زیر تبصرہ چودہ صفحات پر مشتمل یہ چھوٹا سا کتابچہ ’’علم الکلام فلسفہ ومنطق کی مذمت اور مشہور منطق پرستوں کی توبہ‘‘سعودی عرب کے معروف عالم دین شیخ عبد المحسن العباد کی کتاب قطف الجنی الدانی شرح مقدمۃ القیروانی صفحہ 54 تا 61 سے ماخوذ ہے اور ترجمہ کی سعادت محترم طارق علی بروہی نے حاصل کی ہے۔اس میں موصوف نے پہلے حصہ میں مختلف علماء سلف مثلا امام شافعی، امام احمد بن حنبل ،امام ابو یوسف اور امام ذہبی وغیرہ جیسے اہل علم کے اقوال کی روشنی میں علم الکلام فلسفہ ومنطق کی مذمت پر استدلال کیا ہے اور اس کی خرابی کو واضح کیا ہے۔ اور دوسرے حصے میں مشہور منطق پرستوں کی توبہ اور رجوع الی الحق کے واقعات کو بیان کیا ہے۔یہ کتابچہ اپنے موضوع پر ایک مفید اور راہنما تحریر ہے ۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ اس کے فائدے کو عام کردے اور مسلمانوں کو منطق وفلسفہ جیسی فضولیات میں پڑنے کی بجائے براہ راست قرآن وحدیث پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔(راسخ)
مسلم معاشروں میں ہر قسم کا فسق وفجور اپنی بدترین حالت میں پھیلا ہوا ہے جبکہ حق بات کہنے والے اور کتاب وسنت سے تمسک اختیار کرنے والے بلحاظ تعداد انتہائی قلیل ہیں- امت مسلمہ میں بہت سے فرقے جنم لے چکے ہیں لیکن حضور نبی کریم ﷺ کے فرمان کے مطابق ان میں سے فرقہ ناجیہ وہی ہے جس پر کتاب وسنت کی مہرتصدیق ثبت ہو-زیر نظر مختصر رسالہ اصل میں علامہ البانی ؒ کا ٹیلی فونک خطاب ہے جس کو بعد میں تحریر کی شکل دی گئی اس میں انہوں نے امت مسلمہ کو بیش قیمت پندو نصائح کی ہیں جو بہت ہی اہم ہیں-اس میں علامہ ناصر الدین البانی نے اہل اسلام کے لیے نجات کے واحد راستے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے مسلم امہ کے زوال کے اسباب تفصیل کے ساتھ بیان کیے ہیں-اس کے علاوہ موصوف نے امت مسلمہ کو لاحق ہونے والے امراض اور ان سے سبیل نجات کیا ہوسکتا ہے کی انتہائی علمی اور محققانہ انداز میں وضاحت کی ہے-کتاب کے آخر میں بیع عینہ اور اسلام کی درست تعبیر کے لیے مسلمانوں کے لیے فہم سلف یا فہم خلف ضروری ہے، کی بھی وضاحت کی گئی ہے-
یہ ایک عظیم انتہاہی اورنفع بخش رسالہ ہےجو ایک سوال کا جواب ہے جسے محدث عصرشیخ ناصرالدین البانی ؒ نے دیا ہے او روہ سوال مجمل طور پر مندرجہ ذیل ہے ۔وہ کیا طریقہ کار ہے جومسلمانوں کو عروج کی طرف لے جائے اور وہ کیا راستہ ہے کہ جسے اختیار کرنے پراللہ تعالی انہیں زمین پر غلبہ عطاکرے گا اور دیگر امتوں کے درمیان جوان کا شایان شان مقام ہے اس پر فائز کرے گاپس علامہ البانی ؒ نے اس سوال کا نہایت ہی مفصل اور واضح جواب ارشاد فرمایاجس کی افادیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے قارئین کی خدمت میں یہ رسالہ پیش کیا جارہاہے نہایت ہی مفید مضمون ہے ۔
علامہ ناصر الدین البانی عالم اسلام کی مشہور و معروف علمی شخصیت ہیں۔ آپ نے کتب کی شکل میں جو ورثہ چھوڑا ہے اس کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔ بہت سے علماے کرام علامہ موصوف کو گزشتہ صدی کا مجدد قرار دیتے ہیں۔ زیر مطالعہ کتابچہ دراصل ایک ٹیلی فونک خطاب ہے جو شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ کے وعظ و نصیحت پر مشتمل ہے۔ 70 صفحات پر مشتمل اس کتابچہ میں شیخ صاحب نے امت مسلمہ کے لیے اپنا کھویا ہوا وقار اور عروج حاصل کرنے کی صحیح سمت متعین کرنے کی کوشش کی ہے، جوکہ آپ کی علمی بصیرت اور امت کے لیے پرخلوص خیر خواہی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ علامہ صاحب کا کہنا ہے کہ امت مسلمہ کی مشکلات کا واحد حل فہم سلف کے مطابق کتاب و سنت کے ساتھ تمسک یعنی سلفی منہج اختیار کرنے میں ہے۔ کتابچہ کے شروع میں مختصر انداز میں علامہ صاحب کی زندگی کے چند گوشوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ آخر میں اپنے آپ کو سلفی کہلانے کے موضوع پر ایک دلچسپ مکالمہ نقل کیا گیا ہے جو شیخ صاحب کا ایک دوسرے سلفی صاحب کے ساتھ ہوا۔ یہ مکالمہ ہر خاص و عام کو مطالعہ کرنا چاہیے جس سے بہت سے اشکالات رفع ہوں گے۔ (ع۔م)
علامہ شیخ محمد ناصر الدین البانی عصر حاضر میں مسلمانوں کے نامور علماء کرام میں سے ہیں۔آپ علم حدیث کے ان نمایاں علماء کرام میں سے شمار کئے جاتے ہیں،جو فن جرح وتعدیل میں یگانہ روز گار شمار کئے جاتے ہیں۔آپ مصطلح الحدیث میں حجت مانے جاتے ہیں۔ان کے بارے میں اہل علم فرماتے ہیں کہ انہوں نے حافظ ابن حجر اور حافظ ابن کثیر وغیرہ جیسے علماء جرح وتعدیل کے دور پھر سے زندہ کردیا ہے۔زیر تبصرہ مضمون " مختصر سیرت محدث امام مجدد محمد ناصر الدین البانی"محترم طارق علی بروہی کی کاوش ہے ،جس میں انہوں نے اس عظیم الشان محدث اور عالم دین کی زندگی اور سیرت کو قلمبند کیا ہے،تا کہ حدیث کے طالب علم ان کی مانند اپنی زندگی کو خدمت حدیث میں کھپا دیں اور حدیث مبارکہ میں محدثین کے اصولوں کو پیش نظر رکھیں۔اللہ تعالی مولف کو جزائے خیر سے نوازے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
عقیدے کے مسائل بلا شبہ بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔اور تمام مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ اس کی تعلیم تمام ابواب ومسائل کے ساتھ اہل علم سے حاصل کریں۔یہ بات کافی نہیں ہے کہ ادھر ادھر سے بلا ترتیب افراتفری میں عقیدے سے متعلق سوالات کئے جائیں،کیونکہ جس قدر بھی کثرت سے سوالات کئے جائیں اور ان کے جواب حاصل کئے جائیں،قریب ہے کہ جہالت اور بھی بڑھ جائے ۔لہذا جو لوگ خود اپنے آپ کو اور اپنے مسلمانوں بھائیوں کو صحیح معنوں میں نفع پہنچانا چاہتے ہیں ،ان پر واجب ہے کہ وہ معروف اہل علم سے اول تا آخر عقیدہ کا علم حاصل کریں،اور اس کو تمام ابواب ومسائل کے ساتھ جمع کریں۔ساتھ ہی اسے اہل علم اور اسلاف کی کتب سے حاصل کریں۔اس طریقے سے جہالت بھی دور ہو جائے گی اور کثرت سوالات کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی۔پھر وہ لوگوں کو تعلیم دینے اور ان کے سوالات کو حل کرنے کے اہل ہو جائیں گے۔زیر تبصرہ کتاب (علم عقیدہ کی تحصیل کے آداب مع کفر وایمان سے متعلق اہم سوال وجواب) بھی عقیدے کے چند اہم مسائل پر مشتمل ہے ،جو سعودی عرب کے معروف عالم دین فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان ﷾ کی کاوش ہے۔اس میں انہوں ن...
سورۂ فاتحہ کو الفاتحہ اس لیے کہا جاتاہے کہ اس کے ساتھ قرآن کا آغاز ہوتا ہے اور یہ سورۃ سب سے پہلے نازل ہونے والی کامل سورت ہے۔ اس سورت کے بارے میں علماء کرام فرماتے ہیں کہ: کہ مکمل قرآن کریم کےمجمل معانی کوشامل ہے جس میں توحید، احکام ،جزاء اور بنی آدم کےاختیار کردہ راستوں وغیرہ کا ذکر ہے اسی لیےاسے ’’ام القرآن‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس سورت کے بہت سے امتیازات ہیں جن کی وجہ سے یہ دوسری سورتوں سے ممتاز ہے۔ نماز کے مختلف فیہ مسا ئل میں سے ایک مسئلہ فاتحہ خلف الامام کا ہے کہ امام کے پیچھے مقتدی سورۃ الفاتحہ پڑھے گا یا نہیں پڑھے گا۔ ہمارے علم کے مطابق فرض نفل سمیت ہر نماز کی ہر رکعت میں سورۃ الفاتحہ پڑھنا فرض اور واجب ہے، نمازی خواہ منفرد ہو،امام ہو یا مقتدی ہو۔کیونکہ سورۃ الفاتحہ نماز کے ارکان میں سے ایک رکن ہے اور اس کے بغیر نماز نامکمل رہتی ہے۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اس شخص کی کوئی نماز نہیں جس نے اس میں فاتحۃ الکتاب نہیں پڑھی۔دوسری جگہ فرمایا: “جس نے أم القرآن (یعنی سورۃ الفاتحہ)پڑھے بغیرنماز ادا کی تو وہ نماز ناقص ہے، ناقص ہے، ناقص...
اسلام کی ابتدائی تاریخ کے خلفاء اربعہ کو’’خلفائے راشدین ‘‘ کہا جاتا ہے ۔یہ خلفاء کرام عہد نبوت میں ہی ہر لحاظ سے دیگر صحابہ کرام کےمقابلے میں ایک امتیازی شان و مقام رکھتےتھے ۔تمام صحابہ کرام کو عمومی طور پر اور خلفائے راشدین کو خصوصی طور پر ، امت میں جو مقام و مرتبہ حاصل ہے ، اس کے بارے میں صرف اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ انبیاء کرام کے بعدیہ مقدس ترین جماعت تھی جس نے خاتم الانبیاء محمد رسول اللہ ﷺکی رسالت کی تصدیق کی ، آپﷺ کی دعوت پر لبیک کہا ، اپنی جان و مال سے آپﷺکا دفاع کیا ، راہِ حق میں بے مثال قربانیاں دیں ، نبی اکرم ﷺ کے اسوۂ حسنہ کی بے چوں وچراں پیروی کی اور آپﷺ کی رحلت کے بعد اپنے عقیدہ وعمل کے ذریعے اس آخری دین اور اس کی تعلیمات کی حفاظت کی۔صحیح احادیث میں خلفائے راشدینکے جو فضائل بیان ہوئے ہیں ، وہ ہمارے لیے کافی ہیں۔اس لیے کہ جہاں ہم ان کے ذریعے صحابہ کرامکے حقیقی مقام و مرتبہ کو جان سکتے ہیں وہیں ان کی عقیدت میں غلو کے فساد سے بھی محفوظ رہ سکتے ہیں۔ زیر نظرکتابچہ’’مختصر س...