مولانا ابو الکلام آزاد کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ امراض ملت کے ماہر طبیب تھے۔ علوم قدیم و جدید کی جامع ہستی تھے دنیائے اسلام کےجید عالم تھے۔وہ فلسفیانہ فکر اور مجتہدانہ دماغ کے حامل تھے۔ جنگ آزادی کے عظیم رہنما تھے۔ استقامت کے پہاڑ تھے۔ عفو و حلم کے پیکر تھے۔ مختلف علوم و فنون کے امام ، مجتہد ، دانائے راز، مفسرقرآن، محدث، مؤرخ و محقق،جاد و بیان مقرر شعلہ نوا خطیب ، مخلص و بےلوث زعیم تھے، ذہانت و زکاوت، فہم و فراست فکر و تدبرکی گہرائی ،دیدہ وری اور نکتہ رسی میں ان کا کوئی معاصر نہ تھا علوم اسلامیہ کا بحر زخائر تھے۔ اورعلم و فضل کے اعتبار سے اپنے دور میں ان کا کوئی ہم پلہ نہ تھا مولانا ابو الکلام سیاست میں بھی عبقری نہ تھے بلکہ علم میں بھی کامل اور فلسفہ و کلام کےبادشاہ تھے۔ خطابت میں جلال و جمال کی حسین آمیزش ، طرز نگارش والہانہ بھی اور عالمانہ بھی اس میں نقل بھی اور عقل بھی اور نظم و نثر میں بے مثل۔ مختصر یہ کہ مولانا ابو الکلام آزادجیسی جلیل القدر اور تادرہ روزگار ہستی اورعہد آفرین ہستی مدتوں بعدپیدا ہوتی ہے۔جو افکار و تصورات کی دنیا اور قوموں و ملتوں کی زندگی میں انقلاب برپا کر دیتی ہیں۔ اورتاریخ کانیادورشروع کرتی ہیں۔ اورتعمیر و ترقی کی ہر راہ میں اپنے نقش قدم رہنمائی کیلئے چھوڑجاتی ہیں۔
نام:مولانا ابو الکلا م آزاد کانام محی الدین احمدتھا تاریخی نام فروزبخت ہے۔
ولادت:17اکست 1888ءمیں مکہ معظمہ میں ہوئی بچپن مکہ مکرمہ اورمدینہ منورہ میں گزارا۔14 سال کی عمرمیں جامعہ ازہرمصرسےمشرقی علوم کانصاب پڑھا۔مولاناابوالکلام آزاد کی ادبی زندگی کاآغاز 15سال کی عمرمیں ہوا 20نومبر1903ء میں لسان الصدق کےنام سےایک ماہواررسالہ جاری کیا۔
مولانا حالی کی نظرسےیہ رسالہ گزارا توانہوں نےبہت تعریف کی۔
مولانا نےایک اخبارالہلال کےنام سےکللکتہ سےجاری کیا۔مولانا ابوالکلام آزاد نےایک تفسیرلکھی ’’ترجمان القرآن،،اس کوتفسیرکی بجائےترجمہ وحواشی کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔اس کےبعدحواشی ان کی مفسّرانہ بصیرت کےآئنیہ دارہیں۔اس کےعلاوہ مولانانے’’1۔تذکرہ،2۔،مسئلہ خلافت 3۔جزیرۃالعرب،4۔،قول وفعل ،5۔،جامع الشواہدفی غیرالمسلم فی المساجد،6۔،غیارخاطر،7۔،کاروان خیال،8۔،gadia wand freedomلکھی ہیں۔
وفات:مولاناابوالکلام آزاد نے22فروری 1958ءکوبروزہفتہ دہلی میں انتقال کیا اورجامع مسجدلال قلعہ کےدرمیان پریڈگراونڈ میں سپردخاک کیاگیا۔
حوالہ :تذکرۃالنبلاء فی تراجم العلماء از عبدالرشیدعراقی
انسانی زندگی کے آخری لمحات کوزندگی کے درد انگیز خلاصے سے تعبیر کیا جاتا ہے اس وقت بچپن سےلے کر اس آخری لمحے کےتمام بھلے اور برے اعمال پردۂ سکرین کی طرح آنکھوں کے سامنے نمودار ہونے لگتے ہیں ان اعمال کے مناظر کو دیکھ کر کبھی تو بے ساختہ انسان کی زبان سےدررد وعبرت کےچند جملے نکل جاتے ہیں اور کبھی یاس وحسرت کےچند آنسوں آنکھ سےٹپک پڑتے ہیں ۔کتاب ہذا کے مصنف ابواکلام آزاد کا نام برصغیر کی تاریخ میں سیاست،مذہب اور ادب کے حوالے سے کسی تعارف کا محتاج نہیں۔وہ ایک بلند پایہ ادیب،زیرک سیاستدان اور باعمل مذہبی سکالر اور رہنما تھے۔ ان کے شخصیت کے کئی پہلو تھے۔ زیر نظر کتاب’’انسانیت موت کےدروازے پر‘‘ میں انہوں نے انسانی زندگی کی فنا پذیری اور موت کو موضوع بنایا ہے۔انسانیت موت کی دہلیزپر میں انہوں نے انسانی تاریخ کی مشہور شخصیات کی کیفیات اور آخری کلمات بیان کیے ہیں جو انہوں نے مرتے وقت ادا کیے تھے۔موت سے کسی کو مفر نہیں اور قرآن کے مطابق ہر جان کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔چنانچہ بحیثیت مسلمان ہم سب کو آخرت کی تیاری کرنی چاہیے۔یہ کتا...
نبی کریمﷺ اورآپ کی امت کے بہت زیادہ فضائل و خصائص ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو دوستوں اور دشمنوں کے درمیان فرق بتانے کا ذمہ دار ٹھیرایا۔ اس لیے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ حضورﷺ پر اور جو کچھ وہ لائے ہیں اس پر ایمان نہ لائے اور ظاہر و باطن ان کی اتباع نہ کرے۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کی محبت اور ولایت کا دعویٰ کرے اور حضور نبی کریمﷺ کی پیروی نہ کرے وہ اولیاء اللہ میں سے نہیں ہے۔ بلکہ جو ان سے مخالف ہو تو وہ اولیاء الشیطان میں سے ہےنہ کہ اولیاء الرحمٰن میں سے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نےاپنی کتاب میں اوراپنے رسول ﷺ کی سنت میں بیان فرما دیا ہےکہ لوگوں میں سے اللہ تعالیٰ کے دوست بھی ہیں اور شیطان کے بھی اور اولیاء رحمٰن اور اولیاء شیطان کے درمیان جو فرق ہے وہ بھی ظاہر کردیا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ اولیاء اللہ واولیاء الشیطان ‘‘ امام الہند مولانا ابو الکلام آزاد کی تصنیف ہے ۔انہوں نے اس کتاب میں اللہ کےبندوں کا ایمان افروز تذکرہ اور شیطان کے دوستوں کے خوفناک انجام کو بیان کیا ہے ۔ قرآن کی زبان صداقت سے اولیاء اللہ اور اولیاء الش...
دینِ اسلام عقیدہ،عبادات،معاملات ،سیاسیات وغیرہ کا مجموعہ ہے ، لیکن عقیدہ اور پھر عبادات کامقام ومرتبہ اسلام میں سب سے بلند ہے کیونکہ عقیدہ پورے دین کی اساس اور جڑ ہے ۔اور عبادات کائنات کی تخلیق کا مقصد اصلی ہیں ۔ ایمان کے بالمقابل کفر ونفاق ہیں یہ دونوں چیزیں اسلام کے منافی ہیں۔اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسول کی تصدیقات ارکان ایمان ہیں۔قرآن مجیدکی متعدد آیات بالخصوص سورۂ بقرہ کی ایت 285 اور حدیث جبریل اور دیگر احادیث میں اس کی صراحت موجود ہے ۔لہذا اللہ تعالی اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اوراس کی طرف سے بھیجے ہوئے رسولوں کو تسلیم کرنا اور یوم حساب پر یقین کرنا کہ وہ آکر رہے گا اور نیک وبدعمل کا صلہ مل کر رہے گا۔ یہ امور ایمان کے بنیادی ارکان ہیں ۔ان کو ماننا ہر مومن پر واجب ہے ۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ایمان اور عقل‘‘ امام الہند مولانا ابو الکلام آزاد کی ایمانیات سے متعلق...
برصغیر پاک و ہند میں کچھ ایسی شخصیات نے جنم لیا جو علم و ادب اور صحافت کے افق پر ایک قطبی ستارے کی طرح نمودار ہوئے اور دیر تک چھائے رہے۔ ان شخصیات میں سے مولانا ابو الکلام آزادؒ سرِ فہرست ہیں، مولانا کو اللہ تعالیٰ نے بے پناہ صلاحیتوں سے نوازہ تھا۔ مولانا آزادؒ عربی، اردو، فارسی اور انگریزی کے عظیم سکالر تھے، آپ نہایت ہی زیرک اور بے باک انسان تھے۔ جب فرنگی حکومت نے ایک منصوبہ کے تحت تقسیم برصغیر کا پروگرام بنایا اور ان کا ارادہ تھا کہ مسلمان پسماندہ ہیں اس لیے ان کو چند ایک رعایتوں کے ساتھ اپنا آلہ کار بنا لیا جائے گا۔ مولانا آزادؒ نے جب برطانوی حکومت کی چالوں میں شدّت محسوس کی تو برصغیر کے مسلمانوں کو اس خطرناک چال سے بچانے کے لیے مولانا نے باقاعدہ کوششیں کیں۔ مولانا یہ چاہتے تھے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی نو(9) کروڑ سے زیادہ ہے اور وہ اپنی اس زبردست تعداد کے ساتھ ایسی مذہبی و معاشرتی صفات کے حامل ہیں کہ ہندوستان کی قومی و وطنی زندگی میں فیصلہ کن اثرات ڈال سکتے ہیں۔ مولانا کا یہ نظریہ تھا کہ اگر آج ہندوستان کے مسلمان ایک الگ ملک حاصل کر ل...
زندگی ایک سفر ہے اور انسان عالم بقا کی طرف رواں دواں ہے ۔ ہر سانس عمر کو کم اور ہر قدم انسان کی منزل کو قریب تر کر رہا ہے ۔ عقل مند مسافر اپنے کام سے فراغت کے بعد اپنے گھر کی طرف واپسی کی فکر کرتے ہیں ، وہ نہ پردیس میں دل لگاتے اور نہ ہی اپنے فرائض سے بے خبر شہر کی رنگینیوں اور بھول بھلیوں میں الجھ کر رہ جاتے ہیں ہماری اصل منزل اور ہمارا اپنا گھر جنت ہے ۔ ہمیں اللہ تعالیٰ نے ایک ذمہ داری سونپ کر ایک محدود وقت کیلئے اس سفر پر روانہ کیا ہے ۔ عقل مندی کا تقاضا تو یہی ہے کہ ہم اپنے ہی گھر واپس جائیں کیونکہ دوسروں کے گھروں میں جانے والوں کو کوئی بھی دانا نہیں کہتا۔انسان کوسونپی گئی ذمہ داری اورانسانی زندگی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی عبادت کرکے اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا ہے۔ انسان زندگی کے آخری لمحات کو زندگی کے درد انگیز خلاصے سے تعبیر کیا جاسکتا ہے اس وقت بچپن سے لے کر آخری لمحہ تک کےتمام بھلے اور برے اعمال پردۂ سکرین کی طرح آنکھوں کے سامنے نمودار ہونے لگتے ہیں ان اعمال کے مناظر کودیکھ کر کبھی توبے ساختہ انسان کی زبان سے درد وعبرت کےچند جملے...
اس روئے ارضی پر انسانی ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ کے بعد حضرت محمد ﷺ ہی ،وہ کامل ترین ہستی ہیں جن کی زندگی اپنے اندر عالمِ انسانیت کی مکمل رہنمائی کا پور سامان رکھتی ہے ۔ رہبر انسانیت سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ قیامت تک آنے والےانسانوں کےلیے’’اسوۂ حسنہ‘‘ ہیں ۔ گزشتہ چودہ صدیوں میں اس ہادئ کامل ﷺ کی سیرت وصورت پر ہزاروں کتابیں اورلاکھوں مضامین لکھے جا چکے ہیں ۔اورکئی ادارے صرف سیرت نگاری پر کام کرنے کےلیےمعرض وجود میں آئے ۔اور پورے عالمِ اسلام میں سیرت النبی ﷺ کے مختلف گوشوں پر سالانہ کانفرنسوں اور سیمینار کا انعقاد کیا جاتاہے جس میں مختلف اہل علم اپنے تحریری مقالات پیش کرتے ہیں۔ ہنوذ یہ سلسلہ جاری وساری ہے ۔ زیر نظر کتاب’’پیغمبر اسلام ﷺکی سیرت کے عملی پہلو‘‘مولانا ابوالکلام آزاد کے سیرت النبی ﷺ سے متعلق مختلف مواقع پر لکھے گئے ایسے مضامین کا انتخاب ہے جو مس...