اس میں کو ئی شک نہیں کہ قرآن وسنت میں متعدد ایسے کام اور اصول موجود ہیں جو اسلامی ریاست کے دستور کے لیے منبع واساس کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان سے انحراف کسی طرح روا نہیں۔دستور میں بیان متعدد امور کا تعلق انتظامی معاملات سے ہوتاہے ۔نظری امور ، پالیسی معاملات، بنیادی انسانی حقوق اور ہئیت حاکمہ کے فرائض کا قرآن وسنت میں بیان اصول واحکام کی روشنی میں انہیں کسی اسلامی ریاست کےدستور میں سمونا ضروری ہے جدید ریاستی تنظیم میں دستور کو سیاسی زندگی میں یوں بھی کلیدی اہمیت حاصل ہوتی ہے کہ دستور عوام اور اصحاب الرائے کی خواہشات کا ترجمان ہوتا ہے کہ اس سے کسی قوم کے ماضی کا بیان اور مآل کی طرف سے تسلسل معلوم ہوتا ہے۔ یہ وہ مقیاس ہے جس سے عوام کی امنگوں ،آرزؤں اور خواہشات کی پیمائش کی جاتی ہے ۔ یہی وہ قندیل ہے جسے لے کرملک کی ترقی کے لیے کوشش کی جاتی ہے اسی کی مدد سے ادارے وجود میں آتے ہیں۔دستور ہی وہ آئینہ ہےجس میں کسی ملک تاریخ کا عکس دیکھا جاسکتا ہے اور حال کا پرتو بھی اسی دستورمیں ملتا ہے ۔دستورمستقبل کاجامِ جم ہوتا ہے ۔یہ دستور ہی ہےجو ریاست میں اداروں کےوجود کا باعث بنتا ہے لوگوں کے طرزِ زندگی پر اثرات ڈالتا ہے،قانونی نظام اسی کے ذریعے اپنا رخ متعین کرتا ہے۔ ذرائع ابلاغ دستور کے اندر رہتے ہوئے ہی لوگوں کےقلوب واذہان مسخر کرتے ہیں نظام تعلیم دستور ہی کی روشنی میں مرتب ہوتا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ دساتیر پاکستان کی اسلامی دفعات ایک تجزیاتی مطالعہ ‘‘ جناب ڈاکٹر شہزاد اقبال شام کے تحقیقی مقالہ ایم فل کی کتابی صورت ہے۔یہ کتاب چھ ابواب پر مشتمل ہے ان ابواب میں دستورِ پاکستان کی فلسفیانہ بنیادوں کاجائزہ لے کر ابتداً پاکستان کے لیے اسلامی دستور کی جدوجہد کامطالعہ کرنے کے بعد وطنِ عزیز کے تینوں دساتیر کی اسلامی دفعات کا اصل ماخذ کی بنیاد پر تجزیاتی، تقابلی اور تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے۔(م۔ا)
عناوین |
صفحہ نمبر |
پیش لفظ |
ی |
امتنان وتشکر |
ل |
مقدمہ |
ا |
پاکستان کادستور اور اس کامقصد وجود |
5 |
کتاب کے مآخذومصادر |
9 |
باب اول :دستور پاکستان کی فلسفیانہ بنیادیں |
12 |
تشکیل پاکستان کی بنیاد |
12 |
مفکر پاکستان کاتصور پاکستان |
14 |
علامہ اقبال کاتصور وحدت امت اورنفاذشریعت میں پاکستان کا مقام |
19 |
قائداعظم کاتصور پاکستان |
11 |
قائداعظم کاتصور معاشیات اسلام |
26 |
فکر قائد کی ایک جہت |
28 |
قیام پاکستان سےپہلے کامنظر |
33 |
پالیسی تقریر یارسمی الفاظ |
34 |
اسمبلی کے باہر کی صورت حال |
40 |
چند اہم نکات |
41 |
تقریرقائد اورخطبہ حجۃ الوداع ایک تقابلی جائزہ |
45 |
خلاصہ کلام |
50 |
باب دوم :پاکستان کےلیے اسلامی دستور کی جدوجہد |
52 |
عبوری دستوری انتظام انڈیا ایکٹ 1935ء |
52 |
دستور پاکستان 1956ءکے راہنما اصول حثت اول قرار داد مقاصد |
54 |
قراردادمقاصد ارکان دستور ساز اسمبلی کی نظر میں |
56 |
قرارداد مقاصد کےبعد |
61 |
قرارداد مقاصد کی غایت دینی یاسیکولر |
62 |
بنیادی اصولوں کی کمیٹی اوربورڈ آف تعلیمات اسلامیہ |
63 |
بنیادی اصولوں کی کمیٹی کی عبوری رپورٹ پر رد عمل |
66 |
بنیادی اصولوں کی کمیٹی کی حتمی رپورٹ |
70 |
بنیادی اصولوں کی کمیٹی کی رپورٹ کاجائزہ |
73 |
رپورٹ پر رد عمل |
76 |
علماءدین کے بائیس دستوری نکات |
78 |
علماء کےبائیس دستوری نکات کامختصر جائزہ |
83 |
بائیس نکات پر رد عمل |
86 |
خلاصہ کلام |
88 |
باب سوم :پاکستان کا پہلا دستور |
89 |
1954ء کامسودہ دستور |
89 |
آئندہ دستور کی اسلامی شناخت کےلیے جدوجہد |
91 |
جماعت اسلامی |
92 |
اسلامی دستور کی جدوجہدمیں مولانا محمدظفراحمد انصاری کاکردار |
94 |
مزاحمت کے اسباب |
102 |
مسودہ دستور 1956ءدستور ساز اسمبلی میں |
103 |
دستور 1956ءپر ایک نظر |
106 |
قرار داد مقاصد کامتن |
106 |
مملکت کا نام |
109 |
بنیادی حقوق |
109 |
ریاستی پالیسی کے راہنما اصول |
110 |
عہدہ صدارت کےلیے اسلام کی شرط |
112 |
اسلامی دفعات |
114 |
دستور 1956ءکی اسلامی دفعات پر ایک طائرانہ نظر |
115 |
امربالمعروف ونہی عن المنکر کامحکمہ |
115 |
صدرکی نیابت اوردوسرے دستوری عہدوں پر تقرریاں |
117 |
قوانین کوقرآن وسنت کےمنافی قرار دینے کی شق |
119 |
مغرب کاانداز فکر |
132 |
خلاصہ کلام |
123 |
باب چہارم:دستور پاکستان 1962ءقرآن وسنت کے تناظر میں |
128 |
جسٹس شہاب الدین کمیشن |
125 |
کمیشن کی رپورٹ بسلسلہ دستور |
125 |
شہاب الدین کمیشن رپورٹ پر ایک عمومی نظر |
128 |
دستور پاکستان 1962ءکی اسلامی دفعات |
132 |
محرف قرارداد مقاصد بطور دیباچہ دستور 1962ء |
133 |