اسلامی تعلیم کے مطابق نبوت ورسالت کا سلسلہ حضرت آدم سے شروع ہوا اور سید الانبیاء خاتم المرسلین حضرت محمد ﷺ پر ختم ہوا اس کے بعد جوبھی نبوت کادعویٰ کرے گا وہ دائرۂ اسلام سے خارج ہے نبوت کسبی نہیں وہبی ہے یعنی اللہ تعالی نے جس کو چاہا نبوت ورسالت سے نوازاکوئی شخص چاہے وہ کتنا ہی عبادت گزارمتقی اور پرہیزگار کیوں نہ وہ نبی نہیں بن سکتا ۔قادیانیت کے یوم پیدائش سے لے کر آج تک اسلام اور قادیانیت میں جنگ جار ی ہے یہ جنگ گلیوں ،بازاروں سے لے کر حکومت کے ایوانوں اور عدالت کےکمروں تک لڑی گئی اہل علم نے قادیانیوں کا ہر میدان میں تعاقب کیا تحریر و تقریر ، خطاب وسیاست میں قانون اور عدالت میں غرض کہ ہر میدان میں انہیں شکستِ فاش دی۔ سب سے پہلے قادیانیوں سے فیصلہ کن قانونی معرکہ آرائی بہاولپور کی سر زمیں میں ہوئی جہاں ڈسٹرکٹ جج بہاولپور نے مقدمہ تنسیخ نکاح میں مسماۃ عائشہ بی بی کانکاح عبد الرزاق قادیانی سے فسخ کردیاکہ ایک مسلمان عورت مرتد کے نکاح میں نہیں رہ سکتی 1926ء سے 1935 تک یہ مقدمہ زیر سماعت رہا جید اکابر علمائے کرام نے عدالت کے سامنے قادیانیوں کے خلاف دلائل کے انبار لگا دئیے کہ ان دلائل کی روشنی میں پہلی بار عدالت کے ذریعے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا ۔ پھر اس کے بعد بھی قادیانیوں کے خلاف یہ محاذ جاری رہا بالآخر تحریک ختم نبوت کی کوششوں سے 1974ء میں قومی اسمبلی پاکستان نے بھی قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا اور اس کے بعد پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں نے بھی قادیانیوں کو غیرمسلم قرار دینے کے فیصلے جاری کیے ۔قادیانیوں نے جماعت کی تشکیل کے 100 برس پورے ہونے پردنیا بھر کے دوسرے احمدیوں کی طرح ربوہ کے احمدیوں نے بھی 23 مارچ 1989ء سے صدسالہ جشن کی تقریبات منانے کا فیصلہ کیا ۔ان تقریبات کو شایان شان طریقہ سےمنانے کے لیے نئے ملبوسات زیب تن کرنے ،بچوں میں مٹھائیاں بانٹنے ، محتاجوں کو کھانا کھلانے اور بغرض اجلاس جمع ہونے کاپروگرام بنایا تاکہ جلسہ عام میں احمدیہ جماعت کی 100سالہ تاریخ کے اہم واقعات پر روشنی ڈالی جائے ۔قادیانی جماعت کی اس تیاری پر اسلامیان پاکستان کو تشویش لاحق ہوئی۔عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت نے فوری طور پر 12 مارچ 1989ء کو اجلاس طلب کیا اور لاہور ، کراچی ، ملتان، راولپنڈی کے تمام اہم اخبارات کے تمام ایڈیشنوں میں آخری صفحہ پر ہزاروں روپیہ کی لاگت سے اشتہار دیا جس میں قادیانیوں کے جشن پر پابندی لگانے کا پر زور مطالبہ کیا اور بابندی نہ لگنے کی صورت میں 23 مارچ کو آل پاکستان ختم نبوت ریلی منعقد کرنے کا اعلان کیا گیا۔اور ملک بھر عظیم الشان احتجاجی کانفرنسز منعقد کی گئیں۔علماء کرام نے بھرپور جدوجہد سے عوام الناس اور حکمران طبقہ کو قادیانیوں کی خرافات سے اگاہ کیا۔بالآخر پنجاب کے ہوم سیکرٹری نے مؤرحہ 20 مارچ 1989ء کو قادیانیوں کے صدسالہ جشن کی تقریبات پر بابندی کا اعلان کردیا۔یوں ایک بار پھرکفر ہار گیا اوراسلام اور مسلمان جیت گئے۔بعد ازاں قادیانیوں نے اس جشن پر لگائی گئی پابندی کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا۔اس کیس کی سماعت ہائی کورٹ کے سینئر جج جسٹس خلیل الرحمٰن نےکی 22 مئی 1991ء کو اس کیس کی سماعت مکمل ہوئی اور 17 ستمبر 1991ء کو جسٹس خلیل الرحمٰن نے قادیانیوں کے خلاف اپنا فیصلہ سنایا اور صد صالہ جشن پر پابندی کو جائز قرار دیا ۔جس سے مرزائیت پر اوس پڑ گئی اور انکے چہرے ان کے دلوں کی طرح سیاہ ہوگئے۔زیر نظر کتابچہ لائی ہائی کورٹ کےاسی تاریخی فیصلہ پر مشتمل ہے ۔(م۔ا)
اس کتاب کی فہرست موجود نہیں