کسی بھی معاشرے کی تعمیر کے لیے یہ عنصر خصوصی اہمیت کا حامل ہے کہ معاشرہ اپنی تاریخی روایات سے سبق سیکھتا رہے۔ تاریخ ہی اس بات سے پردہ اٹھاتی ہے کہ کن اسباب کی بناء پر ایک قوم ترقی کرتی ہے کس قسم کے نقائص کی وجہ سے ایک قوم زبوں حالی کا شکار ہو جاتی ہے۔ ’تاریخ ابن خلدون‘ کی تیسری جلد کا پہلا حصہ آپ کے سامنے ہے جس میں اسلامی تاریخ کے نہایت درخشاں دور کو صفحہ قرطاس پر بکھیرا گیا ہے۔ علامہ عبدالرحمن ابن خلدون نے نہایت خوبصورتی کے ساتھ زمانہ قبل ازاسلام کے واقعات کو مختصراً قلمبند کرنے کے بعد ولادت رسول ﷺ سے لے کر وفات تک کے تمام قابل ذکر واقعات کو بیان کیا ہے۔ اس کے بعد خلفائے راشدین کے زریں عہد خلافت پر روشنی ڈالی گئی ہے اس میں خلفائے راشدین کی زندگیوں، ان کے دور میں ہونے والی فتوحات اور مسلمانوں کے کارناموں کو پوری تفصیل و توضیح کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ اس حصے کے ترجمے کے لیے حکیم احمد حسین الہ آبادی کی خدمات حاصل کی گئی ہیں اور ترتیب و تبویب کے فرائض شبیر حسین قریشی نے بخوبی نبھائے ہیں۔
...’تاریخ ابن خلدون‘ کے گذشتہ حصہ میں رسول ﷺ اور خلفائے راشدین کی زندگی کے مختلف گوشےواکرتے ہوئے تاریخی حقائق سے نقاب کشائی گئی تھی۔ ’تاریخ ابن خلدون‘ کی زیر مطالعہ جلد میں خلفائے راشدین کے دور خلافت کے بعد 41 ھجری میں حضرت حسن کی صلح اور حضرت معاویہ کی خلافت عامہ سے لے کر 132ھ تک کے مکمل حالات کو قلمبند کیا گیا ہے۔ ہمارے ہاں عام طور پر خلافت راشدہ کے بعد قائم ہونے والی 91 سالہ خلافت کو مسخ کر کے ایک مخصوص رنگ میں پیش کیا جاتا ہے۔ لیکن علامہ ابن خلدون کی تاریخ کے زیر نظر حصہ کے مطالعہ کےبعد اندازہ ہوتا ہے کہ درحقیقت یہ زمانہ ہماری تاریخ کا اہم ترین دور ہے اور یہ زمانہ تمدن آفرینی اور کشور کشائی کے اعتبار سے بہترین زمانہ ہے۔ کتاب میں اس دور حکمرانی میں پیش آنے والےتمام تر واقعات و سانحات کوغیر جانبداری کےساتھ سپرد قلم کیا گیا ہے۔
132ھ میں مروان بن الحکم کی اولاد میں سے آخری فرماں روا مروان ثانی کو قتل کر دیا گیا اس کے قتل کے ساتھ مروانی دور حکومت اپنے اختتام کو پہنچا اور عباسی خلفاء کا دور شروع ہوا۔ ’تاریخ ابن خلدون‘ کے اس حصہ کی ابتدا آل مروان سے بنو عباس کی طرف خلافت کی منتقلی سے ہوتی ہے۔ کس طرح اقتدار مروانی خلفاء کے ہاتھوں سے نکل کر عباسی خلفاء میں آیا اور عباسی خلافت کن حالات میں قائم ہوئی اور کیسے قائم ہوئی ، کن کن مؤثرات نے کام کیا، کون کونسی تحریکیں چلائی گئیں ان سب حقائق سے آگاہی حاصل ہوگی ’تاریخ ابن خلدون‘ کےاس حصہ سے۔ آپ جہاں یہ دیکھ سکیں گے کہ خلافت بنی عباس کن حالات اور کن اسباب کی بناء پر قائم ہو سکی وہاں آپ سے وہ اسباب بھی پوشیدہ نہ رہ سک...
’تاریخ ابن خلدون‘ کا یہ حصہ خلافت بنی عباس کے ساتھ منسلک ہے پہلے حصے میں خلافت بنو عباس کی ابتدا سے لے کر احمد بن متوکل معتمد علی اللہ کے عہد تک کی مکمل داستان رقم کی گئی تھی۔ کتاب کا یہ حصہ احمد بن موفق معتضد باللہ کی خلافت سے لے کر بنی عباس کے آخری خلیفہ احمد بن ابو بن علی حسن حاکم بامر اللہ کی خلافت تک کے تمام حالات و واقعات پر مشتمل ہے۔ علامہ ابن خلدون نے زوال بغداد کی ابتداء سے اس وقت تک کے واقعات، حوادث اور عبر کو اپنی خداد داد قابلیت اور حقیقت شناسی کے ساتھ بیان کیا ہے جبکہ زوال بغداد اپنی انتہا کو پہنچ کر ہلاکو خان کی صورت میں بغداد آ پہنچا اور خواجہ نصیر الدین کی آتش انتقام بھڑک کر سوا پانچ سو سال پرانے تہذیب و تمدن کو سیاہ کر گئی۔
افریقہ کے نامور گورنر اور یورپ کے فاتح موسیٰ بن نصیر کے جواں سال لیفٹیننٹ نے صرف سات ہزار مجاہدوں کے ساتھ بحیرہ روم پار کر کے اندلس کی تسخیر کے بعد صدیوں پرانی تاریخ کا رخ ہی بدل ڈالا۔ کائنات کے پر اسرار شہسواروں کے قدم ابھی پوری طرح اندلس میں جمنے بھی نہ پائےتھے کہ جہانبانوں کی ایک ٹولی نے جزیرہ صقلیہ سسلی کی طرف لگام اٹھائی ان کی دوسری لہر اندلس کو فرانس سے کاٹنے والے کوہستان پیری نیز کو پھلانگتی ناریون کو پامال کرتی فرانس اور جرمنی کی سرحد پر دریائے طورس کے کنارے سے جاٹکرائی۔ ’تاریخ ابن خلدون‘ کے زیر نظر حصہ میں تاریخ کے ان جواں بختوں کی فتوحات کا تفصیلی اور دلچسپ تذکرہ موجود ہے۔علامہ ابن خلدون نے امیر عبدالرحمان الداخل سے لے کر آخری دور زوال تک گلستان اندلس کی کہانی، اور اس کے بعد ایک بے مثال تمدن کی ابتدا و انتہا، مشرقی خلافت کے اندر فرقوں کی پیداوار، ترکوں کی یلغار اور فاطمیوں کے عروج و زوال کی عبرتناک داستان اپنے مخصوص انداز میں بیان کی ہے۔ حکیم احمد حسین الہ آبادی کے بامحاورہ اور بے ساختہ ترجمہ نے...
تاریخ ابن خلدون کے چھٹے حصے میں غزنوی اور غوری سلاطین کے دو مختلف دور یکجا کئے گئے ہیں۔ محمود غزنوی وہ مرد مجاہد ہے جس کواس کے باپ امیر سبکتگین نے قلعے کے اندر نہیں بلکہ میدان جنگ میں شہسواری، شمشیر زنی اور تیر اندازی کی تعلیم دی تھی۔ محمود غزنوی اپنے والد کی وفات کی بعد کمسنی ہی میں اپنے لشکر سمیت راوی کے کنارے اترا اور انند پال کے ٹڈی دل کو گھوڑوں کی ٹاپوں تلے روندتے ہوئے لاہور پر قابض ہوگیا۔ پھر اس نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا ملتان سے بھٹیز، دلی سے بندرا بن، کالنجر سے قنوج اور گوالیار سے گجرات کاٹھیا واڑ تک بت پرستوں کی صفوں کو کاٹتا ہوا سومنات کے مندر تک بڑھتا چلا گیا اور پھر سومنات کے سب سے بڑے شکتی مان بت کو اپنے ہاتھوں سے پاش پاش کیا۔ ’تاریخ ابن خلدون‘ کے اس حصہ میں جہاں غزنویوں کی شاندار فتوحات کا تذکرہ ہے وہیں اس شہاب الدین غوری کا بھی تذکرہ ہے جس نے ترواڑی کے میدان میں دلی اجمیر کے چوہان مہاراجہ رائے پتھورا پرتھوی راج سے شکست کھانے کے بعد اگلے ہی سال تراوڑی میں رائے پتھورا کو عبرتناک شکست سے نوازا۔...
’تاریخ ابن خلدون‘کا زیر نظر حصہ سلجوقی اور خوارزم شاہی خانوادوں اور فتنہ تاتار پر مشتمل خون سے رنگی ہوئی وہ داستان جس میں ہر طرف کٹے پھٹے انسانی لاشے اور کھوپڑیوں کے مینار نظر آتے ہیں۔ سلاطین سلجوقیہ میں الپ ارسلان بانی دولت سلجوقیہ، قزل ارسلان، ملک شاہ سلجوقی، سلطان سنجر، قطلمش والی قونیہ و بلاد روم، توران شاہ تاج دار فارس بڑے بڑے اولوالعزم حکمران گزرے ہیں۔ ملوک خوارزم کی سلطنت انہی سلجوقیوں کی سلطنت کی ایک شاخ ہے۔ انہی کے زمانہ میں چنگیز خان تاتاریوں کو لےکر نکلااور اسلامی حکومت کا شیرازہ بکھیرکر خوشحال شہروں کو آہوں اور سسکیوں میں بدلتا بلا روک ٹوک آگے بڑھتا چلا گیا۔ علامہ ابن خلدون نے ان کے حالات و انساب، خانہ جنگیاں، تاتاریوں اور سلجوقیوں کی لڑائیوں کو کمال تحقیق اور تدبر سے نقل کیا ہے۔ تاریخ ابن خلدون کے ساتویں حصے کے متعلق چوہدری محمد اقبال سلیم گاہندری کہتے ہیں کہ سچ پوچھئے تو یہ علامہ عبدالرحمن ابن خلدون جیسے صاحب نظر، محقق مؤرخ کے درد مند دل کی گہرائیوں سے نکلا اور خون جگر میں ڈوبا ہوا مرثی...
تاریخ ابن خلدون کی یہ جلد زنگی فرمانرواؤں اور ایوبی سلاطین کے دور حکومت پر مشتمل ہے بلکہ اس سے آگے بڑھ کر ہلاکو خان تاتاری کے ہاتھوں تباہی بغداد اور اس کے اثرات ما بعد کا بیان بھی اس میں موجود ہے۔ 583ھ میں اسلام کے ایک بطل جلیل سلطان صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس کو صلیبی نصرانی بادشاہوں کے 91 سالہ قبضہ، ظلم اور تعدی سے نجات دلائی تھی۔ پچھلے 91 سال سے بیت المقدس پر تعصب و کم ظرفی کے پیکر یورپ کے نصرانی بادشاہ قابض تھے اور اس یقین میں مبتلاتھے کہ کوئ...
تاریخ ابن خلدون کے پیش نظر حصہ میں ممالیک بحریہ مصر و شام پر متحدہ سلطنت اور سقوط بغداد کے بعد مسلمانوں کے دوبارہ عروج و ترقی کے حالات مذکور ہیں۔ سقوط بغداد اور عباسی خلافت کا خاتمہ اسلامی تاریخ کا سب سے المناک واقعہ ہے۔ مگر یہ مسلمانوں کی تباہی کا آخری باب تھا کیونکہ اس سے پیشتر چنگیز خان اور اس کی اولاد ایران، خراسان اور ترکستان کی اسلامی سلطنتوں اور ان کے با رونق شہروں کو فنا کر چکی تھی۔ ان المناک حادثات کی بدولت مسلم قوم نہ صرف مادی اور سیاسی حیثیت سے تباہ ہوئی بلکہ وہ اخلاقی، علمی اور روحانی حیثیت سے بھی مفلوج ہو گئی تھی۔ ایسے موقع پر سلاطین ممالیک بحریہ کی فوج نے فتنہ تاتار کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور نہ صرف مصرو شام کو ان کی یلغار اور تباہ کاریوں سے بچایا بلکہ یورپ اور باقی ماندہ دنیا کو ان کے وحشیانہ حملوں سے محفوظ رکھا ۔ تاریخ ابن خلدون کے اس حصہ کا ترجمہ بھی حافظ سید رشید احمد ارشد نے نہایت شستہ اردو میں کیا ہے۔
 ...
’تاریخ ابن خلدون‘ کی گذشتہ جلد میں ممالیک بحریہ کی مصرو شام پر متحدہ سلطنت کے حالات اور سقوط بغداد کے بعد مسلمانوں کے دوبارہ عروج و ترقی کے احوال شامل تھے۔ زیر نظر دسویں حصہ میں ممالیک بحریہ کی سلطنت کے خاتمے کی داستان درج کی گئی ہے۔ علامہ ابن خلدون نے اپنے مخصوص اندا ز میں ممالیک جراکسہ کی سلطنت، یمن کے رسول شاہی سلاطین، تاتاری چنگیز خانی سلاطین اور خاندانی دوشی خان کی سلطنت سے متعلق حقائق بیان کرتے ہوئے بلاد روم کے حکام اور بنوارتنا کی حکومت اور ترکی میں آل عثمان کی سلطنت کے آغاز پر تفصیلی بحث کی ہے۔
’تاریخ ابن خلدون‘ کا گیارہواں حصہ آپ کے سامنے ہے۔ تاریخ کا یہ حصہ دوسرے حصوں سے اس اعتبار سے تفوق رکھتا ہے کہ اس میں ابن خلدون نے جوکچھ لکھا ہے اس میں ان کا اپنا مشاہدہ، تجربہ اور تحقیق شامل ہے۔ ابن خلدون نے اپنی زندگی کے آخری شب و روز مصر اور افریقہ کے دوسرے علاقوں میں بسر کئے تھے اور وہیں وفات پائی تھی یہ تاریخ وہاں کی قوموں اورحکمرانوں کے حالات و واقعات سے عبارت ہے۔ اس میں ان تمام خاندانوں کے حالات مندرج ہیں جنہوں نے اپنی حکومتیں شمالی افریقہ کے مختلف علاقوں میں قائم کی تھیں۔ اگرچہ یہ حکمراں اورقبائل دوسرے حکمرانوں کی طرح پر شکوہ اور پرچشم نہیں تھے لیکن ان کے ہاتھوں بعض ایسے کارنامے انجام پائے جو اسلامی دور کی عظمت کی یاد دلاتے رہیں گے۔
اس وقت آپ کے سامنے ’تاریخ ابن خلدون‘ کی بارہویں اور آخری جلد ہے ۔ جس میں علامہ ابن خلدون نے 350ھ سے 800ھ تک دنیائے عرب میں پائے جانے والے ان قبیلوں کے سربراہوں اور ان کی قائم شدہ حکومتوں کا حال بیان کیا ہےجن کو مؤرخین نے تاریخ میں بت کم جگہ دی ہے۔ علامہ ابن خلدون کواس میدان میں دوسرے مؤرخین سے اس اعتبار سے بھی امتیازی حیثیت حاصل ہے کہ اس نے مشرق وسطی اور شمالی افریقہ کا سفر کیا تھا وہاں کے رہنے والوں سے ملاقاتیں کی تھیں۔ سلاطین اور حاکموں کے درباروں میں شریک ہوا تھا اس لیے جو معلومات اس کو مہیا ہو سکتی تھیں دوسروں کے لیے ممکن نہ تھا یہی وجہ ہے کہ اس قسم کے بیانات ہر قسم کے شکوک و شبہات سے بالاتر ہیں۔