اس کتاب میں دیوبندیوں اورتبلیغی جماعت کے صوفی ازم سے مرعوب زدہ ان باطل عقائد کا بیان ہے جنہیں دیوبندی علماء صرف بریلوی حضرات سے منسوب کر کے ان پر نشتر چلاتے ہیں۔ اس کتاب میں دیوبندی و تبلیغی علماء کی کتب سے باحوالہ ثبوت پیش کئے گئے ہیں کہ وہ باطل عقائد جو کہ بریلوی احباب ڈنکے کی چوٹ پر اختیار کئے ہوئے ہیں، کم و بیش سب کے سب کسی نہ کسی طرز پر دیوبندی و تبلیغی علماء بھی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ اس کتاب سے دیوبندی و تبلیغی جماعت کا دین و مذہب قارئین کے سامنے انشاء اللہ واضح ہو جائے گا۔ بصمیم قلب ہم اللہ تعالٰی سے دعا گو ہیں کہ یہ کتاب ان لوگوں کیلئے راہ ہدایت بن جائے جو صدیوں سے پھیلائی گئی صوفیت کے اندھیروں میں گم ہیں اور ابلیس لعین اور اس کے حواریوں کی چالوں سے کتاب و سنت سے اعراض ہی کو دین سمجھے بیٹھے ہیں۔
اسلام خود بھی امن و سلامتی کا دین ہے اور دوسروں کو بھی امن و عافیت کےساتھ رہنے کی تلقین کرتاہے۔اسلام کے دین امن ہونے کی سب سےبڑی یہ دلیل ہےکہ اللہ تعالیٰ نے اپنےبھیجے ہوئے دین کا نام ہی "اسلام "پسند کیاہے۔لفظ اسلام سَلِمَ یا سَلَمَ سے ماخوذ ہے ،جس کےمعنی امن وسلامتی اور خیرو عافیت کےہیں۔اسلام اپنے لغوی معنی کے اعتبار سے سراسر امن سلامتی ہے،لہذا اسلام اپنے معنی کے اعتبار سے ہی اسلام ایک ایسامذہب ہے جو خود بھی سراپا سلامتی ہےاور دوسروں کو بھی امن،محبت،رواداری،اعتدال اور صبرو تحمل کا درس دیتاہے۔ زیر تبصرہ کتاب"واقفیت اسلام" مولانا ابو عمار عبدالقہار کی تصنیف ہے۔جس میں بچوں کے لیےمختصر اسلام کے بنیادی احکام، ارکان ایمان، روز مرہ کی مسنون دعائیں وغیرہ کو قلمبند کیاہے۔ اللہ ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔ آمین ( عمیر)
ہندوستان کی فضا میں رشد وہدیٰ کی روشنیاں بکھیرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل خاص سے ایک ایسی شخصیت کو پید ا فرمایا جس نے اپنی قوت ایمان اور علم وتقریر کے زور سے کفر وضلالت کے بڑے بڑے بتکدوں میں زلزلہ بپا کردیا اور شرک وبدعات کے خود تراشیدہ بتوں کو پاش پاش کر کے توحیدِ خالص کی اساس قائم کی یہ شاہ ولی اللہ دہلوی کے پوتے شاہ اسماعیل شہید تھے ۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور محمد بن عبدالوہاب کے بعد دعوت واصلاح میں امت کے لیے ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں انہو ں نے نہ صرف قلم سےجہاد کیا بلکہ عملی طور پر حضرت سید احمد شہید کی امارت میں تحریک مجاہدین میں شامل ہوکر سکھوں کے خلاف جہاد کرتے ہوئے 6 مئی 1831ء بالاکوٹ کے مقام پر شہادت کا درجہ حاصل کیا اور ہندوستان کے ناتواں اور محکوم مسلمانوں کے لیے حریت کی ایک عظیم مثال قائم کی جن کے بارے شاعر مشرق علامہ اق...
ہندوستان کی فضا میں رشد وہدیٰ کی روشنیاں بکھیرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل خاص سے ایک ایسی شخصیت کو پید ا فرمایا جس نے اپنی قوت ایمان اور علم وتقریر کے زور سے کفر وضلالت کے بڑے بڑے بتکدوں میں زلزلہ بپا کردیا اور شرک وبدعات کے خود تراشیدہ بتوں کو پاش پاش کر کے توحیدِ خالص کی اساس قائم کی یہ شاہ ولی اللہ دہلوی کے پوتے شاہ اسماعیل شہید تھے ۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور محمد بن عبدالوہاب کے بعد دعوت واصلاح میں امت کے لیے ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں انہو ں نے نہ صرف قلم سےجہاد کیا بلکہ عملی طور پر حضرت سید احمد شہید کی امارت میں تحریک مجاہدین میں شامل ہوکر سکھوں کے خلاف جہاد کرتے ہوئے 6 مئی 1831ء بالاکوٹ کے مقام پر شہادت کا درجہ حاصل کیا اور ہندوستان کے ناتواں اور محکوم مسلمانوں کے لیے حریت کی ایک عظیم مثال قائم کی جن کے بارے شاعر مشرق علامہ اق...
انسانی تاریخ عبرت کا بہت وسیع و عریض مرقع ہے۔ انسان نے ظلم و ستم کی داستانیں بھی رقم کیں ہیں لیکن یہی انسان ہمت و عزیمت کے باب بھی جریدہ عالم پر ثبت کرتا رہا ہے۔ وقت کے مستبد حکمران ہمیشہ یہی سمجھتے رہے ہیں کہ ان کا حق حکمرانی غیر محدود ہے اپنے اقتدار کے نشے میں بد مست حکمرانوں کو گھنٹی بجنے سے قبل تک کبھی وہم و گمان بھی نہیں ہوتا کہ یہ دنیا ایک مکافاتی عمل کی حیثیت رکھتی ہے۔ جس طرح ظالم حکمران ہر دور میں ظلم کے فسانے میں ایک نیا ٹکڑا شامل کر دیتے ہیں، اسی طرح راہ وفا کے دیوانے بھی تاریخ کا قرض چکانے کی جسارت میں لگے رہتے ہیں۔ جہاں ایک جانب فرعون، نمرود، شداد اور ابو جہل نظر آتے ہیں تو وہاں دوسری جانب حضرت موسیٰؑ، حضرت ابراہیمؑ، صدیق اکبر ؓ، امام احمد بن حنبلؒ اور شاہ شہیدؒ تک ایک سلسلہ الذہب نظر آتا ہے۔ زیر نظر کتاب"سید بادشاہ کا قافلہ" آباد شاہ پوری کی تاریخی تصنیف ہے۔ مصنف علمی دنیا میں کسی تعارف کے محتاج نہیں ۔ موصوف دل بیدار، اندھیروں میں راہ دکھانے والا دماغ روشن اور رہوار وقت کے ساتھ چلنے والا قلم رکھتے ہیں۔ موصوف نے اپنی کتاب ہذا میں ایک...
حضرت سید احمد شہید او رمولانا شاہ اسماعیل شہید کی تحریک جہاد و اصلاح کا شمار برصغیر پاک وہند ہی نہیں بلکہ عالم اسلام کی بڑی تحریکوں میں ہوتاہے او رس تحریک کی اہمیت وافادیت اورعظمت وانفرادیت کو سمجھنے کی کوشش عالمی پیمانے پر ہوتی رہی۔ اپنی نوعیت کے لحاظ سے یہ صحیح معنوں میں ہندوستان کی اسلامی تحریک تھی جس کے ہمہ گیر اور دور رس اثرات نے برصغیر کی اسلامی زندگی اور مسلم معاشرے کو گوناگوں طریقوں سے متاثر ومستفید کیا او روہ مبارک خون ِشہیداں جو بالاکوٹ کی زمین پر بہایا گیا وہ ملت کی رگوں میں آج بھی موجو د ہے ۔ اس تحریک اور سیدین شہیدین کی حیات خدمات کے حوالے سے کئی اہل علم اور سیرت نگار وں نے ضخیم کتب تصنیف کی ہیں ۔جن میں مولانا سیدابو الحسن ندوی،مولانا مسعود عالم ندوی،مولانا جعفر تھانیسری،مولانا غلام رسول مہر وغیرہ کی خدمات قابل ذکر ہیں لیکن یہ ساری کتابیں نثر میں ہیں۔زیر نظر کتاب ''شاہنامہ بالاکوٹ''پاکستان کے مشہور سلفی شاعر جناب علیم ناصری کی تصنیف ہے ۔جو کہ تحریک جہاد کی پہلی منظوم داستان ہے ۔ جس میں انہوں نے سید احمد شہید او رمولانا محمد...
شریعتِ اسلامیہ میں دینی احکام ومسائل پر عمل کی تاکید کے ساتھ ساتھ ان اعمال کی فضیلت وثواب بیان کرتے ہوئے انسانی نفوس کو ان پر عمل کرنے کے لیے انگیخت کیا گیا ہے۔ کیونکہ کسی عمل کی فضیلت،اجروثواب اورآخرت میں بلند مقام دیکھ کر انسانی طبیعت جلد اس کی طرف راغب ہوجاتی ہے اوران پر عمل کرنا آسان معلوم ہوتا ہےمزیدبرآں اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعام واحسان کے طور پر دین اسلام میں کئی ایسے چھوٹے چھوٹے اعمال بتائے گئے ہیں جن کا اجروثواب اعمال کی نسبت بہت زیادہ ہوتا ہے ۔کتب احادیث میں فضائل کے متعلق کئی ایسی صحیح احادیث موجود ہیں۔جن پر عمل کر کے ا یک مسلمان اپنے نامۂ اعمال میں اضافہ کرسکتا ہے ۔کئی لوگوں نے فضائل اعمال کے نام سے بعض مجموعے تیار کر رکھے ہیں جس میں موضوع روایات ، من گھڑت حکایات واقعات اور غیر معتبر وضعیف روایات کا انبار ہے ۔ حالانکہ شریعت اسلامیہ میں فضائل اعمال کے متعلق ایسی بے شمار معتبر اور صحیح احادیث وسنن مروی ہیں جو اس سلسلے میں ایک مسلمان کے لیے کافی ووافی ہیں پھر ایسے مستند ذخیرے کوچھوڑ کر خود ساختہ روایات وحکایات کی طرف جانا محض جہالت کا...
جیسے جیسے قیامت کا وقت قریب آرہا ہے گمراہ فرقے جنگل میں آگ کی طرح پھیلتے جارہے ہیں۔اور اپنے دام ہم رنگ زمانہ میں ناسمجھ مسلمین کو پھنسا رہے ہیں۔قدیم زمانے میں نجد عراق میں کوفہ کا شہر گمراہ فرقوں کی جنم بھومی اور آماجگاہ تھا۔مثلا خوارج ،روافض ،جہمیہ ،مرجئہ ،معتزلہ وغیرہ ۔انہی فرقوں میں سے ایک نام نہاد جماعت المسلمین بھی ہے جوکراچی کی پیداوار ہے ۔اس جماعت کے بانی مبانی مسعود احمد صاحب بی ایس سی ہیں۔اس فرقے نے "جماعت المسلمین " کا خوبصورت لقب اختیار کر رکھا ہے جس طرح لبنان میں رافضیوں نے "حزب اللہ "کا نام اختیار کر رکھا ہے۔یہ فرقہ اپنے علاوہ تمام مسلمانوں کو گمراہ سمجھتا ہے اور ان کے پیچھے نماز پڑھنے کا قائل نہیں ہے۔جو شخص ا س کے بانی مسعود احمد صاحب کی بیعت نہیں کرتا وہ ان کے نزدیک مسلمان نہیں ہے،چاہے وہ قرآن وحدیث کا جتنا بڑا عالم وعامل ہی کیوں نہ ہو۔انہوں نے امام ابن حجرسمیت متعدد محدثین کی تکفیر کی ہے۔ زیر تبصرہ کتاب " مسعود بی ایس سی کی جماعت المسلمین پر ایک نظر "جمعیت اہل حدیث بہاولپور کی طرف...
برصغیر پاک و ہند میں حضرت سید احمد شہید ؒ کی ذات بابرکات محتاج تعارف نہیں ۔آپ ؒ ایک دور، صدی اور عہد کا نام ہیں۔ جب برصغیر کے مسلمانوں پر مایوسی کے گہرے بادل چھائے ہوتے تھے۔ مسلمان ہر طرف سے سکھوں اور انگریزں اور دیگر قوتوں کے ظلم و استبداد کے شکار تھے۔کسی جگہ کوئی امید نہیں نظر آتی تھی۔ علماو شیوخ اور صوفیا اپنے اپنے مدارس، خانقاہوں اور حلقہ ارادت میں مصروف تھے۔ اگرچہ کچھ کو انتہائی زیادہ قلق و اضطراب کے ساتھ فکر امت دامن گیر تھی۔ہر طرف طوائف الملوکی کا دور دورہ تھا۔ ان حالات میں حضرت شاہ ولی اللہ کے فکری جانشین یعنی ان کی فکر کے عسکری گوشے کو عملی رخ دینے والے جناب حضرت سید احمد شہید نے علم جہاد بلند کیا ۔ اور امت کو بیدار کرنے کی کوشش کی ۔ اللہ نے آپ کی اعانت فرمائی اور ایک اسلامی ریاست قائم بھی کردی۔ لیکن اپنے غداری رنگ لائی اور آپ بظاہر تو ناکام ہوئے لیکن حقیقت میں کامیاب ہوئے۔آپ کی پیدا کی ہوئی جہادی روح ابھی تک امت کے اندر موجود ہے بلکہ وہ ایک پودے سے تناور درخت بن چکی ہے۔زیرنظر کتاب آب کی...
ایک مصری بزرگ ڈاکٹر محمد بہی کی تصنیف "الفکر الاسلامی فی تطورہ" جس میں امام محمد بن عبدالوہاب ؒ اور آپ کی تحریک احیاء و تجدید دین سے متعلق نہایت کچی، سطحی اور سنی سنائی باتوں پر انحصار کرتے ہوئے خوب زور قلم صرف کیا گیا ہے، کا نہایت متین اور شستہ انداز میں جواب زیر تبصرہ کتاب میں سعودی عرب کے ڈاکٹر محمد خلیل راس نے دیا ہے۔ جس میں ڈاکٹر صاحب کے ایک ایک اعتراض کا جواب دیا گیا ہے اور ایک ایک غلط فہمی کا ازالہ کیا گیا ہے۔ اس کتاب کی ثقاہت اور متانت کیلئے یہ عرض کر دینا شاید کافی ہو کہ اسے اسلامک یونیورسٹی مدینہ منوّرہ نے زیور طباعت سے آراستہ کرایا ہے۔
مولانا سید ابو الحسن ندو ی کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں آپ نے مختلف موضوعات پر بیسیوں کتب تصنیف کی ہیں سیدین شہیدین کی تحریک جماعت مجاہدین پر آپ نے بہت کچھ لکھا ہے زیر نظر کتاب ’’کاروانِ ایمان وعزیمت‘‘ میں آپ نے حضرت سید احمد شہید کے مشہور خلفاء اور اکابرین جماعت کا تذکرہ الف بائی ترتیب سے پیش کرتے ہوئے سید صاحب کے بعد کی کوششوں اور سلسلہ تنظیم وجہاد کی روداد کو بھی پیش کیا ہے ۔ اللہ مولانا کی خدمات کو قبول فرمائے اور ان کے درجات بلند فرمائے (آمین)(م۔ا)
ہندوستان کی فضا میں رشد وہدیٰ کی روشنیاں بکھیرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل خاص سے ایک ایسی شخصیت کو پید ا فرمایا جس نے اپنی قوت ایمان اور علم وتقریر کے زور سے کفر وضلالت کے بڑے بڑے بتکدوں میں زلزلہ بپا کردیا اور شرک وبدعات کے خود تراشیدہ بتوں کو پاش پاش کر کے توحیدِ خالص کی اساس قائم کی یہ شاہ ولی اللہ دہلوی کے پوتے شاہ اسماعیل شہید تھے ۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور محمد بن عبدالوہاب کے بعد دعوت واصلاح میں امت کے لیے ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں انہو ں نے نہ صرف قلم سےجہاد کیا بلکہ عملی طور پر حضرت سید احمد شہید کی امارت میں تحریک مجاہدین میں شامل ہوکر سکھوں کے خلاف جہاد کرتے ہوئے 6 مئی 1831ء بالاکوٹ کے مقام پر شہادت کا درجہ حاصل کیا اور ہندوستان کے ناتواں اور محکوم مسلمانوں کے لیے حریت کی ایک عظیم مثال قائم کی جن کے بارے شاعر مشرق علامہ اقبال نے کہا &nb...
وہابی تحریک در اصل اس تحریک کا نام ہے جو شیخ محمد بن عبدالوہاب النجدی ؒ نے نجد میں چلائی ۔یہ ایک اصلاحی تحریک تھی جس کا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں میں جو غیر ضروری اوہام اور غیر شرعی اعمال و رسوم پیدا ہو گئے ہیں انہیں ختم کر کے دین کو اپنی قدیم سادگی پر واپس لایا جائے اور دین پر مر مٹنے کی جو تمنا صحابہ کرام میں موجود تھی اسے پھر سے زندہ کر دیا جائے۔ظاہر ہے کہ اس مقصد کے حصول میں وہابیوں کو مختلف طاقتوں سے ٹکرانا پڑا اور وہ ٹکرائے۔ہندوستان کی وہابی تحریک کا اس سے حقیقتاً کوئی تعلق نہ تھا۔مگر چونکہ یہ لوگ بھی دینی جذبات سے لبریز تھے ،ان میں بھی روح جہاد کار فرماتھی اوریہ بھی دین کو عہد اول کی سادگی پر واپس لانا چاہتے تھے اس لیے یہ لوگ بھی وہابی مشہور ہو گئے یا دوسروں نے ان کی تحریک کو وہابی تحریک مشہور کر دیا۔زیر نظر کتاب میں اس تحریک کی مفصل تاریخ مستند حوالہ جات کی روشنی میں بیان کی گئی ہے ،جس سے اس کے تمام گوشے نکھر کر سامنے آ جاتے ہیں اور تمام شکو ک و شبہات کا ازالہ ہو جاتا ہے ۔
مسلمانوں میں دینی تعلیم کے اہتمام کا سلسلہ عہد نبوی ہی میں شروع ہوچکا تھا۔ دارارقم ،درس گاہ مسجد قبا ، مسجد نبوی اور اصحاب صفہ کے چبوترہ میں تعلیم وتربیت کی مصروفیات اس کے واضح ثبوت ہیں۔ چوتھی وپانچویں صدی ہجری کی معروف دینی درس گاہوں میں مصر کا جامعہ ازہر ، اصفہان کا مدرسہ ابوبکر الاصفہانی ، نیشاپور کا مدرسہ ابو الاسحاق الاسفرائینی اور بغداد کا مدرسہ نظامیہ شامل ہیں۔غرضیکہ مدارس کی تاریخ وتاسیس کی کڑی عہد رسالت سے جاکر ملتی ہے اور مدارس میں پڑھائی جانے والی کتب حدیث کی سند کا سلسلہ حضور اکرم ﷺ تک پہنچتا ہے۔ برصغیر میں مدارس کا قیام دوسری صدی ہجری یعنی آٹھویں صدی عیسوی میں ہوا۔اور جب دہلی میں مسلم حکومت قائم ہوئی تو دہلی کے علاوہ دوسرے شہروں وقصبوں ودیہاتوں میں کثیر تعداد میں مکاتب ومدارس قائم ہوئے۔ مدارس کے قیام کا بنیادی مقصد کتاب وسنت اور ان سے ماخوذ علوم وفنون کی تعلیم وتعلم ، توضیح وتشریح ، تعمیل واتباع ، تبلیغ ودعوت کے ساتھ ایسے رجال کار پیدا کرنا ہے جو اس تسلسل کو قائم وجاری رکھ سکیں ، نیز انسانوں کی دنیاوی زندگی کی رہنمائی کے ساتھ ایسی کوشش کرنا ہے...
ہندوستان کی فضا میں رشد وہدیٰ کی روشنیاں بکھیرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل خاص سے ایک ایسی شخصیت کو پید ا فرمایا جس نے اپنی قوت ایمان اور علم وتقریر کے زور سے کفر وضلالت کے بڑے بڑے بتکدوں میں زلزلہ بپا کردیا اور شرک وبدعات کے خود تراشیدہ بتوں کو پاش پاش کر کے توحیدِ خالص کی اساس قائم کی یہ شاہ ولی اللہ دہلوی کے پوتے شاہ اسماعیل شہید تھے ۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور محمد بن عبدالوہاب کے بعد دعوت واصلاح میں امت کے لیے ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں انہو ں نے نہ صرف قلم سےجہاد کیا بلکہ عملی طور پر حضرت سید احمد شہید کی امارت میں تحریک مجاہدین میں شامل ہوکر سکھوں کے خلاف جہاد کرتے ہوئے 6 مئی 1831ء بالاکوٹ کے مقام پر شہادت کا درجہ حاصل کیا اور ہندوستان کے ناتواں اور محکوم مسلمانوں کے لیے حریت کی ایک عظیم مثال قائم کی جن کے بارے شاعر مشرق علامہ اقبال نے کہا کہ ’’اگر مولانا محمد اسماعیل شہید کےبعد ان کے مرتبہ کاایک مولوی بھی پیدا ہوجاتا تو آج ہندوستان کے مسلمان ایسی ذلت کی زندگی نہ گزارتے۔ سید محمد اسماعیل شہید اور ان کےبےمثل پیرو ومرشد سید احمد شہ...