کسی آدمی کی وہ بات ماننا،جس کی نص حجت ِشریعہ،قرآن و حدیث میں نہ ہو،نہ ہی اُس پر اجماع ہو اور نہ وہ مسئلہ اجتہادی ہو تقلید کہلاتا ہے ۔ تقلید اورعمل بالحدیث کے مباحث صدیوں پرانے ہیں ۔زمانہ قدیم سے اہل رائے اور ہل الحدیث باہمی رسہ کشی کی بنیاد ’’ تقلید‘‘ رہی ہے موجودہ دور میں بھی عوام وخواص کے درمیان مسئلہ تقلید ہی موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔ حالانکہ گزشتہ چند ہائیوں میں تقلیدی رجحانات کے علاوہ جذبۂ اطاعت کو بھی قدرے فروغ حاصل ہوا ہے ۔ امت کا در د رکھنے والے مصلحین نے اس موضوع پر سیر حاصل بحثیں کی ہیں ۔اور کئی کتب تصنیف کیں ہیں ۔لیکن تقلیدی افکار ونظریات پر تعب وعناد کی چڑھتی ہوئی دبیز چادر کے سامنے جتنی بھی ہوں وہ کم ہی ہیں۔زیر نظر کتاب ’’ رد تقلید ‘‘مولانا حافظ جلال الدین قاسمی ﷾ کی تقلیدکے حوالے سے قرآن وحدیث ، آثار صحابہ وتصریحات ائمہ عظام واقوال علماء کرام کی روشنی میں اہم کتا...
کسی آدمی کی وہ بات ماننا،جس کی نص حجت شریعہ،قرآن و حدیث میں نہ ہو،نہ ہی اُس پر اجماع ہو اور نہ وہ مسئلہ اجتہادی ہو تقلید کہلاتا ہے ۔ تقلید اورعمل بالحدیث کے مباحث صدیوں پرانے ہیں ۔زمانہ قدیم سے اہل رائے اور ہل الحدیث باہمی رسہ کشی کی بنیاد ’’ تقلید‘‘ رہی ہے موجودہ دور میں بھی عوام وخواص کے درمیان مسئلہ تقلید ہی موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔ حالانکہ گزشتہ چند دہائیوں میں تقلیدی رجحانات کے علاوہ جذبۂ اطاعت کو بھی قدرے فروغ حاصل ہوا ہے ۔ امت کا درد رکھنے والے مصلحین نے اس موضوع پر سیر حاصل بحثیں کی ہیں اور کئی کتب تصنیف کیں ہیں۔ زیر نظر کتابچہ ’’سلف صالحین اورتقلید‘‘ غالبًا محدث العصر حافظ زبیر علی کے تقلید کے متعلق ایک تحقیقی مضمون کی کتابی صورت ہے ۔ حافظ صاحب مرحو م نے اس رسالہ میں کہا ہے کہ علماء کے لیے تقلید جائز نہیں بلکہ حسبِ استطاعت کتاب وسنت اور اجماع پر قولاً وفعلاً عمل کرنا ضرروی ہے اوراگر ادلۂ ثلاثہ میں کوئی مسئلہ نہ ملے تو پھر اجتہاد جائز ہے۔ ال...
اجتہاد ہر دور کی اہم ضرورت رہا ہے اور اس کی اہمیت بھی ہمیشہ اہل علم کے ہاںمسلم رہی ہے۔ اجتہاد اسلام کا ایک ایسا تصور ہے جو اسے نت نئی نیرنگیوں سے آشنا کر کے فکری جمود سے آزادی بخشتا ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ کے زمانہ میں آپﷺ کی حیثیت اللہ احکم الحاکمین کی طرف سے صدق و وفا کے علمبردار مرشد الٰہی کی تھی۔ صحابہ اکرام کو جو بھی مسئلہ درپیش آتا تو اس سے متعلق الہامی رہنمائی حاصل کرنے کے لیے وہ اللہ کے رسول ﷺ کی طرف رجوع کرتے تھے اور کتاب وسنت کی روشنی سےپوری طرح مطمئن ہو جاتے، بعض اوقات اگر وحی نازل نہ ہوتی توآپ شریعت الٰہی کی تعلیمات میں غور وفکر کرتے اور یہ فکر ونظر آپﷺ کے ملکہ نبوت کے حامل ہونے کے باوصف ہر طرح کے مسائل کی عقدہ کشائی کرتا، جسے لغوی طور پر تو 'اجتہاد ' کہا جا سکتا ہے، لیکن ہوائے نفس سے پاک ہونے اور ملکہ نبوت کی ممارست کی بدولت یہ سنت رسولﷺ ہی کہلاتا۔ کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ عصمت اور الہامی تصویب کا نتیجہ ہوتا تھا۔ چونکہ خلفاے راشدین کے دور میں اسلامی خلافت کی حدود اس قدر وسیع ہو گئی تھیں کہ اس دور کی سپر پاورز 'روم وفارس '...
اہل حدیث کی دعوت یہ ہے کہ وحی الہی یعنی کتاب وسنت کو زندگی کا دستور العمل بنایا جائے اور اسی کے مطابق اپنے عقیدہ وعمل کو ڈھالا جائے اس کے بالمقابل ارباب تقلید اپنے آئمہ وفقہاء کے اقوال وآراء او راجتہادات وفتاوی کی طرف دعوت دیتے ہیں خود ان کو بھی احساس ہے کہ ان کی دعوت میں قرآن وحدیث کو اولیت حاصل نہیں ہے اب بجائے اس کے کہ یہ اپنی اصلاح کریں اوراتباع سنت کو اپنانے کی فکر کریں اگر کوئی ان کو سمجھانے کی کوشش کرے ان کے عقائد واعمال کی کمزوریوں کی نشاندہی کرے او رقرآن وسنت کی طرف رجوع کی ترغیب دے تو یہ اسی پہ سرچڑ ھ دوڑتے ہیں اور اس کے خلاف اپنے غیظ وغضب کا اظہار کرتےہیں ایسی ہی صورت حال مولانا محمد یوسف جے پوری ؒ کی کتاب حقیقۃ الفقہ کے بارے میں دیکھنے میں آئی ہے کہ اس کے جواب میں اہل تقلید کے دیوبندی وبریلوی دھڑوں نے کتابیں لکھی ہیں جن میں علمی اور سنجیدہ اسلوب اپنان کے بجائے محض الزام تراشیوں اور دشنام طرازی سے کام لیا گیا ہے زیر نظر کتاب اسی طرح کی دوکتابوں کا جواب ہے جس مین انتہائی مدلل اور علمی طریق سے اہل حدیث کا دفاع کیا ہے اور ارباب تقلید کے استدلال قلعی گھوبی گئی ہ...
اصطلاح فقہاء میں‘احکام شرعیہ میں سے کسی چیز کے بارے میں ظن غالب کو حاصل کرنے کے لئے اس طرح پوری پوری کوشش کرنا کہ اس پر اس سے زیادہ غور وخوض ممکن نہ ہو اجتہاد کہلاتا ہے‘گویا کہ ہر ایسی کوشش جوکہ غیرمنصوص مسائل کا شرعی حل معلوم کرنے کے لئے کی جاتی ہے، اجتہاد ہے۔اور اگر ایسی کوشش اجتماعی ہو یعنی وہ کسی سرکاری یا غیر سرکاری ادارے کے تحت ہوتو اجتماعی اجتہاد کہلاتی ہے۔ آج سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ ساتھ ہر علم کا دائرہ اتنا وسیع ہو گیا ہے کہ ایک مجتہد اور فقیہ کے لئے ہرایک شعبہ علم میں مہارت پیدا کرنا تو دور کی بات ، اس کے مبتدیات کا احاطہ کرنا بھی ناممکن ہو گیا ہے‘مزید برآں فقہ الاحکام( دین) سے متعلق مختلف علوم و فنون پر دسترس رکھنے والے علماء تو بہت مل جائیں گے لیکن فقہ الواقعہ(دنیا) سے تعلق رکھنے والے اجتماعی اور انسانی علوم ومسائل کی واقفیت علماء میں تقریبا ناپید ہے۔آج ایک عالم کو جن مسائل کاسامنا ہے وہ انفرادی اور اجتماعی زندگی کے تمام شعبوں پر محیط ہیں۔ان متنوع مسائل کا صحیح معنوں میں ادراک اور شریعت کی روشنی میں ان کا حل پیش کرنا اکیلے ایک عالم کے لئے...
فقہ اسلامی میں اجتہاد کا موضوع بیک وقت نہایت نازک اور نہایت اہم ہے ۔ اجتہاد کی ضرورت ہر دور میں مسلم رہی ہے اوردورِ جدید میں اس ضرورت کے بڑھ جانے کا احساس شدید سے شدید تر ہوتاچلاجارہا ہے ۔ تاہم اس باب میں انتہائی احتیاط کو ملحوظ رکھنا بھی اتناہی ضروری ہے۔ زیر تبصرہ کتاب’’عصر حاضر میں اجتہاد اوراس کی قابل عمل صورتیں ‘‘شیخ زاید اسلامک سینٹر،لاہور،کراچی اور پشاور کی بیس سالہ تقریبات کے ضمن میں شیخ زائد اسلامک سینٹر،لاہور کےتحت ’’عصر حاضر میں اجتہاد اور اس کی قابل عمل صورتیں‘‘ کے عنوان سے ایک سیمینار کا اہتمام کیا گیا ۔اس سیمینار میں ملک کے نامور علماء اور ارباب فکر نے شرکت فرمائی اور مقالات پیش کیے ۔ ان مقالات میں اجتہاد کے موضوع پر بعض نہایت فکر انگیز نکتے سامنے آئے ۔ان مقالات کی اہمیت کے پیش نظر ڈاکٹر حافظ عبد القیوم صاحب نے محمود احمد غازی،مولانا زاہد الراشدی،ڈاکٹر محمد یوسف فاروقی اور ڈاکٹر طاہر منصوری کے مقالات کو مرتب کیا اورشیخ زاید ا...
کسی آدمی کی وہ بات ماننا،جس کی نص حجت ِشریعہ،قرآن و حدیث میں نہ ہو،نہ ہی اُس پر اجماع ہو اور نہ وہ مسئلہ اجتہادی ہو تقلید کہلاتا ہے ۔ تقلید اورعمل بالحدیث کے مباحث صدیوں پرانے ہیں ۔زمانہ قدیم سے اہل رائے اور اہل الحدیث باہمی رسہ کشی کی بنیاد ’’ تقلید‘‘رہی ہے۔ موجودہ دور میں بھی عوام وخواص کے درمیان مسئلہ تقلید ہی موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔ حالانکہ گزشتہ چندد ہائیوں میں تقلیدی رجحانات کے علاوہ جذبۂ اطاعت کو بھی قدرے فروغ حاصل ہوا ہے ۔ امت کا در د رکھنے والے مصلحین نے اس موضوع پر سیر حاصل بحثیں کی ہیں ۔اور کئی کتب تصنیف کیں ہیں۔لیکن تقلیدی افکار ونظریات پر تعب وعناد کی چڑھتی ہوئی دبیز چادر کے سامنے جتنی بھی ہوں وہ کم ہی ہیں۔ زیر نظر کتاب ’’عقد الجید فی احکام الاجتہاد والتقلید ‘‘امام الہند سید شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی عربی تصنیف ہے،جس کا اردو ترجمہ محترم ڈاکٹر محمد میاں صدیقی صاحب نے کیا ہے۔سید شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ان نا...
تقليد نے امت مسلمہ میں جو جمود طاری کیا ہے اس کے بہت سارے نقصانات دیکھنے کو مل رہے ہیں-زیر نظر کتاب میں ابوجابر عبداللہ دامانوی نے محققانہ انداز میں ثابت کیا ہے کہ مقلدین حضرات اگر اپنے امام کے قول کے خلاف کوئی قرآنی آیت یا حدیث پالیتے ہیں تو ان پر عمل کرنے کی بجائے قرآن وحدیث میں ایسی تحریف کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے جس سےیہ قول امام کے موافق ہوجائیں-اس کتاب میں دیوبندیوں کی واضح اور مبینہ خیانتوں کو ان کی محرف کتابوں کے فوٹواسٹیٹ کے ذریعے ظاہر اور واضح کیا گیا ہے-پھر حدیث کی اصل کتابوں کے بھی فوٹودے کر ان کی خیانتوں کی نقب کشائی کی گئی ہے-مثال کے طور پر مختلف کتب حدیث میں احادیث کی کمی بیشی،احادیث میں اپنی مرضی کے مختلف قسم کے الفاظ کا اضافہ،اپنے مکتبوں میں میں اپنی مرضی کی کتب احادیث طبع کرکے امت میں افتراق کا سبب بننا-ان تمام چیزوں کو دلائل کے ساتھ واضح کر کے مدلل پکڑ کی گئی ہے-
شریعت اسلامی انسانیت کے لئے اللہ تعالی کا ہدایت نامہ ہے ،جس میں زندگی کے تمام مسائل کے بارے میں تفصیلی یا اجمالی راہنمائی موجود ہے۔شریعت کے بعض احکام ایسے ہیں ،جو یقینی ذرائع سے ثابت ہیں،اور الفاظ وتعبیرات کے اعتبار سے اس قدر واضح ہیں کہ ان میں کسی دوسرے معنی ومفہوم کا کوئی احتمال نہیں ہے۔ان کو قطعی الثبوت اور قطعی الدلالہ کہا جاتا ہے،اور شریعت کے بیشتر احکام اسی نوعیت کے ہیں۔جبکہ بعض احکام ہمیں ایسی دلیلوں سے ملتے ہیں،جن کے سندا صحیح ہونے کا یقین نہیں کیا جا سکتا ہے،یا ان میں متعدد معانی کا احتمال ہوتا ہے۔اسی طرح بعض مسائل قیاس پر مبنی ہوتے ہیں اور ان میں قیاس کی بعض جہتیں پائی جاتی ہیں۔تو ایسے مسائل میں اہل علم اپنے اپنے اجتہاد کے مطابق فتوی دیتے ہیں،جو ایک دوسرے سے مختلف بھی ہو سکتا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب " مسئلہ اجتہاد "ہندوستان کے معروف عالم دین محترم مولانا محمد حنیف ندوی صاحب کی تصنیف ہے،جس میں انہوں نے قرآن ،سنت ،اجماع،تعامل اور قیاس کی فقہی قدروقیمت اور ان کی حدود پر ایک نظر ڈالی ہے۔اور اس کے ساتھ ساتھ چند دیگر اہم فقہی مباحث مث...
کسی آدمی کی وہ بات ماننا،جس کی نص حجت ِشریعہ،قرآن و حدیث میں نہ ہو،نہ ہی اُس پر اجماع ہو اور نہ وہ مسئلہ اجتہادی ہو تقلید کہلاتا ہے ۔ تقلید اورعمل بالحدیث کے مباحث صدیوں پرانے ہیں ۔زمانہ قدیم سے اہل رائے اور اہل الحدیث باہمی رسہ کشی کی بنیاد ’’ تقلید‘‘ رہی ہے موجودہ دور میں بھی عوام وخواص کے درمیان مسئلہ تقلید ہی موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔ حالانکہ گزشتہ چندد ہائیوں میں تقلیدی رجحانات کے علاوہ جذبۂ اطاعت کو بھی قدرے فروغ حاصل ہوا ہے ۔امت کا درد رکھنے والے مصلحین نے اس موضوع پر سیر حاصل بحثیں کی ہیں ۔اور کئی کتب تصنیف کیں ہیں۔لیکن تقلیدی افکار ونظریات پر تعب وعناد کی چڑھتی ہوئی دبیز چادر کے سامنے جتنی بھی ہوں وہ کم ہی ہیں۔ تقلید جامد کے رسیا اور قرآن وحدیث کے علمبردار علماء ومصلحین اس موضوع پر سیر حاصل بحث کر کے خو ب خوب داد تحقیق دے چکے ہیں۔خیر القرون کے سیدھے سادھے دور کے مدتوں بعد ایجاد ہونے والے مذاہب اربعہ کے جامد مقلد فقہاء نے...
دنیا جہان میں مختلف نقطہ نگاہ رکھنے والوں کی کسی طور پربھی کمی نہیں ہے ۔انسانوں کا باہمی اختلاف ایک فطری امر ہے لیکن اس اختلاف کو بنیاد بنا کر جھگڑے اور فساد کی راہ ہموار کرنا قابل نفرین عمل ہے۔دین اسلام مین تقلید کی کوئی گنجائش نہیں اسلام ایک کامل اور اکمل دین ہے۔اپنے ائمہ کی تقلید کرنا گویا کہ اپنے عمل سے ظاہر کرنا ہے کہ اسلام ناقص دین ہے۔ زیر نظر کتاب ''اہل حدیث اور علمائے حرمین کا اتفاق رائے''رنگونی صاحب کی کتاب'' غیر مقلدین سعودی عرب کے آئمہ ومشائخ کے مسلک سے شدید اختلاف ''کا نہایت ہی مدلل اور سنجیدہ جواب ہے۔رنگونی صاحب نے جن مسائل کوبنیاد بنا کر غیر مقلدین اور سعودی علماء ومشائخ اور علماء کے مابین شدید اختلاف دکھانے کی کوشش کی ہے مؤلف نے کتاب وسنت اور آئمہ سلف کے اقوال کی روشنی میں نہایت اختصار کے ساتھ ان موضوعات پر محققانہ بحث کی ہے۔اس کتاب کی خوبی یہ ہے کہ فاضل مؤلف نے خالص علمی اسلوب اختیار کیا ہے اور ز بان انتہائی آسان اور عام فہم استعمال کی ہے۔ اللہ تعالیٰ فاضل مؤلف کو اجر عظیم سے نوازے اور ہم سب کو دی...
ہندوستان میں تقلید شخصی کا ایسا رجحان پیدا ہو چکا تھا کہ قرآن وسنت کو سمجھنا انتہائی مشکل تصور کیا جاتا اور لوگوں کے اس کے قریب بھی نہ آنے دیا جاتا تھا حتی کہ ان کے دلوں میں یہ چیز پیدا کر دی گئی تھی کہ قرآن وسنت کوسمجھنا عام انسان کا کام ہی نہیں تو اس دور میں شاہ ولی اللہ ؒ نے تقلید کے خلاف آواز حق کو بلند کرتے ہوئے قرآن وسنت کے افہام وتفہیم کو عام کرنے کی کوشش کی –اسی تحریک کو آگے بڑھاتے ہوئے شاہ اسماعیل شہید نے ایک کتاب تنویر العینین فی اثبات رفع الیدین تحریر فرمائی جس میں مختلف فقہی اختلافات کے بیان کے ساتھ ساتھ تقلید شخصی کا بھر پور رد فرمایا-اس کتاب کے منظر عام پر آنے کےبعد اس کے رد میں ایک غالی مقلد مولوی محمد شاہ پاک پٹنی نے تنویر الحق نامی کتاب کو شائع کر کے شاہ اسماعیل شہید کے دلائل کے اثر کوزائل کرنے کی ناکام کوشش کی -اس کے بعد شیخ الحدیث میاں نذیر حسین محدث دہلوی نے تنویر الحق کے رد میں معیار الحق فی تنقید تنویر الحق کا جواب لکھا جس میں تنویر الحق کا مکمل علمی محاکمہ کیا گیا ہے اور عام فہم انداز کواختیار کیا گیا ہے تاکہ عام قاری ک...
تقلید کا معنی لغت میں پیروی ہے اور لغت کے اعتبار سے تقلید، اتباع، اطاعت اور اقتداء کے سب ہم معنی ہیں۔ تقلید کے لفظ کا مادہ "قلادہ" ہے۔ جب انسان کے گلے میں ڈالا جائے تو "ہار" کہلاتا ہے اور جب جانور کے گلے میں ڈالا جائے تو "پتہ" کہلاتا ہے۔ اصولین کے نزدیک تقلید کے اصطلاحی معنی:دلیل کا مطالبہ کئے بغیر کسی امام مجتہد کی بات مان لینے اور اس پرعمل کرنے کے ہیں۔قاضی محمدعلی لکھتے ہیں: "التقلید اتباع الانسان غیرہ فیما یقول او یفعل معتقدا للحقیقة من غیر نظر الی الدلیل"۔ (کشف اصطلاحات الفنون:۱۱۷۸) ترجمہ: تقلید کے معنی یہ ہے کہ کوئی آدمی کسی دوسرے کی قول و فعل میں دلیل طلب کیئے بغیر اس کو حق سمجھتے ہوئے اتباع کرے۔ گویا کہ تقلید کرنے والے کو مقلد کہا جاتا ہے۔عقلی احکام میں تقلید جائز نہیں، جیسے صانع عالم (جہاں کا بنانے-والا) اور اس کی صفات (خوبیوں) کی معرفت (پہچان)، اس طرح رسول الله صلے الله علیہ وسلم اور آپ کے سچے ہونے کی معرفت وغیرہ. عبید الله بن حسن عنبری سے منقول ہے کہ وہ اصول_دین میں بھی تقلید کو جائز کہتے ہیں، لیکن یہ غلط ہ...
کسی آدمی کی وہ بات ماننا،جس کی نص حجت ِشریعہ،قرآن و حدیث میں نہ ہو،نہ ہی اُس پر اجماع ہو اور نہ وہ مسئلہ اجتہادی ہو تقلید کہلاتا ہے ۔ تقلید اورعمل بالحدیث کے مباحث صدیوں پرانے ہیں ۔زمانہ قدیم سے اہل رائے اور ہل الحدیث باہمی رسہ کشی کی بنیاد ’’ تقلید‘‘ رہی ہے موجودہ دور میں بھی عوام وخواص کے درمیان مسئلہ تقلید ہی موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔ حالانکہ گزشتہ چند ہائیوں میں تقلیدی رجحانات کے علاوہ جذبۂ اطاعت کو بھی قدرے فروغ حاصل ہوا ہے ۔ امت کا در د رکھنے والے مصلحین نے اس موضوع پر سیر حاصل بحثیں کی ہیں اور کئی کتب تصنیف کیں ہیں۔ زیر نظر کتا ب ’’مناظر ہ مسعود وسعید فی بحث الاتباع والتقلید‘‘ سید نذیر حسین محدث دہلوی کے نامور شاگرد صاحب’’ احسن لتفاسیر‘‘ مولانا احمد حسن دہلوی کی تصنیف ہے ۔اس کتا ب کا موضوع ...
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ امت ِاسلامیہ کے جسم کوجن امراض او رمشکلات نے کمزور کیا ہے ان میں بدعات وخرافات اور رسومات قبیحہ کے علاوہ اوہام پرستی ، کنبہ پروری ، ، پیر پرستی قبر پرستی جیسے امراض کی طرح شخصیت پرستی اور تقلید جامدبھی مرض لا علاج بن گیا ہے قرآن وحدیث نے اتفاق واتحاد کی جس شدت سے تاکید کی ہے اس گروہی عصبیت نے ائمہ کرام اور بزرگوں کے اقوال کوبلا دلیل واجب العمل قرار دے کر امت میں انتشار اور افتراق پیدا کردیا ہے۔اس اذیت ناک بیماری نے پوری دنیا میں تباہ کاریاں مچائیں اور اس کے اثرات دور دور تک پہنچے ۔یہاں تک کہ رشد وہدایت کا مرکز کعبۃ اللہ بھی ان جراثیم سے پاک نہ رہ سکا ۔تاریخ کے صفحات پر یہ بات موجود ہے کہ ایک ایسا وقت بھی آیا کہ وحدت ِانسانیت کے اس بین الاقوامی اور دائمی اسٹیج پر بھی اس شخصیت پرستی اور گروہ بندی نےبیک وقت چار مصلے نبوادیئے۔ ( إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ) ۔ارباب ِتقلید جوتاویل بھی چاہیں کریں مگر ان کے پاس ایک بھی ایسی دلیل...