#3748

مصنف : غازی عزیر مبارکپوری

مشاہدات : 10021

ضعیف احادیث کی معرفت اور ان کی شرعی حیثیت ( مبارکپوری )

  • صفحات: 416
  • یونیکوڈ کنورژن کا خرچہ: 16640 (PKR)
(بدھ 13 اپریل 2016ء) ناشر : دار الکتب العلمیہ، لاہور

حدیث شریف دین کا دوسرا بڑا ماخذ ہے۔ اور بلاشبہ اسلام کے جملہ عقائد واعمال کی بنیاد کتاب وسنت پر ہے اور حدیث درحقیقت کتاب اللہ کی شارح اور مفسر ہے اور اسی کی عملی تطبیق کا دوسرا نام سنت ہے۔ نبی کریمﷺکو جوامع الکلم دیئے اور آپ کوبلاغت کے اعلیٰ وصف سے نوازہ گیا ۔ جب آپﷺ اپنے بلیغانہ انداز میں کتاب اللہ کے اجمال کی تفسیر فرماتے تو کسی سائل کو اس کے سوال کا فی البدیع جواب دیتے۔ تو سامعین اس میں ایک خاص قسم کی لذت محسوس کرتے اوراسلوبِ بیان اس قدر ساحرانہ ہوتا کہ وقت کے شعراء اور بلغاء بھی باوجود قدرت کے اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہتے ۔احادیثِ مبارکہ گوآپﷺ کی زندگی میں مدون نہیں ہوئیں تھی تاہم جو لفظ بھی نبیﷺ کی زبانِ مبارکہ سے نکلتا وہ ہزار ہا انسانوں کے قلوب واذہان میں محفوظ ہو جاتا اور نہ صرف محفوظ ہوتا بلکہ صحابہ کرام﷢ اس کے حفظ وابلاغ اور اس پر عمل کے لیے فریفتہ نظر آتے ۔یہی وجہ تھی کہ آنحصرت ﷺ کے سفر وحضر،حرب وسلم، اکل وشرب اور سرور وحزن کے تمام واقعات ہزارہا انسانوں کے پاس آپ کی زندگی میں ہی محفوظ ہوچکے تھے کہ تاریخ انسانی میں اس کی نظیر نہیں ملتی اور نہ ہی آئندہ ایسا ہونا ممکن ہے-۔خیر القرون کے گزر نے تک ایک طرف تو حدیث کی باقاعدہ تدوین نہ ہوسکی اور دوسری طرف حضرت عثمان ﷜ کی شہادت کے ساتھ ہی دور ِ فتنہ شروع ہوگیا جس کی طرف احادیث میں اشارات پائے جاتے ہیں۔ پھر یہ فتنے کسی ایک جہت سے رونما نہیں ہوئے بلکہ سیاسی اور مذہبی فتنے اس کثرت سے ابھرے کہ ان پر کنٹرول ناممکن ہوگیا۔ان فتنوں میں ایک فتنہ وضع حدیث کا تھا۔اس فتنہ کے سد باب کے لیے گو پہلی صدی ہجری کے خاتمہ پر ہی بعض علمائے تابعین نے کوششیں شروع کردی تھی۔اور پھر اس   کے بعد وضع حدیث کے اس فتہ کوروکنے کے لیے ائمہ محدثین نے صرف احادیث کوجمع کردینے کو ہی کافی نہیں سمجھا بلکہ سنت کی حفاظت کے لیے علل حدیث، جرح وتعدیل، اور نقد رجال کے قواعد اور معاییر قائم کئے، اسانید کے درجات مقرر کئے۔ ثقات اور ضعفاء رواۃ پر مستقل تالیفات مرتب کیں­۔ اور مجروح رواۃ کے عیوب بیان کئے۔ موضوع احادیث کو الگ جمع کیا او ررواۃ حدیث کےلیے معاجم ترتیب دیں۔ جس سے ہر جہت سے صحیح، ضعیف ،موضوع احادیث کی تمیز امت کے سامنے آگئی۔اس سلسلے میں ماضی قریب میں شیخ البانی کی کاوشیں بھی لائق تحسین ہیں۔ امت محمدیہ ﷺ میں جہاں ایسے لوگ موجود رہے ہیں جو حدیثِ رسول کودین کے مآخذ کی حیثیت سے تسلیم کرنے سے منکر رہے ہیں وہاں چند ایسے جری دروغ گو بھی موجود رہے ہیں جنہوں نے صدہا احادیث وضع کر کے نبی کریم ﷺ کے نام مبارک سے لوگوں میں پھیلا کر حدیث مبارکہ ’’جس نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ باندھا اس نے جہنم میں اپنا ٹھکانہ بنایا‘‘ کا مصداق بنے۔ جبکہ صحیح حدیث باتفاق امت واجب العمل ہے۔ البتہ ضعیف احادیث کے متعلق علماء امت کا نظریہ مختلف رہا ہے۔ چند علماء فضائل اعمال کے بارے میں وارد احادیث پر عمل کے جواز کے قائل ہیں جبکہ کچھ علماء اس بات کے قائل ہیں کہ جب تک کوئی حدیث مکمل طور پر محقق نہ ہو اس پر عمل کے لیے ایک مسلمان کو کسی طور پر بھی مکلف نہیں ٹھرایا جا سکتا۔ زیر نظر کتاب ’’ضعیف احادیث کی معرفت اور ان کی شرعی حیثیت‘‘ ہندوستان کے ممتاز عالم دین غازی عزیر مبارکپوری ﷾ کی تصنیف ہے۔ اس سے قبل بھی فاضل مصنف نے اس موضوع پر اسی نام سے کتاب کو تألیف کیا تھا مگر مذکورہ کتاب فاضل مصنف کی اسی موضوع پر ہے اور اسمیں مزید مفید اضافے کیے ہیں۔جس میں انہوں نے ضعیف حدیث کی پہنچان اور اس کی شرعی حیثیت کے حوالے سے مستند حوالہ جات سے مزین مباحث کی پیش کی ہیں۔ اس موضوع پر اس کتاب سے قبل عربی زبان میں تو کافی مواد موجود تھا لیکن اردو زبان میں اتنا مستند اور تفصیلی مواد نہ تھا۔ لیکن کتاب ہذا کے مصنف موصوف نے بڑی محنت سے اردو داں طبقہ کےلیے یہ کتاب مرتب کی جو کہ طالبان ِعلوم نبوت کے لیے گراں قدر علمی تحفہ ہے۔ کتاب کے مصنف طویل عرصہ سے سعودی عرب میں مقیم ہیں۔اپنی روز مرہ کی مصرفیت کے علاوہ اچھے مضمون نگار، مصنف ، مترجم بھی ہیں۔ موصوف نے جامعہ لاہور الاسلامیہ، لاہور کے زیر نگر انی چلنے والے ادارے ’’معہد العالی للشریعۃ والقضاء ‘‘ میں حصول شہادہ کے لیے 1995ء میں ایک تحقیقی وعلمی ضخیم مقالہ بعنوان ’’اصلاحی اسلو ب تدبر حدیث ‘‘ تحریر کیا۔ جو کہ بعد میں پہلے انڈیا اور پھر پاکستان میں مکتبہ قدوسیہ کی طرف سے ’’انکار حدیث کا نیا روپ‘‘ کے نام سے دوجلدوں میں شائع ہوا۔ یہ مقالہ الحمد للہ کتاب وسنت ویب سائٹ پر موجود ہے۔ اس کے علاوہ ان کے کئی علمی وتحقیقی مضامین پاک وہند کے علمی رسائل وجرائد میں شائع ہوچکے ہیں۔ اللہ تعالی ان کے علم وعمل میں اضافہ فرمائے اور ان کی جہود کو قبول فرمائے۔ (آمین)

عناوین

صفحہ نمبر

اغاز کتاب

15

عرض مولف

17

عرض مولف

19

پیش نظر کتاب علماء کی نظر میں

23

ضعیف حدیث کی تعریف ،اسباب ضعف اوراقسام ضعیف

35

لغوی تعریف

37

اصطلاحی تعریف

37

اسباب ضعف

40

(الف)سقوط سند کے باعث ضعف

40

سقوظ سند کی اقسا م

40

(1)سقوط ظاہر ی

40

(2)سقوط خفی

41

(ب)راوی پر طعن کے باعث ضعف

41

راوی پر طعن کے اسباب

41

(1)راوی کی عدالت وثقابت کو مجروح کرنے  والے اسباب

42

1۔کذب

42

2۔تہمت کذب

42

مدرج

75

مطلوب

77

مضطرب

79

مزید فی متصل الانید

81

مصحف

82

شاذ

84

موقوف

86

مقطوع

88

3۔ضعیف احادیث کی روایت سے متعلق چند ضروری آداب شرائط اور اصول

91

1۔کسی حدیث کو باسناد وضعیف پا کر فی الجملہ اس حدیث کو ضعیف المتن نہ کہا جائے

93

2۔’’صحیح ‘‘کو بصیغہ تمریض اور  ضعیف کو بصیغہ جزم بیان کرنا خلاف اصو لہے

93

ابن فورک او رابن حجر ہتیمی کا اصول سے انحراف

95

ضعیف وموضوع احادیث کی مشکلات کے حل کاتکلف نہ کیا جائے

95

4۔ضعیف حدیث کی روایت کاحکم

98

5۔صحیح اور ضعیف احادیث میں تمیز کی ضرورت

100

6۔ضعیف احادیث کا ضعف بیان نہ کرنا باعث گناہ اور دین میں دھوکہ بازی ہے

104

7۔ضعیف حدیث کی روایت کیوں جائز ہے

106

8۔’’غیر صحیح ‘‘اور موضوع ‘‘حدیث میں فرق

108

9۔متابعت بالضیف

108

10۔تفاوت ضعیف

108

11۔الضعیف لایعل بہ الصحیح

110

4۔ضعیف احادیث کے چند مشہور مراجع ومصادر

113

5۔بعض فقہاء کے نزدیک معتبر چند اصول حدیث

117

1۔قول :ھذا احدیث صحیح ‘‘‘ سے مراد نفس الا مر میں حدیث کاقطعی صحیح ہونا نہیں ہوتا

119

2۔قول :ھذا حدیث غیر صحیح ‘‘سے مراد نفس الامر میں حدیث کذب ہونا نہیں ہوتا

117

3۔ضعف وصحت کاحکم ظاہر کی حیثیت سے ہوتا ہے جس میں صحیح کے موضوع یا اس کے برعکس ہونے کااحتما ل رہتاہے

120

4۔کسی فقیہ ومجتہد کاکسی حدیث سے استدلال کرناہی اس کی تصحیح ہوتا ہے خواہ وہ ضعیف ہی ہو

123

5۔اگر ضعیف حدیث میں صحت کاقرینہ پایا جائے تووہ قابل احتجاج ہوتی ہے

124

6۔مختلف فیہ حدیث حسن ہوتی ہے

143

7۔مختلف فیہ راوی حسن الحدیث ہوتاہے

143

8۔ضعیف روایت سے احد المخملات کی تعبین ہو سکتی ہے

145

9۔ضعیف اور مضعف کے درمیان فرق

145

10۔اعتضاد با لضعیف کااصول

147

6۔معرفت حدیث سے متعلق چند اہم اصول ومسائل کی تشریح

151

1۔قول :بحالہ رجال الصحیح ‘‘صحت حدیث کی دلیل نہیں ہوتا

153

2۔رجال سند کاثقہ ہوناصحت حدیث کے لیے کافی نہیں ہے

155

3۔قول :اصح شی فی لباب سے صحت حدیث مراد نہیں ہوتی

156

4۔قول :ھذا من ذاک ‘‘بھی صحت حدیث کی دلیل نہیں ہوتا

158

5۔قول :فیہ مقال ‘‘اور فی اسنادہ مقال ؏؏سے محدثین کی مرا٭د

159

6۔’’صحیح الاسناد ‘‘اور حسن الاسناد احادیث کامرتبہ

159

7۔جب خبر ثابت ہوجائےتو اصل شریعت ہوتی ہے

160

8۔ہر صحیح حدیث کو قبول کرنا شرعا لازم ہے خواہ کسی کاقول وعمل اس کے خلاف ہی ہو

160

9۔کشف ،الہام ،خواب:اور ذوق کےذریعہ احادیث نبوی ثابت نہیں ہوتی

162

ابن عربی او رعجلونی وغیرہ کااس اصول سے انحراف

167

10۔حدیث کی تصحیح :تحسین وتضعیف میں اختلاف بین المدثین کی وجوہ

177

11۔رواۃۃ حدیث کی توثیق وتضعیف بھی اجتہادی امر نہیں ہے

180

ائمہ جرح  وتعدیل کے مابین اختلاف رائے کی وجوہ

182

12۔ضعیف حدیث کے استحباب ثابت نہیں ہوتا

185

علامہ دوائس او رخفائی کے مابین مناقشہ

186

اما م ابن تیمیہ  ملاعلی قاری اور شیخ محمدناصر الدین البانی کااستحباب بالضعیف کی نفی فرماتا

190

13۔ہر ضعف حدیث کی تعدوطرق کی بناپ رحسن کہنا ایک بڑی خطاہے

191

اس بارے میں صحیح مسلک

197

14۔علم درایت الحدیث کی تاریخ اس کے مبادی وصول او رحدیث فہمی  میں اس کاکردار

203

کسی روایت کو قرائن عقل کے مطابق پر کھنا درایت نہیں کہاجاتا

206

15۔حدیث کی اصطلاح حسن امام ترمذی کی ایجاد نہیں ہے

211

علی بن مدینی اور امام بخاری کاکلمہ حسن استعمال فرمانا

213

امام احمد بن حنبل کاکلمہ حسن استعمال فرمانا

216

امام مالک کاکلمہ ’’حسن ‘‘استعمال فرمانا

218

امام شافعی کاکلمہ ’’حسن ‘‘استعمال فرمانا

219

امام طیالسی کاکلمہ ’’حسن ‘‘استعمال فرمانا

219

یحیی بن معین کاکلمہ ’’حسن ‘‘استعمال فرمانا

220

حافظ محمد بن عبداللہ ابن نمیر کا کلمہ ’’حسن ‘‘استعمال فرمانا

220

ابن ابرقی کاکلمہ ’’حسن ‘‘استعمال فرمانا

220

امام ذہلی کاکلمہ ’’حسن ‘‘استعمال فرمانا

220

امام عجلی کاکلمہ ’’حسن ‘‘استعمال فرمانا

221

امام یعقوب بن شیبہ کاکلمہ ’’حسن ‘‘استعمال فرمانا

221

امام ابو زرعہ کاکلمہ ’’حسن ‘‘استعمال فرمانا

223

امام ابو حاتم الرازی کاکلمہ ’’حسن ‘‘استعمال فرمانا

223

علامہ کشمیر ی کی ابن تیمیہ کا دعوی پر تنقید

224

16۔امام ترمذی کاتصحیح وتحسین حدیث میں تساہل مشہور ہے

225

17۔حسن حدیث عند الجمہور حجت اور معمول بہ ہوتی ہے

227

7۔ضعیف احادیث پر عمل کےمتعلق اسلاف مہنج

231

ضعیف حدیث کااحکام ،حلال وحرام او رعقائد میں غیر مقبول ہونامگر جبکہ اس میں احتیاط کاپہلو ہو

233

امام نووی کااحکام میں احادیث ضعیفہ سےاحتجاج کی مذمت فرمانا

235

فضائل اعمال اورترغیب وترہیب وغیرہ میں ضعیف حدیث کامقبول ہونا علماء کے نزدیک محل نزاع ہے

236

(الف )علماء جن کے نزدیک ضعیف حدیث مطلقا قابل قبول ہے

236

ابو داؤد اور نسائی کاضعیف اسناد کی تخریج فرمانا او راس کاسبب

237

امام احمد بن حنبل کا ضعیف احادیث کو قیاس پر ترجیج دینا

239

مسنداحمد کی شروط سنن ابو داؤد کی شروط سے بہتر ہیں

240

امام احمد کاکلمہ ضعیف سےمراد حسن ہوتی ہے امام ابن تیمیہ وغیرہ کادعوی

241

علامہ کشمیری کاابن قیم کی ایک کتا ب پر ظلم

242

امام احمد صالح المصری کا اما م احمد بن حنبل کےمسلک سےاتفاق

245

امام شافعی کاضعیف حدیث کی وقیاس پر ترجیج دینا

247

علمائے حنیفہ کے نزدیک بھی ضعیف حدیث قیاس واجتہاد سے اولی ہے

247

ضعیف حدیث کو قیاس پر ترجیج دینے کاسبب

249

حافظ عراقی وغیرہ کااس مسلک کو مقسح بیان فرمانا

250

(ب)علماء جن کےنزدیک ضعیف حدیث مطلقا مقبول نہیں صرف فضائل اعمال اورترغیب وترہیب وغیرہ میں بلاقید شروط مقبول ہوتی ہے

250

چند مقبول ضیعف روایات کی مثالیں

259

بلاتحقیق وتمیز کسی ضعیف حدیث کو قبول کرنا بداندلشیی کی بات ہے

260

ضعیف حدیث پر عمل کی رخصت ظن مرجونع کافائدہ دیتی ہے

263

(ج)علماء جن نزدیک فضائل اعمال وغیرہ میں ضعیف حدیث چند شرائط کے ساتھ مقبول ہوتی ہے

264

فضائل اعمال ضعیف حدیث کی شرائط قبول اوران کی تشریح شرائط قبول کاعلمی جائز ہ

270

 

شرائط قبول کاالتزام دائرہ عمل کوتنگ کرتاہے

270

عوامی سطح پرپہلی شرط کےالتزام کی توقع بعید ازامکان ہے

271

کسی اصل عام کےتحت داخل ہونے  سےعمل ضعیف حدیث پر نہیں بلکہ اس اصل عام سےتحت ہوتاہے

271

تیسری شرط خود ضعیف حدیث پر عمل ترک کرنے کی متقاضی ہے

273

فضائل اعمال میں ضعیف احادیث کی شرائط قبول اور احافظ ابن حجر عسقلانی

274

مذکورہ بالاشرائط قبول سےانحراف کی چند مثالیں

275

پہلی حدیث

275

دوسری حدیث

280

تیسری حدیث

290

چوتھی حدیث

298

پانچویں حدیث

300

چھٹی حدیث

303

ساتویں حدیث

304

آٹھویں حدیث

307

نویں حدیث

309

دسویں حدیث

312

حاصل کلام

314

(د)علماء جن کے نزدیک ضعیف حدیث پر عمل مطلقاناجائز ہے

315

حضرت قتادہ کا موقف

315

امام محمد بن یحیی الذہلی کا موقف

316

امام احمد بن زید بن ہارون کاموقف

316

امام یحیی بن محمد بن یحیی کاموقف

316

امام یحیی بن معین او رابن عربی کامسلک

317

امام بخاری کےمتعلق احادیث ترغیب وترہیب میں تساہل کادعوی باطل ہے

317

امام بخاری وغیرہ کاعلی اطلاق ضیعف حدیث کو اخذ کرنے  سے منع فرمانا شیخ کو ثری کی صراحت

321

اما م مسلم کاضعیف احادیث کی روایت کرنے  او رانھیں اپنانے  کی مذمت فرمانا

322

امام ابن حبان کاضعیف حدیث پر عمل  جائز نہ سمجھنا

323

علامہ خطیب بغدادی کامسلک

324

ابو شامہ المقدطبی کاحافظ ابن عساکر پر تعاقب فرمانا

325

امام شاطبی الغرنانی کی وضاحت

325

اما م ابن حزم کامسلک

328

امام ابن تیمیہ کاموقف

329

علامہ شوکانی کی حافظ ابن عبدلبر کے کلام پر تنقید

332

شیخ احمد محمد شاکر کاضعیف حدیث پر عمل سے منع فرنانا

332

عصر حاضر کے بعض مشاہیرہ کی تصریحات

333

شیخ الالبانی کےاقوال

334

ڈاکٹر صحبی صالح کی رائے

336

مولنا امین احسن اصلاحی صاحب کےنظریات

337

پیر محب اللہ شاہ راشدی صاحب کی رائے

338

مولا نا شمس پیر زاد ہ صاحب کی رائے

340

مولانا حبیب الرحمن صدیقی کاندھلوی صاحب کی حق پسندی

341

ڈاکٹر عبدالرحمن عبدالجبار فریوائی صاحب کی رائے

342

مولانا محمد اسحاق کےکلمات

344

حاصل کلام

345

8۔ضمیعہ :فضیلت کے بارے میں واردہ ایک زبان زد حدیث

351

حضرت جابر بن عبداللہ کی مرفوع حدیث کاعلمی جائزہ

353

حضرت ابن عمر کی حدیث کاعلمی جائز ہ

358

پہلی حدیث

358

دوسری حدیث

361

حضرت انس ؓ کی حدیث کاعلمی جائزہ

363

پہلی حدیث

363

دوسری حدیث

365

تیسری حدیث

367

چوتھی حدیث

368

اس باب کی چند دوسری روایات اور مشاہیر علماء کی آراء

371

بعض علماء کی پیش کردہ کمزور تاویلات اور ان کاجائز ہ

373

علامہ سیوطی کی تائیدات اور ان کا اجائزہ

374

علامہ سیوطی کا تنقیح تحقیق تصحیح وتضعیف میں تساہل

374

علامہ سیوطی کاایک منامی روایت کو دلیل بنانا

375

ملاعی قاری کی تاویلات اور ان کاجائز ہ

377

پہلااختلاف

380

دوسرا ختلاف :ضعیف وموضوع حدیث کی مشکلات کےجواب کاتکلف محدثین کےاصول سےانحراف ہے

380

تیسرا اختلاف :عمومات میں ادراج کسی روایت کےثبوت کی دلیل نہیں

381

چوتھااختلاف:کسی ضعیف یاموضوع روایت کی ظنی طور پر صحت سندپر محمول کرنا درست نہیں ہے

383

پانچواں اختلاف:ابن حجر مکی کے اس قول کی حقیقت کہ کسی حدیث کی تصحیح ،تحسین ،وتضعیف کا حکم بحثییت ظاہر ہوتا ہے  جس میں صحیح کے موضوع ہونے اور موضوع کے صحیح ہونے کااحتمال باقی رہتاہے

383

چھٹااختلاف:ابن حجر مکی زیر نظر حدیث سے پوری طرح باخبر ن ہونا نیز تاویل حدیث کاآں ؒ کی طریف انتساب مشکو ک ہے

383

خلاصہ کلام :حدیث زیر نظر موضوع ہے اس کے آثار سیہ ہیں

385

9۔اشاریہ :

389

1۔آیا ت قرآنیہ

390

2۔اخبار واحادیث

391

3۔تراجم رواۃ

397

4۔مراجع ومصادر

400

اس مصنف کی دیگر تصانیف

اس ناشر کی دیگر مطبوعات

فیس بک تبصرے

ایڈ وانس سرچ

اعدادو شمار

  • آج کے قارئین 73688
  • اس ہفتے کے قارئین 107516
  • اس ماہ کے قارئین 1724243
  • کل قارئین111045681
  • کل کتب8851

موضوعاتی فہرست