نام: محمدبن عبدللہ۔
ولدیت: عبداللہ۔ ولادت:ولی الدین محمدبن عبداللہ الخطیب التبریزی 741 ہجری میں پیدا ہوئے۔
کنیت: ابوعبداللہ محمدبن عبداللہ آٹھویں صدی کے مشہور محدث ہیں۔
تصانیف:
خطیب تبریزی کی تالیف میں سےہم تک صرف مشکوۃ المصابیح اورالاکمال فی اسماءالرجال پہنچی ہیں۔
مشکوۃ المصابیح ایک زبردست کتاب ہےاس میں امام صاحب کااسلوب تالیف بڑاپیارا ہے۔امام بغوی کی کتاب مصابیخ السنہ کی کرتےہوئے اس صحابی کانام ذکرکیا ہےجس سےحدیث مروی تھی اوریہ بھی واضح کیاہےکہ یہ روایت حدیث کی فلاں کتاب میں ہے۔نیز ہر با ب میں عام طور پرتیسری فصل کااضافہ کیاہےجس میں ذکرکروہ احادیث حسن اورضعیف درجہ کی ہیں۔اس فصل میں مرفوع احادیث ذکرنےکاالتزام نہیں ہے۔چنانچہ صحابہ کرام اور تابعین عظام کےاقوال بھی کہیں کہیں ذکرہوتےہیں ۔صاحب مشکوۃ نےاپنی کتاب کانام مشکاۃالمصابیح اس لیے رکھاہےکہ مشکوۃدیوارمیں لگےاس طاقچہ کوکہتےہیں جس میں چراغ رکھاجاتاہے۔تشبیہ کی صورت یہ ہےکہ جس طرح طا قچہ میں چراغ رکھاجاتاہےاس طرح امام محمدبن عبداللہ خطیب تبریزی نےمصابیح السنہ کومشکوۃمیں رکھ دیا ہے۔
کلمات ثناء:
امام صاحب آٹھویں صدی ہجری کےبلندپایہ محدث ہیں۔اللہ تعالی نےان کوعزت مقام اورشرف سےنوازہ ہےان کی کتاب مشکوۃ عام وخوائص میں مقبول ہے۔اوراس کی بہت سی شروحات لکھی گئی ہیں اوراس کےاردو ترجم بھی کیےگئےہیں سب سےپہلے سیدعبدالاول بن شیخ عبداللہ غزنوی نے الرحمة المهدة الیٰ من یريهترجمہ المشکوۃ کےنام سےاس کااردوترجمہ کیااوریہ سب سےپہلے ترجمہ تھااس کےبعداوربھی حضرات نےاس جلیل القدر محدث کی کتاب کےاردو تراجم لکھےہیں نیزاس کتاب کاانگریزی زبان میں ترجمہ 1809ءمیں کلکتہ میں ہوا۔
امام محمدبن عبداللہ خطیب تبریزی اپنی کتاب مشکوۃ کی کتابت سے 737ہجری میں فارغ ہوئے۔
اس وقت آپ کے سامنے ’مشکوٰۃ المصابیح‘ کا اردو ترجمہ ہے۔ ’مشکوٰۃ المصابیح‘ احادیث کا وہ مجموعہ ہےجسے امام بغوی نے ’مصابیح السنۃ‘ کے نام سے حدیث کی مشہور کتابوں صحاح ستہ، مؤطا امام مالک، مسند امام احمد ، سنن بیہقی اور دیگر کتب احادیث سے منتخب کیا ہے۔ پھر خطیب تبریزی نے ’مصابیح السنۃ‘ کی تکمیل کرتے ہوئے اس میں کچھ اضافہ کیا۔ اور راوی حدیث صحابی کا نام اور حدیث کی تخریج کی۔مزید برآں ہر فصل میں ایک باب کا اضافہ کیا۔’مشکوۃ المصابیح‘ کو تین فصول میں تقسیم کیا گیا ہےپہلی فصل میں صحیح بخاری و مسلم کی احادیث بیان کی گئی ہیں۔ دوسری فصل میں وہ احادیث ہیں جن کو دیگر ائمہ نے اپنی کتب میں نقل کیا ہے۔ تیسری فصل میں شروط کے تحت ایسی چیزیں شامل ہیں جن میں باب کا مضمون پایا جاتا ہے۔ ’مشکوۃ المصابیح‘ کی افادیت کے پیش نظر اس کے متعدداردو تراجم شائع ہوچکے ہیں۔ اس کا پیش نظر اردو قالب مولانا صادق خلیل مرحوم کی انتھک محنت کا ثمرہ ہے۔ خدا ان کو غریق رحمت کرے...
’مشکوۃ المصابیح ‘ مختلف کتب احادیث سے منتخب احادیث کے مجموعے کا نام ہے۔ در اصل امام بغوی ؒ نے ’مصابیح السنۃ‘ کے نام سے حدیث کی مشہور کتابوں صحاح ستہ، مؤطا امام مالک، مسند امام احمد، مسند امام شافعی، سنن بیہقی، سنن دارمی اور دیگر کتب احادیث سے منتخب کیا تھا۔ اس کے بعد خطیب تبریزی ؒ نے اس کتاب کی تکمیل کرتے ہوئے اس میں کچھ اضافہ کیا۔ مثلاً یہ حدیث فلاں صحابی سے مروی ہے، ہر باب میں تیسری فصل کا اضافہ کیا اور اصل کتاب کا حوالہ دیا۔ اور اس کتاب کا نام ’مشکوۃ المصابیح‘ رکھا۔ اس وقت آپ کے سامنے مشکوۃ المصابیح اردوترجمہ کے ساتھ موجود ہے۔ کتاب کی افادیت اس اعتبار سے بہت بڑھ گئی ہے کہ ترجمہ شیخ الحدیث مولانا اسماعیل سلفی رحمۃ اللہ علیہ نے کیا ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ ضروری جگہوں پر حاشیہ کی بھی اہتمام کیا ہے۔(ع۔م)
مشکوٰۃ المصابیح مسائل میں احادیث کاوہ بہترین مجموعہ ہے کہ جس میں محمد بن عبداللہ التبریزی نے بہترین ترتیب کے ساتھ مسند کتب حدیث سےسينكڑوں روایات کومتعلقہ مسائل کےتحت نقل کردیا ہے۔مشکوٰۃ کی تخریج و تحقیق اگرچہ علامہ ناصر الدین البانی کر چکے ہیں۔ او راب حافظ زبیرعلی زئی حفظہ اللہ جو کہ فن اسماء الرجال میں منجھی ہوئی شخصیت ہیں ۔زیر نظر کتاب انہی کی تخریج و تحقیق او رفوائد پر مشتمل ہے جس میں انہوں نے مشکوٰۃ میں درج ہر حدیث کا فن جرح و تعدیل کی روشنی میں جائزہ لیا ہے اور ان پر صحت و ضعف کا حکم لگایا ہے۔ احادیث کی استنادی حالت کو جانچنے کے لیےنہایت عمدہ تحریر ہے۔(ک۔ط)
اللہ تعالی کی رسی یعنی قرآن کریم کے ساتھ انسان کا تعلق اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتا جب تک قرآن کریم کی تشریح وتفسیر رسول اللہ ﷺ کی سنت ،حدیث یعنی آپ کے طریقہ سے نہ ہو اور آپ ﷺ کےطریقہ کےساتھ وابستہ ہونا اس وقت تک ناممکن ہے جب تک اس علم پر عمل نہ کیا جائے ۔کتبِ حدیث کے مجموعات میں سے ایک مجموعۂ حدیث ’’مشکاۃ المصابیح‘‘ کے نام سے معروف ہے ۔مشکاۃ المصابیح احادیث نبویہ ﷺ کا انمول ذخیرہ ہے جسے امام بغوی نے ’مصابیح السنۃ‘ کے نام سے حدیث کی مشہور کتابوں صحاح ستہ، مؤطا امام مالک، مسند امام احمد ، سنن بیہقی اور دیگر کتب احادیث سے منتخب کیا ہے۔ پھر علامہ خطیب تبریزی نے ’مصابیح السنۃ‘ کی تکمیل کرتے ہوئے اس میں کچھ اضافہ کیا۔ اور راوی حدیث صحابی کا نام اور حدیث کی تخریج کی اور اس کو تین فصول میں تقسیم کیا ۔اس کتاب کی افادیت کے پیش نظر اس کے متعدداردو تراجم کیے گئے اور جید علماء ک...
مشکوٰۃ المصابیح حدیث کی ایک معروف کتاب ہے۔ جسے اس کی تالیف کے دور سے ہی اس قدرشرفِ قبولیت حاصل ہے کہ بہت سے لوگوں نے اس کی شروحات ،تعلیقات اور حواشی لکھے حتی خود مصنف کے استاذ محترم نے بھی اپنے لائق شاگرد کی تالیف کی ایک جامع شرح قلمبند فرمائی۔ یہ اعزاز بہت ہی کم لوگوں حاصل ہوا ہوگا۔’’مشکوٰۃ المصابیح‘‘ دراصل دوکتابوں کا مجموعہ ہے ایک کا نام مصابیح السنہ اور دوسری کا نام مشکوٰۃ ہے۔کتبِ حدیث کےمجموعات میں اس کا نام سر فہرست ہے او ربہت سے دینی مدارس میں یہ کتاب شاملِ نصاب ہے ۔اس لیے بہت سے اہل علم نے اس کی عربی ،اردو زبان میں شروحات اور حواشی لکھے ہیں ۔ صاحب مشکوٰۃ نے احادیث مشکوٰۃ کے راویوں اورمخرجین کے علاوہ ااحادیث کےضمن میں آنے والی شخصیات کا بھی ایک الگ کتاب میں بالاختصار تذکرہ کیا ہے جس کا نام ’’ الاکمال فی اسماء الرجال‘‘ہے مدارسِ اسلامیہ میں پڑھائے جانے والے درسی نسخہ کےآخر میں یہ کتاب مطبوع ہے ۔مشکوٰۃ پڑھنے والے ہر...
ادلہ شرعیہ اور مصادر شریعت کے تذکرے میں قرآن کریم کے بعد حدیث رسول ﷺ کا نمبر آتا ہے۔یعنی قرآن کریم کے بعد شریعت اسلامیہ کا یہ دوسرا ماخذ ہے۔حدیث کا اطلاق رسول اللہ ﷺ کے اُمور،افعال اور تقریرات پر ہوتا ہے۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے اس منصب کے مطابق (جو اللہ پاک نے عطا کیا) توضیح وتشریح کی اور اس کے اجمالات کی تفصیل بیان فرمائی ،جیسے نماز کی تعداد اور رکعات،اس کے اوقات اور نماز کی وضع وہیت،زکوۃ کا نصاب،اس کی شرح،اس کی ادائیگی کا وقت اور دیگر تفصیلات،قرآن کریم کے بیان کردہ اجمالات کی یہ تفسیر وتوضیح نبوی،امت مسلمہ میں حجت سمجھی گئی اور قرآن کریم ہی کی طرح اسے واجب الاطاعت تسلیم کیا گیا۔یہی وجہ ہے کہ نماز زکوۃ کی یہ شکلیں عہد نبوی ﷺ سے آج تک مسلم ومتواتر چلی آرہی ہیں۔اس میں کسی نے اختلاف نہیں کیا۔ زیرِ تبصرہ کتاب ’’ انوار المصابیح شرح مشکوٰۃ المصابیح‘‘ شیخ الحدیث مولانا عبد السلام بستوی کی ہے ۔مولانا صاحب اس کتاب کو الگ الگ پاروں میں شائع کر رہے تھےجیسے ہی ایک پارہ ہوتا شائع کر دیتے ۔ گیارہ پارے ہوئے تھے کہ اللہ رب العزت کا بلاوا آ گی...