اس بات میں کوئی شک نہیں کہ انسانیت کی ہدایت وراہنمائی کے لیے جس سلسلۂ نبوت کا آغاز حضرت آدم سےکیاگیا تھا اس کااختتام حضرت محمد ﷺ کی ذات ِستودہ صفات پر کردیا گیا ہے۔اور نبوت کے ختم ہوجانے کےبعددعوت وتبلیغ کاسلسلہ جاری وساری ہے ۔ دعوت وتبلیع کی ذمہ داری ہر امتی پرعموماً اور عالم دین پر خصوصا عائد ہوتی ہے ۔ لیکن اس کی کامل ترین اور مؤثر ترین شکل یہ ہےکہ تمام مسلمان اپنا ایک خلیفہ منتخب کر کے خود کو نظامِ خلافت میں منسلک کرلیں۔اور پھر خلیفۃ المسلمین خاتم النبین ﷺ کی نیابت میں دنیا بھر کی غیر مسلم حکومتوں کو خط وکتابت او رجہاد وقتال کےذریعے اللہ کے دین کی دعوت دیں۔اور ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ کہ وہ دعوت وتبلیع او راشاعتِ دین کا کام اسی طرح انتہائی محنت اور جان فشانی سے کرے جس طرح خو د خاتم النبین ﷺ اور آپ کے خلفائے راشدین اور تمام صحابہ کرام کرتے رہے ہیں ۔ مگر آج مسلمانوں کی عام حالت یہ ہے کہ اسلام کی دعوت وتبلیغ تو بہت دور کی بات ہے وہ اسلامی احکام پرعمل پیرا ہونے بلکہ اسلامی احکام کا علم حاصل کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہوتے ۔ اور یہ بات واضح ہی ہے کہ دعوت وتبلیغ سے پہلے عمل کی ضرورت ہوتی اور عمل سے پہلے علم کی ۔ زیر نظر کتاب ’’ دعوت دین کا طریقہ کار عصر حاصر كے تناظر میں ‘‘ الشیخ عدنان عرعور﷾ کے ایک تحقیقی مقالہ بعنوان منهج الدعوة في ضوء الواقع المعاصر کا اردو ترجمہ ہے ۔ فاضل مصنف نے یہ مقالہ 2005ء میں عالمی سطح پر منعقد ہونے والے ایک مقابلہ میں پیش کیا تو اسے نائف بن عبد العزیز عالمی ایوارڈ‘‘ کے نام سے پہلے انعام کے لیے منتخب کیا گیا۔مصنف نے اس تحقیقی مقالے کو تین ابواب میں تقسیم کیا ہے ۔پہلے باب میں دعوتِ دین کی اہمیت کےساتھ ساتھ مسلمانوں کی موجودہ صورتِ حال کا جائزہ لیا گیا ہے ۔دوسرے باب میں داعی کی شخصیت، اس کا مقام ، اس کی خوبیاں، موعوین کے مختلف حالات اور ان کا لحاظ رکھنے کے حوالے سے گفتگو کی گئی ہے اور تیسرے باب میں دعوتِ دین کے لیے دستیاب ذرائع کواستعمال کرنے کی شرعی حیثیت، ان کے مثبت اثرات اورمنفی پہلوؤں کو زیر بحث لایاگیا ہے ۔مقالہ نگار نے اُصول دعوت کو مجتہدانہ بصیرت کےساتھ پیش کیا ہے اور اس میں راہِ اعتدال پر رہتے ہوئے منہجِ سلف کوترجیع دی ہے ۔مولانا یوسف آف راجووال کے صاحبزادے جناب ڈاکٹر عبد الرحمٰن یوسف﷾ نے اس اہم کتاب اردو زبان میں منتقل کیا ہے اللہ تعالیٰ مصنف ، مترجم اور ناشرین کی اس کاوش کو قبول فرمائے۔آمین(م۔ا)
عناوین |
صفحہ نمبر |
عرض مترجم |
21 |
پیش لفظ از مقالہ نگار |
26 |
مقالے کا خاکہ |
29 |
باب اول: مسلمانوں کو دعوت دین کی ضرورت اور ان کی دعوتی صورت حال |
|
فصل اول: مسلمانوں کی موجودہ صورت حال |
39 |
بنی نوع انسان کو دعوت کی ضرورت |
39 |
مثال بیان کرنے اظہار جذبات کرنے اور گفتگو سے پہلے قاعدہ اور اصول بیان کرنے کی اہمیت |
43 |
فہم وادراک کی ضرورت واہمیت |
45 |
فہم وادراک کا مطلب |
45 |
ترجیحات کی پہچان |
46 |
مقاصد کا فہم وادراک |
48 |
فوائد ونقصانات کو سمجھنا |
50 |
مختلف اقوام وملل اور ان کے حالات سے آگاہی |
52 |
تربیت کی اہمیت |
55 |
تقوی کی ضرورت واہمیت |
58 |
واقعاتی صورت حال کو ملحوظ رکھنا |
60 |
لوگوں سے ان کی عقل وفہم اور ضرورت کے مطابق گفتگو کرنا |
63 |
تواضع وانکساری کی ضرورت واہمیت |
65 |
فصل ثانی: دعوت دین کی وضاحت |
68 |
دعوت دین کی تعریف |
68 |
دعوت دین کی اہمیت اور اسلام میں اس کا مقام |
68 |
دعوت دین کی فضیلت |
72 |
دعوت دین کی شرعی حیثیت |
74 |
دعوت دین کے مقاصد |
76 |
بندوں کو خالق کی پہچان کرانا اور ان کے باہمی حقوق سے آشنا کرنا |
76 |
نیکی اور اصلاح کی اشاعت شراور برائی کا خاتمہ |
79 |
اقوام کا تعارف اور ان کا باہمی اتحاد ان میں ام واشتی کی فضا ہموار کرنا |
80 |
دعوت دین کے اثرات |
81 |
حق کا غلبہ اور باطل کی شکست |
81 |
عدل وانصاف کا بول بالا ہونا اور ظلم واستبداد کا خاتمہ |
84 |
دعوت دین کا تیسرا فائدہ |
89 |
برکتوں کا نزول |
98 |
لوگوں میں اخوت اور امن وسلامتی کا قیام |
101 |
دنیا وآخرت کی سعادت مندی |
105 |
باب دوم: دعوت دین کے تین ارکان |
|
فصل اول: داعی کی حیثیت |
111 |
داعی اور اس کا مقام |
111 |
داعی کی خوبیاں |
113 |
اخلاص وتقویٰ |
113 |
مضمون دعوت کو اچھی طرح سمجھنا |
117 |
صبر و بردباری کے ثمرات |
133 |
عفوو در گزر |
135 |
عاجزی اختیار کرنا اور لوگوں سے مل جل کر رہنا |
139 |
حسن اخلاق اور فراخ دلی |
144 |
متذکرہ بالاخوبی کی میدان دعوت میں اہمیت وضرورت |
144 |
عمدہ اخلاق اور حسن معاشرت کا مفہوم |
147 |
سیرت النبی اور حسن اخلاق |
147 |
حسن اخلاق سے متعلق احادیث |
149 |
حسن گفتار اور بیوقوف سے اعراض |
150 |
رسول اللہﷺ کے ساتھ پیش آمد واقعات |
151 |
حسن معاملہ کے اصول ضوابط |
152 |
رسول اکرمﷺ کے چند پر حکمت جوابات |
154 |