#1594.01

مصنف : حافظ عبد الرحمٰن مدنی

مشاہدات : 4486

صحیح بخاری میں اصول اجتہاد جلد دوم

  • صفحات: 630
  • یونیکوڈ کنورژن کا خرچہ: 18900 (PKR)
(جمعرات 10 اپریل 2014ء) ناشر : کلیہ معارف اسلامیہ، جامعہ کراچی ، کراچی

اجتہاد ہر دور کی اہم ضرورت رہا ہے اور اس کی اہمیت بھی ہمیشہ اہل علم کے ہاںمسلم رہی ہے۔ اجتہاد اسلام کا ایک ایسا تصور ہے جو اسے نت نئی نیرنگیوں سے آشنا کر کے فکری جمود سے آزادی بخشتا ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ کے زمانہ میں آپﷺ کی حیثیت اللہ احکم الحاکمین کی طرف سے صدق و وفا کے علمبردار مرشد الٰہی کی تھی۔ صحابہ اکرام ﷢ کو جو بھی مسئلہ درپیش آتا تو اس سے متعلق الہامی رہنمائی حاصل کرنے کے لیے وہ اللہ کے رسول ﷺ کی طرف رجوع کرتے تھے اور کتاب وسنت کی روشنی سےپوری طرح مطمئن ہو جاتے، بعض اوقات اگر وحی نازل نہ ہوتی توآپ شریعت الٰہی کی تعلیمات میں غور وفکر کرتے اور یہ فکر ونظر آپﷺ کے ملکہ نبوت کے حامل ہونے کے باوصف ہر طرح کے مسائل کی عقدہ کشائی کرتا، جسے لغوی طور پر تو 'اجتہاد ' کہا جا سکتا ہے، لیکن ہوائے نفس سے پاک ہونے اور ملکہ نبوت کی ممارست کی بدولت یہ سنت رسولﷺ ہی کہلاتا۔ کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ عصمت اور الہامی تصویب کا نتیجہ ہوتا تھا۔ چونکہ خلفاے راشدین کے دور میں اسلامی خلافت کی حدود اس قدر وسیع ہو گئی تھیں کہ اس دور کی سپر پاورز 'روم وفارس ' بھی زیر نگیں ہو کر خلافت اسلامیہ تین براعظموں ایشیاء، افریقہ اور یورپ تک پھیل چکی تھی ۔تو ہزاروں نئے مسائل بھی سامنے آتے رہے جن کو حل کرنے کے لیے اجتہاد کی اہمیت روز برروز بڑھنے لگی تو تابعین میں اجتہاد کے دو مکاتب فکر 'اہل الاثر' اور 'اہل الرائے' کے نام سے معروف ہوئے۔ اہل الاثر کے سرخیل مشہور محدث اور فقیہ تابعی سعید بن مسیب کو قرار دیا جاتا ہے جن کا حلقہ اثر زیادہ تر حرمین شریفین تھا۔ ۔ دوسری طرف حدیث وفقہ کے ایک بڑے امام ، ابراہیم نخعی تھے۔جو کچھ نئے اسالیب اجتہاد کے حامل ہونے کی بنا پر 'اہل الرائے' کے امام بن گئے۔ اس کے بعد امام شافعینے اجتہادی اسالیب کو منضبط کرنے کے لیے اصول حدیث وفقہ کے موضوع پر معرکۃ الآراء کتاب 'الرسالۃ' لکھ کر اجتہادی اسالیب کو پختہ بنیادوں پر استوار کرنے کی کوشش کی۔ امام شافعی دونوں حلقوں کے اکابرین سے استفادہ کے باوجود بنیادی طور پر 'اہل الاثر' مکتب فکر پر ہی گامزن رہے ۔تیسری صدی ہجری کے حدیث وفقہ کے اجل امام بخاری کا تعلق بنیادی طور پر 'اہل الاثر' مکتب فکر سے ہے، تاہم انہوں نے اپنی تصنیف 'الجامع الصحیح' میں جہاں روایت و درایت کے اعتبار سے اعلیٰ درجہ کی صحیح احادیث پر استدلال کی بنیاد رکھی وہاں صحیح بخاری کی ترتیب وتدوین میں اجتہاد وفقہ کو اتنی اہمیت دی کہ ان کی کتاب کے بارے میں یہ مشہور ہو گیا : "فقه البخاري في تراجم أبوابه" (امام بخاری کی فقاہت ان کے ابواب کی ترجمانی میں ہے۔)بلاشبہ امام بخاری متقدمین ائمہ سلف کےاس دور کا ایک منارہ نور ہیں جس کی ضیا پاشی نہ صرف اس دور میں چہارسو پھیلی بلکہ ان کی جامع صحیح کو اتنی مقبولیت اور ہردل عزیزی ملی کہ اب تک اسلامی مشرق و مغرب میں اسے جملہ اسلامی مکاتبِ فکر کےہاں نہایت اعلیٰ مقام کی حامل کتاب تسلیم کیا جاتا ہے ۔ کیا یہ اعزاز کم ہے کہ اسے اُسوہ حسنہ کی مبارک نقشہ کشی کرنےوالی تالیفات میں سے 'أصح الکتب بعد کتاب الله' کےلقب سے یاد کیاجاتاہے؟موصوف کی تالیف کی عظمت کا یہ مظہربھی منہ بولتا ثبوت ہے کہ اس کے بے شمار پہلوؤں پرہزاروں جلدوں پر مشتمل سیکڑوں شروحات لکھی گئیں اور اب تک لکھی جارہی ہیں او راسلامی جامعات کے آخر ی مرحلوں میں اس کی تدریس کرنے والے کو 'شیخ الحدیث' کےاعلیٰ ترین منصب کاحامل سمجھا جاتا ہے۔اجتہاد کے بار ے میں امت مسلمہ نئے دور میں افراط وتفریط کا شکار ہے۔اگرچہ کتاب وسنت کی جامعیت اور اجتہاد کی وسعتوں کی بدولت ہر قسم کے قدیم وجدید مسائل کا بہترین حل پیش کیا جا سکتا ہے زیر نظر مقالہ أصول الاجتهاد في الجامع المسند الصحیح المختصر من أمور رسول الله ﷺ وسُننه وأیامه''وہ اہم علمی وتحقیقی کاوش ہے جسے مولانا حافظ عبدالرحمن مدنی ﷾ (رئیس جامعہ لاہورالاسلامیہ) نے جامعہ کراچی میں پی ایچ ڈی کے لیے پیش کیا ۔ امام بخاری  کی کتاب کا نام 'الجامع الصحیح' ہے جو اس کی جامعیت کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ امام صاحب نے اس کتاب میں اپنے دور کے ہر قسم کے شعبہ زندگی سے متعلقہ مسائل کو متنوع ابواب قائم کر کے ائمہ سلف کی تائید کے ساتھ صحیح ترین احادیث سے پیش فرمایا ہے۔ امام بخاری نے مقاصد شریعت کی روشنی میں کتاب وسنت کے اطلاق کے متنوع اسالیب کو اجتہاد قرار دیا ہے اور ان مناہج کی نسبت صحابہ﷢ اور سلف صالحین کی طرف کی ہے۔ پس اگر ہم خلفائے راشدین کی اجتہادی بصیرت سے مستفید ہونا چاہتے ہیں اور ان بنیادوں پر اہل علم کی اجتہادی تربیت کرنا چاہتے ہیں کہ جن بنیادوں پر صحابہ کی اجتہادی تربیت ہوئی تھی اور اس اجتہادی ذوق وملکہ کو بیدار کرنا چاہتے ہیں جو صحابہ میں موجود تھا تو اس کے لیے صحیح بخاری کا امام بخاری کے اصول اجتہاد کی روشنی میں ایک علمی مطالعہ از بس ضروری ہے۔ مقالہ ہٰذا کلیۃً ہرگزکوئی بدیعی شے نہیں ہے بلکہ امام بخاریکے 'اُصولِ اجتہاد' کے پہلو سے اس میں جو کچھ مواد جمع کیاگیاہے وہ اس جامع صحیح کی سابقہ سینکڑوں شروحات کی خوشہ چینی کےعلاوہ جابجا ان خصوصی تبصروں پر بھی مشتمل ہے جو مقالہ نگار کی اپنی تدریسی وتحقیقی زندگی کےدوران اس کےسامنے آتےر ہے۔ انگلینڈ سے ایک صاحب کی فرمائش پر اسے کتاب وسنت ویب سائٹ پرآن لائن کیا گیا ہے۔ موصوف مقالہ نگار محترم ڈاکٹر حافظ عبد الرحمن مدنی ﷾ مجتہد العصر حافظ عبد اللہ محدث روپڑی او ر شيخ التفسير حافظ محمد حسین روپڑی (والد مقالہ نگار)کے تربیت یافتہ صاحب بصیرت جید عالم دین ہیں( موصوف كو محدث روپڑی کے علاوہ شیخ ابن باز ،علامہ ناصر الدین البانی، شیخ حماد الانصاری ، شیخ عطیہ سالم ،مولانا عبد الغفار حسن ﷭ وغیرہ جیسی عظیم شخصیات سے شرفِ تلمذ حاصل ہے ۔)او راپنے خاندان کے علم وعمل کی روایات کو بر قرار رکھے ہوئے ہیں اور اسی لیے ان کا احترام ا ن کے اکابر کی طرح لوگوں کے دلوں میں موجود ہے ۔ موصوف حافظ عبد اللہ محدث روپڑی کی وفات کے بعد حصول تعلیم کےلیے مدینہ یونیورسٹی جانے سےقبل جامعہ اہل حدیث (مسجد قدس)چوک دالگراں کے ناظم اورہفت روزہ تنظیم ا ہل حدیث کے مدیر رہے ۔سعودی عرب سے واپس آکر 1970ء میں ایک علمی وتحقیقی مجلہ ماہنامہ محدث کا اجراء کیا جوکہ اہل علم کے ہاں مقبول ترین رسالہ ہے ۔اور مدرسہ رحمانیہ وجامعہ لاہور الاسلامیہ کے نام سے دینی درسگاہ قائم کی ۔حافظ صاحب کی کوششوں سے جامعہ لاہور الاسلامیہ ،لاہور اب ماشاء اللہ یونیورسٹی کا درجہ اختیار کر چکا ہے۔اب تک سیکڑوں طلباء اس درسگاہ سے فیض یاب ہو چکے ہیں جن میں مولانا خالدسیف شہید ،مولانا عطاء الرحمن ثاقب شہید ، مولانا قاری عبد العلیم بلال ،مولانا محمد شفیق مدنی، ڈاکٹر حافظ محمداسحاق زاہد(مؤلف زاد الخطیب)، مولانا عبد القوی لقمان ، ڈاکٹر حافظ محمد انو ر(اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد )، ڈاکٹر نصیر اختر(جامعہ کراچی) سید توصیف الرحمن راشد ی(معروف خطیب واعظ) وغیر ہم قابل ذکر ہیں ۔اسی طرح حافظ صاحب نے 1982میں عصر ی یونیورسٹیوں کے فاضلین اوروکلاء او رجج حضرات کی تربیت کے لیے المعہد العالی للشریعۃ والقضاء کےنام سے ایک ادارہ قائم کیا جس سے ہائی کورٹ وسپریم کورٹ کے بیسیوں وکلاء اور ججز کے علاوہ علماء حضرا ت نے بھی تربیت حاصل کی ان میں پروفیسر ظفر اقبال ، حافظ محمد سعید(امیر جماعۃ الدعوۃ،پاکستان ) ، جسٹس خلیل الرحمن خاں(سابق چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ، جسٹس رفیق تارڈ(سابق صدر پاکستان )،جسٹس منیر مغل وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔تقریبا 25 سال قبل حافظ صاحب نےخواتین کی تعلیم وتربیت کے لیے اسلامک انسٹیٹیوٹ کا آغاز کیا اب ماشاء اللہ لاہور بھر میں اسلامک انسٹیٹیوٹ کی کئی شاخیں موجود ہیں جس سےہزاروں خواتین مستفید ہوچکی ہیں انسٹی ٹیوٹ کے تمام امور کی نگر انی حافظ صاحب کی اہلیہ محترمہ کے ذمے ہیں ۔1992 میں حافظ صاحب نے جامعہ لاہور الاسلامیہ کے تحت شیخ القراء محترم قاری محمد ابراہیم میر محمدی ﷾(فاضل مدینہ یونیورسٹی )کی معیت میں کلیۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ کا آغاز کیاماشاء آج ملک بھر کے اہم مدارس ومساجد میں اس کلیہ کے فاضل تجویدوقراءات کی تعلیم دینے میں مصروف ہیں اور اسی طرح ملک کے مایہ ناز نواجوان قراء قاری ابراہیم صاحب کے شاگرد اور اسی کلیۃ القرآن کے فاضل ہیں مثلا قاری صہیب احمد میر محمدی، قاری حمزہ مدنی ،قاری عبد السلام عزیزی ،قاری محمد عارف بشیر وغیرہ ۔محدث فور م ، کتاب وسنت اور دیگر ویب سائٹس بھی حافظ کی زیر پرستی چل رہی ہیں جس کی نگرانی موصوف کے بیٹے ڈاکٹر حافظ انس نضر (فاضل مدینہ یونیورسٹی ) کرتے ہیں ۔6 سال قبل اس ویب سائٹ کا آغاز ہوا ۔ دنیا بھر میں صحیح اسلامی منہج پر کام کرنے والی اردو ویب سائٹس میں مقبول ترین ویب سائٹ ہے ہر روز بلا ناغہ اس میں ایک کتا ب اپ لوڈ کی جاتی ہے اب تک تقریبا 2000کتب آن لائن ہوچکی ہیں دنیا بھر سے تقریبا 10000 یومیہ لوگ اس سے مستفید ہوتے ہیں۔ (ولله الحمد) محترم حافظ صاحب کے چاروں بیٹے علم قدیم وعلم جدید کا حسین امتزاج ہیں ۔چاروں نے باقاعدہ درس ِنظامی کی مکمل تعلیم حاصل کی اور اسلامی علوم اور دینی اداروں کی خدمت کے ذریعے ماشاء اللہ خاندان کی علمی ودینی روایات کے امین بن گئے ہیں اور سب نے اہم موضوعات پر پی ایچ ڈی کر کے عصری جامعات سے ڈاکٹریٹ کی اسناد بھی حاصل کر رکھی ہیں ۔اور دین اسلام کی ترویج واشاعت میں مصروف عمل ہیں ۔ دین اسلام کی اشاعت وترویج کے سلسلے میں اللہ تعالی حافظ صاحب اور ان کے خاندان کی مساعی جمیلہ کو شرف قبولیت سے نوازے اور انہیں تندرستی وصحت عطا فرمائے (آمین)(م۔ا)

 

 

عناوین

 

صفحہ نمبر

جلد دوم

 

 

باب پنجم شریعت اور کتاب وسنّت

 

420

فصل اوّل : وحی و الہام

 

420

مبحث اوّل: وحی اور اس کی صورتیں

 

420

وحی کے حوالے سے امام بخاری﷫ کی رائے

 

443

مبحث دوم: حکم اور اس کی اقسام

 

447

حکم کی اقسام

 

452

مباحثِ حکم میں امام بخاری کی رائے

 

462

مبحث سوم: حاکم

 

747

امام بخاری کی رائے

 

476

فصل دوم : کتاب اللہ (قرآنِ کریم)

 

486

مبحث اوّل : شریعت و نظام میں قرآن کا مقام

 

486

امام بخاری ﷫کی رائے

 

494

مبحث دوم: قرآنِ کریم اور اس کی قراءات

 

494

قراء اتِ قرآنیہ کے سلسلہ میں امام بخاری کی رائے

 

501

مبحث سوم: قرآن کریم میں احکام الٰہی کا اسلوب

 

503

احکامِ بیان کا اُسلوب اور امام بخاری

 

509

مبحث چہارم: قرآن کریم کی دلالت

 

509

فصل سوم: سنّتِ رسول ﷺ (حدیث نبویؐ)

 

516

مبحث اول : سنت کی تشریعی حیثیت

 

516

سنت کی تشریعی حیثیت اور امام بخاری

 

521

مبحث دوم :سنت (قولی،فعلی،تقریری)

 

524

سنت کی اقسام اور امام بخاری

 

535

مبحث سوم:حدیث(مرفوع،موقوف،مقطوع)

 

541

حجیت اقوالِ صحابہ اور امام بخاری

 

552

مبحث چہارم:کیا حدیث اور سنت میں فرق ہے؟

 

556

سنت اور حدیث میں فرق اور امام بخاری

 

557

مبحث پنجم:قرآ ن وسنت کا باہمی تعلق

 

557

تشریح قرآن میں سنت کا مقام اور امام بخاری

 

561

مبحث ششم: خبر واحد کی حجیت

 

566

اخبار احاد اور امام بخاری

 

569

مبحث ہفتم: حدیث مرسل

 

589

مرسل روایت اور امام بخاری

 

600

باب ششم دلالتِ منظوم (دلالات)

 

616

فصل اول : لفظ کی دلالت ؛’صیغہ‘کے اعتبار سے

 

616

تمہید

 

619

مبحث اوّل : عام و خاص

 

619

عام وخاص اورامام بخاری

 

632

مبحث دوم : مطلق ومقید

 

640

مطلق ومقید اور امام بخاری

 

645

مبحث سوم : امر ونہی

 

647

امام بخاری ﷫کا موقف

 

656

فصل دوم: لفظ کی دلالت؛ استعمال کے اعتبار سے

 

667

مبحث اوّل: حقیقت ومجاز

 

667

حقیقت و مجاز اور امام بخاری

 

670

مبحث دوم : تاویل

 

674

تاویل اور امام بخاری﷫

 

676

فصل سوم: لفظ کی دلالت جلی اور خفی ہونے کے اعتبار سے

 

681

مبحث اوّل :نص وظاہر

 

681

امام بخاری﷫ اور نص کا مقام و مرتبہ

 

683

نص و ظاہر اور امام بخاری﷫

 

686

مبحث دوم : مجمل ومبین

 

689

مجمل ومبین اور امام بخاری

 

691

فصل چہارم: تعارض ادلّہ اور ان کا حل

 

697

’تعارض ادلّہ ‘ اور امام بخاری

 

704

باب ہفتم دلالتِ غیرمنظوم(دلالات)

 

715

فصل اوّل : لفظ کی دلالت کی کیفیتیں

 

715

مبحث اوّل: دلالتِ اقتضاء

 

720

مبحث دوم: دلالت اشارہ

 

724

مبحث سوم: دلالت تنبیہ وایماء

 

727

مبحث چہارم: مفہوم موافق

 

730

مبحث پنجم: مفہوم مخالف

 

730

مبحث ششم:دلالت معقول

 

737

دلالت کی اقسامِ ستہ اور امام بخاری

 

737

فصل دوم : قیاس

 

748

امام بخاری﷫ اور قیاس ورائے ؛ عمومی جائزہ

 

755

امام بخاری﷫ اور قیاس ورائے : خصوصی تجزیہ وتبصرہ

 

765

قیاس شبہ اور قیاسِ طرد ؛امام بخاری کا موقف

 

776

امام بخاری کا مسلک

 

779

امام بخاری کے تصور قیاس کے امتیازی نکات

 

782

فصل سوم: استحسان

 

794

استحسان اور امام بخاریؒ

 

805

فصل چہارم: استصلاح

 

810

امام بخاری اور’ مصالح مرسلہ‘

 

819

فصل پنجم: سدالذریعہ

 

825

’سد الذریعہ ‘ کے بارے میں امام بخاری کا موقف

 

830

فصل ششم: حیلہ

 

839

فصل ہفتم : استقراء

 

849

’استقراء‘ اور امام بخاری

 

850

فصل ہشتم : استصحاب

 

850

استصحاب کے بارے میں امام بخاریؒ کا موقف

 

855

فصل نہم : سابقہ شریعتیں

 

866

فصل دہم : اجماع و عرف

 

883

مبحث اوّل : عرف وعادت (رواج)

 

883

عُرف كے بارے میں امام بخاری ﷫ کا موقف

 

883

مبحث دوم : اجماع

 

889

امام بخاری کی اصول اجماع کے بارے میں آرا

 

911

خاتمہ بحث:اُصولِ اجتہاد اور دورِ حاضر

 

920

فہارس قرآنی آیات

 

927

فہارس احادیث نبویؐہ

 

954

فہارس اَشعار

 

966

فہارس اعلام

 

968

فہارس اماکن

 

995

مصطلحات

 

998

مصادر ومراجع

 

1011

Abstract

 

1040

اس کتاب کی دیگر جلدیں

اس مصنف کی دیگر تصانیف

اس ناشر کی دیگر مطبوعات

فیس بک تبصرے

ایڈ وانس سرچ

اعدادو شمار

  • آج کے قارئین 55637
  • اس ہفتے کے قارئین 89465
  • اس ماہ کے قارئین 1706192
  • کل قارئین111027630
  • کل کتب8851

موضوعاتی فہرست