اسلامی نقطہ نظر سے کوئی بھی عورت حکمران یا کسی ملک کی سربراہ نہیں بن سکتی کیونکہ امور ِحکومت کی نظامت مرد کی ذمہ داری ہے اور حکومتی و معاشرتی ذمہ داریوں میں سے ایک مضبوط اعصاب کا مالک مرد ہی عہدہ برآں ہو سکتا ہے۔کیونکہ عورتوں کی کچھ طبعی کمزوریاں ہیں اور شرعی حدود ہیں جن کی وجہ سے نا تو وہ مردوں کے شانہ بشانہ مجالس و تقاریب میں حاضر ہو سکتی ہیں اور نہ ہی سکیورٹی اور پروٹوکول کی مجبوریوں کے پیش نظر ہمہ وقت اجنبی مردوں سے اختلاط کر سکتی ہیں نیز فطرتی عقلی کمزوری بھی عورت کی حکمرانی میں رکاوٹ ہے کہ امور سلطنت کے نظام کار کے لیے ایک عالی دماغ اور پختہ سوچ کا حامل حاکم ہونا لازم ہے ۔ان اسباب کے پیش نظر عورت کی حکمرانی قطعاً درست نہیں بلکہ حدیث نبوی ﷺ کی رو سے اگر کوئی عورت کسی ملک کی حکمران بن جائے تو یہ اسکی تباہی و بربادی کا پیش خیمہ ہو گی۔ زیر نظر کتابچہ ’’عورت کی حکمرانی ‘‘مولانا محمود الرشید حدوٹی صاحب کی ایک تحریر کی کتابی صورت ہے۔انہوں نے اس مختصر سے کتابچہ میں قرآن کریم کی روشن آیات نبی پاک ﷺ کی تعلیمات کی روشنی میں یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ شریعت اسلامی میں عورت کی حکمرانی کی کوئی گنجائش نہیں ۔(م۔ا)
عناوین |
|
صفحہ نمبر |
پیش گفتار |
|
3 |
عورت کی حکمرانی |
|
5 |
واقعہ ملکہ بلقیس |
|
6 |
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا واقعہ |
|
11 |
محترمہ فاطمہ جناح کی صدارت |
|
14 |
عورت اور مرد میں فرق |
|
18 |
عورت کی حکمرانی قرآن حکیم کی زبانی |
|
20 |
عورت کی حکمرانی حضرت نبی کریمﷺ کی زبانی |
|
25 |
عورت کی حکمرانی اور اجماع امت |
|
31 |
ناکام نسوانی حکومتیں |
|
33 |