تعلیم و تربیت انسان کی سب سے پہلی،اصل اور بنیادی ضرورت ہے۔ہماری تاریخ میں اس کی عملی تابندہ مثالیں موجود ہیں۔ ایک طرف جہاں مسجد نبوی میں چبوترے پر اہل صفہ علم حاصل کر رہے ہیں، تو دوسری طرف جنگی قیدیوں کے لیے آزادی کے بدلے ان پڑھ صحابہ کو تعلیم یافتہ بنانے کی شرط رکھی جاتی ہے اور کبھی مسجد نبوی کا ہال دینی، سماجی اور معاشرتی مسائل کی افہام و تفہیم کا منظر پیش کرتا ہے۔ آج کل فن تعلیم کو جو اہمیت حاصل ہے وہ روز روشن کی طرح سب پر عیاں ہے۔ہر طرف ٹریننگ اسکول اور کالج کھلے ہیں،مدرس تیار کئے جاتے ہیں،فن تعلیم پر نئی نئی کتابیں لکھی جاتی ہیں اور نئے نئے نظرئیے آزمائے جاتے ہیں۔ایک وہ وقت بھی تھا جب اس روئے زمین پر مسلمان ایک ترقی یافتہ اور سپر پاور کے طور پر موجود تھے،مسلمانوں کے اس ترقی وعروج کے زمانے میں بھی اس فن پر کتابیں لکھی گئیں اور علماء اہل تدریس نے اپنے اپنے خیالات کتابوں اور رسالوں میں تحریر کئےاور کتاب وسنت ،بزرگوں کے واقعات اور تجربات کی روشنی میں جو تعلیمی نتائج انہوں نے سمجھے تھے انہیں اصول وقواعد کی حیثیت سے ترتیب دے دیا تھا۔ضرورت...
غلطی ہر شخص سے ہوتی ہے ،لیکن شرعی مسائل کے استنباط میں علماء ومجتہدین سے جو غلطیاں ہوئیں،اگرچہ وہ سخت نتائج پیدا کرتی ہیں ،تاہم اگر ان پر بھی سکتی کے ساتھ دار وگیر کی جاتی تو اجتہاد کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند ہوجاتا،اور اسلام نے علماء کو جو عقلی آزادی عطا فرمائی ہے،اور اسے جو منافع امت کو پہنچے ،وہ ان سے محروم رہ جاتی،یہی وجہ ہے کہ شریعت نے اجتہادی غلطیوں کو قابل ثواب قرار دیا اور ان پر علماء کو اجر کی بشارت دی ہے۔جس سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام نے انسانی عقل کے لئے کس قدر وسیع فضا پیدا کر دی ہے۔شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ نے حدیث کی اسی بشارت کو پیش نظر رکھ کر اپنے مخصوص انداز میں اس مسئلہ پر نہایت وسعت نظر سے بحث کی ہے،اور اپنے ایک مستقل رسالہ میں پہلے ائمہ اسلام کی خطا اجتہادی پر تفصیل کے ساتھ اظہار خیال کیا ہے اور پھر مختلف دلائل سے ثابت کیا ہے کہ وہ اپنی اجتہادی غلطیوں پر قابل مواخذہ ہونے کے بجائے عند اللہ ماجور ہیں،اس لئے کوئی شخص اس بات کا حق دار نہیں ہے کہ وہ ائمہ کی اجتہادی غلطیوں پر طعن وطنز کرے۔ زیر تبصرہ کتاب"ائمہ اسلام "...
رفع الملام عن الائمۃ الاعلام شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا ایک معروف رسالہ ہے۔انہوں نے اس میں اکابر علماء اور خصوصاً ائمہ اربعہ کی جانب منسوب اس غلط فہمی کا ازالہ کیا ہے کہ انہوں نے دانستہ حدیث نبویہ کو نظر انداز کر کے اپنے مقلدین کو اپنے اقوال و افکار کی پیروی کا حکم دیا۔ شیخ نے دلائل و براہین کی روشنی میں اس کتاب میں ثابت کیا ہے کہ ایک عالم اور امام بھی ایسا نہیں جس نے شعوری طور پر حدیث نبوی سے صرف نظر کرتے ہوئے اپنے اقوال و اعمال کو دین میں حجت قرار دیا ہو۔ ایک امام تو کیا کوئی مسلم بھی اس فعل شنیع کی جسارت نہیں کر سکتا۔ زیر نظر کتاب ’’ائمہ اسلام ‘‘اسی مذکورہ کتاب کا ترجمہ ہے یہ ترجمہ سید ریاست علی ندوی رحمہ اللہ نے کیا اور پہلی بار 100سال قبل 1344ھ میں شائع ہوا۔ رفع الملام عن الائمۃ الاعلام کا ایک ترجمہ پروفیسر غلام احمد حریری رحمہ اللہ نے بھی کیا ہے جو مولانا محمد خالد سیف حفظہ اللہ کی تقدیم ، تحقیق و تخریج کے ساتھ ’’ائمہ سلف اور اتباع سنت‘‘ کے نام سے ’’طارق اکیڈمی...