افغانستان کی سرزمین اپنے جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے صدیوں سے تاریخی اہمیت کی حامل چلی آرہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ دنیا کی اکثر طاقتوں نے ہمیشہ اس ملک کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھا ہےاور ایشیا کے اس خطے کے ممالک پر اپنی بالا دستی قائم کرنے کے لئے افغانستان کو اپنی منزل کی جانب پہلے زینے کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔ان ممالک میں سرفہرست روس ہے جس کو خلیج کے گرم پانیوں تک پہنچنے کی وصیت ورثے میں ملی ہے۔جس کے حصول کے لئے اس نے پہلے وسط ایشیا کی مسلمان ریاستوں کو ہوس ملک گیری کا نشانہ بنایا۔پھر اگلے مرحلے میں افغانستان کو اپنا ہدف ٹھہرایا۔افغانستان میں روس کی حکمت عملی نہایت کامیاب رہی۔ایک طرف اس نے افغانوں کو اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کرنا شروع کر دیا تو دوسری طرف اقتصادی معاہدوں کی آڑ میں اپنے سیاسی اور فوجی مشیر بھیجنے شروع کر دئیے جو اپنے ملک کے خفیہ مگر دور رس منصوبے نہایت اطمینان سے مکمل کرنے لگے۔چنانچہ ایک وقت کے بعد روس نے براہ راست افغانستان پر حملہ کرتے ہوئے اس پر قبضہ کر لیا اور لاکھوں افغان اس سرخ عفریت کا شکار ہو گئے۔ زیر تبصرہ کتاب "...
خود نوشت آپ بیتی یک نثری ادبی صنف ہے۔ جو کسی فرد ِ واحد کی زندگی کے اہم ادوار پر محیط ہوتی ہے اور اسی کے قلم کی رہینِ منت ہوتی ہے جسکے آئینے میں اس فرد کی داخلی اور خارجی زندگی کاعکس براہِ راست نظرآتا ہے ۔ خود نوشت کا محور مصنف کی شخصیت ہوتی ہےآپ بیتی جب ایک مستقل تصنیف کی شکل میں ہو اور وہ مصنف کی خود نوشت داستانِ حیات ہو تو اسے انگریزی میں autobiography اور اردو میں خود نوشت سوانح عمری یا خود نوشت سوانح حیات یا آپ بیتی کہتے ہیں۔ زیر نظر کتاب’’بیانِ زندگی‘‘ جدید ترقی یافتہ شارجہ کے بانی حکمران ڈاکٹر سلطان بن محمد القاسمی حفظہ اللہ کی عربی زبان میں تحریرہ کر دہ سحر آفرین خودنوشت’’سرد الذات‘‘ کا اردو ترجمہ ہے یہ کتاب چار حصوں پر مشتمل ہے ۔پہلے حصے کا نام سرد الذات ہے ۔بعد والے تین حصوں کا نام حدیث الذاکرة
بیسویں صدی جب شروع ہوئی تو جنگ بوئر شروع ہوچکی تھی۔ابھی جنگ بوئر جاری تھی کہ روس جاپان جنگ کےلیے راہ ہموار ہونے لگی۔ اسی دوران جنگ بلقان شروع ہوگئی ۔ ادھر جنگ بلقان ختم ہوئی ادھر پہلی جنگ عظیم کے بادل دنیائے آسمان پر چھانے لگ جنگ عظیم لاکھوں انسانوں کےلہو سےہاتھ رنگنے کےبعد اپنے انجام کو پہنچی تو ہٹلر نےاتحادیوں کےہاتھوں جرمن قوم کی ذلت ورسوائی کا بدلہ لینے کے لیے دوسری جنگ عظیم کی منصوبہ بندی شروع کردی۔ جس کے نتیجے میں ہیرو شیما اور ناگا سا کی پر ایٹم بم پھینکنے کے واقعات رونما ہوئے اور دنیا کو پہلی مرتبہ انسانی خون کی ارزانی کا احساس ہوا۔الغرض بیسویں صدی اپنے آغاز سےہی ہنگامہ خیز واقعات سے بھر پور اور کروڑوں انسانوں کےلہو سےرنگین نظرآتی ہے۔اس صدی نے جہاں انسان کو جنگوں کی ہولناکیوں کے سپرد کرنے کااہتمام کیا وہاں انسان نے سیاسی تہذیبی ، تمدنی ، سائنسی ، معاشی ، طبی، اور لسانی میدان میں حیرت انگیز حدتک پیش رفت کی ۔ نئی ایجادات نے انسان کو تیز رفتار زندگی کی طرف مائل کیا ۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بڑی بڑی سلطنتیں...
زندگی ایک سفر ہے اور ہر شخص مسافر ہے مگر زندگی کے اس سفر کے دوران کئی ملکوں اور شہروں کے بھی انسان کو بہت سفر کرنا پڑتے ہیں ۔ یہ سفر بعض اوقات تعلیم کے لیے اور کبھی رزق کمانے یا تجارت کی غرض سے ہوتے ہیں ۔ بعض لوگ سیر و سیاحت کے لیے اور بعض اعزہ و اقارب کی ملاقات کے لیے بھی ہوتا ہے ۔ قرآن کریم میں بھی سفر کرنے اور دنیا کو دیکھنے کی ترغیب دی گئی ہے ۔ اردو ادب میں سفر ناموں کو ایک مخصوص صنف کا درجہ حاصل ہو گیا ہے ۔ یہ سفر نامے دنیا کے تمام ممالک کا احاطہ کرتے ہیں ۔ اِن کی طرزِ نوشت بھی دوسری تحریروں سے مختلف ہوتی ہے ۔ یہ سفر نامے کچھ تاثراتی ہیں تو کچھ معلوماتی ۔ کچھ میں تاریخی معلومات پر زور دیا گیا ہے تو کچھ ان ملکوں کی تہذیب و ثقافت کو نمایاں کرتے ہیں جہاں کا انسان سفر کرتاہے ۔ زیر نظر کتاب ’’ تاج محل سے زیرپوانٹ‘‘ چودھری محمد ابراہیم کی تصنیف ہے ۔ صاحب کتاب ایک زرعی سائنس دان ہیں وفاقی دار الحکومت کے زرعی شعبہ سے منسلک رہے ہیں اس دوران انہیں اپنے فرائض کی ادائیگی کے ضمن میں بعض اوقات دوسرے ممالک کے زرعی ماہرین کی کانفرنسوں اور سیمی...
زندگی ایک سفر ہے اور ہر شخص مسافر ہے مگر زندگی کے اس سفر کے دوران کئی ملکوں اور شہروں کے بھی انسان کو بہت سفر کرنا پڑتے ہیں ۔ یہ سفر بعض اوقات تعلیم کے لیے اور کبھی رزق کمانے یا تجارت کی غرض سے ہوتے ہیں ۔ بعض لوگ سیر و سیاحت کے لیے اور بعض اعزہ و اقارب کی ملاقات کے لیے بھی ہوتا ہے ۔ قرآن کریم میں بھی سفر کرنے اور دنیا کو دیکھنے کی ترغیب دی گئی ہے ۔ اردو ادب میں سفر ناموں کو ایک مخصوص صنف کا درجہ حاصل ہو گیا ہے ۔ یہ سفر نامے دنیا کے تمام ممالک کا احاطہ کرتے ہیں ۔ اِن کی طرزِ نوشت بھی دوسری تحریروں سے مختلف ہوتی ہے ۔ یہ سفر نامے کچھ تاثراتی ہیں تو کچھ معلوماتی ۔ کچھ میں تاریخی معلومات پر زور دیا گیا ہے تو کچھ ان ملکوں کی تہذیب و ثقافت کو نمایاں کرتے ہیں جہاں کا انسان سفر کرتاہے ۔ زیر نظر کتاب ’’ تاج محل سے زیرپوانٹ‘‘ چودھری محمد ابراہیم کی تصنیف ہے ۔ صاحب کتاب ایک زرعی سائنس دان ہیں وفاقی دار الحکومت کے زرعی شعبہ سے منسلک رہے ہیں اس دوران انہیں اپنے فرائض کی ادائیگی کے ضمن میں بعض اوقات دوسرے ممالک کے زرعی ماہرین کی کانفرنسوں اور سیمی...
کسی بھی معاشرے کی تعمیر کے لیے یہ عنصر خصوصی اہمیت کا حامل ہے کہ معاشرہ اپنی تاریخی روایات سے سبق سیکھتا رہے۔ تاریخ ہی اس بات سے پردہ اٹھاتی ہے کہ کن اسباب کی بناء پر ایک قوم ترقی کرتی ہے کس قسم کے نقائص کی وجہ سے ایک قوم زبوں حالی کا شکار ہو جاتی ہے۔ ’تاریخ ابن خلدون‘ کی تیسری جلد کا پہلا حصہ آپ کے سامنے ہے جس میں اسلامی تاریخ کے نہایت درخشاں دور کو صفحہ قرطاس پر بکھیرا گیا ہے۔ علامہ عبدالرحمن ابن خلدون نے نہایت خوبصورتی کے ساتھ زمانہ قبل ازاسلام کے واقعات کو مختصراً قلمبند کرنے کے بعد ولادت رسول ﷺ سے لے کر وفات تک کے تمام قابل ذکر واقعات کو بیان کیا ہے۔ اس کے بعد خلفائے راشدین کے زریں عہد خلافت پر روشنی ڈالی گئی ہے اس میں خلفائے راشدین کی زندگیوں، ان کے دور میں ہونے والی فتوحات اور مسلمانوں کے کارناموں کو پوری تفصیل و توضیح کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ اس حصے کے ترجمے کے لیے حکیم احمد حسین الہ آبادی کی خدمات حاصل کی گئی ہیں اور ترتیب و تبویب کے فرائض شبیر حسین قریشی نے بخوبی نبھائے ہیں۔
...تاریخ ایک انتہائی دلچسپ علم ہے خاص طور پر اسلامی تاریخ، جس میں صداقت کو خصوصاً ملحوظ رکھا گیا ہے دنیا کی تاریخ جھوٹے سچے واقعات سے پُر ہے، جس سےاس کی افادیت کا پہلو دھندلاگیا ہے ۔ تاریخ اسلامی پر مشتمل علامہ عبدالرحمن ابن خلدون کی زیر مطالعہ کتاب کی ورق گردانی سے آپ جان سکیں گے کہ اسلامی تاریخ میں تاریخی واقعات کو حقیقی رنگ میں پیش کیا گیا ہے اور اس میں کسی قسم کے رطب و یابس کا کوئی دخل نہیں ہے۔ آپ کےسامنے اس وقت ’تاریخ ابن خلدون‘ کا پہلا اور دوسرا حصہ ہے۔ پہلے حصے میں علامہ موصوف نے حضرت نوح ؑ سے لے کر حضرت عیسی ؑ کے بعد چھٹی صدی عیسوی تک کے حالات و انساب تفصیل کےساتھ درج کیے ہیں۔ ان میں انبیائے بنی اسرائیل و عرب اور بابل و نینوا و موصل و فراغہ کے صحیح اور سچے واقعات شامل ہیں۔ دوسرے حصے میں حضرت عیسیٰ ؑ سے لے کر ولادت رسول ﷺ تک تقریباً چھ سو سال کے مکمل حالات، عقائد و افکار میں تغیرات، مراسم اور توہمات کی پیداوار اور ان کے نتائج کی پوری تفصیل و استناد کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔
اس وقت آپ کے سامنے حافظ عماد الدین ابن کثیر کی شہرہ آفاق کتاب ’البدایۃ والنہایۃ‘ کا اردو قالب ’تاریخ ابن کثیر‘ کی صورت میں موجود ہے۔ اگر آپ عربی تاریخوں کامطالعہ کریں تو آپ کو صاف طور پر یہ بات معلوم ہو گی کہ عرب مؤرخوں نے اپنی تاریخوں میں تسلسل زمانی کا برابر خیال رکھا ہے ان کی ہر تاریخ آدم ؑ کی کے ذکر سے شروع ہوتی ہے اور پھر واقعات اور بیانات کا سلسلہ ان واقعات تک پہنچتا ہے جن میں ان کا لکھنے والا سانس لے رہا ہے ۔ ابن کثیر کی یہ تاریخ بھی دوسری تاریخوں کی طرح ابتدائے آفرینش سے شروع ہوتی ہے اور اس کے بعد انبیاء اور مرسلین کے حالات سامنے آتے ہیں، یہ کئی لحاظ سے اہم ہیں۔ اس سے پہلے جو تاریخیں لکھی گئی ہیں یا اس کے بعد جن تاریخوں کو دریافت کیا گیا ہے ان میں یہ تمام واقعات اساطیری ادب سے لیے گئے ہیں یا ان کو اسرائیلی روایتوں پر اکتفاء کرتے ہوئے آگے بڑھایا گیا ہے اس کے برعکس ابن کثیر نے اپنا تمام مواد قرآن ہی سے لیا ہے اور یہ اس کے ایمان اور یقین کے مضبوطی کی علامت ہے ۔ تاریخ ابن کثیر حضرت آدم سے لے کر ع...
قوموں کی زندگی میں تاریخ کی اہمیت وہی ہے جو کہ ایک فرد کی زندگی میں اس کی یادداشت کی ہوتی ہے۔ جس طرح ایک فرد واحد کی سوچ، شخصیت، کردار اور نظریات پر سب سے بڑا اثر اس کی یادداشت کا ہوتا ہے اسی طرح ایک قوم کے مجموعی طرزعمل پر سب سے زیادہ اثر انداز ہونے والی چیز اس کی تاریخ ہوتی ہے ۔ کوئی بھی قوم اس وقت تک اپنی اصلاح نہیں کر سکتی جب تک وہ اپنے اسلاف کی تاریخ اور ان کی خدمات کو محفوظ نہ رکھے۔اسلامی تاریخ مسلمانوں کی روشن اور تابندہ مثالوں سے بھری پڑی ہے۔لیکن افسوس کہ آج کا مسلمان اپنی اس تاریخ سے کٹ چکا ہے۔اپنی بد اعمالیوں اور شریعت سے دوری کے سبب مسلمان آج پوری دنیا میں ذلیل ورسوا ہو رہے ہیں۔اور ہر میدان میں انہیں شکست وہزیمت کا سامنا ہے ۔آج 57 آزاد ممالک کی شکل میں قوت ،عددی اکثریت اور قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود ذلت ،عاجزی اور درماندگی میں اسی مقام پر کھڑی ہے جہاں سوسال پہلے کھڑی تھی۔اس کا سب سے برا سبب مسلمانوں کا دین سے دور ہونا اور غیروں کے قریب ہونا ہے۔کافر ہمیں اس لئے مارتے ہیں کہ یہ مسلمان ہیں اور ہم اس لئے مار کھا ر...
تاریخ،تہذیب وتمدن کا ایک ایسا آئینہ ہے جس میں انسانیت کے خدوخال اپنی تمام تر خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ بڑی وضاحت سے اجاگر ہوتے ہیں انسانی تہذیب نے خوب سے خوب تر کی تلاش میں جو ارتقائی سفر طے کیا اور جن وادیوں اور منزلوں سے یہ کاروان رنگ وبو گزرا ہے ان کی روداد جب الفاظ کا پیکر اختیار کرتی ہے تو ’’تاریخ‘‘ بن جاتی ہے لیکن تاریخ ماضی کےواقعات کو دہرا دینے کا ہی نام نہیں بلکہ ماضی کی بازیافت کا فن ہے ۔ظاہر ہے کہ کچھ مخصوص افراد کےنام گنواکر یا کچھ چیدہ شخصیتوں کے حالات لکھ کر عہد گزشتہ کو زندہ نہیں کیا جاسکتا ۔اس کے لیے ضروری ہے کہ واقعات کے اسباب ونتائج کو گہری نظر سے دیکھا جائے اور احتجاجی زندگی کی ان قدروں کا جائزہ لیا جائے جو اقوام وملل کے عروج وزوال سے گہرا تعلق رکھتی ہیں ۔اور علم تاریخ ایک ایسا علم ہے کہ ہردور میں اس سے لوگوں کو دلچسپی رہی ہے اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ انسان کو ہمیشہ اپنے ماضی سے لگاؤ رہا ہے وہ اپنے پیچھے پھیلے ہوئے لامتناہی ارتقائی راستوں کی طرف مڑکر دیکھنا پسند کرتاہے کیونکہ ہر گزرا ہوا لمحہ اور اس سے وابستہ یادیں عزیز ہی نہیں ہوت...
تاریخ اسلام کا آغاز پہلے نبی اور رسول کی آمد سے ہی ہو جاتا ہے۔تاریخ اسلام، چودہ صدیوں کے واقعات،حادثات، نشیب وفراز اور احوال وحالات پر مشتمل ہے۔تاریخ کے ذریعے ہم اپنے اسلاف کے کارہائے نمایاں سے واقف ہوتے ہیں۔تاریخ کے مطالعہ سے حوصلہ بلند ہوتا ہے اور دانائی وبصیرت میں اضافہ ہوتا ہے۔ کتاب وسنت ڈاٹ کام پر جہاں مذہبی ، دینی، اور علمی وتحقیقی کتب اپلوڈ کی جاتی ہیں ۔وہاں مدارس وسکولز اور کالجز ویونیورسٹیز کے طلباء کی سہولت کے لئے نصابی کتب کو بھی ترجیحی طور پر اپلوڈ کیا جاتا ہے، تاکہ طلباء بآسانی ان کتب کو حاصل کر سکیں اور علمی ونصابی تیار بھر پور طریقے سے کر سکیں۔ زیر تبصرہ کتاب " تاریخ اسلام برائے ایم اے علوم اسلامیہ، کوڈ نمبر974" محترم ڈاکٹرمحمد سجادصاحب کی کاوش ہے ۔اس کتاب کو علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی ، اسلام آباد کے شعبہ اسلامی فکر، تاریخ وثقافت نے بطور سلیبس کے شائع کیا ہے۔اس کورس میں تاریخ اسلام کے تمام ادوار اور اس سے قبل کے حالات کی آگاہی پیش کی گئی ہے۔۔امید واثق ہے کہ اگر کوئی طالب علم اس کتاب سے تیاری کر کے امتحان دی...
تاریخ اسلام، چودہ صدیوں کے واقعات،حادثات، نشیب وفراز اور احوال وحالات پر مشتمل ہے۔تاریخ کے ذریعے ہم اپنے اسلاف کے کارہائے نمایاں سے واقف ہوتے ہیں۔تاریخ کے مطالعہ سے حوصلہ بلند ہوتا ہے اور دانائی وبصیرت میں اضافہ ہوتا ہے۔ کتاب وسنت ڈاٹ کام پر جہاں مذہبی ، دینی، اور علمی وتحقیقی کتب اپلوڈ کی جاتی ہیں ۔وہاں مدارس وسکولز اور کالجز ویونیورسٹیز کے طلباء کی سہولت کے لئے نصابی کتب کو بھی ترجیحی طور پر اپلوڈ کیا جاتا ہے، تاکہ طلباء بآسانی ان کتب کو حاصل کر سکیں اور علمی ونصابی تیار بھر پور طریقے سے کر سکیں۔ زیر تبصرہ کتاب " تاریخ اسلام، کوڈ نمبر 974" محترم ڈاکٹر سید مطلوب حسین کی کاوش ہے، جس کی نظر ثانی محترم ڈاکٹر علی اصغر چشتی نے فرمائی ہے۔اس کتاب کو علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی ، اسلام آباد کے کلیہ عربی وعلوم اسلامیہ نے بطور سلیبس کے شائع کیا ہے۔یہ کورس سیرت طیبہ اور خلافت راشدہ کے ادوار پر مشتمل ہے جو انسانیت کے لئے نمونہ عمل، معیار ہدایت اور مشعل راہ ہے۔امید واثق ہے کہ اگر کوئی طالب علم اس کتاب سے تیاری کر کے امتحان دیتا ہے تو وہ ضرور...
کتاب وسنت ڈاٹ کام پر جہاں مذہبی ، دینی، اور علمی وتحقیقی کتب اپلوڈ کی جاتی ہیں ۔وہاں مدارس وسکولز اور کالجز ویونیورسٹیز کے طلباء کی سہولت کے لئے نصابی کتب کو بھی ترجیحی طور پر اپلوڈ کیا جاتا ہے، تاکہ طلباء بآسانی ان کتب کو حاصل کر سکیں اور علمی ونصابی تیار بھر پور طریقے سے کر سکیں۔ زیر تبصرہ کتاب " تاریخ اسلام، کورس نمبر 3" محترم ڈاکٹر سید مطلوب حسین کی کاوش ہے، جس کی نظر ثانی محترم ڈاکٹر علی اصغر چشتی اور حافظ محمد سجاد تترالوی نے فرمائی ہے۔اس کتاب کو علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی ، اسلام آباد کے کلیہ عربی وعلوم اسلامیہ نے بطور سلیبس کے شائع کیا ہے۔یہ کورس خلافت عثمانیہ، سلطنت دہلی اور سلطنت مغلیہ کے ادوار پر مشتمل ہے۔اور یہ تینوں ادوار ایسے ہیں کہ ان میں مسلمان ہر میدان میں ترقی کی منازل طے کرتے رہےاس کتاب میں ان تینوں ادوار سے متعلق چند اہم نکات پیش کئے گئے ہیں۔امید واثق ہے کہ اگر کوئی طالب علم اس کتاب سے تیاری کر کے امتحان دیتا ہے تو وہ ضرور اچھے نمبروں سے پاس ہوگا۔ان شاء اللہ۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ مولف کی اس محنت کو قبول فرم...
ہر قوم اپنے وجود کے مٹنے کے خدشہ پر دشمن کے وجود کو مٹانے پرتل آتی ہے یا کم از کم اپنا دفاع کرتی ہے۔ اسلام نے نظریہ اسلام اور دین کی پاسداری کے لیے دشمن اسلام سے لڑنے کے اصول و ضوابط مقرر کردیے ہیں اور یہ اصول دین اسلام کو تمام ادیان پر فائق کرتا ہے کہ جس کے جنگی اصولوں میں یہ بات ہو کہ بچوں، بوڑھوں، عورتوں اور جو ہتھیار نہ اٹھائے ان کو قتل نہیں کرنا۔ دشمن کو جلانا نہیں، دشمن کا مثلہ کرنا حرام ہو، دشمن کو جلانا ممنوع ہو، قیدیوں سے اچھے سلوک کی ترغیب دلائی گئی ہو اور قیدی عورتوں کی عصمت دری سے روکا گیا ہو۔ یہ وہ تمام اوصاف ہیں کہ جنہیں اپناکرایک مسلمان اپنے دشمنوں کے دل بھی جیت لیتا ہے۔دوران جنگ ایسے مواقع پیش آتے ہیں کہ مجاہد کے دل میں جذبہ شہادت کی لہر اس قدر موجزن ہوتی ہے کہ وہ اللہ کے دشمنوں میں موت کی پرواہ کئے بغیر گھس جاتا ہے اور دشمن اسلام کا نقصان کرتے ہوئے اللہ کی راہ میں شہادت کے مرتبہ پر فائز ہوجاتا ہے۔تاریخ اسلام میں ایسی بہت سی مثالیں ہیں کہ جن میں غازیان اسلام نے ایسی کاروائیاں سرانجام دیں کہ اپنے وجود کو انتہائی خطرے میں ڈال کر دشمن کو نقصان پہ...
اسلامی تاریخ مسلمانوں کی روشن اور تابندہ مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ لیکن افسوس کہ آج کا مسلمان اپنی اس تاریخ سے کٹ چکا ہے۔ اپنی بد اعمالیوں اور شریعت سے دوری کے سبب مسلمان آج پوری دنیا میں ذلیل و رسوا ہو رہے ہیں ۔ اور ہر میدان میں انہیں شکست و ہزیمت کا سامنا ہے ۔ تاہم صدر اسلام میں جب خلفائے راشدین تاریخ اسلام کے ابواب صفحہ ہستی پر منقوش کر رہے تھے تو عجمی دسیسہ کار تاریخ اسلام کے ان زریں اور تابناک ابواب کو مسخ کرنے کی کوششوں میں مصروف تھے۔ ہمارا ایمان ہے کہ نبی کریم ﷺ کی ازواج مطہرات تمام صنف اناث میں ہی نہیں بلکہ انبیائے کرام کے بعد تمام انسانوں سے شرف مجد میں بلند ترین مقامات پر فائز تھیں ۔ مگر عجمیت کے شاطر،عیار، اور خبیث افراد نے بظاہر اسلام کا لبادہ اوڑھ کر بڑی چابکدستی سے اسلام کو نیست و نابود کرنے کے لئے ایک لائحہ عمل مرتب کیا اور امہات المومنین پر طرح طرح کے بہتانات لگائے ۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ تاریخ اسلام کے مسخ کردہ حقائق‘‘حافظ سید محمد علی حسینی کی تصنیف ہے۔ جس میں تاریخ اسلام کی مسخ کردہ حقیقتوں کو واضح کیا ہے...
علمی تحقیقات کے ذوق نے عصر حاضر کے انسان پر نئی نئی دریافتوں اور ایجادوں کے دروازے کھول دئیے ہیں ۔جدید انکشافات اور ایجادات نے نوع انسانی کو ایک کنبے اور سطح ارضی کو ایک محدود رقبے کی حیثیت دےدی ہے ہر انسان دنیا بھر کےدور دراز مقامات کی آوازیں اسی طرح سن سکتا ہے جس طرح اپنے ہمسائے کے گھر کی آوازیں سنتا ہے ۔ جدید ذارئع ابلاغ ہر شخص کو ہر صبح دنیا بھر کے حالات سے باخبر کردیتے ہیں۔ دنیا کےایک سرے میں واقعات وحالات کی تبدیلیاں فوری طور پر دوسرے سرے کی آبادیوں پ اثر ڈالتی ہیں ۔ انسان کے فکر وعمل کی تحریکیں عالم گیر حیثیتیں اختیار کررہی ہیں۔ان حالات میں محض کسی ایک قوم ایک گروہ یا ایک ملک کی تاریخ کا مطالعہ انسانی فکر ونظر میں وہ وسعت پیدا نہیں کرسکتا ہے جو موجودہ دور میں زندگی بسر کرنے کے لیے ضروری ہے ۔عصر حاضر کی عالم گیر تحریکات کو جو ساری دنیا کےانسانوں پر اثر انداز ہو رہی ہیں اسے سمجھنے ، جانچنے اور پرکھنے کےلیے ہر فرد ، بشر کو نوع انسانی کی تاریخ سے آگاہ ہونا ضروری ہے ۔ تاکہ اس کے فکر کی قوتوں میں عصر حاضر کی تحریکات کی صحیح طور پر جائزہ لینے کی اہلیت پیدا...
بلدحرام مکہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہﷺ کو سب شہروں سےزیادہ محبوب ہے ۔ مسلمانوں کا قبلہ اوران کی دلی محبت کا مرکز ہے حج کا مرکز اورباہمی ملاقات وتعلقات کی آماجگاہ ہے ۔ روزِ اول سے اللہ تعالیٰ نے اس کی تعظیم کے پیش نظر اسے حرم قرار دے دیا تھا۔ اس میں ’’کعبہ‘‘ ہے جو روئے زمین پر اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے بنایا جانے والا سب سےپہلا گھر ہے ۔ اس قدیم گھر کی وجہ سےاس علاقے کو حرم کا درجہ ملا ہے۔ اوراس کی ہر چیز کو امن وامان حاصل ہے ۔ حتیٰ کہ یہاں کے درختوں اور دوسری خورد ونباتات کوبھی کاٹا نہیں جاسکتا۔ یہاں کے پرندوں اور جانوروں کوڈرا کر بھگایا نہیں جاسکتا۔اس جگہ کا ثواب دوسرےمقامات سے کئی گناہ افضل ہے۔ یہاں کی ایک نماز ایک لاکھ نماز کا درجہ رکھتی ہے ۔ مکہ مکرمہ کو عظمت ، حرمت او رامان سب کچھ کعبہ کی برکت سےملا ہے۔مکہ مکرمہ تاریخی خطہ حجاز میں سعودی عرب کے صوبہ مکہ کا دارالحکومت اور مذہب اسلام کا مقدس ترین شہر ہے۔ مکہ جدہ سے 73 کلومیٹر دور وادی فاران میں سطح سمندر سے 277 میٹر بلندی پر واقع ہے ۔ یہ بحیرہ احمر سے 80 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے ۔...
قوموں کی زندگی میں تاریخ کی اہمیت وہی ہے جو کہ ایک فرد کی زندگی میں اس کی یادداشت کی ہوتی ہے۔ جس طرح ایک فرد واحد کی سوچ ، شخصیت ، کردار اور نظریات پر سب سے بڑا اثر اس کی یادداشت کا ہوتا ہے اسی طرح ایک قوم کے مجموعی طرز عمل پر سب سے زیادہ اثر انداز ہونے والی چیز اس کی تاریخ ہوتی ہے ۔ کوئی بھی قوم اس وقت تک اپنی اصلاح نہیں کر سکتی جب تک وہ اپنے اسلاف کی تاریخ اور ان کی خدمات کو محفوظ نہ رکھے۔ اسلامی تاریخ مسلمانوں کی روشن اور تابندہ مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ زیر نظر کتاب ’’تاریخ یعقوبی ‘‘ تیسری صدی ہجری کے معروف مؤرخ اور جغرافیہ دان احمد بن ابی یعقوب بن جعفر بن وَہْب بن واضح یعقوبی کی تصنیف ہے یعقوبی بنو عباس کے دربار کا کاتب تھا۔ انہوں نے 284ھ میں وفات پائی۔ تاریخ یعقوبی دو جلدوں پر مشتمل ہے ۔ جلد اول کا آغاز حضرت آدم علیہ السلام سے ہوتا ہے اس جلد میں سیدنا عیسی علیہ السلام تک انبیائے بنی اسرائیل کا ذکر ہے۔ جبکہ دوسری جلد نبی کریم ﷺ کی ولادت سے شروع ہوتی ہے اس جلد میں 259ھ تک کی اسلامی تاریخ مرقوم ہے ۔(م۔ا)
قوموں کی زندگی میں تاریخ کی اہمیت وہی ہے جو کہ ایک فرد کی زندگی میں اس کی یادداشت کی ہوتی ہے۔ جس طرح ایک فرد واحد کی سوچ، شخصیت، کردار اور نظریات پر سب سے بڑا اثر اس کی یادداشت کا ہوتا ہے اسی طرح ایک قوم کے مجموعی طرزعمل پر سب سے زیادہ اثر انداز ہونے والی چیز اس کی تاریخ ہوتی ہے ۔ کوئی بھی قوم اس وقت تک اپنی اصلاح نہیں کر سکتی جب تک وہ اپنے اسلاف کی تاریخ اور ان کی خدمات کو محفوظ نہ رکھے۔اسلامی تاریخ مسلمانوں کی روشن اور تابندہ مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ زیرنظر کتاب ’’ تاریخ امت مسلمہ‘‘مولانا محمد اسماعیل ریحان کی تین جلدوں پر مشتمل ہے تصنیف ہے پہلی جلد ابتدائے کائنات تاخلافت حضرت عثمان رضی اللہ تک ہے ۔اس جلد میں مبادیات تاریخ،انبیائےسابقین علیہم السلام اور ان کی معاصر سلطنتیں، ماقبل از اسلام دنیا کی حالت ،سیرت نبویہ ﷺ، عہد خلافت راشدہ ، دور فتوحات ،امہات المومنین، عشرہ مبشرہ اور اکابر صحابہ کا تعارف اور اسباق تاریخ جیسے عنوانات ہیں اور دوس...
مسلک اہل حدیث کوئی نئی جماعت یا فرقہ نہیں ہے۔ تمام اہل علم اس بات کو اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ اہل حدیث کا نصب العین کتاب و سنت ہے اور جب سے کتاب و سنت موجود ہے تب سے یہ جماعت موجود ہے۔اسی لیے ان کا انتساب کتاب و سنت کی طرف ہے کسی امام یا فقیہ کی طرف نہیں اور نہ ہی کسی گاؤں اور شہر کی طرف ہے۔یہ نام دو لفظوں سے مرکب ہے۔پہلا لفظ"اہل"ہے۔جس کے معنی ہیں والے صاحب دوسرا لفظ"حدیث" ہے۔حدیث نام ہے کلام اللہ اور کلام رسولﷺ کا۔قرآن کو بھی حدیث فرمایا گیا ہے۔اور آپﷺ کے اقوال اور افعال کے مجموعہ کا نام بھی حدیث ہے۔پس اہل حدیث کے معنی ہوئے۔”قرآن و حدیث والے” جماعت اہل حدیث نے جس طریق پر حدیث کو اپنا پروگرام بنایا ہے اور کسی نے نہیں بنایا۔اسی لیے اسی جماعت کا حق ہے۔کہ وہ اپنے آپ کو اہل حدیث کہے۔مسلک اہلحدیث کی بنیاد انہی دو چيزوں پر ہے اور یہی جماعت حق ہے۔ اہل حدیث مروّجہ مذہبوں کی طرح کوئی مذہب نہیں، نہ مختلف فرقوں کی طرح کوئی فرقہ ہے، بلکہ اہل حدیث ایک جماعت اور تحریک کا نام ہے۔ اور وہ تحریک ہے زندگی کے ہر شعبے میں قرآن وحدیث کے مطابق عمل...
تاریخ ایران اردو دان طبقہ کے لیے ایک قیمتی دستاویز ہے جو اپنے اندربیش بہا معلومات کا خزینہ لیے ہوئے ہے ۔اس میں ایران کی تاریخ کے حوالے سے قریبا تمام پہلووں سے بحث کی گئی ہے ۔ مثلا ایران کے حدود اربعہ ، تہذیب و ثقافت ، انداز سیاست ،فنون لطیفہ ،زبان کا ارتقاء اور مذہب کے حوالے سے سیر حاصل بحث کی گئی ہے ۔کتاب کو مختلف آٹھ ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے ۔جن میں درج ذیل امور پر بحث کی گئی ہے ۔ ایران کے طبعی حالات، ہمسایہ اقوام، ایران کا دور قبل از تاریخ، قدیم ایران کے آریا او ر آل ماد، ہخامنشی دور، سیلوکی دور، اشکانی دوراور ساسانی دوروغیرہ۔ مذکورہ تالیف دو ضخیم جلدوں میں ہے۔ اس کے مولف پروفیسر مقبول بیگ بدخشانی ہیں جو ایرانی تاریخ کے ساتھ ساتھ فارسی زبان کے ادیب بھی ہیں ۔ موصوف متعدد کتب کے مصنف او رفارسی کے پروفیسر ہیں۔(ناصف)
خانہ کعبہ، کعبہ یا بیت اللہ مسجد حرام کے وسط میں واقع ایک عمارت ہے، جو مسلمانوں کا قبلہ ہے، جس کی طرف رخ کرکے مسلمان عبادت کرتے ہیں۔ یہ دینِ اسلام کا مقدس ترین مقام ہے۔ صاحب حیثیت مسلمانوں پر زندگی میں ایک مرتبہ بیت اللہ کا حج کرنا فرض ہے۔ سیدنا ابراہیم کا قائم کردہ بیت اللہ بغیر چھت کےایک مستطیل نما عمارت تھی جس کےدونوں طرف دروازے کھلے تھےجو سطح زمین کےبرابر تھےجن سےہر خاص و عام کو گذرنےکی اجازت تھی۔ اس کی تعمیر میں 5 پہاڑوں کےپتھر استعمال ہوئےتھےجبکہ اس کی بنیادوں میں آج بھی وہی پتھر ہیں جو سیدنا ابراہیم نےرکھےتھے۔ خانہ خدا کا یہ انداز صدیوں تک رہا تاوقتیکہ قریش نے 604ء میں اپنےمالی مفادات کےتحفظ کےلئےاس میں تبدیلی کردی کیونکہ زائرین جو نذر و نیاز اندر رکھتےتھےوہ چوری ہوجاتی تھیں۔قریش نےبیت اللہ کے شمال کی طرف تین ہاتھ جگہ چھوڑ کر عمارت کو مکعب نما (یعنی کعبہ) بنادیا تھا۔اور اس پر چھت بھی ڈال دی تاکہ اوپر سےبھی محفوظ رہے، مغربی دروازہ بند کردیا گیا جبکہ مشرقی دروازےکو زمین سےاتنا اونچا کردیا گہ کہ صرف خواص ہی قریش کی اجازت سےاندر جاسکیں۔ اللہ کےگھر ک...
بیت المقدس مسلمانوں کا قبلۂ اول ہے ہجرت کےبعد 16 سے 17 ماہ تک مسلمان بیت المقدس (مسجد اقصٰی) کی جانب رخ کرکے ہی نماز ادا کرتے تھے پھر تحویل قبلہ کا حکم آنے کے بعد مسلمانوں کا قبلہ خانہ کعبہ ہوگیا۔ مسجد اقصٰی خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کے بعد تیسرا مقدس ترین مقام ہے۔مقامی مسلمان اسے المسجد الاقصیٰ یا حرم قدسی شریف کہتے ہیں۔ یہ مشرقی یروشلم میں واقع ہے جس پر اسرائیل کا قبضہ ہے۔ یہ یروشلم کی سب سے بڑی مسجد ہے جس میں 5 ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے جبکہ مسجد کے صحن میں بھی ہزاروں افراد نماز ادا کرسکتے ہیں۔نبی کریم ﷺسفر معراج کے دوران مسجد حرام سے یہاں پہنچے تھے اور بیت المقدس میں تمام انبیاء کی نماز کی امامت کرنے کے بعد براق کے ذریعے سات آسمانوں کے سفر پر روانہ ہوئے۔قرآن مجید کی سورہ الاسراء میں اللہ تعالیٰ نے اس مسجد کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے: ’’پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کورات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصی لے گئی جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے اس لئے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائيں یقینا اللہ تعالیٰ ہی خوب سننے والا اوردیکھنے وال...
حجر اسود کے بارے میں سب لوگ جانتے ہیں کہ وہ خانہ کعبہ میں لگا ہوا وہ مبارک پتھر ہے جسے چومنا یا ہاہاتھ لگانا ہر مسلمان اپنے لئے باعث سعادت سمجھتا ہے لیکن یہ حجر اسود ہے کیا ؟ اس کی تاریخ کیا ہے ؟اس بارے میں مستند معلومات کی کمی ہے ۔اسلامی عقیدہ ہے کہ حضرت ابراہیم نے جب خانہ کعبہ تعمیر کیا تو حضرت جبرائیل ؑ جنت سے لائے تھے اور بعد میں تعمیر قریش کے دوران نبی کریم ﷺنے اپنے دست مبارک سے اس جگہ نسب کیا۔اس وقت یہ پتھر دودھ کی طرح سفید تھاجو بنی آدم کے گناہوں کے سبب سیاہ ہوگیا ۔حجاج بن یوسف کے کعبہ پر حملے میں یہ مقدس پتھر ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا جسے بعد میں چاندی میں مڑھ دیا گیا ۔ اس مقدس پتھر نے کئی ادوار دیکھے ۔ اس کتاب میں جناب علی شبیر صاحب حجر اسود کی مکمل اور مستند تاریخ تفصیل کے ساتھ بیان کر دی گئی ہے۔(م۔ا)
حرم مکی سے مراد مسجد حرام ہے مسجد حرام دینِ اسلام کا مقدس ترین مقام ہے۔ صاحب حیثیت مسلمانوں پر زندگی میں ایک مرتبہ بیت اللہ کا حج کرنا فرض ہے۔سیدنا ابراہیم کا قائم کردہ بیت اللہ بغیر چھت کےایک مستطیل نما عمارت تھی جس کےدونوں طرف دروازے کھلے تھےجو سطح زمین کےبرابر تھےجن سےہر خاص و عام کو گذرنےکی اجازت تھی۔ اس کی تعمیر میں 5 پہاڑوں کے پتھر استعمال ہوئےتھےجبکہ اس کی بنیادوں میں آج بھی وہی پتھر ہیں جو سیدنا ابراہیم نےرکھےتھے۔ خانہ خدا کا یہ انداز صدیوں تک رہا تاوقتیکہ قریش نے 604ء میں اپنےمالی مفادات کےتحفظ کےلئےاس میں تبدیلی کردی کیونکہ زائرین جو نذر و نیاز اندر رکھتےتھےوہ چوری ہوجاتی تھیں۔قریش نےبیت اللہ کے شمال کی طرف تین ہاتھ جگہ چھوڑ کر عمارت کو مکعب نما (یعنی کعبہ) بنادیا تھا۔اور اس پر چھت بھی ڈال دی تاکہ اوپر سےبھی محفوظ رہے، مغربی دروازہ بند کردیا گیا جبکہ مشرقی دروازےکو زمین سےاتنا اونچا کردیا گہ کہ صرف خواص ہی قریش کی اجازت سےاندر جاسکیں۔ اللہ کےگھر کو بڑا سا دروازہ اور تالا بھی لگادیا گیا جو مقتدر حلقوں کےمزاج اور سوچ کےعین مطابق تھا۔ حالانکہ نبی...