ادب ہر کام کے حسن کا نام ہے اور سایۂ ادب میں جو الفاظ نکلیں وہ جادو سے زیادہ اثر رکھتے ہیں کیونکہ ادب ایک روشنی ہے جس سے زندگی کی تاریکیاں ختم ہوتی ہیں ۔ ادب ایک الۂ اصلاح ہے جس سے زندگی کی نوک پلک سنور تی ہے ۔ ادب ایک دوا ہے جس سے مزاج کے ٹیڑھے پن کا مکمل خاتمہ ہوتا ہے، ادب ایک جوہر ہے جس شخصیت میں پختگی آتی ہے اور ادب ایک ایسا آب حیات ہے کہ جو جی بھر کر پی لے وہ زندگی کاسفر کامیابی سے کرتے ہوئےپیاس محسوس نہیں کرتا ، بلکہ تروتازہ چہرہ لےکر اپنے خالق ومالک کے حضور پیش ہوجاتا ہے۔لیکن آج لوگ دنیا کے ااقتدار کی توبہت فکر کرتے ہیں مگر ذاتِ الٰہ کی فکر سے غافل ہیں ۔اپنے آداب کےلیے ہزاروں جتن ہوتے ہیں مگر شہنشاہ کائنات کے آداب کوبروئے کار لانے کےلیے حددرجہ غفلت کی جاتی ہے اورتاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ جب خودی کوخالق کےآداب پرمقدم کردیا جائے تو تباہی وبربادی کےسیلاب سے بچنا مشکل ہی نہیں بسا اوقات ناممکن ہوجاتاہے بعینہ یہی کیفیت آج امت مسلمہ کی ہے ۔کسی کے دربار میں بغیر آداب کے رونا فضول ہے تو پھر شہنشاہ کائنات کے سامنے آداب کاخیال رکھنا کس قدر ضروری ہے۔ انسانیت کا دوسرا نام ادب ہے۔ اور ادب کا دوسرا نام انسانیت ہے۔ یعنی جو بادب ہے وہ انسان ہے اور جو بے ادب ہ ےوہ انسانی شکل میں بدترین حیوان ہے ۔اور ہمارا سارا دین ادب ہے۔ ادب الٰہ کا معنی یہ ہےکہ اپنے خالق ومالک کی خوشنودی ورضا جوئی کے لیے دین کے مطابق ایسا اعلیٰ سلیقہ، عمدہ طریقہ اور اچھا انداز اپنانا جو قابل تحسین اور باعث تعریف ہو ۔ جس سے واضح معلوم ہو کہ بندہ اپنے الٰہ کو صرف مانتا ہی نہیں بلکہ اس کےدربار کےآداب سےبھی بخوبی آگاہے ۔سادہ لفظوں میں ادب الٰہ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کبریائی وبڑائی کومان کر اس کے سامنے بے بسی ، بے حیثیتی ، عاجزی وانکساری کاہر ایک تقاضا اس انداز سےپورا کرنا کہ جس میں عمدگی، نفاست اوراعلیٰ تہذیب نظر آئے اور کوئی ایسی عادت وحرکت سرزد نہ ہو جو شہنشاہ کائنات کی عزت ،عظمت، بزرگی اور شان کے خلاف ہو ۔ غرض کہ اپنے الٰہ کی شایان شان معاملہ کرنا ادب ہے۔نبی کریم ﷺ نے ساری زندگی ادبِ الٰہی کےتقاضوں کوپورا کرتےہوئےبسر کی۔ آپ نےقدم قدم پہ ادبِ الٰہ کی ایسی عظیم مثالیں پیش فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ نےآپﷺ کی اس صفت کوقرآن مجید میں بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’ اے میرے محبوب ﷺ آپ آداب کے اعلیٰ مقام پر فائز ہیں۔آپ ﷺ کوادب الٰہ میں درجہ کمال اس لیے بھی حاصل تھا کہ آپ ﷺ کوتمام آداب اللہ تعالیٰ نے خود سکھلائے جس طرح کہ آپ ﷺ کافرمان ہے: أدبني ربي فأحسن تأديبي میرے رب نےمجھے ادب سکھلایا اور بہترین ادب سکھلایا۔آپ ﷺ نےاللہ تعالیٰ کی تعظیم ،احترام اور ادب میں کس قدر عالی مقام پایا اس کی مکمل جھلک مولانا ابو الحسن عبد المنان راسخ ﷾ نے زیرتبصرہ کتاب ’’کیا ہم اللہ کاادب کرتے ہیں؟ ‘‘میں قرآن وحدیث کی روشنی میں بڑے آسان فہم اندازمیں پیش کی ہے۔فاضل مصنف نےاس کتاب میں ادب ِالٰہی کے10 تقاضے بہت اختصار اور جامعیت سے بیان کیے ہیں جن کو پورا کرنے سے بندہ اپنےخالق ومالک کا بادب بن جاتا ہےاوران سے انحراف کرنے والاادب کی دولت سے محروم اور ناکام رہتا ہے۔ ادب الٰہ کے 10 تقاضوں کوجامعیت کےساتھ بیان کرنے کےبعد موصوف نے جعلی ادب کو بھی بیان کیا ہے۔ اس کتاب کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ کتاب غیر ثابت شدہ روایات وواقعات سے مکمل پاک ہے ۔اگرچہ اس میں خطیبانہ انداز غالب ہے ۔کیونکہ یہ مصنف کے مرکزی مسجد مومن آباد، فیصل آباد میں پڑہائے گئے خطبات کا مجموعہ ہے۔کتاب ہذا کے مصنف مولانا ابو الحسن عبد المنان راسخ ﷾ جامعہ اسلامیہ،صادق آبادسے فراغت کےبعد شروع شروع میں مجلس التحقیق الاسلامی ، لاہور میں حافظ عبد الرحمن مدنی﷾ کی زیر نگرانی بھی علمی وتحقیقی خدمات سرانجام دیتے رہے ۔ موصوف ایک اچھے مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ بڑے اچھے مدرس ، خطیب اور واعظ بھی ہیں ۔ عرصہ دراز سے فیصل آباد میں خطابت کافریضہ انجام دینے کےساتھ ساتھ تصنیف وتالیف کا کام بھی کرتے ہیں۔ تقریبا دو درجن کتب کےمصنف ہے۔ جن میں سے چھ کتابیں(خشبو ئے خطابت، ترجمان الخطیب،منہاج الخطیب، حصن الخطیب، بستان الخطیب ، مصباح الخطیب) خطابت کے موضوع پر ہیں۔ اللہ تعالیٰ مصنف کی تمام مساعی حسنہ کو قبول فرمائے اور اسے عوام الناس کے لیے نفع بخش بنائے ( آمین) (م۔ا)
عناوین |
|
صفحہ نمبر |
مقدمہ |
|
|
مضامین |
|
|
تقریظ |
|
19 |
گزارشات راسخ |
|
24 |
ادب کی ہے ؟ |
|
25 |
رسواللہ ﷺ ادب الہٰ کے حددرجہ شناسا تھے |
|
27 |
غیروں کو داتا کہنا |
|
28 |
گلے شکو وں کی بوچھاڑ |
|
29 |
اہل توحید متو جہ ہو ں |
|
30 |
دعائیہ کلمات |
|
32 |
حدیث طیبہ |
|
33 |
ادب الٰہی کی پہلی درس گاہ |
|
34 |
روٹی اللہ دیتا ہے |
|
ٍ35 |
بیٹا اللہ کے سپرد |
|
36 |
دینی مدارس اور سکولز کا کردار |
|
37 |
ادب الہٰ |
|
39 |
اللہ تعالیٰ کے وقار کے لائق |
|
42 |
1۔ ادب الٰہی کا پہلا تقاضا |
|
|
عقیدہ توحید کا اقرار |
|
44 |
عقیدہ توحید کے اہمیت |
|
45 |
مروجہ شر کیہ امور |
|
46 |
غیر اللہ سےمد د مانگنا |
|
46 |
غیراللہ کے نام پر ذ بح کرنا |
|
47 |
درباروں پر جانور ذبح کرنا |
|
48 |
حرمت رسول اللہ ﷺ کے لیے |
|
49 |
اکیلے اللہ کے نام کو ا ونچا کریں |
|
50 |
قطب ، غوث ، ابدال پر ایک نظر |
|
51 |
عقیدہ توحید کی سچائی کا اظہار |
|
51 |
2۔ادب الٰہی کا دوسرا تقاضا |
|
|
اللہ تعالیٰ کی پہچان |
|
53 |
معرفت الٰہی کا نور پانے والوں کی قربانیاں |
|
53 |
انداز اپنا اپنا |
|
54 |
معرفت الٰہی کا صحیح ذریعہ |
|
55 |
آیات معرفت |
|
55 |
اجمالی پہچان |
|
55 |
ہر شے کا خالق |
|
55 |
ہرشے کا مالک |
|
56 |
ہر شے کا قابض |
|
57 |
ہر شے رازق |
|
57 |
معرفت الٰہی کے تفصیلی شہ پارے |
|
58 |
سب کو سلائے خودنہ سوئے |
|
59 |
سب کو بھلائے خودنہ بھولے |
|
60 |
سب کو کھلائے خود نہ کھائے |
|
60 |
سب کو سکھائے خودنہ سیکھے |
|
60 |
وہ سب کو پوچھے مگر اسے کو ئی نہ پو چھے |
|
62 |
لا حول و لا قوۃ الا باللہ اور معرفت الٰہی کے نکات |
|
63 |
جنت کے دروازوں میں ایک سے ایک دروازہ |
|
63 |
جنت کے پو دے |
|
64 |
جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ |
|
64 |
لاحول ولا قوۃ الا باللہ کا معنی و مفہوم |
|
65 |
معرفت الٰہی کے نتائج اور فوائد و ثمرات |
|
67 |
عارف باللہ کی مجلس کے چھ فوائد |
|
67 |
فرمان ھرم بن حیا رحمتہ اللہ علیہ |
|
68 |
فرمان امام ابن جوزی رحمتہ اللہ علیہ |
|
68 |
معرفت اور ٹھنڈک |
|
69 |
فرمان ابن یعقوب فیر وز آبادی رحمتہ اللہ علیہ |
|
69 |
فرمان یحیی ٰ بن معاذ رحمتہ اللہ علیہ |
|
ٍ70 |
شیخ علی بن عثمان ہجویر ع رحمتہ اللہ علیہ |
|
70 |
فرمان ابن قیم رحمتہ اللہ علیہ |
|
71 |
3۔ ادب الٰہی کا تیسرا تقاضا |
|
|
اپنے الہٰ سے سب سے زیادہ محبت |
|
72 |
سچے محب کی پہچان |
|
72 |
ا ٓپ ﷺ کی محبت الہٰ |
|
74۔73 |
فرمان امام ابن قیم رحمتہ اللہ علیہ |
|
75 |
محبوب کا ئنات ﷺ کی دعا |
|
74 |
حلاوت ایمان |
|
75 |
اللہ تعالیٰ کی ملاقات کو پسند کرنے والے |
|
76 |
آخرت میں دیدارالٰہی کی سعادت |
|
77 |
الہٰ سے محبت نہ کرنے والوں کا انجام |
|
78 |
محب الہ ٰ سے الہٰ کی محبت |
|
78 |
محبت الٰہی کی محبت پانے والے |
|
80 |
4۔ ادب الٰہی کا چو تھا تقاضا |
|
|
مکمل اطاعت |
|
82 |
شعر امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ |
|
82 |
نافرمانی والی نذر |
|
82 |
آپ ﷺ کی فرمانبرداری کی ایک جھلک |
|
83 |
آپ ﷺ کی اطاعت بھر ی دعا |
|
84 |
حق تقاتہ کی تفسیر |
|
ٍ85 |
افضل عبادت نافرمانی کا چھوڑنا |
|
85 |
صحابہ کرام ؓ اور جذبات اطاعت |
|
86 |
سیدنا معاذ بن جیل ؓ امت ہیں |
|
87 |
قوموں پر عذاب کی وجہ |
|
88 |
سیدنا ابودرد ؓ کا مسلمہ بن مخلد کو خط |
|
88 |
امام بن قیم رحمتہ اللہ علیہ کی ایمانافروزبات |
|
89 |
نافرنی کی چار و جوہات |
|
90۔89 |
ایک فکر انگیرز مثال |
|
90 |
5۔ ادب الٰہی کا پانچو اں تقاضا |
|
|
|
|
|