جہاد دینِ اسلام کی چوٹی ہے۔ جہاد اعلائے کلمۃ اللہ کا سب سے بڑا سبب اور مظلوموں و مقہوروں کو عدل انصاف فراہم کرنے کا عمدہ ذریعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کی حفاظت کے لیے مسلمانوں کو دعوت و انذار کے بعد انتہائی حالات میں اللہ کے دشمنوں سے لڑنے کی اجازت دی ہے او راللہ کے راستے میں لڑنے والے مجاہد کے لئے انعام و اکرام اور جنت کا وعدہ کیا ہے اسی طرح اس لڑائی کو جہاد جیسے مقدس لفظ سے موسوم کیا ہے۔ جہاد کی اہمیت وفضلیت کے حوالے سے کتب احادیث میں ائمہ محدثین نے باقاعدہ ابواب قائم کیے ہیں او رکئی اہل علم نے اس پر مستقبل عربی اردوزبان میں کتب تصنیف کی ہیں۔ زير تبصره كتاب"الجہاد فی الاسلام‘‘ مفکر اسلام سید ابو الاعلی مودودی کی تصنیف ہے جہاد کے موضوع پربڑی اہم کتاب ہے یہ کتاب آپ نے اس وقت لکھی جب آپ "الجمعیۃ" کے مدیر تھے۔ ایک شخص سوامی شردھانند نے شدھی کی تحریک شروع کی جس کا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کو ہندو بنالیا جائے۔ چونکہ اس تحریک کی بنیاد نفرت، دشمنی اور تعصب پر تھی اور اس نے اپنی کتاب میں حضرت محمد ﷺ کی توہین کی جس پر کسی مسلمان نے غیرت ایمانی میں آکر سوامی شردھانند کو قتل کردیا۔ اس پر پورے ہندوستان میں ایک شور برپا ہوگیا۔ ہندو دینِ اسلام پر حملے کرنے لگے اور اعلانیہ یہ کہا جانے لگا کہ اسلام تلوار اور تشدد کا مذہب ہے۔ انہی دنوں مولانا محمد علی جوہر نے جامع مسجد دہلی میں تقریر کی جس میں بڑی دردمندی کے ساتھ انہوں نے اس ضرورت کا اظہار کیا کہ کاش کوئی شخص اسلام کے مسئلہ جہاد کی پوری وضاحت کرے تاکہ اسلام کے خلاف جو غلط فہمیاں آج پھیلائی جارہی ہیں وہ ختم ہوجائیں۔ اس پر سید مودودی نے الجہاد فی الاسلام کے نام سے ایک کتاب لکھی۔ اس وقت سید مودودی کی عمر صرف 24 برس تھی۔ سید مودودی نے الجہاد فی الاسلام کی تصنیف کےدوران قرآن، حدیث، سیرت، تاریخ ،فقہ کے علاوہ تورات انجیل اور زبور نیز ویدوں، گیتا اور اور ہندوؤں کی دیگر مذہبی کتابوں کے اصل مصادر کا بھی براہ راست گہری نظر سے مطالعہ کیا۔علاوہ ازیں انھوں نے بین الاقوامی قوانین ، مغربی نظریات جدید تصورات جنگ کے اصل اور بنیادی مراجع سے بھی بھرپور استفادہ کیا۔ اس اہم ذخیرے میں سید مودودی نے جہاد کی اہمیت ومعنویت، حقیقت اور آداب وشرائط پر بھی روشنی ڈالی۔اور انہوں نے اس کتاب میں واضح کیا کہ دنیا میں حقیقی امن وصلح کا قانون اگر کسی مذہب کے پاس ہے تو وہ صرف اسلام ہے۔ باقی تمام مذاہب کے پاس نہ صرف جنگ کے لئے بلکہ دوسرے اہم معاملات کے لئے بھی تخریب کاری کے سوا کچھ نہیں ہے۔ انھوں نے جہاد اور قتال کی وضاحت کی کہ اسلام جہاد و قتال کس غرض اور مقصد کے لئے کرتا ہے۔ سید مودودی کی یہ قیمتی تحقیق پہلے جمعیۃ علماء ہند کے سہ روزہ ترجمانـ ’’الجمعیۃ‘‘ دہلی میں ۲۲شماروں میں مسلسل اسلام کا قانون جنگ کے عنوان سے شائع ہوئی۔ اس کی پہلی قسط ۲۸ رجب ھ بمطابق۲ فروری ۲۷ ۱۹ ء میں شائع ہوئی۔ علامہ سید سلیمان ندوی کو یہ تمام مضامین بہت پسند آئے تو انھوں نے ان مضامین کو ۱۹۳۰ء میں کتاب کی صورت میں’ الجہاد فی الاسلام ‘کے عنوان کے تحت شائع کیا ۔ اورمعارف جنوری ۱۹۳۰ء کے شمارے میں کتاب کا مختصر تعارف ان الفاظ میں کرایا کہ: ’’اس کتاب میں اسلامی جہاد کے اصول و آداب، معترضین کے جوابات، مخالفین کے شکوک و شبہات کی تردید، یہودیوں ،عیسائیوں، ہندؤوں اور بود ھوں کے اصولو ں سے ان کا تقابل اور یورپ کے موجودہ قوانین جنگ پر تبصرہ نیز جہاد کے اسلامی قوانین سے ان کا موازنہ کیا گیا ہے۔ عربی اور انگریزی کی بہترین و مستنند کتابوں کے حوالے سے یہ بات لکھی گئی ہے۔ خیال رہے کہ اس ضروری مسئلے پراس سے زیادہ مسلسل اور مبسوط کتاب اب تک نہیں لکھی گئی۔ اور اسی طرح علامہ اقبال نے اس کتاب کے بارے میں فرمایا تھا: ”اسلام کے نظریہ جہاد اور اس کے قانونِ صلح و جنگ پر یہ ایک بہترین تصنیف ہے اور میں ہر ذی علم آدمی کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ اس کا مطالعہ کرے۔ اللہ تعالیٰ مولانا مودودی کے درجات بلند فرمائے (آمین)(م۔ا)
عناوین |
صفحہ نمبر |
باب اول :اسلامی جہاد کی حقیقت |
21 |
باب دوم :۔مدافعانہ جنگ |
53 |
مدافعانہ جنگ کی صورتیں |
61 |
با ب سوم :۔مصلحانہ جنگ |
85 |
باب چہارم:۔اشاعت اسلام اورتلوار |
153 |
باب پنجم :۔اسلامی قونین صلح وجنگ |
179 |
(1)زمانہ جاہلیت میں عرب کاطریق جنگ |
180 |
(2)روم وایران کاطریق جنگ |
205 |
(3)اسلام کی اصلاحات |
206 |
(4)جنگ کے مہذب قوانین |
228 |
(5)چند مستثنیات |
301 |
(6)جدید قانون جنگ کی تدوین |
322 |
باب ششم ۔جنگ دوسرے مذاہب میں |
327 |
(1)ہندومذہب |
330 |
(2)یہودی مذہب |
379 |
(3)بودھ مذہب |
389 |
(4)مسیحیت |
406 |
(5)مذاہب اربعہ کی تعلیم پر ایک نظر |
454 |
باب ہفتم ۔جنگ تہذیب جدید میں |
459 |
(1)جنگ کااخلاقی پہلو |
461 |
(2)جنگ کاعملی پہلو |
499 |
(3)مغربی قوانین جنگ کی اصولی حیثیت |
517 |
(4)جنگ کے احکام وضوابط |
527 |
مقاتلین کے حقوق وفرائض |
540 |
غیر مقاتلین کے حقوق وفرائض |
561 |
غیر جانبداروں کے حقوق وفرائض |
586 |
(5)تبصرہ |
586 |
عرض ناشر |
14 |
دیباچہ طبعہ اول |
15 |
دیباچہ طبع دوم |
20 |
باب اول :اسلامی جہاد کی حقیقت |
|
انسانی جان کااحترام |
23 |
دنیاپر اسلامی تعلیم کااخلاقی اثر |
26 |
قتل بالحق |
29 |
قتل بالحق اور قتل بغیر حق کافرق |
31 |
ناگزیرخونریزی |
32 |
اجتماعی فتنہ |
34 |
جنگ ایک اخلاقی فرض |
36 |
جنگ کی مصلحت |
37 |
جہاد فی سبیل اللہ |
39 |
حق وباطل کی حدبندی |
41 |
جہاد فی سبیل اللہ کی فضیلت |
41 |
فضیلت جہاد کی وجہ |
43 |
نظام تمدن میں جہاد کادرجہ |
46 |
باب دوم :۔مدافعانہ جنگ |
|
فریضہ دفاع |
55 |
مدافعانہ جنگ کی صورتیں |
61 |
1۔ظلم وتعدی کاجواب |
62 |
2۔راہ حق کی حفاظت |
62 |
3۔وفابازی وعہد شکنی کی سزا |
66 |
4۔اندرونی دشمنوں کااستیصال |
70 |
5۔حفاظت امن |
75 |
6۔مظلوم مسلمانوں کی حمایت |
77 |
دفاع کی غرض وغایت |
80 |
باب سوم :۔مصلحانہ جنگ |
|
اجتماعی فرائض کااخلاقی تخیل |
86 |
اجتماعی فرائض کے متعلق اسلام کی اعلی تعلیم |
88 |
امربالمعروف ونہی عن المنکر کی حقیقت |
92 |
حیات اجتماعی میں امر بالعروف ونہی عن المنکر کادرجہ |
96 |
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کافرق |
99 |
نہی عن المنکر طریقہ |
102 |
فتنہ وفساد کے خلاف جنگ |
104 |
فتنہ کی تحقیق |
109 |
فساد کی تحقیق |
109 |
فتنہ وفساد کو مٹانے کے لیے حکومت الہی کی ضرورت |
117 |
حکم قتال |
120 |
قتال کر غرض وغایت |
121 |
جزیہ کی حقیقت |
123 |
اسلام او رجہانگیر یت |
128 |
اسلامی فتوحات کی اصل وجہ |
1244 |
باب چہارم :۔اشاعت اسلام اورتلوار |
|
اذاکراہ فی الدین |
156 |
دعوت وتبلیغ کااصل الاصول |
164 |
ہدایت وضلالت کاراز |
166 |
اشاعت اسلام میں تلوار کاحصہ |
170 |
با ب پنجم:اسلامی قوانین صلح وجنگ |
|
(1)زمانہ جاہلیت میں عرب کاطریق جنگ |
180 |
اہل عرب کاتصور جنگ |
181 |
عربی سیرت میں جنگجوئی کااثر |
185 |
جنگ کے محرکات غنیمت کاشوق |
187 |
تفاخر |
189 |
انتقام |
194 |
جنگ کے وحشیانہ طریقے |
197 |
غیر مقاتلین پر تعدی |
198 |
آگ کاعذاب |
199 |
اسیران جنگ سے بدسلوکی |
200 |
غفلت میں حملہ کرنا |
201 |
مقتولوں کی تحقیر |
202 |
بدعہدی |
204 |
(2)روم وایران کاطریق جنگ |
205 |
مذہبی مظالم |
207 |
سفراء پر تعدی |
208 |
بدعہدی |
209 |
جنگ کے وحشیانہ طریقے |
210 |
اسیران جنگ کی حالت |
213 |
(3)اسلام کی اصلاحات |
216 |
جنگ کی اسلامی تصور |
216 |
مقصدر جنگ کی تطہیر |
218 |
طریق جنگ کی تطہیر |
222 |
غیر اہل قتال کی حرمت |
222 |
اہل قتال کے حقوق |
222 |
1۔غفلت میں حملہ کرنےسے احتراز |
224 |
2۔آگ میں جلانے کی ممانعت |
225 |
3۔قتل صبر کی ممانعت |
225 |
4۔لوٹ مار کی ممانعت |
226 |
5۔تباہ کاری کی ممانعت |
227 |
6۔مثلہ کی ممانعت |
230 |
7۔قتل اسیر کی ممانعت |
231 |
8۔قتل سفیر کی ممانعت |
232 |
9۔بدعہدی کی ممانعت |
232 |
10۔بدنظمی وانتشار کی ممانعت |
232 |
11۔شوروہنگامہ کی ممانعت |
234 |
وحشیانہ افعال کے خلاف عام ہدایات |
234 |
اصلاح کی نتائح |
236 |
(4)جنگ ک مہذیب قوانین |
238 |
اطاعت امام |
238 |
وفائے عہد |
240 |
غیر جانداروں کے حقوق |
244 |
اعلان جنگ |
246 |
اسیران جنگ |
249 |
غلامی کامسئلہ |
253 |
غنیمت کامسئلہ |
262 |
صلح رامان |
274 |
مفتوح قوموں کے ساتھ برتاؤ |
274 |
مفتوحین کی دو قسمیں |
275 |
معاہدین |
275 |
غیر معاہدین |
283 |
ذمیوں کے عام حقوق |
287 |
ذمیوں کے لبا س کامسئلہ |
298 |
چند مستثنیات |
301 |
بنی نضیر کااخراج |
302 |
بنی قریظہ کاواقعہ |
306 |
کعب ابن اشرف کاقتل |
311 |
یہد خیبر کااخراج |
314 |
اہل نجران کااخراج |
318 |
(6)جدید قانون جنگ کی تدوین |
322 |
باب ششم : جنگ دوسرے مذاہب مین |
|
تقابل ادیان کے اصول |
327 |
دنیا کے چار بڑے مذاہب |
327 |
(1)ہندومذہب |
330 |
ہندومذہب کے تین دور |
331 |
دیدوں کی جنگی تعلیم |
332 |
رگ وید |
333 |
سام وید |
341 |
اتھر وید |
345 |
ویدوں کی تعلیم جنگ پر ایک نظر |
348 |
گیتا کافلسفہ جنگ |
350 |
گیتا کے فلسفے پر ایک نظر |
355 |
منوکے احکام جنگ |
359 |
جنگ کامقصد |
360 |
جنگ کے اخلاقی حدود |
361 |
مفتوح قوموں کے ساتھ برتاؤ |
365 |
نسلی امتیاز |
373 |
(2)یہودی مذہب |
379 |
مقصدجنگ |
381 |
حدود جنگ |
384 |
(3)بودھ مذہب |
389 |
بودھ مذہب کے آغاز |
389 |
اہفساکی تعلیم |
391 |
بودھ کافلسفہ |
392 |
بودھ مذہب کی اصلی کمزوری |
398 |
پیرون بودھ کی زندگی پر اہنساکااثر |
40 |
(4)مسیحیت |
406 |
مآخذ کی تحقیق |
407 |
محبت کی تعلیم |
411 |
مسیحیت کافلسفہ اخلاق |
430 |
مسیحی اخلاقیات کااصلی نفس |
417 |
دعوت میں جنگ نہ ہونے کی وجہ |
437 |
دعوت مسیح کی حقیقت |
438 |
مسیحیت اور موسوی شریعت کاتعلق |
441 |
شریعت او رمسیحت کی علیحدگی |
443 |
مسیحی سیرت پر علیحدگی کااثر |
4446 |
(5)مذاہب او راربعہ کی تعلیم پر ایک نظر |
454 |
باب ہفتم :جنگ تہذیب جدید میں |
459 |
(1)جنگ کااخلاقی پہلو |
461 |
جنگ عظیم کے اسباب دووجوہ |
464 |
قوموں کی جتھ بندی |
465 |
جنگ کاآغاز |
467 |
شرکاء جنگ کے اغراض ومقاصد |
468 |
خفیہ معاہدات |
471 |
جنگ کے بعد ملکوں کی تقسیم |
474 |
جنگ کے جائز مقاصد |
484 |
قیام امن او رخلع سلاح کی تجویزیں |
486 |
جمعیت اقوام |
490 |
خلع سلاح کی جدید تجویزیں |
494 |
(2)جنگ کاعملی پہلو |
499 |
بین الملی قانون کی حقیقت |
505 |
بین الملی قانون کے عناصر ترکیبی |
503 |
بین الملی قانون کاشعبہ جنگ |
506 |
جنگی ضروریات کاغالب ترقانون |
510 |
نمائش او رحقیقت کافرق |
511 |
فوجی او رقانوی گردہوں کااختلاف |
514 |
(3)مغربی قوانین جنگ کی اصولی حیثیت |
517 |
قوانین جنگ کی تاریخ |
518 |
ہیگ کے سمجھوتوں کی قانونی حیثیت |
523 |
(4)جنگ کے احکام وضوابط |
527 |
اعلان جنگ |
528 |
اہل قتال او رغی راہل قتال |
530 |
مقاتلین کے حقوق وفرائض |
526 |
1۔امان |
543 |
2۔اسیران جنگ |
545 |
3۔مجرد حین مرضی اور مقتولین |
550 |
5۔مہلک اشیاء کا استعمال |
554 |
6۔جاسوس |
556 |
7۔خداع فی الحرب |
557 |
8۔انتقامی کارروائیاں |
558 |
غیر مقاتلین کے حقوق وفرائض |
561 |
1۔غیر مقاتلین کا اولین فرض |
563 |
2۔غیر مقاتلین کی عصمت |
564 |
3۔غیر محفوظ آبادیوں پر گولہ باری |
565 |
4۔عنوۃ فتح ہونے والے والے شہروں کاحکم |
574 |
5۔احتلال او راس کے قوانین |
476 |
6۔فارت گری وتباہ کاری |
582 |
غیر جانبداروں کے حقوق وفرائض |
582 |
غیر جانبدار یک تاریخ |
586 |
موجود زمانہ میں غیر جانبداروں کی حیثیت |
587 |
ممارنین کے فرائض غیر جانبدارں کے متعلق |
591 |
غیر جانیداورں کے فرائض محاربین کے متعلق |
591 |
(5ب)تبصرہ |
596 |