عقائد کی درستگی ایمان کی درستگی اوراس کی تکمیل ہے اگر عقیدے میں خرابی پیدا ہو جائے تو اعمال کی قبولیت ناممکن ہے اسی لیے انبیائے کرام کی دعوت میں بنیادی دعوت عقیدہ توحید کی ہی دعوت تھی –ہر نبی نے پہلے اپنی امت کے عقائد کو درست کرنے کی کوشش کی ہے اس کے بعد عبادات اور دوسرے احکامات فرض کیے گئے-اس لیے کسی سے امید یا خوف رکھنا،کسی کو اپنا حاجت روا اور مشکل کشا سمجھنا ،وحی پر یقین اور ایمان،انبیاء کے بارے میں غلو اور افراط وتفریط سے بچتے ہوئے یقین رکھنااور شریعت میں اللہ تعالی کی جو صفات بیان کر دی گئیں ان کو بغیر کسی ماہیت اور کیفیت کے معلوم کرنے کے یقین رکھنا عقیدہ کہلاتا ہے-اس لیے مصنف نے اپنی کتاب میں ان تمام چیزوں پر روشنی ڈالتے ہوئے مزیدعقائد کی تفصیلات کو واضح کیا ہے جس میں ایک عقیدے کی خرابی نجومی اور کاہن لوگوں کے پاس جانے والی بھی ہے جس کو بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے اور عبادات میں نذرونیاز کے مسئلے کو واضح کرتے ہوئے اس کو صرف اللہ کے ساتھ خاص کرنے پر روشنی ڈالی ہے-نجومی ،کاہن،شعبدہ بازی،جوتشی،علم غیب اور شرک سے روکنے والوں پر لگائے جانے والے بہتانوں اور شریعت ،شرعی احکا...
انسان کی زندگی کا مقصد اللہ تعالی نے اپنی عبادت رکھا اور ہر وہ کام جس کو دین یا ثواب سمجھ کر کیا جائے وہ عبادت کے زمرے میں آتا ہے اس لیے ہر وہ معاملہ جس کو ثواب سمجھ کر کیا جائے وہ خالصتا اللہ تعالی کی رضا کے لیے اور اسی کے نام پر ہونا چاہیے اگر کوئی شخص کسی بھی ثواب والے کام کو اللہ کے علاوہ کسی اور کی رضا حاصل کرنے کے لیے سر انجام دے گا تو یہ اللہ کے ہاں ناقابل قبول ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے ساتھ شر ک جیسے قبیح گناہ کا ارتکاب ہو جائے گا-اس لیے مصنف نے اس کتاب میں عبادت كا لغوي اور اصطلاحي مفهوم بيان كرنے کے ساتھ ساتھ انسانی زندگی کا مقصد بھی واضح کیا ہے- اوراس کےساتھ ساتھ بہت ہی اہم مسائل پر روشنی ڈالی ہے جن میں سے مسئلہ شفاعت،شرک کی اقسام ،وسیلہ کی پہچان اور قبروں پر عمارت تعمیر کر نے کے بارے میں بیان ہے-سب سے اہم خوبی یہ ہےکہ ہرموضوع کو الگ الگ فصل کے تحت بیان کیا ہے۔
احکام شرعیہ کے دوحصے ہیں ایک حصہ مامورات شرعیہ کہلاتاہے جس میں کچھ کاموں کوکرنے کا حکم دیا گیا ہے دوسرا حصہ منہیات کہلاتا ہے جس میں بعض امور سے باز رہنے کا حکم دیا گیا ہے شریعت میں جس طرح مامورات کی اہمیت ہے اس سے کہیں بڑھ کر منہیات کی اہمیت ہے اس لیے کہ اگر کوئی صرف منہیات سے بچتا ہے تو اسے اس کاثواب ملتا ہے جبکہ مامورات میں اس صورت میں مستحق اجر ہوتا ہے جب وہ عملاً اسے کرے پھر مامورات میں استطاعت کی قید ہے لیکن منہیات میں یہ قید نہیں ہے مزیدبرآں منہیات کاجاننا اس لیے بھی ضروری ہے کہ انسان ان کے ارتکاب سے بچ سکے تاکہ خدا کی ناراضگی وعتاب کا نشانہ نہ بن سکے فی زمانہ شرعی منہیات کا بڑی دیدہ دلیری سے ارتکاب کیا جاتا ہے اس کی ایک وجہ لاعلمی اور جہالت بھی ہے زیرنظر کتاب کےمطالعہ سے یہ لاعلمی دور ہوجاتی ہے اور انسان ان تمام امور سے بچ سکتاہے جن سے شریعت میں روکا گیا ہے
عورت کےلیے پردہ اسلامی شریعت کا ایک واضح حکم ہے اور اس کامقصد بھی بالکل واضح ہے اسلام نے انسانی فطر ت کےعین مطابق یہ فیصلہ کیاہے کہ عورت او رمرد کے تعلقات پاکیزگی وصفائی اور ذمہ داری کی بنیادوں پراستوار ہوں اور اس میں کہیں کوئی خلل نہ آنےپائے اسی بناء پر ان تمام اسباب ومحرکات پر مکمل قدغن لگائی ہے جوغلط کا بیش خیمہ ہیں انہی میں سے ایک چہرے کاپردہ بھی ہے کہ اسی سے فتنے جنم لیتے ہیں زیرنظر کتاب شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ؒ کے افادات پرمشتمل ہے جس میں یہ بتایاگیا ہے کہ نماز میں عورت کالباس کیسا ہونا چاہیے ضمناً اس میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ نماز اور غیرنماز میں عورت کے پردے میں کیا فرق ہے انتہائی علمی اور لائق مطالعہ کتاب ہے
اہل مغرب نے اپنی لادین تہذیب وثقافت کو فروغ دینے کےلیے جومختلف نعرے ایجاد کیے ہیں ان میں سے ایک آزادئ نسواں یا حقوق خواتین کابھی ہے اس کی آڑ میں وہ مسلم ممالک میں فحاشی وعریانی کاایک سیلاب لاناچاہتے ہیں جس میں وہ کافی حد تک کامیاب بھی ہیں جدید تعلیم یافتہ مسلمانوں کی عظیم اکثریت ان کےدام تزویر میں پھنس چکی ہے اور غیرت وحیاء کا جنازہ نکل چکاہے جس سے زنا کاری اور بدکاری بہت تیزی سے پھیل رہی ہے ان حالات میں ضروری ہے کہ اسلامی تعلیمات کو جانا جائے اور ان پر عمل پیرا ہواجائے اسلام نے عورت کو سب سے بڑھ کر عزت اور تحفظ دیا ہے زیرنظر کتاب میں بڑی خوبصورتی سے خواتین کےبارے میں اسلامی تعلیمات کو اجاگر کیا گیا ہے جن سے اسلام میں عورت کی عزت وعصمت کامقام ومرتبہ ظاہر ہوتا ہے اور معاشرے میں باکیزگی اور حیاء کے جذبے فروغ پاتے ہیں
انسانوں میں مسائل ومعاملات کو سمجھنے میں فکرونظر کا اختلاف کچھ اچنبھے کی بات نہیں اس لیے کہ ہر شخص کی سوچ او رفہم وفکر کی صلاحیتیں متفاوت ہیں مزیدبرآں بسااوقات شرعی نصوص میں ایک سے زیادہ معانی کی گنجائش ہوتی ہے لہذا اختلاف واقع ہوجاتاہے لیکن اصل سوال یہ ہے کہاختلاف رائے میں رویہ او رانداز کیا ہونا چاہیے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں بھی اختلاف ہوئے لیکن انہوں نے ایک دوسرے کی نیت پر حملہ کیا اور نہ ایک دوسرے کو کافر وفاسق کہا آج بھی اسی بات کی ضرورت ہے کہ اختلاف کو علمی دلائل تک محدود رکھاجائے اور کتاب وسنت کی روشنی میں ان کو حل کرنے کی سعی کی جائے لیکن اسے باہمی بغض ونفرت اور حسدو کینہ کا سبب نہ بنانا چاہیے زیرنظر رسالے میں اسی نکتے پر زور دیا گیا ہے
اسلام جس طرح عبادات کے بات میں ہدایات دیناہے اسی طرح معاملات میں بھی مکمل رہنمائی فراہم کرتا ہے معاملات میں معیشت وتجارت کامسئلہ بہت اہم ہے میدان معیشت میں فی زمانہ ایسی بہت سی جدید صورتیں پیدا ہوچکی ہیں جو اس سے پہلے نہ تھی انہی میں ایک مسئلہ بینکنگ کاہے علماء نے اس طرف بھی توجہ کی ہے اور اسلامک بینکنگ کے کامیات تجربے بھی کیے گئے ہیں اگرچہ بعض اہل علم کو اس پر تحفظات ہیں بینکاری میں ایک اہم مسئلہ سود کا ہے کیونکہ غیراسلامی بینکاری کی اساس ہی سود پرقائم ہے جبکہ اسلام میں یہ انتہائی شدید گناہ ہے حتی کہ اسے خدا اور رسول ﷺ سے جنگ کے مترادف قراردیاگیاہے لیکن اس درجہ شناعت کے باوجود بعض لوگ مروجہ بینکوں کے سود کو جائز قرار دینے پر تلے ہوئے ہیں زیر نظر کتاب میں اس کا مفصل رد کیا گیاہے نیز جدید بینکاری کے حوالے سے بھی پیش قیمت او رمفید معلومات اس میں شامل ہیں جس سے بینکنگ کے متعلق شرعی معلومات سے آگاہی حاصل ہوتی ہے-
غلطی ہر شخص سے ہوتی ہے ،لیکن شرعی مسائل کے استنباط میں علماء ومجتہدین سے جو غلطیاں ہوئیں،اگرچہ وہ سخت نتائج پیدا کرتی ہیں ،تاہم اگر ان پر بھی سکتی کے ساتھ دار وگیر کی جاتی تو اجتہاد کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند ہوجاتا،اور اسلام نے علماء کو جو عقلی آزادی عطا فرمائی ہے،اور اسے جو منافع امت کو پہنچے ،وہ ان سے محروم رہ جاتی،یہی وجہ ہے کہ شریعت نے اجتہادی غلطیوں کو قابل ثواب قرار دیا اور ان پر علماء کو اجر کی بشارت دی ہے۔جس سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام نے انسانی عقل کے لئے کس قدر وسیع فضا پیدا کر دی ہے۔شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ نے حدیث کی اسی بشارت کو پیش نظر رکھ کر اپنے مخصوص انداز میں اس مسئلہ پر نہایت وسعت نظر سے بحث کی ہے،اور اپنے ایک مستقل رسالہ میں پہلے ائمہ اسلام کی خطا اجتہادی پر تفصیل کے ساتھ اظہار خیال کیا ہے اور پھر مختلف دلائل سے ثابت کیا ہے کہ وہ اپنی اجتہادی غلطیوں پر قابل مواخذہ ہونے کے بجائے عند اللہ ماجور ہیں،اس لئے کوئی شخص اس بات کا حق دار نہیں ہے کہ وہ ائمہ کی اجتہادی غلطیوں پر طعن وطنز کرے۔ زیر تبصرہ کتاب"ائمہ اسلام "...