#3547

مصنف : سید ابو الاعلی مودودی

مشاہدات : 24085

الجہاد فی الاسلام (مودودی)

  • صفحات: 600
  • یونیکوڈ کنورژن کا خرچہ: 24000 (PKR)
(ہفتہ 12 مارچ 2016ء) ناشر : ادارہ ترجمان القرآن لاہور

جہاد دینِ اسلام کی چوٹی ہے۔ جہاد اعلائے کلمۃ اللہ کا سب سے بڑا سبب اور مظلوموں و مقہوروں کو عدل انصاف فراہم کرنے کا عمدہ ذریعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کی حفاظت کے لیے مسلمانوں کو دعوت و انذار کے بعد انتہائی حالات میں اللہ کے دشمنوں سے لڑنے کی اجازت دی ہے او راللہ کے راستے میں لڑنے والے  مجاہد کے لئے انعام و اکرام اور جنت کا وعدہ کیا ہے اسی طرح اس لڑائی کو جہاد  جیسے مقدس لفظ سے موسوم کیا  ہے۔ جہاد کی اہمیت وفضلیت کے حوالے سے کتب احادیث میں ائمہ محدثین نے باقاعدہ ابواب قائم کیے ہیں او رکئی اہل علم نے اس پر مستقبل عربی اردوزبان میں کتب تصنیف کی ہیں۔ زير تبصره كتاب"الجہاد فی الاسلام‘‘ مفکر اسلام سید ابو الاعلی مودودی﷫ کی تصنیف ہے جہاد کے موضوع پربڑی اہم کتاب ہے یہ کتاب آپ نے اس وقت لکھی جب آپ "الجمعیۃ" کے مدیر تھے۔ ایک شخص سوامی شردھانند نے شدھی کی تحریک شروع کی جس کا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کو ہندو بنالیا جائے۔ چونکہ اس تحریک کی بنیاد نفرت، دشمنی اور تعصب پر تھی اور اس نے اپنی کتاب میں حضرت محمد ﷺ کی توہین کی جس پر کسی مسلمان نے غیرت ایمانی میں آکر سوامی شردھانند کو قتل کردیا۔ اس پر پورے ہندوستان میں ایک شور برپا ہوگیا۔ ہندو دینِ اسلام پر حملے کرنے لگے اور اعلانیہ یہ کہا جانے لگا کہ اسلام تلوار اور تشدد کا مذہب ہے۔ انہی دنوں مولانا محمد علی جوہر نے جامع مسجد دہلی میں تقریر کی جس میں بڑی دردمندی کے ساتھ انہوں نے اس ضرورت کا اظہار کیا کہ کاش کوئی شخص اسلام کے مسئلہ جہاد کی پوری وضاحت کرے تاکہ اسلام کے خلاف جو غلط فہمیاں آج پھیلائی جارہی ہیں وہ ختم ہوجائیں۔ اس پر سید مودودی نے الجہاد فی الاسلام کے نام سے ایک کتاب لکھی۔ اس وقت سید مودودی کی عمر صرف 24 برس تھی۔ سید مودودی نے الجہاد فی الاسلام کی تصنیف کےدوران قرآن، حدیث، سیرت، تاریخ ،فقہ کے علاوہ تورات انجیل اور زبور نیز ویدوں، گیتا اور اور ہندوؤں کی دیگر مذہبی کتابوں کے اصل مصادر کا بھی براہ راست گہری نظر سے مطالعہ کیا۔علاوہ ازیں انھوں نے بین الاقوامی قوانین ، مغربی نظریات جدید تصورات جنگ کے اصل اور بنیادی مراجع سے بھی بھرپور استفادہ کیا۔ اس اہم ذخیرے میں سید مودودی نے جہاد کی اہمیت ومعنویت، حقیقت اور آداب وشرائط پر بھی روشنی ڈالی۔اور انہوں نے اس کتاب میں واضح کیا کہ دنیا میں حقیقی امن وصلح کا قانون اگر کسی مذہب کے پاس ہے تو وہ صرف اسلام ہے۔ باقی تمام مذاہب کے پاس نہ صرف جنگ کے لئے بلکہ دوسرے اہم معاملات کے لئے بھی تخریب کاری کے سوا کچھ نہیں ہے۔ انھوں نے جہاد اور قتال کی وضاحت کی کہ اسلام جہاد و قتال کس غرض اور مقصد کے لئے کرتا ہے۔ سید مودودی کی یہ قیمتی تحقیق پہلے جمعیۃ علماء ہند کے سہ روزہ ترجمانـ ’’الجمعیۃ‘‘ دہلی میں ۲۲شماروں میں مسلسل اسلام کا قانون جنگ کے عنوان سے شائع ہوئی۔ اس کی پہلی قسط ۲۸ رجب ھ بمطابق۲ فروری ۲۷ ۱۹ ء میں شائع ہوئی۔ علامہ سید سلیمان ندوی کو یہ تمام مضامین بہت پسند آئے تو انھوں نے ان مضامین کو ۱۹۳۰ء میں کتاب کی صورت میں’ الجہاد فی الاسلام ‘کے عنوان کے تحت شائع کیا ۔ اورمعارف جنوری ۱۹۳۰ء کے شمارے میں کتاب کا مختصر تعارف ان الفاظ میں کرایا کہ: ’’اس کتاب میں اسلامی جہاد کے اصول و آداب، معترضین کے جوابات، مخالفین کے شکوک و شبہات کی تردید، یہودیوں ،عیسائیوں، ہندؤوں اور بود ھوں کے اصولو ں سے ان کا تقابل اور یورپ کے موجودہ قوانین جنگ پر تبصرہ نیز جہاد کے اسلامی قوانین سے ان کا موازنہ کیا گیا ہے۔ عربی اور انگریزی کی بہترین و مستنند کتابوں کے حوالے سے یہ بات لکھی گئی ہے۔ خیال رہے کہ اس ضروری مسئلے پراس سے زیادہ مسلسل اور مبسوط کتاب اب تک نہیں لکھی گئی۔ اور اسی طرح علامہ اقبال نے اس کتاب کے بارے میں فرمایا تھا: ”اسلام کے نظریہ جہاد اور اس کے قانونِ صلح و جنگ پر یہ ایک بہترین تصنیف ہے اور میں ہر ذی علم آدمی کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ اس کا مطالعہ کرے۔ اللہ تعالیٰ مولانا مودودی  کے درجات بلند فرمائے (آمین)(م۔ا)

عناوین

صفحہ نمبر

باب اول :اسلامی جہاد کی حقیقت

21

باب دوم :۔مدافعانہ جنگ

53

مدافعانہ جنگ کی صورتیں

61

با ب سوم :۔مصلحانہ جنگ

85

باب چہارم:۔اشاعت اسلام اورتلوار

153

باب پنجم :۔اسلامی قونین صلح وجنگ

179

(1)زمانہ جاہلیت میں عرب کاطریق جنگ

180

(2)روم وایران کاطریق جنگ

205

(3)اسلام کی اصلاحات

206

(4)جنگ کے مہذب قوانین

228

(5)چند مستثنیات

301

(6)جدید قانون جنگ کی تدوین

322

باب ششم ۔جنگ دوسرے مذاہب میں

327

(1)ہندومذہب

330

(2)یہودی مذہب

379

(3)بودھ مذہب

389

(4)مسیحیت

406

(5)مذاہب اربعہ کی تعلیم پر ایک نظر

454

باب ہفتم ۔جنگ تہذیب جدید میں

459

(1)جنگ کااخلاقی پہلو

461

(2)جنگ کاعملی پہلو

499

(3)مغربی قوانین جنگ کی اصولی حیثیت

517

(4)جنگ کے احکام وضوابط

527

مقاتلین کے حقوق وفرائض

540

غیر مقاتلین کے حقوق وفرائض

561

غیر جانبداروں کے حقوق وفرائض

586

(5)تبصرہ

586

عرض ناشر

14

دیباچہ طبعہ اول

15

دیباچہ طبع دوم

20

باب اول :اسلامی جہاد کی حقیقت

 

انسانی جان کااحترام

23

دنیاپر اسلامی تعلیم کااخلاقی اثر

26

قتل بالحق

29

قتل بالحق اور قتل بغیر حق کافرق

31

ناگزیرخونریزی

32

اجتماعی فتنہ

34

جنگ ایک اخلاقی فرض

36

جنگ کی مصلحت

37

جہاد فی سبیل اللہ

39

حق وباطل کی حدبندی

41

جہاد فی سبیل اللہ کی فضیلت

41

فضیلت جہاد کی وجہ

43

نظام تمدن میں جہاد کادرجہ

46

باب دوم :۔مدافعانہ جنگ

 

فریضہ دفاع

55

مدافعانہ جنگ کی صورتیں

61

1۔ظلم وتعدی کاجواب

62

2۔راہ حق کی حفاظت

62

3۔وفابازی وعہد شکنی کی سزا

66

4۔اندرونی دشمنوں کااستیصال

70

5۔حفاظت امن

75

6۔مظلوم مسلمانوں کی حمایت

77

دفاع کی غرض وغایت

80

باب سوم :۔مصلحانہ جنگ

 

اجتماعی فرائض کااخلاقی تخیل

86

اجتماعی فرائض کے متعلق اسلام کی اعلی تعلیم

88

امربالمعروف ونہی عن المنکر کی حقیقت

92

حیات اجتماعی میں امر بالعروف ونہی عن المنکر کادرجہ

96

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کافرق

99

نہی عن المنکر طریقہ

102

فتنہ وفساد کے خلاف جنگ

104

فتنہ کی تحقیق

109

فساد کی تحقیق

109

فتنہ وفساد کو مٹانے کے لیے حکومت الہی کی ضرورت

117

حکم قتال

120

قتال کر غرض وغایت

121

جزیہ کی حقیقت

123

اسلام او رجہانگیر یت

128

اسلامی فتوحات کی اصل وجہ

1244

باب چہارم :۔اشاعت اسلام اورتلوار

 

اذاکراہ فی الدین

156

دعوت وتبلیغ کااصل الاصول

164

ہدایت وضلالت کاراز

166

اشاعت اسلام میں تلوار کاحصہ

170

با ب پنجم:اسلامی قوانین صلح وجنگ

 

(1)زمانہ جاہلیت میں عرب کاطریق جنگ

180

اہل عرب کاتصور جنگ

181

عربی سیرت میں جنگجوئی کااثر

185

جنگ کے محرکات غنیمت کاشوق

187

تفاخر

189

انتقام

194

جنگ کے وحشیانہ طریقے

197

غیر مقاتلین پر تعدی

198

آگ کاعذاب

199

اسیران جنگ سے بدسلوکی

200

غفلت میں حملہ کرنا

201

مقتولوں کی تحقیر

202

بدعہدی

204

(2)روم وایران کاطریق جنگ

205

مذہبی مظالم

207

سفراء پر تعدی

208

بدعہدی

209

جنگ کے وحشیانہ طریقے

210

اسیران جنگ کی حالت

213

(3)اسلام کی اصلاحات

216

جنگ کی اسلامی تصور

216

مقصدر جنگ کی تطہیر

218

طریق جنگ کی تطہیر

222

غیر اہل قتال کی حرمت

222

اہل قتال کے حقوق

222

1۔غفلت میں حملہ کرنےسے احتراز

224

2۔آگ میں جلانے کی ممانعت

225

3۔قتل صبر کی ممانعت

225

4۔لوٹ مار کی ممانعت

226

5۔تباہ کاری کی ممانعت

227

6۔مثلہ کی ممانعت

230

7۔قتل اسیر کی ممانعت

231

8۔قتل سفیر کی ممانعت

232

9۔بدعہدی کی ممانعت

232

10۔بدنظمی وانتشار کی ممانعت

232

11۔شوروہنگامہ کی ممانعت

234

وحشیانہ افعال کے خلاف عام ہدایات

234

اصلاح کی نتائح

236

(4)جنگ ک مہذیب قوانین

238

اطاعت امام

238

وفائے عہد

240

غیر جانداروں کے حقوق

244

اعلان جنگ

246

اسیران جنگ

249

غلامی کامسئلہ

253

غنیمت کامسئلہ

262

صلح رامان

274

مفتوح قوموں کے ساتھ برتاؤ

274

مفتوحین کی دو قسمیں

275

معاہدین

275

غیر معاہدین

283

ذمیوں کے عام حقوق

287

ذمیوں کے لبا س کامسئلہ

298

چند مستثنیات

301

بنی نضیر کااخراج

302

بنی قریظہ کاواقعہ

306

کعب ابن اشرف کاقتل

311

یہد خیبر کااخراج

314

اہل نجران کااخراج

318

(6)جدید قانون جنگ کی تدوین

322

باب ششم : جنگ دوسرے مذاہب مین

 

تقابل ادیان کے اصول

327

دنیا کے چار بڑے مذاہب

327

(1)ہندومذہب

330

ہندومذہب کے تین دور

331

دیدوں کی جنگی تعلیم

332

رگ وید

333

سام وید

341

اتھر وید

345

ویدوں کی تعلیم جنگ پر ایک نظر

348

گیتا کافلسفہ جنگ

350

گیتا کے فلسفے پر ایک نظر

355

منوکے احکام جنگ

359

جنگ کامقصد

360

جنگ کے اخلاقی حدود

361

مفتوح قوموں کے ساتھ برتاؤ

365

نسلی امتیاز

373

(2)یہودی مذہب

379

مقصدجنگ

381

حدود جنگ

384

(3)بودھ مذہب

389

بودھ مذہب کے آغاز

389

اہفساکی تعلیم

391

بودھ کافلسفہ

392

بودھ مذہب کی اصلی کمزوری

398

پیرون بودھ کی زندگی پر اہنساکااثر

40

(4)مسیحیت

406

مآخذ کی تحقیق

407

محبت کی تعلیم

411

مسیحیت کافلسفہ اخلاق

430

مسیحی اخلاقیات کااصلی نفس

417

دعوت میں جنگ نہ ہونے کی وجہ

437

دعوت مسیح کی حقیقت

438

مسیحیت اور موسوی شریعت کاتعلق

441

شریعت او رمسیحت کی علیحدگی

443

مسیحی سیرت پر علیحدگی کااثر

4446

(5)مذاہب او راربعہ کی تعلیم پر ایک نظر

454

باب ہفتم :جنگ تہذیب جدید میں

459

(1)جنگ کااخلاقی پہلو

461

جنگ عظیم کے اسباب دووجوہ

464

قوموں کی جتھ بندی

465

جنگ کاآغاز

467

شرکاء جنگ کے اغراض ومقاصد

468

خفیہ معاہدات

471

جنگ کے بعد ملکوں کی تقسیم

474

جنگ کے جائز مقاصد

484

قیام امن او رخلع سلاح کی تجویزیں

486

جمعیت اقوام

490

خلع سلاح کی جدید تجویزیں

494

(2)جنگ کاعملی پہلو

499

بین الملی قانون کی حقیقت

505

بین الملی قانون کے عناصر ترکیبی

503

بین الملی قانون کاشعبہ جنگ

506

جنگی ضروریات کاغالب ترقانون

510

نمائش او رحقیقت کافرق

511

فوجی او رقانوی گردہوں کااختلاف

514

(3)مغربی قوانین جنگ کی اصولی حیثیت

517

قوانین جنگ کی تاریخ

518

ہیگ کے سمجھوتوں کی قانونی حیثیت

523

(4)جنگ کے احکام وضوابط

527

اعلان جنگ

528

اہل قتال او رغی راہل قتال

530

مقاتلین کے حقوق وفرائض

526

1۔امان

543

2۔اسیران جنگ

545

3۔مجرد حین مرضی اور مقتولین

550

5۔مہلک اشیاء کا استعمال

554

6۔جاسوس

556

7۔خداع فی الحرب

557

8۔انتقامی کارروائیاں

558

غیر مقاتلین کے حقوق وفرائض

561

1۔غیر مقاتلین کا اولین فرض

563

2۔غیر مقاتلین کی عصمت

564

3۔غیر محفوظ آبادیوں پر گولہ باری

565

4۔عنوۃ فتح ہونے والے والے شہروں کاحکم

574

5۔احتلال او راس کے قوانین

476

6۔فارت گری وتباہ کاری

582

غیر جانبداروں کے حقوق وفرائض

582

غیر جانبدار یک تاریخ

586

موجود زمانہ میں غیر جانبداروں کی حیثیت

587

ممارنین کے فرائض غیر جانبدارں کے متعلق

591

غیر جانیداورں کے فرائض محاربین کے متعلق

591

(5ب)تبصرہ

596

 

اس مصنف کی دیگر تصانیف

اس ناشر کی دیگر مطبوعات

فیس بک تبصرے

ایڈ وانس سرچ

اعدادو شمار

  • آج کے قارئین 68265
  • اس ہفتے کے قارئین 102093
  • اس ماہ کے قارئین 1718820
  • کل قارئین111040258
  • کل کتب8851

موضوعاتی فہرست