ویسے تو نبی کریم ﷺ کی تمام باتیں اور وصیتیں اپنے موقع محل میں نہایت ہی اہمیت کی حامل ہیں او رآ پ کے ارشادات وفرمودات وہ مشعل ہدایت ہیں جن کی روشنی میں انسان کو اپنی فلاح وبہبود کی منزلیں نظر آتی ہیں ۔ آپ کی ہر پند ونصیحت میں اسرار وحکم کے سمندر موجزن ہیں۔ آپ کاکوئی بھی ارشاد حکمت ومصلحت سے خالی نہیں۔ اور کیوں نہ ہو جب کہ آپ ﷺ کی مقدس زبان وحی کی ترجمان ہے ۔ آپ کی زبان مبارک سے وہی باتیں نکلتی ہیں جو اللہ چاہتا ہے۔اس لیے آپﷺ کا ہر قول اور فرمان انسان کےلیے متاع دنیا وآخرت ہے ۔نبی کریم ﷺ کسی تجربہ او رمشاورت کے ساتھ نہیں بلکہ وحیِ الٰہی کی بنیاد پر مخاطبین کووصیت کیا کرتے تھے ۔یہ وصیتیں صرف مخصوص افراد ومخاطبین ہی کے لیے نہیں بیان کی گئیں بلکہ ان کےذریعے سے پوری امت کو خطاب کیا گیا ہے۔ان وصیتوں میں مخاطبین کی دنیا وآخرت دونوں کی سربلندی اور فلاح ونجات کاسامان موجود ہے ۔جو یقیناً تاقیامت آنے والوں کےلیے سر چشمہ ہدایت ونجات ہے ۔اور ان وصیتوں کی ایک نمایاں خوبی الفاظ میں اختصار اورمعانی ومطالب کی وسعت وجامعیت ہے جو نبی کریم ﷺ کے معجزۂ الٰہیہ’’جوامع الکلم‘‘ کا نتیجہ ہے ۔ زیر تبصرہ کتاب ’’محسن انسانیت کا سفر آخرت اور وصیتیں ‘‘ صلاح بن فتحی ابو خبیب کی عربی تصنیف ’’مرض النبی ﷺ ووصایا عند موتہ ‘‘ کا اردو ترجمہ ہے جسے جامعہ دار العلوم ، کراچی کے استاذ جناب مولانا محمد زکریا اقبال نے اردو قالب میں ڈھالا ہے ۔ فاضل مصنف نے اس مختصر کتاب میں نبی اکرم ﷺ کی وفات کےمتعلق احادیث نبویہ ﷺ کے اصل ذخیرہ اورمآخذ سے وہ منتخب احادیث جمع کی ہیں جو رسول اکرم ﷺ کے مرض وفات اوردنیا سےپردہ فرمانے کےاحوال اوراس وقت آپ نے صحابہ کرام اوراپنی امت کےلیے جو وصیتیں کی انہیں اس کتاب میں جمع کرکیا ہے ۔(م۔ا)
فہرست زیر تکمیل