بعثتِ نبوی ﷺ سے بھی پہلے ہندوستان کے مختلف قبائل: زط (جاٹ)، مید، سیابچہ یا سیابجہ، احامرہ، اساورہ، بیاسرہ اور تکرّی (ٹھاکر) کے لوگوں کا وجود بحرین، بصرہ، مکہ اور مدینہ میں ملتا ہے۔ چناں چہ ۱۰ ہجری میں نجران سے بنوحارث بن کعب کے مسلمانوں کا وفد آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے ان کو دیکھ کر فرمایا: ”یہ کون لوگ ہیں جو ہندوستانی معلوم ہوتے ہیں“ (تاریخ طبری ۳/۱۵۶، بحوالہ برصغیر میں اسلام کے اولین نقوش از محمد اسحق بھٹی) بالآخر عرب و ہند کے درمیان شدہ شدہ مراسم بڑھتے گئے یہاں تک کہ برصغیر (متحدہ ہند) اور عرب کا باہم شادی و بیاہ کا سلسلہ بھی چل پڑا، اس ہم آہنگی کی سب سے اہم کڑی عرب و ہند کے تجارتی تعلقات تھے، یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کے نت نئے اشیائے خوردونوش وغیرہ: ناریل، لونگ، صندل، روئی کے مخملی کپڑے، سندھی مرغی، تلواریں، چاول اور گیہوں اور دیگر اشیاء عرب کی منڈیوں میں جاتی تھیں۔جنوبی عرب سے آنے والے تجارتی قافلوں کی ایک منزل مکہ مکرمہ تھا، یہ قافلے ہندوستان اور یمن کا تجارتی سامان شام اور مصر کو لے جاتے تھے، اثنائے سفر میں یہ لوگ مکہ مکرمہ میں قیام کرتے اور وہاں کے مشہور کنوئیں”زمزم“ سے سیراب ہوتے اوراگلے دن کے لیے بقدر ضرورت زمزم کا پانی ساتھ لے جاتے تھے۔ زیر تبصرہ کتاب محمد ؑﷺ کے زمانے کا ہندستان مع ہندستان صحابہ کے زمانہ میں‘‘مورخ اسلام الحاج مولانا عبدالحفیظ صاحب قاضی اطہر مبارکپوری کی ہے جس میں ایک حصہ عہد رسالت میں عرب و ہند کے حالات وقعات،رسوم و رواج ، قدیم تجارتی تعلقلت، عرب میں ہندستانی اقوامیں اور ان کو دعوت اسلام کے بارے میں تفصیلی خاکہ ہے۔ اور دوسرا حصہ خلفائے راشدین اور ہندستان ، غزوات و فتوحات اور دیگر اصحاب پر مشتمل ہے۔امید ہے یہ کتاب طلباء اور ریسرچ کرنے والے کے لئے انتہائی کار آمد ثابت ہو سکتی ہے۔ ہم مصنف اور دیگر ساتھیوں کے لئے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی محنتوں اور کاوشوں کو قبول فرمائے اور اس کتاب کو ان کےلئے صدقہ جاریہ بنائے۔آمین۔(رفیق الرحمن)
فہرست زیر تکمیل