسن اصلاحی ،مولانا پیرمحمد کرم شاہ الازہری ، مولانا ابو منصورکے قرآنی تراجم کے محاسن معائب کا تقابلی جائزہ نہایت خوبی ،فنی مہارت، ناقدانہ بصیرت ، محققانہ بصارت اور کثیر الجہت علوم کی مدد سےپیش کیا ہے ۔(م۔ا)
شہادتین کے بعد دین حنیف کا سب سے اہم رکن نماز ہے اور نماز کو درست کرنا ٹھیک طریقہ سے ادا کرنا اور ا س میں خشوع وخضوع کا خیال رکھنا یہ ہمارے لیے شریعت کا حکم ہے۔ فلاح وفوز پانے والوں کی جو صفات اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ذکر کی ہیں ان میں سب سے پہلی صفت یہ ہے کہ وہ نمازوں میں خشوع اختیار کرتے ہیں۔ اور قرآن کریم میں ہی خشوع ان خوش نصیبوں کا ایک وصف بیان ہوا ہے جو اللہ تعالیٰ کی بخشش اور مغفرت کے مستحق اور اجر عظیم پانے والے ہیں‘ خشوع وخضوع کا مطلب ہے کہ نماز کے ہر رکن کو پورے اطمینان اور سکون سے اداکرنا اور جو نماز خشوع وخضوع کے بغیر ادا کی جائے گی وہ نماز طریقہ نبوی کے خلاف ہو گی۔زیرِ تبصرہ کتاب خاص اسی موضوع پر ہے جس میں نماز میں خشوع وخضوع کی اہمیت‘افادیت اور طریقہ کار‘ خشوع کے معانی‘ شرائط‘ اہمیت‘ افادیت اور خشوع کے حصول کے اسباب کو جامع انداز میں پیش کیا گیا ہے۔اور خاشعین نماز کے حوالے سے بہت سے نصیحت آموز واقعات کو بھی بیان کیا گیا ہے۔حوالہ جات سے کتاب کو مزین کیا گیا ہے‘ حوالے میں پہلے مصدر کا نام اور جلد اور صفحہ نمبر بھی درج کیا جاتا ہے۔ کتاب کا اسلوب نہایت عمدہ‘سادہ اور عام فہم ہے۔ یہ کتاب’’ نماز میں خشوع‘ اہمیت‘ افادیت‘ اور طریقہ کار ‘‘ ابو عبد اللہ آصف محمود کی تالیف کردہ ہے۔آپ تصنیف وتالیف کا عمدہ شوق رکھتے ہیں‘ اس کتاب کے علاوہ آپ کی درجنوں کتب اور بھی ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مؤلف وجملہ معاونین ومساعدین کو اجر جزیل سے نوازے اور اس کتاب کو ان کی میزان میں حسنات کا ذخیرہ بنا دے اور اس کا نفع عام فرما دے۔(آمین)( ح۔م۔ا )
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ دین میں تفقہ سب سے افضل عمل ہے۔جو اللہ کی ذات، اس کے اسماء وصفات، اس کے افعال، اس کے دین وشریعت اور اس کے انبیاء ورسل کی معرفت کانا م ہے،اور اس کے مطابق اپناایمان ،عقیدہ اور قول وعمل درست کرنے کا نام ہے۔نبی کریم ﷺنے فرمایا :اللہ تعالی جس کے ساتھ بھلائی کرنا چاہتا ہے اس کو دین کی سمجھ عطا کر دیتا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب "فقہ السنہ" معروف عالم دین محمد عاصم صاحب کی کاوش ہے،جسے انہوں نے معروف فقہی ترتیب پر مرتب کرتے ہوئے قرآنی آیات ،واحادیث نبویہ سے مزین کر دیا ہے ۔اور فروعی مسائل میں صرف ایک ہی قول راجح وصحیح کوبیان کر دیا ہے تاکہ پڑھنے والوں کے لئے سمجھنا آسان ہو اور مبتدی قاری اپنا مطلوب پا لے۔انہوں نے اس کتاب کو مختصر اور مفید بنانے کی از حد کوشش کی ہے ،تاکہ اس سے عابد اپنی عبادت کے لئے ،واعظ اپنی وعظ کے لئے ،مفتی اپنے فتوی کے لئے ،معلم اپنی تدریس کے لئے قاضی اپنے فیصلے کے لئے ،تاجر اپنی تجارت کے لئے اور داعی اپنی دعوت کے لئے فائدہ اٹھا سکے۔اللہ تعالی ان کی اس کاوش کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے۔آمین(راسخ)
اللہ تعالیٰ نے جن وانس کو اپنی عبادت کے لیے پیدا فرمایا ہے او رعبادات کی مختلف اقسام ہیں ۔مثلاً قولی،فعلی ، مالی اور مالی عبادت میں ایک عبادت قربانی بھی ہے۔قربانی وہ جانور ہے جو اللہ کی راہ میں قربان کیا جائے اور یہ وہ عمل ذبیحی ہے جس سے اللہ تعالیٰ کاقرب حاصل کیا جاتا ہے ۔تخلیق انسانیت کے آغازہی سے قربانی کا جذبہ کار فرما ہے ۔ قرآن مجید میں حضرت آدم کے دو بیٹوں کی قربانی کا واقعہ موجود ہے۔اور قربانی جد الانبیاء سیدنا حضرت ابراہیم کی عظیم ترین سنت ہے ۔یہ عمل اللہ تعالیٰ کواتنا پسند آیا کہ اس عمل کوقیامت تک کےلیے مسلمانوں کے لیے عظیم سنت قرار دیا گیا۔ قرآن مجید نے بھی حضر ت ابراہیم کی قربانی کے واقعہ کوتفصیل سے بیان کیا ہے ۔ پھر اہلِ اسلام کواس اہم عمل کی خاصی تاکید ہے اور نبی کریم ﷺ نے زندگی بھر قربانی کے اہم فریضہ کو ادا کیا اور قرآن احادیث میں اس کے واضح احکام ومسائل اور تعلیمات موجو د ہیں ۔کتب احادیث وفقہ میں کتاب الاضاحی کے نام سے ائمہ محدثین فقہاء نے باقاعدہ ابواب بندی قائم کی ہے ۔ اور کئی اہل علم نے قربانی کےاحکام ومسائل اور فضائل کے سلسلے میں کتابیں تالیف کی ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب’’ قربانی کے احکام ومسائل ‘‘ حافظ آباد کے معروف خطیب مولانا محمد اسماعیل حافظ آبادی کی مرتب شدہ ہے ۔ اس کتاب انہوں نے عیدین کے احکام ومسائل بیان کرنے علاوہ جذعہ ، مسنہ ، اور قربانی کے چاردنوں کے متعلق تفصیل سے علمی وتحقیقی بحث پیش کی ہے ۔(م۔ا)
بہترین انسان وہ ہے جسے گناہ کے بعد یہ احساس ہو جائے کہ اس سے غلطی ہوگئی ہے ۔ گناہ کے بعد ایسے احساسات اور پھر توبہ کے لیے پشیمانی وندامت پر مبنی یہ عمل ایک خوش نصیب انسان کےحصہ میں آتا ہے۔ جب کہ اس جہاںمیں کئی ایسے بدنصیب سیاہ کار بھی ہیں جن کوزندگی بھر یہ احساس نہیں ہوتا کہ ان کا مالک ان سے ناراض ہوچکا ہے اور وہ ہیں کہ دن رات گناہ کرتے چلےجاتےہیں اور رات کوگہری نیند سوتے ہیں یا مزید گناہوں پر مبنی اعمال میں مصروف رہ کر گزار دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرتِ انسان پر بہت بڑا احسان کیا کہ انسان سے سرزد ہونے والے گناہوں کی معافی کے لیے ایسے نیک اعمال کی کی ترغیب دلائی ہے کہ جس کے کرنے سےانسان کے زندگی بھر کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔احادیث مبارکہ میں ان اعمال کی تفصیل موجود ہے اور بعض اہل علم نے اس موضوع پر مستقل کتب بھی تصنیف کی ہیں۔زیرِ تبصرہ کتاب خاص اسی موضوع پر ہے کہ جنت کا حصول کیسے ممکن ہے؟ اور جنت کی راہیں کیسے ہموار کی جا سکتی ہیں؟ اور اس میں کتا ب وسنت سے ایسے نصوص کو جمع کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو توبہ کی اہمیت وفضیلت کو اُجاگر کرنے پر دال ہوں۔ کتاب کا اسلوب نہایت عمدہ‘سادہ اور عام فہم ہے۔ یہ کتاب’’ راہ جنت ‘‘ عبد الہادی بن حسن الوہبی کی مرتب کردہ ہے۔آپ تصنیف وتالیف کا عمدہ شوق رکھتے ہیں‘ اس کتاب کے علاوہ آپ کی درجنوں کتب اور بھی ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مؤلف وجملہ معاونین ومساعدین کو اجر جزیل سے نوازے اور اس کتاب کو ان کی میزان میں حسنات کا ذخیرہ بنا دے اور اس کا نفع عام فرما دے۔(آمین)( ح۔م۔ا )
غصہ اطمینان اور رضامندی کی نقیض اور ضد ہے اس میں قوت ، جوش ،غضب ،برہمگی ، ناراضی ، طیش او رجھلاہٹ کا معنیٰ پایا جاتا ہے ۔غصہ اور جارحیت انسان کا فطری ،انسانی اور صحت مندجذبہ ہے لیکن یہ اس کاغیر اخیتاری فعل ہے ۔غصہ انسان کو تباہی کے کنارے پر لے جاتا ہے اورہلاکت کی وادیوں میں پھینک دیتا ہے اس لیے اس کے نقصانات اور ہلاکت خیزیوں سے آگاہی حاصل کرنا ضروری ہے تاکہ اس کے شر سے بچا جاسکے۔غصے اور جذبات پر قابو نہ کرنے کی وجہ سے آج ہمارے معاشرے میں بہت دور رس اثرات مترتب ہور ہے ہیں اور ہمارے باہمی ، معاشرتی تعلقات روبہ زوال ہیں جس کی وجہ صرف یہی ہے کہ ہم ان امور میں اسلامی تعلیمات کونظر انداز کر ر ہے ہیں ۔ نبی کریم ﷺ تو ایسے شخص کوبڑا پہلوان قرار دیتے ہیں جو غصے میں اپنے اوپر قابورکھتا ہے اور اس کے نتیجے میں کسی پر ظلم اورزیاتی نہیں کرتا۔ زتبصرہ کتاب ’’ غصہ مت کریں ‘‘ شیخ ابو عبیدہ عبد الرحمٰن بن منصور کی عربی تصنیف ’’لا تغصب ‘‘ کا اردو ترجمہ ہے ۔فاضل مصنف نے اس کتاب میں غصے کے موضوع پر روشنی ڈالی ہے اور اس سلگتے ہوئے انسانی المیے اور معاشرتی اصلاح اور بگاڑ میں اس جذبے کی صحیح حدود وقیود بیان کی ہیں۔آخر میں والدین کے لیے بچوں کے ساتھ رویے اور تعامل میں غصے کےمتعلق بڑی مفید اور کارآمد نصیحتیں درج کی ہیں ۔نیز فاضل مصنف نے غصے کے متعلق تحریروں سےاستفاد ہ کر کے اس کتاب میں غصے کے پچاس کے قریب نقصانات پیش کیے ہیں ۔اپنے موضوع میں یہ بڑی بہترین کتاب ہے ۔ مصنف ومترجم کی اس کاوش کو شرف قبولیت سے نوازے ۔(آمین)(م۔ا)
حبِ رسول ﷺ اہل ایمان کے لیے ایک روح افزاءباب کی حیثیت رکھتا ہے۔ حبِ رسول ﷺ کے بروئے شریعت کچھ تقاضے ہیں۔ خود نبی ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ مجھے اپنی جان، مال، اولاد، ماں باپ غرض جمیع انسانیت سے بڑھ کر محبوب نہ سمجھے‘‘۔ محبت رسول ﷺ کا مظہر اطاعتِ رسول ہے ۔ رسول اللہ ﷺ سے سچی محبت کےبغیر مومن ہونے کا دعویٰ منافقت کی بیّن دلیل ہے اور حب رسول ﷺ ہی وہ پیمانہ ہےجس سے کسی مسلمان کے ایمان کوماپا جاسکتا ہے۔ دعوائے محبت ہو اوراطاعت مفقود ہو تو دعویٰ کی سچائی پر حرف آتاہے۔ حب رسولﷺ کےتقاضوں میں سے ایک تقاضا تو نبی ﷺ کا ادب و احترام کرنا، آپ سے محبت رکھنا ہے۔ ۔پیغمبر اعظم وآخر الزمان ﷺ کا یہ اعجاز بھی منفرد ہے کہ آپ کے جان نثاروں کی زندگیاں جہاں محبتِ رسول کی شاہکار ہیں وہاں ہر ایک کی زندگی سنت رسولﷺ کی آئینہ دار ہے۔ ان نفوس قدسہ نے دونوں جہتوں میں راہنمائی کا عظیم الشان معیار قائم فرمایا ہے۔صحابہ کرام نبی کریم ﷺ سے سچی محبت کرتے تھے اوراس محبت میں مال ودولت کیا جان تک قربان کردیتے تھے تاریخ میں ایسی ایک نہیں سیکڑوں مثالیں موجود ہیں۔ صحابہ کرام کا یہی وہ جذبہ اور ایسی ہی محبت آج بھی دلوں میں اجاگر کرنے کی ضرورت ہے ۔ زیر تبصرہ کتاب ’’فداک ابی وامی میرے ماں باپ آپ پر قربان ‘‘ مولانا ابوبکر اسماعیل کی کاوش ہے جس میں انہوں نے حب النبی ﷺ کے متعلق روشنی ڈالی ہے ۔محترم جناب مولانا محمد عظیم حاصلپوری ﷾ نے نبی اکرم ﷺ سے صحابہ کی محبت اور جان نثاری پرجامعہ مقدمہ تحریر کر کے کتاب میں چار چاند لگادیے ہیں ۔نیز انہوں نے فوائد اور صحابہ کے حالات ، فضائل اور افادیت کا ذکر کر کے اس کتاب کو جامع اور پر اثر بنادیا ہے ۔اللہ تعالیٰ فاضل مصنف اور ناشرین کی اس کاوش کو شرف قبولیت سے نوازے ۔(آمین) (م۔ا)
تہذیبیں گروہ انسانی کی شدید محنت اور جاں فشانی کا ثمرہ ہوتی ہیں۔ ہر گروہ کو اپنی تہذیب سے فطری وابستگی ہوتی ہے۔ جب تک اس کی تہذیب اسے تسکین دیتی ہے، وہ دیگر تہذیبوں سے بے نیاز رہتا ہے۔ جب کوئی بیرونی تہذیب اس پر دباؤ ڈالنے لگتی ہے تو معاشرہ اپنی تہذیب کی مدافعت کے لئے اٹھ کھڑا ہوتا ہے، اور مخالف تہذیب کو اپنی تہذیب پر اثر انداز ہونے سے روکنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ مدافعت اکثر حربی ٹکراؤ کی صورت اختیار کر جاتی ہے،اور اگر حربی مدافعت کی قوت باقی نہیں رہ جاتی تو غالب معاشرے کے خلاف سرد جنگ شروع ہوجاتی ہے۔ تاآنکہ دونوں میں سے کسی ایک کو قطعی برتری حاصل نہ ہو جائے۔ بصورت دیگر کوئی نئی تہذیب وجود میں آتی ہے جس میں متحارب معاشرے ضم ہوجاتے ہیں۔ مستشرقین بھی اسلام اور پیغمبر اسلام کو اسی نگاہ سے دیکھتے ہیں، اور اس کا مقابلہ کرنے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب "یہودی مغرب اور مسلمان" محترم ڈاکٹرعبید اللہ فہد فلاحی صاحب کی تصنیف ہے، جس میں انہوں نے مغربی یہودیوں کی اسلام کے خلاف کی جانے والی اقتصادی، عسکری اور فکری سازشوں کو طشت ازبام کیا ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف کی اس کاوش کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔ آمین (راسخ)
صحابہ نام ہے ان نفوس قدسیہ کا جنہوں نے محبوب ومصدوق رسول ﷺ کے روئے مبارک کو دیکھا اور اس خیر القرون کی تجلیات ِایمانی کو اپنے ایمان وعمل میں پوری طرح سمونے کی کوشش کی ۔ صحابی کا مطلب ہے دوست یاساتھی شرعی اصطلاح میں صحابی سے مراد رسول اکرم ﷺکا وہ ساتھی ہے جو آ پ پر ایمان لایا،آپ ﷺ کی زیارت کی اور ایمان کی حالت میں دنیا سے رخصت ہوا ۔ صحابی کالفظ رسول اللہﷺ کے ساتھیوں کے ساتھ کے خاص ہے لہذاب یہ لفظ کوئی دوسراا شخص اپنے ساتھیوں کےلیے استعمال نہیں کرسکتا۔ اسی طرح سیدات صحابیات وہ عظیم خواتین ہیں جنہوں نے نبی کریم ﷺ کودیکھا اور ان پر ایمان لائیں اور ایمان کی حالت میں دنیا سے رخصت ہوئیں۔انبیاء کرام کے بعد صحابہ کرام کی مقدس جماعت تمام مخلوق سے افضل اور اعلیٰ ہے یہ عظمت اور فضیلت صرف صحابہ کرام کو ہی حاصل ہے کہ اللہ نے انہیں دنیا میں ہی مغفرت،جنت اور اپنی رضا کی ضمانت دی ہے بہت سی قرآنی آیات اور احادیث اس پر شاہد ہیں۔صحابہ کرام وصحابیات سے محبت اور نبی کریم ﷺ نے احادیث مبارکہ میں جوان کی افضلیت بیان کی ہے ان کو تسلیم کرنا ایمان کاحصہ ہے ۔بصورت دیگرایما ن ناقص ہے ۔ صحابہ کرام کے ایمان ووفا کا انداز اللہ کو اس قدر پسند آیا کہ اسے بعد میں آنے والے ہر ایمان لانے والے کے لیے کسوٹی قرار دے دیا۔یو ں تو حیطہ اسلام میں آنے کے بعد صحابہ کرام کی زندگی کاہر گوشہ تاب ناک ہے لیکن بعض پہلو اس قدر درخشاں ،منفرد اور ایمان افروز ہیں کہ ان کو پڑہنے اور سننے والا دنیا کا کوئی بھی شخص متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ صحابہ کرام وصحابیات ؓن کےایمان افروز تذکرے سوانح حیا ت کے حوالے سے ائمہ محدثین او راہل علم کئی کتب تصنیف کی ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب’’ صحیح بخاری کے رواۃ صحابہ کا دلنشین تذکرہ ‘‘ مولانا محمد عظیم حاصلپوری ﷾ (مصنف کتب کثیرہ ) کی ایک منفرد کاوش ہے ۔اس کتاب میں فاضل مصنف نے ہرصحابی کےنام ونسب او رکنیت ولقب کے ساتھ ساتھ ان کے قبول اسلام کی داستاتوں کو تحریرکیا ہے ، ہرصحابی کی حتی الوسع مرویات کی تعداد ،ہرصحابی وصحابیہ کے تذکرے کے آخر میں ان سے مروی ایک حدیث صحیح بخاری سے بطور نمونہ باترجمہ درج کردی ہے ،کتاب کے آخر میں صحابہ کرام کے اسمائے گرامی تحریر کردیے ہیں جو اپنی کنیت سے مشہور ہیں ۔ نیز فاضل مصنف نے شروع میں امام بخاری وصحیح بخاری کے متعلق ضروری اور قیمتی معلوماات درج کردی ہیں ۔فاضل مصنف نے تقریباً یکصد کتب مصادر سے ان صحابہ کرام کے واقعات حیات کشید کر کے درج کیے ہیں کہ جن کی احادیث کو امام بخاری نے صحیح البخاری میں درج کیا ہے ۔اس کتاب میں ہر صحابی کے نام ونسب اور کنیت ولقب کی تحقیق کی گئی ہے ،ان کے قبول اسلام کی داستانوں کو تحریر کیا گیا ہے ۔ان کی ذہانت ، عظمت علمیہ، ایثار نفسی ، جر أت ، زہد وروع اور شرافت ودیانت کے دلچسپ اور قابل رشک واقعاتِ حیات کو احاطۂ تحریر میں لایا گیا ہے ۔اپنے موضوع میں یہ کتاب صحابہ کرام کے فضائل ومناقب پر منفرد کاوش ہے ۔ مفتی جماعت شیخ الحدیث حافظ عبدالستار حماد ﷾ کی اس کتاب پر نظر ثانی سے کتاب کی افادیت دوچند ہوگئی ہے اللہ تعالیٰ فاضل مصنف کی تمام تحقیقی وتصنیف ،صحافتی ،تدریسی اور تبلیغی خدمات کو شرف قبولیت سے نوازے ۔(آمین) (م۔ا)
نماز دین اسلام کے بنیادی پانچ ارکان میں سے کلمہ توحید کے بعد ایک اہم ترین رکن ہے۔اس کی فرضیت قرآن و سنت اور اجماعِ امت سے ثابت ہے۔ یہ شب معراج کے موقع پر فرض کی گئی ،اور امت کو اس تحفہ خداوندی سے نوازا گیا۔اس کو دن اور رات میں پانچ وقت پابندی کے ساتھ باجماعت ادا کرنا ہر مسلمان پر فرض اور واجب ہے۔ نماز دین کا ستون ہے۔ نماز جنت کی کنجی ہے۔ نماز مومن کی معراج ہے۔ نماز نبی کریمﷺ کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ نماز قرب الٰہی کا بہترین ذریعہ ہے۔ نماز اﷲ تعالیٰ کی رضا کاباعث ہے۔ نماز جنت کا راستہ ہے۔ نماز پریشانیوں اور بیماریوں سے نجات کا ذریعہ ہے۔ نماز بے حیائی سے روکتی ہے۔ نماز برے کاموں سے روکتی ہے۔ نماز مومن اور کافر میں فرق کرتی ہے۔ نماز بندے کو اﷲ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول رکھتی ہے۔لیکن اللہ کے ہاں وہ نماز قابل قبول ہے جو نبی کریم ﷺ کے معروف طریقے کے مطابق پڑھی جائے۔ آپ نے فرمایا:تم ایسے نماز پڑھو جس طرح مجھے پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔ نماز کے اختلافی مسائل میں سے ایک اہم ترین مسئلہ سر ڈھانپنے کے بارے میں ہے۔ زیر تبصرہ کتابچہ "نماز میں سر ڈھانپنے کا مسئلہ" جماعت اہل حدیث کے نامور محقق اور عالم دین محترم مولانا سید محب اللہ شاہ راشدی صاحب کی تصنیف ہے ،جس میں انہوں نے نماز میں سر ڈھانپنے کے حوالے سے گفتگو فرمائی ہے، تاکہ تما م مسلمان اپنی نماز یں نبی کریم ﷺ کے طریقے کے مطابق پڑھ سکیں۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف کی اس کاوش کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔ آمین (راسخ)
اللہ تبارک وتعالیٰ نے مسلمانوں کو ایک بڑی دولت اور نعمت سے نوازا ہے، جو پورے دین کو جامع اور اس کی تبلیغ کا بہترین ذریعہ ہے۔ وہ نعمت اور دولت اخلاق آداب ہے، ہمارے نبی حضرت محمد رسول اللہﷺ اخلاق کے اعلیٰ معیار پر تھے، چنانچہ آپﷺ کی راز دار زندگی آپﷺ کی زوجہ محترمہ سیدہ عائشہ ؓ عنہا فرماتی ہیں، ”آپﷺ کے اخلاق کا نمونہ قرآن کریم ہے“۔ آپﷺ نے اپنے ہر قول وفعل سے ثابت کیا کہ آپﷺ دنیا میں اخلاقِ حسنہ کی تکمیل کے لیے تشریف لائے، چنانچہ ارشاد ہے: ”بعثت لاتتم مکارم الاخلاق“ یعنی ”میں (رسول اللہ ﷺ) اخلاق حسنہ کی تکمیل کے واسطے بھیجا گیا ہوں“۔ پس جس نے جس قدر آپﷺ کی تعلیمات سے فائدہ اٹھاکر اپنے اخلاق کو بہتر بنایا اسی قدر آپﷺ کے دربار میں اس کو بلند مرتبہ ملا، صحیح بخاری کتاب الادب میں ہے، ”ان خیارکم احسن منکم اخلاقا“ یعنی ”تم میں سب سے اچھا وہ ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں۔ حضورﷺ کی ساری زندگی اخلاقِ حسنہ سے عبارت تھی، قرآن کریم نے خود گواہی دی ”انک لعلی خلق عظیم“ یعنی ”بلاشبہ آپﷺ اخلاق کے بڑے مرتبہ پر فائز ہیں“۔ آپ ﷺ لوگوں کوبھی ہمیشہ اچھے اخلاق کی تلقین کرتے آپ کے اس اندازِ تربیت کےبارے میں حضرت انس کہتے ہیں۔ رایتہ یامر بمکارم الاخلاق(صحیح مسلم :6362) میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ لوگوں کو عمدہ اخلاق کی تعلیم دیتے ہیں۔ زیرتبصرہ کتاب’’ صحیح آداب واخلاق‘‘ محدث العصر علامہ ناصر الدین البانی کی کتب سے ماخوذ اخلاق وآداب اسلامی کے موضوع پر مجموعہ احادیث بعنوان ’’ صحیح الآداب والأخلاق‘‘ کا اردو ترجمہ ہے اس کتاب میں احادیث نبویہ کے ذخیرے میں سے وہ احادیث وسنن جمع کی ہیں جوہمارے سامنے پیغمبر اسلام ﷺ کےاخلاق کریمہ پر روشنی ڈالتی ہیں تاکہ ہرمسلمان انہیں پڑھ کر نبی کریم ﷺ کے اخلاق وشمائل کی روشنی میں اپنی عادات واعمال کی اصلاح کر سکے ۔کتاب میں مذکورہ احادیث وسنن کے جمع وانتخاب کے سلسلے میں فاضل مصنف نے علامہ ناصر الدین البانی کی تحقیقات وتخریجات پر اعتماد کیا ہےاور صرف معتبر ومستند احادیث ہی کو اس کتاب میں شامل کیا ہے تاکہ قارئین بلا کھٹکے ان نصوص شرعیہ پر عمل پیرا ہوسکیں او ر ان کی صحت واستناد کے متعلق کسی کے ذہن میں کوئی شبہ نہ رہے ۔ نیز متون احادیث کی تشریح میں اکابر علمائے امت کےاقوال وشروح کو بھی کتاب کی زینت بنایاگیا ہے ۔اللہ تعالیٰ مصنف کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور اسے عامۃ الناس کے لیے نفع بخش بنائے ۔(آمین) (م۔ا)
جب کوئی معاشرہ مذہب کو اپنے قانون کا ماخذ بنا لیتا ہے تو اس کے نتیجے میں علم فقہ وجود پذیر ہوتا ہے۔ علم فقہ، دین کے بنیادی ماخذوں سے حاصل شدہ قوانین کے ذخیرے کا نام ہے۔ چونکہ دین اسلام میں قانون کا ماخذ قرآن مجید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی سنت ہے اس وجہ سے تمام قوانین انہی سے اخذ کیے جاتے ہیں۔ جب قرآن و سنت کی بنیاد پر قانون سازی کا عمل شروع کیا جائے تو اس کے نتیجے میں متعدد سوالات پیدا ہو جاتے ہیں۔ قرآن مجید کو کیسے سمجھا جائے؟ قرآن مجید کو سمجھنے کے لئے کس کس چیز کی ضرورت ہے؟ سنت کو سمجھنے کے لئے کس کس چیز کی ضرورت ہے؟ سنت کہاں سے اخذ کی جائے گی؟ قرآن اور سنت کا باہمی تعلق کیا ہے؟ قرآن مجید، سنت اور حدیث میں سے کس ماخذ کو دین کا بنیادی اور کس ماخذ کو ثانوی ماخذ قرار دیا جائے؟ رسول اللہ ﷺ سے مروی احادیث کو کیسے سمجھا جائے گا اور ان سے سنت کو کیسے اخذ کیا جائے گا؟ اگر قرآن مجید کی کسی آیت اور کسی حدیث میں بظاہر کوئی اختلاف نظر آئے یا دو احادیث میں ایک دوسرے سے بظاہر اختلاف نظر آئے تو اس اختلاف کو دور کرنے کے لئے کیا طریقہ اختیار کیا جائے گا؟ ان سوالوں کا جواب دینے کے لئے جو فن وجود پذیر ہوتا ہے، اسے اصول فقہ کہا جاتا ہے۔اور تمام قدیم مسالک (احناف،شوافع،حنابلہ اور مالکیہ)نے قرآن وسنت سے احکام شرعیہ مستنبط کرنے کے لئے اپنے اپنے اصول وضع کئے ہیں۔بعض اصول تو تمام مکاتب فکر میں متفق علیہ ہیں جبکہ بعض میں اختلاف بھی پایا جاتا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب "کلیات فقہ حنفی المعروف بہ اصول الکرخی" امام عبید اللہ بن الحسین الکرخی کی تصنیف ہے، جس کا اردو ترجمہ محترم ڈاکٹر شہباز حسن صاحب نے کیا ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف موصوف کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔ آمین(راسخ)
تاریخ نویسی ہو یا سیرت نگاری ایک مشکل ترین عمل ہے ۔ اس کےلیے امانت ودیانت او رصداقت کاہونا از بس ضروری ہے۔مؤرخ کے لیے یہ بھی ضروری ہےکہ وہ تعصب ،حسد بغض، سے کوسوں دور ہو ۔تمام حالات کو حقیقت کی نظر سے دیکھنے کی مکمل صلاحیت رکھتاہو ۔ذہین وفطین ہو اپنے حافظےپر کامل اعتماد رکھتا ہو۔حالات وواقعات کوحوالہ قرطاس کرتے وقت تمام کرداروں کا صحیح تذکرہ کیا گیا ہو ۔اس لیے کہ تاریخ ایک ایسا آئینہ ہے کہ جس کے ذریعے انسان اپنا ماضی دیکھ سکتاہے اور اسلام میں تاریخ ، رجال اور تذکرہ نگار ی کو بڑی اہمیت حاصل ہے اور یہ اس کے امتیازات میں سے ہے ۔بے شمارمسلمان مصنفین نے اپنے اکابرین کے تذکرے لکھ کر ان کےعلمی عملی،تصنیفی،تبلیغی اورسائنسی کارناموں کوبڑی عمدگی سے اجاگر کیا ہے۔ یوں تو صدیوں کی تاریخ ہمارے سامنے ہے لیکن ماضی قریب او ر موجودہ دور میں تذکرہ نویسی اور سوانح نگاری کے میدان میں جماعت اہل حدیث میں اردو مصنفین اور مقالہ نگاروں میں محترم مولانا محمد اسحاق بھٹی، مولانا محمد رمصان یوسف سلفی ، مولانا حافظ صلاحالدین یوسف وغیرہ کی خدمات قابلِ قدر ہیں۔ زیرتبصرہ کتاب ’’تذکرہ خدمات شیخ الحدیث حافظ محمد بھٹوی وعلمائے بھٹہ محبت‘‘ قاری محمدطیب بھٹوی ﷾کی مرتب شدہ ہے ۔اس کتاب میں اولاً جماعۃ الدعوۃ ،پاکستان کے مرکزی رہنما شیخ التفسیر والحدیث مولانا حافظ عبد السلام بھٹوی ﷾ کے والد گرامی شیخ الحدیث محمدبھٹوی اورپھر موضع بھٹہ محبت کے 83 علما کی حالات قلمبند کیے ہیں ۔ حافظ محمدبھٹوی کا تذکرہ فاضل مصنف نےخاصی تفصیل سے کیا ہے ا ور اس کے بعد تمام بھٹوی علماء کرام کے حالات بیان کیے ہیں ۔اس کتاب میں مذکور32،33 علماء وہ ہیں جو براہ راست شیخ الحدیث حافظ ابو القاسم محمد بھٹوی کے شاگرد ہیں ۔ اور تقریباً چھبیس علماء ایسے ہیں جن کا خاندانی تعلق بریلوی پیر پرست خاندانوں سے تھا مگر دین کا علم پڑھنے کی وجہ سے ان کے خاندان مسلک اہل حدیث قبول کرچکے ہیں ۔ان کے علاوہ کچھ نوعمر طلباء جو مختلف مدارس دینیہ میں زیر تعلیم ہیں ۔ ان کے اسماء گرامی آخر میں مستقبل کے علماء کرام کےعنوان کےتحت لکھ دیے ہیں ۔(م۔ا)
اسلام امن پسند مذہب ہے اور مکمل ضابطہ حیات ہے، جس کے ذریعہ انسان بشریت کے تقاضوں کو پورا کر سکتا ہے، تاریکیوں کو اجالوں میں بدل سکتا ہے۔ اسلام اور اسلامی نظام ِ حیات‘ ایک پاک وصاف معاشرے کی تعمیر اور انسانی اخلاق وعادات کی تہذیب کرتا ہے۔ اسلام نے جاہلیت کے رسم ورواج اور اخلاق وعادات کو جو ہرقسم کے فتنہ وفساد سے لبریز تھے‘ یکسر بدل کر ایک مہذب معاشرے اور تہذیب کی داغ بیل ڈالی‘ جس سے عام انسان کی زندگی میں امن چین اور سکون ہی سکون در آیا۔ اسلام اپنے ماننے والوں کی تہذیب اور پرامن معاشرے کے قیام کے لئے جو پہلی تدبیر اختیار کرتا ہے‘ وہ ہے: انسانی جذبات کو ہرقسم کے ہیجان سے بچانا‘ وہ مرد اور عورت کے اندر پائے جانے والے فطری میلانات کو اپنی جگہ باقی رکھتے ہوئے انہیں فطری انداز کے مطابق محفوظ اور تعمیری انداز دیتاہے‘اسلام یہ چاہتا ہے کہ عورت کا تمام ترحسن وجمال‘ اس کی تمام زیب وزینت اور آرائش وسنگھار میں اس کے ساتھ صرف اس کا شوہر شریک ہو‘ کوئی دوسرا شریک نہ ہو‘ عورت اپنی آرائش اور جمال صرف اپنے مرد کے لئے کرے۔اگر دیکھا جائے تو عورت درحقیقت تمام تر سنگھار وآرائش مرد کو اپنی طرف متوجہ کرنے اور اس کی خصوصی توجہ کے حصول کے لئے ہی کرتی ہے ۔ عورت کے حسن وجمال کو اس کی زیب وزینت کو اللہ تعالیٰ نے اس کے شوہر کی دل بستگی اور توجہ کے لئے محدود کردیا ہے‘ تاکہ وہ اپنی ساری توجہ اپنی بیوی کی طرف مرکوز رکھے اور اس کی عورت غیروں کی ہوس ناک نظروں سے محفوظ ومامون رہے۔ اللہ تعالیٰ نے شوہر اور بیوی کو ایک دوسرے کا لباس قرار دیا ہے۔ یہ ان کی قربت اور ہم نفسی کی علامت ہے‘ اسلام جب پردے کی تاکید کرتا ہے تو اس سے مراد ایک نہایت پاک وصاف سوسائٹی کا قیام ہے۔ اگر ہم اپنے چاروں اطراف نظر ڈالیں تو بخوبی اندازا کر سکتے ہیں کہ احکام الٰہی سے اعراض اور روگردانی کے کیسے کیسے بھیانک اور عبرت ناک مناظر سامنے آرہے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب "فریفتگی، اسباب، نقصانات، ظاہری شکلیں اور علاج" سعودی عرب کے معروف عالم دین شیخ خالد بن ابراہیم الصقعبی کی تصنیف ہے، جس کا اردو ترجمہ محترم زبیر احمد سلفی صاحب نے کیا ہے۔ مولف موصوف نے اس کتاب میں بے پردگی کے نقصانات واضح کرتے ہوئے پردہ کی اہمیت کو بیان کیا ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف اور مترجم کی ان محنتوں اور کوششوں کو قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔ آمین(راسخ)
مالک ارض وسما نے جب انسان کو منصب خلافت دے کر زمین پر اتارا تواس کی رہنمائی کے لیے ایک مکمل ضابطۂ حیات سے بھی نوازا۔ شروع سے لے کر آج تک یہ دین‘ دین اسلام ہی ہے جو انسان کے لیے ضابطۂ حیات ہے۔ اس کی تعلیمات کو روئے زمین پر پھیلانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ سے لے کر حضرت محمدﷺ تک کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کو مبعوث فرمایا اور اس سب کو یہی فریضہ سونپا کہ وہ خالق ومخلوق کے ما بین عبودیت کا حقیقی رشتہ استوار کریں۔ انبیاء کے بعد چونکہ شریعت محمدی قیامت تک کے لیے تھی اس لیے نبیﷺ کے بعد امت محمدیہ کے علماء نے اس فریضے کی ترویج کی۔ ان عظیم شخصیات میں سے ایک ظہیر الدین محمد بابر بھی ہیں۔زیرِ تبصرہ کتاب میں ظہیر الدین محمد بابر سے متعلق تزک بابری کے علاوہ اس دور سے اب تک مسلمان اور ہندو مؤرخین نے فارسی‘ اردو اور انگریزی میں جو لکھا گیا ہے ان کے اقتباسات کو پیش کیا گیا ہے تاکہ وہ اپنی رائے خود قائم کر سکیں۔ اور ان کے حالات‘کارکردگی اور کارناموں کا تذکرہ اصلی ماخذان کی خود نوشت سوانح عمری ہے‘ اردو میں اس کا صحیح اور درست ترجمہ نصیر الدین حیدر گورگانی نے ترکی‘فارسی اور انگریزی نسخوں سے موازنہ کر کے کیا ہے اس لیے معلومات کا سرچشمہ یہی ہے۔ اور لفظی اقتباسات سے بچتے ہوئے مفہوم پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ کتاب’’ ظہیر الدین محمد بابر مسلمان وہندو مؤرخین کی نظر میں ‘‘ سید صباح الدین عبد الرحمان کی مرتب کردہ ہے۔آپ تصنیف وتالیف کا عمدہ شوق رکھتے ہیں‘ اس کتاب کے علاوہ آپ کی درجنوں کتب اور بھی ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مؤلف وجملہ معاونین ومساعدین کو اجر جزیل سے نوازے اور اس کتاب کو ان کی میزان میں حسنات کا ذخیرہ بنا دے اور اس کا نفع عام فرما دے۔(آمین)( ح۔م۔ا )
ہر دلعزیز سیرتِ سرورِ کائنات کا موضوع گلشنِ سدابہار کی طرح ہے ۔جسے شاعرِ اسلام سیدنا حسان بن ثابت سے لے کر آج تک پوری اسلامی تاریخ میں آپ ﷺ کی سیرت طیبہ کے جملہ گوشوں پر مسلسل کہااور لکھا گیا ہے او رمستقبل میں لکھا جاتا رہے گا۔اس کے باوجود یہ موضوع اتنا وسیع اور طویل ہے کہ اس پر مزید لکھنے کاتقاضا اور داعیہ موجود رہے گا۔ گزشتہ چودہ صدیوں میں اس ہادئ کامل ﷺ کی سیرت وصورت پر ہزاروں کتابیں اورلاکھوں مضامین لکھے جا چکے ہیں ۔دنیا کی کئی زبانوں میں بالخصوص عربی اردو میں بے شمار سیرت نگار وں نے سیرت النبی ﷺ پر کتب تالیف کی ہیں۔ اردو زبان میں سرت النبی از شبلی نعمانی ، رحمۃللعالمین از قاضی سلیمان منصور پوری اور مقابلہ سیرت نویسی میں دنیا بھر میں اول آنے والی کتاب الرحیق المختوم از مولانا صفی الرحمٰن مبارکپوری کو بہت قبول عام حاصل ہوا۔اورکئی ادارے صرف سیرت نگاری پر کام کرنے کےلیےمعرض وجود میں آئے ہیں۔اور پورے عالمِ اسلام میں سیرت النبی ﷺ کے مختلف گوشوں پر سالانہ کانفرنسوں اور سیمینار کا انعقاد بھی کیا جاتاہے جس میں مختلف اہل علم اپنے تحریری مقالات پیش کرتے ہیں۔ ہنوذ یہ سلسلہ جاری وساری ہے ۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ سیر ت خیرالبشر ‘‘ مشہورمؤرخ علامہ محب الدین طبری کی سیرت النبی کی مشہور ومفید کتاب ’’ خلاصۃ السیر‘‘ کا اردو ترجمہ ہے ۔اس کتاب کے ترجمے کا آغاز مولانامفتی محمود حسن گنگوہی نے کیا تھا لیکن وہ پورا نہ کرسکے بعد ازاں مولانا اظہار الحسن کاندھلوی نے یہ ترجمہ مکمل کیا ہے ۔اولاً یہ ترجمہ دہلی سے طبع ہوا ۔بعد میں کئی ناشرین نےاسے مختلف مقامات سے شائع کیا ۔ زیرتبصرہ ایڈیشن الفتح پبلی کیشن ،راولپنڈی سے شائع شدہ کاعکس ہے ۔اس طباعت کی افادیت یہ کہ اس کے آخر میں ضروری الفاظ کے معانی (فرہنگ)شامل ہیں کہ جس کی مدد سے بچے اور کم پڑھے اصحاب بھی اس سے مسفید ہوسکتے ہیں ۔(م۔ا)
احکام الٰہی کےمتن کانام قرآن کریم ہے اور اس متن کی شرح وتفصیل کانام حدیث رسول ہے اور رسول اللہ ﷺ کی عملی زندگی اس متن کی عملی تفسیر ہے رسول ﷺ کی زندگی کے بعد صحابہ کرام نے احادیث نبویہ کو آگے پہنچا کر اور پھر ان کے بعد ائمہ محدثین نے احادیث کومدون او ر علماء امت نے کتب احادیث کے تراجم وشروح کے ذریعے حدیث رسول کی عظیم خدمت کی ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے ۔اس سلسلے میں علمائے اہل حدیث کی تدریسی وتصنیفی خدمات بھی قابل قد رہیں پچھلے عہد میں نواب صدیق حسن خاں کے قلم اورمولانا سید نذیر حسین محدث دہلوی کی تدریس سے بڑا فیض پہنچا پھر ان کے شاگردوں اور کبار علماء نے عون المعبود، تحفۃ الاحوذی، التعلیقات السلفیہ، انجاز الحاجۃ جیسی عظیم شروح لکھیں اور مولانا وحید الزمان نے کتب حدیث کااردو زبان میں ترجمہ کر کےبرصغیر میں حدیث کو عام کرنے کا عظیم کام سرانجام دیا۔تقریبا ایک صدی سے یہ تراجم متداول ہیں لیکن اب ان کی زبان کافی پرانی ہوگئ ہے اس لیے ایک عرصے سےیہ ضرورت محسوس کی جارہی ہے تھی کااردو زبان کے جدید اسلوب میں نئے سرے سے یہ ترجمے کرکے شائع کیے جائیں۔شیخ البانی اور ان کے تلامذہ کی کوششوں سےتحقیق حدیث کاجو ذوق پورے عالم اسلام میں عام ہوا اس کے پیش نظر بجار طور پر لوگوں کے اندر یہ تڑپ پیدا ہوئی کہ کاش سننِ اربعہ میں جوضعیف رویات ہیں ا ن کی نشاندہی کر کےاو ر ان ضعیف روایات کی بنیادپر جو احکام ومسائل مسلمانوں میں پھیلے ہوئے ہیں ان کی تردید وضاحت بھی کردی جائے۔سننِ اربعہ کی عربی شروحات میں تحقیق وتخریج کا اہتمام تو موجود تھا لیکن اردو تراجم میں نہیں تھا تو جب ان کے نئے ترجمے کر کے شائع کیے گیے اوران میں احادیث کی تخریج وتحقیق کا بھی اہتمام کیا گیا ہے۔جیسے دارالسلام سے مطبوعہ سنن ابن ماجہ ، سنن نسائی، سنن ابو داؤد، میں احادیث کی مکمل تخریج وتحقیق پیش کی گئی ہے ۔اور اسی طرح بعض دوسرے اداروں نے بھی یہ کام کیا ہے ۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ حدیث انسائیکلوپیڈیا اردو سنن نسائی ‘‘عربی متن کےساتھ آسان اورسلیس اردو ترجمہ ،تخریج ،صحت وضعف کے حکم، اس کی تعلیل وتوجیہ اور مفید جامع اورمختصر تعلیقات وحواشی پر مشتمل ہے ۔اس میں ترجمہ کا کام مولانا محمد مستقیم سلفی ، مولانا خالدعمری ، مولانا محمد بشیر تمیمی اورمولانا ابو البرکات اصلاحی نے کیا ہے ۔حواش وفوائد مولانا احمد مجتبیٰ مدنی ،مولانا محمد مستقیم سلفی اور مولانا رفیق احمدسلفی نے تحریر کیے ہیں ۔کتاب کی مکمل تخریج مولانا احمد مجتبیٰ مدنی اور مولانا عبد المجید مدنی نے کی ہے ۔آخرمیں پورے مسودے کا مراجعہ اور بہت سے خامیوں کی اصلاح ومناسب حذف واضافہ ڈاکٹر عبد الرحمٰن عبد الجبار الفریوائی ﷾(استاذ حدیث جامعۃ الامام محمد بن سعود الاسلامیہ ،الریاض)نے کیا ہے اور گراں قدر جامع علمی مقدمہ بھی تحریرکیا ہے ۔محقق العصر مولانا ارشاد الحق اثری ﷾ کے علمی مقدمہ سے کتاب کی اہمیت وافادیت میں مزید اضافہ ہوگیا ہے ۔اس کتاب کواشاعت کے قابل بنانے میں شامل تمام احباب کی کاوشوں کو قبو ل فرمائے ۔(آمین) (م۔ا)
صحابہ کرام وہ نفوس قدسیہ ہیں جنہوں نے نبی کریمﷺ کا دیدار کیا اور دین اسلام کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان تمام ہسیتوں کو جنت کا تحفہ عنایت کیا ہے۔ دس صحابہ تو ایسے ہیں جن کو دنیا ہی میں زبان نبوتﷺ سے جنت کی ضمانت مل گئی۔ تمام صحابہ کرام خواہ وہ اہل بیت سے ہوں یا غیر اہل بیت سے ہوں ان سے والہانہ وابستگی دین وایمان کا تقاضا ہے۔ کیونکہ وہ آسمان ہدایت کے درخشندہ ستارے اور دین وایمان کی منزل تک پہنچنے کے لئے راہنما ہیں۔صحابہ کرام کے باہمی طور پر آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ انتہائی شاندار اور مضبوط تعلقات قائم تھے۔ زیر تبصرہ کتاب "صحابہ کرام"محترم نور الحسن راشد کاندھلوی صاحب کی تصنیف ہے، جس میں انہوں نے صحابہ کرام خصوصا حضرات شیخین (ابو بکر وعمر) سے سیدنا علی بن ابی طالب اور خانوادہ حسنین کی قریب کی متواتر رشتہ داریاں، قرابتیں، باہمی اعتماد اور طرفین کے مسلسل روابط کے بارے چند ناقابل تردید حقائق بیان فرمائے ہیں۔ اللہ تعالی مولف کی ان محنتوں اور کوششوں کو قبول فرمائے اور تمام مسلمانوں کو صحابہ کرام سے محبت کرنے کی بھی توفیق دے۔ آمین(راسخ)
اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت کے اندر نیکی اور بدی کے پہچاننے کی قابلیت اور نیکی کو اختیار کرنے اور بدی سے بچنے کی خواہش ودیعت کردی ہے ۔تمام انبیاء کرام نے دعوت کے ذریعے پیغام الٰہی کو لوگوں تک پہنچایا اوران کو شیطان سے بچنے اور رحمنٰ کے راستے پر چلنے کی دعوت دی ۔دعوتِ دین اور احکام شرعیہ کی تعلیم دینا شیوۂ پیغمبری ہے ۔تمام انبیاء و رسل کی بنیادی ذمہ داری تبلیغ دین اور دعوت وابلاغ ہی رہی ہے۔ دعوت الیٰ اللہ میں انبیاء کو قائدانہ حیثیت حاصل ہے ۔ ان کی جدوجہد کو زیر بحث لائے بغیر دعوت کا کوئی تذکرہ مکمل نہیں ہوتا۔امت مسلمہ کو دیگر امم سے فوقیت بھی اسی فریضہ دعوت کی وجہ سے ہے۔ اور دعوتِ دین ایک اہم دینی فریضہ ہے ،جو اہل اسلام کی اصلاح ، استحکام دین اور دوام شریعت کا مؤثر ذریعہ ہے۔لہذا ہر مسلمان پر لازم ہے کہ اسے شریعت کا جتنا علم ہو ،شرعی احکام سے جتنی واقفیت ہو اوردین کے جس قدر احکام سے آگاہی ہو وہ دوسر وں تک پہنچائے۔علماو فضلا اور واعظین و مبلغین پر مزید ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ فریضہ دعوت کو دینی وشرعی ذمہ داری سمجھیں اور دعوت دین کے کام کو مزید عمدہ طریقے سے سرانجام دیں۔دین کا پیغامِ حق ہر فرد تک پہنچانے کے لیے ضروری ہے کہ دعوت کے کام کو متحرک کیا جائے، دعوت الی اللہ بنیادی طور پر ایک عملی پروگرام ہے جو تعلیم وتعلم ،تربیت واصلاح کی عملی کشمکش پر مشتمل ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’دعوت دین اہمیت اورآداب ‘‘ مولاناسیداحمد عروج قادری کے دعوت دینیہ کے سلسلے میں مامہ نامہ زندگی ،رامپور میں شائع مقالات کی کتابی صورت ہے ۔ان مقالات میں انہوں نے دعوت اسلامی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے ۔ابتدائی دومقالات میں دعوت دین کی اہمیت اور انبیائے کرام کے طریقۂ دعوت سے بحث کرتے ہوئے سیدنا ابراہیم کا اسوہ پیش کیا ہے ۔ ان مقالات میں ایک مقالہ اس موضوع پر ہے کہ دعوت کی ذمہ داری صرف مسلمان مردوں پر نہیں عائد ہوتی بلکہ مسلمان خواتین بھی اس میں برابر کی شریک ہیں۔الغرض اس کتاب میں دعوت سے متعلق جن موضوعات سے بحث کی گئی ہے و ہ راہِ دعوت میں کام کرنے والوں کے بڑے اہم ہیں ۔(م۔ا)
اسلام کی قدیم تایخ ہمارے سامنے مسلمان عورت کابہترین اور اصلی نمونہ پیش کرتی ہے اور آج جب کہ زمانہ بدل رہا ہے مغربی تہذیب و تمدن او رطرزِ معاشرت ہمارے گھروں میں سرایت کررہا ہے دور حاضر میں مغربی تہذیب وثقافت سے متاثر مسلمان خواتین او رلڑکیاں اسلام کی ممتاز اور برگزید خواتین کوچھوڑ کر راہِ راست سے ہٹی ہوئی خواتین کواپنے لیے آئیڈل سمجھ رہی ہیں اسلام کے ہردور میں اگرچہ عورتوں نےمختلف حیثیتوں سے امتیاز حاصل کیا ہے لیکن ازواجِ مطہرات طیباتؓ اور اکابر صحابیاتؓ ان تمام حیثیات کی جامع ہیں اور ہمار ی عورتوں کے لیے انہی کے دینی ،اخلاقی معاشرتی اور علمی کارنامے اسوۂ حسنہ بن سکتے ہیں اور موجودہ دور کےتمام معاشرتی او رتمدنی خطرات سے ان کو محفوظ رکھ سکتےہیں۔زیر تبصرہ کتاب’’خواتین جنت ‘‘ مولانا عبد السلام بستوی کی تصنیف ہے ۔ اس کتاب میں انہوں نے سعادت مند ماؤں اور بہنوں کے سچے حالات کو عصر حاضر کی خواتین کی اصلاح کےلیے تحریر کیے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ سب عورتوں کی اصلاح کر کے انہیں صحیح معنوں میں خواتین جنت بنائے ۔(آمین) (م۔ا)
قرآن مجید اللہ رب العزت کی سچی اور لاریب کتاب ہے جو بے مثل اور بے نظیر ہونے کے ساتھ ساتھ سراپا ہدایت اور حکمت ودانائی سے بھری پڑی ہے اس کی تلاوت باعث ثواب بھی ہے اور قاری کو ایسی لذت بھی دیتی ہے جس سے وہ کبھی بھی اُکتاہٹ محسوس نہیں کرتا۔ یہ اللہ کی طرف سے انسانیت کے لیے اتارا ہوا دستور حیات ہے جو اس کو ٹھکرا کر خواہش نفس کو اپنا خدا بنا لے وہ ظالم وفاسق اور دنیا وآخرت میں ذلیل ورسوا ہوکر تڑپے گا اور جو شخص قرآنی احکامات کے مطابق عمل کرے وہ جنت کے راستے پر گامزن ہو کر اپنی منزل تک یقیناً پہنچ جائے گا۔ قرآن مجید کو آسان سے آسان انداز میں عوام الناس تک پہنچانے اور انہیں وعظ ونصیحت اور تبلیغ کے لیے کئی ایک طریقے اپنائے گئے اور اس پر بہت سے کتب بھی تالیف کی گئیں مگر زیرِ تبصرہ کتاب علم وفن کا ایک گہرا سمندر ہے جو بھی اس میں غوطہ زن ہوتا ہے وہ ہیرے‘ جواہرات سے اپنی جھولی بھر کر ہی سطح آب پر نمودار ہوتا ہے۔ اس کی دو جلدیں ہیں پہلی جلد میں سورۂ فاتحہ اور سورۂ بقرہ کی چیدہ چیدہ آیات کی تفہیم وتفسیر ہے اور دوسری جلد میں سورۂ آل عمران اور سورۂ نساء کی منتخب آیات پر دروس مشتمل ہیں جس میں قرآنی آیات کے شان نزول اور اور ان کی تفسیر ہے۔ تفسیر میں تفسیر بالقرآن اور تفسیر بالحدیث اور صحیح یا حسن درجہ کی احادیث کو بیان کیاگیا ہے۔ بنی اسرائیلی روایت کا ذکر کرنے کے بعد اس کی وضاحت بھی کی جاتی ہے کہ یہ اسرائیلی روایت ہے۔ اس کتاب میں حوالہ جات کا بھی اہتمام کیا گیا ہے‘ حوالے میں سورۂ کا نام اور آیت کا نمبر ذکر کیا جاتا ہے اور حدیث کے حوالے میں مصدر کا نام‘ پھر کتاب کا نام اور حدیث نمبر ذکر کیا جاتا ہے۔ یہ کتاب’’ دروس القرآن ‘‘ الشیخ محمد عظیم حاصل پوری کی مرتب کردہ ہے۔آپ تصنیف وتالیف کا عمدہ شوق رکھتے ہیں‘ اس کتاب کے علاوہ آپ کی اور کتب بھی ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مؤلف وجملہ معاونین ومساعدین کو اجر جزیل سے نوازے اور اس کتاب کو ان کی میزان میں حسنات کا ذخیرہ بنا دے اور اس کا نفع عام فرما دے۔(آمین)( ح۔م۔ا )
قرآن کی سورۃ کہف میں ہے کہ حضرت موسی اپنے خادم ’’جسے مفسرین نے یوشع لکھا ہے‘‘ کے ساتھ مجمع البحرین جارہے تھے کہ راستے میں آپ کی ملاقات اللہ کے بندے سے ہوئی۔ حضرت موسی نے اس سے کہا کہ آپ اپنےعلم میں سے کچھ مجھے بھی سکھا دیں تو بندے نے کہا کہ آپ جو واقعات دیکھیں گے ان پر صبر نہ کر سکیں گے اگر آپ کو میرے ساتھ رہنا ہے تو مجھ سے کسی چیز کی بابت سوال نہ کرنا اس قول و قرار کے بعد دونوں سفر پر روانہ ہوگئے۔ راستے میں اللہ کے بندے نے چند عجیب و غریب باتیں کیں۔ کشتی میں سوراخ ، ایک لڑکے کا قتل اور بغیر معاوضہ ایک گرتی ہوئی دیوار کو سیدھا کرنا، جس پر حضرت موسی سے صبر نہ ہو سکا اور آپ ان باتوں کا سبب پوچھ بیٹھے۔ اللہ کے بندے نے سبب تو بتا دیا ۔ لیکن حضرت موسی کا ساتھ چھوڑ دیا۔احادیث مبارکہ میں اس خاص بندےکا نام’’ خضر ‘‘آیا ہے اور مفسرین کی اکثریت کے نزدیک اس سے مرادحضرت خضر ہیں۔مفسرین نے حضرت خضر کے بارے میں تفصیلی معلومات فراہم کی ہیں۔انہوں نے واقعات وروایات کی چھان بین کرکے ان کے احوال زندگی معلوم کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے ۔مورخین نے حضرت خضر کی زندگی کے مختلف گوشوں پر روشنی ڈالی ہے اورعلماء نے ان کی وفات وحیات پر کتابیں تحریر کی ہیں۔ زیرتبصرہ کتاب’’ حیات حضرت خضر ‘‘ معروف شارح صحیح بخاری امام احمد بن حجر عسقلانی کی حضرت خضر کے متعلق تصنیف شدہ عربی کتاب ’’الزھر النضرفی حال الخضر‘‘کا اردو ترجمہ ہے ۔صاحب کتاب نے حضرت خضر کے بارے میں کتب احادیث تواریخ اور سیر میں جس قدر روایات میسر آئیں ان سب کو اس کتاب میں جمع کرنے کی بھر پور کوشش کی ہے اور ان روایات کا تحقیقی جائزہ بھی پیش کیا ہے ۔نیز معروف سکالر جناب صلاح الدین مقبول احمد ﷾ نے اس کتاب پر تحقیق اور تفصیلی مقدمۂ تحقیق تحریر کر کے اس کتاب کی اہمیت وافادیت کو چارچاند لگادئیے ہیں ۔محقق موصوف نے اپنے مقدمہ میں حضرت خضر کے متعلق کبار علماء کی تالیف کردہ سترہ (17) کتب کے نام بھی ذکر کیے ہیں اور امام ابن حجر عسقلانی کے حالات زندگی اور حضرت خضر کے متعلق مباحث کا خلاصہ تحریر کیا ہے ۔مترجم کتاب ہذا ابوعبد السلام محمد اکرم جمیل صاحب نے بڑے جذبے اور محنت سے اصل کتاب کے قریب قریب رہ کرآسان ترین ترجمہ کرنے کی کوشش کی ہے ۔ اللہ تعالیٰ مصنف ،مترجم اور ناشرین کی اس کاوش کو شرف قبولیت سے نوازے۔(آمین) (م۔ا)
انبیاء کرام کے بعد صحابہ کرام کی مقدس جماعت تمام مخلوق سے افضل اور اعلیٰ ہے یہ عظمت اور فضیلت صرف صحابہ کرام کو ہی حاصل ہے کہ اللہ نے انہیں دنیا میں ہی مغفرت،جنت اور اپنی رضا کی ضمانت دی ہے بہت سی قرآنی آیات اور احادیث اس پر شاہد ہیں۔صحابہ کرام سے محبت اور نبی کریم ﷺ نے احادیث مبارکہ میں جوان کی افضلیت بیان کی ہے ان کو تسلیم کرنا ایمان کاحصہ ہے ۔بصورت دیگرایما ن ناقص ہے ۔جماعت ِ صحابہ میں سےخاص طور پر وہ ہستیاں جنہوں نے آپ ﷺ کے بعد اس امت کی زمامِ اقتدار ، امارت ، قیادت اور سیادت کی ذمہ داری سنبھالی ، امور دنیا اور نظامِ حکومت چلانے کے لیے ان کےاجتہادات اور فیصلوں کو شریعت ِ اسلامی میں ایک قانونی دستاویز کی حیثیت حاصل ہے۔ ان بابرکت شخصیات میں سے خلیفۂ اول سیدنا ابو بکر صدیق سب سے اعلیٰ مرتبے اور بلند منصب پر فائز تھے اور ایثار قربانی اور صبر واستقامت کا مثالی نمونہ تھے ۔سیدنا ابوبکر صدیق قبیلہ قریش کی ایک مشہور شاخ تیم بن مرہ بن کعب کے فرد تھے۔ساتویں پشت میں مرہ پر ان کا نسب رسول اللہﷺ سے مل جاتا ہے ہے ۔ایک سچے مسلمان کا یہ پختہ عقیدہ ہے کہ انبیاء ورسل کے بعد اس کائنات میں سب سے اعلیٰ اور ارفع شخصیت سیدنا ابو بکر صدیق ہیں ۔ سیدنا ابو بکر صدیق ہی وہ خو ش نصیب ہیں جو رسول اللہﷺ کےبچپن کے دوست اور ساتھی تھے ۔آپ پر سب سے پہلے ایمان لانے کی سعادت حاصل کی اور زندگی کی آخری سانس تک آپ ﷺ کی خدمت واطاعت کرتے رہے اور اسلامی احکام کے سامنے سرجھکاتے رہے ۔ رسول اللہ سے عقیدت ومحبت کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے اللہ کے رسول ﷺ کی خدمت کے لیے تن من دھن سب کچھ پیش کر دیا ۔نبی کریم ﷺ بھی ان سے بے حد محبت فرماتے تھے ۔آپ ﷺ نے ان کو یہ اعزاز بخشا کہ ہجرت کے موقع پر ان ہی کو اپنی رفاقت کے لیے منتخب فرمایا۔ بیماری کے وقت اللہ کے رسول ﷺ نے حکماً ان کو اپنے مصلیٰ پر مسلمانوں کی امامت کے لیے کھڑا کیا اورارشاد فرمایا کہ اللہ اورمؤمنین ابو بکر صدیق کے علاوہ کسی اور کی امامت پر راضی نہیں ہیں۔خلیفہ راشد اول سیدنا صدیق اکبر نے رسول اللہ ﷺ کی حیات مبارکہ میں ہر قدم پر آپ کا ساتھ دیا اور جب اللہ کے رسول اللہ وفات پا گئے سب صحابہ کرام کی نگاہیں سیدنا ابو بکر صدیق کی شخصیت پر لگی ہو ئی تھیں۔امت نے بلا تاخیر صدیق اکبر کو مسند خلافت پر بٹھا دیا ۔ تو صدیق اکبر ؓ نے مسلمانوں کی قیادت ایسے شاندار طریقے سے فرمائی کہ تمام طوفانوں کا رخ اپنی خدا داد بصیرت وصلاحیت سے کام لے کر موڑ دیا اور اسلام کی ڈوبتی ناؤ کو کنارے لگا دیا۔ آپ نے اپنے مختصر عہدِ خلافت میں ایک مضبوط اور مستحکم اسلامی حکومت کی بنیادیں استوار کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا ۔نتیجہ یہ ہوا کہ آپ کے بعد اس کی سرحدیں ایشیا میں ہندوستان اور چین تک جا پہنچیں افریقہ میں مصر، تیونس او رمراکش سے جاملیں او ریورپ میں اندلس اور فرانس تک پہنچ گئیں۔سیدنا ابو بکر صدیق کی زندگی کے شب وروز کے معمولات کو الفاظ کے نقوش میں کئی نامور اہل قلم نے محفوظ کیا ہے ۔ زیر تبصرہ کتاب ’’حضرت ابو بکرصدیق کے 100 قصے ‘‘ شیخ محمد صدیق المنشاوی کی عربی تصنیف ’’مائة قصة من حياة أبي بكر رضي الله عنه‘‘ کا سلیس اردو ترجمہ ہے ۔جوکہ خلیفہ اول سیدنا ابو بکر صدیق کے ان دلچسپ سو قصوں اور واقعات پر مشتمل ہے جو انسانی زندگی کے مختلف شعبوں میں راہنمائی فراہم کرتے ہیں کیونکہ سلف صالحین اور اکابرین امت کے قصص واقعات کی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ ان کو پڑھ کر نہ صرف یہ کہ ایمان بڑھتا ہے بلکہ عاجزی وانکساری ، صدقہ وخیرات ، زہد وعبادات اور اصلاح نفس جیسے بے شمار اسباق تازہ ہوتے ہیں ۔(م۔ا)