مولانا عبد الماجد دریابادی 16 مارچ 1892 کو دریاباد،ضلع بارہ بنکی، بھارت میں قدوائی خاندان میں پیدا ہوئے۔ اُن کے دادا مفتی مظہر کریم کو انگریز سرکار کے خلاف ایک فتویٰ پر دستخط کرنے کے جرم میں جزائر انڈومان میں بطور سزا کے بھیج دیا گیاتھا۔ آپ ہندوستانی مسلمان محقق اور مفسر قرآن تھے۔آپ بہت سی تنظیموں سے منسلک رہے۔ اور بہت سی اسلامی اور ادبی انجمنوں کے رکن تھے۔ عبدالماجد دریاآبادی نے انگریزی کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی ایک جامع تفسیر قرآن لکھی ہے۔ اُن کی اردو اور انگریزی تفسیر کی خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے یہ تفاسیر اسلام پر عیسائیت کی طرف سے کیے جانے والے اعتراضات کو سامنے رکھتے ہوئے لکھی ہے، مزید ان تفاسیر میں عیسائیت کے اعتراضات رد کرتے ہوئے بائبل اور دوسرے مغربی مستشرقین کی کتابوں سے دلائل دئیے ہیں۔آپ نے 6 جنوری 1977 کو وفات پائی۔ان کے حالات وخدمات پر متعدد رسالوں ماہ ناموں نےخصوصی شمارے شائع کیے گئے ہیں اور متعدد کتب بھی لکھی گئی ہیں مختلف یونیورسٹیوں میں ان پر تحقیقی مقالہ جات بھی لکھے گئے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب’’مولانا عبدالماجد دریاآبدی حیات وخدم...
انیسویں اور بیسویں صدی میں غیر مسلم مستشرقین Goldzehar اور Guillau me وغیرہ نے دین اسلام کے دو بنیادی ماخذ میں سے ایک کو موضوع تحقیق بناتے ہوئے مغربی ذرائع علم اور اپنے زیر تربیت مسلم محققین کو بڑی حد تک یہ بات باور کرا دی کہ حدیث کی حیثیت ایک غیر معتبر تاریخی بلکہ قیاسی بیان کی سی ہے، اس میں مختلف محرکات کے سبب تعریفی و توصیفی بیانات کو شامل کر لیا گیا ہے اور بہت سی گردش کرنے والی افواہوں کو جگہ دے دی گئی ہے۔ اس سب کے پیچھے یہ مقصد کار فرما تھا کہ دینی علوم سے غیر متعارف ذہن اس نہج پر سوچنا شروع کر دے کہ ایک مسلمان کے لیے زیادہ محفوظ یہی ہے کہ وہ قرآن کریم پر اکتفا کر لے اور حدیث کے معاملہ میں پڑ کر بلاوجہ اپنے آپ کو پریشان نہ کرے۔ اس غلط فکر کی اصلاح الحمد للہ امت مسلمہ کے اہل علم نے بروقت کی اور اعلیٰ تحقیقی و علمی سطح پر ان شکوک و شبہات کا مدلل، تاریخی اور عقلی جواب فراہم کیا۔ دعوۃ اکیڈمی اسلام آباد کی جانب سے مطالعہ حدیث کورس ایک ایسی کوشش ہے جس میں مستند اور تحقیقی مواد کو سادہ اور مختصر انداز سے 24 دروس میں مرتب کیا گیا ہے۔ اس وقت آپ کے سامنے مطالعہ حدیث کورس کا پندرہواں حصہ...
تعلیم کا مسئلہ ہر ملک کےلیے ایک بنیادی حیثیت رکھتاہے ۔کسی بھی ملک یا قوم کی ترقی کے لیے یہ ایسی شاہ کلید ہے ،جس سے سارے دروازے کھلتے چلے جاتے ہیں ۔مسلمانوں نے جب تک اس حقیقت کو فراموش نہیں کیا وہ دنیا کے منظرنامہ پر چھائے رہے اور انہوں نے دنیا کو علم کی روشنی سے بھر دیا ، لیکن جب مسلمانوں کی غفلت کے نتیجے میں پوری دنیا اخلاقی بحران کاشکار ہوگئ تو عالم اسلام خاص طور پر اس سے متاثر ہوا۔اس کی سب سےبڑی وجہ یہ ہے کہ اس نے اپنی بنیاد ہی فراموش کردی اور یورپ کے نظام تعلیم کو اختیار کرلیاجس نے پورے عالم اسلام کو متاثر کیا۔ خود اسلامی ملکوں میں پڑھنے والوں کا حال یہ ہے وہ جب اپنی اپنی یونیورسٹیوں سے پڑھ کرنکلتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے وہ یورپ کے پروردہ ہیں جس کے نتیجہ میں اسلامی ملکوں میں ایک کشمکش کی فضا پید ا ہوگئی ہے۔مفکر اسلام مولانا سید ابو الحسن علی ندوی نے اپنی تقریروں او رتحریر وں میں اسلامی ملکوں میں ذہنی کشمکش کا بنیادی سبب...
انیسویں اور بیسویں صدی میں غیر مسلم مستشرقین Goldzehar اور Guillau me وغیرہ نے دین اسلام کے دو بنیادی ماخذ میں سے ایک کو موضوع تحقیق بناتے ہوئے مغربی ذرائع علم اور اپنے زیر تربیت مسلم محققین کو بڑی حد تک یہ بات باور کرا دی کہ حدیث کی حیثیت ایک غیر معتبر تاریخی بلکہ قیاسی بیان کی سی ہے، اس میں مختلف محرکات کے سبب تعریفی و توصیفی بیانات کو شامل کر لیا گیا ہے اور بہت سی گردش کرنے والی افواہوں کو جگہ دے دی گئی ہے۔ اس سب کے پیچھے یہ مقصد کار فرما تھا کہ دینی علوم سے غیر متعارف ذہن اس نہج پر سوچنا شروع کر دے کہ ایک مسلمان کے لیے زیادہ محفوظ یہی ہے کہ وہ قرآن کریم پر اکتفا کر لے اور حدیث کے معاملہ میں پڑ کر بلاوجہ اپنے آپ کو پریشان نہ کرے۔ اس غلط فکر کی اصلاح الحمد للہ امت مسلمہ کے اہل علم نے بروقت کی اور اعلیٰ تحقیقی و علمی سطح پر ان شکوک و شبہات کا مدلل، تاریخی اور عقلی جواب فراہم کیا۔ دعوۃ اکیڈمی اسلام آباد کی جانب سے مطالعہ حدیث کورس ایک ایسی کوشش ہے جس میں مستند اور تحقیقی مواد کو سادہ اور مختصر انداز سے 24 دروس میں مرتب کیا گیا ہے۔ اس وقت آپ کے سامنے مطالعہ حدیث کا چھٹا یونٹ ہے جس می...
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو بندوں کی رشد و ہدایت کے لیے نازل فرمایاہے۔،یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کیا جانے والا ایسا کلام ہے جس کے ایک ایک حرف کی تلاوت پر دس دس نیکیاں ملتی ہیں۔اور قرآن مجید کی درست تلاوت اسی وقت ہی ممکن ہو سکتی ہے، جب اسے علم تجویدکے قواعد وضوابط اور اصول وآداب کے ساتھ پڑھا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو ترتیل کے ساتھ پڑھنے کا حکم دیا ہے ۔لہٰذا قرآن کریم کو اسی طرح پڑھا جائے جس طرح اسے پڑھنے کا حق ہے۔اور ہرمسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ علمِ تجوید کے بنیادی قواعد سے آگاہی حاصل کرے،اور قراء کرام کا تجربہ گواہ ہے کہ اگر بچپن میں ہی تلفظ کے ساتھ قاعدہ پڑھا دیا جائے تو بڑی عمر میں تلفظ کا مسئلہ پیدا نہیں ہوتا ہے۔ زیر تبصرہ " نورانی قاعدہ " محترم مولانا نو ر محمد حقانی صاحب کا مرتب کردہ ہے ، جس میں انہوں نے قاعدے کی معروف تختیوں کے ساتھ ساتھ جا بجا تجوید کے قواعد بھی بیان کر دئیے ہیں اور ساتھ نماز اور مسنون دعائیں جمع کر دی ہیں تاکہ بچے قاعدے کے ساتھ نماز اور چند ضروری دعائیں بھی بچپن ہی سے یاد کر لیں۔ال...
وفاق المدارس السلفیہ پاکستان، پاکستان کے اکثر اہل حدیث مدارس کا نمائندہ وفاق ہے۔ جس کا ہیڈ آفس جامعہ سلفیہ فیصل آبا میں ہے پاکستان بھر سے طلباء وطالبات کے بیسوں مدارس اس وفاق سے منسلک ہیں ۔ یہ ادارہ ملحقہ مدارس و جامعات کے تمام تعلیمی مراحل ( ثانویہ عامہ، ثانویہ خاصہ، عالیہ، عالمیہ اور حفظ و تجوید اور قراء ات ) کے منظم طریقے سے امتحانات کا انعقاد کرتا ہے اور کامیاب طلبہ وطالبات کو اسناد جاری کرتا ہے ۔ ملحقہ مدارس و جامعات کے لیے جامع نصاب تعلیم مرتب کرنا اور اسے عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا، اہم موضوعات پر علمی و تحقیقی مقالات اور کتب تیار کروانا اور ان کی طباعت کا اہتمام کرنا، ذہین اور محنتی طلبہ کی اعلی تعلیم کے لیے ملکی اور غیر ملکی جامعات میں سکالر شپ کے حصول کے لیے کوشش کرنا، دینی مدارس و جامعات کی تاسیس کے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے مسلسل اور مؤثر اقدامات کرنا اس ادارے کے مقاصد میں شامل ہے ۔ امتحانات کے متعلق ا...
وفاق المدارس السلفیہ پاکستان، پاکستان کے اکثر اہل حدیث مدارس کا نمائندہ وفاق ہے۔ جس کا ہیڈ آفس جامعہ سلفیہ فیصل آبا میں ہے پاکستان بھر سے طلباء وطالبات کے بیسوں مدارس اس وفاق سے منسلک ہیں ۔ یہ ادارہ ملحقہ مدارس و جامعات کے تمام تعلیمی مراحل ( ثانویہ عامہ، ثانویہ خاصہ، عالیہ، عالمیہ اور حفظ و تجوید اور قراء ات ) کے منظم طریقے سے امتحانات کا انعقاد کرتا ہے اور کامیاب طلبہ وطالبات کو اسناد جاری کرتا ہے ۔ ملحقہ مدارس و جامعات کے لیے جامع نصاب تعلیم مرتب کرنا اور اسے عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا، اہم موضوعات پر علمی و تحقیقی مقالات اور کتب تیار کروانا اور ان کی طباعت کا اہتمام کرنا، ذہین اور محنتی طلبہ کی اعلی تعلیم کے لیے ملکی اور غیر ملکی جامعات میں سکالر شپ کے حصول کے لیے کوشش کرنا، دینی مدارس و جامعات کی تاسیس کے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے مسلسل اور مؤثر اقدامات کرنا اس ادارے کے مقاصد میں شامل ہے ۔ امتحانات کے متعلق ا...
تعلیم و تربیت انسان کی سب سے پہلی،اصل اور بنیادی ضرورت ہے۔ہماری تاریخ میں اس کی عملی تابندہ مثالیں موجود ہیں۔ ایک طرف جہاں مسجد نبوی میں چبوترے پر اہل صفہ علم حاصل کر رہے ہیں، تو دوسری طرف جنگی قیدیوں کے لیے آزادی کے بدلے ان پڑھ صحابہ کو تعلیم یافتہ بنانے کی شرط رکھی جاتی ہے اور کبھی مسجد نبوی کا ہال دینی، سماجی اور معاشرتی مسائل کی افہام و تفہیم کا منظر پیش کرتا ہے۔ آج کل فن تعلیم کو جو اہمیت حاصل ہے وہ روز روشن کی طرح سب پر عیاں ہے۔ہر طرف ٹریننگ اسکول اور کالج کھلے ہیں،مدرس تیار کئے جاتے ہیں،فن تعلیم پر نئی نئی کتابیں لکھی جاتی ہیں اور نئے نئے نظرئیے آزمائے جاتے ہیں۔ایک وہ وقت بھی تھا جب اس روئے زمین پر مسلمان ایک ترقی یافتہ اور سپر پاور کے طور پر موجود تھے،مسلمانوں کے اس ترقی وعروج کے زمانے میں بھی اس فن پر کتابیں لکھی گئیں اور علماء اہل تدریس نے اپنے اپنے خیالات کتابوں اور رسالوں میں تحریر کئےاور کتاب وسنت ،بزرگوں کے واقعات اور تجربات کی روشنی میں جو تعلیمی نتائج انہوں نے سمجھے تھے انہیں اصول وقواعد کی حیثیت سے ترتیب دے دیا تھا۔ضرورت اس امر کی تھی کہ مسلمان علماء نے جو کتابیں لک...
تعلیم صرف تدریسِ عام کا ہی نام نہیں ہے ۔تعلیم ایک ایسا عمل ہے جس کےذریعہ ایک فرد اور ایک قوم خود آگہی حاصل کرتی ہے اور یہ عمل اس قوم کو تشکیل دینے والے افراد کے احساس وشعور کونکھارنے کا ذریعہ ہوتا ہے۔یہ نئی نسل کی وہ تعلیم وتربیت ہے جو اسے زندگی گزارنے کے طریقوں کاشعور دیتی ہے اور اس میں زندگی کے مقاصد وفرائض کا احساس پیداکرتی ہے ۔ تعلیم سے ہی ایک قوم اپنے ثقافتی وذہنی اور فکری ورثے کوآئندہ نسلوں تک پہنچاتی اور ان میں زندگی کے ان مقاصد سے لگاؤ پیدا کرتی ہے جنہیں اس نے اختیار کیا ہے۔ تعلیم ایک ذہنی وجسمانی اور اخلاقی تربیت ہے اور اس کامقصد اونچے درجے کےایسے تہذیب یافتہ مرد اور عورتیں پیدا کرنا ہے جواچھے انسانوں کی حیثیت سے اور کسی ریاست میں بطور ذمہ دارشہری اپنے فرائض انجام دینے کے اہل ہوں۔ لیکن وطن عزیز میں تعلیمی نظام کو غیروں کے ہاتھ دے کر تعلیم سے اسلامی روح کو نکال دیاگیا ہے ۔تہذیب واخلاق سےعاری طاقت کے نشے میں چور حکمرانوں نے تعلیم کے نام پر بربادی کاکھیل کھیلا۔حکومت پاکستان نے جنرل پرویز مشرف کے دور میں سیکڑوں ملین ڈالر پاکستان میں سیکولر نظام تعلیم...
کسی بھی سوسائٹی کو خاص طرز زندگی پر قائم رکھنے میں ایمانیات کے علاوہ جن قوتوں کا بڑا دخل ہوتا ہے وہ اخلاق،تعلیم اور قانون کی قوتیں ہیں۔اگر یہ تینوں ایک دوسرے سے مربوط ہیں اور ان کی جڑیں ایمانیات میں پیوست ہیں تو پھر سوسائٹی میں بحیثیت مجموعی یک رنگی پائی جائے گی،اور جس طریقے کو اس سوسائٹی نے قبول کیا ہے وہ پوری زندگی میں بھلائی کو جاری وساری کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔بیرونی سامراج کے سیاسی غلبے کا ایک بڑا ہی تباہ کن نتیجہ یہ ہوا ہے کہ یہ تینوں قوتیں ایک دوسرے سے جدا ہو گئیں اور ان کا ایمانیات سے تعلق منقطع ہو گیا۔نتیجتا ان میں سے ہر ایک ،ملت کےافراد کو مختلف سمتوں میں لے جا رہی ہیں۔ہمارا قانون اور ہماری تعلیم ان اقدار پر مبنی نہیں ہے جو ہمارے ایمان اور ہمارے تصور اخلاق کی بنیاد ہے۔ زیر تبصرہ کتاب " پاکستان میں دینی تعلیم،منظر،پس منظر وپیش منظر " محترم خالد رحمن صاحب اے ۔ڈی۔ میکن کی مرتب کردہ ہے،جو درحقیقت ان مقالات ومضامین پر مشتمل ہے جو انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے تحت دینی مدارس کی تعلیم کے حوالے سے خصوصی پالیسی سیمینار سیریز میں پیش کئے گئے۔ ان...
آنحضرتﷺ نے جن علمی وتعلیمی روایات کی بنیاد رکھی‘ صحابہ کرامؓ نے آپﷺ کے اسوہ کے مطابق اسے آگے بڑھایا اور تعلیمی میدان میں انقلاب برپا کر دیا۔ بعد کے مسلمان اساتذہ نے اس روایت کو قائم رکھا اور ایک ترقی یافتہ معاشرہ کی بنیاد رکھی۔ تعلیم کی مختلف تعریفوں کا جائزہ لیں تو دنیا کی پہلی پانچ سو یونیورسٹیاں دوسرے ممالک میں ہیں ودیگر ایجادات کے حوالے سے ہم پیچھے ہیں۔ کیوں؟ ہمارے ہاں ذہین افراد پیدا نہیں ہوتےٰ؟ کیا ہمارا تعلیمی نظام افراد کی تعلیمی وعملی صلاحیت نکھارنے میں ناکام رہا ہے؟ کیا ہمارے اُستاد کے سامنے رول ماڈل کے طور پر مثالی اُستاد کا نمونہ موجود ہے؟ وجہ صرف یہی ہے کہ ہم اخلاقیات‘ فرض شناسی‘ لگن اور اخلاص جیسے اسلامی اقدار سے دور ہیں۔انسان فانی ہے‘ موت برحق ہے اور مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہونا بھی اَٹل حقیقت ہے۔ ہمارے دنیا کے چلے جانے کے بعد صرف تین اعمال ایسے ہیں جن کا ثواب ہمیں قیامت تک ملتا رہے گا ان میں سے ایک نفع بخش علم کسی کو دے کر چلے جانا۔تدریس سب سے اعلیٰ وارفع پیشہ ہے۔زیرِ تبصرہ کتاب خاص اسی موضوع...
انیسویں اور بیسویں صدی میں غیر مسلم مستشرقین Goldzehar اور Guillau me وغیرہ نے دین اسلام کے دو بنیادی ماخذ میں سے ایک کو موضوع تحقیق بناتے ہوئے مغربی ذرائع علم اور اپنے زیر تربیت مسلم محققین کو بڑی حد تک یہ بات باور کرا دی کہ حدیث کی حیثیت ایک غیر معتبر تاریخی بلکہ قیاسی بیان کی سی ہے، اس میں مختلف محرکات کے سبب تعریفی و توصیفی بیانات کو شامل کر لیا گیا ہے اور بہت سی گردش کرنے والی افواہوں کو جگہ دے دی گئی ہے۔ اس سب کے پیچھے یہ مقصد کار فرما تھا کہ دینی علوم سے غیر متعارف ذہن اس نہج پر سوچنا شروع کر دے کہ ایک مسلمان کے لیے زیادہ محفوظ یہی ہے کہ وہ قرآن کریم پر اکتفا کر لے اور حدیث کے معاملہ میں پڑ کر بلاوجہ اپنے آپ کو پریشان نہ کرے۔ اس غلط فکر کی اصلاح الحمد للہ امت مسلمہ کے اہل علم نے بروقت کی اور اعلیٰ تحقیقی و علمی سطح پر ان شکوک و شبہات کا مدلل، تاریخی اور عقلی جواب فراہم کیا۔ دعوۃ اکیڈمی اسلام آباد کی جانب سے مطالعہ حدیث کورس ایک ایسی کوشش ہے جس میں مستند اور تحقیقی مواد کو سادہ اور مختصر انداز سے 24 دروس میں مرتب کیا گیا ہے۔ اس وقت آپ کے سامنے مطالعہ حدیث کورس کا تیرہواں یونٹ...
اللہ تعالی کاکلام اور نبی کریم ﷺکی احادیث مبارکہ عربی زبان میں ہیں اسی وجہ سے اسلام اور مسلمانوں سے عربی کا رشتہ مضبوط ومستحکم ہے عربی اسلام کی سرکاری زبان ہے ۔شریعت اسلامی کے بنیادی مآخد اسی زبان میں ہیں لہذا قرآن وسنت اور شریعت اسلامیہ پر عبور حاصل کرنےکا واحد ذریعہ عربی زبان ہے اس لحاظ سے عربی سیکھنا اور سکھانا امت مسلمہ کا اولین فریضہ ہے ۔عربی زبان سیکھنے کےلیے نحو وصرف کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔فن صرف علم نحو ہی کی ایک شاخ ہے شروع میں اس کے مسائل نحو کے تحت ہی بیان کیےجاتے تھے معاذ بن مسلم ہرّاء یاابو عثمان بکر بن محمدمزنی نے علم صرف کو علم النحو سے الگ کرکے مستقل فن کی حیثیت مرتب ومدون کیا۔ صرف ونحوصرف کی کتابوں کی تدوین وتصنیف میں علماء عرب کےساتھ ساتھ عجمی علماء بھی پیش پیش رہے ۔جب یہ تسلیم کرلیا گیا کہ تعلیم وتدریس میں علم وفن کاپہلا تعارف طالب علم کی مادری زبان میں ہی ہوناچاہ...
علم ایک ایسی شمع ہے جس کی بدولت حضرت انسان کو دیگر مخلوقات پر فوقیت اور برتری حاصل ہے- یہی وجہ ہے کہ دین اسلام میں ہر شخص پر علم کے حصول کو لازمی قرار دیاگیا-زیر نظر کتاب میں ڈاکٹر فرحت ہاشمی نے علم پر مبنی آیات واحادیث کو دوکتابوں مشکوۃ المصابیح اور ریاض الصالحین سے جمع کردیاہے ، نیز اردو کے ساتھ ساتھ آیات و احادیث کا انگلش ترجمہ بھی کر دیا گیا ہے تاکہ علم کی فضیلت کے پیش نظر زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اس جانب مائل کیا جاسکے-کتاب میں ان دعاؤں کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے جو ان شاء اللہ حصول علم میں مددگار ثابت ہوں گی-
’’کلید جدید‘‘اور ’’عربی کا معلم‘‘ ہر دو کتابچے مولوی عبدالستار خان کی تصنیفی مساعی میں سے ہیں اول الذکر کتابچہ چار مختصر اجزاء پر مشتمل ہے جو ثانی الذکر کے چار اجزاء کی توضیح اور تحلیل ہے۔ جس طرح مقفل چیز کو کھولنے کے لیے کنجی کی ضرورت ہوتی ہے بعینہ جو شخص عربی کے معلم سے کماحقہ استفادے کا خواہش مند ہے اس کے پاس کلید جدید کا ہونا بہت ضروری ہے ۔خاص طور پر وہ شائقین جو بطور خود عربی سیکھنا چاہتے ہوں یا مدارس میں تعلیم پانے والے وہ ذہین اور شائق طلبہ جو اپنا مطالعہ مدرسہ کی محدود تعلیم سے آگے بڑھانا چاہتے ہوں ہر دو گروہوں کے پاس کلید جدید کا ہونا از بس لازمی ہے ۔عربی کے معلم (چار اجزاء)میں جو مشقیں عربی سے اردو اور اردو سے عربی بنانے کے لیے پیش کی گئی ہیں ان کو ’’کلید جدید‘‘کے چاروں اجزاء میں حل کردیا گیا ہے ۔نیز بعض مشکل سوالات کے جوابات اور مختلف مضامین ، خطوط اور مشکل اقتباسات کا ترجمہ بھی اس میں لکھ دیا گیا ہے ۔تاکہ طالبین اور شائقین اپنے کام کی صحت او رغلطی کو جانچ سکیں۔’’کلید جدید‘&lsq...
اسلامی نقطہ نظر سے تعلیم محض حصول معلومات کا نام نہیں ،بلکہ عملی تربیت بھی اس کا جزو لاینفک ہے۔اسلام ایسا نظام تعلیم وتربیت قائم کرنا چاہتا ہے جو نہ صرف طالب علم کو دین اور دنیا دونوں کے بارے میں صحیح علم دے بلکہ اس صحیح علم کے مطابق اس کے شخصیت کی تعمیر بھی کرے۔یہ بات اس وقت بھی نمایاں ہو سامنے آتی ہے جب ہم اسلامی نظام تعلیم کے اہداف ومقاصد پر غور کرتے ہیں۔اسلامی نظام تعلیم کا بنیادی ہدف ہی یہ ہے کہ وہ ایک ایسا مسلمان تیار کرنا چاہتا ہے،جو اپنے مقصد حیات سے آگاہ ہو،زندگی اللہ کے احکام کے مطابق گزارے اور آخرت میں حصول رضائے الہی اس کا پہلا اور آخری مقصد ہو۔اس کے ساتھ ساتھ وہ دنیا میں ایک فعال ،متحرک اور با عزم زندگی گزارے ۔ایسی شخصیت کی تعمیر اسی وقت ممکن ہے جب تعلیم کے مفہوم میں حصول علم ہی نہیں ،بلکہ کردار سازی پر مبنی تربیت اور تخلیقی تحقیق بھی شامل ہو۔لیکن افسوس کہ استعمار کی سازش سے ہمارے تعلیمی اداروں میں دین ودنیا کو الگ الگ کر دیا گیا ہے۔دنیوی تعلیم حاصل کرنے والے دین کی بنیادی تعلیمات سے بھی عاری ہوتے ہیں ،جبکہ دین کے طالب...
ہمارے معاشرے میں کم علمی کے سبب بہت سی غلط فہمیاں پیدا ہو چکی ہیں۔ کوئی عصری علوم کے خلاف ہے تو کوئی خواتین کی تعلیم پر معترض ہے۔ جب تک مسلمان تعلیم کو شعوری طور پر حاصل کرتے تھے اس وقت ہماری درسگاہوں سے امام غزالی، امام رازی اور امام عبدالقادر جیلانی رحمہم اللہ پیدا ہوتے تھے جنہوں نے فقط اپنی ذات اور اہل ہی کو نہیں بلکہ پورے معاشرے کو اعلیٰ اقدار میں ڈھال دیا تھا۔ آج مسلم قوم اس سے غافل ہوتی جا رہی ہے۔ مسلم معاشرے میں جو کمیاں آ چکی ہیں زیر نظر کتاب میں ڈاکٹر محمد امین صاحب نے ان کو دور کرنے کے لیےنہایت قیمتی آرا دی ہیں۔ انھوں نے صرف تنقید ہی نہیں کی بلکہ قیمتی آرا بھی دی ہیں۔ یہ کتاب اس سلسلہ میں ان کے افکار و خیالات اور جذبات و احساسات کی آئینہ دار ہے۔ اور اس حوالہ سے ان کی اب تک کی جد و جہد کی روداد بھی ہے جو اپنے اندر بہت سے امور کو سمیٹے ہوئے ہے۔ ضروری نہیں کہ ان کی ہر بات سے اتفاق کیا جا سکے اور ہر تجویز کو قبول کیا جائے لیکن یہ بات بہر حال ضروری ہے کہ ان کے درد دل سے آگاہی حاصل کی جائے اور اس کے ثمرات سے استفادہ کیا جائے۔(ع۔م)
ہمارا نظام تعلیم اور نصابی صلیبیں"1997ء کی پہلی جماعت سے لے کر بی اے تک کے لازمی نصاب کے اس تجزئیے اور تبصرے پر مشتمل مقالے کا نام ہے جسے بی اے کی طالبہ محترمہ مریم خنساءرحمھا اللہ نے بی اے کے پیپرز کی تیاری کے دوران مرتب کیا۔اس مقالے کو مرتب کرنے والی بہن کے دل کو اللہ تعالی نے غیرت دینی سے نواز ا تھا ،جو بر وقت اسلام کے خلاف کی جانے والی ہر سازش ،ہر حرکت اور ہر لفظ کو بھسم کر دینے کا عزم رکھتی تھیں۔اور ایسا ہونا بھی چاہئے تھا کیونکہ ان کو یہ جذبہ موروثی طور پر ملا تھا۔ان کے والد محترم مولانا محمد مسعود عبدہ اور ان کی والدہ محترمہ ام عبد منیب رحمھا اللہ کے جذبات بھی اسی آتش سوزاں سے حرارت پذیر تھے۔اس کتاب سے پہلے بھی آپ کے متعدد مضامین ماہنامہ "بتول" اور ہفت روزہ "الاعتصام "میں چھپتے رہے ہیں۔یہ مقالہ مولفہ کی زندگی ہی میں دار الکتب السلفیہ نے 1999ء میں شائع کر دیا تھا،اور پھر ان کی وفات کے بعد تقریبا چودہ سال بعد اسے دوبارہ مشربہ علم وحکمت کے تحت شائع کیا گیا ۔اس مقالے میں موصوفہ نے پاکستان کے نظام تعلیم اور نصاب تعلیم کی خامیوں...
دینِ اسلام میں بچوں کی تربیت پر بڑا زور دیا گیا ہے چنانچہ ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم سب سے پہلے بچوں کی صحیح تربیت اور نشو و نما کے لیے اپنے اخلاق وعادات کو درست کر کےا ن کےلیے ایک نمونہ بنیں، پھر اس کے بعد ان کے عقائد وافکار اور نظریات کوسنوارنے کےلیے بھر پور محنت کریں اور ان کی اخلاقی اور معاشرتی حالت سدھارنےکے لیے ان کے قول وکردار پر بھر پورنظر رکھیں تاکہ وہ معاشرے کے باصلاحیت اور صالح فرد بن سکیں۔کیونکہ اولاد کی تربیت صالح ہوتو ایک نعمت ہے وگرنہ یہ ایک فتنہ اور وبال بن جاتی ہے۔ دین وشریعت میں اولاد کی تربیت کے لیے ایک فریضہ کی حیثیت رکھتی ہے ۔ کیونکہ جس طرح والدین کے اولاد پر حقوق ہیں اسی طرح اولاد کےوالدین پر حقوق ہیں اور جیسے اللہ تعالیٰ نے ہمیں والدین کےساتھ نیکی کرنے کا حکم دیا ہے ایسے ہی اس نے ہمیں اولاد کےساتھ احسان کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔ ان کے ساتھ احسان اور ان کی بہترین تربیت کرنا دراصل امانت صحیح طریقے سے ادا کرنا ہے اورانکو آزاد چھوڑنا اور ان کے حقوق میں کوتاہی کرنا دھوکہ اور خیانت ہے۔ کتاب و سنت کے دلائل میں اس بات کا واضح حکم ہے...