احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے وقت آپ کی ذاتی اشیاء بہت کم تعداد میں موجود تھیں، امام بخاری نےصحیح بخاری میں نبی ﷺ کی جن ذاتی اشیاء کا ذکر کیا ہے وہ یہ ہیں زرہ ،عصا،تلوار،پیالہ، انگوٹھی،موئےمبارک نعلین اور چند ایک برتن ،پھر جو احادیث اس عنوان کے تحت ذکر کی ہیں ان میں صرف پانچ چیزوں کاذکرہے پہلی میں انگوٹھی دوسری میں نعلین ،تیسری میں چادرچوتھی میں پیالہ ،پانچویں میں تلوار،باقی اشیاءیعنی زرہ موئے مبارک چھڑی اور عصا کے متعلق دوسرے مقامات پر احادیث ذکر کی ہیں رسول اللہ ﷺ کی تمام استعمال کردہ ذاتی اشیاء اور آثار شریفہ بابرکت ہیں اور ان سے برکت حال کرنا شرعاًجائز ہے۔ لیکن ا س سےتبرک کے لیےضروری ہےکہتبرک لینے والا شرعی عقیدہ اور اچھے کردار کا حامل ہو،جو شخص عمل اور عقیدہ کے اعتبار سے اچھا مسلمان نہیں اسے اللہ تعالیٰ اس قسم کے تبرکات سے کوئی فائدہ نہیں پہنچائیں گے۔جو شخص تبرک حاصل کرنا چاہتا ہواسے رسول اللہﷺ کے حقیقی آثار میں سے کوئی شے حاصل ہو اور پھر وہ اسے استعمال بھی کرے محض دیکھ لینے سے کچھ فائدہ نہیں ہو گا۔ اور موجود دور میں نبی کریم ﷺ کی جن اشیاء سےتبرک لیا جائے ان کا ان صحیح سند کے ساتھ احادیث سے ثابت ہونا بھی ضروری ہے ۔جیسے عصر حاضر میں نعلین رسول ﷺ کا مسئلہ ہے ۔پاک وہند میں نقش نعلین کے متعلق بیان کیے جانے والے فضائل و مناقب خود ساختہ اور بناوٹی ہیں۔ احادیث میں ان کا کوئی سراغ نہیں ملتا ۔ یہ تمام نقش ہی جعلی اور بناوٹی ہیں۔خاص طور پر درمیان میں بڑا جوتا جو دور حاضر کی سوفٹی کی شکل پر تیار کیا گیا ہے۔ اس کے بناوٹی ہونے میں تو کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔کیونکہ حضرت انس جو نعلین کےکے نگران تھے۔ان سے کچھ بھی منقول نہیں ہے۔موجودہ دور میں کارڈز پر شائع کردہ تصاویر رسول اللہ ﷺ کی نعلین مبارک کی نہیں ہیں اور نہ ہی ان سے برکت حاصل کرنا جائز ہے۔اور ان کارڈز پر جو فضائل و مناقب درج کیے جاتے ہیں وہ حدیث کی کسی کتاب میں موجود نہیں ہیں۔بلکہ یہ خود ساختہ ہیں۔ ان سے عقیدہ کی خرابی لازم آتی ہے۔ایسے کارڈز کو اپنے پاس تبرک کے لیے رکھنا اور ان پر دعوت نامہ بنا کر تقسیم کرنا بھی درست نہیں ہے اور نہ ہی اسے عام کرنا جائز ہے کیونکہ ایسا کرنے سے بدعات کی اشاعت ہوتی ہے۔مختصر یہ کہ موجود ہ دور میں رسول اللہﷺ کا اصل تبرک یہ ہے کہ جو کچھ ہمیں آپ کے ذریعے اللہ کی طرف سے ملا ہے اس پر عمل کیا جائے اور آپ کی صورت و سیرت کی اتباع کی جائےتو اس دنیا و آخرت کی خیروبرکات سے ہم مشرف ہوں گے۔ زير تبصره كتاب ’’ اثر قدم رسول ﷺ کی تاریخ وشرعی حیثیت‘‘ شیخ الکل السید نذیر حسین محدث دہلوی کی اس موضوع پر مایہ ناز تصنیف الديل المحكم في نفي اثر القدم كا اردو ترجمہ ہے۔سیدصاحب نے یہ کتاب اس وقت دہلی میں قدم رسو ل ﷺ کے آثار پائے جانے کے اثبات پر جاری کے گئے فتویٰ کے جواب میں 1266ء میں تحریر کی اور اس میں اثر قدم رسول ﷺ کی تاریخی وشرعی حیثیت کو بڑے محققانہ انداز میں پیش کیا ۔ اصلاً یہ کتاب فارسی زبان میں تھی مدینہ یونیورسٹی کے فاضل جناب ابو القاسم عبد العظیم نے اس کتاب کو اردو قا لب میں ڈھالا اور اس پر حواشی بھی تحریر کیے اور اس کی تعریب بھی کی ۔کتاب پر محمد تنزیل الصدیقی الحسینی کی تقدیم وقیمتی حواشی، شیخ وصی اللہ محمد عباس بستوی (مدرس مسجد حرم مکی ) کی تقدیم ونظرثانی سے اس کی اہمیت وافادیت دوچند ہوگئی ہے۔یہ کتاب موجودہ دور میں مسئلہ نعلین کے متعلق سند کی حیثیت رکھتی ہے اللہ تعالیٰ اسے امت مسلمہ کی اصلاح کاذریعہ بنائے مترجم ، ناشر او راس کتاب کو شائع کرنے میں شامل تمام افراد کی جہود کو قبول فرمائے ۔صاحب کتاب کی قبر پر اپنی رحمتوں کی برکھا برسائے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلی وارفع مقام عطا فرمائے ۔(آمین)(م۔ا)
عناوین |
صفحہ نمبر |
کلمہ ناشر(شیخ ذوالفقار ابراہیم میمن الاثری) |
9 |
تعارف(فضیلۃ الشیخ وصی اللہ محمد عباس بستوی﷾) |
16 |
آثاررسول اللہﷺسےتبرک کاجواز |
18 |
سخن ہائےگفتنی(محمدتنزیل الصدیقی الحسینی) |
27 |
نقش قدم کاتصور |
27 |
نبی کریمﷺ کےمعجزات کےباب میں موضوع راویات |
29 |
استناد سےمحروم روایات پر خوش عقیدہ مسلمانوں کاعمل |
34 |
مظاہرشرک |
37 |
عالم اسلام میں قدم رسول کی زیارتیں |
42 |
برصغیر پاک وہندمیں نقوش قدم |
43 |
دہلی کانقش قدم |
46 |
قدم رسول ﷺسےمتعلق علمی مباحث |
48 |
قدم رسولﷺ سےمتعلق ہماراموقف |
53 |
شیخ الکل السید الامام نذیرحسین محدث دہلوی |
54 |
الدلیل المحکم فی نفی اثر القدم |
59 |
الدلیل المحکم فی نفی اثر القدم۔ ازشیخ الکل السید الامام نذیرحسین |
|
تمہید |
61 |
سبب تالیف رسالہ ہذا |
61 |
نشان قدم کامعجزہ ثابت نہیں |
62 |
وجہ اول |
75 |
وجہ دوم |
80 |
وجہ سوم |
104 |
شب معراج میں آپﷺکےنقش قدم کےواقعہ کی حقیقت |
105 |
ہندوستان کےدارالسلطنت دہلی میں موجودہ قدم شریف کی حقیقت |
107 |
کوٹلہ فیروزشاہ کےقدم شریف کی تاریخی حقیقت |
125 |
ان روایات پر نقدواعتراض |
129 |
پہلی وجہ |
129 |
دوسری وجہ |
130 |
تیسری وجہ |
132 |
چوتھی وجہ |
134 |
پانچویں وجہ |
135 |
فیروزشاہ اورفتح خان کاباہمی تعلق |
137 |
چھٹی وجہ |
139 |
ساتویں وجہ |
139 |
آٹھویں وجہ |
140 |
نویں وجہ |
141 |
خاتمۃ التالیف |
143 |
خاتمۃ الطبع |
143 |
خاتمۃ الترجمۃ |
144 |