قرآن کریم کاایک بہت بڑا حصہ انبیائے سابقین او ردیگر لوگوں کے قصوں پر مشتمل ہے۔ بعض اہل علم کی رائے میں یہ حصہ قرآن کریم کے آٹھ پاروں کے برابر ہے۔ قرآنی قصوں کی اہمیت او رفائدہ کوواضح کرنے کےلیے یہ بذات خود ایک بہت بڑی شہادت ہے۔ علازہ ازیں اللہ تعالیٰ نےنبی کریم ﷺ کوحکم دیا کہ وہ لوگوں کوتدبر وتفکر پرآمادہ کرنے کےلیے ان کے روبروقصے بیان کریں۔قرآنی قصوں میں کتنے فوائد ہیں ! ان سے انسانی معاشروں میں ہمیشہ سے موجود سنن الٰہیہ سے آگاہی ہوتی ہے۔قرآنی قصے انسانیت کو اس بات کی خبر دیتے ہیں کہ انسانوں کےاعمالِ خیر سے کیا بہاریں آئیں او راعمال ِ شر کن بربادیوں کاسبب بنے۔ قرآنی قصے تاریخی نوادرات ہیں، جوانسانیت کو تاریخ سے فیض یاب ہونے کا سلیقہ سکھاتے ہیں۔ اوران قصوں میں نبی کریم ﷺ اور آپ کے بعد امت کےلیے دلوں کی تسکین اور مضبوطی کاسامان ہے۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں انبیائے کرامکے واقعات بیان کرنے کامقصد خودان الفاظ میں واضح اور نمایا ں فرمایا ’’اے نبیﷺ جونبیوں کے واقعات ہم آپ کے سامنے بیان کرتے ہیں ان سے ہمارا مقصد آپ کے دل کو ڈھارس دینا ہے اور آپ کے پاس حق پہنچ چکا ہے اس میں مومنوں کے لیے بھی نصیحت وعبرت ہے۔‘‘ قرانی قصوں میں ایک اہم قصہ سیدنا ابراہیم کابڑھاپے میں ملنے والے لخت جگر کودوڑ دھوپ کی عمر کوپہنچنے پر حکم الٰہی کی بجا آوری میں ذبح کرنے کا ارادہ کرنا ہے۔ سیدنا حضرت ابراہیم اللہ تعالی کے جلیل القدر پیغمبر تھے ۔قرآن مجید میں وضاحت سے حضرت ابراہیم کا تذکرہ موجود ہے ۔قرآن مجید کی 25 سورتوں میں 69 دفعہ حضرت ابراہیم کا اسم گرامی آیا ہے۔ اور ایک سورۃ کا نام بھی ابراہیم ہے۔ حضرت ابراہیم نے یک ایسے ماحول میں آنکھ کھولی جو شرک خرافات میں غرق اور جس گھر میں جنم لیا وہ بھی شرک وخرافات کا مرکز تھا بلکہ ان ساری خرافات کو حکومتِ وقت اورآپ کے والد کی معاونت اور سرپرستی حاصل تھی۔ جب حضرت ابراہیم پربتوں کا باطل ہونا اور اللہ کی واحدانیت آشکار ہوگی تو انہوں نے سب سے پہلے اپنے والد آزر کو اسلام کی تلقین کی اس کے بعد عوام کے سامنے اس دعوت کو عام کیا اور پھر بادشاہ وقت نمرود سےمناظرہ کیا اور وہ لاجواب ہوگیا ۔ اس کے باجود قوم قبولِ حق سے منحرف رہی حتیٰ کہ بادشاہ نے انہیں آگ میں جلانے کا حکم صادر کیا مگر اللہ نے آگ کوابراہیم کے لیے ٹھنڈی اور سلامتی والی بنا دیا اور دشمن اپنے ناپاک اردادوں کے ساتھ ذلیل ورسوار ہوئے اور اللہ نے حضرت ابراہیمکو کامیاب کیا۔ زیر تبصرہ کتاب’’حضرت ابراہیم کی قربانی کاقصہ تفسیر ودروس‘‘ شہید ملت علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید کے برادر محترم مصنف کتب کثیرہ جناب ڈاکٹر فضل الٰہی ﷾ کی تصنیف ہےیہ کتاب سیدنا ابراہیم کی واقعہ قربانی پر مشتمل تفصیلی کتاب ہے۔ڈاکٹر صاحب نےاس قصے کوسمجھنے سمجھانے اوراس میں موجود دروس اور عبرتوں سے فیض یاب ہونے اور دوسروں کوفیض کرنے کےلیے اس کتا ب کومرتب کیا ہے۔ انہوں نے اس قصے سےمتعلقہ آیات کی تفسیر اوران سے اخذ کردہ دروس اور عبرتوں کے تحریر کرنے میں معتمد تفسیروں سے استفادہ کیا ہے۔ اور ضعیف احادیث اوراسرائیلی روایات سے کلی طور پر اجنتاب کیا ہے کیوں کہ ثابت شدہ تھوڑی معلومات غیر ثابت شدہ زیادہ معلومات سے کہیں بہترہیں۔مصنف موصوف نے قصے سے متعلقہ آیات پندرہ حصوں میں تقسیم کی کیں ہیں او ر ہر حصے میں اس کی تفسیر اوراخذ کردہ دروس بیان کیے گئے ہیں۔ بیان کردہ دروس کی مجموعی تعداد بتیس ہے۔ اپنے موضوع پر یہ کتاب انتہائی جامع اور مستند ہے۔ اللہ تعالیٰ ڈاکٹر صاحب کی تمام دعوتی وتبلیغی اور تحقیقی وتصنیفی خدمات قبول فرمائے۔(آمین) (م۔ا)
عناوین |
صفحہ نمبر |
تمہید |
17 |
کتاب کی تیاری میں پیش نظر باتیں |
20 |
کتاب کا خاکہ |
20 |
شکر و دعا |
20 |
قصے کے بارے میں آیات کریمہ اور ان کا ترجمہ |
22 |
اللہ تعالیٰ کی خاطر ہجرت کرنا |
26 |
سیرت ابراہیم ؑ اور تاریخ عالم کی شہادت |
28 |
مقصود عمل رضائے الٰہی کا حصول |
28 |
اس سفر میں رہنمائی |
30 |
دین میں راہنمائی |
|
دین میں راہنمائی کے دع معانی |
30 |
دعا میں کمال یقین کے اظہار کا سبب |
31 |
ہدایت کا من جانب اللہ ہونا |
31 |
حضرات انبیاءؑ کا اپنے رشتہ داروں کو ہدایت نہ دے پانا |
33 |
قبولیت دعا کا یقین |
36 |
ابراہیم ؑ کا بیٹا طلب کرنا |
36 |
(وہب) کا بلا قید بیٹے کے عطا کرنے کے لیے استعمال |
37 |
ہجرت کے وقت احساس تنہائی پر اس دعا کا کرنا |
38 |
ابراہیمؑ کا بیٹے کے صالحین میں سے ہونے کی دعا کرنا |
38 |
(الصلاح) کا علیٰ ترین صفات میں سے ہونا |
|
ابراہیم یوسف اور سلیمان ؑ کا صالحین میں شمولیت کا سوال |
38 |
اولاد دینے کا اختیار صرف اللہ رب العزت کو ہونا |
39 |
ولادت سے قبل بیٹے کے نیک ہونے کی فکر |
41 |
ابراہیم ؑ کو دونوں بیٹوں کا بڑھاپے میں ملنا |
44 |
بوڑھے والد کے لیے (حلیم) بیٹے کی اہمیت |
44 |
(غلا حلیم) سے اسماعیل کا مراد ہونا |
44 |
(غلام حلیم) اور غلام علیم) بشارتوں میں فرق، پہلی اسماعیل اور دوسری اسحاقؑ کے متعلق ہیں |
46 |
ظاہری اسباب کی کمزوری کے باوجود اللہ تعالیٰ کا فریادوں کو سننا |
47 |
اللہ تعالیٰ کا بندے کی طلب سے زیادہ عطا فرمانا |
48 |
ابراہیم ؑ کو طلب سے زیادہ عطا فرمانا |
48 |
|
|