شیخ الاسلام والمسلمین امام ابن تیمیہ کی شخصیت محتاجِ تعارف نہیں۔ آپ ساتویں صدی ہجری کی عظیم شخصیت تھے،آپ بہ یک وقت مفکر بھی تھے اور مجاہد بھی ، آپ نے اپنے قلم سے باطل کی سرکوبی کی۔ اسی طرح اپنی تلوار کو بھی ان کے خلاف خو ب استعمال کیا ۔ اورباطل افکار وخیالات کے خلاف ہردم سرگرم عمل او رمستعدر رہے جن کے علمی کارہائے نمایاں کے اثرات آج بھی پوری آب وتاب سے موجود ہیں۔آپ نے اپنی پوری زندگی دین اسلام کی نشرواشاعت ،کتاب وسنت کی ترویج وترقی اور شرک وبدعت اور مذاہب باطلہ کی تردید وتوضیح میں بسر کردی ۔امام صاحب علوم اسلامیہ کا بحر ذخار تھے اور تمام علوم وفنون پر مکمل دسترس اور مجتہدانہ بصیرت رکھتے تھے۔آپ نے ہر علم کا مطالعہ کیا اور اسے قرآن وحدیث کے معیار پر جانچ کر اس کی قدر وقیمت کا صحیح تعین کیا۔آپ نے مختلف موضوعات پر 500 سے زائد کتابیں لکھیں۔فکر وعقیدہ کی گمراہیوں میں سے شرک اور بدعت دو بڑی گمراہیاں ہیں۔ امام ابن تیمیہ ؒ کی کتب میں ان دونوں گمراہیوں پر مفصل کلام موجود ہے۔آپ کی کتابوں میں سے ’’اقتضاء الصراط المستقیم فی مخالفۃ اصحاب لجحیم‘&...
برصغیر پاک و ہند میں علمائے اہل حدیث نے اسلام کی سربلندی ، اشاعت ، توحید و سنت نبوی ﷺ ، تفسیر قرآن کےلیے جو کارہائے نمایاں سرانجام دیئے ہیں وہ تاریخ میں سنہری حروف سے لکھے جائیں گے او رعلمائے اہلحدیث نے مسلک صحیحہ کی اشاعت و ترویج میں جو فارمولا پیش کیا اس سے کسی بھی پڑھے لکھے انسان نے انکار نہیں کیا ۔علمائے اہلحدیث نے اشاعت توحید و سنت نبویﷺ اور اس کے ساتھ ہی ساتھ شرک و بدعت کی تردید میں جو کام کیاہے اور جو خدمات سرانجام دی ہیں وہ ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔پنجاب میں تدریسی خدمت کے سلسلہ میں مولانا حافظ عبدالمنان صاحب محدث و زیر آبادی (م1334ھ) کی خدمات بھی سنہری حروف سے لکھنے کے قابل ہیں۔مولانا حافط عبدالمنان صاحب حضرت شیخ الکل کے ارشاد تلامذہ میں سے تھے اور فن حدیث میں اپنے تمام معاصر پر فائز تھے۔ آپ نے اپنی زندگی میں 80 مرتبہ صحاح ستہ پڑھائی۔ آپ کے تلامذہ میں ملک کے ممتاز علمائے کرام کا نام آتاہے اورجن کی اپنی خدمات بھی اپنے اپنے وقت میں ممتاز حیثیت کی حامل ہیں۔ مولانا سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں:’’علمائے اہلحدیث کی تدریسی و تصنیفی خدمات...
تعلیمات اسلامیہ کے مطابق نبوت ورسالت کا سلسلہ سیدنا آدم سے شروع ہوا اور سید الانبیاء خاتم المرسلین حضرت محمد ﷺ پر ختم ہوا ۔ اس کے بعد جوبھی نبوت کادعویٰ کرے گا وہ دائرۂ اسلام سے خارج ہے نبوت کسبی نہیں وہبی ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے جس کو چاہا نبوت ورسالت سے نوازاکوئی شخص چاہے وہ کتنا ہی عبادت گزارمتقی اور پرہیزگار کیوں نہ ہو وہ نبی نہیں بن سکتا ۔اور اسلامی تعلیمات کی رو سے سلسلہ نبوت اوروحی ختم ہوچکاہے جوکوئی دعویٰ کرے گا کہ اس پر وحی کانزول ہوتاہے وہ دجال ،کذاب ،مفتری ہوگا۔ امت محمدیہ اسےہر گز مسلمان نہیں سمجھے گی یہ امت محمدیہ کا اپنا خود ساختہ فیصلہ نہیں ہے بلکہ شفیع امت حضرت محمد ﷺ کی زبانِ صادقہ کا فیصلہ ہے۔قایادنی اور لاہوری مرزائیوں کو اسی لئے غیرمسلم قرار دیا گیا ہے کہ ان کا یہ عقیدہ ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی نبی تھے ان کو اللہ سےہمکلام ہونے اور الہامات پانے کاشرف حاصل تھا۔ مرزا قادیانی کے دعویٰ نبوت کرنے کے آغاز سے ہی اس کی تردید وتنقید میں ہر مکتبۂ فکر کے علماء نے بھر پور کردار ادا کیا ۔ بالخصوص علمائے اہل حدیث او ردیو بندی مکتبۂ فکر کے علم...
نبی کریمﷺ اورآپ کی امت کے بہت زیادہ فضائل و خصائص ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو دوستوں اور دشمنوں کے درمیان فرق بتانے کا ذمہ دار ٹھیرایا۔ اس لیے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ حضورﷺ پر اور جو کچھ وہ لائے ہیں اس پر ایمان نہ لائے اور ظاہر و باطن ان کی اتباع نہ کرے۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کی محبت اور ولایت کا دعویٰ کرے اور حضور نبی کریمﷺ کی پیروی نہ کرے وہ اولیاء اللہ میں سے نہیں ہے۔ بلکہ جو ان سے مخالف ہو تو وہ اولیاء الشیطان میں سے ہےنہ کہ اولیاء الرحمٰن میں سے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نےاپنی کتاب میں اوراپنے رسول ﷺ کی سنت میں بیان فرما دیا ہےکہ لوگوں میں سے اللہ تعالیٰ کے دوست بھی ہیں اور شیطان کے بھی اور اولیاء رحمٰن اور اولیاء شیطان کے درمیان جو فرق ہے وہ بھی ظاہر کردیا ہے ۔اس موضوع پر شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ نے ’’الفرقان بین اولیاء الرحمٰن واولیاء الشیطان‘‘ کے نام سے شاندار کتاب تالیف کی۔ جس میں اللہ کے دوستوں اور شیطان کے دوستوں کے مابین حقیقی فرق کو واضح کیا گیا ہے۔ ہمارے معا...
پروفیسر عبد القیوم علمی دنیا خصوصاً حاملین علو م اسلامیہ و عربیہ کے حلقہ میں محتاج تعارف نہیں ۔ موصوف 1909ء کولاہور میں پیدا ہوئے۔پروفیسر مرحوم کےخاندان کی علمی اور دینی یادگاروں میں مسجد مبارک کی تاسیس اور اس کی تعمیر وترقی میں نمایاں حصہ لینابھی شامل ہے ۔ جس میں پروفیسر صاحب کے والد محترم او رنانا مولوی سلطان دونوں کابڑا حصہ ہے ۔آپ کےخاندان کی نیک شہرت کا اندازہ اس ا مر سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ کےہاں متعدد اہل علم ، مثلاً مولانا قاضی سلیمان سلمان منصورپوری، مولانا سید سلیمان ندوی ، شیخ الاسلام مولانانثاء اللہ امرتسریآمدورفت رکھتے تھے۔پروفیسر صاحب نے ابتدائی عمر میں قرآن مجیدناظرہ پڑھنے کےبعد اپنی تعلیم کا آغاز منشی فاضل کےامتحان سےکیا۔1934ء میں اوری اینٹل کالج سے ایم عربی کا امتحان پاس کیا۔اور پھرآپ نے1939ء سے لے کر1968ء تک تقریباتیس سال کا عرصہ مختلف کالجز میں عربی زبان وادب کی تدریس اور تحقیق میں صرف کیا ۔ لاہور میں نصف صدی سے زیادہ انہوں نےتعلیم وتعلم کی زندگی گزاری۔ ان کے سیکڑوں شاگرد تعلیم تدریس اورتحقیق کے میدان میں مصروف عمل ہیں ۔علمی زندگی کے س...
قیامِ پاکستان کے بعد مسلک کے عنوان پر سب سے پہلی غیر سیاسی تنظیم مرکزی جمعیت اہل حدیث ہے ۔جس کے تحت سال دو سال کے بعد کسی شہر میں ایک کانفرنس کا انعقاد عمل میں لایا جاتا ۔کانفرنس کی صدارت کے لیے ہر دفعہ ملکی سطح کی کسی اہم علمی اور خاندانی شخصیت کو منتخب کر کے ان کی خدمت میں صدارت قبول کرنے کی درخواست کی جاتی ۔صدارت کا اعزاز قبول کرنے والے حضرات ِ گرامی کانفرنس میں خطبہ صدارت ارشاد فرماتے جس میں وہ مسلک کی حقانیت ، محدثین سے تعلق اور ان کی خدمات کا تذکرہ بھی فرماتے۔جماعت اہل حدیث کی اشاعتی خدمات ، رسائل و جرائد تو تاریخ میں محفوظ ہو چکے ہیں ۔لیکن اس کی تبلیغی خدمات کو محفوظ کرنے کی ضرورت تھی۔ زیر تبصرہ کتاب ’’استقبالیہ و صدارتی خطبات‘‘ میں مولانا محمد اسحاق بھٹی نے دعوت و تبلیغ کی غرض سے مرکزی جمعیت کے تحت منعقد کی جانے والی تمام سالانہ کانفرنسوں کے خطبہ ہائے صدارت و استقبالیہ کو جمع کر دیا ہے موصوف نے اولاً ان خطبات کو تلاش کیا مطبوعہ اور غیر مطبوعہ خطبات میں طباعتی اغلاط درست کیں۔ پھر اپنی نگرانی میں ان کو کمپوز...
مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی (1909۔1987)ضلع امرتسر کے ایک گاؤں’’ بھوجیاں‘‘ میں 1909ءکوپیداہوئے۔ابتدائی تعلیم اپنے والد گرامی میاں صدرالدین حسین اور مقامی علماء کرام سے حاصل کی ۔اس کےبعد پندرہ سولہ برس کی عمر میں مدرسہ حمیدیہ ،دہلی میں داخل ہوئے او روہاں مولانا عبدالجبار کھنڈیلوی اور ابوسعید شرف الدین دہلوی سے بعض متداول درسی کتب اور حدیث کا درس لیا ۔بعد ازاں لکھو کے اور گوندالانوالہ کے اہل حدیث مدارس میں علوم دینیہ کی تکمیل کی جہاں مولانا عطاء اللہ لکھوی اور حافظ محمد گوندلوی ان کے اساتذہ میں شامل تھے ۔مولانا نے عملی زندگی کاآغاز اپنے گاؤں کے اسی مدرسہ فیض الاسلام میں بطور مدرس کیا جس میں انہوں نے خود ابتدائی تعلیم حاصل کی تھی ۔لیکن چند ماہ قیام کے بعد گوجرانوالہ تشریف گئے او رمختلف مدارس میں تدریسی فرائض سرانجام دیتے رہے ۔سالانہ تعطیلات گزارنے...
ماضی کو یادرکھنا اور اس کاذکر کرتے رہنا اسلاف کی محبت کا وہ فیض ہےجس کے عام کرنے سے فکر نکھرتی ،نسلیں سنورتیں اور جماعتیں تشکیل پاتی ہیں۔مولانا اسحاق بھٹی مرحوم نے برصغیر کے جلیل القدر علمائے اہل حدیث کے حالاتِ زندگی او ر ان کےعلمی وادبی کارناموں کو کتابوں میں محفوظ کردیا ہے مولانا محمداسحاق بھٹی مرحوم تاریخ وسیر کے ساتھ ساتھ مسائل فقہ میں بھی نظر رکھتے ہیں مولانا صاحب نے تقریبا 30 سے زائدکتب تصنیف کیں ہیں جن میں سے 26 کتابیں سیر واسوانح سے تعلق رکھتی ہیں۔برصغیر میں علم فقہ سے لے کر برصغیر میں اہل حدیث کی سرگزشت تک خدماتِ اہل حدیث کو مولانا اسحاق بھٹی مرحوم نے اپنی کتب محفوظ کردیا ہے۔تاکہ نئی نسل جان سکے کہ ہم کیا تھے اور کیا بن رہے ہیں اور کس طرف جارہے ہیں ؟ ہمارے بزرگ کیا تھے اور ان کی خدمات کیا تھیں؟مولانا اسحاق بھٹی رحمہ اللہ نے اپنی زیر نظرتصنیف ’’برصغیر میں اہل حدیث کی سرگزشت&lsqu...
سبعہ معلقات وہ قصیدے تھے جو خانہ کعبہ کی دیواروں پر لٹکائے گئے تھے‘ یہ ان سات بڑے(امروالقیس بن حجر بن عمرو الکندی،طرفہ بن العبد البکری،زہیر بن ابی سلمی المزنی، معلقہ: لبید بن ربیعہ عامری،معلقہ: عمرو بن کلثوم تغلبی،عنتر بن شداد عبسی،حارث بن حلزہ الشکری) شاعروں کے تھے جنھیں عرب صاحب معلقہ کہتے تھے۔سبعہ معلقہ عربی درسیات کی مشہور کتاب ہے۔مختلف اہل علم نے اس کے اردو ترجمہ وتسہیل کا کام کیا ہے۔ زیرنظر کتاب’’ السبع المعلقات ؍ البیان الوافی لمافی المعلقات من الخوافی‘‘شیخ الحدیث مولانا اسماعیل سلفی رحمہ کی مدارس عربیہ کےنصاب کی مشہور کتاب سبعہ معلقہ کی وہ عربی شرح مع اردو رترجمہ ہےانکی وفات تک غیر مطبوعہ تھیں۔اس کا مسودہ مولاناکی وفات کے بعد انکے کاغذات سے ملا۔مولانا عطاء اللہ حنیف رحمہ اللہ نے مولانا سلفی کے صاحبزادے پروفیسر مولانا محمد سے حاصل کرکے1971ء میں اسے حسن طباعت سے آراستہ کیا۔(م۔ا)
تقویۃ الایمان شاہ اسماعیل شہید کی ایک جاندار اور لا جواب تصنیف ہے۔ ’’تقویۃ الایمان‘‘ کا موضوع توحید اس موضوع پر بے شمار کتابیں اور رسالے لکھے جاچکے ہیں ۔تقویۃ الایمان بھی انہی کتب میں سے ایک اہم کتاب ہے ۔ کتاب تقویۃ الایمان اب تک لاکھوں کی تعداد میں چھپ کر کروڑوں آدمیوں کے لیے ہدایت کا ذریعہ بن چکے ہے ۔ پہلی مرتبہ 1826ء میں شائع ہوئی ۔ شاہ اسماعیل شہید کا اندازِ بحث اور طرزِ استدلال سب سے نرالا ہے اور سراسر مصلحانہ ہے علمائے حق کی طرح انہوں نے صرف کتاب وسنت کومدار بنایا ہے ۔ آیات وآحادیث پیش کر کے وہ نہایت سادہ اور سلیس میں ان کی تشریح فرمادیتے ہیں اور توحید کے مخالف جتنی بھی غیر شرعی رسمیں معاشرے میں مروج تھیں ان کی اصل حقیقیت دل نشیں انداز میں آشکارا کردیتے ہیں ۔انہوں نے عقیدہ وعمل کی ان تمام خوفناک غلطیوں کوجو اسلام کی تعلیم توحید کے خلاف تھیں مختلف عنوانات کے تحت جمع کردیا...