اسلام نے ہمیں زندگی کے تمام شعبوں کے بارے میں راہنمائی فراہم کی ہے۔عبادات ہوں یا معاملات،تجارت ہو یا سیاست،عدالت ہو یا قیادت ،اسلام نے ان تمام امور کے بارے میں مکمل تعلیمات فراہم کی ہیں۔اسلام کی یہی عالمگیریت اور روشن تعلیمات ہیں کہ جن کے سبب اسلام دنیا میں اس تیزی سے پھیلا کہ دنیا کی دوسرا کوئی بھی مذہب اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا ہے۔اسلامی تعلیمات نہ صرف آخرت کی میں چین وسکون کی راہیں کھولتی ہیں ،بلکہ اس دنیوی زندگی میں اطمینان ،سکون اور ترقی کی ضامن ہیں۔اسلام کی اس بے پناہ مقبولیت کا ایک سبب مساوات ہے ،جس سے صدیوں سے درماندہ لوگوں کو نئی زندگی ملی اور وہ مظلوم طبقہ جو ظالموں کے رحم وکرم پر تھا اسے اسلام کے دامن محبت میں پناہ ملی۔ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات اور دستور زندگی ہے۔اسلامی نظامِ حیات میں جہاں عبادت کی اہمیت ہے وہیں معاملات ومعاشرت اور اخلاقیات کو بھی اولین درجہ حاصل ہے،اسلام کاجس طرح اپنانظامِ معیشت ہے اوراپنے اقتصادی اصول ہیں اسی طرح اسلام کا اپنانظامِ سیاست وحکومت ہے،اسلام کا نظامِ سیاست وحکم رانی موجودہ جمہوری نظام سے مختلف اوراس کے نقائص ومفاس...
مولانا ابو الکلام آزاد جہاں تقریر و خطابت کے میدان میں نمایاں مقام رکھتے ہیں وہیں ایک عالی مرتبت عالم دین کی ہستی بھی ان کے اندر موجود ہے۔ جس کا حقیقی اندازہ مولانا کی زیر نظر کتاب ’مسئلہ خلافت‘ کے مطالعے سے ہوگا۔ خلافت کے موضوع پر متعدد کتب سامنے آ چکی ہیں لیکن مولانا نے اس کتاب میں جس طرح موضوع بحث کو سمیٹا ہے یہ انہی کا خاصہ ہے۔ انہوں نے خلافت سے متعلقہ حارث اشعری کی حدیث کی تشریح کرتے ہوئے امامت و خلافت کی شرائط بیان کی ہیں اور اس پر نصوص سنت اور اجماع اشمت سے دلائل ثبت کئے ہیں۔ حکمران کے خلاف کے خروج کے تناظر میں واقعہ امام حسین پر روشنی ڈالتے ہوئے بحث کو مسلمانان ہند خلافت سلاطین عثمانیہ تک لے آئے ہیں۔ علاوہ ازیں جزیرہ عرب کی تحدید، ترک موالات اور مسلمانان ہند اور نظم جماعت جیسے موضوعات بھی کتاب کی زینت ہیں۔
رعایا کے حکمرانوں پر حقوق یہ ہیں کہ وہ اس امانت کو قائم رکھیں جو اللہ تعالیٰ نے اُن کے ذمے رکھی ہے ۔ وہ رعیت کی خیر خواہی کے کام سرانجام دینا لازم سمجھیں اور ایسی متوازن راہ پر چلیں جو دُنوی اور اُخروی مصلحتوں کی کفیل ہو۔ اور حکمرانوں کے رعایا پر حقوق یہ ہیں کہ وہ حکمرانوں کی بھلائی اور خیر خواہی کے جذبے سے صحیح مشورے دیں ۔ زیر نظر کتاب ’’ مسلم حکّام کی اطاعت کا وجوب‘‘ فضیلۃ الشیخ ابو عبدالرحمٰن فوزی الاثری حفظہ اللہ کی تصنیف الورد المقطوف في وجوب طاعة ولاة أمر المسلمين بالمعروف کا اردو ترجمہ ہے ۔ فاضل مصنف نے اس کتاب میں کتاب و سنت اور فقہائے امت کے فرامین کی روشنی میں اصلاحی و فلاحی معاملات مسلم عوام الناس پر مسلم حکام کی اطاعت مسئلے کو بیان کیا ہے ۔ (م۔ا)
اسلام ایک کامل دین اورمکمل دستور حیات ہے، جوزندگی کے تمام شعبوں میں انسانیت کی راہ نمائی کرتا ہے، اسلام جہاں انفرادی زندگی میں فردکی اصلاح پر زوردیتاہے وہیں اجتماعی زندگی کے زرین اصول وضع کرتاہے،اسلامی نظامِ حیات میں جہاں عبادت کی اہمیت ہے وہیں معاملات ومعاشرت اور اخلاقیات کو بھی اولین درجہ حاصل ہے،اسلام کاجس طرح اپنانظامِ معیشت ہے اوراپنے اقتصادی اصول ہیں اسی طرح اسلام کا اپنانظامِ سیاست وحکومت ہے،اسلام کا نظامِ سیاست وحکم رانی موجودہ جمہوری نظام سے مختلف اوراس کے نقائص ومفاسد سے بالکلیہ پاک ہے،لیکن اسلام میں سیاست شجرِ ممنوعہ نہیں ہے،یہ ایسا کامل ضابطہٴ حیات ہے جو نہ صرف انسان کو معیشت ومعاشرت کے اصول وآداب سے آگاہ کرتا ہے، بلکہ زمین کے کسی حصہ میں اگراس کے پیرو کاروں کواقتدار حاصل ہو جائے تووہ انہیں شفاف حکم رانی کے گربھی سکھاتاہے، عیسائیت کی طرح اسلام”کلیسا“ اور” ریاست“ کی تفریق کاکوئی تصورپیش نہیں کرتا،بقول ڈاکٹرمحمود احمدغازی کے:”اسلامی نظام میں ریاست اور دین مذہب اور سلطنت دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں، دونوں ایک دوسرے کی ت...
کسی بھی مضبوط جمہوری نظام میں بلدیاتی اداروں کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔ قیام پاکستان کے بعد 1959ء میں پہلی بار جنرل ایوب خان کے دور میں بلدیاتی جمہوریتوں کا نظام متعارف کرایا گیا۔ جسے بعدازاں 1962 ء کے دستور میں شامل کیا گیا۔ بنیادی جمہوریتوں کے اس نظام پر دس ہزار کی آباد ی پر مشتمل یونین کونسل سب سے نچلے درجے کی مقامی کونسل تھی۔ یونین کونسل کے ارکان میں دس منتخب اور 5 نامزد ہوتے تھے جنہیں بی ڈی ممبر کہا جاتا تھا۔ یونین کونسل کا سربراہ چیئرمین کہلاتا تھا۔ یونین کونسل کے دائرہ کار میں مقامی سطح پر امن و امان کے قیام اور زراعت کی ترقی میں کردار ادا کرنا اور مقامی آبادی کے مختلف مسائل حل کرنا تھے ۔ مقامی منصوبوں کیلئے یونین کونسل ٹیکس عائد کرنے کی مجاز ہوتی تھی ۔ صدر پاکستان کے انتخابات کیلئے یہی ارکان ووٹ ڈالتے تھے ۔ اسی طرح تحصیل کونسل اور ضلع کونسل کے ادارے اپنے اپنے دائرہ کار میں ڈپٹی کمشنر کی نگرانی میں کام کرتےتھے۔ 1969ء میں ایوب خان کی حکومت کی رخصتی کے ساتھ یہ نظام بھی رخصت ہو گیا۔ دوسری بار لوکل گورنمنٹ سسٹم جنرل ضیاء الحق نے 1979ء میں نافذ کیا جس کے مطابق شہری اور دیہی دو طرح کے ا...
مسلمانوں کا نظم مملکت تاریخ کا ایک نہایت اہم موضوع ہے اسلام ایک کامل دین اور مکمل دستورِ حیات ہے اسلام نےجہاں انفرادی زندگی میں فردکی اصلاح پر زور دیا ہے وہیں اجتماعی زندگی کے زرین اصول وضع کیے ہیں جوزندگی کے تمام شعبوں میں انسانیت کی راہ نمائی کرتے ہیں اسلام کا نظامِ سیاست وحکمرانی موجودہ جمہوری نظام سے مختلف اوراس کے نقائص ومفاسد سے بالکلیہ پاک ہے اسلامی نظامِ حیات میں جہاں عبادت کی اہمیت ہے وہیں معاملات ومعاشرت اور اخلاقیات کو بھی اولین درجہ حاصل ہے، اسلام کا جس طرح اپنا نظامِ معیشت ہے اور اپنے اقتصادی اصول ہیں اسی طرح اسلام کا اپنا نظامِ سیاست وحکومت ہےاسلامی نظام میں ریاست اور دین مذہب اور سلطنت دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں، دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں دونوں ایک دوسرے کے مددگار ہیں، دونوں کے تقاضے ایک دوسرے سے پورے ہوتے ہیں، چنانچہ ماوردی کہتے ہیں کہ جب دین کمزور پڑتا ہے تو حکومت بھی کمزور پڑ جاتی ہے اورجب دین کی پشت پناہ حکومت ختم ہوتی ہے تو دین بھی کمزور پڑ جاتا ہے، اس کے نشانات مٹنے لگتے ہیں۔ اسلامی فکر م...
دین اسلام مذہب اور سیاست کے درمیان علیحدگی کو تسلیم نہیں کرتا ہے۔اسلام اللہ تعالی کی جانب سے انسانوں کے تمام مادی اورروحانی معاملات میں رہنمائی کے لئے آیا ہے۔ نبی کریم ﷺنے یہی کام اپنی مبارک زندگی میں عملی طور پر کر کے دکھایا ہے۔ اسلام میں یہ عقیدہ اور تصور باہر سے آیا ہے کہ دین کی روحانی اور معنوی تعلیمات پر ایک علیحدہ طبقہ عمل کرے گا اور سیاست، نظامِ حکومت اور معاشرے کے معاملات دوسرا طبقہ سنبھالے گا۔ اسی لیے تو آپﷺاور ان کے بعد خلفائے راشدین مسلمانوں کی حکومت اور نظام کے رہنما بھی تھے اور ان کے دینی رہنماء اور امام مسجد بھی۔ تاریخِ اسلام میں جب بھی معاشرے کو سیاسی اعتبار سے مسجد اور محراب سے قیادت اور رہنمائی ملی ہے،مسلمان قوت، سر بلندی اور فتوحات حاصل کرتے رہے۔ اس کے برعکس جب بھی مسلمانوں کی سیاسی قیادت قوم پرستوں نے کی تو مسلمان ذلت اور آپسی جنگوں کا شکار ہو کر حکومت اور نظام گنوا بیٹھے۔ مذہب اور سیاست کے درمیان علیحدگی کے نظریہ کومغربی اصطلاح میں سیکولرازم بھی کہا جاتا ہے، جو کلیسا کے منحرف دین کے خلاف یورپ کی الحادی بغاو...
سیرت سرور کائنات وہ سدا بہار،پاکیزہ ،ہر دلعزیز موضوع ہے جسے شاعر اسلام سیدنا حسان بن ثابت سے لے کر آج تک پوری اسلامی تاریخ میں آپ ﷺ کی سیرت طیبہ کے جملہ گوشوں پر مسلسل کہااور لکھا گیا ہے او رمستقبل میں لکھا جاتا رہے گااس کے باوجود یہ موضوع اتنا وسیع اور طویل ہے کہ اس پر مزید لکھنے کاتقاضا اور داعیہ موجود رہے گا۔انبیاء کرام اور نبی کریم ﷺ کی بعثت کا اولین مقصد لوگوں کو عقیدہ توحید کی دعوت اور ان کاتزکیہ کرنا او رلوگوں کو احکام الٰہی کی تعلیم دینا ہے اور پھر اسلامی حکومت قائم کرکے حدود اللہ کانفاذ او ردین الہی کو غالب کرنا ہے ۔ زیر نظر کتاب '' مصطفویﷺ مدنی عالمی ریاست'' میں فاضل مصنف جناب فارروق احمد صاحب نے سیرت نبویﷺ کے مختلف گوشوں میں سے نبی کریم ﷺ کے فریضہ اقامت دین اور اسلامی حکومت کے قیام اور اس کو وسعت دنیے کے لیے نبیﷺ او رآپ کےجانثار صحابہ کرام کی جدوجہد او رکوششوں کو تفصیل سے بیان کرتے ہوئے آخر ی باب میں کیا دور حاضر میں اسلامی ریاست کا قیام ممکن ہے کے موضوع پر بحث کی ہے فاضل مصنف کا اسلوب سادہ،سلیس،عام فہم ،دل نشیں اور دلوں کوگر...
مذہب سے اظہاربیزاری کرکےاپنی عقل کی بنیادپرجو سیاسی نظام انسان نے وضع کیاہےاس دورجدیدمیں اسے جمہوریت کہتےہیں ۔ جمہوریت کو اساس اہل یورپ نےفراہم کی ۔پھربعد میں مسلمانوں نے اسےاپنایا۔مسلمانوں جب اسے اپنایاتو اس میں بنیادی طور پر تین طرح کی آراتھیں ۔پہلی یہ کہ اسے مکمل رد کردیاجائےدوسری یہ تھی کہ اسےمکمل قبول کرلیاجائے جبکہ بعض کےہاں اسے قبول توکیا جائے لیکن ترمیم و اضافےکےساتھ ۔زیرنظرکتاب اولیں نقطہ کی حامل ہے جس میں مصنف نے عقلی ،فطری ،اخلاقی اور شرعی بنیادوں پر اس کاکھوکلا پن ثابت کرکےدکھادیاہے۔موصوف کاکہناہےکہ گزشتہ دوصدیوں سے دنیاجمہوریت کاتجربہ کررہی ہے ۔جس میں اسے مسلسل ناکامی کا سامناکرناپڑرہاہے۔اور آئندہ بھی اس کی کامیابی کوئی امکانات نظر نہیں آرہےسو بہتر یہی ہےکہ اسلام کا دیاہوانظام خلافت جوکہ ایک فطر ی نظام ہےمسلمانوں کو چاہیےکہ اسے اپنائیں۔کیونکہ اس میں ہی ان کی کامیابی کاراز ہے۔اس کےعلاوہ یہ ہےکہ دنیاکی دیگر اقوام کو اگرظاہر ی طورپر کچھ کامیابی مل بھی جاتی ہےاس سے یہ دوکھانہیں کھاناچاہیےکہ مسلمانوں کو بھی اس سے کامیابی ممکن ہوکیونکہ اس امت کی اساس ہی دیگرہے۔(ع۔ح)
نبی کریمﷺکی عزت، عفت، عظمت اور حرمت اہل ایمان کاجزوِلاینفک ہے اور حب ِرسولﷺایمانیات میں سے ہے اور آپ کی شانِ مبارک پر حملہ اسلام پر حملہ ہے۔عصر حاضر میں کفار ومشرکین کی جانب سے نبوت ورسالت پر جو رکیک اور ناروا حملے کئےجارہے ہیں، دراصل یہ ان کی شکست خوردگی اور تباہی و بربادی کے ایام ہیں۔گستاخ رسول کی سزا ئے موت ایک ایسا بین امر ہے کہ جس کے ثبوت کے لئے قرآن و حدیث میں بے شمار دلائل موجود ہیں۔ نبی کریم ﷺ کی عظمت و توقیر مسلمان کے ایمان کا بنیادی جزو ہے اور علمائے اسلام دور صحابہ سے لے کر آج تک اس بات پر متفق رہے ہیں کہ آپ ﷺ کی شان اقدس میں گستاخی کرنیوالا آخرت میں سخت عذاب کا سامنا کرنے کے علاوہ اس دنیا میں بھی گردن زدنی ہے۔ خود نبی رحمت ﷺ نے اپنے اور اسلام کے بے شمار دشمنوں کو (خصوصا فتح مکہ کے موقع پر)معاف فرمادینے کیساتھ ساتھ ان چند بدبختوں کے بارے میں جو نظم و نثر میں آپ ﷺ کی ہجو اور گستاخی کیا کرتے تھے، فرمایا تھا کہ:اگر وہ کعبہ کے پردوں سے چمٹے ہوئے بھی ملیں تو انہیں واصل جہنم کیا جائے۔اور گستاخ رسول کو قتل کرنے والے کو شرعا کوئی سزا نہی...
وائل حلاق کینیڈا سے تعلق رکھنے والے مسیحی فلسطینی محقق ہیں قانون اور اسلامی فکر کی تاریخ میں مہارت رکھتے ہیں ، اور وہ کولمبیا یونیورسٹی میں شعبہ مڈل ایسٹرین اسٹڈیز کے پروفیسر کی حیثیت سے کام کرتے ہیں۔ واشنگٹن یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کرنے کے بعد ’’میک گل یونیورسٹی‘‘ میں انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز میں شامل ہوئے اور 1985 میں اس یونیورسٹی میں اسلامی قانون کے اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت سے کام کیا۔ وائل حلاق کا اسلامی علوم کے میدان میں بہت حصہ ہے۔ ان کی تخلیقات کا متعدد زبانوں میں ترجمہ کیا گیا ہے ، جن میں عبرانی ، انڈونیشی ، اطالوی ، جاپانی اور ترکی شامل ہیں۔ 2009 میں ، وائل حلاق کو دنیا کی 500 بااثر شخصیات میں شامل کیا گیا تھا۔ زیر نظر کتاب ’’ ناممکن ریاست ‘‘وائل حلاق کی معروف کتاب الدولة المستحيلة: الإسلام والسياسة ومأزق الحداثة الأخلاقي. کا اردوترجمہ ہے۔ اصل کتاب انگریزی میں ہےل...
کسی بھی قوم کی نشوونما اور تعمیر وترقی کےلیے عدل وانصاف ایک بنیادی ضرورت ہے۔ جس سے مظلوم کی نصرت ،ظالم کا قلع قمع اور جھگڑوں کا فیصلہ کیا جاتا ہے اورحقوق کو ان کےمستحقین تک پہنچایا جاتاہے اور دنگا فساد کرنے والوں کو سزائیں دی جاتی ہیں۔ تاکہ معاشرے کے ہرفرد کی جان ومال ،عزت وحرمت اور مال واولاد کی حفاظت کی جا سکے ۔ یہی وجہ ہے اسلام نے ’’قضا‘‘یعنی قیام عدل کاانتہا درجہ اہتمام کیا ہے۔ اور اسے انبیاء کی سنت بتایا ہے۔ اور نبی کریم ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے لوگوں میں فیصلہ کرنے کا حکم دیتےہوئے فرمایا:’’اے نبی کریم ! آپ لوگوں کے درمیان اللہ کی نازل کردہ ہدایت کے مطابق فیصلہ کریں۔‘‘نبی کریمﷺ کی حیات مبارکہ مسلمانوں کے لیے دین ودنیا کے تمام امور میں مرجع کی حیثیت رکھتی ہے ۔ آپ کی تنہا ذات میں حاکم،قائد،مربی، مرشد اور منصف اعلیٰ کی تمام خصوصیات جمع تھیں۔جو لوگ آپ کے فیصلے پر راضی نہیں ہوئے ا ن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں سنگین وعید نازل فرمائی اور اپنی ذات کی قسم کھا کر کہا کہ آپ کے فیصلے تسلیم نہ کرنے والوں ک...
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہونے کی وجہ سے زندگی کے ہر شعبہ میں اصول فراہم کرتا ہے ، جاسوسی کے موضوع پر بھی اسلام نے راہنمائی فرمائی ہے۔ عام طور پر ہر چیز کے جواز عدمِ جواز کے حوالے سے دو جہت ،دو پہلو ہوتے ہیں چنانچہ جاسوسی کے بھی دو پہلو ہیں ایک جائز او ردوسرا ناجائز۔جائز پہلو یہ ہے کہ اسلامی ملک کونقصان دینے اور اس کو کمزور کرنے والے شرپسند عناصر کا کھوج لگانا اور ان کے منصوبوں کوناکارہ کرنا او ران کے غلط عزائم سے حکام کو اطلاع دینا یہ جائز ہے اور ناجائز پہلو یہ کہ مسلمانوں کی نجی زندگی میں کھوج لگانا اور ان کے بھید معلوم کرنا اس پہلو کوشریعت مطہرہ نے گناہ کبیرہ میں شمار کیا ہے ۔زیر نظر ''کتاب نظام جاسوسی ایک جائزہ اور اس کا شرعی حکم '' جاسوسی کے موضوع پر ایک اچھی کاوش ہے فاضل مصنف نے اس میں سب سے پہلے جاسوس کی لغوی واصطلاحی تحقیق اور جاسوسی کی تاریخ ،جاسوسی اصطلاحات اور پھر دورِ حاضر کی بین الاقوامی انٹیلی جنس ایجنسیوں کامختصراً تذکرہ کرنے کے بعد آخر میں جاسوسی کےحوالے سے شرعی نقطہ نظر کی وضاحت کی ہے اللہ تعالی مؤلف کی اس کاوش کو شرف قبولی...
جس طرح اسلام عقائد وایمانیات اورعبادات یعنی اللہ تعالیٰ اوراس کے بندوں کے درمیان تعلقات کا نظام پیش کرتاہے اسی طرح دنیاوی معاملات یعنی بندوں کے باہمی تعلقات کا نظام بھی عطا کرتا ہے ۔انسانی معاملات وتعلقات اگرچہ باہم مربوط متحد ہیں تاہم تفہیم وتسہیل کے لیے ان کو سیاسی،سماجی ،اقتصادی اورتہذیبی نظاموں کے الگ الگ خانوں میں تقسیم کیا جاتا ہے ۔ان میں سے بشمول نظامِ حکومت اور ہر ایک نظام کے لیے اسلام نے تمام ضروری اور محکم اُصول بیان کردیئے ہیں۔اُسوۂ نبوی نے ان کی عملی فروعات بھی تشکیل دے دی ہیں او ر صحابہ کرام اور خلفاء عظام اور ان کے بعد اہل علم نے ان پرعمل کر کے بھی دکھایا ہے ۔عہد نبوی کا نظام حکمرانی یا اسلامی نظام ِحکومت کے متعلق متعدد کتب موجود ہیں۔ زیر نظر کتاب ’’ نظامِ حکومت نبویہ ‘‘ علامہ عبد الحی الکتانی کی عہد نبوی کے نظام ِحکمرانی کے متعلق م...
طاغوت، عربی زبان کا لفظ ہے۔ جس کے متعد د معانی ہیں ۔قرآن کریم میں یہ لفظ 8 مرتبہ استعمال ہوا ہے۔ اسلامی اصطلاح میں اس سلسلے میں مزید وسعت ہے۔ طاغوت سے مراد وہ حاکم ہے جو قانون الٰہی کے علاوہ کسی دوسرے قانون کے مطابق فیصلہ کرتا ہے ۔ قرآن مجید میں ایک آیت کے حوالے سے ہے کہ جو عدالت طاغوت کی حیثیت رکھتی ہے، اس کے پاس اپنے معاملات فیصلہ کے لیے، لے کر جانا ایمان کے منافی ہے۔ زیر نظر رسالہ ’’ نظام طاغوت سے برأت‘‘ مولانا صدر الدین اصلاحی کے ماہنامہ ’زندگی‘ رام پور ہندوستان نومبر ودسمبر1952ء میں شائع ہونے والے مضمون کی کتابی صورت ہے ۔اس میں طاغوت کی حیثیت مثالوں کے ذریعے بیان کی گئی ہے اور دستور سازی وقانون سازی کی کیا حیثیت ہے؟نظام طاغوت کی خاص ملازمتیں جن سے نظام کو تقویت ملتی ہے ان کی کیا حیثیت ہے؟اور اس نظا م میں عام ملازمتوں کی حیثیت کیسی ہے، کس کو اس نظام میں شامل ہوکر رخصتِ شرعی مل سکتی ہے اور اس کی کیا واقعی صورتیں ہیں ۔(م ۔ا)
پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا ،لیکن افسوس کہ آج تک کسی بھی حکومت نے پاکستان میں اسلام نافذ کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔نظریہ پاکستان کے بارے میں واضح رہنا چاہئے کہ قرار داد مقاصد 1949ء اور 1973ء کے متفقہ آئین میں واضح طورپر یہ قرار دیا جاچکا ہے کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے اور یہاں کتاب وسنّت کو فروغ دیا جائے گا۔ اس دستور کو عوام پاکستان کے منتخب نمائندے منظور کرچکے ہیں، عدالتیں اس کی بناپر فیصلہ کرتی ہیں اور یہ جمہوری اساسات پر ایک مسلمہ بن چکا ہے کہ پاکستان میں اسلام نظام کو قائم کیا جائے گا۔ایک اسلامی ریاست کا قیام ہندوستان کے مسلمانوں کا صدیوں پرانا خواب تھا۔جس کے شواہد مغلیہ خاندان کے زوال کے بعد ہماری پوری تاریخ میں پھیلے ہوئے ہیں۔اسی نفسیات اورمسلمانوں کے دیرینہ خواب کو سمجھتے ہوئے قائداعظم نے علی گڑھ یونیورسٹی کے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان تو اسی روزمعرضِ وجود میں آگیا جس روز ہندوستان کی سرزمین پرپہلے مسلمان نے قدم رکھا۔ پھر کہا کہ اس میں میرا کوئی کمال نہیں، میں نے فقط یہ کیاکہ جو بات آپ کے دلوں اور ذہنوں میں تھی، اسے طشت ا...
کسی بھی نظام کو نافذ کرنے کے دو ہی طریقے ہیں۔انقلابی یا ارتقائی۔اگر کسی نظام کو انقلابی طریقوں سے نافذ کیا جائے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کے اثرات کا ظہور فورا قبول کر لیا جاتا ہے اور بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ معاشرے نے اس نظام کو پوری طرح قبول کر لیا ہے۔حالانکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا ہے ، کیونکہ ہر وہ نظام جو معاشرے پر زبر دستی ٹھونسا جائے ، اس کے مخالفانہ جذبات وقتی طور پر دبے رہتے ہیں اور جوں ہی کوئی موقع ملتا ہے وہ پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ نمودار ہو جاتے ہیں۔اس کے برعکس ارتقائی طریقہ ذرا سست رفتار ہوتا ہے ، اس کے اثرات کا ظہور فوری طور پر نہیں ہوتا ہے۔لیکن اس طریقے میں نظام کی اقدار معاشرے کے باطن میں رس رس کر پیوست ہو جاتی ہیں، اور انسانی ضمیر کی تہہ میں بیٹھ جاتی ہیں پھر انہیں نکالنا کسی طرح بھی ممکن نہیں رہتا ہے۔نظام اسلام کا طریقہ ابتدائے اسلام میں ارتقائی ہی رہا اور یہ بہت مفید اور موثر ثابت ہوا۔یہی وجہ ہے کہ نبی کریم ﷺ یہ شدید خواہش رکھتے تھے کہ تمام لوگ اسلام قبول کر لیں ، لیکن آپ ﷺ نے کسی پر جبر نہیں کیا اورقرآن مجید نے تو صریح ال...
پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا ،لیکن افسوس کہ آج تک کسی بھی حکومت نے پاکستان میں اسلام نافذ کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔نظریہ پاکستان کے بارے میں واضح رہنا چاہئے کہ قرار داد مقاصد 1949ء اور 1973ء کے متفقہ آئین میں واضح طورپر یہ قرار دیا جاچکا ہے کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے اور یہاں کتاب وسنّت کو فروغ دیا جائے گا۔ اس دستور کو عوام پاکستان کے منتخب نمائندے منظور کرچکے ہیں، عدالتیں اس کی بناپر فیصلہ کرتی ہیں اور یہ جمہوری اساسات پر ایک مسلمہ بن چکا ہے کہ پاکستان میں اسلام نظام کو قائم کیا جائے گا۔ایک اسلامی ریاست کا قیام ہندوستان کے مسلمانوں کا صدیوں پرانا خواب تھا۔جس کے شواہد مغلیہ خاندان کے زوال کے بعد ہماری پوری تاریخ میں پھیلے ہوئے ہیں۔اسی نفسیات اورمسلمانوں کے دیرینہ خواب کو سمجھتے ہوئے قائداعظم نے علی گڑھ یونیورسٹی کے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان تو اسی روزمعرضِ وجود میں آگیا جس روز ہندوستان کی سرزمین پرپہلے مسلمان نے قدم رکھا۔ پھر کہا کہ اس میں میرا کوئی کمال نہیں، میں نے فقط یہ کیاکہ جو بات آپ کے دلوں اور ذہنوں میں تھی، اسے طشت ا...
ادارہ تحقیقات اسلامی نے اسلام آباد انٹرنیشنل یونیورسٹی میں ایک سہ روزہ پروگرام کاانعقاد کیا۔ جس کا موضوع ’اجتماعی اجتہاد، تصور، ارتقاء اور عملی صورتیں‘ تجویز ہوا۔ اس سیمینار میں حافظ حافظ عبدالرحمٰن مدنی حفظہ اللہ نے ’پارلیمنٹ اور تعبیر شریعت‘ کے نام سے مقالہ پیش کیا۔ یہی مقالہ اس وقت کتابی صورت میں آپ کے سامنے ہے۔ جس میں حافظ صاحب نے نفاذ شریعت سے متعلق امت کے چار مشہور نظریات پر تبصرہ کیا ہے۔ سب پہلے علامہ اقبال کے نظریہ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس حوالہ سے دوسرے نظریہ کے طور پر انہوں نے انقلاب ایران اور طالبانی طرز فکر کو لیا ہے۔ تیسرا نظریہ پاکستان کے آزاد خیال اہل علم اور دینی سیاسی جماعتوں کا ہے، اس پر بھی حافظ صاحب نے سیر حاصل اور مدلل بحث پیش کی ہے۔ چوتھا اور آخری نظریہ وہ ہے جو عالم اسلام کے بعض ممالک میں شریعت کی عمل دار ی کی حد تک عرصہ سے رائج ہے۔ تعبیر شریعت کے حوالے سے یہ کتابچہ ایک علمی دستاویز ہے۔ (ع۔م)
زیر نظر کتاب ''پاکستان میں انٹیلی جنس ایجنسوں کا سیاسی کردار''اپنی نوعیت کی پہلی اور اہم کتاب ہے جس میں پاکستان کے معروف صحافی منیر احمد نے خفیہ سروس کے ادارے کی خامیوں اور خوبیوں کو لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہوئے ایسے حکمرانوں کا تذکرہ کیا ہے جنہوں نے خفیہ اداروں کا غلط استعمال کیا- کتاب میں ایسے خفیہ ہاتھوں کو بھی بے نقاب کیا گیا ہے جن کے ہاتھوں میں ہمارے سیاستدان کٹھ پتلیاں بنے ہوئے ہیں-اس کے علاوہ آپ کو اس کتاب میں بھٹو نے خفیہ اداروں کو سیاسی مقاصد کے لیے کس طرح استعمال کیا اور قائد اعظم سے آج تک خفیہ ادارے کس حد تک ملک کے سیاہ وسفید کے مالک رہے، کا تفصیلی جائزہ پیش کیا گیا ہے- کتاب کے مطالعے سے آپ کو قدم قدم پر ایسے حیرت انگیز اور چشم کشا انکشافات ملیں گے جن سے آپ کبھی بھی واقف نہ تھے-
جمہوریت ایک سیاسی نظام ہے یعنی عوام کی اکثریت کی رائے سے حکومت کا بننا اور اس کا بگڑنا۔ اس نظام میں انفرادی آزادی اور شخصی مساوات کے تصورات کو جو اہمیت دی گئی ہے اس کی وجہ سے عہد حاضر میں اس کی طرف لوگوں کا میلان زیادہ ہے۔اگرچہ بہت سے مسلم دانشور اس طرزِ حکومت کے حامی ہیں۔لیکن ہر دور میں اصحابِ علم کی ایک بڑی تعداد نے جن میں مسلمان بھی شامل ہیں، جمہوریت کو ناپسند کیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اس میں عوام کی حاکمیت اور مطلق آزادی کا تصور غیر عقلی اور باعثِ فساد ہے۔پاکستان میں جمہوری نظام کے قیام کی خواہش کا فی مستحکم نظر آتی ہے لیکن سیاسی اور معاشرتی عمل میں اتنے تضادات موجود ہیں کہ جمہوریت میں ابھی تک تسلسل پیدا نہ ہوسکا اور نہ پائیداری۔جمہوریت کی خواہش اور کوشش کے باوجود جمہوریت کا پر وان نہ چڑھنا جمہوری عمل کے نازک اور مشکل ہونے کا ثبوت ہے ۔
زیر نظر کتاب ’’پاکستان میں جمہوریت کے تضادات‘‘ پاکستان کے معروف سیاسی تجزیہ نگار جناب سلمان عابد صاحب کی تصنیف ہے ۔ فاضل مصنف نے عام فہم اور مؤثر اندازمیں پاکستان میں جمہوریت کو درپیش مشکلات...
سیاسی جماعت اس تنظیم کو کہتے ہیں جو بعض اصولوں کےتحت منظّم کی جائے اور جس کا مطمح نظر آئینی اور دستوری ذریعوں سے حکومت حاصل کر کے ان اصولوں کو بروئے کار لانا ہو جن کی غرض سے اس جماعت کو منظّم کیا گیا ہو۔ پاکستان کی سب سے پہلی سیاسی جماعت مسلم لیگ تھی جس کے بانی قائد اعظم محمد علی جناح تھے۔اس کے بعد بے شمار جماعتیں وجود میں آتی گئیں۔پاکستان میں اس وقت بیسیوں سیاسی جماعتیں موجود ہیں ۔ پاکستان میں سب ہی سیاسی جماعتیں جمہوریت مضبوط کرنے کی دعویدار تو ہیں، تاہم ایک آدھ سیاسی جماعت کے علاوہ کوئی ایسی پارٹی نہیں جو اندرونی طور پر جمہوریت پر عمل پیرا ہو۔یہاں ہر سیاسی جماعت کو ایک دوسرے سے مِل کر کام کرنا پڑتا ہے ۔ اس وقت کوئی بھی سیاسی جماعت ایسی نہیں ہے جو اکیلے ہی حکومت سازی کر سکے بلکہ صرف مخلوط حکومت ہی ممکن ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’پاکستان میں سیاسی جماعتیں اور پریشر...
ارشاد ربانی کےمطابق دین اسلام ایک ایسا دین ہے کہ جو شخص بھی اسلام کے علاوہ کوئی اور دین تلاش کرتا ہے تو اس سے ہر گزقبول نہیں کیا جائے گا۔ او روہ آخرت میں خسارہ پانے والوں میں سے ہوگا۔اور نبی کریمﷺ کا فرمان ہے ’’قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس امت میں جو شخص بھی میری بابت سن لے کہ وہ یہودی ہویا عیسائی پھر وہ مجھ پر ایمان نہ لائے تو وہ جہنم میں جائے گا۔‘‘ اس اعتبار سے امت مسلمہ کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اسلا م کا پیغام ہر جگہ پہنچائیں اور کراہتی سسکتی انسانیت کو امن وسکون اور نجات سے ہمکنار کریں جیسے پیغمبر اسلام سید نا حضرت محمدﷺً اوران کے اولین پیروکاروں نے دنیا سے ظلم و ستم کا خاتمہ کر کے عدل وانصاف کا نظام قائم کیا، کفر وشرک کی تاریکیوں کو مٹاکر توحید و سنت کی شمعیں روشن کیں اور اخلاقی زوال کی اتھاہ گہرائیوں سے نکال کر انسانیت کوسیرت و کردار کی بلندیوں سے آشنا کیا۔ ٖآج انسانیت پھر سے ظلم وستم کا شکار ہے وہ دوبارہ کفر وشرک کی تاریکیوں میں گھری ہوئی اور اخلاقی پستی میں پھنسی ہوئی ہے۔ پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گی...
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات اور دستورِ زندگی ہے۔اسلام نے ہمیں زندگی کے تمام شعبوں کے بارے میں راہنمائی فراہم کی ہے۔عبادات ہوں یا معاملات،تجارت ہو یا سیاست،عدالت ہو یا قیادت ،اسلام نے ان تمام امور کے بارے میں مکمل تعلیمات فراہم کی ہیں۔اسلام کی یہی عالمگیریت اور روشن تعلیمات ہیں کہ جن کے سبب اسلام دنیا میں اس تیزی سے پھیلا کہ دنیا کی دوسرا کوئی بھی مذہب اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا ہے۔اسلامی تعلیمات نہ صرف آخرت میں چین وسکون کی راہیں کھولتی ہیں ،بلکہ اس دنیوی زندگی میں اطمینان ،سکون اور ترقی کی ضامن ہیں۔اسلام کی اس بے پناہ مقبولیت کا ایک سبب مساوات ہے ،جس سے صدیوں سے درماندہ لوگوں کو نئی زندگی ملی اور وہ مظلوم طبقہ جو ظالموں کے رحم وکرم پر تھا اسے اسلام کے دامن محبت میں پناہ ملی۔اسلام نے جہاں اعلی اخلاقیات کا حکم دیا ہے وہیں مجرموں اور قیدیوں کے حقوق بھی بیان کر دئیے ہیں تاکہ کسی کے ساتھ کوئی ظلم نہ ہو سکے۔ زیر نظر کتابچہ ’’ پاکستان کے جیل خانوں میں قیدیوں کے حقوق ومراعات ‘‘ ڈاکٹر عبد المجید اولکھ (پرنسپل(ر)جیل سٹاف...
سیاست اور عقیدہ یا سیاست اور اسلام دونوں الگ الگ نہیں ہیں بلکہ سیاست بھی اسلام اور عقیدہ کا حصہ ہے عقیدہ دراصل لفظ "عقد" سے ماخوذ ہے ، جس کے معنیٰ ہیں کسی چیز کو باندھنا یعنی عقیدہ سے مراد کسی چیز کو حق اور سچ جان کر دل میں مضبوط اور راسخ کر لینا ہےعقیدہ انسان کے کردار و اعمال کی تعمیر میں بنیادی اہمیت رکھتا ہے، کیونکہ انسان کے تمام اخلاق و اعمال کی بنیاد ارادے پر ہے، اور ارادے کا محرک دل ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ دل انہی چیزوں کا ارادہ کرتا ہے جو دل میں راسخ اور جمی ہوئی ہوں، اس لئے انسان کے اعمال و اخلاق کی درستگی کے لئے ضروری ہے کہ اس کے دل میں صحیح عقائد ہوں لہذا عقیدے کی اصلاح ضروری ہے۔سیاست Politics’’ساس‘&lsqu...