اجتہاد ہر دور کی اہم ضرورت رہا ہے اور اس کی اہمیت بھی ہمیشہ اہل علم کے ہاںمسلم رہی ہے۔ اجتہاد اسلام کا ایک ایسا تصور ہے جو اسے نت نئی نیرنگیوں سے آشنا کر کے فکری جمود سے آزادی بخشتا ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ کے زمانہ میں آپﷺ کی حیثیت اللہ احکم الحاکمین کی طرف سے صدق و وفا کے علمبردار مرشد الٰہی کی تھی۔ صحابہ اکرام کو جو بھی مسئلہ درپیش آتا تو اس سے متعلق الہامی رہنمائی حاصل کرنے کے لیے وہ اللہ کے رسول ﷺ کی طرف رجوع کرتے تھے اور کتاب وسنت کی روشنی سےپوری طرح مطمئن ہو جاتے، بعض اوقات اگر وحی نازل نہ ہوتی توآپ شریعت الٰہی کی تعلیمات میں غور وفکر کرتے اور یہ فکر ونظر آپﷺ کے ملکہ نبوت کے حامل ہونے کے باوصف ہر طرح کے مسائل کی عقدہ کشائی کرتا، جسے لغوی طور پر تو 'اجتہاد ' کہا جا سکتا ہے، لیکن ہوائے نفس سے پاک ہونے اور ملکہ نبوت کی ممارست کی بدولت یہ سنت رسولﷺ ہی کہلاتا۔ کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ عصمت اور الہامی تصویب کا نتیجہ ہوتا تھا۔ چونکہ خلفاے راشدین کے دور میں اسلامی خلافت کی حدود اس قدر وسیع ہو گئی تھیں کہ اس دور کی سپر پاورز 'روم وفارس ' بھی زیر نگیں ہو کر خلافت اسلامیہ تین براعظموں ایشیاء، افریقہ اور یورپ تک پھیل چکی تھی ۔تو ہزاروں نئے مسائل بھی سامنے آتے رہے جن کو حل کرنے کے لیے اجتہاد کی اہمیت روز برروز بڑھنے لگی تو تابعین میں اجتہاد کے دو مکاتب فکر 'اہل الاثر' اور 'اہل الرائے' کے نام سے معروف ہوئے۔ اہل الاثر کے سرخیل مشہور محدث اور فقیہ تابعی سعید بن مسیب کو قرار دیا جاتا ہے جن کا حلقہ اثر زیادہ تر حرمین شریفین تھا۔ ۔ دوسری طرف حدیث وفقہ کے ایک بڑے امام ، ابراہیم نخعی تھے۔جو کچھ نئے اسالیب اجتہاد کے حامل ہونے کی بنا پر 'اہل الرائے' کے امام بن گئے۔ اس کے بعد امام شافعینے اجتہادی اسالیب کو منضبط کرنے کے لیے اصول حدیث وفقہ کے موضوع پر معرکۃ الآراء کتاب 'الرسالۃ' لکھ کر اجتہادی اسالیب کو پختہ بنیادوں پر استوار کرنے کی کوشش کی۔ امام شافعی دونوں حلقوں کے اکابرین سے استفادہ کے باوجود بنیادی طور پر 'اہل الاثر' مکتب فکر پر ہی گامزن رہے ۔تیسری صدی ہجری کے حدیث وفقہ کے اجل امام بخاری کا تعلق بنیادی طور پر 'اہل الاثر' مکتب فکر سے ہے، تاہم انہوں نے اپنی تصنیف 'الجامع الصحیح' میں جہاں روایت و درایت کے اعتبار سے اعلیٰ درجہ کی صحیح احادیث پر استدلال کی بنیاد رکھی وہاں صحیح بخاری کی ترتیب وتدوین میں اجتہاد وفقہ کو اتنی اہمیت دی کہ ان کی کتاب کے بارے میں یہ مشہور ہو گیا : "فقه البخاري في تراجم أبوابه" (امام بخاری کی فقاہت ان کے ابواب کی ترجمانی میں ہے۔)بلاشبہ امام بخاری متقدمین ائمہ سلف کےاس دور کا ایک منارہ نور ہیں جس کی ضیا پاشی نہ صرف اس دور میں چہارسو پھیلی بلکہ ان کی جامع صحیح کو اتنی مقبولیت اور ہردل عزیزی ملی کہ اب تک اسلامی مشرق و مغرب میں اسے جملہ اسلامی مکاتبِ فکر کےہاں نہایت اعلیٰ مقام کی حامل کتاب تسلیم کیا جاتا ہے ۔ کیا یہ اعزاز کم ہے کہ اسے اُسوہ حسنہ کی مبارک نقشہ کشی کرنےوالی تالیفات میں سے 'أصح الکتب بعد کتاب الله' کےلقب سے یاد کیاجاتاہے؟موصوف کی تالیف کی عظمت کا یہ مظہربھی منہ بولتا ثبوت ہے کہ اس کے بے شمار پہلوؤں پرہزاروں جلدوں پر مشتمل سیکڑوں شروحات لکھی گئیں اور اب تک لکھی جارہی ہیں او راسلامی جامعات کے آخر ی مرحلوں میں اس کی تدریس کرنے والے کو 'شیخ الحدیث' کےاعلیٰ ترین منصب کاحامل سمجھا جاتا ہے۔اجتہاد کے بار ے میں امت مسلمہ نئے دور میں افراط وتفریط کا شکار ہے۔اگرچہ کتاب وسنت کی جامعیت اور اجتہاد کی وسعتوں کی بدولت ہر قسم کے قدیم وجدید مسائل کا بہترین حل پیش کیا جا سکتا ہے زیر نظر مقالہ أصول الاجتهاد في الجامع المسند الصحیح المختصر من أمور رسول الله ﷺ وسُننه وأیامه''وہ اہم علمی وتحقیقی کاوش ہے جسے مولانا حافظ عبدالرحمن مدنی ﷾ (رئیس جامعہ لاہورالاسلامیہ) نے جامعہ کراچی میں پی ایچ ڈی کے لیے پیش کیا ۔ امام بخاری کی کتاب کا نام 'الجامع الصحیح' ہے جو اس کی جامعیت کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ امام صاحب نے اس کتاب میں اپنے دور کے ہر قسم کے شعبہ زندگی سے متعلقہ مسائل کو متنوع ابواب قائم کر کے ائمہ سلف کی تائید کے ساتھ صحیح ترین احادیث سے پیش فرمایا ہے۔ امام بخاری نے مقاصد شریعت کی روشنی میں کتاب وسنت کے اطلاق کے متنوع اسالیب کو اجتہاد قرار دیا ہے اور ان مناہج کی نسبت صحابہ اور سلف صالحین کی طرف کی ہے۔ پس اگر ہم خلفائے راشدین کی اجتہادی بصیرت سے مستفید ہونا چاہتے ہیں اور ان بنیادوں پر اہل علم کی اجتہادی تربیت کرنا چاہتے ہیں کہ جن بنیادوں پر صحابہ کی اجتہادی تربیت ہوئی تھی اور اس اجتہادی ذوق وملکہ کو بیدار کرنا چاہتے ہیں جو صحابہ میں موجود تھا تو اس کے لیے صحیح بخاری کا امام بخاری کے اصول اجتہاد کی روشنی میں ایک علمی مطالعہ از بس ضروری ہے۔ مقالہ ہٰذا کلیۃً ہرگزکوئی بدیعی شے نہیں ہے بلکہ امام بخاریکے 'اُصولِ اجتہاد' کے پہلو سے اس میں جو کچھ مواد جمع کیاگیاہے وہ اس جامع صحیح کی سابقہ سینکڑوں شروحات کی خوشہ چینی کےعلاوہ جابجا ان خصوصی تبصروں پر بھی مشتمل ہے جو مقالہ نگار کی اپنی تدریسی وتحقیقی زندگی کےدوران اس کےسامنے آتےر ہے۔ انگلینڈ سے ایک صاحب کی فرمائش پر اسے کتاب وسنت ویب سائٹ پرآن لائن کیا گیا ہے۔ موصوف مقالہ نگار محترم ڈاکٹر حافظ عبد الرحمن مدنی ﷾ مجتہد العصر حافظ عبد اللہ محدث روپڑی او ر شيخ التفسير حافظ محمد حسین روپڑی (والد مقالہ نگار)کے تربیت یافتہ صاحب بصیرت جید عالم دین ہیں( موصوف كو محدث روپڑی کے علاوہ شیخ ابن باز ،علامہ ناصر الدین البانی، شیخ حماد الانصاری ، شیخ عطیہ سالم ،مولانا عبد الغفار حسن وغیرہ جیسی عظیم شخصیات سے شرفِ تلمذ حاصل ہے ۔)او راپنے خاندان کے علم وعمل کی روایات کو بر قرار رکھے ہوئے ہیں اور اسی لیے ان کا احترام ا ن کے اکابر کی طرح لوگوں کے دلوں میں موجود ہے ۔ موصوف حافظ عبد اللہ محدث روپڑی کی وفات کے بعد حصول تعلیم کےلیے مدینہ یونیورسٹی جانے سےقبل جامعہ اہل حدیث (مسجد قدس)چوک دالگراں کے ناظم اورہفت روزہ تنظیم ا ہل حدیث کے مدیر رہے ۔سعودی عرب سے واپس آکر 1970ء میں ایک علمی وتحقیقی مجلہ ماہنامہ محدث کا اجراء کیا جوکہ اہل علم کے ہاں مقبول ترین رسالہ ہے ۔اور مدرسہ رحمانیہ وجامعہ لاہور الاسلامیہ کے نام سے دینی درسگاہ قائم کی ۔حافظ صاحب کی کوششوں سے جامعہ لاہور الاسلامیہ ،لاہور اب ماشاء اللہ یونیورسٹی کا درجہ اختیار کر چکا ہے۔اب تک سیکڑوں طلباء اس درسگاہ سے فیض یاب ہو چکے ہیں جن میں مولانا خالدسیف شہید ،مولانا عطاء الرحمن ثاقب شہید ، مولانا قاری عبد العلیم بلال ،مولانا محمد شفیق مدنی، ڈاکٹر حافظ محمداسحاق زاہد(مؤلف زاد الخطیب)، مولانا عبد القوی لقمان ، ڈاکٹر حافظ محمد انو ر(اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد )، ڈاکٹر نصیر اختر(جامعہ کراچی) سید توصیف الرحمن راشد ی(معروف خطیب واعظ) وغیر ہم قابل ذکر ہیں ۔اسی طرح حافظ صاحب نے 1982میں عصر ی یونیورسٹیوں کے فاضلین اوروکلاء او رجج حضرات کی تربیت کے لیے المعہد العالی للشریعۃ والقضاء کےنام سے ایک ادارہ قائم کیا جس سے ہائی کورٹ وسپریم کورٹ کے بیسیوں وکلاء اور ججز کے علاوہ علماء حضرا ت نے بھی تربیت حاصل کی ان میں پروفیسر ظفر اقبال ، حافظ محمد سعید(امیر جماعۃ الدعوۃ،پاکستان ) ، جسٹس خلیل الرحمن خاں(سابق چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ، جسٹس رفیق تارڈ(سابق صدر پاکستان )،جسٹس منیر مغل وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔تقریبا 25 سال قبل حافظ صاحب نےخواتین کی تعلیم وتربیت کے لیے اسلامک انسٹیٹیوٹ کا آغاز کیا اب ماشاء اللہ لاہور بھر میں اسلامک انسٹیٹیوٹ کی کئی شاخیں موجود ہیں جس سےہزاروں خواتین مستفید ہوچکی ہیں انسٹی ٹیوٹ کے تمام امور کی نگر انی حافظ صاحب کی اہلیہ محترمہ کے ذمے ہیں ۔1992 میں حافظ صاحب نے جامعہ لاہور الاسلامیہ کے تحت شیخ القراء محترم قاری محمد ابراہیم میر محمدی ﷾(فاضل مدینہ یونیورسٹی )کی معیت میں کلیۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ کا آغاز کیاماشاء آج ملک بھر کے اہم مدارس ومساجد میں اس کلیہ کے فاضل تجویدوقراءات کی تعلیم دینے میں مصروف ہیں اور اسی طرح ملک کے مایہ ناز نواجوان قراء قاری ابراہیم صاحب کے شاگرد اور اسی کلیۃ القرآن کے فاضل ہیں مثلا قاری صہیب احمد میر محمدی، قاری حمزہ مدنی ،قاری عبد السلام عزیزی ،قاری محمد عارف بشیر وغیرہ ۔محدث فور م ، کتاب وسنت اور دیگر ویب سائٹس بھی حافظ کی زیر پرستی چل رہی ہیں جس کی نگرانی موصوف کے بیٹے ڈاکٹر حافظ انس نضر (فاضل مدینہ یونیورسٹی ) کرتے ہیں ۔6 سال قبل اس ویب سائٹ کا آغاز ہوا ۔ دنیا بھر میں صحیح اسلامی منہج پر کام کرنے والی اردو ویب سائٹس میں مقبول ترین ویب سائٹ ہے ہر روز بلا ناغہ اس میں ایک کتا ب اپ لوڈ کی جاتی ہے اب تک تقریبا 2000کتب آن لائن ہوچکی ہیں دنیا بھر سے تقریبا 10000 یومیہ لوگ اس سے مستفید ہوتے ہیں۔ (ولله الحمد) محترم حافظ صاحب کے چاروں بیٹے علم قدیم وعلم جدید کا حسین امتزاج ہیں ۔چاروں نے باقاعدہ درس ِنظامی کی مکمل تعلیم حاصل کی اور اسلامی علوم اور دینی اداروں کی خدمت کے ذریعے ماشاء اللہ خاندان کی علمی ودینی روایات کے امین بن گئے ہیں اور سب نے اہم موضوعات پر پی ایچ ڈی کر کے عصری جامعات سے ڈاکٹریٹ کی اسناد بھی حاصل کر رکھی ہیں ۔اور دین اسلام کی ترویج واشاعت میں مصروف عمل ہیں ۔ دین اسلام کی اشاعت وترویج کے سلسلے میں اللہ تعالی حافظ صاحب اور ان کے خاندان کی مساعی جمیلہ کو شرف قبولیت سے نوازے اور انہیں تندرستی وصحت عطا فرمائے (آمین)(م۔ا)
عناوین |
|
صفحہ نمبر |
جلد دوم |
|
|
باب پنجم شریعت اور کتاب وسنّت |
|
420 |
فصل اوّل : وحی و الہام |
|
420 |
مبحث اوّل: وحی اور اس کی صورتیں |
|
420 |
وحی کے حوالے سے امام بخاری کی رائے |
|
443 |
مبحث دوم: حکم اور اس کی اقسام |
|
447 |
حکم کی اقسام |
|
452 |
مباحثِ حکم میں امام بخاری کی رائے |
|
462 |
مبحث سوم: حاکم |
|
747 |
امام بخاری کی رائے |
|
476 |
فصل دوم : کتاب اللہ (قرآنِ کریم) |
|
486 |
مبحث اوّل : شریعت و نظام میں قرآن کا مقام |
|
486 |
امام بخاری کی رائے |
|
494 |
مبحث دوم: قرآنِ کریم اور اس کی قراءات |
|
494 |
قراء اتِ قرآنیہ کے سلسلہ میں امام بخاری کی رائے |
|
501 |
مبحث سوم: قرآن کریم میں احکام الٰہی کا اسلوب |
|
503 |
احکامِ بیان کا اُسلوب اور امام بخاری |
|
509 |
مبحث چہارم: قرآن کریم کی دلالت |
|
509 |
فصل سوم: سنّتِ رسول ﷺ (حدیث نبویؐ) |
|
516 |
مبحث اول : سنت کی تشریعی حیثیت |
|
516 |
سنت کی تشریعی حیثیت اور امام بخاری |
|
521 |
مبحث دوم :سنت (قولی،فعلی،تقریری) |
|
524 |
سنت کی اقسام اور امام بخاری |
|
535 |
مبحث سوم:حدیث(مرفوع،موقوف،مقطوع) |
|
541 |
حجیت اقوالِ صحابہ اور امام بخاری |
|
552 |
مبحث چہارم:کیا حدیث اور سنت میں فرق ہے؟ |
|
556 |
سنت اور حدیث میں فرق اور امام بخاری |
|
557 |
مبحث پنجم:قرآ ن وسنت کا باہمی تعلق |
|
557 |
تشریح قرآن میں سنت کا مقام اور امام بخاری |
|
561 |
مبحث ششم: خبر واحد کی حجیت |
|
566 |
اخبار احاد اور امام بخاری |
|
569 |
مبحث ہفتم: حدیث مرسل |
|
589 |
مرسل روایت اور امام بخاری |
|
600 |
باب ششم دلالتِ منظوم (دلالات) |
|
616 |
فصل اول : لفظ کی دلالت ؛’صیغہ‘کے اعتبار سے |
|
616 |
تمہید |
|
619 |
مبحث اوّل : عام و خاص |
|
619 |
عام وخاص اورامام بخاری |
|
632 |
مبحث دوم : مطلق ومقید |
|
640 |
مطلق ومقید اور امام بخاری |
|
645 |
مبحث سوم : امر ونہی |
|
647 |
امام بخاری کا موقف |
|
656 |
فصل دوم: لفظ کی دلالت؛ استعمال کے اعتبار سے |
|
667 |
مبحث اوّل: حقیقت ومجاز |
|
667 |
حقیقت و مجاز اور امام بخاری |
|
670 |
مبحث دوم : تاویل |
|
674 |
تاویل اور امام بخاری |
|
676 |
فصل سوم: لفظ کی دلالت جلی اور خفی ہونے کے اعتبار سے |
|
681 |
مبحث اوّل :نص وظاہر |
|
681 |
امام بخاری اور نص کا مقام و مرتبہ |
|
683 |
نص و ظاہر اور امام بخاری |
|
686 |
مبحث دوم : مجمل ومبین |
|
689 |
مجمل ومبین اور امام بخاری |
|
691 |
فصل چہارم: تعارض ادلّہ اور ان کا حل |
|
697 |
’تعارض ادلّہ ‘ اور امام بخاری |
|
704 |
باب ہفتم دلالتِ غیرمنظوم(دلالات) |
|
715 |
فصل اوّل : لفظ کی دلالت کی کیفیتیں |
|
715 |
مبحث اوّل: دلالتِ اقتضاء |
|
720 |
مبحث دوم: دلالت اشارہ |
|
724 |
مبحث سوم: دلالت تنبیہ وایماء |
|
727 |
مبحث چہارم: مفہوم موافق |
|
730 |
مبحث پنجم: مفہوم مخالف |
|
730 |
مبحث ششم:دلالت معقول |
|
737 |
دلالت کی اقسامِ ستہ اور امام بخاری |
|
737 |
فصل دوم : قیاس |
|
748 |
امام بخاری اور قیاس ورائے ؛ عمومی جائزہ |
|
755 |
امام بخاری اور قیاس ورائے : خصوصی تجزیہ وتبصرہ |
|
765 |
قیاس شبہ اور قیاسِ طرد ؛امام بخاری کا موقف |
|
776 |
امام بخاری کا مسلک |
|
779 |
امام بخاری کے تصور قیاس کے امتیازی نکات |
|
782 |
فصل سوم: استحسان |
|
794 |
استحسان اور امام بخاریؒ |
|
805 |
فصل چہارم: استصلاح |
|
810 |
امام بخاری اور’ مصالح مرسلہ‘ |
|
819 |
فصل پنجم: سدالذریعہ |
|
825 |
’سد الذریعہ ‘ کے بارے میں امام بخاری کا موقف |
|
830 |
فصل ششم: حیلہ |
|
839 |
فصل ہفتم : استقراء |
|
849 |
’استقراء‘ اور امام بخاری |
|
850 |
فصل ہشتم : استصحاب |
|
850 |
استصحاب کے بارے میں امام بخاریؒ کا موقف |
|
855 |
فصل نہم : سابقہ شریعتیں |
|
866 |
فصل دہم : اجماع و عرف |
|
883 |
مبحث اوّل : عرف وعادت (رواج) |
|
883 |
عُرف كے بارے میں امام بخاری کا موقف |
|
883 |
مبحث دوم : اجماع |
|
889 |
امام بخاری کی اصول اجماع کے بارے میں آرا |
|
911 |
خاتمہ بحث:اُصولِ اجتہاد اور دورِ حاضر |
|
920 |
فہارس قرآنی آیات |
|
927 |
فہارس احادیث نبویؐہ |
|
954 |
فہارس اَشعار |
|
966 |
فہارس اعلام |
|
968 |
فہارس اماکن |
|
995 |
مصطلحات |
|
998 |
مصادر ومراجع |
|
1011 |
Abstract |
|
1040 |